Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم (تحقیق)

  جعفر صادق

نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم: 

جو شخص کلمہ پڑھ کر دینِ اسلام میں داخل ہوتا ہے اس پر نماز کی ادائیگی فرض ہو جاتی ہے۔ دیکھئے سورۃ النساء آیت نمبر 130، نیز ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قَدۡ اَفۡلَحَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ۞الَّذِيۡنَ هُمۡ فِىۡ صَلَاتِهِمۡ خَاشِعُوۡنَ۞
(سورۃ المؤمنون: آیت، 1۔ 2)  
ترجمہ: یقیناً فلاح پائی اہلِ ایمان نے جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں۔ 
 رسول اللہﷺ نے فرمایا:
اسلام کی بنیاد پانچ (چیزوں) پر رکھی گئی ہے:
1: اشھد ان لا الہ الا اللہ اور اشھد ان محمدالرسول اللہ۔
2: نماز قائم کرنا۔
3: زکوٰۃ ادا کرنا۔
4: حج کرنا۔
5: رمضان کے روزے رکھنا۔
(ھذا حدیث صحیح متفق علی صحتہ، شرح السنۃ للبغوی: جلد، 1 صفحہ، 17۔ 18 ح، 6 البخاری: 8، مسلم: 16) 
قیامت کے دن انسان سے پہلا سوال نماز کے بارے میں ہوگا۔ (سنن ابنِ ماجہ: 1426 و سندہ صحیح وصححہ الحاکم علیٰ شرط مسلم: جلد، 1 صفحہ، 262۔ 263 ووافقہ الذہبی ولہ شاہد عنداحمد: جلد، 4 صفحہ، 65، 5/ 377، 103)
 نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
(صلوا کما رایتمونی اصلی)
ترجمہ: نماز اسی طرح پڑھو جیسے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھتے ہو۔
(صحیح بخاری: جلد، 2 صفحہ، 89 ح، 631)
نماز میں ایک اہم مسئلہ ہاتھ باندھنے کا ہے:
1: ایک گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنا رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔
2: دوسرا گروہ کہتا ہے کہ نماز میں ہاتھ کھولنا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے۔
دلیل نمبر 1: سیدنا سہل بن سعدؓ نے فرمایا لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ نماز میں اپنا دایاں ہاتھ اپنی بائیں ذراع پر رکھیں (یہ حدیث مرفوع ہے)
(مؤطا امام مالک: جلد، 1 صفحہ، 159 ح، 377، صحیح بخاری مع فتح الباری: جلد، 2 صفحہ، 178 ح، 720)
دلیل نمبر 2: نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنے کی احادیثِ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے صحیح یا حسن اسانید کے ساتھ مروی ہیں، مثلاً: 
1: سیدنا وائل بن حجرؓ (مسلم: صفحہ، 401 وابو داؤد: صفحہ، 727)
2: سیدنا جابرؓ (احمد جلد، 3 صفحہ، 381 ح، 15156 وسندہ حسن)
3: سیدنا ابنِ عباسؓ (صحیح ابنِ حبان، الموارد: صفحہ 885 وسندہ صحیح)
4: سیدنا عبداللہ بن جابر البیاضیؓ (معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبہانی: جلد، 3 صفحہ، 1610 ح، 4054 وسندہ حسن واوردہ الضیاء فی المختارۃ:
جلد، 9 صفحہ، 130 ح، 114)
5: سیدنا غضیف بن الحارثؓ (مسند احمد
جلد، 4 صفحہ، 105 جلد، 5 صفحہ، 290 وسندہ حسن)
6: سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ (ابوداؤد: صفحہ، 755 وابنِ ماجہ: 811 وسندہ حسن)
7: سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ (ابوداؤد: صفحہ 754 و اسنادہ حسن واوردہ الضیاء المقدسی فی المختارۃ جلد، 9 صفحہ، 301 ح، 257)
یہ حدیث متواتر ہے۔ (نظم المتناثر من الحدیث المتواتر صفحہ، 97 ح، 68)
دلیل 1: سنیئے امام ترمذیؒ کی بات انہیں کے الفاظ ہیں:
وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِیﷺ وَالتَّابِعِينَ، وَمَنْ بَعْدَهُمْ يَرَوْنَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِی الصَّلَاةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا فَوْقَ السُّرَّةِ، وَرَأَى بَعْضُهُمْ أَنْ يَضَعَهُمَا تَحْتَ السُّرَّةِ ، وَكُلُّ ذَلِكَ وَاسِعٌ عِنْدَهُمْ۔
(جامع الترمذی: كِتَاب الصَّلَاةِ، أَبْوَابُ الْأَذَانِ، بَاب مَا جَاءَ فِج وَضْعِ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ، رقم الحديث: 234)
 ترجمہ: اسی پر عمل ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم و تابعین کرام رحمہم اللہ اور اہلِ علم کا کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جاۓ، اور ان میں بعض کی راۓ (مذہب) ہے کہ ہاتھ کو ناف کے اوپر باندھے اور بعض کی راۓ (مذہب) ہے کہ ناف کے نیچے باندھے اور یہ سب وسعت (جائز) ہے ان کے نزدیک.
(جامع ترمذی: جلد اول: حدیث نمبر: 243 نماز کا بیان: نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا جائے)
امام شافعیؒ سے بھی تین روایات ہیں:
1: سینہ کے نیچے اور ناف کے اوپر ہاتھ باندھے گا، اور یہی روایت مشہور ہے اور اسی پر ان کے یہاں عمل ہے اور یہی روایت امام شافعیؒ کی کتاب الام اور دوسری کتابوں میں مذکور ہے۔
2: دوسرا قول یہ ہے کہ سینہ پر ہاتھ باندھے گا مگر یہ عمل بعض ہی کتابوں میں مذکور ہے شوافع کی کتابوں میں مشہور پہلی روایت ہے۔
3: امام شافعیؒ کا تیسرا قول یہ ہے کہ ناف کے نیچے باندھے گا۔
 (شرح النووی على مسلم: المجموع شرح المهذب، كتاب الصلاة باب صفة الصلاة وضع اليمين على اليسار فی الصلاة)
(إعلام الموقعين عن رب العالمين: أمثلة لمن أبطل السنن بظاهر من القرآن: ترك السنة الصحيحة فی وضع اليدين فج الصلاة)
امام احمدؒ سے بھی تین طرح کی روایت ہے:
1: ایک روایت یہ ہے کہ ناف کی نیچے باندھے گا
(المبدع فی شرح المقنع: كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، وضع اليمنى على اليسرى تحت السرة)
(المغنی لابن قدامة: كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، مسألة وضع اليمين على الشمال تحت السرة فج الصلاة)
2: دوسری روایت ہے کہ سینہ کے نیچے اور ناف کے اوپر باندھے گا۔
3: تیسری روایت ہے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ ناف کے نیچے باندھے یا ناف کے اوپر۔
مگر ناف کے نیچے والی روایت ہی مشہور ہے اور اسی پر عام طور پر حنبلیوں کا عمل ہے۔ 
(دیکھو: تحفہ لاحوذی: جلد، 2 صفحہ، 213، 214)
دلیل 2: سیدنا علیؓ سے روایت ہے : رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر نماز میں ناف کے نیچے سنّت میں سے ہے۔
(احکام القرآن، للطحاوی رح: 239 321ھ: تفسیر فصل لربک وانحر، جلد، 1 صفحہ، 186)
دلیل 3: ذکر کیا الاثرم نے، حدیث بیان کی ہمیں ابو الولید الطیالسی نے، کہا حدیث بیان کی ہم سے حمد بن سلمہ نے، عاصم الجحدری سے، وہ عقبہ بن صہبان سے، انہوں نے سنا سیدنا علیؓ کو فرماتے الله عزوجل کے فرمان: (پس نماز پڑھ اپنے رب کے لئے اور قربانی کر)  (کے بارے) میں، فرمایا: (نماز میں) رکھنا دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے۔
(التمهيد لابنِ عبدالبر جلد، 8 صفحہ، 164 سندہ صحیح، الشواہد: احکام القرآن، للطحاوی رح 239 321ھ، تفسیر فصل لربک وانحر: جلد، 1 صفحہ، 186)
دلیل 4:
أَنَّ عَلِيًّاؓ قَالَ: مِنَ السُّنَّةِ وَضْعُ الْكَفِّ عَلَى الْكَفِّ فِی الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ۔
(سنن أبی داؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ، أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ، بَاب وَضْعِ الْيُمْنَىٰ عَلَى الْيُسْرَى فِی الصَّلَاةِ، رقم الحديث: 644)
ترجمہ: سیدنا علیؓ سے روایت ہے، (کہ انہوں نے) فرمایا: سنّت نماز (کی میں) سے رکھنا ہے ہاتھ کا ہاتھ پر نیچے ناف کے۔
(خلاصة حكم المحدث: سكت عنه، وقد قال فی رسالته لأهل مكة كل ما سكت عنه فهو صالح)
امام ابو داؤدؒ نے کہا جس حدیث پر کہ میں اپنی کتاب میں سکوت (خاموشی اختیار) کروں (یعنی حدیث کے ضعیف ہونے کا حکم نہ لگاؤں) تو وہ احتجاج (حجت و دلیل ہونے) کی صلاحیت رکھتی ہے.
(فتاویٰ علماۓ حدیث: جلد، 7 صفحہ، 72)
(مصنف ابنِ أبی شيبة: كتاب الصلاة، أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ، وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ، رقم الحديث: 3840)
الشواهد: تحفة الأحوذج: جلد، 1 صفحہ، 512)
دلیل 5: سیدنا علیؓ سے روایت ہے (کہ انہوں نے) فرمایا بیشک سنّت نماز (کی میں) سے ہے رکھنا  دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر نیچے ناف کے۔
(سنن الدارقطنی: كِتَابُ الصَّلاةِ، بَابٌ فِج أَخْذِ الشِّمَالِ بِالْيَمِينِ فِج الصَّلاةِ، رقم الحديث: 1103 1090)
تخريج الحديث: مسند أحمد بن حنبل: صفحہ، 853 سنن أبی داؤد: جلد، 1 صفحہ، 129 أحكام القرآن الكريم للطحاوی: جلد، 327  السنن الكبرىٰ للبيهقی: جلد، 2 صفحہ، 31 الأوسط فج السنن و الإجماع والاختلاف لابنِ المنذر: 1290،  تہذيب الكمال للمزی: 940)
جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کسی عمل کے بارے میں سنت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آنحضورﷺکا یہی معمول تھا اور آپ کا یہی فرمان تھا
اذا قال الصحابی من السنة کذا اوالسنة کذا فھو فی الحکم کقولہ قال رسول الله ﷺ ھذا مذھب الجمھور من المحدثین والفقھاء فجعل بعضھم موقوفا ولیس بشیئ۔
(تحفة الأحوذی: جلد، 1 صفحہ، 240)
یعنی جب صحابی یہ کہے کہ سنت سے یہ ہے یا یہ سنت ہے تو اس کا مطلب اور حکم اسی طرح کا ہے جیسے صحابی یہ کہے کہ آنحضورﷺ کا یہ ارشاد ہے (یعنی یہ بات آنحضورﷺ ہی سے ثابت ہو گی اور اس کا حکم حدیثِ مرفوع کا ہے) اور یہی عام طور پر فقہاءاور محدثین کا مذہب ہے، اور جس نے اس کو موقوف قرار دیا ہے وہ کوئی چیز نہیں ہے۔
دلیل 6: عَنْ أَبِی وَائِلٍؓ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَؓ أَخْذُ الْأَكُفِّ عَلَى الْأَكُفِّ فِی الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّةِ۔
(سنن أبی داؤد: كِتَاب الصَّلَاةِ، أَبْوَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ، بَاب وَضْعِ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فِی الصَّلَاةِ رقم الحديث: 646)
سیدنا ابو وائلؓ سیدنا ابو ہریرہؓ سے مروی ہیں کہ نماز میں ہتھیلی کو ہتھیلی سے پکڑ کر ہاتھ کو باندھا جائے گا۔
(تحفة الأحوذی: صفحہ، 215)
دلیل 7: سیدنا ابو ہریرہؓ سے : سنّت یہی ہے کہ مرد رکھے دائیں ہتھیلی کو بائیں ہتھیلی پر ناف کے نیچے نماز میں۔
اور اسی کو فرمایا امام سفیان ثوریؒ، اور امام اسحاقؒ نے اور فرمایا امام اسحاقؒ نے (نماز میں ہاتھوں کا) ناف کے نیچے رکھنا سب سے زیادہ مضبوط ہے حدیث میں اور سب سے زیادہ قریب ہے عاجزی کرنے میں.
(مسائل أحمد إسحاق رواية ألكوسج: صفحہ، 216  الأوسط فی السنن والإجماع والاختلاف لابن المنذر (سنة الوفاة:318) كِتَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ، ذِكْرُ وَضْعِ بَطْنِ كَفِّ الْيُمْنَى عَلَى ظَهْرِ، رقم الحديث: 1241)
دلیل 8: عن أنسؓ: من أخلاق الأنبياء: تعجيل الإفطار، وتأخير السحور، ووضعك يمينك على شمالك فی الصلاة تحت السرة۔
(مختصر خلافيات للبيهقی: جلد، 2 صفحہ، 34 (سنة الوفاة:458ھ) كتاب الصلاة، مسألة، 75 والسنة أن يضع اليمنىٰ على اليسرى تحت صدره فوق سرة المحلى بالآثار لابن حزمؒ: جلد، 3 صفحہ، 30، معجم الکبیر للطبرانی بحوالہ شرح سنن أبی داؤد للعينی: جلد، 3 صفحہ، 365)
ترجمہ: سیدنا انسؓ فرماتے ہیں :انبیاء کرام علیہم السلام کے اخلاق (عادات) میں سے ہے (کہ) روزہ (اول وقت میں) جلدی افطار کرنا ، اور (آخر وقت میں) دیر سے سحری کرنا ، اور نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھنا.
اسے ذکر کیا علامہ ابنِ ترکمانی نے (الجوہر النقی: جلد، 2 صفحہ، 32 اور (امام دار قطنی نے اپنی السنن) دار قطنی: جلد، 1 صفحہ، 284 رقم: 2 میں سیدہ عائشہؓ  سے اسی کے مثل الفاظ کے ساتھ۔
احناف کی وہ روایت ہے جو سیدنا انسؓ سے مروی ہے اور جس کو ابن حزمؒ نے نقل کیا ہے، سیدنا انسؓ نے فرمایا۔
تین چیزیں اخلاقِ نبوت میں سے ہیں، افطار میں جلدی کرنا، سحری میں تاخیر کرنا اور داہنے ہاتھ کو بائیں کے اوپرزیر ناف رکھنا، (تحفہ)
دلیل 9: نماز میں زیرِ ناف ہاتھ باندھنے کا جن کا مذہب ہے ان کی صریح صحیح دلیل یہ ہے جو مصنف ابنِ ابی شیبہ میں ہے:
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مُوسَى بْنِ عُمَيْرٍ عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِیﷺ  وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ فِی الصَّلَاةِ تَحْتَ السُّرَّة۔
(مصنف ابن أبی شيبة: كتاب الصلاة، أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلاةِ، وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ: رقم الحديث: 3959)
سیدنا وائلؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے تھے۔