Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کاتبین پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

کاتبینِ پیغمبرِ اعظمﷺ

از: مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

اسلام آخری مذہب ہے، قیامت تک دوسرا کوئی مذہب نازل ہونے والا نہیں ہے، اس دین کی حفاظت و صیانت کا سہرا صحابہ کرامؓ کے سر ہے، صحابہؓ کی برگزیدہ جماعت نے اسلام کی بقاء اور اس کے تحفظ کے لیے جان و مال کو قربان کیا، انھی کے خونِ جگر سے سینچے ہوئے درخت کا پھل آج ہم سب کھا رہے ہیں، انہوں نے دین کو اس کی صحیح صورت میں محفوظ رکھنے کا جتن کیا، ان کی زندگی کا ہر گوشہ اسلام کی صحت و سلامتی کی کسوٹی ہے، جو لوگ صحابہ کرامؓ سے جتنا قریب ہیں، وہ دین سے اتنا ہی قریب ہیں، اور جو لوگ جتنا اس جماعت سے دور ہوں گے ان کی باتیں اُن کا نظریہ، اُن کا عقیدہ اور اُن کا عمل اتنا ہی دین سے منحرف ہوگا۔

قرآن و سنت کی حفاظت میں صحابہ کرامؓ نے جس طرح اپنے حیرت انگیز خداداد حافظے کو کام میں لایا، اسی طرح دوسرے وسائل اختیار کرنے سے بھی انہوں نے دریغ نہیں کیا، انہوں نے آیات و احادیث کی حفاظت لکھ کر بھی کی ہے، بہت سے صحابہ کرامؓ نے قرآن مجید لکھ کر اپنے پاس محفوظ رکھا تھا، اسی میں تلاوت کیا کرتے تھے، بہت سے صحابہ کرامؓ نے چند سورتیں یا چند آیتیں لکھ رکھی تھیں، احادیث کا لکھا ہوا ذخیرہ بھی بہت سے صحابہ کرامؓ کے پاس محفوظ تھا، کثرت سے آیات و احادیث یاد کرنے اور لکھنے کی روایات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے اندر وحی اور دین کی حفاظت کا جذبہ کتنا زیادہ تھا، اُس دور میں جب کہ لکھنے پڑھنے کے وسائل آج کی طرح بہت وافر نہ تھے، پھر بھی انہوں نے بڑی دلچسپی سے کتابت سیکھی اور سکھائی، بعض صحابہ کرامؓ کو دربارِ نبویﷺ سے کتابت سکھانے کا حکم تھا، وہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے تھے، بعض اہلِ فن کو خدمتِ نبویﷺ میں رہ کر ”وحی الٰہی“ کی کتابت کا شرف بھی حاصل ہوا، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے، اُن میں بھی درجہ بندی تھی، بعض کی غیر موجودگی میں بعض کی نیابت متعین تھی، بعض کو احادیث لکھنے کی خصوصی اجازت بھی سرکار دو عالمﷺ نے دی تھی، احکامِ زکوٰة و صدقات، فرامین و معاہدات لکھنے کے لیے بھی صحابہ کرامؓ کی اچھی خاصی تعداد دربارِ نبویﷺ میں موجود رہتی تھی، حیدرآباد کے مشہور و معروف محقق ڈاکٹر محمد حمیدؒ نے دربارِ نبویﷺ میں لکھے گئے دستاویزات جمع فرمائے ہیں، ہر دستاویز پر لکھنے والے صحابہ کرامؓ کے نام بحیثیت کاتب درج ہیں، اس سے بھی اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کے درمیان لکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد تھی۔

خلاصہ یہ کہ صحابہ کرامؓ نے جس طرح اپنے حافظہ کے ذریعہ دین کی حفاظت کی ہے، اسی طرح لکھ کر بھی پورے دین کو مکمل شکل میں انہوں نے محفوظ فرمایا ہے۔

راقم الحروف کو تاہمت اب تک کی جدوجہد اور کاوش سے تاریخ و سیر کی کتابوں سے پچھتّر(75) صحابہ کرامؓ کے نام دریافت کرسکا ہے، جنہوں نے دربارِ نبویﷺ میں کتابت کا شرف حاصل کیا ہے، بعض نے وحی کی کتابت فرمائی، بعض نے احادیث لکھیں، بعض نے دستاویزات لکھے، بعض نے احکام زکٰوة اور فرامینِ نبویﷺ کی کتابت کی، بعض نے قرآن مجید کی جمع وتدوین میں نمایاں طور پر حصہ لیا۔

(کتاب التراتیب الإداریہ: جلد، 1 صفحہ، 16) میں ایسے صحابہ کرامؓ کی تعداد بیالیس ہے، ڈاکٹر محمد مصطفیٰ اعظمی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“ میں اڑتالیس(48) صحابہ کرامؓ کا ذکر ہے، اور المقری محمد طاہر رحیمی ملتانی کی کتاب ”کاتبانِ وحی“میں چھپن (56) صحابہ کرامؓ کا ذکر ہے، اسی کتاب سے حضرت قاری ابوالحسن صاحب اعظمی دامت برکاتہم نے ”کاتبینِ وحی“ میں مواد فراہم فرمایا ہے، ان سب میں سے تکرار کو حذف کرنے کے بعد کاتبین صحابہ کرامؓ کی تعداد پچہتر(75) ہو جاتی ہے، ان میں سے انچاس (49) صحابہ کرامؓ ایسے ہیں، جن کے بارے میں راقم الحروف کو کاتب ہونے کی صراحت کتابوں میں مل گئی، اور ایک نام عبداللّٰہ بن خطل یا عبدالعزی بن خطل ہے، اس کے بارے میں ارتداد کی روایت ملتی ہے، کاتب ہونے کی روایت صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، اسی طرح ایک نامعلوم ”نصرانی انصاری“ کے کاتب ہونے کی روایت ملتی ہے؛ تاہم یہ بھی لکھا ہے کہ ایمان سے پھر گیا تھا، جب دفن کیا گیا تو قبر نے اوپر پھینک دیا، اور ایک نام ”السجل“ ذکر کیا جاتا ہے، سورۃ الانبیاء: آیت، 104 میں مذکور ہے، راجح قول کے مطابق یہ کوئی کاتبِ وحی صحابی نہیں ہیں، اسی طرح مزید تئیس (23) صحابہ کرامؓ کے بارے میں صریح روایت تلاشنے سے راقم الحروف قاصر رہا؛ اس لیے اخیر میں ان کے ناموں کی ”الف بائی“ فہرست لکھ دی گئی ہے؛ تاکہ ان کے بارے میں صریح روایتوں کی تحقیق کی جا سکے، متعدد اہلِ علم نے کاتبینِ دربار رسالتﷺ کے ضمن میں ان کے اسمائے گرامی درج فرمائے ہیں، جن صحابہ کرامؓ کے بارے میں تاریخی روایات موجود ہیں اُن کی ترتیب بھی ”الف بائی“ رکھی گئی ہے تاکہ متعین نام تلاش کرنے میں سہولت ہو، ان کی ابتداء صحابیِ رسولﷺ حضرت ابان بن سعیدؓ سے ہے اور یزید بن معاویہؓ پر یہ ترتیب مکمل ہوتی ہے۔