Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

کافر ناپاک ہیں، اور مسجد میں ان کا داخلہ ممنوع ہیں


کافر ناپاک ہیں، اور مسجد میں ان کا داخلہ ممنوع ہیں

یہ امر بھی خاص اہمیت رکھتا ہے کہ قرآن کریم نے کفار اور مشرکین کو ان کے ناپاک اور گندے عقائد کی بنا پر نجس قرار دیا ہے اور اس معنوی نجاست کے ساتھ ان کی آلودگی کا تقاضا یہ ہے کہ مساجد کو ان کے وجود سے پاک رکھا جائے ارشاد خداوندی ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِكُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا يَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَـرَامَ بَعۡدَ عَامِهِمۡ هٰذَا‌:

اے ایمان والو! مشرکین تو نرے ناپاک ہیں، بس وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی بھٹکے نہ پائیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ کافر مشرک کا مسجد میں داخلہ ممنوع ہے۔

امام ابوبکر جصاصؒ لکھتے ہیں کہ مشرک پر نجس کا اطلاق اس بنا پر کیا گیا کہ جس شرک کا وہ اعتقاد رکھتا ہے اس سے پرہیز کرنا اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ نجاستوں اور گندگیوں سے۔ اسی لئے ان کو نجس کہا اور شرح میں نجاست کی دو قسمیں ہیں ایک نجاست جسم اور دوم نجاست گناہ۔ اور ارشاد خداوندی ہے: اِنَّمَا الۡمُشۡرِكُوۡنَ نَجَسٌ: نے بتایا ہے کہ کفار کو دخول مسجد سے باز رکھا جائے الا یہ کہ عذر ہو، کیونکہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ مسجدوں کو نجاست سے پاک رکھیں۔

امام محی السنۃؒ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ کفار کے حق میں تمام اسلامی علاقے تین قسم پر ہیں۔ ایک حرم پاک مکہ پس کافر کو اس میں داخل ہونا کسی حال میں بھی جائز نہیں، خواہ اسلامی مملکت کا شہری ہو یا امن لے کر آیا ہو کیونکہ ظاہر آیت کا تقاضا یہی ہے۔ اور اہلِ کوفہ نے ذمی کے لئے حرم میں داخل ہونے کو جائز رکھا ہے اور دوسری قسم حجاز مقدس ہے پس کافر کے لئے اجازت لے کر حجاز میں داخل ہونا جائز ہے لیکن تین دن سے زیادہ وہاں ٹھہرنے کی اسے اجازت نہیں ہو گی، اور تیسری قسم دیگر اسلامی ممالک ہیں ان میں کافر کا مقیم ہونا جائز ہے بشرط یہ کہ ذمی ہو یا امن لے کر آئے لیکن وہ مسلمانوں کی مسجدوں میں مسلمان کی اجازت کے بغیر داخل نہیں ہو سکتے۔

اس سلسلہ میں دو چیزیں خاص طور سے قابل غور ہیں:

اول: یہ کہ آیت میں صرف مشرکین کا حکم ذکر کیا گیا ہے مگر مفسرین نے اس آیت کے تحت عام کفار کا حکم بیان فرمایا ہے کیونکہ کفر کی نجاست سب کافروں کو شامل ہے۔

دوم: یہ کہ کافر کا مسجد میں داخل ہونا جائز ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں اختلاف ہے امام مالکؓ کے نزدیک کسی مسجد میں کافر کا داخل ہونا جائز نہیں امام شافعیؒ کے نزدیک مسجد حرام کے علاوہ دیگر مساجد میں کافر کو مسلمان کی اجازت سے داخل ہونا جائز ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک بوقتِ ضرورت ہر مسجد میں داخل ہو سکتا ہے لیکن کسی کافر کا مسجد کا بانی متولی یا خادم ہونا کسی کے نزدیک بھی جائز نہیں ہے۔

نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد 9 ہجری میں بارگاہ رسالتﷺ میں حاضر ہوا تھا آنحضرتﷺ نے انہیں مسجد کے ایک جانب ٹھہرایا اور مسجد نبوی ہی میں انہوں نے اپنی نماز بھی ادا کی۔

حافظ ابن قیمؒ اس واقعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ کتاب کا مسلمانوں کی مسجدوں میں داخل ہونا جائز ہے اور یہ کہ ان کو مسلمانوں کی موجودگی میں اپنی عبادت کا موقع دیا جائے گا اور مسلمانوں کی مسجدوں میں بھی جبکہ یہ ایک اور عارضی صورت ہو لیکن ان کو اس بات کا موقع نہیں دیا جائے گا کہ وہ اس کو اپنے مستقل عادت ہی بنا لیں۔

اس واقعہ کے متعلق قاضی ابوبکر ابنِ العربیؒ لکھتے ہیں کہ ثمامہ کا مسجد میں داخل ہونا اور دوسری حدیث کے مطابق سیدنا ابو سفیانؓ کا اس میں داخل ہونا اس آیت کہ نازل ہونے سے پہلے کا واقعہ ہے کہ اے ایمان والو! مشرک ناپاک ہیں پس اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آنے پائیں.

بس اللّٰہ تعالیٰ جل شانہ نے مشرکوں کو مسجد میں داخل ہونے سے صاف صاف منع کر دیا اور دیگر مساجد سے یہ کہہ کر روک دیا کہ وہ ناپاک ہیں اور چونکہ مسجد کو ہر نجاست سے پاک رکھنا ضروری ہے اس لئے کافروں کے ناپاک وجود سے بھی اس کو پاک رکھا جائے گا اور یہ سب کچھ ظاہر ہے جس میں ذرا بھی خفاء نہیں۔