Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

روزہ افطار کا صحیح وقت اور روافض شیعہ کے اعتراض کا جواب (اہلِ سنت و اہلِ تشیع کتب کی روشنی میں)

  جعفر صادق

روزہ افطار کا صحیح وقت اور شیعہ کے اعتراض کا جواب (اہلِ سنت و اہلِ تشیع کتب کی روشنی میں) سیدنا جعفر صادقؒ افطار روزہ کا صحیح وقت اور شیعہ کا اعتراض

شیعہ اعتراض:

قرآنِ مجید میں ہے "روزه رات تک پورا کرو اور رات اندھیرا چھا جانے پر ہوتی ہے آپ (اہلِ سنّت) روزہ جلدی کیوں کھول لیتے ہیں؟ حضرت عمر اور حضرت عثمان نمازِ مغرب کے بعد روزہ کیوں کھولتے تھے؟ (حوالہ فقہ عمر)

جواب اہلِ سنّت:

 بیشک قرآن میں ہے کہ روزہ رات تک پورا کرو لیکن قرآن میں یہ نہیں بیان ہوا کہ رات اندھیرا ہونے کے بعد شروع ہوتی ہے دن کا مطلب یہ نہیں کہ روشنی جب تک ہے ہم اس وقت تک دن ہی کہیں گے رات و دن کے اوقات درحقیقت سورج کے طلوع اور غروب ہونے پر موقوف ہیں اگر سورج غروب ہو جائے تو دن کا اختتام ہو جاتا ہے اور رات کی شروعات ہو جاتی ہے چاہے مکمل اندھیرا ایک گھنٹے بعد ہی کیوں نہ ہو اور افطاری کا صحیح وقت غروبِ آفتاب کے فوراً بعد ہے جس طرح سحری کا وقت اندھیرے میں ہی ختم ہو جاتا ہے جبکہ روشنی اس وقت تک نہیں ہوتی۔

اہلِ سنت و اہلِ تشیع کی معتبر کتب میں احادیث نبویﷺ اور اہلِ بیتؓ سے بھی یہی حقائق معلوم ہوتے ہیں۔

تاخیرِ افطار کا یہ مسئلہ شیعہ نے محض اختلاف برائے اختلاف بنایا ہے ورنہ شریعت کی تعلیم بالکل واضح ہے کہ جب سورج ڈوب جائے اور رات آنے لگے تو روزہ افطار کرو اور نماز پڑھو۔

یقول: سورۃ البقرة: آیت 187

ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ الخ۔

پھر رات آنے تک روزے پورے کرو۔

اس میں روزہ کی مدت بتائی گئی کہ روزہ رات تک پورا کرو۔

غور کریں رات آنے تک یعنی رات کی شروعات میں روزہ افطار کرنا چاہئے۔

(ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ

(پھر روزوں کو رات تک پورا کرو) رات غروبِ شمس ہوتے ہی شروع ہو جاتی ہے جیسے ہی سورج غروب ہو جائے روزہ افطار کرنے کا وقت ہوجاتا ہے۔

رات تک روزہ پورا کرنے سے مراد یہ ہے کہ جہاں رات کی سرحد شروع ہوتی ہے وہیں تمہارے روزے کی سرحد ختم ہو جائے ظاہر ہے کہ رات کی سرحد غروب آفتاب سے شروع یعنی طلوعِ صبح صادق سے رات تک روزہ کو پورا کرو یہ بھی معلوم ہوا کہ کئی روزے متصل رکھنے اس طرح پر کہ رات کو بھی افطار کی نوبت نہ آئے مکروہ ہے لہٰذا غروبِ آفتاب ہی کے ساتھ افطار کرلینا چاہیے۔

سیدنا عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب مشرق کی طرف سے رات آ گئی اور دن مغرب کی طرف چلا گیا اور سورج چھپ گیا تو روزہ دار کے افطار کا وقت ہوگیا۔

(صحیح بخاری صفحہ 262 جلد 1)۔

قرآنِ پاک کی مذکورہ آیت بھی یہی چاہتی ہے یہاں سنی اور شیعہ کا تو اتفاق ہے جیسے وَاَيْدِيَكُمْ اِلَى الْمَرَافِقِ کُہنیاں ہاتھ میں داخل ہیں۔

اسی طرح أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ میں رات صیام میں داخل نہیں ورنہ لازم آئے گا کہ روزہ تمام رات رہے رات ختم ہونے پر کھولا جائے جب رات روزہ سے خارج ہے تو رات کے جزءِ اول ہی میں روزہ کھولنا ہوگا جیسے کوئی کہے کہ میں نے دریا تک سفر کیا تو دریا کا خُشک کنارہ سفر کی انتہاء ہوئی جیسے ہی خشکی آئے سفر ختم ہو گیا چاہے کنارے پر خشکی اور پانی ساتھ ساتھ کیوں نہ ہو جیسے یہاں مکمل خشکی میں پہنچنا لازم نہیں اسی طرح رات میں گُھس کر روزہ جاری رکھنا لازم نہیں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ رات اندھیرا چھا جانے پر ہوتی ہے کیونکہ یہ کسی عُرف میں تو سمجھا جا سکتا ہے مگر شرح میں اس کا اعتبار نہیں ورنہ رات کا چھا جانا اس وقت سمجھا جاتا ہے جب مشرق و مغرب کا فرق نہ ہو سکے تمام ستارے مکمل چمک پڑھیں اور یہ چیز سورج ڈوبنے سے سوا گھنٹہ بعد عشاء ہونے تک پیدا ہوتی ہے اور اس وقت تک شیعہ تاخیرِ افطار نہیں کرتے بلکہ تقریباً آدھا گھنٹہ تک سُرخی اور روشنی ہوتے ہوئے بعد از نمازِ مغرب افطار کرتے ہیں جو عقل اور نقل کے خلاف ہے عقل کا تقاضا ہے کہ جیسے پوہ پھٹنے ہی صبح اور وقتِ صوم کھانا پینا حرام ہو جاتا ہے حالانکہ ابھی خُوب اندھیرا ہے جو گھنٹہ سوا بعد زائل ہوگا اسی طرح سورج ڈوبنے اور رات چڑھتے ہی رات کا آغاز اور روزہ کا افطار اور نمازِ مغرب کا جواز شروع ہوگیا جبکہ مکمل شب اور اندھیرا سوا گھنٹہ بعد ہوگا۔

ایک اہم نکتہ:

اس آیت میں حرف الیٰ پر کچھ موشگافیاں ہیں اسی بنا پر حضراتِ شیعہ اپنا روزہ رات ہونے کے بعد جبکہ تارے اچھی طرح کھل جائیں افطار کرتے ہیں اور وہ الزام میں یہ کہتے ہیں کہ فاغسلوا وجوھکم وایدیکم الی المرافق میں بھی الیٰ غایت کے لیے آیا اور اتموا الصیام الی الیل میں بھی الیٰ غایت کے لیے ہے لہٰذا اگر وضو میں غسل ید کے اندر کہنی داخل ہے تو روزہ میں رات کیوں نہ داخل ہو اگر وضو کے وقت کہنیاں وضو میں نہ دھوئی جائیں تو رات کا حصہ روزہ میں بھی نہ داخل ہو۔

الجواب:

  1. ہر غایت اپنی مغیا کی جنس سے اگر ہو تو داخل مغیا رہے گا اور اگر غایت اپنے مغیا سے غیر ہو تو خارج ہوگا بنا بریں مرفق یعنی کہنی اپنے مغیا کی جنس سے ہے یعنی ہاتھ کی جنس میں کہنی ہے لہٰذا وضو میں غسلِ ید کے ساتھ کہنی داخل رہنی چاہیے اور دن میں جو مغیا ہے اس کی غایت رات غیر جنس ہے بنا بریں وہ خارج رہے گی اسی وجہ سے الی المرافق کے حکم میں کہنی غسل میں داخل ہے اور الی الیل میں رات اندھیرے تک خارج ہے۔
  2. اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ثم اتموا الصیام الی الیل یہ امر ہے اور وجوب کا مقتضا ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور الیٰ غایت کے لیے ہے جب اس کا مابعد اس کے ماقبل کی جنس سے ہو تو وہ ماقبل کے حکم میں داخل ہوتا ہے جیسے تیرا قول ہے اشتریت الفدان الی حاشیة۔ (میں نے چار سو مربع زمین حاشیہ سمیت خریدی) یا اشتریت منک من ھذہ الشجرۃ الی ھذہ الشجرۃ مبیع شجر ہے اور آخری درخت بھی اس مبیع میں داخل ہے بخلاف تیرے اس قول کے: اشتریت الفدان الی الدار اس میں دار مبیع میں داخل نہ ہوگا کیونکہ وہ زمین کی جنس سے نہیں ہے اللہ تعالیٰ نے رات کے ظہور تک روزہ کو مکمل کرنے کی شرط رکھی ہے جیسا کہ کھانا جائز قرار دیا حتیٰ کہ دن ظاہر ہوجائے۔

 حدیث میں تفصیل سے بتادیا گیا کہ: اذا اقبل اللیل من ھھنا وادبر النھار من ھھنا فقد افطر الصائم۔

جب مشرق کی طرف سے رات کی سیاہی منہ دکھائے اور مغرب میں دن چھپ جائے تو روزہ دار اپنا روزہ افطار کرلے۔ 

غروب ہوتے ہی فوراً روزہ افطار کر لینا مستحب ہے جیسا کہ سحری کھانا آخر رات میں مستحب ہے۔

(کمافی صحیح مسلم صفحہ 351 جلد 1)۔

سحر اور افطار کی صحیح علامت یہ ہے کہ جب رات کے آخری حصے میں افق کے مشرقی کنارے پر سفیدہ صبح کی باریک سی دھاری نمودار ہو کر اوپر بڑھنے لگے تو سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے اور جب دن کے آخری حصے میں مشرق کی جانب سے رات کی سیاہی بلند ہوتی نظر آئے تو افطار کا وقت آ جاتا ہے آج کل لوگ سحری اور افطار دونوں کے معاملے شدت احتیاط کی بنا پر کچھ بے جا تشدد برتنے لگے ہیں مگر شریعت نے ان دونوں اوقات کی کوئی ایسی حد بندی نہیں کی ہے جس سے چند سیکنڈ یا چند منٹ اِدھر اُدھر ہو جانے سے آدمی کا روزہ خراب ہوجاتا ہو۔

سحر میں سیاہی شب سے سپیدہ سحر کا نمودار ہونا اچھی خاصی گنجائش اپنے اندر رکھتا ہے اور ایک شخص کے لیے یہ بالکل صحیح ہے کہ اگر عین طلوعِ فجر کے وقت اس کی آنکھ کھلی ہو تو وہ جلدی سے اٹھ کر کچھ کھا پی لے۔

حدیث میں آتا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: اگر تم میں سے کوئی شخص سحری کھا رہا ہو اور اذان کی آواز آ جائے تو فوراً چھوڑ نہ دے بلکہ اپنی حاجت بھر کھا پی لے اسی طرح افطار کے وقت میں بھی غروب آفتاب کے بعد خواہ مخواہ دن کی روشنی ختم ہونے کا انتظار کرتے رہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔

نبیﷺ سورج ڈوبتے ہی سیدنا بلالؓ کو آواز دیتے تھے کہ لاؤ ہمارا شربت سیدنا بلالؓ عرض کرتے کہ یا رسول اللہﷺ: ابھی تو دن چمک رہا ہے آپﷺ فرماتے کہ جب رات کی سیاہی مشرق سے اٹھنے لگے تو روزے کا وقت ختم ہوجاتا ہے یعنی آغازِ سحر سے لے کر آغازِ رات یعنی غروبِ آفتاب تک روزہ کا وقت ہے غروبِ آفتاب کے فوراً بعد روزہ افطار کر لینا چاہیے یہود غروبِ آفتاب کے بعد احتیاطاً اندھیرا چھا جانے تک روزہ نہیں کھولتے تھے اس لیے آپ نے فرمایا کہ میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک روزہ جلد افطار کرے گی (روزہ کھولنے میں جلدی اور سحری دیر سے کھانا چاہیے)۔ 

(بخاری کتاب الصوم باب تعجیل الافطار)۔

 سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کر دیں۔

رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: أذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ مِنْ هَاهُنَا وَأَدْبَرَ النَّهَارُ مِنْ هَاهُنَا وَغَرَبَتْ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِم۔ (صحيح البخاری: 1954)

جب ادھر سے رات آ جائے اور دن ادھر کو چلا جائے اور سورج غروب ہو جائے تو روزہ دار کی افطاری کا وقت ہوگیا۔

افطاری میں جلدی کرنا:

سورج  غروب ہوتے ہی فوراً روزہ افطار کر لینا چاہیے نبی مکرمﷺ نے فرمایا: لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ۔ (صحيح البخاری: 1957)۔

لوگ اس وقت تک بھلائی پر رہیں گے جب تک وہ جلدی افطاری کرتے رہیں گے افطاری میں بلاوجہ تاخیر کرنا یہود و نصاریٰ کا کام ہے ۔

یہی حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے: لَا يَزَالُ الدِّينُ ظَاهِرًا مَا عَجَّلَ النَّاسُ الْفِطْرَ لِأَنَّ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى يُؤَخِّرُونَ۔

دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطاری میں جلدی کرتے رہیں گے کیونکہ یہود و نصارىٰ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔ (سنن أبی داؤد: 2353)۔

جس طرح سورج غروب ہو جانے کے بعد بلاوجہ تاخیر کرنا ممنوع ہے اسی طرح غروبِ آفتاب سے قبل جان بوجھ کر افطاری کرنا بھی ناجائز ہے۔

رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ إِذْ أَتَانِی رَجُلَانِ فَأَخَذَا بِضَبْعَی فَأَتَيَا بِی جَبَلًا وَعْرًا فَقَالَا: اصْعَدْ فَقُلْتُ: إِنِّی لَا أُطِيقُهُ فَقَالَا: إِنَّا سَنُسَهِّلُهُ لَكَ فَصَعِدْتُ حَتَّىٰ إِذَا كُنْتُ فِی سَوَاءِ الْجَبَلِ إِذَا بِأَصْوَاتٍ شَدِيدَةٍ قُلْتُ: مَا هَذِهِ الْأَصْوَاتُ؟ قَالُوا: هَذَا عُوَاءُ أَهْلِ النَّارِ ثُمَّ انْطُلِقَ بِی فَإِذَا أَنَا بِقَوْمٍ مُعَلَّقِينَ بِعَرَاقِيبِهِمْ مُشَقَّقَةٍ أَشْدَاقُهُمْ تَسِيلُ أَشْدَاقُهُمْ دَمًا قَالَ: قُلْتُ: مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُفْطِرُونَ قَبْلَ تَحِلَّةِ صَوْمِهِم۔ (صحيح ابنِ خزيمة: 1986)۔

اس دوران کہ میں سو رہا تھا کہ خواب میں اچانک میرے پاس دو آدمی آئے انہوں نے میرے بازوؤں سے پکڑا اور مجھے ایک دشوار گزار پہاڑ پر لے گئے اور کہنے لگے کہ چڑھ میں نے کہا میں اسکی طاقت نہیں رکھتا تو انہوں نے کہا ہم آپ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں میں نے چڑھنا شروع کیا حتىٰ کہ میں جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا تو وہاں سخت قسم کی آوازیں آنے لگیں میں نے پوچھا کہ کیسی آوازیں ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے پھر وہ مجھے لے کر گئے جہاں میں نے کچھ لوگوں کو پاؤں کے پٹھوں کے بل الٹا لٹکے ہوئے دیکھا جن کی باچھیں چیر دی گئی تھیں اوران سے خون بہہ رہا تھا میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو وقت سے پہلے روزہ افطار کر دیا کرتے تھے جان بوجھ کر وقت سے قبل روزہ افطار کر دینے والوں کا اتنا عبرت ناک انجام ہے تو وہ لوگ جو روزہ رکھتے ہی نہیں بلکہ رمضان کے مہینے میں دن بھر کھاتے پیتے رہتے ہیں ان کا انجام کیا ہوگا؟۔

"سیدنا عمرؓ راوی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جب رات یہاں مشرق سے آ جائے اور دن یہاں سے چلا جائے اور سورج غروب ہوجائے تو روزہ دار روزہ کھول لے"۔

جب راوی ہی سیدنا عمرؓ ہیں تو ان کے متعلق شیعہ کا یہ تاثر دینا کہ وہ اندھیرا ہونے پر افطار کرتے تھے صحیح نہیں بالفرض اگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جائے کہ سیدنا عمرؓ نمازِ مغرب کے بعد افطار کرتے تھے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پہلے پانی یا کھجور سے افطاری کر کے نماز جلدی پڑھ لیتے تھے پھر باقائدہ کھانے کا اہتمام کرتے تھے۔

روزہ جلد افطار كرنا سنت ہے وہ اس طرح كہ غروب شمس كے فوراً بعد روزہ افطار كر لينا چاہيے بلكہ ستارے نظر آنے تک روزہ افطار كرنے ميں تاخير كرنا تو يہوديوں كا فعل ہے اور رافضى و غالى قسم كے شيعہ بھى انہيں كے پيچھے چلتے ہوئے تاخير سے افطارى كرتے ہيں اس ليے عمداً جان بوجھ كر افطارى ميں تاخير نہيں كرنى چاہيے كہ اچھى طرح رات ہو جائے اور نہ ہى اسے اذان كے آخر تک مؤخر كرنا چاہيے كيونكہ يہ سب كچھ نبى كريمﷺ كے طريقہ كے مخالف ہے۔

سیدنا سہل بن سعدؓ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريمﷺ نے فرمايا:

جب تک لوگ افطارى ميں جلدى كرتے رہيؤ گے تو ان ميں خير و بھلائى رہے گى۔ (صحيح بخارى حديث نمبر 1856 صحيح مسلم حديث نمبر 1098)۔

امام نووىؒ كہتے ہيں:

اس حديث ميں غروبِ آفتاب كا ثبوت ملنے كے فوراً بعد جلد افطارى كرنے پر ابھارا گيا ہے اور ا سكا معنىٰ يہ ہے كہ: اس وقت تک امت كا معاملہ منظم رہے گا اور بہترى ہو گى جب تک وہ اس سنت پر عمل كرتے رہيں گے اور جب وہ افطارى ميں تاخير كريں گے تو يہ ان ميں فساد و خرابى پيدا ہونے كى علامت ہو گى۔

ديكھيں: شرح مسلم للنووى جلد 7 صفحہ 208:

اور سیدنا ابنِ ابو عوفىؓ بيان كرتے ہيں كہ ميں نبى كريمﷺ كے ساتھ سفر ميں تھا تو آپﷺ نے روزہ ركھا اور جب شام ہوئى تو آپﷺ نے ايک شخص كو كہا: اتر كر ميرے ليے ستو تيار كرو تو وہ كہنے لگا: اگر آپ تھوڑا انتظار كريں حتىٰ كہ شام ہو جائے تو رسول كريمﷺ نے پھر فرمايا اتر كر ميرے ليے ستو تيار كرو جب تم ديكھو كہ اس طرف سے رات آ گئى ہے تو روزہ دار كا روزہ افطار ہو گيا۔ (صحيح بخارى حديث نمبر 1857صحيح مسلم حديث نمبر 1101)۔

اور سیدنا ابو عطيہؓ بيان كرتے ہيں كہ ميں اور سیدنا مسروقؓ سیدہ عائشہؓ كے پاس گئے اور عرض كيا: اے ام المؤمنينؓ محمدﷺ كے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ميں سے دو شخص ہيں ايک تو افطارى بھى جلد كرتا ہے اور نماز بھى جلد ادا كرتا ہے اور دوسرا افطارى ميں تاخير كرتا ہے اور نماز بھى تاخير سے ادا كرتا ہے تو سیدہ عائشہؓ كہنے لگيں: كون ہے جو افطارى بھى جلد كرتا ہے اور نماز كى ادائيگى ميں بھى جلدى كرتا ہے؟ تو ہم نے عرض كيا: سیدنا عبداللہؓ يعنى سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ تو وہ فرمانے لگيں: رسول كريمﷺ بھى ايسے ہى كيا كرتےتھے۔ (صحيح مسلم حديث نمبر 1099)۔

 سیدنا عبداللہ بن ابی اوفیؓ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفر (غزوہ فتح مکہ) میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تھے آپ نے ایک آدمی ( سیدنا بلالؓ سے فرمایا کہ اتر اور میرے لیے ستو گھول وہ کہنے لگا! یا رسول اللہﷺ ابھی تو سورج کی روشنی ہے آپﷺ نے فرمایا اتر اور میرے لیے ستو گھول سیدنا بلالؓ پھر کہنے لگے! یا رسول اللہﷺ ابھی تو سورج کی روشنی ہے آپﷺ نے پھر تیسری بار فرمایا: اتر اور میرے لیے ستو گھول آخر وہ اترے اور ستو گھولا آپﷺ نے پی لیے پھر آپﷺ نے مشرق کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا کہ جب ادھر سے رات کا اندھیرا شروع ہو تو روزہ افطار کرنے کا وقت ہوگیا۔ (بخاری: کتاب الصوم باب الصوم فی السفر والافطار)

شیعہ کتب:

سب سے پہلے فروع کافی کی ایک صحیح روایات سے نمازِ مغرب کا صحیح وقت بیان کرتے ہیں۔

علامہ باقر مجلسی نے روایت 5 حسن اور روایت 7 کو صحیح کہا ہے یہاں تک یہ بات کلیئر کردی گئی ہے کہ اہلِ تشیع کے ہاں نمازِ مغرب کا وقت غروبِ آفتاب یعنی سورج کے چھپنے کے فوراً بعد ہے یعنی رات کا اندھیرا ہو جانے کا وقت نماز مغرب سے کوئی تعلق نہیں ہے اب ہم اہلِ تشیع کی ایک اور قابلِ حجت روایت سے نماز مغرب پڑھنے سے پہلے روزے کی افطاری ثابت کرتے ہیں نماز مغرب سے پہلے افطار کرنے کی اجازت قول امام سے ثابت کرتے ہیں۔ 

اس روایت کو علامہ باقر مجلسی نے حسن کا درجہ دیا ہے الحمدللہ یہ بات شیعہ کتب سے بھی ثابت ہوگئی کہ نماز مغرب کا وقت اندھیرا ہونے کے بجائے سورج غروب ہوتے ہی شروع ہو جاتا ہے اور سورج کا غروب ہونا ہی درحقیقت رات کا شروع ہونا ہے اس کے علاوہ خود امام معصوم سے ثابت ہے کہ نمازِ مغرب سے پہلے یعنی سورج غروب ہونے کے فوراً بعد افطاری کرنا چاہئے۔

 شیعہ کی اصولِ اربعہ کی ایک اور کتاب من لا یحضر الفقیہ میں بھی فرمان امام سے سورج غروب ہونے کے بعد نمازِ مغرب اور افطاری کا وقت بیان ہوا ہے۔

 شیعہ کی کتاب انوار النجف میں بھی سورج غروب ہونے کا یقین ہونے کے بعد روزہ افطار کرنے کا بیان ہوا ہے۔

وسائل الشیعہ میں بھی مختلف روایات کے مطابق سورج غروب ہوتے ہی روزہ افطار کرنے کا ذکر کیا گیا ہے۔

چوتھی روایت میں یہ بات صراحت سے بیان ہوئی ہے کہ دور نبویﷺ میں نمازِ مغرب روشنی کے وقت ہی پڑھی جاتی تھی شیعہ کی مشہور زمانہ تفسیر مجمع البیان میں سورج غروب ہونے کے بعد والے وقت کو لیل کہا گیا ہو اور مغرب کی نماز کا وقت اور افطار کا وقت ایک ہی ہے جیسا کہ نہج البلاغہ میں لکھا ہے یعنی جب روزہ دار افطار کرتا ہے تو نماز مغرب پڑھائی جاتی ہے ان تمام دلائل سے ثابت ہوا کہ سورج کی ٹکیہ غائب ہو جائے تو مغرب کا وقت آگیا اور وقتِ مغرب ہی روزہ افطار کرنا چاہئے۔

شیعوں کا رات کے اندھیرے میں روزہ افطار کرنا بغیر عذر کے نہ صرف مکروہ ہے بلکہ خود ان کے اماموں کے اقوال کے سخت خلاف ہے۔