اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم اور ان کی حیات و خدمات
نقیہ کاظمیاصحابِ صفہ اور ان کی حیات و خدمات
علامہ ابنِ حجر عسقلانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ابوہریرہؓ کا ستر اصحابِ صفہ کے دیکھنے کی بات کہنا یہ اس جانب غماز ہے کہ ستر سے زائد اصحابِ صفہ کی تعداد تھی۔ نیز سن 5ھ بئرِ معونۃ میں صفہ کے 70 ستر قاری صحابہ کرامؓ شہید ہوئے، جن کو حضرت ابوہریرہؓ نے نہیں دیکھا تھا، چونکہ حضرت ابوہریرہؓ سن 7ھ میں رسول اللہﷺ کے بارگاہ میں حاضر ہوئے ہیں۔ تو حضرت ابوہریرہؓ کا 70 ستر اصحابِ صفہ کی رویت کا ذکر کرنا بئرِ معونۃ میں شہید ہونے والے 70 ستر اصحابِ صفہ کے علاوہ ہے۔
(فتح الباري: صفحہ، 631 جلد، 1)
اس طرح اصحابِ صفہ کی مجموعی تعداد 140 ایک سو چالیس سے زائد ہوتی ہے۔
علامہ سَمہودی صاحبِ وفاءالوفاء اور حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابونُعیم اصبہانی نے اصحابِ صفہ کے اسماء ایک سوسے زائد شمار کرائے ہیں۔
(وفاءالوفاء:صفحہ، 321 جلد، 1 فتح الباري: صفحہ، 288 جلد، 2 حدیث نمبر، 3582 کے تحت)
علامہ ابنِ حجر رحمۃ اللہ مزید رقم طراز ہیں کہ علامہ ابنُ الاعرابی، ابو عبدالرحمٰن سُلمی، حاکم اور ابونُعیم نے اصحابِ صفہ کے اسمائے گرامی احاطہ کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے، ان میں سے ہر ایک نے آپس میں دوسرے سے مختلف اصحابِ صفہ کے نام ذکر کئے ہیں،
’’وفي بعض ما ذکروہ اعتراض ومناقشۃ‘‘
اور اصحابِ صفہ میں کچھ ایسے حضرات کو بھی شامل کر لیا ہے جن کے سلسلہ میں اشکال ہے۔
’’ولکن لایسع ہذا المختصر تفصیل ذلک‘‘
مگر اس مختصر کتاب فتح الباری میں اس تفصیل کی گنجائش نہیں ہے۔
(فتح الباري: صفحہ، 630 جلد، 1 حدیث، 442 کے تحت)
محدثینِ عظام اور مؤرخین کرام میں صرف علامہ ابونُعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی (المتوفی430ھ) ہی اصحابِ صفہ کے اسمائے گرامی حروف تہجی کی ترتیب پر ایک یا دو سطر میں مختصر تعارف کے ساتھ پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے صفہ کے طلبہ کرام میں جن صحابہؓ کو شمار کیا ہے، ہر ایک کے اصحابِ صفہ ہونے کے سلسلہ میں صریح ثبوت پیش کیا ہے، جن کے بارے میں حدیثِ پاک ہی میں ثبوت مل گیا تو کافی ہے، ورنہ متقدمین ائمۂ جرح و تعدیل، یا متقدمین مستند مؤرخین مثلاً علامہ واقدی، امام محمد بن سعد کے اقوال سے استدلال کیا ہے اور عام طور سے امام ابوعبدالرحمن محمدبن حسین سُلمی(المتوفی412ھ) اور حافظ ابو عبداللہ نیساپوری کے حوالہ سے اصحابِ صفہ کے اسماء کی تعیین کی ہے، البتہ ان حضرات کے اقوال میں کسی قسم کا تردد و شک ہوا ہے تو اسے دلیل کے ساتھ رد کیا ہے۔
مثال کے طور پر: سب سے پہلے اوسؓ اوس ثقفی کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:
"نسبہ إلی أہل الصفۃ وہم فإنہ قدم وفداً مع وفد ثقیف علی رسول اللّٰہﷺ في آخر عہدہ‘‘
حضرت اوسؓ کو اصحابِ صفہ کی جانب منسوب کرنا وہم ہے، کیونکہ یہ وفدِ ثقیف کے ساتھ اخیر زمانۂ رسالت میں رسول اللّہﷺ کے پاس تشریف لائے ہیں،
’’وانزلہم النبیﷺ القبۃ لا الصفۃ‘‘
اور نبی اکرمﷺ نے ان لوگوں کو صفہ کے بجائے ’’قبہ‘‘ میں ٹھہرایا ہے اور یہ خودہی فرماتے ہیں’’کنت في اسفل القبۃ‘‘میں قبہ کے نچلے حصہ میں مقیم تھا۔ امام ابونُعیم آگے رقم طراز ہیں کہ حضرت اوسؓ سے کوئی حدیثِ رسولﷺ مروی ہے اور نہ ان سے اصحابِ صفہ کے کسی قسم کے احوال منقول ہیں۔
(الحلیۃ: صفحہ،347 اور 348 جلد، 1)