Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

تعمیرِ مسجد عبادت ہے کافر اس کا اہل نہیں


تعمیرِ مسجد عبادت ہے کافر اس کا اہل نہیں

نیز مسجد کی تعمیر اعلیٰ ترین اسلامی عبادت ہے، اور کافر کسی عبادت کا اہل نہیں۔ اس لئے کسی کافر کو تعمیر مسجد کا حق نہیں کیونکہ کافر میں تعمیرِ مسجد کی اہلیت ہی مفقود ہے۔ قرآن کریم نے سورۃ التوبه میں اصول کو صاف صاف بیان فرمایا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔۔۔۔۔

مَا كَانَ لِلۡمُشۡرِكِيۡنَ اَنۡ يَّعۡمُرُوۡا مَسٰجِدَ اللّٰهِ شٰهِدِيۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ بِالـكُفۡرِ‌ؕ اُولٰۤئِكَ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُهُمۡ ۖۚ وَ فِى النَّارِ هُمۡ خٰلِدُوۡنَ ۞

مشرکوں کا کام نہیں کہ آباد کریں اللہ کی مسجدیں اور تسلیم کر رہے ہوں اپنے اوپر کفر کو وہ لوگ خراب گئے ان کے عمل اور آگ میں رہیں گے وہ ہمیشہ۔

اس آیت میں چند چیزیں قابلِ توجہ ہیں:

اول یہ کہ: یہاں مشرکین کو تعمیرِ مسجد کے حق سے محروم قرار دیا گیا اور شرک کفر ہی کا ایک شعبہ ہے اس لئے یہ حکم تمام غیر مسلموں کو شامل ہیں چنانچہ شھدین علی انفسھم بالکفر: میں اس کی علت کفر ہی بیان فرمائی ہے یہی وجہ ہے کہ تمام مفسرین نے اس حکم کو تمام کفار کے لئے عام رکھا ہے۔

دوم یہ کہ شھدین علی انفسھم بالکفر: (درآنحالیکہ وہ اپنی ذات پر کفر کی گواہی دے رہے ہیں) میں بتایا گیا ہے کہ تعمیر مسجد کی اہلیت اور کفر کے درمیان منافات ہے، یہ دونوں چیزیں بیک وقت جمع نہیں ہو سکتی ہیں۔ پس جب وہ اپنے عقائدِ کفر کا خود اقرار کرتے ہیں تو گویا وہ اس امر کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ تعمیرِ مساجد کے اہل نہیں، نہ انہیں اس کا حق حاصل ہے۔

سوئم یہ کہ: اپنی ذات پر کفر کی گواہی دینے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو اپنا کافر ہونا تسلیم ہے اور خود اپنے آپ کو کافر کہتے ہیں کیونکہ دنیا میں کوئی کافر بھی اپنے آپ کو کافر کہنے کے لئے تیار نہیں بلکہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے عقائد کا برملا اعتراف کرتے ہیں جنہیں اسلام عقائدِ کفر قرار دیتا ہے یعنی ان کا کفریہ عقائد کا اظہار اپنے آپ کو کافی تسلیم کرنے کے لئے قائم مقام ہے۔

چہارم یہ کہ: قرآن کریم کے اس دعوے پر کہ کسی کافر کو اپنے کفریہ عقائد پر رہتے ہوئے تعمیر مسجد کا حق حاصل نہیں یہ سوال ہو سکتا تھا کہ کافر تعمیرِ مسجد کی اہلیت سے محروم کیوں ہے؟ اگلے جملہ میں اس سوال کا جواب دیا گیا ہے۔ اولئک حبطت اعمالھم: کہ ان لوگوں کے عمل اَکارت ہیں۔

چونکہ کفر کے ہوتے ہوئے انسان کے تمام اعمال اکارت اور ضائع ہو جاتے ہیں اسی لئے کافر نہ صرف تعمیر مسجد کا بلکہ کسی بھی عبادت کا اہل نہیں یہ کفر کی دنیوی خاصیت تھی اور آگے اس کی اُخروی خاصیت بیان کی گئی ہے۔ وفی النار ھم خلدون: کہ کافر اپنے کفر کی بنا پر ہمیشہ جہنم کے مستحق ہیں، اس لئے ان کی اطاعت و عبادت کا اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کے نزدیک کوئی قیمت نہیں۔

بس یہ آیت اس مسئلہ میں نص قطعی ہے کہ غیر مسلم کافر تعمیرِ مسجد کے اہل نہیں اس لئے انہیں تعمیرِ مسجد کا حق حاصل نہیں اس سلسلہ میں مفسرین کرامؒ کی چند تصریحات ملاحظہ فرمائیں:

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبریؒ لکھتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ فرماتے ہیں کہ مسجدیں تو اس لئے تعمیر کی جاتی ہیں کہ ان میں اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت کی جائے کفر کے لئے تو تعمیر نہیں کی جاتی بس جو شخص کافر ہو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ مسجدوں کی تعمیر کرے۔

امام ابوبکر احمد بن علی الجصاص الرازی الحنفیؒ لکھتے ہیں کہ مسجد کی آبادی کہ دو صورتیں ہیں ایک مسجد کی زیارت کرنا اور اس میں رہنا اور بیٹھنا دوسرا اس کو تعمیر کرنا اور شکست و دریخت کی اصلاح کرنا پس یہ آیت اس امر کو متقضی ہے کہ مسجد میں نہ کوئی کافر داخل ہو سکتا ہے، نہ اس کا بانی، متولی یا خادم بن سکتا ہے، کیونکہ آیت کے الفاظ تعمیر ظاہری و باطنی دونوں کو شامل ہیں۔

امام عربیت جار اللّٰہ محمد بن عمر الزمخشریؒ لکھتے ہیں کہ ان کے لئے کسی طرح درست نہیں کہ وہ دو متنافی باتوں کو جمع کریں، کہ ایک طرف اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی مسجدوں کو بھی تعمیر کرے دوسری طرف اللّٰہ جل شانہ اور اس کی عبادت کے ساتھ کفر بھی کرے اور ان کی اپنی ذات پر کفر کی گواہی دینے سے مراد ان کے کفر کا ظاہر ہونا۔

امام فخر الدین راضیؒ لکھتے ہیں کہ: یہ آیت اس مسئلہ کی دلیل ہے کہ کفار کو مسلمانوں کی مسجدوں میں سے کسی مسجد کی تعمیر کی اجازت نہیں اور اگر کافر اس کی وصیت کرے تو اس کی وصیت قبول نہیں کی جائے گی۔

امام عبداللّٰہ بن محمد بن احمد القرطبیؒ لکھتے ہیں کہ اندریں حالت مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ احکامِ مساجد کے خود متولی ہوں اور کفار و مشرکین کو ان میں داخل ہونے سے روک دیں۔

امام محی السنۃ ابو محمد حسین بن مسعود الفراء البغویؒ لکھتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ کافروں کو تعمیرِ مسجد سے روک دیں، کیونکہ مسجدیں صرف اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت کی خاطر بنائی جاتی ہیں۔ پس جو کافر ہو اس کا یہ کام نہیں کہ وہ مسجدیں تعمیر کرے۔ ایک جماعت کا قول ہے کہ تعمیر سے مراد یہاں تعمیرِ معروف ہے، یعنی مسجدیں بنانا اور اس کی شکست و ریخت کی اصلاح و مرمت کرنا پس کافر کو اس عمل سے باز رکھا جائے گا، چنانچہ اگر وہ اس کی وصیت کر کے مرے تو پوری نہیں کی جائے گی۔ اور بعض نے امارت کو یہاں مسجد میں داخل ہونے اور اس میں بیٹھنے پر محمول کیا ہے۔

شیخ علاؤ الدین علی بن محمد البغدادی الخازنؒ لکھتے ہیں کہ اللّٰہ جل شانہ نے مسلمانوں پر واجب کیا ہے کہ وہ کافروں کو تعمیرِ مسجد سے منع کریں کیونکہ مسجدیں صرف اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت کی خاطر بنائی جاتی ہیں بس جو شخص کافر ہو اسے تعمیر مسجد کا حق حاصل نہیں ہے۔ تعمیر سے کیا مراد ہے؟ اس میں دو قول ہیں ایک یہ کہ تعمیر کے معروف معنیٰ مراد ہیں یعنی مسجد بنانا اس کو پختہ کرنا اور اس کی شکست و ریخت کی اصلاح کرنا پس کافر کو تعمیر سے باز رکھا جائے گا۔ چنانچہ اگر کافر نے مسجد بنانے کی وصیت کی تو قبول نہیں کی جائے گی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ تعمیر سے تعمیر باطنی مراد ہے یعنی مسجد میں داخل ہونا اس میں بیٹھنا بس کافر کو مسلمان کی اجازت کے بغیر مسجد میں آنے سے منع کیا جائے گا، چنانچہ اگر وہ مسلمان کی اجازت کے بغیر داخل ہوا تو اس پر تعزیز جاری ہو گی، اور اگر اجازت سے داخل ہو تو تعزیز نہیں۔

مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ لکھتے ہیں کہ! مسلمانوں پر لازم ہے کہ کافروں کو تعمیرِ مسجد سے روک دیں کیونکہ مسجد ہے تو اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ کی عبادت کے لئے بھی بنائی جاتی ہیں پس جو شخص کہ کافر ہو وہ ان کو تعمیر کرنے کا عہد نہیں اور شاہ عبدالقادر دہلویؒ لکھتے ہیں کہ! علماء نے لکھا ہے کہ اگر کافر یہ چاہے کہ وہ مسجد بنا دے تو اس کو منع کرے۔

ان تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ نے کافروں کو یہ حق نہیں دیا کہ وہ مسجد تعمیر کریں۔