حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح
نقیہ کاظمی(5) حضرت ابوعبیدہؓ بن جرّاح
حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح کو حافظ ابو عبداللّٰه نیشاپوری رحمہ اللّٰہ اور علامہ ابونعیم اصفہانی رحمہ اللّٰہ نے صفہ کے طالب علموں میں شمار کیا ہے۔
(حلیۃ الأولیاء:صفحہ10۔جلد2)
حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح اصحابِ صفہؓ کے ساتھ رہ کر منبعِ نبوت سے اس قدر سیراب ہوئے کہ پیغمبر اسلامﷺ نے انہیں قرآن وسنت اور دینِ اسلام کا معلم بنا کر وفدِ نجران کے ساتھ روانہ کیا۔
(صحیح مسلم:صفحہ282۔جلد2، مناقبِ ابی عبیدہؓ۔)
قرآن کریم کے اندر اتنا کمال حاصل کیا کہ ان کا شمار جامعِ قرآن میں ہونے لگا۔
(سیرِاعلام النبلاء:صفحہ09۔جلد1)
حضرت ابوعبیدہؓ کے اکثر اوقات میدانِ جنگ میں لشکرِ اسلام کی قیادت کرتے ہوئے گذرے ہیں، حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں حضرت خالد بن ولیدؓ کی جگہ امیرِ لشکر اور سپہ سالارِ اسلام آپ ہی رہے ہیں۔
(سیرِ اعلام النبلاء:صفحہ12۔جلد1)
یہی وجہ ہے کہ آپ کا کوئی مخصوص حلقۂ درس نہیں رہا اور نہ آپ باضابطہ طریقۂ تعلیمِ علومِ نبوت کو اپنا سکے، پھر بھی آپ کے فیض یافتگان میں مشہور صحابۂ کرامؓ ہیں، ان میں: حضرت جابر بن عبداللّٰہؓ، حضرت عرباض بن ساریہؓ، حضرت ابوامامہ باہلیؓ، حضرت سمرہ بن جندبؓ اور حضرت عبدالرحمن بن غنمؓ ہیں۔
(تہذیب التہذیب:صفحہ73۔جلد5)
آپ کی احادیث کی تعداد بقول علامہ ذہبی 15 ہے۔(سیر اِعلام النبلاء:صفحہ6۔جلد1)
حضرت ابوعبیدہؓ کا سلسلۂ نسب اور ان کا حلیۂ مبارکہ
حضرت ابوعبیدہؓ کا اسم گرامی عامر ہے، اور ان کے والد کانام عبداللّٰہ بن جرّاح بن ہلال ہے، ان کی کنیت ابوعبیدہؓ بن جراح ہے اور یہ خاندانِ قریش سے تعلق رکھتے ہیں۔
(طبقات ابنِ سعد:صفحہ414۔جلد3، المستدرک:صفحہ264۔جلد3۔)
حضرت ابوعبیدہؓ خوش شکل، خوب رو، دبلے پتلے، دراز قد، ذراجھکے ہوئے اور ہلکی ڈاڑھی والے تھے اور آپ کے سامنے کے دودانت ٹوٹے ہوئے تھے۔
(تہذیب التہذیب:صفحہ73۔جلد5)
اسلام
حضرت ابوعبیدہؓ قدیم الاسلام ہیں۔ طبقات ابنِ سعد کے حوالہ سے علامہ ابنِ حجر نے نقل کیا کہ رسول اللّٰہﷺ کے ’’دارارقم‘‘ میں تشریف لے جانے سے پہلے حضرت ابوعبیدہؓ، حضرت عثمان بن مظعونؓ، حضرت ابوعبیدہؓ بن حارث، حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف اور حضرت ابوسلمۃ بن عبدالأسدؓ ایک ساتھ رسول اللّٰہﷺ کے پاس آئے اور آپﷺ نے ان پر اسلام پیش کیا اور اسلامی ضروری باتیں انہیں بتائیں یہ سب بیک وقت مسلمان ہوگئے۔
(طبقات ابنِ سعد:صفحہ303۔جلد3، الاصابۃ:صفحہ243۔جلد2)
عہدِ نبویﷺ میں حضرت ابوعبیدہؓ کے جنگی کارنامے
حضرت ابوعبیدہؓ غزوۂ بدرمیں شریک ہوکر اسلام کی حقانیت کی خاطر رہتی دنیا تک ایک تاریخی کارنامہ انجام دے گئے ہوا یہ کہ غزوۂ بدر میں حضرت ابوعبیدہؓ بے خوف وخطر دشمنوں کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھتے جارہے تھے، کفار سامنے سے ہٹتے جارہے تھے، لیکن ایک شخص آپ کے سامنے کھڑا ہی نہیں تھا بلکہ آپ سے مقابلہ کرنے کے درپے تھا؛ لیکن آپ نے اس سے پہلو تہی اختیار کرنے میں کوئی کسر باقی نہ رکھی، مگر وہ شخص آپ سے مقابلہ کرنے کے لیے بارہا سامنے آتا رہا، جب دیکھا کہ اب مقابلہ کیے بغیر کو ئی چارہ نہیں ہے تو تلوار سے ایسا زوردار وار کیا جس سے جسم کے دو ٹکڑے ہوگئے۔ یہ شخص آپ کے والد عبداللّٰہ بن جراح تھے۔ آپ کایہ اقدام اللّٰه تعالیٰ کو اتنا پسند آیاکہ آپ کی شان میں یہ آیت نازل کردی:
لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ ۚ (إلی آخر الآیۃ)۔
ترجمہ: جولوگ اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر (پورا پورا) ایمان رکھتے ہیں آپ ان کو نہ دیکھیں گے کہ وہ ایسے شخصوں سے دوستی رکھتے ہوں جواللہ اور اس کے رسول کے برخلاف ہوں ،خواہ وہ ان کے باپ، یا بیٹے ، یا بھائی یا ان کے اہلِ خاندان ہی کیوں نہ ہوں ۔ان لوگوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے ایمان ثبت کردیاہے اور اپنی طرف سے ایک روح، فیض عطا کر کے ان کو قوت دی ہے اور ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گاجن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اللّٰه تعالیٰ ان سے راضی ہوگا، وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہوں گے ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے گروہ ہیں ، خوب سن لو! اللّٰہ تعالیٰ کا گروہ ہی فلاح و کامیابی پانے والاہے ۔
(سورۃ المجادلۃ آیت22، طبقات ابنِ سعد:صفحہ298۔جلد3، حلیۃالأولیاء:صفحہ101۔جلد1)
حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح نے غزوۂ احد میں بھی شرکت کرکے ایک زبردست کارنامہ انجام دیا ہے، غزوۂ احدمیں جب مسلمانوں کے پاؤں اکھڑنے لگے تو اس نازک وقت میں یہ ان چودہ جاں نثار صحابۂ کرامؓ میں سے ایک تھے جنہوں نے رسول اللّٰہﷺ کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا اور اپنے سینوں پہ دشمنوں کی تیر کھا کر محبوبِ جان رسول اللّٰہﷺ کی جانب سے دفاع کا بھر پور فریضہ سر انجام دیا تھا۔
(المغازی للواقدی:صفحہ240۔جلد1)
اس دن نبی اکرمﷺ کا سرِ مبارک، رخسارِ انور اور نیچے کا لبِ مبارک زخمی ہوا تھا اور رباعی دندانِ مبارک شہید ہوئے تھے۔
(صحیح بخاري:صفحہ584۔جلد2 رقم:4075، فتح الباري:صفحہ382۔جلد7)
رخسارِ انور میں خَود (لوہے کی ٹوپی) کے دو حلقے گڑگئے تھے، اس کو حضرت ابوعبیدہؓ نے دانت سے پکڑ کر کھینچا جس سے ان کے سامنے کے دو دانت گرگئے، اس کے باوجود ان کو دیکھنے والے یہ کہا کرتے کہ اگلے دونوں دانت ٹوٹ جانے کے بعد بھی حضرت ابوعبیدہؓ نہایت خوبصورت دکھائی دیتے تھے۔
(طبقات ابنِ سعد:صفحہ409۔جلد3، المستدرک:صفحہ266۔جلد3)
غزوۂ ذات السلاسل(غزوۂ ذات السلاسل: ماہِ جمادی الثانی 8ھ)میں نبی اکرمﷺ کو خبر ملی کہ بنوقضاعۃ کی جماعت مدینہ منورہ پرحملہ آور ہونا چاہتی ہے، آپﷺ نے اس کی سرکوبی کے لیے حضرت عمرؓو بن عاص کو امیر بنایا انہیں سفید جھنڈا دیا اور تین سو آدمی اور تیس گھوڑے ان کے ساتھ کیے۔ آگے چل کر معلوم ہوا کہ کفار کی تعداد بہت ہے تو رسول اللّٰہﷺ سے امداد طلب کی، آپ نے حضرت ابوعبیدہؓ کو دوسو گھوڑوں کے ساتھ روانہ کیا جیساکہ آگے آرہا ہے۔ یہ سب آپس میں مل کر بنو قضاعہ پر زوردار حملہ کیے، جس سے ان کے پاؤں اکھڑ گئے اور میدان چھوڑ بھاگے۔
(المغازی للواقدی:صفحہ692۔ فتح الباری:صفحہ74۔جلد8)
میں پیغمبرِ اسلامﷺ نے حضرت عمرؓوبن عاص کی مدد کے لیے حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح ہی کو دوسو آدمیوں کے ساتھ روانہ فرمایا تھا، جن میں حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ بھی تھے اور نبی اکرمﷺ نے یہ تاکید فرمائی تھی کہ عمرؓوبن عاص سے مل کر کام کرنا اور آپس میں اختلاف نہ کرنا، جب حضرت ابوعبیدہؓ وہاں پہنچے اور نماز کا وقت آیاتو انہوں نے امامت کرنی چاہی۔ حضرت عمرؓو بن عاص نے فرمایا: امیر لشکر تومیں ہوں، آپ لوگ میری مدد کے لیے آئے ہیں، یہ سن کر انہوں نے فرمایا: رسول اللّٰہﷺ نے چلتے وقت مجھ کو حکم دیاتھا کہ اتفاق سے رہنا اختلاف نہ کرنا اس لیے میں تمہاری اطاعت کررہاہوں، اور اپنی امامت تمہیں سونپ رہا ہوں۔
(المغازي للواقدي:صفحہ769۔جلد2، فتح الباري:صفحہ674۔جلد7)
حضرت ابوعبیدہؓ کی اعلیٰ دیانت اور اکمل قائدانہ صلاحیت کو رسول اللّٰہﷺ نے دیکھتے ہوئے ’’جنگِ سیف البحر ‘‘ میں آپ ہی کو امیرِ لشکر بنایا یہ جنگ 8ھماہِ رجب میں پیش آئی ہے۔
(المغازي:صفحہ774۔جلد2، فتح الباري:صفحہ679۔جلف7)
صحیح بخاری شریف میں ہے کہ پیغمبر اسلامﷺ نے سمندری ساحل کی طرف قریش کی گھات میں تین سو افراد پرمشتمل ایک لشکر بھیجا اور امیرِ لشکر حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح کو بنایا، راستہ ہی میں لشکر کا زادِ راہ ختم ہوگیا، حضرت ابوعبیدہؓ نے لشکر کے بچے کھچے زادِ راہ جمع کرنے کا حکم دیا، دو تھیلے کھجوروں کے جمع ہوگئے۔ حضرت جابرؓ کا بیان ہے کہ روزانہ ہمیں تھوڑا تھوڑا کھانے کو دیتے تھے، بالآخر یہ بھی ختم کے قریب ہوا تو ہمارے حصہ میں صرف ایک ایک کھجور آتی تھی، ایک کھجور کی قدر اس وقت معلوم ہوئی اوراس موقع پر سخت فاقہ کی بناپر درختوں کے پتے تک کھائے اسی لیے اس لشکر کانام ’’سریۃ الخبط‘‘ بھی پڑگیا پندرہ دنوں تک اسی حالت میں رہے کہ اللّٰه تبارک وتعالیٰ نے بڑے ٹیلے کی طرح ایک مچھلی ظاہر فرمائی اس مچھلی کو سارا لشکر اٹھارہ راتوں تک کھاتا رہا، بعد میں حضرت ابوعبیدہؓ کے حکم سے اس مچھلی کے پسلیوں کی دوہڈیاں کھڑی کی گئیں اور ایک سواری کا کجاوا کسا گیا اور وہ اس کے نیچے گذاری گئی مگر ہڈیوں کو بالکل نہیں چھوا۔
(صحیح البخاري:صفحہ625۔جلد2 حدیث نمبر:4360،4361۔)
واضح رہے کہ اس جنگِ سیف البحر میں کفار سے کسی قسم کے قتل وقتال کی نوبت نہیں آئی۔
(فتح الباري:صفحہ679۔جلد7)
آپ تمام غزوات میں رسول اللّٰہﷺ کے ساتھ شریک رہے اور ہر غزوہ میں پوری جنگی قوت کا مظاہرہ کیا۔(لإصابۃ:صفحہ243۔جلد2)
امتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلاۃ والسلام میں ’’امین‘‘ کے لقب سے ملقب
’’نجران‘‘ کا وفد پیغمبر اسلامﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا! اے اللّٰه کے رسول! ہمارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجئے جو ہمیں قرآن وسنت کی تعلیم دے۔
(صحیح مسلم:صفحہ282۔جلد2)
اور صحیح بخاری کی روایت میں یہ ہے کہ آپﷺ ہمارے ساتھ کوئی امانت دار شخص بھیجئے۔ رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا : میں تمہارے ساتھ ایک امانت دار آدمی ہی کو بھیجوں گا جویقیناً کماحقہ امانت دار ہے ۔
صحابۂ کرامؓ شدت سے منتظر تھے کہ کسے بھیجتے ہیں؟
(صحیح بخاري:صفحہ629۔جلد2، نمبر4380،3745)
اس عظیم اور اعلیٰ صفت ’’امین‘‘ کا حامل کون ہے؟ حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ زندگی میں صرف ایک مرتبہ امیر و سردار بننے کی خواہش ہوئی، وہ یہی موقع تھا، وہ بھی امارت وسیادت کے شوق کی بناپر نہیں، بلکہ اس وجہ سے کہ رسول اللّٰہﷺ کے بیان فرمودہ اوصاف کا مصداق میں قرارپاؤں ۔(مسندِ أبویعلیٰ بحوالہ فتح الباري:11۔جلد7)
لیکن نبی اکرمﷺ نے حضرتابوعبیدہؓ سے فرمایا: آپ کھڑے ہوجائیے اور ان کے ساتھ جائیے ، جب جانے کے لیے تیار ہو گئے تو نبی اکر مﷺ نے ارشاد فرمایا: لکل أمۃ أمینٌ وأمین ہذہ الأمۃابوعبیدہؓ بن الجراح‘‘ ہرامت میں ایک امین ہوتے ہیں، اس امت کے امین ابوعبیدہؓ بن جراح ہیں ۔(صحیح بخاري:صفحہ629۔جلد2، نمبر4380،4382۔)
پیغمبر اسلامﷺ کی نظر میں
عبداللہ بن شقیق کا بیان ہے کہ میں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیا کہ صحابۂ کرام میں رسول اللّٰہﷺ کو سب سے زیادہ محبوب کون تھے ؟ انہوں نے جواب دیا: حضرت ابوبکرؓ، میں نے عرض کیا: پھر کون؟ جواب دیا: حضرت عمرؓ، پھرکون؟ فرمایا: حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح، پھرکون؟ اس مرتبہ وہ خاموش ہوگئیں اورکچھ جواب نہ دیا۔
(جامع ترمذي:صفحہ216۔جلد2، مناقبِ ابی عبیدہؓ)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’ نعم الرجل أبوبکرؓ ‘‘ بہترین آدمی ابوبکرؓ ہیں، ’’ نعم الرجل عمرؓ ‘‘ بہترین آدمی عمرؓ ہیں ’’نعم الرجل ابوعبیدہؓ بن الجراح‘‘ اور بہترین آدمی ابوعبیدہؓ بن جراح ہیں۔
(جامع ترمذي:صفحہ217۔جلد2، مناقبِ ابی عبیدہؓ)
نبی اکرمﷺ نے صحابۂ کرامؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’مامنکم من أحد إلاّ لوشئت لأخذتُ علیہ بعض خلقہ إلا أبا عبیدہؓ‘‘سوائِ ابوعبیدہؓ کے تم میں کوئی ایسا نہیں ہے کہ جسے بعض اخلاقی معاملہ میں آڑے ہاتھ نہ لے لوں۔
(المستدرک:صفحہ266۔جلد3، الاستیعاب:صفحہ3۔جلد2)
علامہ ذہبی نے اس حدیث پاک کے ذیل میں لکھا ہے ۔ ’’کان ابوعبیدہؓ موصوفاً بحسن الخلق وبالحلم الزائد والتواضع‘‘ کہ حضرت ابوعبیدہؓ تواضع، حلم وبردباری اور حسنِ اخلاق کے پیکر تھے۔
(سیرِ أعلام النبلاء:صفحہ13۔جلد1)
نبی اکرمﷺ نے انہیں بھی عشرہ مبشرہ میں شمار کیا ہے۔
(جامع ترمذي:صفحہ215۔جلد2)
سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی نظر میں
حضرت عمرؓ کا بیان ہے کہ سقیفۂ بنو ساعدہ میں بیعتِ خلافت کے دن حضرت ابوبکرؓ نے دل موہ لینے والی شستہ اور في البدیہہ تقریر کرتے ہوئے فرمایا: انصاری بھائیو! تم نے جو اپنی فضیلت وبزرگی بیان کی وہ سب درست ہے اور تم بے شک اس کے مستحق اور اہل ہو، مگر خلافت قریش کے سوا اور کسی خاندان والوں کے لیے نہیں ہوسکتی، کیونکہ خاندانِ قریش نسب اور خاندان کے اعتبار سے عرب کی تمام قوموں پہ فائق ہے ’’فبایعوا أیہما شئتم فأخذ بیدی وبید أبی عبیدہؓ بن الجرّاح وہو جالس بیننا‘‘؛ لہٰذا اب تم لوگ ایسا کرو ان دو آدمیوں میں سے کسی سے بیعت کرلو، حضرت ابوبکرؓ نے یہ فرما کر میرا اور ابوعبیدہؓ بن جراح (جو ہم لوگوں کے مابین تشریف فرماتھے) کا ہاتھ تھاما اور بیعتِ خلافت کے لیے آگے بڑھا دیا، کچھ دیر لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں اس کے بعد تمام لوگوں نے حضرت ابوبکرؓ کو خلیفۃالمسلمین نامزد کرنے اور ان سے بیعتِ خلافت لینے پر اتفاق کرلیا۔(صحیح بخاري:صفحہ10010۔جلد2، نمبر683، کا مطالعہ کریں۔)
حضرت ابوعبیدہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دورِ خلافت میں ان کے معاون وخیرخواہ رہے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں بیت المال کا ذمہ دار اور خزانچی بنادیا۔
(تاریخِ خلیفۃ:صفحہ123، سیر أعلام النبلاء:15۔جلد1)
پھر 13ھمیں ان کو ’’شام‘‘ کا گورنر بنادیا، یہ ’’شام‘‘ ہی میں تھے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کا انتقال ہوگیا اور ان کے بعد حضرت عمرؓ خلیفۃالمسلمین بنے اور انہوں نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو لشکرِ اسلام کی امارت سے معزول کر کے حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح کو لشکرِاسلام کی امارت وسیادت سونپی اور ان کو سپہ سالارِ اسلام منتخب کیا۔(سیرِ أعلام النبلاء:صفحہ21۔جلد1)
آپ نے لشکرِ اسلام کی قیادت کا فریضہ بحسنِ خوبی انجام دیا اور بڑی تیزی سے شہردرشہر فتح کرتے چلے گئے۔ بیت المقدس کو فتح کرنے کے موقع سے عیسائیوں کی شرط کے مطابق حضرت عمرؓ ’’شام‘‘ تشریف لائے تو حضرت ابوعبیدہؓ امیرالمؤمنین کو دیکھ کر گھوڑے سے اترگئے، حضرت عمرؓ بھی اتر پڑے، حضرت ابوعبیدہؓ نے ان کے ہاتھ چومنے کا ارادہ کیا، تو حضرت عمرؓ نے ان کے پاؤں چومنے کا قصد کیا، پھرحضرت ابوعبیدہؓ پیچھے ہٹے تو حضرت عمرؓ بھی پیچھے ہٹ گئے۔
(البدایۃ والنہایۃ:صفحہ55۔جلد7)
اسی موقع سے حضرت عمرؓ نے حضرت ابوعبیدہؓ سے فرمایا : آپ ہمیں اپنے گھر لے چلیں انہوں نے عرض کیا: میرے گھر جاکر آپ کیا کریں گے؟ میرے گھر میں کیا رکھا ہے ؟ اگر آپ جائیں گے توروئے بغیر نہیں رہیں گے ۔ اگر رونا ہی چاہتے ہیں تو تشریف لے چلیں۔ جب ان کے گھر تشریف لائے تو گھر کو خوب ٹٹولا، مگر کوئی سامان نہ پائے، توحیرت اور تعجب سے پوچھا ! آپ کے گھر کے ساز وسامان کہاں؟ صرف بچھانے کا ایک فرش، کھانے کی ایک بڑی سی تھالی اور پینے کا ایک مشکیزہ نظر آرہا ہے ، جب کہ آپ امیر ہیں، کیا آپ کے پاس خوراک اور غلّہ نہیں ہے؟ حضرت ابوعبیدہؓ یہ سن کر کھڑے ہوئے اور امیرالمؤمنین کے سامنے ایک برتن لاکر رکھ دیا جس میں کھجور کے کچھ ٹکڑے پڑے ہوئے تھے، حضرت عمرؓ ان کی یہ حالت دیکھ کر بلک بلک کر رونے لگے۔ حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا:اے امیرالمؤمنین! میں نے آپ سے پہلے کہہ دیاتھا کہ آپ میری حالت دیکھ کر آنسو بہائے بغیر نہیں رہیں گے، حضرت عمرؓ نے فرمایا: اے ابوعبیدہؓ! آپ کے علاوہ ہم تمام لوگوں کو دنیا نے بدل ڈالا ۔(سیرِ اعلام النبلاء:صفحہ17۔جلد1)
امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ نے واپسی پر مدینہ منورہ سے ان کے پاس اور حضرت معاذ بن جبلؓ کے پاس چار ہزار درہم بھیجے اور قاصد سے یہ بتادیاکہ ان دونوں پر گہری نظر رکھنا کہ یہ ان درہموں کو کہاں خرچ کرتے ہیں؟ حضرت ابوعبیدہؓ کو جیسے ہی یہ رقم ملی اسی وقت سارے درہموں کو تقسیم کرادیا اور حضرت معاذ بن جبلؓ نے بھی ایسا ہی کیا؛ البتہ اہلیہ محترمہ کے مطالبہ پرکچھ دراہم انہیں دے دیئے ، جب قاصد نے سارا ماجرا حضرت عمرؓ سے سنایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور اللّٰه تعالیٰ کی بہت زیادہ تعریف کرتے ہوئے اور شکر بجا لاتے ہوئے فرمایا: ’’الحمد للّٰہ الذي جعل في الإسلام من یصنع ہذا‘‘
(طبقات ابنِ سعد:صفحہ413۔جلد3)
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ اپنے ہم نشینوں سے فرمایا: تم لوگ اپنی اپنی خواہش کا اظہار کرو، ہرایک نے اپنی خواہش ظاہر کی۔ بعض نے یہ کہا کہ میرے پاس گھر بھر سونا ہوتا اسے اللّٰه تعالیٰ کی راہ میں لٹاکر اجرِعظیم حاصل کرتا، بعض نے گھر بھر کر جوہر کی خواہش ظاہر کی اور بعض نے گھر بھر درہم کی خواہش ظاہر کی کہ اگر اتنے مال ہوتے تو اللّٰه تعالیٰ کی راہ میں سب خرچ کردیتا۔ اخیر میں حضرت عمرؓ نے فرمایا: میری خواہش اور میری آرزو یہ ہے کہ ایک میرا ایسا گھر ہو جس میں ابوعبیدہؓ بن جراح جیسے صفات کے حامل لوگ جمع ہوں۔
(طبقات ابنِ سعد:صفحہ413۔جلد3، المستدرک:262.جلد3)
امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ابوعبیدہؓ کی زندگی میں میری موت ہوگئی تو مجھے کوئی پرواہ نہیں، میں انہیں خلیفہ نامزد کر جاؤں گا۔ اگر اللّٰه تعالیٰ مجھ سے ان کے خلیفہ بنانے کے متعلق سوال کریں گے تو میں یہ جواب دوں گا اے رب العالمین! میں نے رسول اللّٰہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہرامت میں ایک امین ہوتا ہے، میری امت کے امین ابوعبیدہؓ بن جراح ہیں۔
(مسندِأحمد:صفحہ18۔جلد1)
سببِ وفات
حضرت ابوعبیدہؓ کی قیادت میں لڑی جانے والی جنگوں کے نتیجے میں فتوحات کا سلسلہ بامِ عروج پر پہنچا ہوا تھا کہ عین اسی موقع پر 18ھمیں طاعونِ عمواس (طاعونِ عمواس یہ طاعون ’’عمواس‘‘ نامی بستی کی جانب منسوب ہے یہ بستی’’ رملہ‘‘ اور بیت المقدس کے درمیان واقع ہے۔)(سیرِ أعلام النبلاء:صفحہ23۔جلد1) کی ایسی خطرناک وبا پھیلی کہ جس سے نسلِ انسانی کے کُشتوں کے پُشتے لگ گئے،36 ہزار اسلامی فوج میں سے صرف چھ ہزار اس وباء سے بچ سکے اور 30 ہزار کی عظیم الشان فوج اور جلیل القدر صحابۂ کرامؓ اس وباء کی نذر ہوگئے۔
(سیرِ اعلام النبلاء:صفحہ19۔جلد1)
حضرت عمرؓ کو اس مہلک وباء کا علم ہوا تو فوراً ایک قاصد کو خط دے کر حضرت ابوعبیدہؓ کی طرف روانہ کیا، جس میں یہ لکھا کہ مجھے آپ سے بہت ضروری کام ہے، آپ کے بغیر یہ کام نہیں ہوسکتاہے ؛ لہٰذا خط ملتے ہی مدینہ منورہ کے لیے روانہ ہوجائیں۔ جب حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کا والانامہ پڑھا تو فرمایا: میں امیرالمؤمنین کی ضرورت خوب سمجھ رہا ہوں کہ انہیں مجھ سے کیا ضروری کام ہے؟ درحقیقت وہ ایک ایسے شخص کو موت کے پنجہ سے بچانا چاہتے ہیں جو اس دنیا میں ہمیشہ وہمیش باقی رہنے والانہیں ہے، یہ جملہ کہتے ہوئے امیرالمؤمنین کے نام جوابی خط لکھا! ’’حضرت ! مجھ سے آپ کی کیا ضرورت وابستہ ہے اس کا مجھے خوب علم ہے ۔ براہِ کرم آپ مجھے ان مجاہدینِ اسلام کے ساتھی ہی رہنے کی اجازت مرحمت فرمائیں ؛ کیونکہ آج میں لشکرِ اسلام کا ایک فرد ہوں اور اس نازک حالت میں اس لشکر کو نہیں چھوڑ سکتا ہوں اور نہ ان سے کسی قسم کی جدائیگی برداشت کر سکتا ہوں‘‘۔
جب یہ خط حضرت عمرؓ نے پڑھا تو انہیں ایک دھچکا سالگا اور زاروقطار رونے لگے ان کی یہ حالت دیکھ کر کچھ لوگوں نے دریافت کیا کہ کیا حضرت ابوعبیدہؓ کا انتقال ہوگیا؟
حضرت عمرؓ نے جواب میں فرمایا’’ لا، وکأن قد‘‘ نہیں ! لیکن بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
حضرت ابوعبیدہؓ بھی اس مہلک وباء سے نہ بچ سکے، آپ کی ہتھیلی میں طاعون کا اثر ظاہر ہوا۔ اسے دیکھ کر آپ نے حضرت معاذ بن جبلؓ کے قاصد حارث بن عمیرۃ سے فرمایا: خداکی قسم! اگر اس بیماری کے بدلہ سرخ اونٹ (یہ عربوں میں سب سے زیادہ قیمتی مال شمار ہوتاہے )بھی مجھے مل جاتا تو میں اسے پسند نہیں کرتا۔
(المستدرک :صفحہ263۔جلد3، رواتہ کلہم ثقات علی شرط البخاري ومسلم۔)
اسی حالت میں ’’جابیہ بیت المقدس‘‘ نماز پڑھنے کے لیے تشریف لے گئے، اور حضرت معاذ بن جبلؓ کو اپنا جانشیں اور لوگوں کا امیر بنایا اور اسی وقت ’’بیسان‘‘ کے قریب مقام ’’فَحل‘‘ 18ھ طاعونِ عمواس میں اپنی جان جانِ آفریں کے حوالہ کردی
(سیرِ اعلام النبلاء:صفحہ21۔جلد1، الإصابۃ:صفحہ245۔جلد2)
حضرت معاذ بن جبلؓ (حضرت معاذ بن جبلؓ انصاری امام العلماء،) صحابۂ کرامؓ میں حلال وحرام کے سب سے بڑے عالم، قارئ قرآن اور جامعِ قرآن، رسول اللّٰہﷺ کی حیاتِ طیبہ میں مکہ مکرمۃ کے معلمِ قرآن اور فقیہ، قاضیِ یمن اور نبی اکرمﷺ کے محبوبِ نظرتھے۔ یہ بہت ہی حسین وجمیل تھے، ان جیسا خوبصورت شخص کبھی کسی عورت نے جنا ہی نہیں (سیرِاعلام النبلاء:صفحہ445۔جلد1) یہ 18 سال کی عمر میں ’’عقبہ‘‘ میں شریک ہوکر مشرف بہ اسلام ہوئے۔ انہوں نے بہت سے عظیم الشان کا رنامے انجام دیئے ہیں، اس کے لیے (سیرِاعلام النبلاء:صفحہ443 تا461 جلد1)کا مطالعہ کریں۔ یہ بھی اسی طاعونِ عمواس میں 34 سال کی عمر میں اللّٰه تعالیٰ کے پیارے ہوگئے۔(الإصابۃ:صفحہ407۔جلد3) نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور لوگوں میں تعزیتی تقریر کرتے ہوئے فرمایا:
انکم فجعتم برجل، مازعم واللّٰہ إني رأیت من عباداللّٰہ قط أقل حقداً، ولا أبر صدراً، ولا أبعد غائلۃ، ولا أشد حیاء للعاقبۃ ولاأنصح للعامۃ منہ فترحموا علیہ۔
ترجمہ: لوگو! آج تم ایک ایسی ہستی کے غم میں مبتلا ہو کہ خداکی قسم ! میں اللّٰه کے بندوں میں ان سے بڑھ کر بغض وحسد سے پاک سینہ، نیک دل، بغض وعداوت سے کوسوں دور، آخرت سے زیادہ شرم کرنے والا اور عوام الناس کے ساتھ نصیحت و خیر خواہی کا معاملہ کرنے والا کسی اور کونہ پایا۔ تم لوگ اللہ تعالیٰ سے ان پر رحمت برسانے کی دعاء کرو۔
(الإصابۃ:صفحہ245۔جلد2)
حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ فرمایا کرتے تھے کہ صحابۂ کرامؓ میں میرے تین حقیقی دوست تھے : 1۔ حضرت ابوبکرؓ
2۔ حضرت عمرؓ
3۔ حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح۔
(سیرِ اعلام النبلاء:صفحہ14۔جلد1)
صحابہ کرامؓ میں تین عظیم ترین شخصیات
حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ کا بیان ہے کہ قریش کی تین شخصیات ایسی ہیں جن کے چہرے تمام لوگوں سے بڑھ کر زیادہ حسین، جن کا اخلاق سب سے عمدہ اور جن میں سب زیادہ حیاء پائی جاتی ہے وہ تین عظیم شخصیات یہ ہیں ! حضرت ابوبکرؓ، حضرت عثمان بن عفانؓ اور حضرت ابوعبیدہؓ بن جراح۔
(الاِصابہ: صفحہ244۔جلد2)