Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مصحف عثمانی کے سلسلہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا موقف

  علی محمد الصلابی

مصحف عثمانی کے سلسلہ میں عبداللہ بن مسعودؓ کا مؤقف 


مصحف عثمانی سے متعلق عبداللہ بن مسعودؓ کا اختلاف ثابت نہیں ہے۔ اس سلسلہ کی تمام روایات ضعیف ہیں، اور پھر وہ ضعیف روایات جن میں اختلاف ذکر کیا گیا ہے ثابت کرتی ہیں کہ عبداللہ بن مسعودؓ  نے اپنے مؤقف سے رجوع کر لیا تھا، اور جمع قرآن کے سلسلہ میں صحابہؓ کے متفق علیہ موقف کو اختیار کر لیا تھا، اور لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر باقاعدہ خود اس کا اعلان فرمایا، اور مسلمانوں کی جماعت کی طرف رجوع ہونے کا حکم فرمایا [فتنۃ مقتل عثمان بن عفان (1؍78) ]

اور ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ لوگوں سے علم کھینچ کر نہیں اٹھائے گا، بلکہ علماء کی وفات کے ذریعہ سے علم اٹھائے گا۔ اللہ تعالیٰ امتِ محمدیہﷺ کو ضلالت پر جمع نہیں کرے گا، لہٰذا جس امر پر وہ مجتمع ہوئے ہیں تم اس سے اتفاق کرو۔ حق وہی ہے جس پر وہ متفق ہوئے ہیں، اور پھر آپ نے عثمانؓ کو بھی تحریر روانہ کی۔[فتنۃ مقتل عثمان بن عفان (1؍69) ] 

علامہ ابن کثیرؒ نے عبداللہ بن مسعودؓ  کے صحابہؓ کے اجماع کی طرف رجوع کرنے کو بیان کیا ہے۔[البدایۃ والنہایۃ (7؍228) ]

اور امام ذہبیؒ  نے اسے موکد قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں: الحمدللہ یہ وارد ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ  عثمانؓ کے مؤقف سے راضی رہے اور آپ کی متابعت کی۔[سیر أعلام النبلاء (1؍349) ] 

طہٰ حسین نے مصحف، اور عثمان و ابن مسعود رضی اللہ عنہما کے تعلقات کے سلسلہ میں جو کچھ لکھا ہے ناقابل التفات ہے، در اصل اس نے جو زہر افشانی کی ہے وہ سب اپنے مستشرق اساتذہ[الفتنۃ الکبریٰ (1؍159)]اور ان لوگوں کے افکار سے اخذ کیا ہے جنھوں نے ان ضعیف اور رافضی روایات پر اعتماد کیا ہے جو صحابہ کے آپس کے تعلقات کو مسخ کرتی ہیں۔

عبداللہ بن مسعودؓ تو وہ ہیں جنھوں نے فتنہ و اختلاف سے بچنے کے لیے خلیفہ کی متابعت میں منیٰ کے اندر نماز میں قصر کو ترک کر دیا تھا تو کیا ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ منبر پر چڑھ کر لوگوں کو اختلاف پر بھڑکائیں گے ؟جب کہ انہی کا قول ہے کہ اختلاف شر ہے۔

[فتنۃ مقتل عثمان بن عفان (1؍80)] 

رافضی مؤرخین نے روایات وضع کیں اور پھر انہیں عبداللہ بن مسعودؓ کی طرف منسوب کر دیا، انہوں نے ان مکتوبہ روایات کے اندر صحابہ کرامؓ رضی اللہ عنہم کی یہ تصویر کشی کی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے سے بغض و عناد رکھتے تھے، آپس میں جھگڑتے اور فحش کلامی کرتے تھے، یہ اور اس طرح کی روایات ساقط الاعتبار ہیں، علمی اور موضوعی نقد کے سامنے نہیں ٹھہرتی ہیں۔ ایمانی ذوق اور عقل سلیم کے منافی ہیں۔

[عبداللہ بن مسعود؍ عبدالستار الشیخ صفحہ (335) ] 

روافض کا یہ زعم باطل اور جھوٹ ہے کہ عبداللہ بن مسعود،عثمان رضی اللہ عنہما پر طعن و تشنیع کرتے اور ان کی تکفیر کرتے تھے، اور عثمانؓ نے ابن مسعودؓ کو کوڑے لگائے یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے۔ یہ ابن مسعودؓ پر صریح جھوٹ ہے۔ علمائے شریعت اچھی طرح جانتے ہیں کہ ابن مسعودؓ عثمانؓ کی تکفیر نہیں کرتے تھے بلکہ جب عثمانؓ کی بیعت خلافت ہوئی تو عبداللہ بن مسعودؓ  مدینہ سے کوفہ روانہ ہوئے اور کوفہ پہنچ کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور فرمایا: اما بعد! امیر المؤمنین عمر بن خطابؓ  کی وفات ہو گئی، ہم نے اس دن سے بڑھ کر کوئی غم ناک دن نہیں دیکھا، اور ہم محمدﷺ  کے صحابہؓ جمع ہوئے اور اپنے میں سے سب سے بہتر کو اختیار کرنے کی پوری کوشش کی، اور امیر المؤمنین عثمانؓ  سے ہم نے بیعت کی، اور پھر لوگوں نے بیعت کی۔[طبقات؍ ابن سعد (3؍63)] 

یہ واضح ترین بیانات اس بات کی بہت بڑی دلیل ہیں کہ عبداللہ بن مسعودؓ اور دیگر صحابہ کے دل میں عثمانؓ  کا انتہائی بلند مقام تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان صحابہؓ  کی تعریف کی ہے اور انہیں اپنی رضا مندی کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا ہے، وہ اس فرمان الٰہی کو سب سے زیادہ بہتر سمجھنے والے تھے:

يَآ أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب:70)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی سیدھی (سچی) باتیں کیا کرو۔‘‘
عبداللہ بن مسعودؓ  کا قول حقیقت پر مبنی سچا قول تھا۔ ان کی بات انشراح صدر اور یقین و اخلاص کی آواز تھی، کسی خوف و ڈر کی بنیاد پر یہ بات آپ نے نہیں کہی تھی۔ آپ نے یہ کلمات یوں ہی دھوکا دینے کے لیے نہیں ادا کیے تھے اور نہ اس سے مقصود نئی خلافت، مقام و مرتبہ اور منصب کا حصول تھا، لہٰذا یہ بدیہی امر ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف کسی کے دل میں حسد و بغض نہیں تھا، ہر ایک کے پیش نظر حق کی اتباع اور مسلمانوں کی مصلحت تھی۔[عبداللہ بن مسعود؍ عبدالستار الشیخ صحفہ (324)] 

اور جو کچھ ہوا وہ نصیحت و خیر خواہی اور اس کے آداب اور رعیت کی تادیب کے پیش نظر ہوا۔ روافض اور ان کے مقلدین کا جو زعم ہے کہ عثمانؓ  نے عبداللہ بن مسعودؓ  کی اس قدر پٹائی کی کہ وہ وفات پا گئے تو یہ باتفاق اہل علم جھوٹ ہے۔
ابوبکر ابن العربیؒ فرماتے ہیں:
’’عبداللہ بن مسعودؓ  کی پٹائی اور ان کے وظائف و عطیات کو روکنے کی خبریں محض جھوٹ ہیں۔‘‘[العواصم من القواصم صحفہ (63) ] 

عبداللہ بن مسعودؓ سے متعلق اس جھوٹے واقعہ کو لے کر روافض کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ عثمانؓ پر طعن و تشنیع کریں، کیوں کہ نہ تو عثمانؓ نے ان کی پٹائی کی اور نہ ان کے وظائف و عطیات کو بند کیا، بلکہ عثمانؓ عبداللہ بن مسعودؓ  کی قدر و منزلت کو پہچانتے تھے، اور عبداللہ بن مسعودؓ  اپنے امام عثمانؓ کی اطاعت کا سختی کے ساتھ التزام فرماتے تھے۔ آپ ان سے بیعت کر چکے تھے اور آپ کا عقیدہ تھا کہ بیعت کے وقت مسلمانوں میں سب سے افضل عثمانؓ  تھے۔

[عقیدۃ اہل السنۃ والجماعۃ فی الصحابۃ الکرام (3؍1066 )]