Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

چودہ معصومین علمِ غیب جانتے ہیں۔(معاذاللہ)

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

عقیدہ شیعانِ علی:-

چودہ معصومین علمِ غیب جانتے ہیں۔

شیعہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ خُدا کے مرتضٰی ہیں اور ہم اس رسولﷺ کے وارث ہیں۔ پس ہم پہلے اور آنے والے واقعات کو جانتے ہیں۔ (اصول کافی: جلد 1، ص 256، تفسیر صافی ص565) 

جواب اہلِ سنت

شیعانِ علی کے اس عقیدے کی حقیقت، جلاء العیون کی اس روایت ہی سے ظاہر ہو جاتی ہے جو درج ذیل ہے۔

"اسی اثناء میں جبرائیلؑ آئے، یا محبوب رب العالمین آپ کی امت اس بچے کو نا حق کربلا میں تین شب و روز کا پیاسا رکھ کر قتل کرے گی۔ حضرتﷺ یہ خبر سُن کر رونے لگے، آنجنابﷺ کو روتا دیکھ کر سیدہ طاہرہؓ اور علی المُرتضٰیؓ شیرِ خُدا نے بھی رونا شروع کر دیا۔ جب افاقہ ہوا تو سیدہؓ نے پوچھا بابا جان آپﷺ کیوں روتے ہیں۔؟ فرمایا بیٹی جبرائیلؑ نے بحکمِ خُداوندی یہ اطلاع دی ہے کہ آپﷺ کی امت اس بچے کو بے جرم و خطا نہایت بے دردی سے قتل کرے گی۔ سیدہؓ نے عرض کی بابا جان جب ایسا وقت آئے گا، آپﷺ میرے حسین کی مدد نہ فرمائیں گے۔ ان کے باپ علی ذوالفقارِ حیدری نہ چلائیں گے۔ بابا میں اپنی چادرِ عصمت کا واسطہ دے کر مسلمانوں سے حسین کو بچا لوں گی، آپ نہ روئیے۔ جناب سردارِ انبیاءؑ نے فرمایا: یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آئے گا جب دنیا میں، میں نہ رہوں گا نہ تو رہے گی نا خیبر و خندق اور احد کو فتح کرنے والے حضرت علیؑ رہیں گے۔" (جلاء العیون، ص 50)

اس روایت سے درج ذیل عقائد کی تشریح ہو جاتی ہے۔

 غیب اللّٰه تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ لٰہذا جب جبرائیلؑ نے حضورﷺ کو خبر دی۔ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ پاس موجود تھے۔ لیکن انہیں پتہ نہ چل سکا کہ حضورﷺ کو کیا خبر بتائی گئی ہے۔ حضرت فاطمہؓ نے جب حضورﷺ سے رونے کا سبب پوچھا تب اس المناک واقعہ کا علم ہوا۔

 اس عقیدے کا رد کہ حضورﷺ اور آئمہ اطہار ازل سے ابد تک ہیں، اس طرح ہوا کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ شہادتِ حسینؓ کے وقت نہ میں رہوں گا نہ تم رہو گی اور نہ علیؓ رہیں گے۔

 حضورﷺ کا یہ فرمانا کہ ہم حسین کی مدد اس لیے نہ کر سکیں گے کہ ہم اس سے قبل رحلت کر چکے ہوں گے اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ مدد بالاسباب تو ہو سکتی ہے بلا سبب نہیں ہو سکتی۔

جلاء العیون کی ایک اور روایت پیش خدمت ہے۔

ناگاہ جناب فاطمہؓ گِریاں (روتی ہوئی) تشریف لائیں۔ حضورﷺ نے فرمایا: اے فاطمہ گریہ نہ کرو، جِس خُدا نے ان کو پیدا کیا ہے وہ ان پر تم سے زیادہ مہربان ہے۔ پھر حضرتﷺ نے ہاتھ جانبِ آسمان بلند فرمائے اور کہا کہ خُداوند! اگر حسنین صحرا یا دریا میں گئے ہیں تو ان کی حفاظت کر اور سلامت رکھ۔ (جلاء العیون، ص:106)

یہ محاورہ شاید ایسے موقعوں پر بولا جاتا ہے:

"اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے..."

ملا باقر مجلسی شیعانِ علی کا ترجمان اور بہت بڑا چراغ تصور ہوتا ہے اور خمینی اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ  "اس کی کتب پڑھو ایمان تازہ ہوتا ہے۔"

چنانچہ اس نے اپنی کتب میں جہاں اور بہت خرافات لکھی ہیں وہ بھول کر ایسی سچی روایات بھی نقل کر گیا ہے۔ جِن سے علمِ غیب جاننے، ازل سے ابد تک ہونے اور انبیاءؑ سے لے کر عام آدمی تک ہر ایک کی مدد کرنے کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ 

معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت حسنین کریمین برادرِ قلبی گھر سے لاپتہ ہوئے، حضرت علیؓ گھر موجود نہیں تھے۔ تب ہی حضرت فاطمہؓ حضرت محمدﷺ کی خدمت میں روتی ہوئیں حاضر ہوئیں۔ ورنہ اگر حضرت علیؓ گھر میں موجود ہوتے تو اس مشکل وقت میں ضرور مدد فرماتے۔ یعنی موجود غائب نہیں ہوتا اور غائب موجود نہیں ہوتا۔ اور موجود سے مدد طلب کی جا سکتی ہے غائب سے نہیں۔ اسی طرح حسنینؓ ساتھ ہی باغ میں موجود تھے لیکن فاطمہؓ کو معلوم نہیں کہ وہ کہاں ہیں۔ اسی لیے وہ حضورﷺ کے پاس روتی ہوئی تشریف لائیں۔ پھر حضورﷺ نے خُدا سے خیریت کی دعا کی۔

آخر کیوں ؟؟؟ نتیجہ آپ خود نکالیں۔ بہرحال چونکہ میں نے تمام باطل عقائد کا رد نہج البلاغہ سے کیا ہے لہٰذا جواب پیشِ خدمت ہے:

"جِس پر آپؓ ہنسے اور فرمایا یہ علمِ غیب نہیں بلکہ ایک صاحبِ علم (رسول ﷺ) سے معلوم کی ہوئی باتیں ہیں۔ علم و غیب تو قیامت کی گھڑی اور ان چیزوں کے جاننے کا نام ہے کہ جنہیں اللّٰه سبحانہ و تعالٰی نے إِنَّ اللہ عندهٗ علم السّاعة والی آیت میں شمار کیا ہے۔ چنانچہ اللہ ہی جانتا ہے کہ شکموں میں کیا ہے۔ نر ہے یا مادہ، بدصورت ہے یا خوبصورت، سخی ہے یا بخیل، بدبخت ہے یا خوش بخت اورکون جہنم کا ایندھن ہو گا اور کون جنت میں نبیوںؑ کا رفیق ہو گا۔ یہ وہ علم ہے جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا!"  (نہج البلاغہ، ص 268)

عرفت اللّٰه سبحانه بفسخ العز آئم و حلل العقود نقص الھمم...!!

میں نے اللہ کو نیتوں کے بدل جانے اور ارادوں کے ٹوٹ جانے اور ہمتوں کے پست ہونے سے اللہ کو پہچانا۔(نہج البلاغہ، 882)

"میں نے اس موت کو چھپے ہوئے بھیدوں کی جستجو میں کتنا ہی زمانہ گزارا مگر مشیت ایزدی یہی رہی کہ اس کی تفصیلات بےنقاب نہ ہوں۔ اس کی منزل تک رسائی کہاں۔ وہ تو ایک پوشیدہ علم ہے۔" (نہج البلاغہ، ص 402)

حضرت علیؓ نے اپنے اصحاب میں سے ایک شخص کو سپاہِ کوفہ کی ایک جماعت کی خبر لانے کے لیے بھیجا جو خارجیوں سے مد علم ہونے کا تہیہ کیے بیٹھی تھی لیکن حضرت علیؓ سے خائف تھی۔ چنانچہ جب وہ پلٹ کر آیا تو آپؓ نے دریافت کیا کہ کیا وہ مطمئن ہو کر ٹھہر گئے ہیں........الخ" (نہج البلاغہ، ص 483)

یوں تو اس موضوع پر اور بھی کئی مقامات پر بہت کچھ فرمایا گیا ہے، لیکن اختصار کی خاطر اتنا ہی درج کیے دیتا ہوں۔

خلاصہ

آپؓ کے ارشادات سے معلوم ہوا کہ علم غیب صرف خدا کی صفت ہے، حضرت فاطمہؓ حضرت علیؓ یا کسی کو علم غیب نہیں دیا گیا اور نہ ہی جانتے ہیں۔