سنی شیعہ مکالمہ عقیدۂ تحریفِ قرآن
شہید ناموس صحابہؓ مولانا عبدالغفور ندیم شہیدؒسلیم اور بشیر دو دوست ہیں ۔
سلیم سُنی العقیدہ مسلمان ہے اور شبیر شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ دونوں کالج کے طالب علم ہیں ۔سلیم سپاہِ صحابہؓ کے مشن سے کافی ہمدردی رکھتا ہے۔ چنانچہ ایک روز دونوں کے درمیان شیعہ سُنی کے موضوع اور سپاہِ صحابہؓ کی تحریک کے عنوان سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
سلیم نے چونکہ بانیٔ سپاہِ صحابہؓ مولانا حق نواز جھنگوی شہیدؒ کی تقاریر کی بیشتر کیسٹیں سن رکھی تھیں۔ اس لیے اس کا مؤقف تھا کہ شیعہ کا اِسلام سے کوئی تعلق نہیں جبکہ شبیر کا مؤقف تھا۔ شیعہ بھی دیگر اِسلامی فرقوں کی طرح ایک اِسلامی فرقہ ہے ۔دونوں نے اپنے اپنے مؤقف کی تائید میں دلائل پیش کیے تاکہ اپنے مؤقف کو صحیح ثابت کر سکیں۔
دونوں کے درمیان ہونے والی اِس مدلل گفتگو کو ہدیۂ قارئین کیا جا رہا ہے ۔تاکہ آپ اس گفتگو سے لطف اندوز بھی ہوں اور اپنی معلومات میں بھی اِضافہ کریں۔
شبیر: بھائی میں کافی دنوں سے آپ کو کہتا چلا آرہا ہوں کہ آپ کسی روز وقت نکال کر میرے گھر تشریف لائیں اور کھانے کی دعوت قبول فرمائیں لیکن آپ مجھے مسلسل نظر اَنداز کر رہے ہیں۔ آخر اِسکی وجہ کیا ہے؟
سلیم: بس کچھ مصروفیات اور سُستی کی وجہ سے میں وقت نہیں نکال پاتا، ورنہ آپ کو نظر اَنداز کرنے والی ایسی کوئی بات نہیں ۔
شبیر: تقریباً چھ ماہ سے میں آپ کو دعوت دے رہا ہوں، اتنے عرصے میں آپ کو ایک روز بھی ایسا نہیں ملا کہ آپ میری دعوت کو قبول کر لیتے ،کہیں آپ سپاہِ صحابہؓ والوں کے پاس تو نہیں بیٹھنے لگے؟
سلیم:ہاں! سپاہِ صحابہؓ کے کچھ لوگوں سے جان پہچان ہے لیکن اتنا زیادہ اُن کے پاس بیٹھنے کی میرے پاس فرصت کہاں ہے؟ آپ کو پتہ ہے کہ میں زیادہ تر وقت اپنے گھر پر ہی گزارتا ہوں۔
شبیر:تو آخر آپ میری دعوت کو مسلسل کیوں نظر انداز کر رہے ہیں؟ آج تو آپ کو کچھ بتانا ہی پڑے گا۔
سلیم:اگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں آپ کو صحیح بات بتا دوں!
شبیر: ناراضگی کی کون سی بات ہے، اگر آپ کا عُذر مَعقول ہوگا تو میں آپ کو آئندہ مجبور نہیں کروں گا۔
سلیم:اصل بات یہ ہے کہ میں نے گزشتہ دِنوں سپاہِ صحابہؓ کے بانی مولانا حق نواز جھنگویؒ کی اوکاڑہ والی تقریر کی کیسٹ سُنی تھی۔ اِس سے پہلے میں شیعوں کے ہاں کھانے پینے کو معیوب نہیں سمجھتا تھا۔ لیکن اس کیسٹ کے سُننے کے بعد میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ کہ اب شیعوں کے ہاں کوئی چیز نہ کھاؤں گا۔ بس اِسی وجہ سے میں آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے گُریز کر رہا ہوں۔
شبیر: آپ بھی عجیب آدمی ہیں۔ کالج کے اسٹوڈنٹ ہیں لیکن دقیانوسی ذہنیت نہیں گئی۔ بھئی، مولویوں کا تو کام ہی لوگوں کو آپس میں لڑانا ہے۔ آپ کِن چکروں میں پڑ گئے؟
سلیم: پہلے تو میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ مولوی فرقہ واریت پھیلاتے ہیں اور لوگوں کو آپس میں لڑواتے ہیں لیکن جب میں نے مولانا جھنگویؒ کی کیسٹ سنی تو یقین جانیے میری تو آنکھیں کُھل گئیں ۔اس لیے کہ اُن کی تقریر عام مولویوں کی طرح قصّے،کہانیوں، لطیفوں اور چُٹکوں وغیرہ پر مشتمل نہیں تھی بلکہ ایسی مدلّل تقریر تھی کہ کم از کم میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئی۔
شبیر: اُنہوں نے تقریر میں کیا کہا کہ شیعوں کے گھر کا کھانا حرام ہے؟
سلیم: یہ تو معمولی سی بات ہے۔اُنہوں نے تو قرآن و حدیث اور شیعوں کی معتبر ترین کتابوں کے حوالوں سے ثابت کیا ہے کہ شیعہ کائنات کا بدترین اور غلیظ ترین کافر ہے۔اِس لیے اِس تقریر کے بعد مجھے شیعوں سے کچھ نفرت سی ہو گئی ہے۔
شبیر:ارے سلیم بھائی! تم بھی بڑے سادہ ہو، ایک ہی تقریر سن کر لٹو ہو گئے۔ یہ مولوی لوگ، عوام کو آپس میں لڑانے کے لیے اِدھر اُدھر کی جھوٹی اور بے سروپا باتیں اپنی تقریروں میں سناتے رہتے ہیں ۔جن میں کوئی صداقت نہیں ہوتی۔
سلیم:ہوتے ہونگے ایسے مولوی! لیکن جنگھویؒ صاحب نے جن کتابوں کے حوالے دیے ہیں میں نے وہ کتابیں حاصل کر کے خود بھی پڑھی ہیں۔اور وہ ساری باتیں آپ کی مذہبی کتابوں میں موجود پائی ہیں۔ جن کی وجہ سے جھنگویؒ صاحب اور سپاہِ صحابہؓ کا مؤقف مجھے سمجھ میں آنے لگا ہے۔
شبیر: یار آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں! ہماری کتابوں میں ایسی باتیں، جو اِسلام کے سراسر خلاف ہوں، اور اُن سے ہمارا کفر ثابت ہوتا ہو۔ یہ ناممکن ہے؟
سلیم: یہ ممکن ہے اِس لیے کہ میں نے خود اِن کتابوں میں شیعہ کے کفریہ نظریات پڑھے ہیں۔ اگر آپ کہیں تو وضاحت کروں؟
شبیر: بالکل وضاحت کریں تاکہ مجھے بھی پتہ چلے کہ ہمارے مذہب میں ایسی باتیں بھی ہیں جو ہمارے کُفر کی دلیل بن سکتی ہیں ،اگر آپ نے ثابت کر دیا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلیم: ہاں ہاں ۔۔اگر میں نے ثابت کر دیا تو آپ اپنا مذہب چھوڑ دیں گے؟
شبیر:میں دیکھوں گا،اگر آپ ہمارے مذہب کی مُعتبر کتابوں میں سے ہمارے کفریہ عقائد دکھا دیں تو میں شیعہ مذہب چھوڑ دوں گا۔ شرط یہ ہے کہ آپ صرف زبانی بات نہیں کریں گے۔ بلکہ وہ کتابیں لا کر مُجھے دکھائیں گے۔۔
سلیم: ٹھیک ہے ابھی تو میرے پاس کتابیں نہیں کل آپ میرے گھر پر تشریف لائیں۔میں ایک ایک حوالہ آپ کو دِکھا دوں گا ۔
دوسرے روز شبیر اپنے مسلمان دوست سلیم کے گھر پہنچ گیا اور پھر دونوں کے درمیان شیعہ کے کُفر پر بحث و تکرار شروع ہو گئی۔۔۔۔۔
شیعہ کا پہلا کُفر تحریفِ قرآن
عقیدۂ تحریفِ قرآن
شبیر:میں حاضر ہو گیا ہوں! آج یا تو آپ مجھے دلائل سے قائل کریں گے۔ کہ شیعہ مسلمان نہیں بلکہ کافر ہیں یا میں آپ پر یہ حقیقت واضح کروں گا کہ شیعہ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ پکّے مؤمن ہیں اور اِس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ ہم وہی کلمہ پڑھتے ہیں جو سب مسلمان پڑھتے ہیں اور کسی کلمہ گو کو کافرکہنا بہت بڑا گناہ ہے اِس لیے کہ میں نے آپ ہی کے مولویوں سے یہ حدیث سُنی ہے کہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ:
"من قال لا الہ الا اللّٰہ دخل الجنة"
ترجمہ: جس نے لا الہ الا اللّٰہ کہ لیا وہ جنتی ہیں۔
اور ہم اللّٰہ کے فضل سے لا الہ الا اللّٰہ پڑھتے ہیں۔ اِسی لیے ہمیں تو یقین ہے کہ ہم جنتی ہیں، اور کوئی جنتی کافر نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی کافر جنتی ہو سکتا ہے۔
سلیم:بھئی جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں اِن شاءاللہ تعالیٰ آپ کو مطمئن کر کے بھیجوں گا۔ آپ نے تو آؤ دیکھا نا تاؤ۔ آتے ہی اپنے مسلمان ہونے کی ایک دلیل ٹھونک دی: میں نے یہ کب کہا کہ آپ چونکہ کلمہ پڑھتے ہیں اس لیے کافر ہیں کلمہ تو آپ بے شک پڑھتے ہیں بلکہ ہمارے کلمے سے بھی لمبا کلمہ پڑھتے ہیں۔ ہمارا کلمہ تو "لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ" پر ختم ہو جاتا ہے لیکن آپ کے کلمے میں مزید "علی ولی اللّٰہ وصی رسول اللّٰہ و خلیفہ بلا فصل" کا اِضافہ بھی ہے۔لیکن آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ صرف کلمہ پڑھ لینا مسلمان ہونے کے لیے کافی نہیں ورنہ آپ ہی بتائیں کہ قادیانی مسلمان ہیں یا کافر؟
شبیر:وہ تو کافر ہیں اور 1974ء میں حکومت پاکستان نے بھی اُنہیں آئینی طور پر غیر مُسلم اقلیت قرار دے دیا تھا اسی لیے کہ وہ ختمِ نبوت کے منکر ہیں اور حضورﷺ کے بعد مرزا قادیانی کو نبی مانتے ہیں اس لیے جو شخص ختمِ نبوت کا منکر ہو وہ کلمہ پڑھنے کے باوجود کافر ہے۔
سلیم:بس میں یہی بات آپ سے کہلوانا چاہتا تھا کہ صرف کلمہ پڑھ لینا مسلمان ہونے کے لیے کافی نہیں بلکہ اِسلام کےبنیادی عقائد کو دل و جان سے تسلیم کرنا بھی ضروری ہے ورنہ قادیانی بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں جو ساری اِسلامی برادری پڑھتی ہے لیکن اُن کے کلمے کا اِعتبار اس لیے نہیں کیا جاتا کہ وہ اِسلام کے ایک اہم ترین اور بنیادی عقیدہ، یعنی ختمِ نبوت کےمنکر ہیں، گویا آپ کی سمجھ میں بات آگئی کہ اگر کوئی شخص اِسلام کے بنیادی عقائد، قرآنِ کریم، ختمِ نبوت وغیرہ پر اِیمان نہ رکھتا ہو تو صرف کلمے کی بنیاد پر اُسے مسلمان نہیں مانا جا سکتا۔
شبیر: تو کیا ہم اِسلام کے بنیادی عقائد کا اِنکار کرتے ہیں؟
سلیم: جی ہاں! قرآن کریم، جو اللّٰہ تعالی کی آخری اور لاریب کتاب ہے. جس کی ابتداء میں اللّٰہ تعالی نے فرما دیا ہے کہ:
(ذلك الكتاب لا ريب فيه)
ترجمہ: یہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
آپ کے مذہب کے مطابق یہ کتابِ خداوندی شکّ و شبہ سےبالاتر نہیں، بلکہ اس میں کئ جگہ تحریف و تبدّل کر دیا گیا ہے اور موجودہ قرآن کریم نامکمل ہے۔
شبیر:میرے خیال میں آپ کو یا تو غلط فہمی ہوئی ہے یا وہی مولوی حق نواز جھنگویؒ کی جذباتی تقریر سے آپ متاثر ہو گئے ہیں ورنہ ہمارے مذہب میں اگر موجودہ قرآن صحیح نہ ہوتا، یا ہمارا اِس قرآن پر ایمان نہ ہوتا تو ہم اپنے گھروں میں یہ قرآن کیوں رکھتے؟ اپنے بچوں کو یہ قرآن کیوں پڑھاتے؟ ہم خود اِسی قرآن مجید کی تلاوت کیوں کرتے؟
سلیم: دیکھیے! نہ تو مجھے غلط فہمی ہوئی ہے اور نہ ہی میں محض مولانا جھنگویؒ شہید کی جذباتی تقریر سے متاثر ہوا ہوں۔ بلکہ اُنہوں نے اپنی تقریر میں آپ کے شیعہ مذہب کی معتبر ترین کتابوں سے جو حوالہ جات پیش کیے ہیں۔ میں نے وہ کتابیں لے کر خود پڑھی ہیں اِس لیے میں صرف تقریر کی روشنی میں نہیں بلکہ اپنے مطالعے کی روشنی میں کہہ رہا ہوں کہ آپ موجودہ قرآن کریم کو تحریف و تبدیل شُدہ مانتے ہیں۔
یہ دیکھیے میرے پاس آپ کے مذہب کی بنیادی اور معتبر ترین کتاب "اصولِ کافی" رکھی ہے. جس کے مصنف "جناب محمد یعقوب کلینی "ہیں جو "ثقة الاسلام" ،کے لقب سے ملقّب ہیں. یہ کتاب اِمام غائب کی غیبتِ صغریٰ کے زمانے میں لکھی گئی۔ اِس کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ یہ کتاب اِمام غائب کے سامنے جب غار میں پیش کی گئی تو اُنہوں نے اِسے پڑھ کر فرمایا. "هذا كاف لشيعتنا"،یعنی یہ کتاب ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے، اس سے اس کا نام "الکافی" رکھا گیا۔﴿مقدمہ اصولِ کافی صفحہ 20جلد 1 مطبوعہ ایران﴾
قرآن میں کمی کر دی گئی
اِس کتاب کے (صفحہ 414 جلد1) پر یہ روایت آپ خود پڑھ سکتے ہیں۔
عن الحسين بنِ محمد، عن معلى بنِ محمد ،عن على بنِ اسباط، عن على بنِ أبى حمزة، عن ابي بصيره ،عن ابي عبد اللهؒ في قول اللّٰه عزّ وجل.ومن يطع اللّٰه ورسوله (فى ولايته على (وولاية) الا ئمة من بعده) فقد فاز فوزا عظيما.هكذانزلت
ترجمہ:ابو بصیر سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت کرتا ہے کہ اللّٰہ تعالی کا قول
ومن يطع اللّٰه ورسوله (فى ولايته على (وولاية) الا ئمة من بعده) فقد فاز فوزا عظيما.
اسی طرح نازل ہوا تھا۔
اب آپ بتائیں کہ مذکورہ خط کشیدہ الفاظ موجودہ قرآن مجید میں کہیں آپ کو نظرآتے ہیں؟اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو بتائیں موجودہ قرآن مجید مکمل ہوا یا نامکمل؟
اِسی کتاب کے (صفحہ 417 جلد1) پر دیکھیں!
عن ابى جعفرؒ قال نزل جبريل بهذا الاية على محمدﷺ "بئسما اشتروا به انفسهم ان يکفروا بما انزل اللّٰه(في على) بغيا"
ترجمہ: سیدنا ابی جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام اس آیت کو محمدﷺ پر اس طرح لے کر آئے تھے "بئسمااشتروا به انفسهم ان يکفروا بما انزل اللّٰه (في على) بغيا"
اب قرآن مجید میں "فی علی" کے الفاظ نہیں ہیں، جبکہ آپ کی یہ کتاب بتلا رہی ہے کہ جو قرآن اللّٰہ نے نازل کیا تھا اس میں "فی علی" کے الفاظ موجود تھے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ جو لوگ قرآن کریم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے ہوں کہ اس قرآن میں سے بعض الفاظ کم کر دیے گئے ہیں اور موجودہ قرآن ناقص ہے تو آپ پھر بھی اِنہیں مسلمان سمجھتے ہیں؟
اللّٰہ حفاظتِ قرآن کا وعدہ پورا نہ کر سکا
شبیر:یہ تو واقعی نئی بات میرے سامنے آئی ہے اور مجھے تو اِن باتوں کا پتہ ہی نہیں تھا کہ ہماری اِتنی معتبر کتاب میں اس طرح کی باتیں لکھی ہوں گی۔ میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ جب قرآن کے بارے میں اللّٰہ تعالی نے خود وعدہ کیا ہے کہ
(انا نحن نزلناالذكر وانا له لحافظون).
ترجمہ بے شک ہم نے ذکر (قرآن) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔
جب اللّٰہ خود قرآن کا محافظ ہے تو اس میں کوئی انسان کیسے تغیّرو تبدّل کر سکتا ہے ؟اس کا مطلب تو یہ ہوگا کہ اللّٰہ تعالیٰ اپنے وعدے پر (نعوذ باللّٰہ) قائم نہ رہ سکا.
سلیم:یہی تو ہم کہتے ہیں کہ اگر قرآن کریم میں تحریف کا عقیدہ رکھا جائے تو اس سے اللّٰہ تعالیٰ کا عاجز ہونا لازم آتا ہے اور اللّٰہ تعالیٰ کو عاجز ماننا کفر نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر قرآن مجید میں تحریف و تبدیلی کا عقیدہ رکھنے والا مذکورہ آیتِ حفاظت کا منکر ہو کر دائرۂ اِسلام سے خارج ہوجاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا جھنگویؒ شہید نے اپنی تقریر میں شیعہ کو کافر کہا ہے۔
ابھی تو میں نے صرف دو حوالے پیش کیے ہیں۔ اگر آپ کہیں تو مزید حوالہ جات پیش کروں ۔
شبیر; کیا اِس قسم کی اور روایات بھی ہیں؟
سلیم: جی ہاں! آپ کے آئمہ سے تقریبا دو ہزار روایات تحریفِ قرآن پر مروی ہیں۔ اگر وہ سب روایات پیش کروں تو اس کے لیے طویل وقت درکار ہے، البتہ چند حوالہ جات مزید آپ کو دکھاتا ہوں۔
یہ دیکھیے! اصولِ کافی کے اِسی صفحہ نمبر 417 پر ملاحظہ فرمائیں:
نزل جبرائيل عليه السلام هذا الاية على محمدﷺ هكذا. ان كنتم في ريب ممانزلنا على عبدنا (في علي) فاتو بسورة من مثله
ترجمہ: جبرائیل علیہ السلام اس آیت کو محمدﷺ پر اِس طرح لے کر آئے تھے۔"ان كنتم في ريب مما نزلنا على عبدنا (في على) فاتوا بسورة من مثله."
آپ ذرا موجودہ قرآن میں دیکھیں کہ مذکورہ آیت میں "فی علی" کا لفظ موجود ہے؟ اِسی طرح یہ میرے پاس اصولِ کافی جلد دوم رکھی ہے اِس میں صفحہ 637 جلد 2 پر ملاحظہ فرمائیں۔ سیدنا جعفر صادقؒ سے منقول ہے۔
ان القرآن الذي جاء به جبرائيل عليه السلام الى محمدﷺ سبعة عشر ألف آية.
ترجمہ "تحقیق جو قرآن جبرائیل علیہ السلام محمدﷺ پر لے کر آئے تھے اس میں 17 ہزار آیات تھیں۔
اب قرآن کریم میں علی اختلاف الروایات 6 ہزار 6سو سولہ یا 6666 آیات ہیں ۔لہذا آدھے سے زیادہ قرآن غائب کر دیا گیا
گویا شیعہ مذہب کے مطابق اِس وقت جو قرآن ہمارے پاس موجود ہے یہ اَدھورا قرآن ہے اور قرآن کریم کے بارے میں یہ نظریہ کفر کی بہت بڑی دلیل ہے۔
شبیر:بھئی میرا دماغ گھوم گیا ہے یہ حوالہ جات پڑھ کر۔ کیا ہماری کسی اور کتاب میں بھی اِس قسم کی باتیں ہیں۔
سلیم: جی ہاں! آپ کے مذہب کی تمام بنیادی کتابوں میں اِس طرح کی کفریات موجود ہیں۔یہ دیکھیے میرے ہاتھ میں آپ کے مذہب کی بڑی معتبر کتاب "احتجاج طبرسی" موجود ہے ۔اِس کتاب کے مصنف شیخ احمد بنِ ابی طالب طبری نے کتاب کے دیباچہ میں لکھ دیا ہے۔ کہ اس کتاب میں سوا ۓامام حسن عسکری کے اور جس قدر آئمہ کے اقوال ہیں اُن پراِجماع ہے یا وہ عقل کے موافق ہیں یا اِس قدر سِیَر وغیرہ کی کُتب میں اِن کی شہرت ہے کہ مخالِف و موافِق سب کا اِن پر اتفاق ہے۔اس کتاب کے صفحہ 119 سے لے کر صفحہ نمبر 132 تک ایک طویل روایت سیدنا علی المرتضیٰؓ سے منقول ہے کہ ایک زندیق نے
آنجناب کے سامنے قرآن پاک پر کچھ اعتراضات کیے اور آپ نے قریب قریب ہر اعتراض کے جواب میں فرمایا ہے "قرآن مجید میں تحریف ہو گئی ہے"۔مثلاً اُس زندیق نے ایک تو قرآن مجید میں یہ اعتراض کیا کہ "فان خفتم الا تقسطوافي اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء."
ترجمہ" اگر تم کو اندیشہ ہو کہ یتیموں کے حق میں اِنصاف نہ کر سکو گے تو جن عورتوں سے چاہو نکاح کر لو۔
زندیق نے کہا کہ شرط وجزا میں کوئی ربط معلوم نہیں ہوتا ،یتیموں کے حق میں اِنصاف نہ کر سکو تو عورتوں سے نکاح کر لو ،ایک بالکل بے ربط بات ہے۔
تہائی قرآن غائب کر دیا گیا
جناب اَمیر علیہ السلام اِس اعتراض کے جواب میں فرماتے ہیں.
واما ظهورك على تناكر قوله فان خفتم الا تقسطوا في اليتامىٰ فانكحوا ما طاب لكم من النساء وليس يشبه القسط في اليتامىٰ نكاح النساء ولا كل النساء ایتاما فھو مما قدمت ذکرہ من اسقاط المنافقین من القرآن وبین القول فی الیتامی وبین نکاح النساء من الخطاب والقصص اکثر من ثلث القرآن وھذا وما اشبه مما ظھرت حوادث المنافقین فیہ لاھل النظر والتامل ووجدالمعطلون واھل الملل المخالفین للا سلام مساغاالی القدح فی القرآن. (۔احتجاج طبرسی1 ص129)
ترجمہ:"اور تجھ کو جو اللّٰہ کا قول "فان خفتم الا تقسطوا في اليتامى فانكحوا ما طاب لكم من النساء" کے ناپسندیدہ ہونے پر اطلاع ہوئی اور تو کہتا ہے کہ یتیموں کے حق میں انصاف کرنا عورتوں سے نکاح کرنے کے ساتھ کچھ مناسبت نہیں رکھتا اور نہ کُل عورتیں یتیم ہوتی ہیں پس اِس کی وجہ وہی ہے جو میں پہلے تجھ سے بیان کر چکا ہوں کہ منافقوں نے قرآن سے بہت کچھ نکال ڈالا ۔ "في اليتامى" اور "فانکحوا" کے درمیان میں بہت سے احکام اور قصے تھے۔ تِہائی قرآن (یعنی 10 پارے) سے زیادہ۔ وہ سب نکال ڈالے گئے ۔اِسی وجہ سے بے ربطی ہو گئی اِس قسم کے منافقوں کی تحریفات کی وجہ سے جو اہلِ نظر و تأمل کو ظاہر ہو جاتی ہیں، بے دینوں اور اسلام کے مخالفوں کو قرآن پر اعتراض کرنے کا موقع مل گیا"۔
آپ نے دیکھا کہ حضرت علیؓ کی طرف کیسی جھوٹی بات منسوب کر کے قرآن کو ناقص ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یعنی اِس روایت کی رُو سے جناب امیر اُس زندیق کے کسی اِعتراض کا جواب نہ دے سکے۔اِس روایت کو دیکھ کر صاف کہنا پڑتا ہے کہ شیعوں کی طرح جناب اَمیرؓ بھی (نعوذ باللّٰہ) قرآن کے سمجھنے سے عاجز و قاصر تھے حالانکہ آج اہلِ سنت کے کسی ادنیٰ طالب علم سے پوچھو تو وہ بھی اس آیت کا ربط اچھی طرح بیان کر دے گا آیت میں یتامىٰ سے مراد یتیم لڑکیاں ہیں ،بعض لوگ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرتے تھے اور اُن کا مَہر بھی کم باندھتے تھے دوسرے حقوق بھی ادا نہ کرتے تھے کیونکہ اُن یتیموں کی طرف سے کوئی لڑنے جھگڑنے والا تو ہوتا ہی نہیں تھا۔ لہذا آیت میں حکم دیا گیا کہ اگر یتیم لڑکیوں سے نکاح کرنے میں بے اِنصافی کا اَندیشہ ہو تو اُن سے نکاح نہ کرو بلکہ دوسری عورتوں سے نکاح کر لو۔
اس روایت میں آپ نے دیکھا کہ ایک تیرسے دو شکار ہو گئے ہیں(1) ایک تو یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن کریم کا بیشتر حِصہ حذف کر دیا گیا ہے اور(2) دوسرے حضرت علیؓ پر یہ بہتان باندھا گیا ہے کہ وہ قرآن فہمی سے قاصر تھے حالانکہ ایسا نہیں ہے نہ تو حضرت علیؓ قرآن فہمی سے قاصر تھے اور نہ قرآن میں کوئی تحریف کی گئی ہے۔ میں نے آپ کو اس آیت میں ربط بتایا ہے ۔لیکن شیعہ نے قرآن میں تحریف ثابت کرنے کے لیے حضرت علیؓ کو قرآن فہمی سے قاصر ثابت کیا ہے۔ آپ بتائیں کہ اِس قسم کا عقیدہ شیعہ کے کفر پر دلالت نہیں کرتا؟ اب ایک حوالہ اور دکھا کر اپنی بات ختم کروں گا۔
یہ دیکھیں میرے پاس شیعہ مذہب کے بہت بڑے عالم مولوی مقبول احمد دہلوی کا ترجمہ رکھا ہے اس کے صفحہ نمبر 853 پر ملاحظہ فرمائیں!
"ثوابُ الاعمال" میں سیدنا جعفر صادقؒ سے منقول ہے کہ سورۃ احزاب،سورۃ بقرہ سے بھی زیادہ طویل تھی مگر چونکہ اُس میں عرب کے مردوں اور عورتوں کی عموماً اور قریش کی خصوصاً بد اعمالیاں ظاہر کی گئی تھیں اس لیے اُسے کم کر دیا گیا اور اُس میں تحریف کر دی گئی۔
اس سے معلوم ہوا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سورۃ احزاب میں عرب اور قریش کے لوگوں کی جو بد اعمالیاں ظاہر کی تھیں وہ لوگوں نے مٹا ڈالیں اور اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا جو وعدہ کیا تھا وہ سچا ثابت نہ ہو سکا۔اب بھی اگر آپ کہیں کہ میں مَحض جذباتی تقریر سن کر متاثر ہو گیا ہوں تو آپ کی مرضی ۔باقی میں نے آپ کی معتبر ترین کتابوں سے ثابت کر دیا ہے کہ شیعہ کا موجودہ قرآن پر اِیمان نہیں ہے۔ اور جس کا قرآن پر اِیمان نہ ہو یا قرآن کو ناقص ونا مکمل کتاب تسلیم کرتا ہو اُس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
شیعہ اِسی قرآن کو پڑھتے ہیں
شبیر :آپ نے جو دلائل میرے سامنے پیش کیے ہیں اُن سے ہمارے بڑے بڑے مجتہد بھی تو واقف ہونگے تو آخر وہ ہمیں اِسی قرآن کو پڑھنے کی ترغیب کیوں دیتے ہیں اور خود بھی اِسی قرآن کی تلاوت کیوں کرتے ہیں؟ اور اپنے بچوں کو بھی یہی قرآن کیوں پڑھاتے ہیں؟ جب اُنہیں معلوم ہے کہ یہ قرآن صحیح نہیں تو وہ اس کو کس مصلحت کی بناء پر پڑھتے ہیں؟
سلیم : آپ کے اِس سوال کا جواب اگر میں اپنی طرف سے دوں تو ممکن ہے غلط بیانی ہو جائے اس لیے اِس سوال کا جواب میں آپ ہی کے مذہب کی کتاب سے دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ آپ اِس حقیقت سے بھی آگاہ ہو سکیں کہ موجودہ قرآن کو ناقص، نامکمل اور محرّف سمجھنے کے باوجود آپ کے مجتہدین کیوں پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔
یہ دیکھیں! ترجمہ مقبول احمد دہلوی صفحہ 479 ملاحظہ ہو۔
معلوم ہوتا ہے کہ جب قرآن میں اِعراب لگائے گئے ہیں تو شراب خُور خُلفاء کی خاطر یٰعصرَون کو یَعصرون سے بدل کر معنیٰ کو زیر و زبر کیا گیا ہے،یا مَجہول کو مَعروف سے بدل کر لوگوں کے لیے اُن کے کرتوت کی معرفت آسان کر دی۔ ہم اپنے اِمام کے حکم سے مجبور ہیں کہ جو تغیّر یہ لوگ کر دیں تو اُس کو اُسی کے حال پر رہنے دو اور تغیّر کرنے والے کا عذاب کم نہ کرو۔
مذکورہ عبارت اگر آپ غور سے پڑھیں تو آپ پر یہ حقیقت مُنکشِف ہوگی کہ آج شیعہ حضرات اِس قرآن کو غلط سمجھنے کے باوجود اِس لیے پڑھتے اور پڑھاتے ہیں کہ وہ اِمام کے حکم سے مجبور ہیں اُن کے اِمام نے اُنہیں کہا ہے کہ اِس وقت قرآن جس حالت میں تمہارے پاس موجود ہے اُس کو اُسی حالت میں ہی پڑھتے رہو اور غلطیوں کی اِصلاح کر کے تغیّر کرنے والوں کے عذاب کو کم نہ کرو گویا شیعہ موجودہ قرآن کی تلاوت اِس لیے کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے قرآن میں تبدیلیاں کی ہیں۔ اُن کے عذاب میں کمی واقع نہ ہو۔
اب تو آپ اچھی طرح سمجھ گئے ہوں گے کہ شیعہ مذہب کے مطابق موجودہ قرآن وہ نہیں ہے جو اللّٰہ رب العزت نے حضورﷺ پر نازل کیا تھا۔
شبیر: یار آپ نے تو میری آنکھیں کھول دیں ۔اب میں اچھی طرح سمجھ گیا کہ ہمارے عُلماء و مُجتہدین اِس قرآن کو کس نظریے کی بنیاد پر پڑھتے اور پڑھاتے ہیں۔
اچھا یہ بتائیں کہ شیعہ کے کُفر کے اور دلائل بھی ہیں یا صرف یہی ایک دلیل ہے کہ وہ قرآن کریم کو نہیں مانتے؟
۔ سلیم: بے شمار دلائل ہیں اگر کہیں تو سناؤں
شبیر: ہاں ہاں! ضرور!
سلیم: تو پھر سنیٔے!