Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم (تحقیق)

  جعفر صادق

 نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم  

♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️♦️

♦️ جو شخص کلمہ پڑھ کر دین اسلام میں داخل ہوتا ہے اس پر نماز کی ادائیگی فرض ہوجاتی ہے۔ دیکھئے سورۃ النساء آیت نمبر ۱۳۰، نیز ارشاد ِباری تعالیٰ ہے:

  قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ  

الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ  

یقینا فلاح پائی اہل ایمان نے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں۔ (المؤمنون: 1,2)

♦️ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اسلام کی بنیاد پانچ (چیزوں) پر رکھی گئی ہے:

1: اشھد ان لا الہ الا اللہ اور اشھد ان محمدالرسول اللہ۔

2: نماز قائم کرنا

3: زکوٰۃ ادا کرنا

4: حج کرنا

5: رمضان کے روزے رکھنا

(ھذا حدیث صحیح متفق علی صحتہ، شرح السنۃ للبغوی ج ۱ ص۱۷، ۱۸ ح۶، البخاری:۸، مسلم: ۱۶) 

♦️ قیامت کے دن انسان سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا۔ (سنن ابن ماجہ: ۱۴۲۶ وسندہ صحیح وصححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم ۲۶۲/۱، ۲۶۳ ووافقہ الذہبی ولہ شاہد عنداحمد ۶۵/۴، ۱۰۳،۳۷۷/۵)

♦️ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

((صلوا کما رایتمونی اصلی))

نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔

(صحیح بخاری ۸۹/۲ ح۶۳۱)

♦️ نماز میں ایک اہم مسئلہ ہاتھ باندھنے کا ہے ۔

1: ایک گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔

2: دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ کھولنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔

دلیل نمبر 1: سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھیں [یہ حدیث مرفوع ہے]

(مؤطا امام مالک ۱۵۹/۱ ح۳۷۷، صحیح بخاری مع فتح الباری ۱۷۸/۲ح ۷۲۰)

دلیل نمبر 2 : نمازمیں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی احادیث متعدد صحابہ سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں،

مثلاً:

1- وائل بن حجر رضی اللہ عنہ (مسلم: ۴۰۱ وابوداؤد: ۷۲۷)

2- جابر رضی اللہ عنہ (احمد ۳۸۱/۳ح ۱۵۱۵۶ وسندہ حسن)

3- ابن عباس رضی اللہ عنہ (صحیح ابن حبان ، الموارد: ۸۸۵ وسندہ صحیح)

4- عبداللہ بن جابر البیاضی رضی اللہ عنہ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی ۱۶۱۰/۳ ح۴۰۵۴وسندہ حسن واوردہ الضیاء فی المختارۃ ۱۳۰/۹ح۱۱۴)

5- غضیف بن الحارث رضی اللہ عنہ (مسند احمد ۱۰۵/۴، ۲۹۰/۵ وسندہ حسن)

6- عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ (ابوداؤد: ۷۵۵ وابن ماجہ: ۸۱۱ وسندہ حسن)

7- عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (ابوداؤد: ۷۵۴ واسنادہ حسن واوردہ الضیاء المقدسی فی المختارۃ ۳۰۱/۹ح ۲۵۷)

یہ حدیث متواتر ہے۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر ص۹۸ ح ۶۸)


دلیل # 1

سنیئے امام ترمذی رحمتہ اللہ علیہ کی بات انہیں کے الفاظ ہیں۔

  وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ

[جامع الترمذي » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ الْأَذَانِ » بَاب مَا جَاءَ فِي وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ ...رقم الحديث: 234]

 ترجمہ : اسی پر عمل ہے صحابہ و تابعین اور اہل علم کا کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جاۓ، اور ان میں بعض کی راۓ (مذھب) ہے کہ ہاتھ کو ناف کے اوپر باندھے اور بعض کی راۓ (مذھب) ہے کہ ناف کے نیچے باندھے اور یہ سب وسعت (جائز) ہے ان کے نزدیک.

 [جامع ترمذی: جلد اول: حدیث نمبر 243 , نماز کا بیان : نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جائے]

♦️ امام شافعی سے بھی تین روایات ہیں:

1: سینہ کے نیچے اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھے گا، اور یہی روایت مشہور ہے اور اسی پر ان کے یہاں عمل ہے اور یہی روایت امام شافعی کی کتاب الام اور دوسری کتابوں میں مذکور ہے۔

2: دوسرا قول یہ ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھے گا مگر یہ عمل بعض ہی کتابوں میں مذکور ہے شوافع کی کتابوں میں مشہور پہلی روایت ہے۔

3: امام شافعی کا تیسرا قول یہ ہے کہ ناف کے نیچے باندھے گا۔

 [شرح النووي على مسلم] [المجموع شرح المهذب » كتاب الصلاة » باب صفة الصلاة » وضع اليمين على اليسار في الصلاة]

[إعلام الموقعين عن رب العالمين » أمثلة لمن أبطل السنن بظاهر من القرآن » ترك السنة الصحيحة في وضع اليدين في الصلاة]

♦️امام احمد رحمتہ الله علیہ سے بھی تین طرح کی روایت ہے:

1: ایک روایت یہ ہے کہ ناف کی نیچے باندھے گا

[المبدع في شرح المقنع » كتاب الصلاة » باب صفة الصلاة» وضع اليمنى على اليسرى تحت السرة]

[المغني لابن قدامة » كتاب الصلاة » باب صفة الصلاة» مسألة وضع اليمين على الشمال تحت السرة في الصلاة]

2: دوسری روایت ہے کہ سینہ کے نیچے اور ناف کے اوپر باندھے گا۔

3: تیسری روایت ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ ناف کے نیچے باندھے یا ناف کے اوپر۔

  مگر ناف کے نیچے والی روایت ہی مشہور ہے اور اسی پر عام طور پر حنبلیوں کا عمل ہے۔ (دیکھو: تحفہ لاحوذی: ص۳ ۱ ۲۔۴ ۱ ۲ ، ج۲)

دلیل # 2

حضرت علیؓ سے روایت ہے : رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر نماز میں ناف کے نیچے سنّت میں سے ہے .

[احکام القرآن، للطحاوی رح: ٢٣٩-٣٢١ھ : تفسیر- فصل لربک وانحر، ١/١٨٦]

دلیل 3:

ذکر کیا الاثرم نے، حدیث بیان کی ہمیں ابو الولید الطیالسی نے ، کہا حدیث بیان کی ہم سے حمد بن سلمہ نے، عاصم الجحدری سے، وہ عقبہ بن صھبان سے، انہوں نے سنا حضرت علیؓ کو فرماتے الله عز و جل کے فرمان : ((پس نماز پڑھ اپنے رب کے لئے اور قربانی کر))  (کے بارے) میں، فرمایا : (نماز میں) رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے .

[التمهيد لابن عبد البر : ٨/١٦٤ ، سندہ صحیح] الشواہد : [احکام القرآن، للطحاوی رح (٢٣٩-٣٢١ھ) : تفسیر- فصل لربک وانحر، ١/١٨٦]

دلیل 4:

أَنَّ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : " مِنَ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ " .

[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ » بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 644]

ترجمہ : حضرت علیؓ سے روایت ہے، (کہ انہوں نے) فرمایا : " سنّت نماز (کی میں) سے رکھنا ہے ہاتھ کا ہاتھ پر نیچے ناف کے۔

خلاصة حكم المحدث: سكت عنه [وقد قال في رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح]

امام ابو داود نے کہا : جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت (خاموشی اختیار) کروں (یعنی حدیث کے ضعیف ہونے کا حکم نہ لگاؤں) تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے.

[فتاویٰ علماۓ حدیث : ٧/٧٢]

[مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ, رقم الحديث: 3840]

الشواهد: تحفة الأحوذي: ١/٥١٢

دلیل 5:

حضرت علیؓ سے روایت ہے، (کہ انہوں نے) فرمایا : " بیشک سنّت نماز (کی میں) سے ہے رکھنا  دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر نیچے ناف کے".

[سنن الدارقطني » كِتَابُ الصَّلاةِ » بَابٌ فِي أَخْذِ الشِّمَالِ بِالْيَمِينِ فِي الصَّلاةِ ... رقم الحديث: 1103 (1090)]

تخريج الحديث: مسند أحمد بن حنبل: 853 ، سنن أبي داود: 1 : 129 ، أحكام القرآن الكريم للطحاوي: 327 ، السنن الكبرى للبيهقي: 2 : 31 ، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر: 1290 ، تهذيب الكمال للمزي: 940


♦️ جب صحابہ کرام کسی عمل کے بارے میں سنت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آنحضورﷺکا یہی معمول تھا اور آپ کا یہی فرمان تھا

اذا قال الصحابی من السنة کذا اوالسنة کذا فھو فی الحکم کقولہ قال رسول الله ﷺ ھذا مذھب الجمھور من المحدثین والفقھاءفجعل بعضھم موقوفا ولیس بشیئ۔

(تحفة الأحوذي : ص۰ ۴ ۲ ج۱)

یعنی جب صحابی یہ کہے کہ سنت سے یہ ہے یا یہ سنت ہے تو اس کا مطلب اور حکم اسی طرح کا ہے جیسے صحابی یہ کہے کہ آنحضورﷺ کا یہ ارشاد ہے (یعنی یہ بات آنحضور ہی سے ثابت ہو گی اور اس کا حکم حدیث مرفوع کا ہے) اور یہی عام طور پر فقہاءاور محدثین کا مذہب ہے، اور جس نے اس کو موقوف قرار دیا ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے۔

دلیل 6:

عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ : قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ : " أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ ".

[سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ » بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ ... رقم الحديث: 646]

حضرت ابو وائل حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہیں کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ہاتھ کو باندھا جائے گا۔

(تحفة الأحوذي : ص۵ ۱ ۲)

دلیل 7:

حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے : سنّت یہی ہے کہ مرد رکھے دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے نماز میں.

اور اسی کو فرمایا امام سفیان ثوری، اور امام اسحاق نے. اور فرمایا امام اسحاق نے : (نماز میں ہاتھوں کا) ناف کے نیچے رکھنا سب سے زیادہ مضبوط ہے حدیث میں اور سب سے زیادہ قریب ہے عاجزی کرنے میں.

[مسائل أحمد أ إسحاق رواية ألكوسج : ٢١٦ ، الأوسط في السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر (سنة الوفاة:318) » كِتَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ  » ذِكْرُ وَضْعِ بَطْنِ كَفِّ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ ... رقم الحديث: 1241]

 

دلیل 8:

عن أنس : من أخلاق الأنبياء: تعجيل الإفطار، وتأخير السحور، ووضعك يمينك على شمالك في الصلاة تحت السرة.

[مختصر خلافيات للبيهقي (سنة الوفاة:458ھ) : 2 / 34 ، كتاب الصلاة ، مسألة # 75 - والسنة أن يضع اليمنى على اليسرى تحت صدره فوق سرة....؛ المحلى بالآثار لابن حزم : 3/30 ؛ معجم الکبیر للطبرانی بحوالہ شرح سنن أبي داود للعيني : 3/356]

ترجمہ : حضرت انس فرماتے ہیں :انبیاء کرام کے اخلاق (عادات) میں سے ہے (کہ) روزہ (اول وقت میں) جلدی افطار کرنا ، اور (آخر وقت میں) دیر سے سحری کرنا ، اور نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا.

♦️ اسے ذکر کیا علامہ ابن ترکمانی نے [الجوہر النقی : 2/32] اور (امام دار قطنی نے اپنی السنن) دار قطنی [1/284 ، رقم : 2] میں حضرت عائشہؓ سے اسی کے مثل الفاظ کے ساتھ .

♦️احناف کی وہ روایت ہے جو حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے اور جس کو ابن حزم نے نقل کیا ہے، حضرت انس نے فرمایا۔

تین چیزیں اخلاق نبوت میں سے ہیں، افطار میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا اور داہنے ہاتھ کو بائیں کے اوپرزیر ناف رکھنا، (تحفہ)

دلیل 9:

نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کا جن کا مذہب ہے ان کی صریح صحیح دلیل یہ ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ : " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ"

 [مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ » وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ, رقم الحديث: 3959]

 حضرت وائلؓ فرماتے ہیں : میں نے رسول اکرم ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے۔