Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حکیم الامت حضرت ابوالدرداءؓ

  نقیہ کاظمی

(2)حکیم الامت حضرت ابوالدرداءؓ

حافظ ابوعبداللّٰہ نیشاپوری رحمہ اللّٰہ اور علامہ ابونعیم اصفہانی رحمہ اللّٰہ نے حضرت ابوالدرداءؓ کو صفہ کے طالب علموں میں شمار کیاہے۔

(حلیۃ الأولیاء:صفحہ22۔جلد2)

حضرت ابوالدرداءؓ اپنی کنیت ’’ابوالدرداءؓ‘‘ سے ہی مشہور ہیں، جب کہ نام عویمر ہے اور والد کے نام میں مختلف اقوال ہیں: قیس ،مالک، عامر، زیدبن قیس وغیرہ انصار کے قبیلۂ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔(تہذیب التہذیب:صفحہ175۔جلد8)

طبقۂ صحابۂ کرامؓ کے عبّاد وزہّاد میں بہت اعلیٰ اور ممتاز مقام رکھتے ہیں، حکیم الامت کے لقب سے صحابۂ کرامؓ میں معروف و مشہور ہیں۔ قرآن، حدیث، فقہ، فرائض، حساب اور اشعارِ عرب کے جامع عالم ومعلم اور دمشق کے قاضی وسید القراء ہیں، جامعینِ قرآن میں ان کا بھی شمار ہوتا ہے ۔

واقعۂ اسلام

حضرت ابوالدرداءؓ انصار صحابۂ کرامؓ میں سب سے آخر میں غزوۂ بدر کے دن مشرف بہ اسلام ہوئے ہیں۔ غزوۂ بدر کے دن اسلام قبول کرنے کی وجہ سے حضرت عمرؓ نے انہیں بدری صحابۂ کرامؓ میں شمار کیا ہے۔ بیت المال سے ہر ماہ 400 درہم وظیفہ دیا کرتے تھے۔

ان کے اسلام لانے کا واقعہ اس طرح منقول ہے کہ حضرت ابوالدرداءؓ اپنے گھر میں بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے، ایک دن حضرت عبداللّٰہ بن رواحہؓ ومحمد بن مسلمہؓ ان کے گھر میں گھس آئے اور ان کے بتوں کو توڑ ڈالا حضرت ابودرداءؓ اٹھے اور بتوں کے ٹوٹے ہوئے پتھروں کو اکٹھا کرنے لگے اور یہ کہنے لگے، اے بت! تیری ہلاکت و بربادی ہو! تیرے اندر اتنی بھی طاقت نہیں کہ تو اپنی جانب سے دفاع کرسکے اور اپنے توڑنے والوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتار سکے۔ ان کی بیوی ام الدرداءؓ ان کی نقل وحرکت کو دیکھ رہی تھی اوران کی باتیں سن رہی تھی تو کہنے لگی اگر یہ بت نفع و ضرر کے مالک ہوتے تو ضرور اپنی جانب سے دفاع کرتے اوران کے توڑنے والے ضرور تباہ وبرباد ہوجاتے۔

حضرت ابودرداءؓ پر ان باتوں کا گہرا اثر ہوا، انہوں نے اپنی بیوی ام الدرداءؓ کو مخاطب کرکے کہا! میرے غسل کرنے کے لیے غسل خانہ میں جلدی پانی رکھو۔ یہ اٹھے اور غسل کیا، کپڑے تبدیل کئے اور سیدھے بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضری دینے کے لیے روانہ ہوگئے۔

حضرت عبداللّٰہ بن رواحہؓ نے انہیں جب آتا ہوا دیکھا تو کہا! اے اللّٰه کے رسولﷺ! ابودرداءؓ ہماری ہی تلاش میں آرہاہے۔ رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں، بلکہ وہ اسلام قبول کرنے کے لیے آرہا ہے، میرے رب نے ابودرداءؓ کے اسلام لانے کے سلسلے میں مجھ سے وعدہ کیا ہے، ایساہی ہوا، وہ دربارِ نبویﷺ میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے۔(المستدرک:صفحہ336،337۔جلد3،)

حضرت ابوالدرداءؓ پیغمبراسلامﷺ اور دیگر صحابۂ کرامؓ کی نظر میں

غزوۂ احد میں حضرت ابوالدرداءؓ نے پوری شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کیا تھا اور بڑے کرتب دکھلائے تھے ،جس سے خوش ہوکر رسول اللّٰهﷺ نے دادِشجاعت دی اورارشاد فرمایا: ’’ نعم الفارس عویمر ‘‘ عویمر(حضرت ابوالدرداءؓ کانام ہے) بہترین شہ سوار ہے۔ اور فرمایا: ’’ ھو حکیم أمتی‘‘ وہ میری امت کا حکیم و دانا ہے۔ (المستدرک:صفحہ337۔جلد3)

حضرت انسؓ کابیان ہے:

ومات النبيﷺ ولم یجمع القرآن غیرأربعۃ: أبوالدرداءؓ، ومعاذ بن جبلؓ وزید بن ثابتؓ وأبو زیدؓ۔

(صحیح بخاري:صفحہ748۔جلد2،حدیث نمبر5004)

ترجمہ: نبی اکرمﷺ کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے وقت صرف چار آدمی حافظِ قرآن تھے۔ ابوالدرداءؓ، معاذ بن جبلؓ، زید بن ثابتؓ اور ابوزیدؓ۔ حضرت انسؓ کا یہ فرمان کہ صرف چار حافظِ قرآن تھے ’’یہ صرف قبیلۂ خزرج‘‘ کے لوگوں کے اعتبار سے ہے، نہ کہ تمام صحابۂ کرامؓ کے اعتبارسے ہے اور قبیلہ اوس کے لوگوں پر قبیلۂ خزرج کا اس منقبت کو شمار کرکے فخر کرنا ہے۔

(فتح الباری: صفحہ51۔جلد9)

حضرت ابوذر غفاریؓ نے حضرت ابوالدرداءؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’ماحملت ورقاء ولاأظلت خضراء اعلم منک یا أبا الدرداءؓ‘‘ اے ابوالدرداءؓ! آسمان و زمین کے درمیان آپ سے بڑا کوئی عالم نہیں ہے۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ243۔جلد2)

حضرت معاذ بن جبلؓ نے بطورِ خاص وفات کے وقت چار حضرات سے علم حاصل کرنے کی وصیت کی۔

حضرت ابوالدرداءؓ، حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ، سلمان فارسیؓ اور عبداللّٰہ بن سلامؓ جنہوں نے یہودیت کے بعد اسلام قبول کیاہے۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ343۔جلد2)

امام المغازی محمد بن اسحاق کہتے ہیں کہ صحابۂ کرامؓ آپس میں کہا کرتے تھے ’’أتبعنا للعلم والعمل أبوالدرداءؓ‘‘ کہ ہم لوگوں میں سے سب سے بڑے عالم باعمل ابوالدرداءؓ ہیں ۔

حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ لوگوں سے فرمایا کرتے تھے تم لوگ ہمارے سامنے دو عقلمند شخص کی سند سے روایت بیان کیا کرو اور ان ہی دو عقلمندوں کی باتوں کو بھی ہمارے سامنے نقل کیا کرو۔ پوچھا گیا وہ دو عقلمند کون ہیں؟ جواب میں فرمایا: حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ۔

(طبقات ابنِ سعد:صفحہ350۔جلد2، رجالہ ثقات۔)

امام المحدثین حضرت مکحول شامی کا بیان ہے کہ حضرات صحابۂ کرامؓ آپس میں تذکرہ کرتے تھے کہ ہم میں سب سے زیادہ ایک دوسرے پر رحم کرنے والے حضرت ابوبکرؓ ہیں، ہم میں حق گو حضرت عمرؓ ہیں، ہم میں سب سے بڑے امین حضرت ابوعبیدہؓ ہیں، ہم میں حلال وحرام کے سب سے بڑے عالم حضرت معاذ بن جبلؓ ہیں اور ہم میں سب سے اچھے قارئ قرآن حضرت اُبیؓ ہیں۔ ایک ایسا آدمی جس کے پاس علم ہی علم ہے وہ عبداللّٰہ بن مسعودؓ ہیں ’’وتبعہم عویمر أبوالدرداءؓ بالعقل‘‘ عقل وفہم میں ان حضرات کے بعد حضرت ابوالدرداءؓ کا درجہ ہے۔

مسروق رحمہ اللّٰہ کہتے ہیں کہ میں نے تمام صحابۂ کرامؓ کا علم چھ حضرات کے پاس پایا: حضرت عمرؓ ، حضرت علیؓ، حضرت أبی بن کعبؓ، حضرت زیدؓ، حضرت ابوالدرداءؓ اور حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ پھر ان سارے حضرات کا علم حضرت علیؓ و عبداللّٰہ بن مسعودؓ کے پاس جمع ہوگیا۔

(طبقات ابنِ سعد:صفحہ351۔جلد2، إسنادہ صحیح)

معلم وقاضی بناکر دمشق بھیجا جانا

حضرت یزید بن أبی سفیانؓ نے امیر المؤ منین حضرت عمرؓ کے پاس یہ خط لکھا کہ دن بہ دن اہل شام کی تعداد بڑھتی چلی جارہی ہے، جس سے پورا ملکِ شام آبادیوں سے کھچا کھچ بھرچکا ہے، جس کی بناپر قرآن وحدیث اور دینِ اسلام کی تعلیم دینے والے معلمین ومدرسین کی اشد ضرورت ہے، لہٰذا حضرت والا سے درخواست ہے کہ کچھ ایسے رجال کار روانہ فرمائیں جو قرآن و حدیث اور دینِ اسلام کی صحیح تعلیم دے سکیں۔

یہ خط ملتے ہی حضرت عمرؓ نے پانچ کبارِ علماء: حضرت ابو ایوب انصاریؓ، حضرت ابی بن کعبؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت عبادۃ بن صامتؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ کو طلب فرمایا: یہ حضرات دربارِ عمریؓ میں حاضر ہوئے، تو ان حضرات کو مخاطب کرکے حضرت عمرؓ نے یزید بن ابی سفیانؓ کا خط پڑھ کر سنایا اور فرمایا: آپ میں سے کوئی تین شخص آپسی رضامندی سے اس منصب کو قبول کرکے اس مہم کے لیے روانہ ہوجائیں۔

ان حضرات نے بیک زبان ہوکر جواب دیا ہم لوگ اس مہم کے لیے آپس میں قرعہ اندازی نہیں کرتے، بلکہ خود سے ہی دو حضرات کو اس مہم کے لیے معذور سمجھتے ہیں۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ زیادہ ضعیف اور بوڑھے ہوچکے ہیں اور حضرت ابی بن کعبؓ مسلسل بیمار رہتے ہیں، جس کی بناپر یہ دونوں حضرات معذور ہیں، رہ گئے تین حضرات، تویہ اس مہم کے لیے روانہ ہوجائیں۔

حضرت عمرؓ نے ان حضرات کی پیش کش کو بسر و چشم قبول کرنے کے بعد فرمایا: سب سے پہلے آپ لوگ ’’حمص‘‘ جائیے کیونکہ وہاں کے لوگ مختلف مزاج اور مختلف طور وطریق کے ہیں، ان میں سے ایک ذہین وعقلمند شخص کو تلاش کیجئے۔ جب دستیاب ہوجائے تو اس کے ذریعہ سے تمام لوگوں کو جمع کیجئے اور لوگوں کو خوب جانچ کردیکھئے، جب اہلِ ’’حمص‘‘ سے پورے طورپر مطمئن ہوجائیں تو اپنے تین ساتھیوں میں سے جسے مناسب سمجھیئے اسے وہاں چھوڑ دیجئے، پھر دوسرا ساتھی دمشق کے لیے روانہ ہوجائے اور تیسرا ساتھی فلسطین کے لیے روانہ ہوجائے۔

یہ تینوں حضراتؓ حضرت عمرؓ کے مشورے کو بسر و چشم قبول کرکے مدینہ منورہ زادہا اللّٰہ شرفۃ وعظمۃ کو چھوڑ کر روانہ ہوگئے۔ حضرت عمرؓ کی ہدایت کے مطابق اہلِ حمص سے پورے طور پر مطمئن ہونے کے بعد وہاں کے لیے عبادۃ بن صامتؓ کو منتخب فرمایا اور حضرت ابوالدرداءؓ دمشق کے لیے روانہ ہوگئے اور حضرت معاذ بن جبلؓ فلسطین کے لیے روانہ ہوگئے اور فلسطین ہی میں ’’طاعونِ عمواس‘‘ میں وفات پائی۔ ان کے خلاء کو پُر کرنے کے لیے حضرت عبادۃ بن صامتؓ ’’حمص‘‘ سے ’’فلسطین‘‘ تشریف لے آئے اورحضرت ابوالدرداءؓ زندگی کی آخری سانس تک دمشق ہی میں رہے اور یہیں ان کا انتقال ہوا۔ (طبقات ابنِ سعد:صفحہ356،357۔جلد2، سیرأعلام النبلاء:صفحہ244۔جلد2)

حضرت عمرؓ نے حضرت ابوالدرداءؓ کو دمشق کا معلم و مدرس بناکر بھیجا تھا، حضرت امیر معاویہؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں انہیں دمشق کا قاضی مقرر کردیا

علامہ ذہبی ان کے تذکرہ میں رقم طراز ہیں: ’’وکان عالم أہل الشام ومقرئ أہل دمشق وفقیہہم و قاضیہم ‘‘ وہ اہل شام کے عالم، اہل دمشق کے مقری وقاری ان کے فقیہ وقاضی تھے۔ (تذکرۃالحفاظ:صفحہ24۔جلد1)

حضرت ابوالدرداءؓ کا مدرسہ

حضرت ابوالدرداءؓ نے دمشق پہنچ کر جامعِ دمشق میں اپنا مدرسہ قائم کیا۔ روزانہ نمازِ فجرکے بعد جامعِ دمشق میں بیٹھ جاتے اور قرآن کریم کا ایک جزء تلاوت کیا کرتے تھے، تمام طلبۂ کرام قرآن کریم پڑھنے کے لیے ان کو گھیرلیا کرتے تھے اور ان کے قرآن کریم کے الفاظ کی ادائیگی بغور سنتے تھے، پھر آپس میں دس دس ساتھی تقسیم ہوکر تلاوت کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ کیاکرتے تھے، ان طلبۂ کرام کے عریف و ترجمان ابنِ عامر تھے، ایک دن حضرت ابوالدرداءؓ نے اپنے مدرسہ کے طلبۂ کرام کو شمار کرایا ’فجاؤا الفا وست مائۃ ونیفاً‘‘ تو ان کی تعداد سولہ سو سے کچھ زائد ہوئی۔

(سیر اعلام النبلاء :صفحہ346۔جلد2، رجالہ ثقات۔)

ابومالک کا بیان ہے کہ حضرت ابوالدرداءؓ نماز سے فراغت کے بعد طلبۂ کرام کو درس دینے کے لیے بیٹھ جاتے، خودبھی پڑھتے اور طلبہ سے بھی پڑھوایا کرتے تھے، جب مجلسِ درس سے اٹھنا چاہتے تو شاگردوں سے دریافت کرتے کہ آج کسی کے یہاں سے ولیمہ یا عقیقہ وغیرہ کی دعوت تو نہیں آئی ہے کہ جہاں ہم لوگوں کی شرکت ضروری ہو؟ اگر وہ لوگ جواب دیتے ہاں! تو پھر دعوت میں شرکت کے لیے تشریف لے جاتے ورنہ فرماتے : ’’ اللّٰہم إنی أشہدک أني صائم ‘‘ اے اللہ میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ میں روزہ سے ہوں۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ346۔جلد2)

ایک حدیث معلوم کرنے کی غرض سے ایک طالب علم مدینہ منورہ سے سفر کرکے حضرت ابوالدرداءؓ کی خدمت میں دمشق آیا۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے اس سے فرمایا تم یہاں کسی ضرورت سے یا تجارت کی غرض سے آئے ہو؟ اس نے کہا میں صرف ایک حدیث شریف آپ کی زبانِ مبارک سے سننے کے واسطے آیاہوں۔ یہ سن کر حضرت ابوالدرداءؓ نے فرمایا: تم خوش ہوجاؤ، میں نے رسول اللّٰہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بندہ طلبِ علم میں نکلتاہے تو فرشتے اس کے لیے پر بچھاتے ہیں اور وہ جنت کے راستے طے کرتا چلا جاتا ہے اور اس کے لیے زمین وآسمان والے دعاء مغفرت کرتے ہیں حتی کہ سمندر کی مچھلیاں دعاء کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پرایسی ہے جیسے چودہویں کے چاند کی تمام ستاروں پر، اہلِ علم انبیاء کے وارث ہیں اور انبیاء دینار اور درہم کا وارث نہیں بناتے بلکہ علم کا وارث بناتے ہیں، جوشخص علم حاصل کرے بڑاحصہ پائے گا۔(جامع ترمذي شریف:صفحہ97۔جلد2)

حضرت ابوالدرداءؓ قرآن، حدیث، فقہ، فرائض حساب اور اشعارِ عرب کے جامع عالم و معلم تھے اور ان علوم کا درس دیتے تھے ۔عبداللّٰہ بن سعیدؓ اپنا چشم دید واقعہ بیان کرتے ہیں ! رأیت أباالدرداءؓ دخل المسجد مسجد النبيﷺ ومعہ من الأ تباع مثل مایکون مع السلطان، فمن سائل عن فریضۃ، ومن سائل عن حساب، ومن سائل عن شعر، ومن سائل عن حدیث، ومن سائل عن معضلۃ۔

ترجمہ:میں نے ابوالدرداءؓ کو اس حال میں دیکھا کہ وہ مسجدِ نبویﷺ میں داخل ہو رہے تھے اور ان کے متبعین ان کے ساتھ یوں چل رہے تھے جیسے بادشاہ کے ساتھ حشم وخدم ہوتے ہیں، ان میں کوئی فریضہ کا سوال کرتا، کوئی حساب پوچھتا تھا کوئی شعر کی معلومات حاصل کرتا تھا، کوئی حدیث معلوم کرتا تھا، کوئی مشکل مسائل کاحل پوچھتا تھا۔

(کتاب الجرح والتعدیل:صفحہ27۔ جلد3، قسم2)

دوسرے صحابۂ کرامؓ کی طرح حضرت ابوالدرداءؓ بھی احادیثِ رسول اللّٰہﷺ کے بیان کرنے میں بہت احتیاط سے کام لیتے تھے۔ حدیثِ رسولﷺ بیان کرتے وقت یہ کہتے ’اللّٰہم إن لاہکذا، وإلاّ فکشکلہِ" اے اللّٰه اگر اس طرح نہیں ہے تو اسی کے مثل ومانند ہے۔

ام الدرداءؓ کا بیان ہے کہ حضرت ابوالدرداءؓ حدیث شریف بیان کرتے وقت مسکراتے تھے۔ میں نے کہا! سارے لوگ آپ کو بے وقوف سمجھیں گے۔ تو فرمانے لگے ’’ کان رسول اللّٰہﷺ لایحدث بحدیث إلا تبسم ‘‘ کہ رسول اللّٰہﷺ زبانِ مبارک سے جوبھی ارشادِ عالی بیان فرماتے تو مسکرائے بغیر نہیں رہتے تھے۔

(مسند أحمد:صفحہ199۔جلد5)

شاگردوں میں جلیل القدر صحابۂ کرامؓ

حضرت ابوالدرداءؓ کے شاگردوں میں جلیل القدرصحابۂ کرامؓ کی ایک لمبی فہرست ہے ناقدِ حدیث علامہ شمس الدین ذہبی نے مثال کے طور پر مندرجہ ذیل صحابۂ کرامؓ کے اسماء گرامی ذکر کئے ہیں: حضرت أنسؓ بن مالک، فضا لۃ بن عبیدؓ، عبداللّٰہ بن عباسؓ، عبداللّٰہ بن عمرؓو بن عاص اور ابوأمامہؓ اور خود حضرت ابو الدرداءؓ کے اساتذہ میں صرف نبی اکرمﷺ کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ذہبی رقم طراز ہیں ’’ ولم یبلغنا أبداً أنہ قرأ علی غیر النبيﷺ ‘‘ کہ ہمارے مبلغِ علم میں یہی ہے کہ انہوں نے نبی اکرمﷺ کے علاوہ کسی سے بھی تعلیم حاصل نہیں کی ہے۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ336۔جلد2۔)

احادیث کی تعداد

علامہ ذہبی نے مجموعۂ ذخیرۂ احادیث میں ان کی سند سے روایت کی جانے والی احادیث کی تعداد 179 تحریر کی ہے، جن میں سے صحیح بخاری وصحیح مسلم میں صرف دو حدیثیں ہیں اور صرف صحیح بخاری میں تین حدیثیں ہیں اور صحیح مسلم میں آٹھ حدیثیں ہیں بقیہ دیگر کتبِ احادیث میں ہیں۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ336۔جلد2)

دنیا سے بے رغبتی

پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت ابوالدرداءؓ کے درمیان مواخات کراکے بھائی بھائی بنادیا تھا تو حضرت سلمانؓ حضرت ابوالدرداءؓ کی ملاقات کو گئے، کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی بیوی محترمہ ام الدرداءؓ أم الدرداءؓ: علامہ ذہبی لکھتے ہیں ’’زوجتہ أم الدرداءؓ العالمۃ‘‘ کہ ان کی بیوی محترمہ ام الدرداءؓ عالمہ تھیں۔

(سیرأعلام النبلاء:صفحہ336۔جلد2)

یہ بھی اپنے شوہر کی طرح بہت نیک پارسا تھیں۔ ایک مرتبہ یہ دعا کی، اے اللّٰہ! ابوالدرداءؓ نے مجھے اس دنیا میں پیغامِ نکاح دیا اور مجھ سے شادی کی ہے۔ اے اللّٰہ! اب میں انہیں آپ کے واسطہ سے پیغامِ نکاح دیتی ہوں اور آپ سے یہ سوال کرتی ہوں کہ جنت میں انہیں میرا شوہر بنادیجیؤ۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے یہ دعاء سن کر فرمایا: اگر تو واقعتاً ایسا ہی چاہتی ہے تو میری وفات کے بعد کسی سے شادی مت کرنا، تاکہ میں ہی اس دنیا میں تمہارا پہلا اور آخری شوہر رہوں۔ جب حضرت ابو الدرداءؓ کا انتقال ہوگیا تو ام الدرداءؓ کے حسن و جمال اور ان کے تقویٰ و طہارت کو دیکھ کر شام کے گورنر حضرت امیر معاویہؓ نے انہیں پیغامِ نکاح دیا۔ تو انھوں نے یہ کہہ کر مسترد کردیاکہ اللّٰه کی قسم! میں دنیا میں کسی سے شادی نہیں کروں گی بلکہ انشاء اللّٰه جنت میں ابوالدرداءؓ سے شادی کروں گی۔

(حلیۃالأولیاء:صفحہ224،225۔جلد2)

میلے کچیلے کپڑے پہنی ہوئی ہیں، حضرت سلمانؓ نے پوچھا: کیوں بھاوج کیا حال ہے؟ انہوں نے جواب دیا: تمہارے بھائی ابوالدرداءؓ میں دنیاداری اور دنیا کی بالکل رغبت نہ رہی، اتنے میں حضرت ابوالدرداءؓ آگئے، جلدی سے حضرت سلمانؓ کے لیے کھانا تیار کیا اور ان سے کہنے لگے آپ کھائیے، میں روزہ سے ہوں۔ حضرت سلمانؓ نے فرمایا: میں نے تو نہیں کھانا جب تک تم بھی نہیں کھا تے۔ حضرت ابوالدرداءؓ نے روزہ توڑ ڈالا اور کھانے میں شریک ہوگئے۔ جب رات ہوئی تو حضرت ابوالدرداءؓ تہجد کی نماز کے لیے اٹھنے لگے، حضرت سلمانؓ نے فرمایا: ابھی سوجائیے۔ وہ سو رہے، پھر اٹھنے لگے تو حضرت سلمانؓ نے دوبارہ سونے کے لیے کہا، وہ سوگئے، جب اخیر رات ہوئی تو حضرت سلمانؓ نے فرمایا اب اٹھیے! خیر دونوں نے تہجد کی نماز پڑھی، پھر حضرت سلمانؓ نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا: بھائی صاحب! آپ کے پروردگار کا آپ پرحق ہے، آپ کی جان کا بھی آپ پر حق ہے اور آپ کی بیوی کا بھی آپ پر حق ہے، تو ہر ایک حق والے کاحق اداکریں۔ حضرت ابوالدرداءؓ یہ سن کر نبی اکرمﷺ کی خدمتِ اقدس میں سیدھے حاضر ہوئے اور آپﷺ سے ذکر کیا۔ آپﷺ نے حضرت سلمانؓ کی تصدیق کرتے ہوئے فرمایا:’’ صدق سلمانؓ‘‘ سلمان سچ کہتا ہے۔

(صحیح بخاري شریف:صفحہ906۔جلد2، حدیث نمبر6139)

حضرت ابوالدرداءؓ کا بیان ہے کہ بعثتِ نبوی سے پہلے میں تاجر تھا۔ جب اسلام آیا تو میں نے اپنی زندگی میں تجارت و عبادت دونوں کو جمع کرلیا کہ تجارت بھی کرتا اور عبادت بھی کیا کرتا تھا لیکن یہ دونوں ایک ساتھ جمع نہ ہوسکے کہ تجارت بھی کی جائے اور عبادت بھی کی جائے اور یہ کیسے دونوں ایک ساتھ جمع ہوسکتے؟ لہٰذا میں نے تجارت چھوڑدی اور عبادت کو لازم پکڑ لیا۔

(طبقات ابنِ سعد:صفحہ391۔جلد7، مجمع الزوائد:صفحہ367۔جلد9۔ وقال: رواہ الطبرانی و رجالہ رجال الصحیح۔)

(٭علامہ شمس الدین ذہبی رقم طراز ہیں کہ یہی صوفیاء کرام وبوریہ نشین حضرات کا طریقہ ہے، لیکن بہتر اور افضل یہی ہے کہ تجارت وعبادت دونوں اپنے اپنے اوقات میں ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ میں لوگوں کے مزاج اور حالتیں مختلف ہیں، بعض دونوں کو بحسنِ خوبی انجام دے لیتے ہیں، جیسے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور عبدالرحمنؓ بن عوف اور صحابۂ کرامؓ کے بعد عبداللّٰہ بن مبارک رحمۃ اللّٰہ ہیں۔ بعض دونوں کے جمع کرنے سے عاجز رہ جاتے ہیں تو وہ عبادت پر اکتفاء کرتے ہیں، بعض شروع میں خوب اچھی طرح تجارت کرتے رہتے ہیں لیکن عبادت الٰہی میں منہمک ہونے کی وجہ سے تجارت چھوڑ بیٹھتے ہیں اور بعض لوگ اس کے برعکس ہیں بہرحال شریعت میں ہرچیز کی گنجائش ہے ’’ ولکن لابد من النہضۃ بحقوق الزوجۃ والعیال ‘‘ البتہ بیوی اوربچوں کے حقوق اداکرنے کے لیے تجارت وغیرہ کے ذریعہ کچھ مال حاصل کرنا ضروری ہے، تاکہ بیوی وبچوں کی زندگی صحیح گذر سکے۔(سیر اعلام النبلاء:صفحہ338۔جلد2)

عبادت اور خشیتِ الٰہی

عون بن عبداللّٰہ کا بیان ہے کہ میں نے ام الدرداءؓ سے معلوم کیا کہ حضرت ابوالدرداءؓ کس عبادت کا زیادہ اہتمام کرتے تھے؟ جواب دیا: ’’ التفکر والاعتبار‘‘ اللّٰه تعالیٰ کی مخلوق میں غور و فکر اور تدبر کرنے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرنے میں۔

(حلیۃالأولیاء:صفحہ208۔جلد1)

حضرت ابوالدرداءؓ فرماتے ہیں ’’تفکر ساعۃ خیرمن قیام لیلۃ ‘‘ ایک ساعت، ایک گھڑی اللّٰه تعالیٰ کی مخلوق میں غور و فکر کرنا رات بھر تہجد کی نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔

(طبقات ابن سعد:صفحہ392۔جلد7، الحلیۃ:صفحہ209۔جلد1)

ایک مرتبہ حضرت ابوالدرداءؓ سے سوال کیا گیا کہ دن بھر میں کتنی تسبیحات پڑھ لیتے ہیں؟ جواب دیا: ’’مائۃ ألف‘‘ ایک لاکھ مرتبہ تسبیح پڑھ لیتا ہوں الا یہ کہ میری انگلیاں شمار کرنے میں خطا کرجائیں۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ348۔جلد2)

حضرت ابوالدرداءؓ کا بیان ہے اگر مجھے تین چیزیں میسر نہ ہوتیں تو میں ہرگز زندہ رہنا پسند نہیں کرتا۔

1- روزہ کی حالت میں دوپہر کے وقت سخت پیاس کا لگنا۔

2- رات کے وقت اللّٰه تعالیٰ کے حضور میں سجدہ کرنا۔

3- ’’مجالسۃ اقوام ینتقون جید الکلام کما ینتقی أطایب الثمر ‘‘ ایسے لوگوں کی صحبت وہم نشینی ہمیں حاصل ہونا جو عمدہ کھجوروں کے لینے کی طرح اچھے کلام کو لیتے ہیں۔

(سیر أعلام النبلاء:صفحہ349۔جلد2)

حضرت ابوالدرداءؓ کا بیان ہے کہ تین ایسی چیزوں کو میں محبوب رکھتا ہوں کہ جنہیں عام طور پر لوگ ناپسند کرتے ہیں۔

1- فقیری و تنگدستی: اسی کی وجہ سے میں اپنے آپ کو رب کے سامنے عاجز و ہیچ سمجھتا ہوں۔

2- بیماری: اس وجہ سے کہ بیماری میرے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے ۔

3- موت: کہ اسی راستہ سے اپنے رب کی ملاقات وزیارت کے شوق کو پورا کرسکتا ہوں۔

(طبقات ابن سعد:صفحہ392۔جلد7)

حضرت ابوالدرداءؓ کی ایک آنکھ میں اس قدر تکلیف ہوئی کہ اس آنکھ کی روشنی جاتی رہی۔ ان سے کہا گیا: آپ نے اللّٰه تعالیٰ سے اس کی شفاء کے لیے کیوں نہیں دعاء کی؟ جواب میں فرمایا: اللّٰه کے بندے مجھے دعائے مغفرت سے فرصت ہی نہیں کہ میں اپنی آنکھ کی شفاء کے لیے دعاء کرسکوں۔

(سیر أعلام النبلاء:صفحہ349۔جلد2)

حضرت ام الدرداءؓ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوالدرداءؓ کے پاس 360 دینی دوستوں کے ناموں کی فہرست تھی ہر نماز میں ان لوگوں کے لیے دعائیں کیا کرتے تھے۔ میں نے ایک مرتبہ اس کی وجہ دریافت کی، تو بولے، کوئی بھی شخص اپنے بھائی کے لیے غائبانہ دعاء کرتاہے، تو اللّٰہ تعالیٰ اس پر دو فرشتے مقرر فرمادیتے ہیں جواس کی دعاء کے جواب میں ’’ولک بمثل‘‘ تمہارے لیے بھی ایسا ہی ہو(کہ جو دعاء وہ اپنے دینی بھائی کے لیے کر رہا ہے وہی تمہارے لیے بھی ہو)کہتے ہیں۔ توآخر کیوں میں اپنے حق میں فرشتوں کی دعاؤں سے محروم رہوں۔

(سیرأعلام النبلاء:صفحہ351۔جلد2)

حضرت ابوالدرداءؓ فرماتے ہیں: مجھے سب سے زیادہ حساب کے دن کا خوف ہے کہ جس دن سارے لوگوں کے سامنے مجھ سے حساب لیا جائے گا اور یہ سوال کیا جائے گا، بتا! تونے اپنے علم کے مطابق کتنا عمل کیا؟

حضرت ابوالدرداءؓ ایک مرتبہ بیمار پڑے، ان کے ساتھی عیادت کے لیے آئے اور کہنے لگے: کیا حال ہے اور کونسی بیماری ہے؟ فرمایا: مجھے اپنے گناہوں کا شکوہ ہے، میری سب سے بڑی بیماری میرے گناہ و سیئات ہیں۔ پھر ساتھیوں نے دریافت کیا: آپ کی کیا خواہش ہے؟ بولے! بس میری خواہش جنت ہے۔ پھر ساتھیوں نے کہا حکم ہو تو ڈاکٹر بلالیں؟ جواب میں فرمایا: رہنے دو! بس ڈاکٹروں نے ہی مجھے صاحبِ فراش بنادیاہے۔(الحلیۃ الأولیاء:صفحہ218۔جلد2)

ملکِ شام کے گورنر حضرت امیر معاویہؓ کے لڑکے یزید بن معاویہؓ نے حضرت ابوالدرداءؓ کے پاس پیغامِ نکاح بھیجا کہ آپ اپنی صاحبزادی’’ الدرداءؓ‘‘ کا نکاح مجھ سے کردیں، حضرت ابوالدرداءؓ نے پیغامِ نکاح پاتے ہی اسے مسترد کردیا۔ مگر جب ایک ضعیف، کمزور ناتواں مسلمان شخص نے پیغامِ نکاح دیا تو اسے بسر و چشم قبول کرکے اپنی بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کردی۔

جب یزید کے پیغام کے مسترد کرنے کی وجہ دریافت کی گئی تو جواب میں فرمایا: درداءؓ کے سارے احوال میرے سامنے ہیں، تم لوگ ذرایہ بتلاؤ جب درداءؓ یزید کے گھرجائے گی، وہاں کی چمک دمک، عیش وعشرت اور وہ ساری بہاریں دیکھے گی تو اس کا اور اس کے دین کا اس وقت کیا حال ہوگا!!

(الحلیۃ:صفحہ215۔جلد1)

حضرت ابوالدرداءؓ کے نصیحت آموز اور حکیمانہ بیانات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ خاص طور سے ’’تاریخِ ابنِ عساکر‘‘(جلد1 صفحہ213 سے 366، جلد2 صفحہ13 سے 393)

’’حلیۃالأولیاء‘‘(جلد1 صفحہ 208 سے227)

اور ’’سیر اعلام النبلاء‘‘ (جلد2 صفحہ335،353) میں ان کی حکیمانہ نصیحتیں کثرت سے ہیں ان کی چند حکیمانہ نصیحتیں یہاں ذکر کی جارہی ہیں جن کا تعلق ہم طلبۂ علوم اسلامیہ سے ہے۔

حضرت ابوالدرداءؓ ہمیشہ لوگوں کو علومِ اسلامیہ کے حاصل کرنے پر ابھارا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے اے لوگو! آئے دن علماء کرام کی جماعتیں ختم ہوتی چلی جارہی ہیں اور جاہلوں کی جماعتوں میں خوب تر اضافہ ہوتا چلا جارہاہے، ان جاہلوں کو علمِ دین حاصل کرنے کا ذرہ برابر شوق ہی نہیں ہے سنو! عالم اور متعلم طالبِ علم اور مدرس دونوں اجر وثواب میں ایک دوسرے کے سہیم وشریک ہیں۔

(تاریخ ابنِ عساکر:جلد2 صفحہ13،375، بحوالہ سیر أعلام النبلاء:جلد2 صفحہ349)

علمِ دین حاصل نہ کرنے والوں اور جاہل بن کر بیٹھنے والوں کے لیے ہلاکت و بربادی ہے اور جو علمِ دین حاصل کرتے ہیں مگر اس پرعمل نہیں کرتے تو ان کے لیے اور زیادہ ہلاکت وبربادی ہے۔ اس آخری جملہ کو سات مرتبہ دہرایا کرتے تھے۔

(تاریخ ابنِ عساکر: جلد2 صفحہ13،377 بحوالہ سیر أعلام النبلاء:جلد2 صفحہ350) یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اللّٰه تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن لوگوں میں سب سے بدترین وہ بے عمل عالم ہوگا۔

(حلیۃالأولیاء:صفحہ223۔جلد1)

حضرت ابوالدرداءؓ سے ایک شخص نے نصیحت کی درخواست کی تو انہوں نے جامع و بلیغ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: تم اللہ تعالیٰ کو خوشحالی میں یاد کرو تو اللّٰه تعالیٰ تمہیں تنگدستی وغربت میں یاد کریں گے۔ جب تم مُردوں کا ذکر کیا کرو تو ان ہی مُردوں میں اپنے آپ کو شمار کرلیا کرو۔ جب دنیا کی کسی چیز پر تمہارا دل آجائے تو فوراً اس کے انجام ونتیجہ پر غور کرلیا کرو۔

(تاریخ ابنِ عساکر:صفحہ13،381۔جلد1، بحوالہ سیر أعلام النبلاء:صفحہ350۔جلد2۔)

اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ مظلوموں کی بددعاء سے بچو، یہ جان لو کہ تھوڑا مال تمہارے پیٹ کو بھر دے یہ زیادہ بہتر ہے کہ زیادہ مال تمہیں دین سے غافل کر دے۔ نیکی و بھلائی کے کام ضائع نہیں ہوتے۔ گناہوں سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہیے ۔ جب بھی شیطانی بہکاوے اور خواہشاتِ نفسانی کی بنا پر کوئی گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرلو۔

(تاریخ ابنِ عساکر:صفحہ13،286۔جلد1، بحوالہ سیر أعلام النبلاء: صفحہ305۔جلد2۔)

وفات

صحیح قول کی بنا پر ان کی وفات حضرت عثمانؓ کے عہدِ خلافت 32ھ؁ میں ہوئی۔ (طبقات ابنِ سعد:صفحہ393۔جلد2، سیر أعلام النبلاء:صفحہ353۔جلد2، الإصابۃ:صفحہ45۔جلد3)