Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

غیر مسلم کا نمازِ جنازہ پڑھنا اور اُن کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا


غیر مسلم کا نمازِ جنازہ پڑھنا اور اُن کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا

کسی غیر مسلم کی نمازِ جنازہ جائز نہیں۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس کی صاف ممانعت موجود ہے، ارشاد خداوندی ہے: وَلا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ أَبَدًا وَّلَا تَقُمُ عَلَى قَبُرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ كَفِرُون: اور نماز نہ پڑھ ان میں سے کسی پر جو مر جاوے کبھی، اور نہ کھڑا ہو اس کی قبر پر، وہ منکر ہوئے اللّٰہ تعالیٰ سے اور اس کے رسولﷺ سے اور وہ مر گئے نافرمان۔ اسی طرح غیر مسلم کو مسلمانوں کی قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں، جیسا کہ آیت کریمہ کے الفاظ ولاتقم علی قبرہ: سے معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے قبرستان ہمیشہ الگ الگ رہے۔ پس کسی مسلمان کے اسلامی حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے۔

علامہ سعدالدین مسعود بن عمر بن عبد الله تفتازانیؒ شرح القاصد میں ایمان کی تعریف میں مختلف اقوال نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: اگر ایمان دل و زبان سے تصدیق کرنے کا نام ہو تو اقرار رکن ایمان ہو گا، اور ایمان تصدیق مع الاقرار کو کہا جائے گا لیکن اگر ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہو تو اقرار اس صورت میں، اس شخص پر دنیا میں اسلام کے احکام جاری کرنے کیلئے شرط ہو گا، اس کی نمازِ جنازہ اس کے پیچھے نماز پڑھنا، اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں

دفن کرنا، اس سے زکوٰۃ و عشر کا مطالبہ کیا جانا اور اس طرح کے دیگر اُمور۔

اس سے معلوم ہوا کہ کسی شخص کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بھی اسلامی حقوق میں سے ہے، جو صرف مسلمان کے ساتھ خاص ہیں، اور یہ کہ جس طرح کسی غیر مسلم کی اقتداء میں نماز جائز نہیں، اس کی نماز جنازہ جائز نہیں، اور اس سے عشر و زکوٰۃ کا مطالبہ درست نہیں، ٹھیک اسی طرح کسی غیر مسلم مردے کو مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ دینا بھی جائز نہیں، اور یہ کہ یہ مسئلہ تمام اُمت مسلمہ کا متفق علیہ اور مسلمہ مسئلہ ہے، جس میں کسی کا اختلاف نہیں، چنانچہ ذیل میں مذاہب اربعہ کی مستند کتابوں سے اس مسئلے کی تصریحات نقل کی جاتی ہے۔ امام حاکم: الکافی کی کتاب التحری میں فرماتے ہیں کہ: جب مسلمان اور کافر مردے خلط ملط ہو جائیں تو جن مردوں پر مسلمانوں کی علامت ہو گی ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، اور جن پر کفار کی علامت ہوئی ان کی نمازِ جنازہ نہیں ہو گی۔ اور اگر اُن پر کوئی شناختی علامت نہ ہو تو اگر مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو تو سب کو غسل و کفن دے کر ان کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی، اور نیت یہ کی جائے گی کہ ہم صرف مسلمانوں پر نماز پڑھتے ہیں اور اُن کیلئے دعا کرتے ہیں، اور ان سب کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا، اور اگر دونوں فریق برابر ہوں یا کافروں کی اکثریت ہو تو اُن کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھی جائے گی گا، ان کو غسل و کفن دے کر غیر مسلموں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا۔

مندرجہ بالا مسئلے سے معلوم ہوا کہ اگر مسلمان اور کافر مُردے مختلط ہو جائیں اور مسلمانوں کی شناخت نہ ہو سکے تو اگر دونوں فریق برابر ہوں یا کافر مُردوں کی اکثریت ہو تو اس صورت میں مسلمان مردوں کو بھی اشتنباہ کی بنا پر مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا بدرجہ اولیٰ جائز نہیں، اور کسی صورت میں بھی اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

نیز: الاشباه والنظائر: میں لکھتے ہیں کہ: جب مرتد مر جائے یا ارتداد کی حالت میں قتل کر دیا جائے تو اس کو نہ مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور نہ کسی اور ملت کے قبرستان میں، بلکہ اسے کتے کی طرح گڑھے میں ڈال دیا جائے۔

در مختار: میں ہے کہ: مرتد کو کتے کی طرح گڑھے میں ڈال دیا جائے۔ علامہ محمد امین بن عابدین شامیؒ لکھتے ہیں کہ: نہ اسے غسل دیا جائے، نہ کفن دیا جائے، نہ اسے ان لوگوں کے سپرد کیا جائے جن کا مذہب اس مرتد نے اختیار کیا۔ امام جمال الدین ابو اسحاق ابراہیم بن علی بن یوسف ایشرازی شافعیؒ اور امام محی الدین یحییٰ بن شرف النودیؒ لکھتے ہیں کہ: نہ دفن کیا جائے کسی کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں، اور نہ کسی مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں۔

تشريح: اس مسئلے میں ہمارے اصحاب (شافعیہ) کا اتفاق ہے کہ کسی مسلمان کو کافروں کے قبرستان میں اور کسی کافر کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا۔ اور اگر کوئی ذمی عورت مر جائے جو اپنے مسلمان شوہر سے حاملہ تھی، اور اس کے پیٹ کا بچہ بھی مر جائے تو اس میں چند وجہیں ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ اس کو مسلمانوں اور کافروں کے قبرستان کے درمیان الگ دفن کیا جائے گا، اور اس کی پشت قبلے کی طرف کی جائے گی، کیونکہ پیٹ کے بچے کا منہ اس کی ماں کی پشت کی طرف ہوتا ہے، ابن الصباغ شاشی صاحب البیان اور دیگر حضرات نے اسی قول کو جزماً اختیار کیا ہے، اور یہی ہمارے مذہب کا مشہور قول ہے۔

شیخ امام موفق الدین ابومحمد عبدالله بن احمد بن قدامة المنتدى الحنبلیؒ المغنی میں اور امام شمس الدین ابو الفرج عبدالرحمٰن بن محمد بن حمد بن قدامة المقدسی الحنبلی الشرح الکبیر: میں لکھتے ہیں کہ: اگر نصرانی عورت جو اپنے مسلمان شوہر سے حاملہ تھی، مر جائے تو اسے (نہ تو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کیا جائے اور نہ نصاریٰ کے قبرستان میں، بلکہ) مسلمانوں کے قبرستان اور نصاریٰ کے قبرستان کے درمیان الگ دفن کیا جائے۔ سیدنا احمدؒ نے اس کو اس لئے اختیار کیا ہے کہ وہ عورت تو کافر ہے، اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جائے گا کہ اس کے عذاب سے مسلمان مردوں کو ایذا نہ ہو، اور نہ اسے کافروں کے قبرستان میں دفن کیا جائے گا، کیونکہ اس کے پیٹ کا بچہ مسلمان ہے، اسے کافروں کے عذاب سے ایذا ہو گی، اس لئے اس کو الگ دفن کیا جائے گا۔ مندرجہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ یہ شریعتِ اسلامی کا متفق علیہ اور مسلّم مسئلہ ہے کہ کسی غیر مسلم کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں کیا جا سکتا۔

( آپ کے مسائل اور ان کا حل:جلد:4:صفحہ:370تا375)