تنگی وفقر وفاقہ کی زندگی
نقیہ کاظمیتنگی وفقر وفاقہ کی زندگی
اصحابِ صفہؓ نے مدرسۂ صفہ میں کس قدر بے بسی، کسم پرسی، تنگی، فقر وفاقہ اور شدتِ بھوک کی حالت میں زندگی گزاری ہے خود ان کی زبانی ملاحظہ فرمائیں !
حضرت ابوہریرہؓ صفہ کے طلبۂ کرام کی بے بسی کو اپنے شاگردوں کے سامنے بیان کرتے تھے، ان کے شاگرد عبداللّٰہ بن شقیق کا بیان ہے کہ میں حضرت ابوہریرہؓ کے ساتھ ایک سال تک رہا ایک دن حضرت عائشہؓ کے حجرہ کے پاس آپ نے مجھ سے فرمایا: ہم اصحابِ صفہؓ کے پاس پھٹی پرانی چادر کے علاوہ کوئی کپڑا جسم کو ڈھانکنے کے لیے نہیں تھا اور ہم میں سے ہرایک کو کمر اور پشت سیدھی رکھنے کے بقدر بھی کھانا ملے عرصہ گذرجاتا، اپنی پشت اور کمر سیدھی رکھنے کے لیے ہر ایک اپنے خالی پیٹ پرپتھر باندھ لیتا، پھراوپر سے اس پتھر کو کپڑے سے اس قدر زور سے باندھتا کہ وہ ظاہر ہونے اور گرنے سے محفوظ ہوجاتا۔
(مسندأحمد:صفحہ324،جلد2)
اصحابِ صفہؓ کو عموماً پیٹ بھرکر کھانا میسر نہیں ہوتا، بلکہ سدِّرمق کے بقدر کھانا میسر ہوتا تھا، جس کا اثر ان پراس طرح ظاہر ہوتاتھا کہ نماز میں شدتِ بھوک سے غش کھاکر اور چکرا کر گرجاتے ، بدو حضرات انہیں پاگل ومجنوں کہتے تھے ۔
حضرت فضالہ بن عبییدؓ فرماتے ہیں : ایک مرتبہ رسول اللّٰہﷺ نماز پڑھا رہے تھے، کچھ صفہ کے طلبۂ کرامؓ شدتِ بھوک کی وجہ سے غش کھاکر نماز کی حالت میں گر گئے۔ انہیں دیکھ کر دیہاتی لوگ کہنے لگے کہ یہ لوگ مجنوں، دیوانے اور پاگل ہیں۔ جب رسول اللّٰہﷺ نماز سے فارغ ہوئے توانہیں مخاطب کرکے فرمایا: اس مصیبت وسختی کے برداشت کرنے اور اس پر صبر کرنے پر اللّٰه تعالیٰ کے یہاں جو تمہیں اجر وثواب ملے گا، اسے جان لو توتم لوگ فقر و فاقہ اور تنگ دستی کی تمنا کرنے لگو، تاکہ اللّٰه تعالیٰ کے یہاں زیادہ سے زیادہ اجر وثواب کے مستحق ہو جاؤ۔
(مسند أحمد:صفحہ18،جلد6، الحلیۃ:صفحہ17،جلد2)
صفہ کے مایۂ ناز طالب علم حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ تین دن کا بھوکا تھا، زبان پہ کھا نے کی کوئی چیز نہیں رکھی تھی، اسی شدتِ بھوک کی حالت میں صفہ جارہا تھا کہ چلتے چلتے گر پڑا، چھوٹے چھوٹے بچے میرے پاس جمع ہوگئے اور مجھے پاگل، مجنوں کہنے لگے بھوک سے چکرا کر، غش کھا کر گرتے پڑتے مدرسۂ صفہ تک پہونچا اور رسول اللّٰہﷺ سے ملاقات کی۔ آپﷺ نے میرے چہرہ سے بھوک کے آثار دیکھ کر گھر سے ثرید (گوشت روٹی چور کر تیار کیا گیا کھانا) منگوایا اور میرے ذریعہ اصحابِ صفہؓ کو بلوایا وہ آگئے اور کھانے لگے، مگر مجھے کھانے کے لیے نہیں کہا گیا، جس کی بنا پر میں بہت پریشان ہورہا تھا جب لوگ کھا کر جانے لگے، تو نبی اکرمﷺ نے پیالہ کے کنارہ میں لگے ہوئے کھانا کے بچے حصہ کو اپنی انگلی مبارک سے جمع فرمایا، جو مشکل سے ایک لقمہ ہوا تو میری جانب مخاطب ہوکر فرمایا: ابوہریرہؓ! بسم اللّٰہ پڑھ کر کھاؤ۔ فرماتے ہیں کہ! اس ذات پاک کی قسم ، جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اسی ایک لقمہ میں اتنی برکت ہوئی کہ میں آسودہ ہوگیا ۔(صحیح ابنِ حبان بحوالۂ فتح الباري:صفحہ289،جلد11)
حضرت واثلہؓ بن اسقع فرماتے ہیں کہ میں صفہ میں تھا، میرے صفہ کے ساتھیوں کو سخت بھوک کا احساس ہوا، ان لوگوں نے مجھ سے کہا: اے واثلہؓ! تم رسول اللّٰہﷺ سے ہم لوگوں کے لیے کھانا مانگ کر لے آؤ۔ میں نبی اکرمﷺ کے پاس آیا اور کہا: اے اللّٰه کے رسولﷺ! میرے ساتھی بھوک سے بلبلارہے ہیں، رسول اللّٰہﷺ نے یہ سن کر حضرت عائشہؓ سے فرمایا: اے عائشہؓ! کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ جواب میں عرض کیا: اے اللّٰه کے رسولﷺ! کچھ چوری ہوئی روٹی ہے۔
آپ نے فرمایا: اسی کو لے آؤ وہ ایک چمڑے کے تھیلے میں لے کر آئیں۔ پھر رسول اللّٰہﷺ نے ایک بڑا ڈونگا منگوایا اور چوری ہوئی روٹی اسی میں ڈال دی پھر اپنے دستِ مبارک سے ثرید تیار کرنے لگے، ثرید تیار ہوتے ہوتے ڈونگا بھرگیا، آپ نے ارشاد فرمایا: اے واثلہؓ! تم جاؤ اپنے دس ساتھیوں کوبلا کر لے آؤ، ان میں سے دسویں تم شمار کیے جاؤگے۔ میں گیا، اپنے ساتھیوں کو بلاکر لایا، آپ نے فرمایا: بیٹھ جاؤ، بسم اللّٰہ پڑھ کر کھا نا شروع کرو اور اپنے سامنے ہی سے کھانا، ہرگز بیچ پیالہ سے مت کھانا، کیونکہ برکت کا نزول بیچ ہی میں ہوتاہے۔ جب یہ لوگ آسودہ ہوکر کھا لیے اور جانے لگے تو آپ نے مزید دس اصحابِ صفہؓ کو بلوایا۔ اس طرح 40 چالیس صفہ کے طلبۂ کرامؓ کی دعوت فرمائی۔ یہ آپ کی مبارک دعوت میں شریک ہوکر خوب شکم سیر ہو کر کھا ئے اور کھانا پیالہ میں اسی طرح بچ گیا، کچھ بھی کم نہیں ہوا۔
(الحلیۃ:صفحہ22،23 جلد2)
حضرت واثلہؓ فرماتے ہیں! ماہِ رمضان المبارک میں ہم اصحابِ صفہؓ روزہ رکھتے تھے، افطار کے وقت ہم میں سے ہر ایک کوکوئی صاحبِ خیر اپنے گھر لے جاتے اور افطار کراتے اور کھانا وغیرہ کھلاتے رمضان المبارک کی ایک رات ایسی آئی کہ کوئی شخص بھی ہم لوگوں کو لینے کے لیے نہیں آیا، روزہ ہی کی حالت میں رات گذار دی پھر دوسرے دن روزہ رکھا، اس رات بھی کوئی نہیں آیا، ہم لوگوں نے رسول اللّٰہﷺ سے شدتِ بھوک کی اور دودن سے کھانا نہ ملنے کی شکایت کی۔ آپﷺ نے ایک شخص کو اپنی ازواجِ مطہراتؓ میں سے ہرایک کے گھر بھیجا، تاکہ کھانے کے سلسلہ میں دریافت کرآئے۔ ہر ایک نے یہی کہلوا بھیجا کہ جو کھانا بچ گیا تھا اسے غرباء میں تقسیم کر دیا گیا ہے، اب کچھ بھی نہیں ہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے یہ سن کر اصحابِ صفہؓ سے ارشاد فرمایا: تم لوگ جمع ہو جاؤ۔ سارے جمع ہوگئے پھر رسول اللّٰہﷺ نے ان الفاظ سے دعاء فرمائی ’’اللّٰہم إنا نسألک من فضلک ورحمتک، فإنھما بیدک لایملکہما أحد غیرک‘‘ اے اللّٰه! ہم آپ سے آپ کے فضل ورحمت کا سوال کرتے ہیں ۔ یہ دونوں چیزیں (فضل ورحمت) آپ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے ، آپ کے علاوہ کوئی ان دونوں کا مالک نہیں ہے۔ ابھی نبی اکرمﷺ دعاء ختم ہی کر پائے تھے کہ ایک شخص بھنی ہوئی بکری اور بہت ساری چپاتیاں لے کر آیا اور اندر داخل ہونے کی اجازت مانگی۔ رسول اللّٰہﷺ نے اجازت دے دی ۔ یہ کھانا ہم لوگوں کے سامنے رکھا گیا ہم لوگ خوب آسودہ ہوکر کھائے ۔ پھر رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ إناسألنا اللّٰہ من فضلہ ورحمتہ و قد ذخرلنا عندہ رحمۃ‘‘ ہم نے اللّٰه تعالیٰ سے اس کے فضل ورحمت کا سوال کیا، کیونکہ اللّٰه تعالیٰ ہی کے پاس ہمارے لیے رحمتوں کے ذخیرے اور انبار ہیں۔
(حلیۃالأولیاء:صفحہ22،جلد2)