خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم چار ہیں پانچ نہیں
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہخلفائے راشدین رضی اللہ عنہم چار ہیں پانچ نہیں
الحمدلله وسلام على عباده الذين اصطفىٰ اما بعد
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم آنحضرتﷺ کے چار مسلسل اور بلا فصل از نبوت جانشینوں کا یکجا تذکرہ ہے۔ آنحضرتﷺ نے وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم و مہدیین کے طریقوں کو لازم پکڑنا۔ سو امتِ مسلمہ شروع سے ہی خلافتِ راشدہ کو تتمہ مصطفویﷺ سمجھتی آئی ہے یہ راشدین و مہدیین کون ہیں؟ سلف کی اصطلاح میں حضرات شیخین (حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما) اور حضرات ختنین (حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما) ہیں۔ ان سب کی خلافت ایک دوسرے سے بلا فصل مسلسل تھی۔ حضرت علی مرتضیٰ رضی الله عنہ کی خلافت حضورﷺ سے چوبیس سال کے فصل سے قائم نہیں ہوئی پہلے خلفاء کے تسلسل سے بلا فصل قائم ہوئی اہلِ سنت کے ہاں چوبیس سال کے فصل سے قائم نہیں ہوئی خلفاء کے تسلسل سے بلا فصل قائم ہوئی اہلِ سنت کے ہاں چوبیس سال کی بالفصل خلافت کا عقیدہ بالکل غلط ہے۔
بعض دوستوں نے تقاضا کیا تھا کہ اس کتاب میں سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا ذکر بھی بطور پانچویں خلیفہ راشد کے ہونا چاہیے۔ وہ بھی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ اس میں شبہ نہیں کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا چھ ماہ کا دورِ خلافت ان تیس سالوں میں داخل ہے۔ جسے خلافتِ نبوت کہا جاتا ہے یہ تیس سال خلافت علی منہاج النبوة میں داخل ہیں، اور ہم بجا طور پر انہیں خلافتِ راشدہ میں تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن حضرت حسنؓ چونکہ خلافت سے دستبردار ہو گئے تھے اور خلیفہ نہ رہے تھے اس لیے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم صرف چار ہی رہے۔ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے العبرة بالخواتيم کہ دین میں آخر کے حالات کا اعتبار ہوتا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ بھی اگر قمیضِ خلافت اتار دیتے تو خلافتِ راشدہ کی اصطلاح حضرات شیخین تک محدود رہتی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی خلافت سے دستبرداری ایک تاریخی سنگِ میل ہے۔ جس نے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے لیے ایک حدِ فاصل قائم کر دی ہے۔ خلیفہ راشد وہ ہے جس کی وفات خلافت پر ہوئی ہو یہ خلافتِ تامہ ہے۔ خلافتِ راشدہ خلافتِ کاملہ کی ایک صفت ہے جن علماء نے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ان خلفاء میں شمار کیا ہے سو وہ صرف اس لیے کہ ان کا دور خلافتِ راشدہ کے تیس سالوں میں داخل ہے انہیں اس سے انکار نہیں کہ اصطلاحاً خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم یہ پہلے چار بزرگ ہی ہیں۔
امام نوری رحمۃ اللہ 376ھ، خلافتِ راشدہ کی تفصیل اس طرح لکھتے ہیں:
فانه لم يكن فی ثلثين سنة الا الخلفاء الراشدون الاربعة والاشهر التی بويع فيها الحسن بن علی
(شرح صحیح مسلم: جلد، 2)
ترجمہ: بے شک ان تیس سالوں میں صرف چار خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم (کی مدتِ خلافت) اور وہ (چھ مہینے) جن میں حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی بیعت کی گئی تھی اس میں داخل ہیں۔
ملاحظہ کیجیئے اس میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت کو تو خلافتِ راشدہ میں شمار کیا گیا ہے لیکن انہیں خلیفہ راشد کہہ کر پانچ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نہیں بتلائے گئے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم صرف ان چار کو ہی کہا ہے۔
جس طرح ہدایت کا تقابل ضلالت اور گمراہی سے ہے رشد کا تقابل غوایت ہے۔
وَاِنۡ يَّرَوۡا سَبِيۡلَ الرُّشۡدِ لَا يَتَّخِذُوۡهُ سَبِيۡلًا وَّاِنۡ يَّرَوۡا سَبِيۡلَ الۡغَىِّ يَتَّخِذُوۡهُ سَبِيۡلًا
(سورۃ الأعراف: آیت، 146)
ترجمہ: اور اگر انہیں ہدایت کا سیدھا راستہ نظر آئے تو اس کو اپنا طریقہ نہیں بنائیں گے، اور اگر گمراہی کا راستہ نظر آجائے تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں گے۔
خلفائے راشدینؓ مہدیین وہ بلند پایہ انسان تھے جنہیں خداوندِ کریم نے جانشینانِ رسالت کے طور پر کام کرنے کے لیے چنا تھا۔ سو ان کے خلافتی فیصلے ہر بھول اور بھٹک سے محفوظ رہے یہ حضرات خود تو معصوم نہ تھے لیکن ان کا دورِ خلافت بلاشبہ الله کی حفاظت کے سائے میں گزرا تھا۔ (اور یہ بات بلا شبہ غلط ہے کہ اس دور میں جاہلیت کی دبی چنگاریاں پھر سے چمک اٹھی تھیں حضور اکرمﷺ کے فیضِ رسالت سے جاہلیت کی آگ بجھی تھی دبی نہ تھی۔ چنگاری پھر سے تب سلگتی ہے جب پہلے سے پوری بجھی نہ ہو۔) اپنی ذات اور اپنے اعمال میں تو سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم راشدون ہیں۔
اُولٰٓئِكَ هُمُ الرّٰشِدُوۡنَ
(سورۃ الحجرات: آیت، 7)
لیکن حکومتی ذمہ داریوں کو رشد و ہدایت سے نبھانے اور ہر ایک کو اس کا حق دلانے میں جس حسنِ تدبیر، اصابتِ رائے اور جرأت مندانہ عزم کی ضرورت ہو سکتی ہے ضروری نہیں کہ ملت کا ہر نیک فرد اس سے اسی طرح عہدہ برا ہو جس طرح حضرات خلفائے راشدین رضی الله عنہم عزائمِ امور میں ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہوئے۔ میدانِ جہاد میں ہر جانباز مومن انتہائی اخلاص سے لڑتا ہے لیکن کمانڈ کرنے، کام کو ترتیب دینے اور فوجوں کو لڑانے کے لیے جس حسنِ تدبیر، اصابتِ ظن اور جرأت مندانہ اقدام کی ضرورت ہوتی ہے کیا یہ ضروری ہے کہ ہر لڑنے والے جانباز میں یہ صفات اس طرح موجود ہوں جس طرح حضرت ابو عبیدہ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت خالد بن ولید (رضی اللہ عنہم) میں تھیں اور وہ ہر میدان میں الله کی تلوار بن کر چمکتے تھے۔ اگر ایک صحابی ایک درجے میں ہوتا تو حضورﷺ کو اتنے صحابہ کے ہوتے ہوئے حضرت عمرؓ کو مانگ کر لینے کی کیا ضرورت تھی؟ خدا کی زمین پر خدا کی ایسی بادشاہت قائم کرنا جیسی اُس کی بادشاہت آسمانوں پر ہے یہ ہمت اور سعادت جن بزرگوں کے نام لکھی تھی وہ خلفائے راشدین رضی الله عنہم ہیں یہ نہ صرف راشدین ہیں بلکہ مہدیین بھی تھے اور حضور اکرمﷺ نے خود خبر دی تھی کہ آپﷺ کے جانشین و مہدیین دونوں صفتوں والے ہوں گے۔ یہ نہیں ہو گا کہ آپﷺ کی وفات کے بعد آپﷺ کی امت آپ کے رستے سے بھٹک جائے رشد و ہدایت کا تسلسل سے قائم رہنا آپﷺ نے اس کی خبر دی تھی اور تاریخ گواہ ہے کہ پھر ایسا ہی ہوا اور خلفائے راشدین رشد و ہدایت کے ماہتاب بن کر چمکے۔
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
من يعش منكم بعدی فسيرى اختلافا كثيرا فعليكم بسنتی و سنة الخلفاء الراشدين المهديين
(سنن ابی داود: جلد، 2 صفحہ، 635)
ترجمہ: تم میں سے جو میرے بعد زندہ رہا بہت سے اختلاف دیکھے گا۔ سو تم میرے طریقے اور خلفائے راشدین و مہدیین کے طریقوں کو لازم پکڑنا۔
حافظ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ مرقاة الصعود میں لکھتے ہیں:
هذا من الاخبار بالغيب من خلافة الائمة الاربعة ابی بكر وعمر وعثمان وعلى رضى الله عنهم
ترجمہ: یہ حدیث ائمہ اربعہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی رضی اللہ عنھم کی خلافت کی ایک غیبی خبر تھی۔
یعنی آپﷺ نے اس میں بتلایا ہے کہ آپﷺ کے بعد آپ کا نظام جاری رہے گا۔ آپﷺ کے جانشین آپ کے مطابق چلیں گے وہ راشدین اور مہدیین ہوں گے اور دنیا نے دیکھا کہ واقعی آپﷺ کے بعد خلفائے راشدین حضرت ابوبکر حضرت عمر حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنھم آپﷺ کے مشن کے مطابق چلے اور چاروں ایک دوسرے سے مسلسل تھے۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفه رحمۃ اللہ (150ھ) ان چار حضرات کا شیخین (حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ) اور ختنین (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ) کے الفاظ سے ذکر کرتے ہیں۔
من علامات السنة والجماعة تفضيل الشيخين ومحبة الختنين
(ماخوذ از مکتوبات امام ربانی: جلد، 1 صفحہ، 330)
ترجمہ: اہلِ سنت والجماعت کی مسلکی علامت سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جمیع امت پر افضل جاننا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دل سے پسند کرنا ہے۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی افضلیت قطعی درجے کی ہے اور یہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین کے اجماع سے ثابت ہے اور تواتر سے منقول ہے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی افضلیت یہ بھی برحق ہے لیکن یہ تواتر سے منقول نہیں ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام امت سے افضل ہیں۔ لیکن ان کی فضیلت بھی تواتر سے منقول نہیں۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ادوار میں مسلمانوں میں جو باہمی اختلافات چلے ان میں تمام کدورتوں اور اختلافات کو برسرِ طاق رکھتے ہوئے ان کی محبت اور ان کی حضور خاتم النبینﷺ سے دامادی کی نسبت اہلِ حق کے عقیدے کا مرکزی نقطہ ہے۔ حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ ان دونوں حضرات کی محبت کو اسی طرح واجب قرار دیتے ہیں جس طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی پوری امت پر افضلیت کے قائل ہیں۔
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ کی یہ تعبیر صرف چاروں کو آگے لا رہی ہے۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم میں اگر کوئی پانچواں نام بھی ہوتا تو اسے بھی اس ترتیب میں افضلیت ملتی۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین نے ان چار حضرات کو فضائل و مناقب میں اسی ترتیب سے ذکر کیا ہے اور کوئی سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو یہاں پانچویں نمبر میں ذکر نہیں کرتا ان کی فضیلت اور شان حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں جس میں خلافت کا کوئی موضوع نہیں ہاں یہ صحیح ہے کہ حضرت حسنؓ حضرت حسینؓ سے افضل ہیں اور امت میں دوبارہ جوڑ پیدا کرنے میں آپؓ کا ایک نمایاں کردار ہے اور اس معنی کے اعتبار سے بھی آپ سید ہیں۔ پوری قوم کے سردار ہیں۔
محدثین کی روش:
دوسری صدی ہجری کی شہادت آپؓ کے سامنے آ چکی ہے اگلے محدثین اس باب میں کس طرح چلے ہیں اس کے لیے تیسری صدی کے اکابر محدثین کو دیکھیے۔ یہ صحیح بخاری کا کتاب المناقب سامنے ہے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب کے ابواب مسلسل ہیں اور اسی ترتیب سے ہیں ان کے بعد مناقبِ سیدنا جعفرؓ بن ابی طالب کا باب ہے۔ اس کے بعد پھر حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کے مناقب ہیں۔ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ پانچویں خلیفہ راشد ہوتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد انکے مناقب کا باب ہوتا۔ صحیح مسلم کو لیجیے اس کی کتاب الفضائل میں چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ابواب فضائل مسلسل ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد پھر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے فضائل کا باب ہے پھر حضرت طلح بن زبیر رضی اللہ عنھما کے فضائل ہیں پھر حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے فضائل ہیں اور ان کے بعد حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کے فضائل کا ذکر ہے۔ جامع ترمذی کے ابواب المناقب میں خلفائے اربعہ کے مناقب اسی ترتیب سے ہیں۔
پھر حضرت طلحہ، حضرت زبیر، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، اور حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم کے مناقب کا بیان ہے۔ حضرات حسنین کریمین کے مناقب اور بھی آگے جا کر ہیں۔ یہ تیسری صدی ہجری کے محدثین کا تذکرہ ہے کوئی محدث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد متصلاً سیدنا حضرت حسینؓ کا تذکرہ نہیں کرتا۔ اب کیسے باور کیا جائے کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ پانچویں خلیفہ راشد ہیں۔
آئیے اب چوتھی صدی میں چلیں امام طحاوی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:
ونثبت الخلافة بعد رسول صلى اللہ عليه وسلم اولا لابی بكر الصديق رضى الله تعالى عنه وتفضيلاً له وتقديما له على جميع الامة ثم لعمر بن الخطاب ثم لعثمان ثم لعلى بن ابى طالب وهم الخلفاء الراشدون والائمة المهديون (شرح عقیدہ طحاویہ)
ترجمہ: حضور اکرمﷺ کے بعد پہلے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت ثابت کرتے ہیں بایں طور کہ آپؓ کو تمام امت پر فضیلت اور تقدیم حاصل ہے پھر یہ خلافت سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت کرتے ہیں پھر سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے اور پھر سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت کرتے ہیں اور یہی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور آئمہ مہدیین ہیں۔
اب آپ ہی بتائیے یہاں ان چاروں کے بعد پانچواں نام کہاں ہے؟
خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کیا یہی چاروں اصحاب نہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ایام خلافتِ راشدہ کے دن تھے لیکن آپؓ کی خلافت سے علیحدگی آپؓ کو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی فہرست میں نہ لا سکی اور امت نے صرف انہی چار کو اس عنوان میں تسلیم کیا ہے۔
امام ابوالحسن الاشعری رحمۃ اللہ (324ھ) بھی لکھتے ہیں:
ونتولى سائر اصحاب النبی صلى الله عليه وسلم ونكف عما شجر بينهم وندين الله بان الائمة الاربعة خلفاء راشدون مهديون لا يوازيهم فی الفضل غيرھم
(کتاب الابانہ: صفحہ، 24 طبع ریاض)
ترجمہ: اور ہم سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت رکھتے ہیں اور ان میں جو (اختلافات) ہوئے ہیں ان سے اپنی زبان اور قلم کو روکتے ہیں اور ہم خدا تعالیٰ کے حضور اقرار کرتے ہیں کہ یہ چاروں ائمہ ہی خلفائے راشدین و مہدیین تھے کوئی ان کی فضیلت میں ان سے برابری نہیں کر سکتا۔
اب پانچویں صدی میں چلیے امام غزالی رحمۃ اللہ (505ھ) لکھتے ہیں:
ان الامام الحق بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ابوبكر ثم عمر ثم عثمان ثم علی رضی الله عنهم۔
(احیاء العلوم: جلد، 1)
ترجمہ: آنحضرتﷺ کے بعد امام برحق سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں پھر سیدنا عمر پھر سیدنا عثمان پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہم اللہ تعالیٰ ان چاروں سے راضی ہوا۔
فاما الخلفاء الرشدون فهم افضل من غيرهم وترتيبهم فی الفضل عند اهل السنة كترتيبهم فی الامامة وقد اجمعوا على تقديم ابى بكر ثم نص ابوبكر على عمر ثم اجمعوا بعده على عثمان ثم على رضى الله عنهم وليس يظن منهم الخيانة فی دين الله لغرض من الاغراض-
(الاقتصاد فی الاعتقاد: صفحہ، 140)
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اگر پانچواں خلیفہ راشد مانا جائے تو ان کی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ، حضرت طلحہؓ اور حضرت زبیرؓ پر بھی افضلیت ماننا پڑے گی۔
اب ہم آپ کو چھٹی صدی میں لے چلتے ہیں۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ (561ھ) لکھتے ہیں۔
وافضل هؤلاء العشرة الابرار الخلفاء الراشدون الاربعة الاخيار و افضل الاربعة ابوبكر ثم عمر ثم عثمان ثم علی رضی اللہ تعالیٰ عنهم ولهولاء الاربعة الخلافة بعد النی صلى الله عليه وسلم ثلثون سنة۔
ترجمہ: ان دس نیک افراد میں سے سب سے اچھے اور افضل خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم ہیں اور ان چار میں سب سے افضل حضرت ابوبکرؓ ہیں پھر حضرت عمرؓ پھر حضرت عثمانؓ پھر حضرت علیؓ اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا۔ اور ان چاروں نے تیس سال حکومت کی۔
چھٹی صدی کی شہادت:
قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ (544ھ) بھی آنحضرتﷺ سے چار اصحاب کرام رضی اللہ عنہم کا لفظ نقل کرتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ ان چاروں بزرگوں کا ذکر بایں طور کہ یہ ایک ہیں اور مسلسل ہیں ان میں عام تھا یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں افضل ترین امت تھے۔
حضورﷺ نے فرمایا:
ان الله اختار اصحابی على جميع العالمين سوى النبيين والمرسلين و اختار لى منهم اربعة ابوبكر و عمر و عثمان و عليا فجعلهم خیر اصحابی و فی اصحابی كلهم خير (الشفاء: جلد، 2 صفحہ، 119)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جملہ جہانوں پر ماسوائے نبیوں اور رسولوں کے برگزیدہ کیا اور ان میں سے میرے لیے چار کو چن لیا یہ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ، سیدنا علیؓ ہیں۔ اللہ نے ان کو میرے لیے بہترین ساتھی بنایا اور ویسے میرے سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں خیر ہے۔ امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ (606ھ) بھی آیت استخلاف کا مصداق صرف چار حضرات کو بیان کرتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جن حضرات کو حکومت کرنے کا موقع ملا ان میں صرف یہی چار تھے جو اس آیت کے نزول کے وقت ایمان لائے ہوئے تھے آپ تفسیر کبیر صفحہ 25 پر لکھتے ہیں۔
دلت الآية على امامة الائمة الاربعة وذالك لانه تعالىٰ وعد الله الذين امنوا وعملوا الصلحت من الحاضرين فی زمان محمد صلى الله عليه وسلم وهو المراد بقوله ليستخلفنهم فی الارض
ترجمہ: یہ آیت چار خلفاء کرام رضی اللہ عنہم کی امامت ثابت کرتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ ان لوگوں سے کیا تھا جو حضورﷺ کے سامنے اس وقت موجود تھے اور ایمان لائے ہوئے تھے اور انہوں نے نیک اعمال (ہجرت) کیے تھے خدا تعالیٰ کا یہ کہنا کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا اس سے مراد یہی لوگ ہیں۔
فثبت بهذا صحة امامة الائمة الاربعة وبطل قول الرافضة الطاعنين على ابى بكر و عمر و عثمان و على بطلان قول الخوارج الطاعنين على عثمان و على
ترجمہ: اس آیت سے چاروں ائمہ کی امامت صحیح ثابت ہوتی ہے۔ اور رافضی جو سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ پر زبان کھولتے ہیں ان کی بات باطل ٹھہرتی ہے اور خارجی جو سیدنا علیؓ ان کی بات بھی باطل قرار پاتی ہے۔
ساتویں صدی کی شہادت:
امام نووی رحمۃ اللہ (676ھ) اس دور کے جلیل القدر محدث ہیں۔ آپ نے حدیث کہ میرے بعد خلافت تیس سال تک رہے گی کا اعتبار کیا ہے اور بارہ حکمرانوں کی خبر کو بھی صحیح قرار دیا ہے آپ دونوں کے تعارض کو اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ تیس سالہ خلافت سے مراد خلافتِ علی منہاج النبوۃ ہے۔
(فی بعض الروایات خلافت النبوت بعدی ثلاثون سنہ، شرح صحیح مسلم: جلد، 2 صفحہ، 119)
یہ واقعی تیس سال تک رہی اس میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ایامِ خلافت پورے ہوئے۔ آپ اس بحث میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا لفظ صریح لفظوں میں ان حضرات کے لیے خاص کرتے ہیں اور خلافت کی گنتی پوری کرنے کے لیے حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے اشہر خلافت (چھ ماہ) کو ان میں جمع کرتے ہیں مگر پانچ خلفائے راشدین نہیں بتلاتے۔
فانه لم يكن فى ثلثين سنة الا الخلفاء الراشدون الاربعة والاشهر التی بويع فيها الحسن بن على
(ایضاً صفحہ، 119 و رواہ الامام احمد ابوداؤد والترمذی والنسائی من حدیث سعید بن جمہان عن سفینتہ مولی رسول اللہﷺ، تفسیر ابنِ کثیر جلد، 3 صفحہ، 308)
قال الحافظ فی الفتح صححہ ابنِ حبان وغیرہ (فتح الباری: جلد، 13 صفحہ، 182) حضرت شاہ ولی الله رحمۃ اللہ تیس سال خلافت کی حدیث کو مستفیض فرمایا ہے (دیکھیے ازالہ الخلفاء: جلد، 2 صفحہ، 202) حدیث کے راوی سعید بن جمہان کو یحییٰ بن معین نے ثقہ قرار دیا ہے (دیکھیے میزان الاعتدال) اگر کسی نے اس حدیث کی صحت سے انکار کیا ہے تو اس کی مراد صحیح لذاتہ ہو گی اس کے معنی اور مقبول ہونے میں کسی نے انکار نہیں کیا)
اللہ نے آیت
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِى ارۡتَضٰى لَهُمۡ وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا يَعۡبُدُوۡنَنِىۡ لَا يُشۡرِكُوۡنَ بِىۡ شَيۡـئًــا وَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ
(سورۃ النور: آیت، 55)
ترجمہ: تم میں سے جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں، ان سے اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں ضرور زمین میں اپنا خلیفہ بنائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا، اور ان کے لیے اس دین کو ضرور اقتدار بخشے گا جسے ان کے لیے پسند کیا ہے، اور ان کو جو خوف لاحق رہا ہے، اس کے بدلے انہیں ضرور امن عطا کرے گا۔ (بس) وہ میری عبادت کریں، میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اور جو لوگ اس کے بعد بھی ناشکری کریں گے تو ایسے لوگ نافرمان ہوں گے۔
ساتویں صدی کے جلیل القدر امام ابو البركات الحنفی رحمۃ اللہ (701ھ) لکھتے ہیں۔
اول من كفر هذا النعمة قتلة عثمان فاقتلوا بعد ما كانوا اخوانا وزال عنهم الخوف والاية اوضح دليل على صحة الخلفاء الراشدين رضى الله عنهم لان المستخلفين الذين امنوا وعملو الصلحت هم ھم
(مدارک التنزیل: صفحہ، 520 طبع لبنان)
ترجمہ: سب سے پہلے اس نعمت کی جن لوگوں نے ناشکری کی وہ حضرت عثمانؓ کے خلاف اٹھنے والے قاتلین ہیں انہوں نے مسلمانوں کے بھائی بھائی ہو جانے کے بعد خانہ جنگی کی اور آیتِ استخلاف خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی صحتِ خلافت کی بڑی واضح دلیل ہے کیونکہ خلافت پانے والے جو اس وقت ایمان لا چکے تھے اور نیک عمل تھے یہی لوگ تو تھے۔
کیا یہاں کسی پانچویں خلیفہ راشد کا ذکر ہے؟ کیا آیتِ استخلاف صرف ان چار حضرات کو ہی اس وعدے کا مصداق نہیں ٹھہراتی؟
علامہ قرطبی رحمۃ اللہ (671ھ) لکھتے ہیں کہ آیتِ استخلاف صرف ان چار حضرات کو ہی متضمن ہے یہی لوگ نزولِ آیت کے وقت ایمان لائے ہوئے تھے اور یہی اسلام کے لیے قربانیاں دے چکے تھے اور اس کی تائید حضور اکرمﷺ کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ خلافت علی منہاج النبوۃ تیس سال تک رہے گی۔
هذا الاية تتضمن خلافة أبی بكر و عمر و عثمان و على لانهم اهل الإيمان وعملوا الصلحت وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الخلافة بعدی ثلثون سنة وإلى هذا القول ذهب ابن العربی فی الحكامه واختاره
(تفسیر قرطبی: جلد، 2 صفحہ، 297)
آٹھویں صدی کی شہادت:
حافظ ابنِ كثير الدمشقی رحمۃ اللہ (774ھ) ان حضرات کا تذکرہ کرتے ہوتے جن پر اللہ تعالیٰ نے وعدہ استخلاف پورا کیا لکھتے ہیں۔
وقد وجد منهم اربعة على الولاء وهم ابوبكر ثم عمر ثم عثمان ثم على رضى الله عنهم ثم كانت بعدھم فترة ثم وجد منهم من شاء الله
(تفسیر ابنِ کثیر: جلد، 3 صفحہ، 301)
ترجمہ: اور چار ان میں سے علی الاتصال خلافت پر پائے گئے اور وہ سیدنا ابوبکرؓ پھر سیدنا عمرؓ پھر سیدنا عثمانؓ اور پھر سیدنا علیؓ ہیں پھر ان کے بعد یہ اتصال رک گیا۔ پھر ان میں وہ لوگ بھی پائے گئے جو ان میں شامل نہیں۔
حافظ ابنِ تیمیہؒ (728ھ) سیدنا علیؓ کو آخر الخلفاء الراشدین لکھتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا حسنؓ کو ان دنوں خلفائے راشدین میں شمار نہ کیا جاتا تھا۔ خلافتِ راشده انہی حضرات کے لیے موعود تھی جو آیتِ استخلاف کے نزول کے وقت مشرف باسلام ہو چکے تھے اور اعمال صالحہ ہجرت وغیرہ کر چکے تھے۔
وعلى آخر الخلفاء الراشدين الذين ولايتهم خلافة نبوة ورحمة
(منہاج السنہ: جلد، 4 صفحہ، 121)
ترجمہ: اور حضرت علیؓ آخری خلیفہ راشد تھے جن کی سلطنت نبوت اور رحمت کی خلافت تھی۔
خطیب تبریز رحمۃ اللہ (743ھ) مؤلف مشکوٰۃ نے بھی دورِ اول کے محدثین کے طریقے پر چاروں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے مناقب علی الترتیب ذکر کیے ہیں۔ پھر عشرہ مبشرہ کے مناقب لائے ہیں سیدنا حسنؓ کو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے ساتھ نہیں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔
نویں صدی کی شہادت:
علامہ ابنِ ہمامؒ (861ھ) کی جلالتِ قدر اور شانِ اجتہاد سے کون واقف نہیں اگر اس موضوع میں کچھ بھی اختلاف کی گنجائش ہوتی آپ سیدنا حسن بن علیؓ کو ضرور پانچویں خلیفہ راشد کے طور پر ذکر کر دیتے اور آپ کے تفردات میں ایک اور اضافہ ہو جاتا لیکن آپ نے سرمو اس میں اختلاف کی گنجائش نہیں پائی۔ آپ نے فرمایا:
ان الخلیفۃ الحق بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر ثم عمر ثم عثمان ثم علی والتفضیل علی ھذا الترتیب۔ (المسائرہ)
اب آئیے آپ کو ذرا دسویں صدی میں لے چلیں امام سیوطیؒ (911ھ)کی عبارت مرقات الصعود کی اس کتاب سے آپ صفحہ 53 پر ملاحظہ کر آئے ہیں۔
(حاشیہ ابی داود: جلد، 2 صفحہ، 635)
گیارہویں صدی کی شہادت:
حضرت امام ربانی سیدنا مجدد الف ثانیؒ (1035ھ) قائدِ اہلِ سنت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام برحق و خلیفہ مطلق بعد از حضرت خاتم الرسلﷺ حضرت ابوبکر صدیق است رضی اللّٰه عنہ بعد از آں حضرت عمر فاروق است رضی اللّٰه عنہ بعد از آں حضرت عثمان ذوالنورین است رضی اللّٰه عنہ بعد از آں حضرت علی بن ابی طالب است رضوان اللّٰه تعالی علیہ افضلیت ایشاں بہ ترتیب خلافت است افضلیت حضرات شیخین باجماع صحابہ و تابعین ثابت شدہ است۔
(مکتوبات: جلد، 2 صفحہ، 130)
لکھنو مکتوب نمبر افضلیت شیخین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہے، امام شافعی اس کی تصریح کرتے ہیں، امام ابوالحسن الاشعری کہتے ہیں۔ ان تفضیل ابی بکر ثم عمر علی بقیة الامة قطعی، قال الذھبی وقد تواتر عن علی فی خلافتہ وکرسی مملکتہ بین الجم الغفیر من شیعہ ان ابابکر وعمر افضل الامہ، (مکتوبات ج1، ص320) حصرت علیؓ سے اَسی سے زیادہ حضرات نے آپ کے اس اعلان کو روایت کیا ہے۔)
ترجمہ: امام برحق اور جسے حضورﷺ کا خلیفہ کہا جا سکے وہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوا۔ ان کے بعد سیدنا عمرؓ ہے اللہ تعالیٰ ان سے بھی راضی ہوا۔ ان کے بعد سیدنا عثمان ذوالنورینؓ ہے اللہ ان سے بھی راضی ہوا ان کے بعد سیدنا علی بن ابی طالبؓ ہے اللہ کی رضا آپؓ کے شامل حال ہو۔ ان حضرات کی افضلیت ان کی ترتیب کے مطابق ہے ہاں سیدنا ابوبکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کی افضلیت قطعی ہے جو امت پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے اجماع سے ثابت ہے۔
یہ جو فرمایا کہ ائمہ برحق کی افضلیت ان کی خلافت کی ترتیب کے موافق ہے۔
(مکتوبات: جلد، 3 صفحہ، 45)
اسے آپ نے دوسرے مقام پر خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عنوان سے ذکر کیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے
کہ عقائدِ اہلِ سنت میں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم یہی ہیں۔ حضرت امام ربانیؒ لکھتے ہیں۔
و ترتیب درمیان خلفائے راشدین ترتیب خلافت است
(مکتوبات: جلد، 1 مکتوب، 266)
ترجمہ: خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے مابین افضلیت خلافت کی ترتیب سے ہے۔
سیدنا حسنؓ کو آپ نے اس ترتیب میں ذکر نہیں فرمایا باوجود یہ کہ آپؓ کے ایامِ خلافت 30 سال میں شمار پاتے ہیں اور وہ واقعی خلافتِ راشدہ کے دن تھے مگر چونکہ یہ خلافت کاملہ نہ تھی آپؓ اس سے دست بردار ہو گئے تھے اس لیے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی اصطلاح انہی چار تک محدود رہی۔ اور جب اس کے ساتھ آیتِ استخلاف کو ملائیں تو یہ الہٰی فیصلہ اور کھل کر سامنے آتا ہے کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم وہی ہیں جن پر اس آیت میں دیا گیا وعدہ پورا ہوا اور وہی سابقین اولین تھے جو ہجرت کر کے مدینہ آئے اور نزولِ آیت کے وقت اسلام لائے ہوئے تھے۔
محدث شہیر ملا علی قاریؒ (1014ھ) خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم کا تعارف ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
قیل ھم الخلفاء اربعۃ ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم لانہ علیہ الصلوۃ والسلام قال الخلافۃ بعدی ثلثون سنۃ وقد انتہاء بخلافۃ علی کرم اللہ وجہہ
(شرح مشکوٰہ: جلد، 1 صفحہ، 242)
ترجمہ: کہا گیا وہ خلفائے اربعہ ہیں حضرت ابوبکر صدیقؓ حضرت عمرؓ حضرتؓ حضرت علیؓ اللہ ان سے راضی ہوا کیونکہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا تھا خلافت میرے بعد 30 سال تک رہے گی اور وہ خلافت حضرت علیؓ پر ختم ہوئی۔
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ (1052ھ) بھی لکھتے ہیں:
و مراد خلفائے راشدین خلفائے اربعہ داشتہ اند
اب آپ ہی کہیں ان چار کے ساتھ کیا کسی پانچویں کا ذکر ہے حضرت حسنؓ کی جلالت قدر سے کسی کو انکار نہیں لیکن آپؓ خلافت سے دستبردار ہو گئے تھے۔
بارہویں صدی کی شہادت:
مجدد مائۃ دواز دہم حضرت امام شاہ ولی الله محدث دہلوی رحمۃ اللہ رقم طراز ہیں:
ابوبکر صدیق امام حق بعد رسول اللہﷺ ثم عمر ثم عثمان ثم علی رضی اللہ عنہم ثم تم الخلافۃ
(تفہیماتِ الہٰیہ: جلد، 1 صفحہ، 148)
ترجمہ: آنحضرتﷺ کے بعد امام برحق سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں پھر سیدنا عمرؓ پھر سیدنا عثمانؓ پھر سیدنا علیؓ اور پھر خلافتِ راشدہ اپنے انتہا کو جا پہنچی۔
وآنچہ متصل وفات آنحضرتﷺ واقع شد خلافت خلفائے اربعہ بود پس خلافت ایشاں خلافت نبوت و رحمت باشد
(ازالہ الخفاء: جلد، 2 صفحہ، 402)
ترجمہ: جو آنحضرتﷺ کی وفات کے متصل بعد عمل میں آئی وہ خلفائے اربعہ کی خلافت تھی۔ سو ان چاروں کی خلافت خلافتِ نبوت و رحمت شمار ہوتی ہے۔
تیرہویں صدی کی شہادت:
حضرت امام شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ (1239ھ) لکھتے ہیں:
و بالجملہ نزد اہل سنت از مقررات است کہ امامت حقہ بلاشبہ تاسی سال امتداء یافت وبصلح امام حسن کہ پانزدہم ماہ جماد الاولی در 41 ہجری چہل و یک بوقوع آمد انقطاع پذیر فت و نزد ایشاں ترتیب خلافت بروجہ حق و صواب است تقدیم ماحقہ التاخیر درآں رہ نیافتہ پس از رحلت پیغمبر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ امام برحق بود
(تحفہ اثناء عشریہ: صفحہ، 183)
ترجمہ: اہلِ سنت کے ہاں یہ طے شدہ عقائد میں سے ہے کہ امامت حقہ (خلافتِ راشدہ) بلا شبہ تیس سال تک ہی گئی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی صلح 16 ہجری 15جمادی الاولیٰ کو ہوئی پر ختم ہو گئی اہلِ سنت کے ہاں ترتیبِ خلافت حق و صواب پر واقع ہوئی ہے جس کی فضیلت بعد میں ہو اسے پہلے خلیفہ بنا دیا جائے یہ بات ہرگز نہیں ہوئی پس حضور اقدسﷺ کی وفات کے بعد امام برحق سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہوئے ہیں۔
سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے خلافت سے دستبردار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی آپ نے لکھی ہے کہ
امام دانستہ بود کے زمان خلافت منقضی شدہ۔ اگر من متصدی ریاست خواہم شد چوں مقدر نیست منتظم نخواہد شد۔ از ریاست آں وقت کنارہ گرفت و تفویض امر بمعاویہ رضی اللہ عنہ نمود کہ لائق ریاست آں وقت بود۔
(تحفہ اثناء عشریہ: صفحہ، 183)
ترجمہ: حضرت حسنؓ جانتے تھے کہ خلافت کی 30 سالہ مدت ہو چکی ہے اگر میں مزید خلافت کے در پہ رہوں چونکہ تقدیر کا فیصلہ ہے سلطنت ایک نہ ہو سکے گی۔ آپؓ نے اس وقت خلافت سے کنارہ کشی کر لی اور سلطنت سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دی کیونکہ اس وقت قیادت کے لائق آپؓ ہی تھے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حدیث کہ خلافتِ نبوت 30 سال تک رہے گی حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو معلوم تھی اور وہ جانتے تھے کہ اب 30 سال پورے ہو چکے ہیں۔ وہ در پے خلافت نہ رہے۔ دستبردار ہو گئے اور اس مدت 30 سال میں صرف چار حضرات ہی کامل خلیفہ ہوئے اور فضیلت بھی صرف ان چار میں ترتیب وار دائر ہوئی اور امت نے بالاتفاق انہیں ہی خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کہا اور جو ان چار کو مانے اسے اہلِ سنت ٹھہرایا۔ کسی نے نہ کہا کہ پانچویں درجے کی فضیلت حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی ہے اور یہ کہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم پنجتن ہیں۔ تیرہویں صدی کے آخر میں حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری رحمۃ اللہ (1297ھ) اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ (1297 ہجری) اپنے اسلاف کی راہ پر چلے ہیں اور آیتِ استخلاف کا مصداق انہوں نے بھی چار خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کو ہی قرار دیا ہے۔
سہارنپوری رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:
و فی شرح السنۃ قال ابومنصور البغدادی اصحابنا مجمعون علی ان افضلھم الخلفاء الاربعۃ علی الترتیب المذکور ثم تمام العشرۃ ثم اہل بدر
(حاشیہ صحیح بخاری: جلد، 1 صفحہ، 515)
ترجمہ: ابو منصور بغدادی رحمۃ اللہ کہتے ہیں ہمارے اصحاب کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل علی الترتیب خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم ہیں پھر عشرہ مبشرہ اور پھر اہلِ بدر اللہ ان سے راضی ہوا۔
غور کیجیئے خلفائے اربعہ رضی اللہ عنہم کے بعد عشرہ مبشرہ کا درجہ ہے۔ ابو منصور بغدادی رحمۃ اللہ میں ہوئے ہیں محدث سہارنپوری رحمۃ اللہ تیرہویں صدی کے اواخر میں ان سے نقل کر رہے ہیں کہ اس امت میں افضل ترین حضرات خلفائے اربعہ ہوئے ہیں۔ کوئی شخص پانچ خلفاء کا تذکرہ نہیں کرتا اور کوئی شخص اس کا مدعی نظر نہیں آتا کہ جو خلیفہ خلافت چھوڑ دے۔ تاریخ اسے خلفائے کاملین میں جگہ دے۔
حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ اجوبہ اربعین صفحہ 183 پر لکھتے ہیں:
اہل سنت گو سب کو خلیفہ کہیں پر خلیفہ برحق اور خلیفہ راشد چار کو سمجھتے ہیں۔
(آئنہ: صفحہ، 189)
یہاں برحق سے مراد خلافت موعودہ ہے جس کا اس وقت کے مومنین کو وعدہ دیا گیا تھا۔ اور وہ انہی چار کو ملی۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کو ملی تو تھی لیکن وہ ایک علاقائی امارت تھی اپنے عقد میں پوری مملکتِ اسلامی کے لیے نہ تھی۔ تاہم آپؓ اس کو پورا نہ کر سکے اور اس سے دستبردار ہو گئے۔ ان ایام کو خلافتِ راشدہ میں شمار کرنے کے باوجود خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم چار ہی ذکر کیے جاتے ہیں اور پانچواں نام ان سے علیحدہ ذکر کیا جاتا ہے۔ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم تو ان کے نزدیک (اہلِ سنت کے نزدیک) پانچ ہیں چار یار اور ایک سیدنا حسنؓ۔
(الاصول الخاملہ: صفحہ، 39)
دیکھیے یہاں چار کا لفظ ان کے لیے یکجا ذکر کیا ہے اور پانچویں خلیفہ بایں طور ان سے ملحق ہیں کہ ان کے ایامِ خلافت بھی راشدہ میں شمار ہیں۔
چودھویں صدی کی شہادت:
(1329 ہجری) مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ کے مدرسہ منظر الاسلام بریلی کا پہلا سالانہ جلسہ 1329ھ میں ہوا مولانا کے معتمد خصوصی قاضی خلیل الدین رحمۃ اللہ نے جو حافظ تخلص کرتے تھے مولانا کے سامنے خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے حضور یہ نظرانہ پیش کیا۔
ہیں ارکان اسلام اصحاب چاروں۔
کہ چاروں نے ترتیب سے کی خلافت۔
وہ صدیقؓ و فاروقؓ و عثمانؓ و حیدرؓ۔
جو پیرو ہو سب کا وہ ہے اہلِ سنت۔
اس میں اس بات کی تشریح ہے کہ خلفائے اربعہ کی پیروی کا اقرار اہلِ سنت کا ہمیشہ سے امتیازی نشان رہا ہے۔
مفتی اعظم اقلیم ہند حضرت مفتی کفایت اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:
حضور اقدسﷺ کی وفات کے بعد تمام مسلمانوں کے اتفاق سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ حضورﷺ کے قائم مقام بنائے گئے اس لیے یہ خلیفہ اول ہیں۔ ان کے بعد سیدنا عمر فاروقؓ دوسرے خلیفہ ہوئے۔ ان کے بعد سیدنا عثمانؓ تیسرے خلیفہ ہوئے۔ ان کے بعد سیدنا علیؓ چوتھے خلیفہ ہوئے۔ ان چاروں کو خلفائے اربعہ اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور چار یار کہتے ہیں۔
(تعلیم الاسلام: حصہ، 3 صفحہ، 18)
چاروں حضرات حق کا نشان بنے
ابھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم موجود تھے کہ تشیع اور خوارج کے فتنے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ یہود نے ابتداء میں تشیع کو صرف سیاسی جماعت کی شکل دی تھی۔ لیکن خوارج شروع سے ہی ایک مذہبی اختلاف لے کر اٹھے تھے ان دنوں اہلِ حق انہی چار حضرات رضی اللہ عنہم کی عقیدت سے پہچانے جاتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن خباب رضی اللہ عنہ(37 ہجری) کو خارجیوں نے گھیر لیا اور پوچھا من انت؟ (تو کون ہے؟) انہوں نے کہا کہ میں صحابی رسول عبداللہ بن خباب ہوں انہوں نے پھر ان سے چاروں کے بارے میں پوچھا۔
حافظ ابنِ اثیر رحمۃ اللہ لکھتے ہیں:
فسئلوہ عن ابی بکر و عمر و عثمان و علی
(اسد الغابہ: جلد، 3 صفحہ، 150)
سیدنا عبداللہ بن خبابؓ نے چاروں کے خیر ہونے کی شہادت دی۔ انہوں نے اس پر انہیں قتل کر دیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان دنوں اہلِ حق کا نشان ان چاروں کی عقیدت تھی۔ اسلام کی یہ 14 صدیوں کی شہادت آپ کے سامنے ہے۔