Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قتل اور تاریخی حقائق

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قتل اور تاریخی حقائق

معترض احباب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے مظالم جہاں ذکر کرتے ہیں ان میں محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو قتل کر دینے اور ان کی لاش کو گدھے کی کھال میں رکھ کر جلانے کے وحشیانہ سلوک کا اعتراض بڑی آب و تاب سے بیان کرتے ہیں۔

اعتراض کا مدلل جواب

اس اعتراض کے جواب کے لیے ذیل میں چند چیزیں ذکر کی جاتی ہیں ان کے ملاحظہ کر لینے سے صحیح صورت حال واضح ہو سکے گی ۔

(١) یہاں یہ چیز پہلے ذکر کر دینا ضروری ہے کہ واقعہ صفین کے بعد تحکیم کے موقع پر فیصل حضرات (جو کہ فریقین کی جانب سے فیصلہ کرنے پر مقرر تھے) جب کسی متفقہ فیصلہ پر نہیں پہنچ سکے تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی خلافت کے لیے جدوجہد شروع کردی۔

اسی دوران میں مصر میں محمد جو کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بیٹے تھے ان کے قتل کا واقعہ ۳۸ھ میں پیش آیا۔

(٢) محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالٰی عنہا کے سابق خاوند سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فرزند تھے اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زیر کفالت جوان ہوئے تھے۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا تو حملہ آوروں کی شورش میں یہ برابر کے شریک رہے اور قاتلین عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حمایت سے دستبردار نہیں ہوئے ۔

محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ان شورشوں میں شریک رہنا اور بغاوت کرنے والوں کی حمایت کرنا ان کا ایک ذاتی معاملہ تھا اس معاملے میں سیدنا علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ ہر گز شریک نہیں تھے۔

محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ مسئلہ اس طرح ہے جس طرح عمار بن یاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ بعض صورتوں میں خلاف رائے رکھتے تھے اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ  حضرت عمار رضی تعالٰی عنہ کے ہم نوا نہیں تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ

کے بارے میں محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مخالفانہ و معاندانہ رویہ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا درست نہیں سمجھتی تھیں.

اور ان کو ان حرکات سے منع کرتیں رہتیں لیکن یہ اپنے رویہ سے باز نہیں رہتے تھے۔

(٣) جس وقت حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور خلافت میں واقع صفین کے بعد ایک فریق کے دوسرے فریق کے ساتھ معارضات جاری تھے اور مختلف علاقوں میں ہر دو فریق کے مقابلے اور مسابقتیں ہورہی تھیں اور یہ شورشیں قتل وقتال تک پہنچتی تھیں، تو ان ایام میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مصر کا حاکم بنا کر روانہ کیا۔ وہاں انھیں مشکلات کا سامنا ہوا تو حضرت علی المرضی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اشترنخعی کو ان کی معاونت کے لیے بھیجا مگر وہ راستے ہی میں قلزم کے مقام پر فوت ہو گیا۔

اسی دوران میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مصر کا والی مقرر کیا اور وہ اپنے حامیوں سمیت مصر پہنچ گئے ۔ علاقہ مصر میں لوگ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مظلومانہ شہادت سے کافی متاثر تھے خصوصاً خربتا کے لوگ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلاف رائے رکھتے تھے اور مظلومیت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ یہ لوگ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حمایت میں ان کے ساتھ ہوگئے۔

حضرت عمرو بن العاص نے فریق مخالف کے لیے معاویہ بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ کو مقرر کر کے روانہ کیا۔

معاویہ بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ کا پہلے معارضہ کنانہ بن بشر وغیرہ کے ساتھ پیش آیا۔ باہم قتال ہوا اور کنانہ بن بشر مقتول ہوا۔ اس کے بعد ان کا معارضہ محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور اس کے ساتھیوں سے ہوا اور محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مقابلہ کی تاب نہ لا سکے اور قتل ہوئے۔

تنبیہ

محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قتل کے متعلق مورخین نے اس مقام پر متعدد صورتیں ذکر کی ہیں۔

واقعہ کی تفصیلات

البدایہ لابن کثیر ج ۷ ص ۳۱۳(محمد بن ابی بکر) میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔۳۱۴ تحت واقعہ ہذا اور اصابہ لابن حجر عسقلانی ج۳ ص ٤١٥ تحت حرف المیم

ہم یہاں بالاختصار ذکر کرتے ہیں: ۔

(١) ایک صورت تو یہ ہے کہ معاویہ بن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ان کا مقابلہ ہوا اور اس معارضہ کے دوران میں قتل ہو گئے۔۔۔

(٢) دوسری صورت یہ ذکر کی جاتی ہے کہ معارضہ کے بعد ان کو گرفتار کر کے عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہ کے سامنے پیش کیا گیا وہاں ان کی باہمی سخت کلامی ہوئی اور پھر ان کو قتل کر دیا گیا۔

محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قتل کی وجہ فریق مخالف کی زبانی اسی طرح مذکور ہے کہ معاویہ بن خدیج کندی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی ایک دفعہ عبدالرحمن بن ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ملاقات ہوئی تو عبدالرحمن نے بطور طعن کہا:

((يا معاوية (ابن خديج) قد اخذت اجرك من معاوية بن ابی سفیان لما قتلتمحمد بن ابی بکر ليونيك مصر فقد ولاكها فقال ما قتلت محمدا لولايةوانما قتلة لقتله عثمان)
١) البيان المغرب في اخبار المغرب ۱۳ ج (ابن عذارى المراکشی) تحت اخبار معاویہ بن خدیج الکندی (طبع بیروت)

یعنی اے ابن خدیج ! تو نے معاویہ بن ابی سفیان (رضی اللہ عنہم) سے میرے بھائی محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قتل کا اجر حاصل کرلیا اور تجھے مصر کا والی بنا دیا گیا تو ابن خدیج رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ میں نے ولایت مصر کے لیے محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو نہیں قتل کیا تھا بلکہ میں نے تو اس لیے قتل کیا تھا کہ وہ قاتلین عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ میں شریک تھا۔

مختصر یہ ہے کہ کنانہ بن بشر اور محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ وغیرہ کا مقتول ہونا فریق مخالف کی طرف سے اس بنا پر ہے کہ یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے خلاف شورشوں میں شریک تھے اور حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت میں ان کا پورا پورا حصہ تھا۔

(٤) مورخین نے محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قتل کی ایک یہ صورت بھی ذکر کی ہے کہ جب دونوں جماعتوں کا باہم قتال ہوا تو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ شکست کھا کر بھاگ گئے اور ایک مقام میں مختفی ہو گئے۔ پھر وہاں سے ان کو تلاش کرکے قتل کر دیا گیا۔

یہاں مورخ طبری نے ابومخنف سے یہ روایت ذکر کی ہے اور لکھا ہے کہ محمد بن ابی بکر کو پکڑ کر قتل کر دیا گیا پھر اس کی لاش کو گدھے کی کھال میں داخل کر کے جلا دیا گیا۔

((فقدمه فقتله ثم القاه في جيفة حمار ثم احرقه بالنار)

اسی روایت کے آخر میں طبری نے یہ بات بھی ذکر کی ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کو جب محمد بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے قتل کی خبر پہنچی تو انھوں نے حضرت امیر معاویہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین پر قنوت پڑھنی شروع کر دی یعنی نمازوں کے آخر میں بد دعا فرمائی تھیں۔ یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ گدھے کی کھال میں ڈال کر جلانے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی بددعائیں کرنے کی یہ روایت ابو مخنف لوط بن یحییٰ رافضی سے مروی ہے، نیز اسناد میں ابومخنف ایک واسطہ کے ذریعے سے عن شیخ من اہل المدینہ سے نقل کرتا ہے۔ وہ شیخ اپنی جگہ پر مجہول الذات والصفات ہے۔ لہذا ایسی مجروح روایت ہرگز قابل اعتماد نہیں جس سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین  پر طعن قائم کیا جا سکے.

نیز واضح رہے کہ طبری سے بعد والے مورخین اس روایت کو طبری سے نقل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہم نے یہاں قتل کے وجوہ اور مختلف صورتیں ذکر کرنے کے علاوہ روایت کی باعتبار سند کے حقیقت حال درج کر

دی ہے فلہذا مذکورہ بالا اعتراض کا بے جا ہونا واضح ہوگیا اور وحشیانہ سلوک کی حقیقت بھی سامنے آ گئی کہ یہ کہاں تک صحیح ہے؟

حاصل یہ ہے کہ یہاں بناء الفاسد على الفاسد کا معاملہ ہے فلہذا وحشیانہ سلوک کی داستان غیر صحیح ہے۔

١) تاریخ ابن جریر طبری ص ۲۰ ج ٦تحت واقعہ ہذا سنہ ۳۸ھ