Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اصحاب صفہ رضی اللہ عنہم سے متعلق قرآنی آیتیں

  نقیہ کاظمی

اصحابِ صفہؓ سے متعلق قرآنی آیتیں

1: اللہ تعالیٰ نے اصحابِ صفہ کے بارے میں فرمایا:
لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُم بِسِيمَاهُمْ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا۔
(سورۃ البقرہ: آیت نمبر، 273)
ترجمہ: صدقات میں اصل حق ان حاجت مندوں، غرباء نادار کا ہے جو اللّٰه تعالیٰ کے راستہ میں مقید ہوگئے ہوں اور اسی وجہ سے وہ لوگ ملک میں کہیں چلنے پھرنے کا امکان نہیں رکھتے اور ان کے سوال سے بچنے کی وجہ سے ناواقف انہیں مالدار خیال کرتا ہے البتہ تم ان کو ان کے طرز سے پہچان سکتے ہو کہ فقر و فاقہ سے چہرہ پر اثر ضرور آتا ہے۔ وہ لوگوں سے لپٹ کر مانگتے نہیں پھرتے۔
طبقاتِ ابنِ سعد میں ہے کہ حضرت ابنِ کعب قُرظی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس آیت میں فقراء سے مراد اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم ہیں، جو گھر بار چھوڑ کر علمِ دین حاصل کرنے کے لیے صفہ میں پڑے رہتے تھے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 255 جلد، 1)
2: وَلَوْ بَسَطَ اللَّهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ وَلَٰكِن يُنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَاءُ ۚ إِنَّهُ بِعِبَادِهِ خَبِيرٌ بَصِيرٌ۔
(سورۃ الشوریٰ: آیت نمبر، 27)
ترجمہ: اور اگر اللہ تعالیٰ اپنے سب بندوں کے لیے روزی فراخ کر دیتا تو وہ دنیا میں شرارت کرنے لگتے، لیکن جتنا رزق چاہتا ہے اندازے سے ہر ایک کے لیے اتارتا ہے، وہ اپنے بندوں کے مصالح خوب جاننے والا اور ان کا حال دیکھنے والا ہے۔
امام ابنِ جریر طبریؒ اور علامہ ابونعیم اصبہانیؒ نے حضرت عمرو بن حرّیثؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ سیدنا عمروؓ نے فرمایا
إنما نزلت ہذہ الاٰیۃ في أصحاب الصفۃ
یہ آیت اصحابِ صفہؓ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(تفسیر طبری: صفحہ، 30 جلد، 5)
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 338 جلد، 1)
3: وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ۔
(سورۃ الکہف: آیت نمبر، 28)
ترجمہ: اور آپ اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ مقید رکھیے جو صبح وشام اپنے رب کی عبادت محض اس کی رضاء جوئی کے لیے کرتے ہیں۔
جب یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اس وقت رسول اللہﷺ کسی ازواجِ مطہرات کے گھر میں تشریف فرما تھے، یہ آیت کریمہ سنتے ہی آیتِ کریمہ میں ذکر کردہ صفات کی حامل جماعت کو ڈھونڈتے ہوئے باہر تشریف لائے، تو کچھ پراگندہ حال و پراگندہ بال غرباء کو (مسجدِ نبویﷺ) میں دیکھا، جن کے جسم پر صرف ایک کپڑا تھا، اسی سے اپنا ستر چھپا رکھے تھے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول تھے، یہ دیکھ کر نبی اکرمﷺ ان کی مجلس میں بیٹھ گئے اور فرمایا:
الحمد اللہ الذي جعل في أمتی من أمرنی أن اصبر نفسي معہ۔
ترجمہ: تمام تعریف اس پروردگار کی ہے جس نے میری امت میں ایسے افراد پیدا کیے کہ جن کے ساتھ خود مجھے رہنے کا حکم دیا۔
(تفسیر طبري: صفحہ، 155 جلد، 15)
اسی جیسی روایت سننِ ابو داؤد شریف میں بھی آئی ہے جو آرہی ہے۔ وہاں فقرائے مہاجرین کی صراحت ہے کہ یہ لوگ علمِ دین حاصل کرنے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے ہی میں مشغول رہتے تھے۔