شیعہ کا عقیدہ رجعت قرآن کریم بمقابلہ شیعہ معتبر کتب
جعفر صادقرجعت ۔۔ شیعہ کے عقائد خاصہ میں سے ہے جس کے تحت بعض صالحین موت کے بعد مہدی موعود(ع) کی مدد کے لئے زندہ ہوں گے نیز بعض بدکار افراد دنیاوی زندگی میں پلٹ کر آئیں گے تاکہ اپنی سزا پائیں اور اپنے کئے ہوئے مظالم کے بدلے انتقام کا سامنا کریں۔
ملاں باقر مجلسی لکھتے ہیں
بداں کہ الرجعة اجماعیات شیعہ بلکہ ضروریات مزہب فریضہ حجة دراثبات رجعت است
تو جان لے کہ عقیدہ رجعت شیعہ مذہب کے اجتماعی عقیدے میں سے ہے بلکہ ضروریات مذہب میں سے عقیدہ رجعت ہے
حق الیقین ص354
اعتقادنا فی الرجعت انھا حق
رجعت کے حق ہونے پر ہمارا یقین ہے
عقائد اثنا عشریہ ص49
عقیدہ رجعت شیعہ کے مشہور عقائد میں سے ہے۔
تفسیر نمونہ ج8/726
رجعت کے لغوی معنی
لفظ "رجعت" مصدر ہے جو مادہ "ر ـ ج ـ ع" سے مشتق ہے اور اس کے لغوی معنی بازگشت (= لوٹنے اور پلٹنے) کے ہیں۔
المعجم الوسیط، ذیل ماده رجع
اس اعتقادی اصول کے لئے آیات قرآن اور احادیث میں مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں جیسے: "رجعت"، "کرّۃ"، "ردّ" اور "حشر"؛ تاہم لفظ "رجعت" زیادہ مشہور ہے۔ لفظ "مصدر مَرَہ" ہے اور اس کے معنی ایک بار پلٹنے اور واپس ہونے کے ہیں؛ جیسا کہ اما لفظ رجعت مشهورتر است۔ رجعت مصدر مرّه به معنی یکبار بازگشتن است، چنانکه در لسان العرب آمده است: رجعت مصدر مرّه از ماده رجوع است۔
ابن منظور، لسان العرب ج8، ص114
اصطلاح میں رجعت کے معنی یہ ہیں خداوند متعال ظہور امام مہدی(ع) کے وقت آپ(عج) کے بعض شیعوں زندہ کرے گا اور دنیا میں پلٹا دے گا تا کہ آپ(عج) کی مدد کریں اور آپ(عج) کی حکومت کا مشاہدہ کرنے کی سعادت پائیں۔ نیز آپ(عج) کے بعض دشمنوں کو پلٹا دے گا تا کہ دنیا کا عذاب چکھ لیں اور امام مہدی(عج) کی طاقت و شوکت کو دیکھ لیں اور جان لیں۔
طبرسی، مجمع البیان، ج7، ص406
علامہ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں لکھتے ہیں: غیر شیعہ فرقے ـ عامۃ المسلمین ـ اگرچہ ظہور مہدی(عج) پر یقین رکھتے ہیں اور اس کے سلسلے میں احادیث کو تواتر کے ساتھ نقل کرچکے ہیں لیکن وہ مسئلۂ رجعت کے منکر ہوئے ہیں اور اس کو شیعہ اعتقادی خصوصیات کا جزو سمجھے ہیں۔
الطباطبائي، المیزان، ج2، ص106
شیعہ فرقوں میں رجعت کا پس منظر
بعض تاریخی واقعات کے ضمن میں عراق کے بعض لوگوں کی طرف اشارہ ہوا ہے جو امام علی(ع) کی شہادت کے فورا بعد آپ(ع) کی دنیا میں رجعت اورواپس آنے پر یقین رکھتے تھے
طبری، جامع البیان عن تاویل القرآن، ج14، ص140
محمد بن حنفیہ کی وفات کے بعدامام موسی کاظم(ع) کی شہادت اور امام عسکری(ع) کی شہادت کے بعد بھی بعض شیعہ فرقے ان کی دنیا میں رجعت اور پلٹ آنے پر یقین رکھتے تھے۔
اسی طرح تقریباتمام اماموں کے صاحبزادوں بارے یہی اختلاف شیعہ فرقوں میں ہے
نوبختی، فرقة الشیعه، ص25
نوبختی، فرقة الشیعہ، ص67۔
نوبختی، فرقة الشیعہ، ص79-80
تفسیر المتقین قصص آیت5
وعداللہ الذین امنو۔ ۔۔۔الخ
تفسیر قمی بحوالہ کافی
اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اس کے مصداق آئمہ ہیں۔
خلاصہ ۔۔مذکورہ آیات کی تفسیر جو ائمہ معصومین نے کی ہے اس کا واضح طور پر مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ کے بعد حضرت علی اور دوسرے ائمہ حضرات خلیفہ یعنی حکمران نہیں ہونگے بلکہ کمزور کئے جائیں گے اور مجبوری کی زندگی بسر کرتے ہوئے خوف زدہ ہو کر رہیں گے اس کے بعد اللہ تعالی نے ان کو خلیفہ یعنی حاکم بنانے کا ارادہ اور دوسری آیت میں وعدہ کیا ہے یعنی ان ائمہ حضرات کو رجعت کے بعد اللہ تعالی ضرور بالضرور خلیفہ بنائے گا اور خوف کے بجائے امن والی زندگی عطا فرمائے گا نہ کہ رجعت سے پہلے لہذا جو یہ عقیدہ رکھے کہ آئمہ حضرات کو پہلے زندگی میں حاکم ہونا تھا وہ روایات کے مطابق جھوٹا ہے اور بقول ان کے آئمہ معصومین کے ان آیات کا منکر ہے۔
6۔۔۔۔۔تفسیر نورالثقلین
ج4/70سورہ قصص آیت 5
خلاصہ۔ ۔۔۔شیعہ مذہب کے اس محدث جلیل نے بھی اپنی تحقیق کا خلاصہ ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالی نے رسول اللہ کو اس چیز سے آگاہ فرمایا تھا کہ آپ کے اہلبیت کو رجعت کے بعد خلیفہ بنائے گا نہ کے پہلے ۔
امام جعفر صادق سے روایت ہے اذااخذ میثاق۔ ۔۔۔۔۔میں لتومنن کامطلب سارے انبیاء کا رسول اللہ پر ایمان لانا۔ لتنصرن کا مطلب سارے نبیوں کا حضرت علیؓ کی مدد کرنا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا کہ اس سے مراد امیرالمومنین کی مدد کرنا ہے تو امام نے فرمایا کہ ہاں آدم سے لے کر تمام انبیاء دنیا میں واپس آکر امیرالمؤمنین کے ماتحت ان کے دشمنوں سے قتال کریں گے۔
دوسری روایت میں ہے کہ اس دن یعنی رجعت میں تو علی علیہ السلام کو خلیفہ بنایا جائے گا تو رسول اللہ علی بن ابی الطالب کو علم عطا کریں گے پھر علی ابن ابیطالب تمام مخلوق کے امیر ہوں گے۔
تفسیر نور الثقلین جلد 1 صفحہ
سورہ قصص 5
الکافی کے حوالے سے لکھا ہے کہ امام جعفر صادق سے
وعد اللہ الذین آمنوا منکم
اللہ تعالی کا تم میں سے ایمان لانے والوں اور اعمال صالح کرنے والوں سے وعدہ ہے کہ ان کو ضرور بالضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا اس آیات کے بارے میں سوال کیا گیا
فقال ھم الائمۃ
تو فرمایا کہ وہ ائمہ ہیں جن کو خلیفہ بنانے کا وعدہ کیا ہے اللہ تعالی نے اور احتجاج طبرسی میں امیر المومنین سے ایک حدیث منقول ہے جس میں ثلاثہ کے یعنی خلفائے ثلاثہ کے متعلق معالب کا ذکر ہے اور اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ تعالی نے ان کو مہلت کیوں دی آخر میں حضرت نے فرمایا وجہ اس کی یہ تھی کہ خدا تعالی نے جو اپنے دشمن ابلیس کو مہلت دی ہے اس کی تکمیل ہو جائے اور نوشتہ خدا آخر تک پہنچ جائے اور کافروں پر خدا تعالی کا قول ثابت ہو جائے اور وعدہ برحق کا وقت قریب پہنچ جائے جو اللہ تعالی نے اپنی کتاب میں صاف طور پر بیان کیا ہے۔
وعد اللہ امنوامنکم
اور یہ اس وقت ہوگا جب کہ اسلام کا محض نام رہ جائے گا اور قرآن کا محض رسم اور نشان اور جناب صاحب الامر واضح عذر کی وجہ سے غائب ہو جائیں گے
تفسیر صافی جلد 3 صفحہ 443 ۔445
ضمیمہ مقبول صفحہ 360 سورہ نور آیت نمبر 55
تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 80 ۔81
ترجمہ مقبول صفحہ 392
تفسیر المتقین صفحہ 500 سورہ قصص5
تفسیر المیزان جلد 16 صفحہ 17
اہل سنت منکر رسالت ہیں یا اہل تشیع
اس سلسلے کی بیس روایات رجعت کے بارے میں پیش کی گئی ہیں جن میں اہل تشیع محدثین نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ تمام انبیاء اور رسول امامت علی اور آئمہ کے تابع ہیں (معاذاللہ)۔
تضادات روایات اورعجیب و غریب کردار
١۔۔۔آدم ؑ سے لیکر سارے انسانو ں کی رجعت
٢۔۔۔آدم ؑسے لے کر سارے نبیوں کی رجعت
٢۔۔۔ہر اچھے برے کی رجعت
۴۔۔۔چند نبیوں ؑ کی رجعت
۵۔۔۔محمدؐ کی ر جعت
٦۔۔۔حضرت علی ؓ کی رجعت
٧۔۔۔حضرت حسین ؓ کی رجعت
٩۔۔۔۔تمام اہل بیت کی رجعت
١٠۔۔۔تمام آئمہ کی رجعت
یہ تمام تضادات روایات میں موجود ہے۔
یاللعجب
شیعہ مذہب میں دوسرے جنم کے بارے اتنی کثیر روایات ؟؟؟؟؟؟؟
اور اکثر روایات میں انبیاء کی شان میں گستاخی
۔۔۔۔۔۔۔
رجعت کی اسناد متواتر ہیں۔ شیعہ علماء
رجعت کے بارے میں احادیث و اسناد اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر قسم کے شک و شبہے کی نفی ہوجاتی ہے۔ علامہ مجلسی اپنی کتاب بحار الانوار میں 1600 رجعت کے سلسلے میں نازل اور وارد ہونے والی آیات و روایات کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:
"ان لوگوں کے لئے ـ جو ائمہ(ع) کے کلام پر یقین رکھتے ہیں ـ شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ مسئلۂ رجعت حق ہے، اور اس باب میں ائمہ(ع) سے وارد روایات متواتر ہیں اور تقریبا 2000 روایات وارد ہوئی ہیں جو اس امر پر تصریح کرتی ہیں اور ان روایات کو 40 سے زائد اکابرین علماء اور محدثّین نے 50 سے زائد معتبر کتب میں ثبت و ضبط کیا ہے۔
:جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں:
شیخ صدوق،
کلینی رازی،
شیخ طوسی،
سید مرتضی علم الہدی،
احمد بن علی نجاشی،
محمد بن عمر کشی،
محمد بن مسعود سمرقندی عیاشی،
علی بن ابراہیم قمی،
شیخ مفید،
ابوالفتح کراجکی،
محمد بن ابراہیم نعمانی،
محمد بن حسن صفار قمی،
ابن قولویہ،
سید ابن طاؤس،
فضل بن حسن طبرسی،
ابن شہر آشوب اور
سعید بن ہبۃ اللہ راوندی۔
مجلسی بعدازاں ان کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو مسئلۂ رجعت پر تالیف ہوئی ہیں۔
مجلسی، بحارالانوار، ج53، ص96 و 122
علاوہ ازیں بہت سی زیارات اور دعاؤں میں بھی رجعت کے عقیدے پر تاکید ہوئی ہے جیسے زیارت جامعہ، زیارت وارث، زیارت اربعین، زیارت آل یاسین، زیارت رجبیہ و دعائے وداع اور دعائے عہد قمی، شیخ عباس، مفاتیح الجنان، زیارت جامعه کبیره، آل یس و دعای عهد
نکتہ: شیعہ رجعت پر یقین و اعتقاد راسخ رکھنے کے باوجود رجعت کے منکرین کو کافر نہیں سمجھتے؛ کیونکہ رجعت مذہب شیعہ کی ضروریات و مسلمات میں سے ہے ۔۔۔ اور جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے رجعت پر ایمان، ایمان کامل اور حقیقی اسلام کی شروط میں سے ہے۔
مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج15، ص593
رجعت کی نفی قرآن کریم سے
حَتّٰۤی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِ ۙ
لفظ بہ لفظ
[حَتّيٰٓ : یہاں تک کہ ] [اِذَا : جب] [ جَاۗءَ : آیا ہو] [ اَحَدَهُمُ : کسی ایک کے پاس ان میں سے] [ الْمَوْتُ : موت ] [ قَالَ : فرمایا] [ رَبِّ : میرے رب] [ارْجِعُوْنِ : مجھے واپس لوٹا دے ]
ترجمہ:
(یہ لوگ اسی طرح غفلت میں رہیں گے) یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے گی تو کہے گا کہ اے پروردگار! مجھے پھر (دنیا میں) واپس بھیج دے
سورت المؤمنون 99
لَعَلِّیۡۤ اَعۡمَلُ صَالِحًا فِیۡمَا تَرَکۡتُ کَلَّا ؕ اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَا ؕ وَ مِنۡ وَّرَآئِہِمۡ بَرۡزَخٌ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ
لفظ بہ لفظ
[لَعَلِّيْٓ : تاکہ میں ] [اَعْمَلُ : میں عمل کروں گا ] [ صَالِحًا : نیک] [ فِيْمَا : جس میں ] [ تَرَكْتُ : میں چھوڑ آیا ہوں ] [ كَلَّا : ہرگز نہیں ] [ اِنَّهَا : بیشک وہ] [ كَلِمَةٌ : ایک بات ] [ هُوَ : وہ ] [ قَاۗىِٕلُهَا : کہنے والا ہے اسے ] [ وَ مِّنْ وَّرَاۗىِٕهِمْ : اور ان کے پیچھے سے] [ بَرْزَخٌ : ایک پردہ ] [ اِلٰى يَوْمِ : دن تک] [يُبْعَثُوْنَ : وہ سب اٹھائے جائیں گے ]
ترجمہ:
تاکہ میں اس میں جسے چھوڑ آیا ہوں نیک کام کیا کروں۔ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی بات ہے کہ وہ اسے زبان سے کہہ رہا ہوگا (اور اس کے ساتھ عمل نہیں ہوگا) اور اس کے پیچھے برزخ ہے (جہاں وہ) اس دن تک کہ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے، (رہیں گے)
سورت المؤمنون 100
قرآن پاک نے واضح الفاظ میں رجعت کے عقیدے کی نفی فرمائی ہے۔
ان الفاظ پر غور کریں۔
قال رب: فرمایا اے میرے رب!
ارجعون: مجھے واپس (دنیا) میں لوٹا دے۔
کلا: ہرگز نہیں۔ (کبھی بھی نہیں ہوسکتا)
قائلھا: کہنے والا (بکواس)
برزخ: ایک پردہ، قبر کا عالم
الی یوم: دن تک
یبعثون: قیامت، وہ سب اٹھائے جائیں گے۔
یعنی رجعت کا عقیدہ ایک باطل عقیدہ ہے ۔ انسان کے مرنے کے بعد قبر اور برزخ کا پردہ قیامت تک یعنی دوبارہ زندہ ہونے تک قائم رہے گا۔
اس آیت سے رجعت کا عقیدہ کلی طور پر رد ہوتا ہے۔
نکتہ: شیعہ رجعت پر یقین و اعتقاد راسخ رکھنے کے باوجود رجعت کے منکرین کو کافر نہیں سمجھتے؛ کیونکہ رجعت مذہب شیعہ کی ضروریات و مسلمات میں سے ہے ۔۔۔ اور جیسا کہ احادیث سے ثابت ہے رجعت پر ایمان، ایمان کامل اور حقیقی اسلام کی شروط میں سے ہے۔
مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج15، ص593
رسول اللہ ﷺ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ بارہویں کی بیعت کرینگے؟
ملا باقر مجلسی حق الیقین کی جلد دوم صفحہ 18 پر لکھتا ہے۔
اب نبی ﷺ کی توہین کیسے ہوتی ہے؟ اور کسے کہتے ہیں توہین؟
پھر الزام اہل سنت پر لگتا ہے۔ ارے اہل سنت اگر شیعہ کو کافر کہتے ہیں تو اس کافر کہنے کی وجوہات شیعت کے عقاٸد میں جاکر تلاش کرو۔
اس امامت کے عقیدہ کو انہوں نے اپنے مذہب کے نمایاں عقاٸد میں درج کیا ہے۔ اور یہی وہ عقیدہ ہے جس کی رو سے شیعہ قرآن کا انبیإ کرام کا صحابہ کرام کا یہاں تک کہ اسلام کا بھی منکر بن جاتا ہے۔۔۔۔۔
غور کرنے والوں کیلئے بہت سی نشانیاں چھپی ہیں۔ ذرا غور تو کرے!