Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سنی شیعہ مکالمہ عقیدہ امامت

  شہید ناموس صحابہؓ مولانا عبدالغفور ندیم شہیدؒ

عقیدۂ امامت

شیعہ کے عقیدۂ تحریف و انکارِ قرآن کے بعد عقیدۂ امامت بھی شیعہ کے کفر کی بہت بڑی دلیل ہے ۔عقیدۂ امامت شیعیت کی بنیاد ہے ۔جیسا کہ شیعہ مذہب کی معتبر کتابوں سے ظاہر ہے۔

یہ میرے ہاتھ میں آپ کے مذہب کی معتبر ترین کتاب بحار الانوار کی جلد 6 موجود ہے اس میں یہ عبارت پڑھیئے اور عقیدۂ امامت کی اہمیت کا اندازہ کیجئے!

كنز :الحسن ابنِ ابى الحسن الديلمي باسناده عن فرج بنِ ابى شيبه قال سمعت ابا عبد اللّٰهؒ وقد تلاهذاالاية: واذا اخذ اللّٰه ميثاق النبيين لما اتيتكم من كتاب وحكمة ثم جاءكم رسول مصدق لما معكم لتؤمنن به يعني رسول اللّٰهﷺ ولتنصرنه. يعني وصيه امير المؤمنينؓ ولم يبعث اللّٰه نبيا ولا رسولا الا واخذ عليه الميثاق لمحمدﷺ بالنبوه ولعلىؓ بالإمامة.

( بحارالانوار صفحہ 207 جلد 6)

ترجمہ:" سیدنا جعفرؒ نے سورۂ آل عمران کی آیت 74 تلاوت فرمائی اور اُس کی تفسیر یہ فرمائی کہ "لتؤمنن به" سے مراد یہ ہے کہ انبیاء کو حکم ہوا کہ رسول اللّٰہﷺ پر ایمان لائیں اور "ولتنصرنه" کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کے وصی یعنی سیدنا علیؓ کی مدد کریں سیدنا جعفرؒ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے جس رسول اور نبی کو بھی بھیجا اس سے محمدﷺ کی نبوت اور علیؓ کی اِمامت کا عہد لیا۔

عقیدۂ امامت کی شیعہ مذہب میں کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ آپ کو بحار الانوار کی اس روایت سے ہو گیا ہوگا تاہم ایک روایت مزید آپ کو دکھاتا ہوں تاکہ آپ کو یہ اندازہ ہو سکے کہ عقیدۂ امامت شیعہ مذہب کا بنیادی عقیدہ ہے اور اس پر شیعت کی پوری عمارت قائم ہے۔

یہ میرے ہاتھ میں "اصولِ کافی" کی پہلی جلد ہے جس میں یہ روایت ذرا غور سے پڑھیے!

عدة من اصحابنا :عن احمد بنِ محمد بنِ عيسى ,عن ابنِ سنان عن ابنِ سكان عن سدير. قال: قلت لابى جعفرؒ اني تركت مواليك مختلفين يتبرء بعضهم من بعض قال فقال: وما انت وذاك انما كلف الناس ثلاثة معرفة الائمة والتسليم لهم فيما ورد عليهم والرداليهم فيما اختلفوا فيه.

(اصولِ کافی صفحہ 39 جلد 1)

ترجمہ: "سدیر کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا باقرؒ سے عرض کیا کہ میں نے آپ کے شیعوں کو اِس حالت میں چھوڑا ہے کہ وہ آپس میں اختلاف کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر تبراء کرتے ہیں ۔فرمایا تجھے اس سے کیا پڑی لوگ صرف تیری باتوں کے مکلّف ہیں۔

1.اِماموں کو پہچانیں

2.اِماموں کی طرف سے جو حکم ہوا اس کو مانیں ۔

3۔اور جس بات میں اُن کا اختلاف ہو، اسے اماموں کی طرف لوٹا دیں۔

گویا عقیدۂ امامت کی شیعہ مذہب میں وہ اہمیت ہے کہ تمام انبیاء سے، تمام فرشتوں سے، اور تمام انسانوں سے اِسی کا عہد لیا گیا کہ تمام انسانوں کو اِسی عقیدہ کا مکلّف بنایا گیا۔

شبیر: مجھے اندازہ ہو گیا ہے کہ ہمارے مذہب میں عقیدۂ امامت کتنی اہمیت کا حامل ہے۔ اور اس میں کوئی برائی بھی نہیں اس لیے کہ انبیاء کا سلسلہ حضورﷺ پر ختم ہو گیا آپﷺ کے بعد قیامت تک اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔ لیکن اللّٰہ کے دین کو قیامت تک باقی رکھنے کے لیے اللّٰہ نے سلسلۂ امامت شروع کیا۔ تو ظاہر ہے کہ عقیدۂ امامت کی اہمیت ہونی ہی چاہیے، لیکن آپ نے تو یہ کہا ہے کہ عقیدۂ امامت، عقیدۂ کفریہ ہے، اس کی آپ کے پاس کیا دلیل ہے۔

سلیم: اگر آپ اپنی مذہبی کتابوں کا غور سے مطالعہ کریں گے تو آپ پر یہ حقیقت مُنکشِف ہوگی کہ عقیدۂ امامت درحقیقت انکارِ ختمِ نبوت ہے۔

شبیر : انکارِ ختمِ نبوت ہے؟ بھئی ہم تو حضورﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں اور جو آپﷺ کی ختمِ نبوت کا منکر ہو وہ ہمارے نزدیک دائرۂ اِسلام سے خارج ہے، پھر آپ نے یہ کیسے کہہ دیا کہ ہم لوگ عقیدۂ امامت کے ذریعے ختمِ نبوت کا اِنکار کرتے ہیں۔

سلیم: میں نے جو کہا ہے وہ کسی تعصّب یا تنگ نظری کی وجہ سے ہرگز نہیں کہا بلکہ آپ کی مذہبی کتابیں پڑھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ کا عقیدۂ امامت ختمِ نبوت کے عقیدہ کی نفی کرتا ہے 

شبیر: وہ کیسے؟ ذرا وضاحت فرمانا پسند کریں گے؟

سلیم: جی ہاں! ذرا توجہ سے سنئیے!

نبی کی خصوصیات آئمہ میں

1 :امام معصوم ہوتا ہے۔

2:امام منصوص من اللّٰہ ہوتا ہے۔

3:امام مفترض الطاعۃ ہوتا ہے۔

4: اماموں پر وحی نازل ہوتی ہے۔

5: انہیں یہ اختیار ہوتا ہے کہ کسی حلال کو حرام یا کسی حرام کو حلال کر دیں ۔

6: امام قرآن کریم کے کسی حکم کو چاہیں ،معطّل یا منسوخ کر سکتے ہیں۔

اِن مذکورہ بالا عقائد کی بناء پر میں نے کہا ہے کہ جو مرتبہ ایک مستقل صاحبِ شریعت نبی کا ہے، وہی مرتبہ شیعوں کے ہاں "اِمام" کا ہے اور حضورﷺ کے بعد کسی شخص کو نبی کے ہم مرتبہ جاننا درحقیقت ختمِ نبوت کا اِنکار ہے، آپ اگرچہ لفظاً تو ختمِ نبوت کا اِقرار کرتے ہیں اور لیکن معناً اِنکار کرتے ہیں۔

قادیانیوں نے حضورﷺ کے بعد مرزا غلام اَحمد قادیانی کو نبی کہا تو وہ امتِ مصطفویﷺ کے نزدیک کافر و غیر مسلم قرار پائے، اور آپ حضرات نے اپنے آئمہ کو نبی تو نہیں کہا، لیکن نبی کے تمام اوصاف اپنے آئمہ میں ثابت کر دیے تو بتائیےکہ آپ میں اور اُن میں کیا فرق رہا۔

شبیر: آپ نے آئمہ کے بارے میں شیعہ کے جو چھ عقائد مجھے بتائے ہیں اُن کا ثبوت آپ ہماری کتابوں سے دکھا سکتے ہیں؟

سلیم: جی ہاں! ابھی اور اِسی وقت دیکھیئے ۔

(1)پہلا عقیدہ

میں نے آئمہ کے بارے میں شیعہ کا پہلا عقیدہ یہ بتایا ہے کہ شیعوں کے ہاں اِمام معصوم ہوتا ہے اُس کے ثبوت کے لیے "اصولِ کافی صفحہ 200 جلد1" میں دیکھئے ۔

یہ سیدنا رضاؒ کا ایک طویل خطبہ ہے جس میں آئمہ کے فضائل بیان کیے گئے ہیں ۔فرماتے ہیں۔

"الامام المطهر من الذنوب والمبرا عن العیوب" ۔(اصولِ کافی صفحہ 200جلد 1)

ترجمہ: "اِمام گناہوں سے پاک اور عیوب سے مبرّا ہوتا ہے"۔

اِسی خطبہ میں آگے چل کر لکھتے ہیں:

 فهو معصوم، مؤید، موفّق، مسدّد، قدامن من الخطايا والزلل والعثار، یخصه اللّٰه بذلك ليكون حجته على عبادہ۔

(اصولِ کافی صفحہ 203 جلد 1)

ترجمہ:" پس وہ معصوم ہے، اس کو تائید و توفیق حاصل ہے اور اُسے سیدھی راہ پر رکھا جاتا ہے ،اور وہ غلطی اور لغزش سے امن میں ہے ۔اللّٰہ تعالی اس کو یہ خصوصیت اس لیے عطا فرماتے ہیں۔کہ اس کے بندوں پر حجت ہو"

یہ دوسری کتاب دیکھیں! یہ "باقر مجلسی" کی تصنیف "بحار الانوار" ہے اِس کتاب میں ایک باب کا عنوان ہے۔

عصمتهم لزوم عصمة الامام علیھم السلام ۔

ترجمہ:" یعنی اِمام معصوم ہوتے ہیں اور اِمام کو عصمت لازم ہے"

اِسی کتاب "بحار الانوار" میں "باب اعتقادت الصّدوق" سے یہ عبارت بھی ملاحظہ فرمائیں:

اعتقادنا في الانبياء والرسل والائمه علیھم السّلام انهم معصومون مطھرون من كل دنس وانھم لا يذنبون ذنبا صغيراً ولاكبيراً۔

(بحار الانوار صفحہ 211 جلد 2 )

ترجمہ: انبیاء(علیھم السلام)ورسل اور آئمہ کے بارے میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ معصوم اور ہر گندگی سے پاک ہوتے ہیں اُن سے کوئی چھوٹا، بڑا گناہ سرزد نہیں ہو سکتا"

اب آئمہ کے بارے میں شیعہ کے دوسرے عقیدے کے ثبوت دیکھیے !۔

(2) دوسرا عقیدہ: اِمام کا منصوص من اللّٰہ ہونا۔

شیعوں کا یہ عقیدہ بھی اُنہیں اچھی طرح ازبر ہے۔

یہ دیکھیں! "اصولِ کافی کتاب الحجہ" میں ایک باب کا عنوان ہے:

"ما نص اللّٰه عز وجل ورسوله على الائمة عليهم السلام واحداً فواحداً."

ترجمہ: "یعنی اللّٰہ عزوجل اور اس کے رسولﷺ نے اِماموں پر یکے بعد دیگرے ایک ایک پر نص فرمائی ہے"۔

اُس کے بعد صفحہ 292سےصفحہ 328 تک بارہ اِماموں کی نص کے الگ الگ باب قائم کیے ہیں۔ جنہیں آپ خود دیکھ سکتے ہیں۔ اور پڑھ سکتے ہیں۔ اور یہ بات صرف "اصولِ کافی" میں ہی نہیں بلکہ یہ میرے ہاتھ میں دوسری کتاب "بحار الانوار جلد نمبر1" موجود ہے اُس میں یہ عبارت ذرا غور سے پڑھ لیجئے:.

سیدنا علی بن حسینؓ سے یہ روایت نقل کی گئی ہے فرماتے ہیں۔

"الامام منالا يكون الا معصوما وليست العصمة في ظاهر الخلقه فيعرف بها فلذلك لا يكون الا منصوصا"

(بحار الانوار صفحہ191جلد1)

ترجمہ: "ہم میں سے اِمام صرف معصوم ہوسکتا ہے اور عصمت ظاہری بناوٹ میں تو ہوتی نہیں کہ اُس کو پہچانا جائے، پس اِمام کا منصوص ہونا ضروری ہوا"

اب آئمہ کے بارے میں شیعوں کے تیسرے عقیدے کے ثبوت بھی ملاحظہ فرمائیے!

(3) تیسرا عقیدہ: اِمام کا مفترض الطاعۃ ہونا

جس طرح مسلمانوں کے نزدیک حضورﷺ کی غیر مشروط اِطاعت فرض ہے۔ شیعوں کے نزدیک ٹھیک اِسی طرح بارہ اِماموں کی غیر مشروط اِطاعت فرض اور اِن سے اِنحراف کفر ہے۔

 لیجیے!ثبوت موجود ہے۔

"اصولِ کافی کتاب الحجۃ" میں ایک باب کا عنوان ہے۔

"باب فرض طاعة الائمة"

"یعنی اس کا بیان کہ آئمہ کی اِطاعت فرض ہے"

اِس باب میں 17 روایتیں درج کی گئی ہیں۔اِختصار کے لیے چند روایات پڑھئیے اور میرے مؤقف کا ثبوت ملاحظہ فرمائیے۔ 

سیدنا اِمام جعفرؒ فرماتے ہیں۔

 اشهدان علیا امام فرض اللّٰه طاعته، وان الحسن امام فرض اللّٰه طاعته، وان الحسين امام فرض اللّٰه طاعته، وان علی بن الحسين امام فرض اللّٰه طاعته، وان محمد بن علی امام فرض اللّٰه طاعته ۔

(اصولِ کافی صفحہ186جلد1)

ترجمہ:" سیدنا جعفرؒ فرماتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ سیدنا علیؓ، سیدنا حسنؓ، سیدنا حسینؓ،سیدنا علی بن حسینؓ اور سیدنا محمد بن علیؒ یہ سب امام مفترض الاطاعۃ ہیں"

"اصولِ کافی" کہ اِسی صفحے پر دوسری عبارت ملاحظہ فرمائیں:

سمعت ابا عبد اللّٰه عليه السلام يقول اشرک بين الا وصیاءو الرسل في الطاعة۔

ترجمہ:سیدنا جعفرؒ فرماتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ نے اوصیا اور رسولوں کے درمیان اِطاعت میں شراکت رکھی ہے۔

اِسی کتاب کا صفحہ 187 دیکھیں!

سیدنا جعفرؒ فرماتے ہیں۔

نحن الذين فرض اللّٰه طاعتنا لا يسع الناس الا معرفتنا ولایعذر الناس بجهالتنا، من عرفنا كان مؤمنا ،ومن انكرنا كان كافرا، ومن لم يعرفنا ولم ينکرنا كان ضالا حتى يرجع الى الهدى الذي افترض اللّٰه عليه من طاعتناالواجبة فان يمت على ضلالته يفعل اللّٰه به ما يشاء۔

(اصولِ کافی صفحہ187جلد1)

ترجمہ:" سیدنا جعفرؒ فرماتے ہیں کہ ہم وہ لوگ ہیں کہ اللّٰہ نے ہماری اِطاعت فرض کی ہے۔ لوگوں کو ہماری معرفت کے بغیر چارہ نہیں اور ہمیں نہ جاننے کے بارے میں لوگ معذور نہیں، جس نے ہم کو پہچانا وہ مؤمن ہے اور جو منکر ہوا وہ کافر ہوا، اور جس نے ہمارا حق نہ پہچانا اور منکر بھی نہ ہوا وہ گمراہ ہے، یہاں تک کہ اس ہدایت کی طرف لوٹ آئے جو اللّٰہ تعالیٰ نے فرض کی ہے۔ یعنی ہماری اِطاعت جو واجب ہے اگر وہ اپنی گمراہی پر مرا تو اللّٰہ اس سے جو معاملہ چاہے کرے۔

(4) چوتھا عقیدہ: اِماموں پر وحی نازل ہونا 

شیعہ کا عقیدہ ہے کہ آئمہ میں "روح القدس" ہوتی ہے، جس کے ذریعے وہ عرش سے "تحت الثریٰ" تک کی ساری چیزیں جانتے ہیں، چنانچہ اصولِ کافی کتاب الحجۃ کے "باب فیہ ذکر الارواح آلتی فی الائمة علیھم السلام" ۔میں سیدنا جابرؓ سے روایت ہے کہ میں نے سیدنا باقرؒ سے عالم کے علم کے بارے میں پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا کہ جابر! انبیاء(علیھم السلام)واوصیاء میں پانچ روحیں ہوتی ہیں۔

(1)روحُ الشّہوہ( 2)روحُ الایمان(3) روحُ الحیات

( 4)روحُ القوة(5)روحُ القدس 

پس اے جابر !وہ "روح القدس" کے ذریعے "ماتحت العرش" سے ماتحت الثریٰ تک سب کچھ پہچانتے ہیں اور پہلی چار روحوں کو حوادثِ زمانہ لاحق ہو سکتے ہیں مگر "روح القدس" لہو ولعب کا شکار نہیں ہوتی۔

(اصولِ کافی صفحہ 272جلد1)

پھر آگے"روح القدس"کی مزید وضاحت کرتے ہیں:

وروح القدس فبه حمل النبوة فاذا قبض النبيﷺ انتقل روح القدس فصار الى الامام ،وروح القدس لا ينام ولا يغفل ولا يلهو ولایزھو، والاربعةالاروح تنام وتغفل وتزھو وتلھو،وروح القدس کان یریٰ به.

(اصولِ کافی صفحہ272جلد1)

ترجمہ: "اور آپﷺ روح القدس کی وجہ ہی سے حاملِ نبوت تھے۔ پھر جب نبی کریمﷺ کا وصال ہوا تو روح القدس امام کی طرف منتقل ہو گئی اور روح القدس نہ سوتی ہے، نہ غافل ہوتی ہے، نہ بھولتی ہے اور نہ غلطی پر پڑتی ہے، اور باقی چار روحیں اِن چیزوں میں مبتلاء ہو جاتی ہیں۔اور "روح القدس" کی وجہ سے اِمام عرش سے فرش تک سب کچھ دیکھتا ہے"

برادر! مذکورہ روایت کو آپ نے پڑھا جس میں صاف لفظوں میں لکھا گیا ہے کہ حضور اکرمﷺ جس روح کی وجہ سے حاملِ نبوت تھے۔ آپﷺ کے وصال کے بعد وہی روح "آئمہ "کی طرف منتقل ہو گئی گویا یہ بتانا مقصود ہے کہ وہ "روح القدس" جس کی وجہ سے حضورﷺ صاحبِ نبوت بنے۔وہی "روح القدس" جب آئمہ کی طرف منتقل ہو گئی تو وہ صاحبِ نبوت کیوں نہیں بن سکتے۔

اِس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ شیعہ کا عقیدۂ امامت، عقیدۂ ختمِ نبوت کی نفی کرتا ہے۔

"اصولِ کافی" کے مذکورہ صفحہ پر ہی ایک اور روایت بھی لگے ہاتھوں پڑھ لیجئے!

عن ابي بصير قال سالت ابا عبد اللهؒ عن قال الله تبارك وتعالى وكذالك اوحينا اليك روحا من امرنا ما كان ما كنت تدري ما الكتب ولا الايمان قال خلق من خلق الله عز وجل اعظم من جبرئيل وميكائيل، كان مع رسول اللهﷺ یخبره ويسدده وهو مع الائمه من بعده.(اصولِ کافی ص272ج1)

ترجمہ: "ابو بصیر نے سیدنا جعفر صادقؒ سے ارشادِ خداوندی "وكذلك اوحينا اليك روحا من امرنا ما كنت تددی ما الكتاب ولاالايمان". کے بارے میں سوال کیا تو سیدناؒ نے فرمایا۔ یہ روح ایک مخلوق ہے ۔جو جبرائیل(علیہ السلام)اور میکائیل (علیہ السلام) سے بڑی ہے۔یہ روح آنحضرتﷺ کے ساتھ رہتی تھی اور آپﷺ کو خبریں دیتی تھی اور آپﷺ کو راہِ راست پر رکھتی تھی ۔یہ روح آپﷺ کے بعد آئمہ کے ساتھ رہا کرتی تھی"

"اصولِ کافی" کتاب الحجۃ میں ایک باب عنوان ہے۔

ان الائمة معدن العلم وشجرۃ النبوۃ ومختلف الملائكة

(اصولِ کافی صفحہ 221جلد 1)

ترجمہ: "آئمہ" علم کا معدن اور نبوت کا درخت ہیں اور ِان کے پاس فرشتوں کی آمدورفت رہتی ہے"

"مجلسی" کی "بحار الانوار" میں ایک باب کا عنوان ملاحظہ فرمائیں:

ان الملائکة تاتیھم وتطأفر شھم وانھم یرونھم (صلوات اللہ علیھم اجمعین)

ترجمہ: "ملائکہ آئمہ کے پاس آتے ہیں، اُن کے بستروں کو روندتے ہیں اور آئمہ فرشتوں کو دیکھتے ہیں"

میں نے چار روایتیں آپ کے سامنے پیش کیں، جن سے درج زیل اَمور ثابت ہوتے ہیں۔

(1)جس طرح انبیاء (علیہم السلام) میں پانچ روحیں ہوتی ہیں۔ اِسی طرح آئمہ میں بھی پانچ روحیں ہوتی ہیں جن میں سے ایک "روح القدس" ہے۔

(2)"روح القدس" ہر قسم کے لہو ولعب سے پاک ہوتی ہے ۔ یہ روح آئمہ میں بھی ہوتی ہے اور اِسی "روح" کی وجہ سے حضورﷺ حاملِ نبوت تھے۔

(3) اِمام "روح القدس" کی وجہ سے فرش سے عرش تک سب کچھ دیکھتا ہے

(4)اِس روح کی وجہ سے "آئمہ" کو ہر طرح کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔

(5) "آئمہ" کے پاس فرشتوں کی آمد و رفت رہتی ہے۔

(6) "آئمہ" فرشتوں کو دیکھتے ہیں۔

گویا انبیاء کی طرح "آئمہ" کے پاس بھی فرشتے آتے ہیں اور انہیں پیغامات پہنچاتے ہیں۔

(5) پانچواں عقیدہ: آئمہ کو حلال و حرام کا اِختیار ہونا

"اصولِ کافی" کتاب الحجۃ میں ایک باب کا عنوان ہے۔

التفويض الى رسول اللّٰهﷺ والى ألائمة (عليهم السلام في امر الدين).(اصولِ کافی صفحہ 265جلد1)

جس کا معنی یہ ہے کہ دین کے اَمور اللّٰہ تعالی نے رسول اللّٰهﷺ اور آئمہ کے سپرد کر دیے ہیں جس چیز کو چاہیں حلال کر دیں ۔جس چیز کو چاہیں حرام کہیں۔

اس عقیدے کو شیعہ علماء نے آئمہ کی متعدد روایات سے ثابت کیا ہے مثلاً "اصولِ کافی" کی یہ روایت پڑھیے! ۔

عن محمد بن سنان قال كنت ابي جعفر الثانيؒ فاجريت اختلاف الشيعه فقال يا محمد: ان اللّٰه تبارك وتعالى لم يزل متفردا بوحدانية ثم خلق محمد وعليا وفاطمه فمكثواالف دهر، ثم خلق جميع اشياء، فاشهدهم خلقها واجری طاعتهم عليها وفوض امورها اليهم، فهم يحلون ما يشاءون ويحرمون ما يشاءون ولن يشاؤن الا ان يشاء اللّٰه.( اصولِ كافى صفحہ441جلد1)

ترجمہ:" محمد بن سنان کہتا ہے کہ میں سیدنا ابو جعفر ثانیؒ کے پاس تھا۔شیعوں کے اختلافات کا تذکرہ کیا تو سیدناؒ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالی ازل سے اپنی وحدانیت کے ساتھ منفرد تھا۔ پھر اس نے محمدﷺ علیؓ اور فاطمہؓ کو پیدا کیا پھر وہ ہزار دہر تک ٹھہرے رہے۔ پھر تمام اشیاء کو پیدا کیا تو اُن کو اُن چیزوں کی تخلیق پر گواہ بنایا۔ اور سب چیزوں کے ذمہ اُن کی اطاعت واجب کی اور تمام اشیاء کے اختیارات اُن کے سپرد کر دیے۔ پس یہ حضرات جس چیز کو چاہیں حلال کریں اور جس چیز کو چاہیں حرام کریں اور وہ نہیں چاہیں گے مگر وہی چیز جو اللّٰہ تعالیٰ چاہے"

شبیر: "اصولِ کافی" کی یہ روایت جو آپ نے پیش کی ہے۔ اُس کے آخر میں صاف لکھا ہے کہ "وہ نہیں چاہیں گے مگر وہی چیز جو اللّٰہ تعالیٰ چاہے" اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے "آئمہ" اپنی مرضی سے کسی چیز کو حلال یا حرام نہیں کرتے بلکہ اللّٰہ کی مرضی سے کرتے ہیں تو اِس میں کیا حرج ہے؟ کیا اللّٰہ کی مرضی سے حلال و حرام کا قرار دینا بھی جرم ہے؟

سلیم: دیکھئیے! مذکورہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے خلاف ہیں اگر اللّٰه تعالی کی مرضی پر "آئمہ" عمل کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوا کہ آئمہ کو کسی چیز کے حلال یا حرام کرنے کا اختیار نہیں وہ اللّٰہ کی مرضی کے پابند ہیں جبکہ اِسی عبارت میں یہ بھی لکھا ہے کہ اللّٰہ نے سب چیزوں کے اختیارات انہیں دے دیے ہیں، اب وہ جس چیز کو چاہیں حلال کر دیں جس چیز کو چاہیں حرام کریں۔

جب اللّٰہ رب العزت نے قرآن کریم میں حلال و حرام متعیّن کر دیے ہیں تو اب کسی اور کو حلال و حرام کرنے کے اِختیارات سونپ دینے کے کیا معنی ہیں؟ مذکورہ عبارت میں "مگر وہی چیز جو اللّٰہ تعالی چاہے" کا یہ بھی مطلب ہو سکتا ہے کہ حضورﷺ پر ابھی دین مکمل نہیں ہوا تھا اس لیے "آئمہ" کی طرف بھی اللّٰہ تعالی وحی بھیج کر اُنہیں حلال و حرام کے نئے نئے اصول بتلا تا رہتا تھا ۔اور آئمہ کی طرف وحی کا یہی عقیدہ، ختم نبوت کے منافی ہے ۔

شبیر: "چلیں ٹھیک ہے یہ تو درمیان میں ایک بات آگئی تھی جس کی میں نے آپ سے وضاحت مانگی مزید "آئمہ" کے حلال و حرام کے اختیارات سے متعلق کچھ دلائل ہوں تو مجھے بتائیں؟

سلیم؛ "یہ دیکھیے! میرے ہاتھ میں "ملّا باقر مجلسی" کی بحار الانوار کی جلد 25 ہے۔ اُس کے صفحہ 334 کی یہ عبارت ذرا غور سے پڑھئے!

عن الثمالي قال سمعت ابا جعفرؒ یقول: من احللنا له شيئا اصابه من اعمال الظالمين فهو له حلال لان الائمة منامفوض اليهم فما احلو فهو حلال وما حرموا فهو حرام .

(بحار الانوار صفحہ 334 جلد 25)

ترجمہ: "ثمالی کہتا ہے کہ میں نے سیدنا باقرؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے لیے ہم نے حلال کر دی وہ چیز جو اس نے ظالموں کے مناصب میں سے حاصل کی وہ اس کو حلال ہے، کیونکہ یہ امر ہمارے اماموں کے سپرد کر دیا گیا۔ پس جس چیز کو وہ حلال قرار دیں وہ حلال ہے اور جس چیز کو حرام کر دیں وہ حرام ہے"

درج بالا عبارت پر کسی تبصرہ یا وضاحت کی ضرورت نہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شیعوں کے آئمہ کو حلال و حرام کا اختیار ملا ہوا ہے ۔

چھٹا عقیدہ: آئمہ کو اَحکام منسوخ کرنے کے اِختیارات

احکاماتِ الٰہیہ کو منسوخ کرنے کے اِختیارات کا مسئلہ "پانچواں عقیدہ" کے عنوان سے بھی میں بتلا چکا ہوں کہ حضور اکرمﷺ کو جس طرح بعض احکام باِذن الٰہی منسوخ کرنے کا اِختیار تھا اسی طرح آپ کے آئمہ کو بھی اِختیار تھا کہ جب چاہیں کسی چیز کے حلال ہونے کا فتویٰ صادر فرمادیں اور جب چاہیں کسی چیز کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر فرمائیں اور "آئمہ" کے بارے میں آپ کی مُعتبر مذہبی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ وہ اِن اِختیارات کو استعمال بھی کرتے تھے۔ مثلاً :

قرآن کریم میں ہے کہ مرحوم شوہر جو کچھ بھی چھوڑ کر مَرے اس میں بیوہ کا چوتھائی یا آٹھواں حصہ ہے۔ جیسا کہ اِرشاد خداوندی ہے:

 وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُن لَّكُمْ وَلَدٌ ۚ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَين (سوره نساء آیت (12)

 ترجمہ : اور عورتوں کے لیے چوتھائی مال ہے اس میں سے جو چھوڑ کر مرو تم ، اگر نہ ہو تمہارے اولاد، اور اگر تمہارے اولاد ہے تو اُن کے لیے آٹھواں حصہ ہے اس میں سے جو کچھ تم نے چھوڑا۔ بعد وصیت کے جو تم کر کے مرو۔ یا قرض کے۔“

لیکن اِمام کا فتویٰ ہے کہ بیوہ کو شوہر کی غیر منقول جائیداد میں سے کچھ نہیں ملے گا، چنانچہ یہ کتاب "فروع کافی جلد7" ، میرے ہاتھ میں ہے اس میں (کتاب المواريث،" باب ان النساء لا يرثن من العقار شيئا") میں سےچند روایات پیش خدمت ہیں:

 سیدنا باقرؒ کا قول نقل کیا ہے:

" النساء لا يرثن من الارض ولا من العقار شيئاً " 

( فروع کافی صفحہ 127 جلد7) 

ترجمہ : "عورتوں کو اَراضی اور غیر منقول جائیداد میں سے کچھ نہیں ملے گا"۔

اِسی صفحہ پر دوسری روایت بھی پڑھ لیں ، جس کا ترجمہ ہے:

"اُس کو ہتھیاروں اور چوپایوں میں سے بھی کچھ نہیں ملے گا، ہاں مَلبہ وغیرہ کی قیمت لگا کر اُس میں سے اُس کا حق دے دیا جائے گا۔“

ذرا اگلی روایت بھی پڑھ لیجیے۔ جس کا ترجمہ ہے:

"سیدنا جعفرؒ نے اس کی محرومی کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ دخیل ہے نکاح کرے گی، تو دوسرے لوگ آکر اِن کی جائیداد کا ستیا ناس کر دیں گے۔“

مذکورہ روایات سے جو نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے پورے تَرکہ سے بیواؤں کا چوتھائی یا آٹھواں حصّہ مقررفرمایا۔ لیکن، اماموں نے اپنے فتویٰ کے ذریعے بیواؤں کو شوہر کے ترکہ سے محروم کر دیا ، بس گھر کے سامان وغیرہ میں اُن کا حصہ ہے، اَراضی، باغات، غیر مَنقولہ جائیداد، ہتھیاروں اور چوپایوں میں ان کا کوئی حق نہیں۔ قرآن کریم کا حکم عام تھا جسے اماموں نے منسوخ کر دیا ۔“

"فروعِ کافی" ہی کی ایک اور روایت بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں آئمہ نے اللّٰہ تعالیٰ کے قانونِ شہادت کو معطّل کر دیا ہے

قرآن کریم میں قانونِ شہادت موجود ہے اور حضورﷺ کا واضح ارشاد موجود ہے جو ("فروعِ کافی" کتاب القضاء والاحکام باب" ان البينة على المدعى واليمين على المدعی علیہ“ میں نقل کیا گیا ہے۔

"ان البینۃ علی المدعی والیمین علی المدعی علیہ"

(فروعِ کافی صفحہ 415 جلد7)

ترجمہ"گواہ پیش کرنا مُدعی کے ذمہ ہے اور قسم مُدعا علیہ پر آتی ہے"

لیکن امام غائب جب ظاہر ہونگے تو وہ قانونِ شہادت کو معطّل فرمادیں گے، چنانچہ "اصولِ کافی کتاب الحُجّة“ میں ایک باب کا عنوان ہے۔ (باب فى الائمة انهم اذا ظهر امر هم حكموا بحكم آل داود (علیہ السلام) ولا يسئلون البينة)

 ترجمہ: یعنی جب آئمہ کی حکومت ہوگی تو حکمِ آل داؤد (علیہ السلام)کے مطابق فیصلہ کریں گے، شہادت طلب نہیں کریں گے۔ اس میں سیدنا جعفر صادقؒ کا ارشاد نقل کیا ہے۔

 اذا قام قائم آل محمدﷺ حکم بحكم داؤد (علیہ السلام) و سلیمان (علیہ السلام) لا يسأل بينة

(اصول کافی صفحہ 297 جلد (12)

 ترجمہ : ” جب قائم آل محمدﷺ ظاہر ہونگے تو داؤد (علیہ السلام)وسلیمان(علیہ السلام)کے حکم کے مطابق فیصلے دیں گے، شہادت طلب نہیں کریں گے۔“

الغرض اِن روایات سے واضح ہوا کہ اِمام جب چاہتے تھے قرآنی اَحکام کو منسوخ و معطّل کر دیتے تھے، جبکہ حضورﷺ کے بعد اللّٰہ رب العزت نے یہ اِختیار کسی کو نہیں دیا، اور نبیﷺ کے بعد کسی کو یہ اختیار دینا عقیدۂ ختمِ نبوت کی نفی ہے، پھر یہ اِختیار آپ کے مذہب میں کسی ایک اِمام کے لیے نہیں بلکہ بارہ اِماموں کے لیے ہے ۔ گویا بارہ اِماموں کو شیعہ منصبِ نبوت پر فائز کرنا چاہتا تھا، بلکہ اِس سے بھی بڑھ کر خُمینی نے اپنی کتاب "حکومتِ اسلامیہ" میں تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے ہمارے آئمہ کو جو مرتبہ عطا کیا اُس مرتبے تک نہ کوئی فرشتہ پہنچ سکتا ہے اور نہ کوئی رسول پہنچ سکتا ہے۔

( حکومتِ اسلامیه صفحه 40)

خُمینی نے تو اِمام کے مقام و مرتبہ کو تمام نبیوں سے بڑھا دیا ہے۔ تو آپ ہی بتائیں کہ قادیانیوں نے حضورﷺ کے بعد ایک شخص کو نبی مانا تو کافر قرار پائے ، اور آپ حضورﷺ کے بعد بارہ اِماموں کو انبیاء سے بلند تر مانتے ہیں تو آپ کافرقرار نہیں پائیں گے؟

 شبیر: آپ نے تو واقعی بہت سارے سربستہ راز میرے سامنے کھول دیے ہیں۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ ہمارے مذہب میں بارہ اِمام ہیں جن کو معصوم سمجھا جاتاہے، لیکن یہ بات میرے علم میں نہیں تھی کہ ہمارے مذہب میں اِماموں کی اطاعت، نبی کی طرح فرض ہے، اِماموں پر وحی نازل ہوتی ہے، اِمام حلال و حرام کا اختیار رکھتے ہیں، اور قرآنی اَحکام کو بھی منسوخ کر سکتے ہیں۔ وغیرہ پھر امام خُمینی کی "حکومتِ اسلامیہ" کا حوالہ دیکر تو آپ نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی، امام خُمینی کے حوالے سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام کا مرتبہ حضورﷺ سے بھی 

( نعوذ باللّٰہ ) بڑھ کر ہے۔ یہ روایات تو واقعی قابل توجّہ ہیں

سلیم : آپ خُمینی کی اتنی سی بات سے چونک گئے کہ اس نے بارہ اِماموں کو نبیوں سے بلند درجہ دیا ہے جبکہ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ خُمینی نے صرف بارہ اِماموں کو نبی سے بالا تر نہیں لکھا بلکہ اس نے اپنے آپ کو بھی نبی سے بلند درجہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے؟

 شبیر:سلیم بھائی ! میں یہ بات کم از کم تسلیم نہیں کر سکتا کہ امام خُمینی نے اتنی بڑی جسارت کر ڈالی ہو کہ خود کو بھی حضورﷺ سے بالا تر ثابت کرنے کی کوشش کی ہو۔ یہ اُنہوں نے کہاں لکھا ہے؟ 

سلیم : دیکھیے ! میں آپ کے مذہب کے بارے میں جو کچھ بھی کہوں گا، اُس کا ثبوت ضرور دکھاؤں گا یہ دیکھیے ! میرے پاس خُمینی کا "وصیت نامہ" رکھا ہے، اس میں آپ خود یہ عبارت پڑھ لیجیے!

ایرانی عوام اور حضورﷺ کے صحابہؓ

 "میں پوری جرأت کے ساتھ یہ دعویٰ کرتا ہوں کہ عصرِ حاضر میں ملتِ ایران اور اس کے لاکھوں عوام۔ رسول اللہﷺ کے عہد کی ملتِ حجازِ امیر المومنینؓ اور حسین بن علیؓ کے زمانہ میں کوفہ و عراق کی قوم سے بہتر ہیں۔“ (صحیفہ انقلاب صفحہ 33)

 شبیر : ٹھیک ، ٹھیک ، ٹھیک ! اب میری سمجھ میں آیا کہ خُمینی صاحب اپنے آپ کو "اِمام" کیوں کہلواتے ہیں۔ "اِمام "کا رتبہ چونکہ "انبیاء" سے اُونچا ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے اس لیے خُمینی صاحب نے بھی اپنے آپ کو "اِمام" کہوا کر "انبیاء" سے اُونچی پرواز اُڑنے کی جسارت کی ہے ، بھئی یہ تو واقعی کُفریہ عقیدہ ہے۔ لیکن سلیم بھائی! اگر آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات پوچھوں؟

 سلیم : جی ہاں ضرور پوچھیں !

 شبیر : میں نے سُنا ہے کہ اہلِ سنت بھی "اِمامت" کا عقیدہ رکھتے ہیں کوئی اِمام ابو حنیفہؒ کا مقلّد ہے تو کوئی اِمام شافعیؒ کا۔ کوئی اِمام احمد بنِ حنبلؒ کو تسلیم کرتا ہے تو کوئی اِمام مالکؒ کو۔ ہم اگر "عقیدۂ امامت "کی بناء پر کافر ہیں تو آپ بھی تو "عقیدتِ امامت" کی بناء پر کافر ہو سکتے ہیں؟ 

سلیم: ہمارا عقیدۂ امامت آپ لوگوں کے عقیدہ کی طرح نہیں بلکہ ہم مذکورہ چاروں اِماموں کو فِقہ کا اِمام مانتے ہیں کہ اُنہوں نے قرآن وحدیث سے فِقہی مسائل کو اِستنباط کیا، چنانچہ وہ اپنے اِس فن کے اِمام ہیں، جیسے موجودہ دور میں بھی کسی فن کے ماہر کو اِس فن کا اُستاذ ”ماہر" یا "ماسٹر“ کہہ دیتے ہیں۔ جبکہ اُسے معصوم، مفترض الطاعة ، احکامِ الٰہیہ کو منسوخ و معطّل کرنے والا وغیرہ نہیں مانتے ، اِس لیے ہمارا عقیدۂ اِمامت صرف اِتنا ہے کہ ہم ان آئمہ کہ فِقہ کا ماہر، ماسٹر، استاذ یا اِمام مانتے ہیں اور فِقہی مسائل کے لیے اُن سے رجوع کرتے ہیں۔ اِس سے زیادہ کچھ نہیں۔ 

شبیر : اچھا یہ بتائیں کہ ہمارے بارہ اِماموں کو انبیاء سے بلند درجہ دینے کے متعلق اِمام خُمینی کے علاوہ بھی کسی نے ایسی بات لکھی ہے؟

 سلیم : جی ہاں ! بہت سی روایات اِس موضوع پر آپ کی مذہبی کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں سے چند میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں !

یہ دیکھیے ! اصولِ کافی“ کی عبارت ملاحظہ فرمائیں:

 عن محمد بنِ مسلم قال سمعت ابا عبد اللّٰهؒ يقول الائمة بمنزلة رسول اللّٰهﷺ الا انهم ليسوا بأنبياء(علیھم السلام)ولا يحل لهم من النساء ما يحل للنبىﷺ فأما ما خلا ذلك فهم فيه بمنزله رسول اللّٰهﷺ

 (اصولِ کافی صفحه 270 جلد۱)

ترجمہ : "محمد بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا جعفر صادقؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ آئمہ رسول اللّٰہﷺ کے ہم مرتبہ ہیں، مگر وہ نبی نہیں، جتنی عورتیں رسول اللّٰہﷺ کے لیے حلال تھیں اتنی ان کے لیے حلال نہیں اس کے سوا باقی تمام باتوں میں وہ حضورﷺ کے ہم مرتبہ ہیں۔“ 

 فائدہ : مذکورہ عبارت میں آپ نے دیکھا کہ کس طرح آئمہ کو حضور اکرمﷺ کا ہم مرتبہ کہا گیا ہے، حالانکہ پوری امتِ مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ سابقہ تمام انبیاء (علیہم السلام) مل کر بھی حضورﷺ کے ہم مرتبہ نہیں ہو سکتے ، جو کسی بھی فرد و بشر کو حضورﷺ سے بالا تر یا آپﷺ کے ہم مرتبہ مانے وہ علماءِ امت کے نزدیک خارج اَز اِسلام ہے۔ مزید دیکھیے ! علامہ مجلسی کی "حقُ الیقین" میں یہ روایت ملاحظہ فرمائیے! 

 اکثر عُلماء شیعی را اعتقاد آنست که حضرت امیرؓ، وسائر ائمه افضل از پیغمبر ان سوائے پیغمبر آخرالزمانﷺ لله واحادیث مستفیضه بلکه متواتره از ائمه خود در این باب روایت کرده اند

( حق الیقین صفحه 70)

 ترجمہ : "اکثر علماءِ شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت امیرؓ اور باقی آئمہ، آنحضرتﷺ کے سوا باقی تمام پیغمبروں سے افضل ہیں اور اس باب میں احادیث مستفیضہ بلکہ متواترہ آئمہ سے روایت کرتے ہیں "

۔ فائدہ: مذکورہ روایت کی روشنی میں آپ انصاف کریں کہ جب آئمہ کو معصوم بھی کہاجائے ، منصوص من اللہ بھی کہا جائے ، ان پر ایمان لانا انبیاء کی طرح فرض بھی ہو، اور ان کا انکار انبیاء کے انکار کی طرح کفر بھی ہو، ان کی اِطاعت بھی ایسی فرض ہو جیسے رسول اللہﷺ کی ، ان پر وحی قطعی نازل ہوتی ہو، وہ تحلیل و تحریم کا اِختیار بھی رکھتے ہوں، ان کے پاس قرآنی اَحکامات کو معطّل یا منسوخ کرنے کا اِختیار بھی ہو، ان کا درجہ ہمارے نبی محمد ﷺ کے برابر اور دوسرے تمام انبیاء سے بالا تر بھی ہو، اگر اِن تمام امور سے یہ نتیجہ اَخذ کیا جائے کہ یہ عقیدۂ اِمامت محض انکارِ ختمِ نبوت ہی کے لیے ایجاد کیا گیا ہے تو آپ کے پاس اس کے جواب میں کیا دلیل ہے؟

 جبکہ شیعہ نبوت ورِسالت کی تمام خصوصیات اپنے آئمہ میں ثابت کرتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر کفر کا فتویٰ لگنے کا ڈر نہ ہوتا تو شیعہ اپنے آئمہ کو نبی تسلیم کرنے سے بھی گُریز نہ کرتے جیسا کہ "ملّا باقر مَجلسی" نے اپنی کتاب ” بحارُ الانوار "میں اپنا خیال ظاہر کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیے !

اِمامت اور نبوت میں کوئی فرق نہیں

 بیان:

 "استنباط الفرق بين النبي والامام من تلك الاخبار لا يخلو من اشكال وكذا الجمع بينها مشكل جدا...... وبالجملة لا بدلنا من الاذعان بعدم كونهم عليه السلام انبياء وبأنهم اشرف و افضل من غير نبيناﷺ من الانبياء والاوصياء ولا نعرف جهة لعدم انصافهم بالنبوة الارعاية جلالة خاتم الانبياء ولا يصل عقولنا الى فرق بين النبوة والامامة وما دلت عليه الاخبارفق دعرفته

( بحار الانوار صفحه 84 جلد 26)

ترجمہ: "ان احادیث سے نبی اور امام کے درمیان فرق کا استنباط کرنا مشکل ہے۔اسی طرح ان احادیث کے درمیان جمع کرنا بھی نہایت مشکل ہے۔  

مختصر یہ کہ یہ یقین تو لازم ہے کہ امام نبی نہیں ہوتے اور یہ بھی کہ وہ آنحضرتﷺ کے علاوہ دیگر تمام انبیاء اور اوصیاء سے اَشرف و اَفضل ہیں، ہمیں ان کے موصوف بالنبوة نہ ہونے کی کوئی وجہ معلوم نہیں ۔ سوائے اِس کے کہ خاتمُ الانبیاء کی جلالت کی رِعایت ہو، اور ہماری عقلوں کو نبوت اور اِمامت کے درمیان واضح فرق تک رَسائی حاصل نہیں ہو سکتی۔ اَخبار سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ تم جان ہی چکے ہو"

 فائدہ: مذکورہ بالا عبارت میں" ملّا باقر مجلسی "خود بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ اِمامت کے جو اوصاف کتابوں میں بیان کیے گئے ہیں وہ سب نبیوں کے اوصاف ہیں لیکن اس میں نہیں آسکتی ہاں البتہ بظاہر نبوت اور امامت میں ہمیں کوئی فرق نظر نہیں آتا، آپ بتائیں ، جنہیں نبوت اور اِمامت کے درمیان کوئی فرق ہی نظر نہیں آتا وہ مسلمان آخر کس بنیاد پر ہیں؟

شبیر : یہ بات تو واقعی درست ہے کہ جن کو نبی اور اِمام میں کوئی فرق ہی نظر نہیں آتا وہ مسلمان کہلانے کے اہل ہر گز نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کا ایک ایک بچہ بھی جانتا ہے کہ انسانوں میں سب سے اونچا مقام و مرتبہ اگر کسی طبقہ کو حاصل ہے تو وہ انبیاء کو حاصل ہے، دنیا کے تمام اولیاء، بزرگانِ دین، مجتہدین، فُقہاء مل کر بھی کسی ایک نبی کی عظمت تک رسائی حاصل نہیں کر سکتے اور ہمارے شیعوں نے بارہ اِماموں کا رتبہ اتنا بڑھایا کہ نبیوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا یہ تو واقعی کفر ہے، میں کم از کم ایسا عقیدہ رکھنے والوں کو مسلمان نہیں مان سکتا ۔

سلیم : مجھے خوشی ہوئی کہ بات آپ کی سمجھ میں آرہی ہے، اور آپ ان شاء اللہ بہت جلد میرے مؤقف کو تسلیم کرلیں گے، میں نے آپ کو صرف جذبات کی بنیاد پر نہیں کہا تھا کہ" شیعہ کافر ہے" بلکہ یہ تمام دلائل اور شیعہ مذہب کی کتابیں اور شیعہ مصنفین کی تحریریں میرے سامنے تھیں جن کی وجہ سے میں ہر شیعہ سے نفرت کرنے لگا تھا، اور ابھی تو ابتدا ہے، چند باتیں سن کر آپ کی آنکھیں کھل گئی ہیں، اگر آپ کو دیر نہیں ہو رہی تو میرے پاس دلائل کے انبار ہیں، میں سینکڑوں دلائل سے بحمد اللّٰہ شیعہ کا کفر ثابت کر سکتا ہوں۔

 شبیر : میں آپ کا بے حد مشکور ہوں۔ اگر چہ دیر تو ہو رہی ہے لیکن یہ موضوع اتنا دلچسپ ہے کہ اسے نامکمل چھوڑ کر جانے کو بھی دل نہیں کرتا۔ اگر آپ کے پاس مزید فُرصت ہو تو آپ شیعہ کے کفر پر مجھے مزید دلائل سے بھی آگاہ کیجیے تا کہ پوری حقیقت مجھ پر واضح ہو جائے

سلیم : میرے پاس اگر وقت نہیں بھی ہو گا تو آپ کے لیے تو نکالنا ہی پڑے گا، اس لیے کہ اگر آپ راہِ راست پر آگئے تو شاید اس سے میری عاقبت بہتر بن جائے ۔ لہٰذا میں شیعہ کے کفر پر کچھ مزید دلائل آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ۔ توجہ فرمائیے!