محراب اسلام کا شعار ہے
محراب اسلام کا شعار ہے
مسجد کے مسجد ہونے کے لئے کوئی مخصوص شکل و وضع لازم نہیں کی گئی لیکن مسلمانوں کے عرف میں چند چیزیں مسجد کی مخصوص علامت کی حیثیت میں معروف ہیں ان میں سے ایک مسجد کی محراب ہے جو قبلہ کا رخ متعین کرنے کے لئے تجویز کی گئی ہے۔
حافظ بدر الدین عینیؒ لکھتے ہیں کہ ابو البقاءؒ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت جبرائیلؑ نے کعبہ کی سیدھ میں رسول اللّٰہﷺ کے لئے محراب بنائی اور کہا گیا کہ یہ معاینہ کے ذریعہ ہوا، یعنی آنحضرتﷺ کے سامنے سے پردے ہٹا دیئے گئے اور حالت آپﷺ پر منکشف ہو گئی پس آنحضرتﷺ نے کعبہ کو دیکھ کر اپنی مسجد کا قبلہ رخ متعین کیا۔
اس سے دو امر واضح ہوتے ہیں کہ اول یہ کہ محراب کی ضرورت تعین قبلہ کے لئے ہے تا کہ محراب کو دیکھ کر نمازی اپنا قبلہ متعین کر سکیں، دوم یہ کہ جب سے مسجد نبویﷺ کی تعمیر ہوئی اسی وقت سے محراب کا نشان بھی لگا دیا گیا، خواہ حضرت جبرائیلؑ میں اس کی نشاندہی کی ہو یا آنحضرتﷺ نے بذریعہ کشف خود ہی تجویز کرائی ہو البتہ یہ جوف دار محراب جو آجکل مساجد میں قبلہ رخ ہوا کرتی ہے اس کی ابتدا سیدنا عمر بن عبدالعزیزؓ نے اس وقت کی تھی جب وہ ولید بن عبدالمالک کے زمانہ میں مدینہ طیبہ کے گورنر تھے یہ صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین و تابعینؒ کا دور تھا اور اس وقت سے آج تک میں محراب بنانا مسلمانوں کا شعار رہا ہے۔
فتاویٰ قاضی خان میں ہے کہ: جہت قبلہ کسی دلیل اور علامت سے معلوم ہو سکتی ہے اور شہروں اور آبادیوں میں قبلہ کی علامت وہ محرابیں ہیں جو صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین و تابعینؒ نے بنائیں بس بنی ہوئی محرابوں میں ہم پر ان کی پیروی لازم ہے۔
بس یہ محرابیں جو مسلمانوں کے مسجدوں میں صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین و تابعینؒ کے دور سے چلی آتی ہیں، دراصل قبلہ کا رخ متعین کرنے کے لئے ہیں اور اوپر گزر چکا ہے کہ استقبالِ قبلہ ملتِ اسلامیہ کا شعار ہے اور محراب جہت قبلہ یہ علامت کے طور پر مسجد کا شعار ہے۔ اس لئے کسی غیر مسلم کی عبادت گاہ میں محراب کا ہونا ایک تو اسلامی شعار کی توہین ہے۔ اس کے علاؤہ ان محراب والی عبادت گاہوں کو دیکھ کر ہر شخص انہیں مسجد تصور کرے گا یہ اہلِ اسلام کے ساتھ فریب و دغا ہے جس کی اجازت دینے کے معنیٰ یہ ہے کہ ہم ایک بہت بڑے مذہبی فریب کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف روا رکھتے ہیں۔
لہذا جب تک کوئی غیر مسلم گروہ مسلمانوں کے تمام اصول و عقائد کو تسلیم کر کے مسلمانوں کی جماعت میں شامل نہیں ہوتا تب تک اس کی مسجد نما عبادت کا عیاری و مکاری کا بدترین اڈا ہے جس کا اکھاڑنا لازم ہے۔
فقہائے امتؒ نے لکھا کا ہے کہ: اگر کوئی غیر مسلم بے وقت اذان دیتا ہے تو یہ اس کے مسلمان ہونے کی علامت نہیں بلکہ اسلامی اذان سے استہزاء اور مذاق ہے۔
ٹھیک اسی طرح سے ایک غیر مسلم گرو اپنے کفریہ عقائد کا برملا اعلان کرتا ہے کہ اس کے باوجود وہ کلمہ بھی پڑھتا ہے نماز بھی ادا کرتا ہے مسجد نما عبادت گاہیں بھی بناتا ہے تو دراصل یہ مسلمانوں کے اسلامی شعار کا مذاق اڑانے والا ٹھہرے گا۔