Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت ابوثعلبہ خشنیؓ

  نقیہ کاظمی

(1)حضرت ابوثعلبہ خُشنیؓ

امام ابونعیم اصبہانی فرماتے ہیں: ’’لہ في جملۃ أہل الصفۃ ذکر‘‘ کہ اصحابِ صفہؓ میں حضرت ابوثعلبہؓ کا بھی ایک گونہ ذکر آتا ہے ۔

(حلیۃالأولیاء:صفحہ 29،جلد2)۔

حضرت ابوثعلبہؓ کے نام اور ان کے والد کے نام کے سلسلے میں بہت اختلاف ہے۔ امام احمد بن حنبل، یحیٰ بن معین، ابن سعد اور ابن حبان کا کہنا ہے کہ ان کا نام ’’جُرہُم بن ناشم‘‘ ہے۔

(طبقات ابنِ سعد:صفحہ416،جلد7، الثقات نمبر (201) الإ صابۃ:صفحہ30،جلد4)

واقعۂ اسلام:

ابن سعد کی روایت ہے کہ جس وقت رسول اللّٰہﷺ غزوۂ خیبر کی تیاری فرمارہے تھے ، یہ خدمتِ نبویﷺ میں حاضر ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے اور رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ غزوۂ خیبر میں شریک رہے۔

پھرسات افراد پر مشتمل ’’ خُشین ‘‘ کا وفد رسول اللّٰہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ سارے لوگ حضرت ابوثعلبہؓ ہی کے پاس قیام کئے۔

(طبقات:صفحہ416،جلد7، الإصابۃ:صفحہ30،جلد4)

ابنِ کلبی کی روایت ہے کہ حضرت ابو ثعلبہؓ بیعتِ رضوان میں شریک رہے (٭بیعتِ رضوان: صلحِ حدیبیہ ماہ ذی قعدہ 6ھ؁ کے موقع پہ رسول اللّٰہﷺ نے (جومکہ معظمہ سے نومیل کے فاصلہ پر ہے اسے آج کل شُمیسی کہاجاتاہے) حضرت عثمان غنیؓ کو رؤساء قریش اور ابوسفیانؓ کے نام یہ پیغام دے کر بھیجا کہ ہم لڑنے نہیں آئے ہیں، ہم کو آنے دو، عمرہ کرکے چلے جائیں گے۔ حضرت عثمانؓ اُدھر روک لیے گئے اِدھر یہ خبر مشہور ہوگئی کہ حضرتِ عثمانؓ قتل کردیئے گئے۔ اس وقت رسول اللّٰہﷺ نے ’’کیکر‘‘ کے درخت کے نیچے تمام صحابۂ کرامؓ کو جمع کیا۔ سب نے آپ کے دستِ مبارک پر بیعت جہاد کی کہ جب تک جان میں جان ہے جہاد کریں گے مگر بھاگیں گے نہیں۔ اللّٰه تعالیٰ نے اس بیعت کی شرفِ قبولیت کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا:

لقد رضی اللّٰہ عن المؤمنین إذ یبایعونک تحت الشجرۃ

(سورۃ الفتح آیت:18)

اللّٰه تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے، اسی کی مناسبت سے اسے بیعتِ رضوان کہا جاتا ہے۔ (فتح الباری:صفحہ514،جلد7) اور پیغمبر اسلامﷺ نے غزوۂ خیبر کے موقع سے انہیں مالِ غنیمت میں شریک فرمایا اور حضرت ابوثعلبہؓ کو ان ہی کی قوم ’’ خشین ‘‘ کے پاس داعئ اسلام اور مبلغِ اسلام بناکر بھیجا، جس کے نتیجہ میں پوری قوم شرفِ اسلام سے بہرہ ور ہوگئی۔

عبادت اور خلقت خداوندی میں غور و فکر

حضرت ابوثعلبہؓ بہت زیادہ عبادت گذارتھے، ان کا معمول تھاکہ روز انہ رات میں گھر سے باہر نکلتے اور کافی دیر تک اللّٰه تعالیٰ کی خلقت: آسمان، تارے وغیرہ میں غور و فکر کرتے، پھر واپس لوٹ کر اللّٰہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گرجاتے۔ ان کا انتقال بھی سجدہ ہی کی حالت میں ہوا۔ (الإصابۃ:صفحہ30،جلد4)

نبی اکرمﷺ سے ملکِ شام میں زمین کا مطالبہ

حضرت ابوثعلبہؓ کا بیان ہے کہ میں نبی اکرمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللّٰه کے رسولﷺ: آپ ملکِ شام میں میرے نام اتنی زمین الاٹ کردیجیے۔ رسول اللّٰہﷺ نے اس وقت الاٹ نہیں کیا اور صحابۂ کرامؓ کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا: کیاتم لوگ اس کی بات نہیں سن رہے ہو؟

میں نے عرض کیا: اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے میں ضرور اس زمین کو حاصل کرکے رہوں گا۔ تونبی اقدسﷺ نے اس مطلوبہ زمین کو میرے نام الاٹ کر دیا۔

(مسند أحمد:صفحہ193،194،جلد4)

انہوں نے شام میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں ان کی ذریت نے نشوونما پائی ۔(الثقات :(201)

وفات

حضرت ابوثعلبہؓ اپنی وفات سے پہلے اپنے شاگردوں اور متوسلین سے کہا کرتے تھے کہ مجھے اللّٰه تعالیٰ کی ذات سے یہ امید ہے کہ میری موت تم لوگوں کی طرح نہیں ہوگی بلکہ عام لوگوں کی موت سے الگ تھلگ میری موت ہوگی اور ایسا ہی ہوا۔

تہجدکی نماز پڑھ رہے تھے، سجدہ کی حالت میں روح قبض ہوگئی، ان کی صاحبزادی نے اسی وقت انہیں خواب میں دیکھا کہ والد محترم کا انتقال ہوچکا ہے، وہ گھبرائی ہوئی اٹھی اپنی امی جان سے معلوم کیا کہ ابوجان کہاں ہیں ؟

امی نے جواب دیاکہ ابھی نماز پڑھ رہے ہیں، بیٹی نے پاس آکر ابو جان ! ابوجان! آواز دی مگر کوئی جواب نہ پاکر انہیں حرکت دی تو ان کا جسم ایک جانب گرگیا، گھر والوں کو یقین ہوگیا کہ سجدہ کی حالت میں ہی روح قفسِ عنصری سے نکل چکی ہے۔ (سیر اعلام النبلاء :صفحہ،571،570،جلد2، الإصابۃ:صفحہ30،جلد4) یہ سانحۂ ارتحال 75ھ؁ ’’شام‘‘ میں پیش آیا۔

(طبقات ابن سعد:صفحہ416،جلد7)

شاگردانِ کرام

حضرت ابوثعلبہؓ کے شاگردوں میں ابو ادریس خولانی، سعید بن مسیب، مکحول شامی اور ابو قلابہ وغیرہ ہیں ۔(تہذیب التہذیب:صفحہ51،جلد12)