آیت مباہلہ سے روافض کا سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ (رض) کا خلیفہ بلا فصل ہونے پر استدلال
جعفر صادقتلک الرسل : سورۃ آل عمران : آیت 61
فَمَنۡ حَآجَّکَ فِیۡہِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَکَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَکُمۡ وَ اَنۡفُسَنَا وَ اَنۡفُسَکُمۡ ۟ ثُمَّ نَبۡتَہِلۡ فَنَجۡعَلۡ لَّعۡنَتَ اللّٰہِ عَلَی الۡکٰذِبِیۡنَ ﴿۶۱﴾
(٦١) ۔ (آیت) ” فقل تعالوا “۔۔ الخ
آیت مباہلہ ، دعوت مباہلہ :۔ نجران کے عیسائیوں کا وفد کا تذکرہ ابتدائے سورة سے ہو رہا ہے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مباہلہ کرنے کا ایک طریقہ بتایا ہے کہ اگر واضح دلائل دینے کے باوجود یہ لوگ حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں تو پھر آپ انہیں چیلنج کریں کہ تم خود بھی آجاؤ اور اپنے گھر والوں کو بھی میدان میں لے آؤ۔
(آیت) ” ثم نبتھل “۔۔ الخ
کیفیت مباہلہ :۔ پھر ہم سب مل کر اللہ کے سامنے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ دعا کریں مولا کریم ! جو فریق جھوٹا ہے اس پر تیری لعنت ہو اور ایسا گروہ تیرے عذاب میں گرفتار ہو ، جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصاری کو یہ دعوت دی تو کہنے لگے کہ ہم آپس میں مشورہ کرنے کے بعد جواب دیں گے۔
علامہ بغوی (رح) نے لکھا ہے عاقب جوان میں سب سے زیادہ عقلمند اور سوجھ بوجھ رکھنے والا تھا اہل وفد نے اس سے علیحدگی میں پوچھا عبدالمسیح آپ کی کیا رائے ہے ؟ عاقب نے جواب دیا برادران عیسائیت تم خوب پہچان چکے ہو کہ محمد نبی مرسل ہیں خدا کی قسم کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی قوم نے کسی نبی سے مباہلہ کیا ہو اور پھر وہ قوم زندہ رہی ہو بلکہ اس قوم میں سب چھوٹے بڑے مرجاتے ہیں اب اگر تم نے ایسا کیا تو سب تباہ ہوجاؤ گے ، لہٰذا اگر تم خیریت سے رہنا چاہتے ہو تو ان سے صلح کرلو اور اپنے ملک کی طرف لوٹ جاؤ ، اس مشورہ کے تحت سب لوگ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو گھر سے باہر تشریف لائے حضرت حسین (رض) آپ کی گود میں تھے اور حضرت حسن (رض) کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے حضرت فاطمہ (رض) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے تھیں ، اور ان کے پیچھے حضرت علی (رض) تھے اور آپ فرما رہے تھے جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا ۔
یہ دیکھ کر نجران کا پادری کہنے لگا اے نجران کے وفد مجھے ایسے چہرے نظر آرہے ہیں کہ اگر یہ اللہ سے دعا کریں تو اللہ تعالیٰ پہاڑ کو بھی اس کی جگہ سے ہٹادیں گے لہٰذا تم ان سے مباہلہ مت کرو ورنہ سب مرجاؤ گے اور قیامت کے دن تک کوئی عیسائی بھی باقی نہیں رہے گا ۔
آخر اہل وفد نے کہا ابو القاسم ہماری رائے یہ ہے کہ ہم آپ سے مباہلہ نہیں کرتے ہم اپنے مذہب پر قائم رہیں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا اگر تم مباہلہ نہیں کرنا چاہتے تو مسلمان ہوجاؤ جو مسلمانوں کو حقوق و فرائض ہیں وہ تمہارے بھی ہوجائیں گے جب اہل وفد نے مسلمان ہونے سے انکار کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اب میری تمہاری جنگ ہوگی ، کہنے لگے عرب سے لڑنے کی ہم میں طاقت نہیں ہے ہم آپ سے اس شرط پر صلح کرسکتے ہیں کہ آپ ہم پر لشکر کشی نہ کریں نہ ہم کو خوف زدہ کریں نہ اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور کریں اور ہم سالانہ دو ہزار جوڑے کپڑوں کے آپ کو ادا کرتے رہیں گے ایک ہزار صفر میں اور ایک ہزار رجب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شرط پر ان سے صلح کرلی اور فرمایا قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میری جان ہے اہل نجران کے سروں پر عذاب آ ہی گیا تھا اگر وہ مباہلہ کرتے تو ان کی صورتیں مسخ ہو کر بندروں اور سوروں جیسی ہوجاتیں ساری وادی آگ سے بھڑک اٹھتی یہاں تک کہ نجران کے درختوں پر پرندے بھی تباہ ہوجاتے اور سال گزرنے نہ پاتا کہ سارے عیسائی ہلاک ہوجاتے۔
(کبیر : ص : ٢٤٧: ج : ٣: و : کشاف : ص : ٣٦٩: ج : ١: وابو سعود : صسید دو عالم حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٣٤٧: ج : ١: و : روح المعانی : ص : ٢٢٤٨: ج : ٣)
آیت مباہلہ سے روافض کا سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ (رض) کا خلیفہ بلا فصل ہونے پر استدلال
اس آیت سے روافض نے خلفاء ثلاثۃ (رض) اجمعین کی خلافت کا ابطال اور سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ (رض) کے خلیفہ اول ہونے پر استدلال کیا ہے وہ اس طرح کہ اس آیت میں ” ابناء “ سے حضرت حسن وحسین (رض) اور ” نساء “ سے حضرت فاطمہ (رض) اور ” انفسنا “ سے سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ (رض) مراد ہیں اللہ تعالیٰ نے سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ (رض) کو نفس محمد قرار دیا ہے اس سے یہ مراد ہے کہ سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ (رض) فضائل میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مساوی تھے اور ظاہر ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لوگوں کی امارت کا سب سے زیادہ حق تھا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (آیت) ” النبی اولی بالمومنین میں انفسم “۔ نبی زیادہ قریب ہیں مومنوں کی جانوں سے بھی پس حضرت علی (رض) بھی ایسے ہی ہوئے لہٰذا سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ (رض) ہی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد امام ہوئے۔
اس استدلال کے ابطال کے چند جوابات ۔
مباہلہ کی تعریف :
(فقل تعالوا ندع الخ)
اس آیت سے اللہ تعالیٰ نے آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مباہلہ کرنے کا حکم دیا ہے، جس کی تعریف یہ ہے کہ اگر کسی امر کے حق و باطل میں فریقین میں نزاع ہوجائے اور دلائل سے نزاع ختم نہ ہو تو پھر ان کو یہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے کہ سب ملکر اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ جو اس امر میں باطل پر ہو اس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے وبال اور ہلاکت پڑے، کیونکہ لعنت کے معنی رحمت حق سے بعید ہوجانا ہے، اور رحمت سے بعید ہونا قہر سے قریب ہونا ہے، پس حاصل معنی اس کے یہ ہوئے کہ جھوٹے پر قہر نازل ہو، سو جو شخص جھوٹا ہوگا وہ اس کا خمیازہ بھگتے گا، اس وقت پوری تعیین صادق و کاذب کی منکرین کے نزدیک بھی واضح ہوجائے گی، اس طور پر دعا کرنے کو " مباہلہ " کہتے ہیں، اور اس میں اصل خود مباحثہ کرنے والوں کا جمع ہو کر دعا کرنا ہے، اپنے اعزہ و اقارب کو جمع کرنے کی ضرورت نہیں، لیکن اگر جمع کیا جائے تو اس سے اور اہتمام بڑھ جاتا ہے۔
واقعہ مباہلہ اور رد روافض
اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران کے نصاری کی جانب ایک فرمان بھیجا جس میں تین چیزیں ترتیب وار ذکر کی گئی تھیں۔
(١) اسلام قبول کرو
(٢) یا جزیہ ادا کرو
( ٣) یا جنگ کے لیے تیار ہوجاؤ۔
نصاری نے آپس میں مشورہ کر کے شرجیل، عبداللہ بن شرحبیل اور جبار بن قیص کو حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں بھیجا، ان لوگوں نے آکر مذہبی امور پر بات چیت شروع کی، یہاں تک کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی الوہیت ثابت کرنے میں ان لوگوں نے انتہائی بحث و تکرار سے کام لیا، اتنے میں یہ آیت مباہلہ نازل ہوئی، اس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نصاری کو مباہلہ کی دعوت دی اور خود بھی حضرت فاطمہ (رض) ، حضرت علی کرم اللہ وجہہ، امام حسن اور حسین (رض) کو ساتھ لے کر مباہلہ کے لیے تیار ہو کر تشریف لائے۔ شرحبیل نے یہ دیکھ کر اپنے دونوں ساتھیوں سے کہا کہ تم کو معلوم ہے کہ یہ اللہ کا نبی ہے، نبی سے مباہلہ کرنے میں ہماری ہلاکت ہے، بربادی یقینی ہے، اس لیے نجات کا کوئی دوسراراستہ تلاش کرو، ساتھیوں نے کہا کہ تمہارے نزدیک نجات کی کیا صورت ہے ؟ اس نے کہا کہ میرے نزدیک بہتر صورت یہ ہے کہ نبی کی رائے کے موافق صلح کی جائے، چنانچہ اسی پر سب کا اتفاق ہوگیا، چنانچہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر جزیہ مقرر کر کے صلح کردی، جس کو انھوں نے بھی منظور کرلیا۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد ١)
اس آیت میں ابناءنا سے مراد صرف اولاد صلبی نہیں ہے بلکہ عام مراد ہے خواہ اولاد ہو یا اولاد کی اولاد ہو، کیونکہ عرفا ان سب پر اولاد کا اطلاق ہوتا ہے۔ لہٰذا ابناءنا میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسے حضرات حسنین (رض) اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے داماد حضرت علی (رض) داخل ہیں۔ خصوصا حضرت علی (رض) کو ابناءنا میں داخل کرنا اس لیے بھی صحیح ہے کہ آپ (رض) نے تو پرورش بھی حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آغوش میں پائی تھی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اپنے بچوں کی طرح پالا پوسا اور آپ (رض) کی تربیت کا پورا پورا خیال رکھا، ایسے بچے پر عرفا بیٹے کا اطلاق کیا جاتا ہے۔ اس بیان سے یہ بات واضح ہوگئ کہ حضرت علی (رض) اولاد میں داخل ہیں، لہٰذا روافض کا آپ کو ابناءنا سے خارج کر کے اور انفسنا میں داخل کر کے آپ (رض) کی خلافت بلافصل پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
(١) :۔ ” انفسنا “: جمع کا صیغہ ہے جو کئی نفوس پر دلالت کرتا ہے ایک نفس آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ، اور دوسرے نفوس آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متبعین کے، وحدت نفس پر کوئی لفظ دلالت نہیں کر رہا ہے لہٰذا استدلال باطل ہوا ۔
(٢) :۔ سیدنا حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ (رض) کو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام اوصاف حاصل نہیں ہیں
1️⃣ آیت مباہلہ میں اصحاب لانے کا بیان ہی نہیں ہوا۔ قریبی رشتہ داروں کو لانے کا ذکر ہے۔ کیا نبی کریم حکم الہی کے خلاف صحابہ کی جماعت بھی ساتھ لیکر چلتے؟
2️⃣ اہلبیت کی اپنی فضیلت و شان ہے نسبت نبی کریم ایک معیار ہے۔ رسول کے بعد امت میں افضل ہونا ایک اور معیار ہے۔ جس طرح تمام نبیوں سے افضل ہونا ایک اور معیار ہے۔ ہر معیار کا پیمانہ بھی مختلف ہوتا ہے۔ حضرت آدم پہلے نبی تھے۔ یعنی ترتیب کے پیمانہ سے حضرت آدم پہلے نمبر پر ہیں۔ حالانکہ سردار الانبیاء نبی کریم ہیں جبکہ آخری نمبر پر ہیں۔
آیت مباہلہ میں سب سے افضل کو ساتھ لانے کا حکم نہیں دیا گیا تھا اور یہ بات بھی سُنی و شیعہ معتبر کتب سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے آخری دنوں میں مسجد نبوی میں حضرت ابوبکر صدیق کو اپنی جگہ نماز کی امامت کے لئے مقرر فرمایا۔