Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فرقہ امامیہ کو سلام کرنے کا حکم


سوال: فرقہ امامیہ کہ فی زمانہ ان کا مذھب مروج ہے۔ ان کے ایمان و اسلام کے بارے میں کیا کہا جائے؟ اور بوقت ملاقات اُن کو سلام کرنا چاہیئے یا نہیں؟

جواب: بلاشبہ فرقہ امامیہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے منکر ہے اور کتب فقہ میں مذکور ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خلافت سے جس نے انکار کیا وہ اجماع قطعی کا منکر ہوا اور کافر ہو گیا۔

چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے کہ: رافضی جو بُرا کہتا ہو حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کو اور ان حضرات پر لعنت بھیجتا ہو (نعوذ باللہ من ذلک) کافر ہے اور اگر برا نہ کہتا ہو مگر اس امر کا قائل ہو کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو فضیلت ہے تو وہ کافر نہیں البتہ بدعتی ہے، اور اگر عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں قذف کا مرتکب ہو تو وہ بھی کافر ہے۔

اور فتاویٰ عالمگیری میں یہ بھی لکھا ہے کہ جس کو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے امام ہونے سے انکار ہو تو وہ کافر ہے۔ بعض علماء کرام کے نزدیک وہ بدعتی ہے کافر نہیں۔ صحیح یہ ہے کہ وہ کافر ہے۔ اور ایسا ہی جس کو سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے امام ہونے سے انکار ہو تو زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ وہ کافر ہے۔

اس فتاویٰ میں یہ بیان بھی ہے کہ روافض مذہب اسلام سے خارج ہیں۔ ان لوگوں کے بارے میں وہی احکام ہیں جو مرتد کے بارے میں ہیں۔

جب روایات فقہ سے روافض کا کفر ثابت ہے تو ان کی ملاقات کے بارے میں وہی حکم ہے جو حکم کفار کی ملاقات کے بارے میں ہے۔ یعنی ان کو پہلے سلام نہ کرنا چاہیئے۔ البتہ جب سلام نہ کرنے سے ان سے ضرر عظیم پہنچنے کا خوف ہو تو اُس وقت ان کو ابتداء سلام کرنے میں مضائقہ نہیں ہے۔ اور ردِّ جواب میں بھی قدر ضرورت پر اکتفاء کرنا چاہیئے۔ اگر سلام کے سوا کوئی دوسرا فعل تعظیم کا وہ خود کریں تو اس کی مکافات بقدر مشروع کرنا چاہیئے۔ ایسا ہی عیادت، تعزیت تہنیت اور اجابت دعوت میں صرف مکافات کا لحاظ رکھنا چاہیئے۔ چنانچہ یہی حکم دوسرے کفار کے بارے میں بھی ہے۔ اور یہی حکم خوارج اور نواصب کے بارے میں ہے۔ (فتاویٰ عزیزی: صفحہ 410)