Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا علیؓ و سیدنا معاویہؓ کے درمیان جنگ صفین کی حقیقت اور پس منظر

  مولانا محمد الیاس گھمن

سیدنا علی رضی اللہ عنہ و سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان جنگ کی حقیقت اور پس منظر

      جنگِ صفین

بلادِ شام کی مشرق جانب میں ایک مقام ہے جس کا نام ”صفین“ ہے۔ وہاں فریقین کی جماعتوں کا اجتماع ہوا۔
یہ محرم 37ھ کا واقعہ ہے۔

فریقین کا موقف:

 حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اس مسئلہ میں موقف یہ تھا کہ فریق مقابل کے مطالبہ قصاصِ دمِ عثمان کی صورت یہ ہونی چاہیے کہ پہلے بیعت کریں، اس کے بعد اپنا قصاص عثمانی کا مطالبہ مجلس خلیفہ میں پیش کریں۔ بعد ازاں حکم شریعت کے مطابق اس مطالبہ کا شرعی فیصلہ کیا جائے گا۔
 البدایہ لابن کثیر جلد 8 ص 127 تحت ترجمہ معاویہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت میں متعدد صحابہ کرام تھے جو ملک شام میں رہتے تھے، ان کی رائے یہ تھی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ظلماً شہید کے گئے ہیں اور ان کے قاتلین حضرت علی رضی اللہ عنہ میں موجود ہیں، لہذا ان سے قصاص لیا جائے اور ہمارا مطالبہ صرف قصاص دم عثمان رضی اللہ عنہ کے متعلق ہے خلافت کے بارے میں ہمارا نزاع نہیں ہے۔واما الخلافۃ فلسنا مطلبھا.

الفتنۃ وقعۃ الصفین لنصرین تراجم المنقری الشیعی ص 70)
حجۃ معاویۃ ومن معہ ماوقع معہ من قتل عثمان رضی اللہ عنہ مظلوماً ووجود قتلتہ باعیا نھم فی العسکر العراقی
(فتح الباری ج3ص246 کتاب الاعتصام بالکتاب و السنۃ)
ولیس المراد بما شجر بین علی رضی اللہ عنہ ومعاویۃ رضی اللہ عنہ المنازعۃ فی الامارۃ کما تو ھمہ بعضہم وانما المنان عنہ کانت بسبب تسلیم قتلۃ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ الیٰ عشیرتہ لیقتصوا منھم.
(کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص27 المسامرۃ للکمال بن ابی شریف ص 158،159)

مندرجہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں فریقین کے موقف سامنے آگئے ہیں۔
حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے مطالبہ پر حضرت رضی اللہ عنہ طرف سے جو رائے تھی 
وہ درج ذیل ہے :

لان علیا کان رای ان تاخیر تسلیمھم اصوب اذ العبادۃ بالقبض علیہم مع کثرۃ عشائرھم واختلاطہم بالعسکر یودی الیٰ اضطراب امر الامارہ.
(کتاب الیواقیت والجواہر ج2ص77الصواعق المحرقۃ مع تطہیر الجنان ص216)

لہذا تعجیل کی بجائے تاخیر کرنی چاہیے۔
فریقین کے موقف یہی تھے۔ اور دونوں اپنے اپنے نظریات پر شدت کے ساتھ قائم رہے تا آنکہ یہ واقعہ پیش آیا۔

شیعہ کا ایک اشکال

حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر عام اشکال یہ ہوتا ہے کہ مطالبہ کا حق وارث کو ہوتاہے ، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے مطالبہ کیوں کیا؟

جواب اس کا خود شیعہ کتب میں موجود ہے:

ان معاویۃ یطلب بدم عثمان ومعہ ابان بن عثمان وولد عثمان رضی اللہ عنہ.
( کتاب سلیم بن قیس الکوفی الہلالی العامری الشیعی ص 153 مطبوعہ نجف)

یعنی دمِ عثمان کے قصاص کے مطالبہ میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ابان بن عثمان اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دیگر فرزند شامل تھے۔

اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں

 فریقین کے درمیان اس دور کے بعض اکابر حضرات کے ذریعے اس اختلاف کو ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور یہ کوشش کوفہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قیام گاہ سے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ کی وساطت سے شروع ہوئی اور دیگر حضرات کے ذریعے تخلیہ اور صفین کے مقامات پر قیام کے دوران بھی یہ کوشش جاری رہی۔
(البدایہ ج7ص253،258 سیر اعلام النبلاء للذھبی ج3ص93)
لیکن فریقین اپنے موقف سے دستبردار نہ ہوئے آخر قتال کی صورت پیش آئی۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

فتر اسلوا فلم یتم لھم امر فوقع القتال الیٰ ان قتل من الفریقین
(فتح الباری ج13ص73)


جانبین میں مر اسلت ہوئی لیکن کسی بات پر معاملہ طے نہ ہو سکا تو قتال واقع ہوا اور فریقین سے لوگ مقتول ہوئے۔
ان کی صحیح تعداد اللہ کو معلوم ہے۔
 جیسے علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

فقتل فی ھذاالموطن خلق کثیر من الفریقین لا یعلم الا اللہ.
(البدایہ ج7ص271)

البتہ جن اکابر کی اس قتال میں شہادت ہوئی ہے ان میں حضرت عمار بن یاسر ، حضرت خزیمہ بن ثابت ، رضی اللہ عنہم وغیرہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جماعت میں تھےاور حضرت عبیداللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہا، حضرت ذوالکفل اور حوشب رضی اللہ عنہم حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جماعت میں سے شہید ہوئے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون

بعض مورخین کے قول کے مطابق بدھ ، جمعرات ، جمعہ اور ہفتہ کی رات ماہ صفر 37ھ کے اوقات اس جنگ میں مشکل ترین تھے اور ان ایام میں گھمسان کی لڑائی ہوئی۔
 البدایہ ج7ص261 

آخر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے صلح کی دعوت ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو قبول کیا اور طے ہوا کہ ہر فریق کی طرف سے ایک ایک حکم اس مسئلے کے فیصلے کے لیے منتخب کیا جائے۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فیصل تسلیم کیے گئے اور طے ہوا کہ ہر دو فریق کے یہ دونوں فیصل دومۃ الجندل کے مقام پر جمع ہو کر فیصلہ کریں گے۔
  تاریخ خلیفہ ابن خیاطِ ج 1ص 173،174
العبر للذھبی ج1ص43)

شیعہ اعتراض:

مخالفین صحابہؓ کی طرف سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت کی طرف سے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کی جماعت پر سب وشتم اور لعن طعن کیا جاتا تھا۔

الجواب اہلسنّت 

اس اعتراض کے کئی جوابات ہیں، ان میں سے دوتین درج کیے جاتے ہیں:

1: جن روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فریق مقابل کو سب وشتم کرنے کا ذکر ہے وہ سب روایات قواعد فن کی رو سے درست نہیں۔ ان کے راوی اور ناقلین مجروح اور مردود الروایۃ ہیں۔ مثال کے طور پر اس قسم کی روایات کے راوی ابو مخنف لوط ،یحیی، ابو جناب یحیی بن ابی حی کلبی اور ہشام بن سائب کلبی ہیں اور یہ لوگ علماء رجال کے نزدیک کذاب، دجال، جھوٹے، مفتری، شیعہ امامیہ اور رافضی ہیں اور یہ لوگ روایات میں اپنی طرف سے ملاوٹ کرنے والے اور دروغ گوئی کرنے والے ہیں۔ اس لیے ان کی روایات ناقابل اعتبار اور متروک ہیں۔

2: بعض اوقات کلام میں الفاظ توسختی اور تلخ قسم کے پائے جاتے ہیں لیکن ان سے مراد گالی گلوچ نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات باہمی درشت کلامی، سخت گوئی اور تلخ نوائی کو راوی سب و شتم سے تعبیر کردیتے ہیں ایسے مواقع پر صرف فریق مخالف کے عیوب کی نشان دہی کرنا اور دوسرے کی رائے کو غلط اور اپنی رائے کو درست ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے، لعن طعن اور گالی مقصود نہیں ہوتی۔

3: اگر بالفرض کسی جگہ روایات میں سب و شتم اور لعن طعن پایا بھی جائے تو اس کے مقابل ان روایات پر بھی نظر ڈالنے کی اشد ضرورت ہے جن روایات میں سب و شتم اور لعن طعن سے منع کیا گیا ہے۔ پھر ان متقابل روایات میں قاعدہ ”والمحرم مقدم علی المبیح“ کے مطابق تطبیق دی جائے گی اور سب و شتم اور لعن و طعن سے منع کرنے والی روایات کو اباحت والی روایات پر ترجیح دی جائے گی