آیت تطہیر میں ازواج مطہرات کا ذکر
جعفر صادقآیت تطھیر میں لفظ اہل بیت سے اللہ عزوجل کی مراد ازواج مطہرات ہیں۔
دلیل 1️⃣ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت
♦️ یٰنِسَآءَ النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ الَّذِیۡ فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا ۚ
اے پیغمبر کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو کسی (اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔ اور ان دستور کے مطابق بات کیا کرو۔ (32)
♦️ وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ۚ
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے۔ (33)
♦️وَ اذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیۡفًا خَبِیۡرًا
اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بےشک خدا باریک بیں اور باخبر ہے۔(34)
استدلال:
سورت الاحزاب کے مکمل رکوع یعنی سات آیات (28 سے 34) تک صرف ازواج مطہرات کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ ان آیات میں سب ہدایات و نصیحتیں نبی کریم کی ازواج کے متعلق ہیں۔ ایک عام فہم بھی قرآن مجید کا ترجمہ پڑھ کر تسلی کر سکتا ہے۔
آیت 33 وقرن فی بیوتکن سے شروع ہوکر یطھرکم تطھیرا کے الفاظ پر ختم ہورہی ہے۔ اس آیت کریمہ کا 32 اور 34 کی آیات سے تعلق بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔
کیا یہ ممکن ہے کہ سورت الاحزاب کی تینوں آیات 32,33,34 کے موضوع کا تسلسل اور ازواج النبی سے خطاب کو دیکھ کر ، پڑھ کر اور سمجھ کر بھی اس کا انکار کردیا جائے اور آیت کے آخری چند جملوں کا مصداق ازواج مطہرات کے بجائے سیدنا علی، سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین کو سمجھ لیا جائے، جبکہ ان تمام آیات میں ان شخصیات کا براہ راست کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
موضوع کی تبدیلی کے لیئے الگ آیات کا ہونا یا کم از کم خطاب کا تبدیل ہونا ضروری ہے۔
سورت الاحزاب کے پورے رکوع میں خطاب ازواج مطہرات سے کیا جا رہا ہو تو بیچ میں حضرت علی ، سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین کا ذکر ایک ایسے لفظ ( اھل بیت) سے کرنا جو دوسری آیات میں واضح طور پر انبیاء کی زوجہ اور گھر والوں کے لیئے استعمال ہو رہا ہو تو یہ ایک سمجھہ میں آنے والی بات نہیں ہے۔
بیشک قرآن مجید کسی بھی قسم کی تحریف و تبدیلی سے پاک کتاب ہے۔ اور ہمارا ایمان اجازت نہیں دیتا کہ اللہ عزوجل کے کلام میں اپنی ذاتی تاویلات چلا کر کسی بھی لفظ کی کوئی خاص معنی و مفھوم لینا شروع کردیں۔ جس کی نفی خود قرآن مجید کی دوسری آیات سے ہی ثابت ہوتی ہو۔

سورت الاحزاب آیت 28 سے 34 مکمل رکوع
اے پیغمبر اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زینت وآرائش کی خواستگار ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ مال دوں اور اچھی طرح سے رخصت کردوں۔
اور اگر تم خدا اور اس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (یعنی بہشت) کی طلبگار ہو تو تم میں جو نیکوکاری کرنے والی ہیں اُن کے لئے خدا نے اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔
اے پیغمبر کی بیویو تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ (الفاظ کہہ کر رسول الله کو ایذا دینے کی) حرکت کرے گی۔ اس کو دونی سزا دی جائے گی۔ اور یہ (بات) خدا کو آسان ہے۔
اور جو تم میں سے خدا اور اس کے رسول کی فرمانبردار رہے گی اور عمل نیک کرے گی۔ اس کو ہم دونا ثواب دیں گے اور اس کے لئے ہم نے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔
اے پیغمبر کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو۔ اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو کسی (اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کیا کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے۔ اور ان دستور کے مطابق بات کیا کرو۔
اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں) میں اظہار تجمل کرتی تھیں اس طرح زینت نہ دکھاؤ۔ اور نماز پڑھتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور خدا اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرتی رہو۔ اے (پیغمبر کے) اہل بیت خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کردے اور تمہیں بالکل پاک صاف کردے۔
اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بےشک خدا باریک بیں اور باخبر ہے۔
ان آیات مبارکہ میں بائیس ضمیریں ہیں جو جمع مؤنث مخاطبات کی ہیں اور ان آیات میں تین '' نداء '' ہیں ۔ جن میں دو '' نداء '' ازواج مطہرات سے متعلق ہیں ۔
اس سیاق و سباق سے واضح ہوتاہے کہ روئے سخن ازواج مطہرات کی طرف ہے اور ان سب آیات میں ایسے احکام دیے گئے ہیں جو حصول تطہیر کا سبب بن سکتے ہیں ۔ اس سے واضح ہوتا ہےکہ اس اعزاز کی اصل حقدار ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔
اس جملہ میں ضمیر مذکر مخاطبین وارد ہے تو عرض ہے کہ یہ انداز تخاطب قرآن پاک میں دیگر مواقع پر بھی بیوی کے لئے آیا ہے سورہ ہود میں ہے :
أتعجبين من أمرالله رحمة الله وبركاته عليكم أهل البيت إنه حميد مجيد
'' کیا آپ اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہیں اے اہل بیت ! تم پر اللہ کی رحمتیں اور برکات ہیں وہ یقینا تعریف والا اور بزرگی والا ہے ''
اس خطاب میں حضرت إبراہیم کی زوجہ محترمہ مراد ہیں اس میں '' علیکم '' ضمیر مذکر ہے اس کی دو وجوہ ہیں :
1️⃣ پہلے خطاب کا تعلق زوجہ سے ہے اس لئے ضمیر مؤنث ہے اور دوسرے میں ابراہیم علیہ السلام بھی شریک ہیں ، تغلیب مذکر کی وجہ سے ضمیر مذکر ہے ۔
2️⃣ جب کسی عورت سےخطاب ہو اور اس خطاب میں احترام مقصود ہو تو واحد مؤنث کے لئے بھی جمع مذکر کی ضمیر سے خطاب کیا جاتا ہے ، عرب شعراء کے کلام میں اس کی متعدد مثالیں ملتی ہیں ایک حماسی شاعر جعفر الحارثی کہتا ہے :
عجبت لمسراها وأنى تخلصت إلي وباب السجن دوني مغلق
ألمّت فحيّت ثم قامت فودعت فلما تولت كادت النفس تزهق
فلا تحسبي أني تخشعت بعدكم لشيئ ولا أني من الموت أفرق
اولاً
یہاں سیدات امہات المؤمنین (ازواج مطہرات) کو ’اہل بیت‘ کہہ کر پکارا گیا ہے۔ اور ’اہل‘ کا لفظ بیوی، عزیز واقارب اور اصحاب کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ یہ لفظ جمع ہے۔ اگر اس سے مراد اکیلی بیوی یا زیادہ بیویاں یا دیگر مذکر ومؤنث عزیز واقارب (خواہ وہ ایک دو ہوں یا زیادہ) بھی مراد ہوں تب بھی ظاہری لفظ کا دھیان رکھتے ہوئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے، جیسے
وَهَل أَتىٰكَ حَديثُ موسىٰ ٩ إِذ رَءا نارًا فَقالَ لِأَهلِهِ امكُثوا إِنّى ءانَستُ نارًا لَعَلّى ءاتيكُم مِنها بِقَبَسٍ أَو أَجِدُ عَلَى النّارِ هُدًى ١٠ ۔۔۔ سورة طه
بہت سے علماء کے نزدیک یہاں ’اہل‘ سے مراد سیدنا موسیٰ کی اہلیہ ہیں، اس کے باوجود لفظ اہل کی وجہ سے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔
اسی طرح جب فرشتوں نے سیدنا ابراہیم کو سیدنا اسحاق اور یعقوب علیہما السلام کی بشارت دی اور سیدہ سارہ نے حیرانگی ظاہر کی تو فرشتوں نے کہا:
قالوا أَتَعجَبينَ مِن أَمرِ اللَّـهِ ۖ رَحمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكـٰتُهُ عَلَيكُم أَهلَ البَيتِ ۚ إِنَّهُ حَميدٌ مَجيدٌ ٧٣ ۔۔۔ سورة هود
یہاں بھی سيده سارہ کیلئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔
نیز فرمایا:
وَحَرَّمنا عَلَيهِ المَراضِعَ مِن قَبلُ فَقالَت هَل أَدُلُّكُم عَلىٰ أَهلِ بَيتٍ يَكفُلونَهُ لَكُم وَهُم لَهُ نـٰصِحونَ ١٢ ۔۔۔ سورۃ القصص
یہاں بھی سیدہ ام موسیٰ کا لفظ ’اہل‘ سے تذکرہ کرتے ہوئے ان کیلئے صیغۂ جمع مذکر استعمال کیا گیا ہے۔
ثانیاً
یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سورۃ الاحزاب کی اس آیت کریمہ ﴿ إِنَّما يُريدُ اللَّـهُ لِيُذهِبَ عَنكُمُ الرِّجسَ أَهلَ البَيتِ وَيُطَهِّرَكُم تَطهيرًا ٣٣ ﴾ میں جمع مذکر کا صیغہ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ اس جملہ میں یہاں اہل بیت سے مراد صرف امہات المؤمنین نہیں بلکہ سادات علی، فاطمہ، حسن و حسین بھی مراد ہیں اور جب زیادہ مذکر ومؤنث جمع ہوں تو ان کیلئے جمع مذکر کا صیغہ استعمال ہوتا ہے۔
صحیح احادیث مبارکہ میں ہے: