Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح

  نقیہ کاظمی

حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ:

سیدنا ابوعبیدہؓ بن جراح کو حافظ ابو عبداللہ نیشا پوریؒ اور علامہ ابونعیم اصفہانیؒ نے صفہ کے طالب علموں میں شمار کیا ہے۔
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ، 10 جلد، 2)
سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ اصحابِ صفہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ رہ کر منبعِ نبوتﷺ سے اس قدر سیراب ہوئے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ نے انہیں قرآن و سنت اور دینِ اسلام کا معلم بنا کر وفدِ نجران کے ساتھ روانہ کیا۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 282 جلد، 2 مناقبِ ابی عبیدہؓ)
قرآن کریم کے اندر اتنا کمال حاصل کیا کہ ان کا شمار جامعِ قرآن میں ہونے لگا۔
(سیرِاعلام النبلاء: صفحہ، 09 جلد، 1)
حضرت ابو عبیدہؓ کے اکثر اوقات میدانِ جنگ میں لشکرِ اسلام کی قیادت کرتے ہوئے گزرے ہیں، سیدنا عمرؓ کے دورِ خلافت میں حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی جگہ امیرِ لشکر اور سپہ سالارِ اسلام آپؓ ہی رہے ہیں۔
(سیرِ اعلام النبلاء: صفحہ، 12 جلد، 1)
یہی وجہ ہے کہ آپؓ کا کوئی مخصوص حلقہ درس نہیں رہا اور نہ آپؓ باضابطہ طریقہ تعلیمِ علومِ نبوت کو اپنا سکے، پھر بھی آپؓ کے فیض یافتگان میں مشہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں، ان میں سیدنا جابر بن عبداللہؓ، سیدنا عرباض بن ساریہؓ، سیدنا ابو امامہ باہلیؓ، سیدنا سمرہ بن جندبؓ اور سیدنا عبد الرحمٰن بن غنمؓ ہیں۔
(تہذیب التہذیب: صفحہ، 73 جلد، 5)
آپؓ کی احادیث کی تعداد بقول علامہ ذہبیؒ 15 ہے۔(سیر اِعلام النبلاء: صفحہ، 6 جلد، 1)
حضرت ابو عبیدہؓ کا سلسلہ نسب اور ان کا حلیہ مبارکہ:
سیدنا ابو عبیدہؓ کا اسم گرامی عامر ہے، اور ان کے والد کا نام عبداللہ بن جرّاحؓ بن ہلال ہے، ان کی کنیت ابو عبیدہؓ بن جراح ہے اور یہ خاندانِ قریش سے تعلق رکھتے ہیں۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 414 جلد، 3)
(المستدرک: صفحہ، 264 جلد، 3)
حضرت ابوعبیدہؓ خوش شکل، خوب رو، دبلے پتلے، دراز قد، ذرا جھکے ہوئے اور ہلکی داڑھی والے تھے اور آپؓ کے سامنے کے دو دانت ٹوٹے ہوئے تھے۔
(تہذیب التہذیب: صفحہ، 73 جلد، 5)
اسلام:
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام ہیں۔ طبقات ابنِ سعد کے حوالہ سے علامہ ابنِ حجرؒ نے نقل کیا کہ رسول اللّٰہﷺ کے دارارقم میں تشریف لے جانے سے پہلے حضرت ابو عبیدہؓ، حضرت عثمان بن مظعونؓ، حضرت ابو عبیدہؓ بن حارث، حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف اور حضرت ابوسلمۃ بن عبدالأسدؓ ایک ساتھ رسول اللہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا اور اسلامی ضروری باتیں انہیں بتائیں یہ سب بیک وقت مسلمان ہو گئے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 303 جلد، 3)
(الاصابۃ: صفحہ، 243 جلد، 2)
عہدِ نبویﷺ میں سیدنا ابو عبیدہؓ کے جنگی کارنامے:
حضرت ابو عبیدہؓ غزوہ بدر میں شریک ہو کر اسلام کی حقانیت کی خاطر رہتی دنیا تک ایک تاریخی کارنامہ انجام دے گئے ہو یہ کہ غزوہ بدر میں سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بے خوف و خطر دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے، کفار سامنے سے ہٹتے جا رہے تھے، لیکن ایک شخص آپؓ کے سامنے کھڑا ہی نہیں تھا بلکہ آپؓ سے مقابلہ کرنے کے درپے تھا لیکن آپؓ نے اس سے پہلو تہی اختیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، مگر وہ شخص آپؓ سے مقابلہ کرنے کے لیے بار ہا سامنے آتا رہا، جب دیکھا کہ اب مقابلہ کیے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے تو تلوار سے ایسا زور دار وار کیا جس سے جسم کے دو ٹکڑے ہو گئے۔ یہ شخص آپؓ کے والد عبداللہ بن جراح تھے۔ آپ کا یہ اقدام الله تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ آپؓ کی شان میں یہ آیت نازل کر دی۔
لَا تَجِدُ قَوۡمًا يُّؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِ يُوَآدُّوۡنَ مَنۡ حَآدَّ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَلَوۡ كَانُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ اَوۡ اَبۡنَآءَهُمۡ اَوۡ اِخۡوَانَهُمۡ اَوۡ عَشِيۡرَتَهُمۡ‌ؕ اُولٰٓئِكَ كَتَبَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمُ الۡاِيۡمَانَ وَاَيَّدَهُمۡ بِرُوۡحٍ مِّنۡهُ‌ ؕ وَيُدۡخِلُهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا‌ ؕ رَضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ حِزۡبُ اللّٰهِ‌ ؕ اَلَاۤ اِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ۞
(سورۃ المجادلہ: آیت نمبر، 22)
ترجمہ: جو لوگ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہوں جو اللہ اور اس کے رسول کے برخلاف ہوں ،خواہ وہ ان کے باپ، یا بیٹے، یا بھائی یا ان کے اہلِ خاندان ہی کیوں نہ ہوں۔ ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح، فیض عطا کر کے ان کو قوت دی ہے اور ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گا، وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں گے، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے گروہ ہیں ، خوب سن لو! اللہ تعالیٰ کا گروہ ہی فلاح و کامیابی پانے والا ہے ۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 298 جلد، 3)
(حلیۃ الأولیاء: صفحہ،101 جلد، 1)
حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح نے غزوہ احد میں بھی شرکت کرکے ایک زبردست کارنامہ انجام دیا ہے، غزوہ احد میں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے تو اس نازک وقت میں یہ ان چودہ جاں نثار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللہﷺ کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا اور اپنے سینوں پہ دشمنوں کی تیر کھا کر محبوبِ جان رسول اللہﷺ کی جانب سے دفاع کا بھر پور فریضہ سر انجام دیا تھا۔
(المغازی للواقدی: صفحہ، 240 جلد، 1)
اس دن نبی اکرمﷺ کا سرِ مبارک، رخسارِ انور اور نیچے کا لبِ مبارک زخمی ہوا تھا اور رباعی دندانِ مبارک شہید ہوئے تھے۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 584 جلد، 2 رقم، 4075)
(فتح الباري: صفحہ، 382 جلد، 7)
رخسارِ انور میں خَود (لوہے کی ٹوپی) کے دو حلقے گڑ گئے تھے، اس کو سیدنا ابو عبیدہؓ نے دانت سے پکڑ کر کھینچا جس سے ان کے سامنے کے دو دانت گر گئے، اس کے باوجود ان کو دیکھنے والے یہ کہا کرتے کہ اگلے دونوں دانت ٹوٹ جانے کے بعد بھی حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نہایت خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 409 جلد، 3) 
(المستدرک: صفحہ، 266 جلد، 3)
غزوہ ذات السلاسل (غزوہ ذات السلاسل ماہِ جمادی الثانی 8 ہجری) میں نبی اکرمﷺ کو خبر ملی کہ بنو قضاعۃ کی جماعت مدینہ منورہ پر حملہ آور ہونا چاہتی ہے، آپﷺ نے اس کی سرکوبی کے لیے حضرت عمرو بن عاصؓ کو امیر بنایا انہیں سفید جھنڈا دیا اور تین سو آدمی اور تیس گھوڑے ان کے ساتھ کیے۔ آگے چل کر معلوم ہوا کہ کفار کی تعداد بہت ہے تو رسول اللہﷺ سے امداد طلب کی، آپؓ نے حضرت ابو عبیدہؓ کو دو سو گھوڑوں کے ساتھ روانہ کیا جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔ یہ سب آپس میں مل کر بنو قضاعہ پر زور دار حملہ کیے، جس سے ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور میدان چھوڑ بھاگے۔
(المغازی للواقدی: صفحہ، 692)
(فتح الباری: صفحہ، 74 جلد، 8)
پیغمبرِ اسلامﷺ نے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی مدد کے لیے سیدنا ابو عبیدہؓ بن جراح ہی کو دو سو آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا تھا، جن میں حضرت ابوبکرؓ و حضرت عمرؓ بھی تھے اور نبی اکرمﷺ نے یہ تاکید فرمائی تھی کہ سیدنا عمرؓو بن عاص سے مل کر کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا، جب حضرت ابو عبیدہؓ وہاں پہنچے اور نماز کا وقت آیا تو انہوں نے امامت کرنی چاہی۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا امیر لشکر تو میں ہوں، آپؓ لوگ میری مدد کے لیے آئے ہیں، یہ سن کر انہوں نے فرمایا رسول اللہﷺ نے چلتے وقت مجھ کو حکم دیا تھا کہ اتفاق سے رہنا اختلاف نہ کرنا اس لیے میں تمہاری اطاعت کر رہا ہوں، اور اپنی امامت تمہیں سونپ رہا ہوں۔
(المغازي للواقدي: صفحہ، 769 جلد، 2)
(فتح الباري: صفحہ، 674 جلد، 7)
حضرت ابو عبیدہؓ کی اعلیٰ دیانت اور اکمل قائدانہ صلاحیت کو رسول اللہﷺ نے دیکھتے ہوئے جنگِ سیف البحر میں آپؓ ہی کو امیرِ لشکر بنایا یہ جنگ 8 ہجری ماہِ رجب میں پیش آئی ہے۔
(المغازي: صفحہ، 774 جلد، 2)
(فتح الباري: صفحہ، 679 جلد، 7)
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ پیغمبرِ اسلامﷺ نے سمندری ساحل کی طرف قریش کی گھات میں تین سو افراد پر مشتمل ایک لشکر بھیجا اور امیرِ لشکر حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح کو بنایا، راستہ ہی میں لشکر کا زادِ راہ ختم ہو گیا، سیدنا ابوعبیدہؓ نے لشکر کے بچے کھچے زادِ راہ جمع کرنے کا حکم دیا، دو تھیلے کھجوروں کے جمع ہو گئے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ روزانہ ہمیں تھوڑا تھوڑا کھانے کو دیتے تھے، بالآخر یہ بھی ختم کے قریب ہوا تو ہمارے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ایک کھجور کی قدر اس وقت معلوم ہوئی اور اس موقع پر سخت فاقہ کی بناء پر درختوں کے پتے تک کھائے اسی لیے اس لشکر کانام سریۃ الخبط بھی پڑ گیا پندرہ دنوں تک اسی حالت میں رہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی ظاہر فرمائی اس مچھلی کو سارا لشکر اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا، بعد میں سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے حکم سے اس مچھلی کے پسلیوں کی دو ہڈیاں کھڑی کی گئیں اور ایک سواری کا کجاوا کسا گیا اور وہ اس کے نیچے گزاری گئی مگر ہڈیوں کو بالکل نہیں چھوا۔
(صحیح البخاري: صفحہ، 625 جلد، 2)
(حدیث نمبر: 4360/4361)
واضح رہے کہ اس جنگِ سیف البحر میں کفار سے کسی قسم کے قتل و قتال کی نوبت نہیں آئی۔
(فتح الباري: صفحہ، 679 جلد، 7)
آپؓ تمام غزوات میں رسول اللہﷺ کے ساتھ شریک رہے اور ہر غزوہ میں پوری جنگی قوت کا مظاہرہ کیا۔(لإصابۃ: صفحہ، 243 جلد، 2)
امتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والسلام میں امین کے لقب سے ملقب:
نجران کا وفد پیغمبر اسلامﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا! اے اللہ کے رسول! ہمارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجئے جو ہمیں قرآن و سنت کی تعلیم دے۔
(صحیح مسلم: صفحہ، 282 جلد، 2)
اور صحیح بخاری کی روایت میں یہ ہے کہ آپﷺ ہمارے ساتھ کوئی امانت دار شخص بھیجئے۔ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا میں تمہارے ساتھ ایک امانت دار آدمی ہی کو بھیجوں گا جو یقیناً کما حقہ امانت دار ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شدت سے منتظر تھے کہ کسے بھیجتے ہیں؟
(صحیح بخاري: صفحہ، 629 جلد، 2)
(حدیث نمبر، 4380/3745)
اس عظیم اور اعلیٰ صفت امین کا حامل کون ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ زندگی میں صرف ایک مرتبہ امیر و سردار بننے کی خواہش ہوئی، وہ یہی موقع تھا، وہ بھی امارت و سیادت کے شوق کی بناء پر نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ رسول اللہﷺ کے بیان فرمودہ اوصاف کا مصداق میں قرار پاؤں۔(مسندِ أبویعلیٰ بحوالہ فتح الباري: صفحہ، 11 جلد، 7)
لیکن نبی اکرمﷺ نے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا آپؓ کھڑے ہو جائیے اور ان کے ساتھ جائیے، جب جانے کے لیے تیار ہو گئے تو نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایالکل أمۃ أمینٌ وأمین ہذہ الأمۃابوعبیدہؓ بن الجراح
ترجمہ: ہر امت میں ایک امین ہوتے ہیں، اس امت کے امین سیدنا ابو عبیدہؓ بن جراح ہیں۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 629 جلد، 2)
(حدیث نمبر، 4380/4382)
پیغمبر اسلامﷺ کی نظر میں:
عبداللہ بن شقیقؒ کا بیان ہے کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں رسول اللہﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھے؟ انہوں نے جواب دیا حضرت ابوبکرؓ، میں نے عرض کیا پھر کون؟ جواب دیا سیدنا عمرؓ، پھر کون؟ فرمایا حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح، پھر کون؟ اس مرتبہ وہ خاموش ہو گئیں اورکچھ جواب نہ دیا۔
(جامع ترمذي: صفحہ، 216 جلد، 2 مناقبِ ابی عبیدہؓ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا
نعم الرجل أبوبکرؓ
ترجمہ: بہترین آدمی سیدنا ابوبکرؓ ہیں،
نعم الرجل عمرؓ
ترجمہ: بہترین آدمی حضرت عمرؓ ہیں،
نعم الرجل ابوعبیدہؓ بن الجراح
ترجمہ: اور بہترین آدمی سیدنا ابوعبیدہؓ بن جراح ہیں۔
(جامع ترمذي: صفحہ، 217 جلد، 2 مناقبِ ابی عبیدہؓ)
نبی اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب کرکے فرمایا:
مامنکم من أحد إلاّ لوشئت لأخذتُ علیہ بعض خلقہ إلا أبا عبیدہؓ 
ترجمہ: سوائے سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کے تم میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ جسے بعض اخلاقی معاملہ میں آڑے ہاتھ نہ لے لوں۔
(المستدرک: صفحہ، 266 جلد، 3)
(الاستیعاب: صفحہ، 3 جلد، 2)
علامہ ذہبی نے اس حدیث پاک کے ذیل میں لکھا ہے۔ کان ابوعبیدہؓ موصوفاً بحسن الخلق وبالحلم الزائد والتواضع
ترجمہ: کہ حضرت ابو عبیدہؓ تواضع، حلم و بردباری اور حسنِ اخلاق کے پیکر تھے۔
(سیرِ أعلام النبلاء: صفحہ، 13 جلد، 1)
نبی اکرمﷺ نے انہیں بھی عشرہ مبشرہ میں شمار کیا ہے۔
(جامع ترمذي: صفحہ، 215 جلد، 2)
سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی نظر میں:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ سقیفہ بنو ساعدہ میں بیعتِ خلافت کے دن سیدنا ابوبکرؓ نے دل موہ لینے والی شستہ اور في البدیہہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت و بزرگی بیان کی وہ سب درست ہے اور تم بے شک اس کے مستحق اور اہل ہو، مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہو سکتی، کیونکہ خاندانِ قریش نسب اور خاندان کے اعتبار سے عرب کی تمام قوموں پہ فائق ہے 
فبایعوا أیہما شئتم فأخذ بیدی وبید أبی عبیدہؓ بن الجرّاح وہو جالس بیننا
ترجمہ: لہٰذا اب تم لوگ ایسا کرو ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کر لو، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ فرما کر میرا اور سیدنا ابوعبیدہؓ بن جراح (جو ہم لوگوں کے مابین تشریف فرما تھے) کا ہاتھ تھاما اور بیعتِ خلافت کے لیے آگے بڑھا دیا، کچھ دیر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں اس کے بعد تمام لوگوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خلیفۃ المسلمین نامزد کرنے اور ان سے بیعتِ خلافت لینے پر اتفاق کر لیا۔
(صحیح بخاري: صفحہ، 10010 جلد، 2)
حدیث نمبر، 683 کا مطالعہ کریں)
حضرت ابو عبیدہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں ان کے معاون و خیرخواہ رہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انہیں بیت المال کا ذمہ دار اور خزانچی بنا دیا۔
(تاریخِ خلیفۃ: صفحہ، 123)
(سیر أعلام النبلاء: صفحہ، 15 جلد، 1)
پھر 13 ہجری میں ان کو شام کا گورنر بنا دیا، یہ شام ہی میں تھے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتقال ہو گیا اور ان کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسلمین بنے اور انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو لشکرِ اسلام کی امارت سے معزول کر کے حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن جراح کو لشکرِ اسلام کی امارت و سیادت سونپی اور ان کو سپہ سالارِ اسلام منتخب کیا۔
(سیرِ أعلام النبلاء: صفحہ، 21 جلد، 1)
آپؓ نے لشکرِ اسلام کی قیادت کا فریضہ بحسنِ خوبی انجام دیا اور بڑی تیزی سے شہر در شہر فتح کرتے چلے گئے۔ بیت المقدس کو فتح کرنے کے موقع سے عیسائیوں کی شرط کے مطابق حضرت عمرؓ شام تشریف لائے تو سیدنا ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین کو دیکھ کر گھوڑے سے اتر گئے، حضرت عمرؓ بھی اتر پڑے، سیدنا ابو عبیدہؓ نے ان کے ہاتھ چومنے کا ارادہ کیا، تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کے پاؤں چومنے کا قصد کیا، پھر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹے تو سیدنا عمرؓ بھی پیچھے ہٹ گئے۔
(البدایۃ و النہایۃ: صفحہ، 55 جلد، 7)
اسی موقع سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو عبیدہؓ سے فرمایا آپؓ ہمیں اپنے گھر لے چلیں انہوں نے عرض کیا میرے گھر جا کر آپؓ کیا کریں گے؟ میرے گھر میں کیا رکھا ہے؟ اگر آپؓ جائیں گے تو روئے بغیر نہیں رہیں گے۔ اگر رونا ہی چاہتے ہیں تو تشریف لے چلیں۔ جب ان کے گھر تشریف لائے تو گھر کو خوب ٹٹولا، مگر کوئی سامان نہ پایا، تو حیرت اور تعجب سے پوچھا! آپؓ کے گھر کے ساز و سامان کہاں؟ صرف بچھانے کا ایک فرش، کھانے کی ایک بڑی سی تھالی اور پینے کا ایک مشکیزہ نظر آرہا ہے، جب کہ آپؓ امیر ہیں، کیا آپؓ کے پاس خوراک اور غلّہ نہیں ہے؟ 
حضرت ابو عبیدہؓ یہ سن کر کھڑے ہوئے اور امیر المؤمنین کے سامنے ایک برتن لا کر رکھ دیا جس میں کھجور کے کچھ ٹکڑے پڑے ہوئے تھے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان کی یہ حالت دیکھ کر بلک بلک کر رونے لگے۔ حضرت ابو عبیدہؓ نے فرمایا اے امیر المؤمنین! میں نے آپؓ سے پہلے کہہ دیا تھا کہ آپ میری حالت دیکھ کر آنسو بہائے بغیر نہیں رہیں گے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے سیدنا ابو عبیدہؓ! آپؓ کے علاؤہ ہم تمام لوگوں کو دنیا نے بدل ڈالا۔
(سیرِ اعلام النبلاء: صفحہ، 17 جلد، 1)
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے واپسی پر مدینہ منورہ سے ان کے پاس اور سیدنا معاذ بن جبلؓ کے پاس چار ہزار درہم بھیجے اور قاصد سے یہ بتا دیا کہ ان دونوں پر گہری نظر رکھنا کہ یہ ان درہموں کو کہاں خرچ کرتے ہیں؟ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو جیسے ہی یہ رقم ملی اسی وقت سارے درہموں کو تقسیم کرا دیا اور حضرت معاذ بن جبلؓ نے بھی ایسا ہی کیا البتہ اہلیہ محترمہ کے مطالبہ پر کچھ دراہم انہیں دے دیئے، جب قاصد نے سارا ماجرا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہوئے اور شکر بجا لاتے ہوئے فرمایا 
الحمد للّٰہ الذي جعل في الإسلام من یصنع ہذا
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 413 جلد، 3)
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ اپنے ہم نشینوں سے فرمایا تم لوگ اپنی اپنی خواہش کا اظہار کرو، ہر ایک نے اپنی خواہش ظاہر کی۔ بعض نے یہ کہا کہ میرے پاس گھر بھر سونا ہوتا اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں لٹا کر اجرِ عظیم حاصل کرتا، بعض نے گھر بھر کر جوہر کی خواہش ظاہر کی اور بعض نے گھر بھر درہم کی خواہش ظاہر کی کہ اگر اتنے مال ہوتے تو اللہ تعالیٰ کی راہ میں سب خرچ کر دیتا۔ آخر میں حضرت عمرؓ نے فرمایا میری خواہش اور میری آرزو یہ ہے کہ ایک میرا ایسا گھر ہو جس میں سیدنا ابوعبیدہؓ بن جراح جیسے صفات کے حامل لوگ جمع ہوں۔
(طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 413 جلد، 3)
(المستدرک: صفحہ، 262 جلد، 3)
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اگر سیدنا ابو عبیدہؓ کی زندگی میں میری موت ہو گئی تو مجھے کوئی پرواہ نہیں، میں انہیں خلیفہ نامزد کر جاؤں گا۔ اگر اللہ تعالیٰ مجھ سے ان کے خلیفہ بنانے کے متعلق سوال کریں گے تو میں یہ جواب دوں گا اے رب العالمین! میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر امت میں ایک امین ہوتا ہے، میری امت کے امین سیدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں۔
(مسندِأحمد: صفحہ، 18 جلد، 1)
سببِ وفات:
حضرت ابو عبیدہؓ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں کے نتیجے میں فتوحات کا سلسلہ بامِ عروج پر پہنچا ہوا تھا کہ عین اسی موقع پر 18 ہجری میں طاعونِ عمواس (طاعونِ عمواس یہ طاعون عمواس نامی بستی کی جانب منسوب ہے یہ بستی رملہ اور بیت المقدس کے درمیان واقع ہے
(سیرِ أعلام النبلاء: صفحہ، 23 جلد، 1) 
طاعون کی ایسی خطرناک وبا پھیلی کہ جس سے نسلِ انسانی کے کُشتوں کے پُشتے لگ گئے، 36 ہزار اسلامی فوج میں سے صرف چھ ہزار اس وباء سے بچ سکے اور 30 ہزار کی عظیم الشان فوج اور جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس وباء کی نذر ہو گئے۔
(سیرِ اعلام النبلاء: صفحہ، 19 جلد، 1)
حضرت عمر فاروقؓ کو اس مہلک وباء کا علم ہوا تو فوراً ایک قاصد کو خط دے کر حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ کیا، جس میں یہ لکھا کہ مجھے آپؓ سے بہت ضروری کام ہے، آپؓ کے بغیر یہ کام نہیں ہو سکتا ہے لہٰذا خط ملتے ہی مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہو جائیں۔ جب سیدنا ابو عبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کا والا نامہ پڑھا تو فرمایا میں امیر المؤمنین کی ضرورت خوب سمجھ رہا ہوں کہ انہیں مجھ سے کیا ضروری کام ہے؟ درحقیقت وہ ایک ایسے شخص کو موت کے پنجہ سے بچانا چاہتے ہیں جو اس دنیا میں ہمیشہ و ہمیشہ باقی رہنے والا نہیں ہے، یہ جملہ کہتے ہوئے امیر المؤمنین کے نام جوابی خط لکھا! حضرت! مجھ سے آپؓ کی کیا ضرورت وابستہ ہے اس کا مجھے خوب علم ہے۔ براہِ کرم آپؓ مجھے ان مجاہدینِ اسلام کے ساتھی ہی رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں! کیونکہ آج میں لشکرِ اسلام کا ایک فرد ہوں اور اس نازک حالت میں اس لشکر کو نہیں چھوڑ سکتا ہوں اور نہ ان سے کسی قسم کی جدائیگی برداشت کر سکتا ہوں.
جب یہ خط حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پڑھا تو انہیں ایک دھچکا سا لگا اور زار و قطار رونے لگے ان کی یہ حالت دیکھ کر کچھ لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا؟
حضرت عمرؓ نے جواب میں فرمایا لا، وکأن قد نہیں! لیکن بس ۔۔۔۔۔
حضرت ابو عبیدہؓ بھی اس مہلک وباء سے نہ بچ سکے، آپؓ کی ہتھیلی میں طاعون کا اثر ظاہر ہوا۔ اسے دیکھ کر آپؓ نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے قاصد سیدنا حارث بن عمیرۃؓ سے فرمایا خدا کی قسم! اگر اس بیماری کے بدلہ سرخ اونٹ (یہ عربوں میں سب سے زیادہ قیمتی مال شمار ہوتا ہے) بھی مجھے مل جاتا تو میں اسے پسند نہیں کرتا۔
(المستدرک: صفحہ، 263 جلد، 3 رواتہ کلہم ثقات علی شرط البخاري ومسلم)
اسی حالت میں جابیہ بیت المقدس نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے، اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشیں اور لوگوں کا امیر بنایا اور اسی وقت بیسان کے قریب مقام فَحل 18 ہجری طاعونِ عمواس میں اپنی جان جانِ آفریں کے حوالہ کر دی۔
(سیرِ اعلام النبلاء: صفحہ، 21 جلد، 1)
(الإصابۃ: صفحہ، 245 جلد، 2)
حضرت معاذ بن جبلؓ (سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ انصاری امام العلماء) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں حلال و حرام کے سب سے بڑے عالم، قاری قرآن اور جامعِ قرآن، رسول اللہﷺ کی حیاتِ طیبہ میں مکہ مکرمۃ کے معلمِ قرآن اور فقیہ، قاضیِ یمن اور نبی اکرمﷺ کے محبوبِ نظر تھے۔ یہ بہت ہی حسین و جمیل تھے، ان جیسا خوبصورت شخص کبھی کسی عورت نے جنا ہی نہیں۔
(سیرِ اعلام النبلاء: صفحہ، 445 جلد، 1)
یہ 18 سال کی عمر میں عقبہ میں شریک ہو کر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ انہوں نے بہت سے عظیم الشان کارنامے انجام دیئے ہیں، اس کے لیے
(سیرِ اعلان النبلاء: صفحہ، 443/461 جلد، 1)
کا مطالعہ کریں۔ یہ بھی اسی طاعونِ عمواس میں 34 سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ کے پیارے ہو گئے۔
(الإصابۃ: صفحہ، 407 جلد، 3)
 آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور لوگوں میں تعزیتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا
انکم فجعتم برجل، مازعم واللّٰہ إني رأیت من عباداللّٰہ قط أقل حقداً، ولا أبر صدراً، ولا أبعد غائلۃ، ولا أشد حیاء للعاقبۃ ولاأنصح للعامۃ منہ فترحموا علیہ۔
ترجمہ: لوگو! آج تم ایک ایسی ہستی کے غم میں مبتلا ہو کہ خدا کی قسم! میں اللہ کے بندوں میں ان سے بڑھ کر بغض و حسد سے پاک سینہ، نیک دل، بغض و عداوت سے کوسوں دور، آخرت سے زیادہ شرم کرنے والا اور عوام الناس کے ساتھ نصیحت و خیر خواہی کا معاملہ کرنے والا کسی اور کو نہ پایا۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے ان پر رحمت برسانے کی دعا کرو۔
(الإصابۃ: صفحہ، 245 جلد، 2)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں میرے تین حقیقی دوست تھے
1: حضرت ابوبکرؓ
2: حضرت عمرؓ
3: حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح
(سیرِ اعلام النبلاء: صفحہ، 14 جلد، 1)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تین عظیم ترین شخصیات:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ قریش کی تین شخصیات ایسی ہیں جن کے چہرے تمام لوگوں سے بڑھ کر زیادہ حسین، جن کا اخلاق سب سے عمدہ اور جن میں سب زیادہ حیاء پائی جاتی ہے وہ تین عظیم شخصیات یہ ہیں! سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عثمان بن عفانؓ اور سیدنا ابو عبیدہؓ بن جراح۔
(الاِصابہ: صفحہ، 244 جلد، 2)