حفاظتِ قرآن کا وعدۂ الٰہی
ابو عدنان محمد منیر قمرحفاظتِ قرآن کا وعدۂ الہٰی
قرآنِ کریم کی آیات یا الفاظ میں رد و بدل قیامت تک ممکن نہیں،کیونکہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھا رکھی ہے،چنانچہ ارشادِ الہٰی ہے:إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہٗ لَحَافِظُوْنَ۔ [الحجر:۹]
’’بیشک یہ’’ذِکر‘‘ ہم ہی نے اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘
یہ اللہ ہی کی حفاظت کا نتیجہ ہے کہ قرآن کریم اب تک اپنی اصلی شکل میں باقی ہے اور ہر وہ کوشش جو اسے بدلنے کے لیے کی گئی اس طرح ناکام و نا مراد ہوئی کہ اس کا ایک حرف بھی تبدیل نہیں کیا جا سکا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِالذِّکْرِ لَمَّا جَآئَ ھُمْ وَاِِنَّہٗ لَکِتٰبٌ عَزِیْزٌ . لاَّ یَاْتِیْہِ الْبَاطِلُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَلاَ مِنْ خَلْفِہٖ تَنْزِیْلٌ مِّنْ حَکِیْمٍ حَمِیْدٍ
[حمٓ سجدۃ:41,42]
’’ان لوگوں نے نصیحت کو نہ مانا جب وہ ان کے پاس آئی اور یہ تو ایک عالی رتبہ کتاب ہے۔اس پر جھوٹ کا دخل نہ آگے سے ہو سکتا ہے نہ پیچھے سے۔(اور)یہ دانا(اور)خوبیوں والے(اللہ)کی اتاری ہوئی ہے۔‘‘
غرض قرآنِ کریم ام الکتاب میں درج اور لوحِ محفوظ میں بہ حفاظت موجود ہے۔وہ آسمانوں میں بھی ہر اس چیز سے محفوظ رہا جس سے اسے کسی نقصان کا اندیشہ ہوتا اور جو اس کی شان سے فروتر تھی۔یہ سب کچھ سراسر اللہ تعالیٰ کا کمال اور قرآن پر اس کی خصوصی عنایت و توجہ کے باعث ہے۔
(عنایۃ اللّٰه و عنایۃ رسولہ بالقرآن الکریم،صحفہ:9۔11)
سورۃ الواقعہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
اِِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ . فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ . لاَ یَمَسُّہٗٓ اِِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ [الواقعۃ:۷۷ تا ۷۹]
’’یہ بڑے رتبے کا قرآن ہے۔(جو)کتابِ محفوظ میں(لکھا ہوا)ہے۔اس کو وہی ہاتھ لگاتے ہیں جو پاک ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کی صفت {مَکْنُوْنٍ} بیان فرمائی،جس کے معنی پردے میں ہونے کے ہیں،یعنی یہ کتاب لوگوں کی نظروں سے محجوب(چھپی ہوئی)ہے۔اس لحاظ سے یہ عالمِ غیب کا ایک پوشیدہ معاملہ ہے جس کی کنہ اور حقیقت اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔
اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قرآنِ کریم جو لوگوں تک پہنچا اور جسے انھوں نے نبی اکرمﷺ کی زبانِ مبارک سے سنا،یہ اللہ تعالیٰ کی اس مشیت کے مطابق ہے جس سے وہ لوگوں کو آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس کا یہ وصف مکمل ہو جائے کہ قرآن اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور اس میں کسی انسان کا قطعاً کوئی دخل نہیں۔
التحریر و التنویر:27/ 304۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے:قرآن کی عظمتیں اور اس کے معجزات شیخ محمود الدوسری،ترجمہ پروفیسر حافظ عبد الرحمن ناصر،طبع دار السلام لاہور
تمام کتبِ سماویہ کا جامع
معجم طبرانی،شرح معانی الآثار طحاوی،شعب الایمان بیہقی اور مسند طیالسی میں حضرت واثلہ بن اسقعؓ کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
أُعْطِیْتُ مَکَانَ التَّورَاۃِ السَّبْعَ الطِّوَالَ وَمَکَانَ الزَّبُوْرِ الْمِئِیْنَ وَمَکَانَ الْاِنْجِیْلِ الْمَثَانِیْ وَفُضِّلْتُ بِالْمُفَصَّلِ
(سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ:1480،صحیح الجامع الصغیر:1059)
’’تورات کی جگہ مجھے سبع طوال سورتیں دی گئی ہیں،زبور کی جگہ مئین سورتیں دی گئی ہیں،اور انجیل کی جگہ سورہ فاتحہ دی گئی ہے اور مفصل سورتیں(زائد دے کر)مجھے فضیلت عطا کی گئی ہے۔‘‘
تو گویا قرآنِ کریم تورات،انجیل اور زبور سب کا جامع اور ان پر حاوی ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح کردیں کہ قرآن کریم کی سورتوں کو درج ذیل متعدد حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے:
سبع طوال سے مراد یہ سات سورتیں ہیں۔
سورۃ البقرہ۔
سورۃ آل عمران۔
سورۃ النساء۔
سورۃ المائدہ۔
سورۃ الانعام۔
سورۃ الاعراف۔
سورۃ الانفال۔
مئین سے مراد وہ سورتیں ہیں جن کی آیات کی تعداد سو سے دو سو تک ہے۔
ان میں سورہ یونس سے لے کر سورہ شعرآء تک سورتیں شامل ہیں۔
مثانی وہ سورتیں ہیں جن کی آیات سو سے کم ہیں۔
ان میں سورۃ النمل سے لے کر سورۃ الحجرات تک کی سورتیں شامل ہیں۔
مفصل سورتوں میں سورہ قٓ سے لے کر سورۃ الناس تک کی تمام سورتیں شامل ہیں۔
مفصل سورتیں آیات کے اعتبار سے خواہ کتنی ہی چھوٹی کیوں نہ ہوں،مضامین کے اعتبار سے مکمل ہیں،لہٰذا انھیں مفصل کہا گیا ہے۔
مفصل سورتوں کو مزید تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
1۔طوال مفصل:سورۂ قٓ سے لیکر سورۃ البروج تک۔
2۔اوساط مفصل:سورۃ الطارق سے سورۃ البینہ تک۔
3۔قصار مفصل:سورۃ الزلزال سے سورۃ الناس تک۔
اسم الكتاب:
عظمت قرآن : بزبان قرآن