Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت ہی بخشش کا ذريعہ ہے۔

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

 عقیدہ شیعانِ علی

 حضورﷺ کی قرابت ہی بخشش کا ذريعہ ہے۔

شیعہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت جِس کا مفہوم ہے کہ

"میں تُم سے اس کا کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میری قرابت کا محبت کا لحاظ رکھو" کی غلط تفسیر یوں کی جاتی ہے کہ آئمہ معصومین اور آلِ محمدﷺ سے محبت ہی ذریعۂ نجات ہے۔ جِسے ان ہستیوں سے محبت ہو اُسے کوئی عبادت کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ دُنیا کے تمام بُرے کام بھی اسے اُخروی نجات سے محروم نہیں کر سکتے۔

جواب اہل سنت:

حالانکہ اس آیت کی تفسیر مفسرین نے یہ کی ہے کہ:

"میں کارِ نبوت کے بدلے میں قریش سے کوئی اجرت نہیں مانگتا جو میرے راستے میں طرح طرح کے روڑے اٹکا رہے ہیں بلکہ انہیں اپنی قرابت کا واسطہ دیتا ہوں کہ وہ قرابت کا لحاظ رکھتے ہوئے میری مخالفت سے باز آ جائیں۔"

 حضرت علیؓ قرابت کے بارے میں کیا ارشاد فرماتے ہیں ملاحظہ فرمائیں !

"حضرت محمد مُصطفٰیﷺ کا دوست وہ ہے جو اللہ کی اطاعت کرے اگرچہ اُن سے کوئی قربت نہ رکھتا ہو اور اُن کا دشمن وہ ہے جو اللہ کی نافرمانی کرے اگرچہ نزدیکی قرابت رکھتا ہو۔" (نہج البلاغہ، ص: 837)

لہٰذا ثابت ہوا کہ نجات صِرف رسولِ خُداﷺ کی پیروی میں ہے۔ صِرف زبانی محبت کے دعوے اور واویلا نجات نہیں دِلا سکتا۔ اللّٰه تعالٰی ہمیں حضرت علیؓ کے فرمان کی روشنی میں رسول اللہﷺ کی مکمل پیروی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین !

  امتِ مسلمہ کے شاہینو ! اگر آپ نے پچھلے صفحات غور سے پڑھے ہوں اور تعصب کی سیاہ چادر اُتار پھینکی ہو تو آپ نے اندازہ لگایا ہو گا کہ اہلِ تشیع کے تمام عقائد و نظریات ایک طرف اور حضرت علیؓ کے عقائد و نظریات دوسری طرف ہیں۔ یعنی قُرآن اور حدیث اور امام المتقین کی پکار ایک ہے۔ ان تینوں کے کلام میں کمال یکسانیت اور مکمل ہم آہنگی ہے اور اعلٰی درجے کا دِلنشین ربط ہے۔ ربط کیوں نہ ہو جو منشاء قُرآن کا ہے حضورﷺ نے اسی کی تعلیم دی اور اسی پر عمل کر کے دکھایا اور ناطقِ قُرآن چونکہ حضورﷺ کے مصاحبِ خاص تھے لہٰذا آپﷺ کے اقوال و کردار کی مکمل جھلک قُرآن اور حدیث ہی کی نظر آتی ہے اور یہ کوئی عجیب بھی نہیں، محب محبوب کا نقال ہی تو ہوتا ہے۔

صاحبانِ عقل ! کیا شیعانِ علی اس نام کے مصداق ہیں۔ کیا وہ شیعانِ علی کہلانے کے مستحق ہیں۔ قطعاً نہیں۔ بلکہ اپنے نظریات و عقائد کے مطابق تو وہ دُشمنانِ علیؓ اور دُشمنانِ اِسلام جیسے نام رکھنے کے زیادہ حقدار ہیں۔ اور حقیقی شیعانِ علی اور شیعانِ محمدﷺ کہلانے کے مستحق صِرف ہم ہیں کیونکہ محمد ﷺ و علیؓ کے اقوال و سیرت کی پیروی کرنے والے ہم...

اُن سے دلی محبت کرنے والے ہم...

اُن کا حقیقی احترام کرنے والے ہم...

اُن کے مِشن کو جاری رکھنے والے ہم...

اُن کے منشور کو اس دُنیا پر نافذ کرنے کے لئے جان و مال کی قُربانی دینے والے ہم...

اور شیعانِ علیؓ کہلانے والے وہ (دودھ پیتے مجنوں)!

ستم یہ کہ طعنہ ہمیں دیا جاتا ہے کہ ہم بُغضِ علیؓ رکھتے ہیں۔ یعنی "چور پُکارے چور چور۔"

خلاصہ

حضرت علیؓ نے اپنے خطبات میں نیک اعمال اختیار کرنے پر بہت زور دیا ہے بلکہ فرماتے ہیں نجات اچھے اعمال میں ہے نہ کہ حضورﷺ کی قرابت میں۔  لہذا یہ کہنا کہ آل محمدﷺ سے صرف زبانی نعروں (رونا پیٹنا) کی محبت جو دس دن رہے آخرت میں کامیابی دلا دے گی عجب بے تکی منطق ہے۔