Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

علی علیہ السلام دنیا کے تمام امور انجام دیتے ہیں (معاذاللہ)

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

عقیدہ شیعان علی

علی علیہ السلام دنیا کے تمام امور انجام دیتے ہیں

شیعہ کہتے "میں درختوں کے پتوں کو لباس دینے والا ہوں، میں نہروں کو بہانے والا ہوں، میں علم کا خزانہ ہوں، میں چشموں کو جاری کرنے والا ہوں"۔

(نہج البلاغہ ج2 ص 60)

جواب اہل سنت 

شیعہ مصنفین کا یہ کمال ہے کہ جتنی بھی من گھڑت کہانیاں بنائی ہوئی ہیں ان کے بارے میں اس طرح لکھتے ہیں:-

" بسند معتبر" یا "فی بعض خطبہ" کبھی کوئی حوالہ نہیں دیتے۔ کوئی حوالہ ہو تو دیں ۔

بہرحال حضرت علیؓ سے پوچھتے ہیں کہ وہ یہ سارے کام خود کرتے ہیں یا یہ آپؓ پر بہتان ہے۔ دیکھیں آپ کیا جواب دیتے ہیں۔

علیؓ فرماتےہیں:-

"اے اللہ میں سفر کی مشقت اور واپسی کا اندوہ اور اہل و مال کی بدحالی کے منظر سے پناہ مانگتا ہوں۔ اے اللہ تو ہی سفر میں رفیق اور بال بچوں کا محافظ ہے۔ سفر و حضر کو تیرے علاوہ کوئی یکجا نہیں کر سکتا۔( نہج البلاغہ 203)

"بارِ الہی! ہر ثناء گستر کے لیے اپنے ممدوح پر انعام و اکرام اور عطا و بخشش پانے کا حق ہوتا ہے اور میں تجھ سے امید لگائے بیٹھا ہوں یہ کہ تو رحمت کے ذخیروں اور مغفرت کے خزانوں کا پتہ دینے والا ہے۔ خدایا یہ تیرے سامنے وہ شخص کھڑا ہے جس نے تیری توحید و یکتائی میں تجھے منفرد مانا اور ان ستائشوں اور تعریفوں کے تیرے علاوہ کسی کو اہل نہیں سمجھا۔ میری احتیاج تجھ سے وابستہ ہے تیری ہی بخششوں اور عنایتوں سے اس کی بے نوائی کا علاج ہو سکتا ہے اور اس کے فقر و فاقہ کو تیرا ہی جود و احسان سہارا دے سکتا ہے۔ ہمیں تو اسی جگہ پر اپنی خوشنودیاں بخش دے اور دوسروں کی طرف سے دستِ طلب بڑھانے سے بے نیاز کر دے، تو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے۔" ( نہج البلاغہ ص 285)

" خدایا جب ہمیں سخت  تنگیوں نے بے چین اور مضطرب کردیا اور قحط سالیوں نے بے بس بنادیا اور شدید حاجت مندیوں نے لاچار بنا ڈالا اور منہ زور فتنوں کا ہم پر تانتا بندھ گیا ہے۔۔۔۔ اے اللہ ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ تو ہمیں محروم نہ پلٹا اور نہ اس طرح کہ ہم اپنے نفسوں پر پیچ و تاب کھا رہے ہوں۔۔۔۔ اے اللہ تو ہم پر باران و برکت اور رزق و رحمت کا دامن پھیلا دے اور ایسی سیرابی سے ہمیں نہال کر دے جو فائدہ بخشنے والی اور سیراب کرنے والی اور گھاس پات اگانے والی ہو کہ جس سے تو گئی گزری کھیتیوں میں پھر سے روائیدگی لے آئے اور مردہ زمینوں میں حیات کی لہریں دوڑا دے اور ایسی سیرابی ہو کہ جس کی تروتازگی فائدہ مند اور پھلوں کے انبار لیے ہو۔ جس سے تو ہموار زمینوں کو جل تھل بنا دے اور ندی نالے بہا دے اور درختوں کو برگ و بار سے سر سبز کر دے اور نرخوں کو سستا کردے بلاشبہ تو جو چاہے اس پر قادر ہے"۔ (نہج البلاغہ 392۔93)

" یہ وصیت ہے اس بات کی جو فنا ہونے والا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جو زمانے کی سختیوں سے  لاچار ہے"۔ (نہج البلاغہ  702۔703)

" اور یقین رکھو جس کے ہاتھ میں موت ہے اسی کے ہاتھ میں زندگی بھی ہے۔ جو پیدا کرنے والا ہے وہی مارنے والا بھی ہے۔ اور جو نیست و نابود کرنے والا ہے۔ وہی دوبارہ پلٹانے والا بھی ہے اور جو بیماری ڈالنے والا ہے وہی صحت عطا کرنے والا بھی ہے۔ بہرحال دنیا کا نظام  یہی رہے گا جو اللہ نے اس کے لئے مقرر کر دیا ہے۔ نعمتوں کا دینا اور ابتلاء و آزمائش میں ڈالنا اور آخرت میں جزا دینا یا وہ جو اس کی مشیت میں گزر چکا ہے اور ہم اسے نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔الخ (نہج البلاغہ 708، 709)

یقین رکھو جس کے قبضہ قدرت میں زمین و آسمان کے خزانے ہیں اس نے تمہیں سوال کرنے کی اجازت دے رکھی ہیں اور قبول کرنے کا ذمہ لیا ہے اور حکم دیا ہے کہ تم مانگو تاکہ وہ دے۔ رحم کی درخواست کرو تاکہ وہ رحم کرے۔ اس نے اپنے اور تمہارے درمیان دربان کھڑے نہیں کیے جو تمہیں روکتے ہوں نہ تمہیں اس پر مجبور کیا ہے کہ تم کسی کو اس کے یہاں سفارش کے لیے لاؤ تب ہی کام ہو اور تم نے گناہ کیے ہوں تو اس نے تمہارے لئے توبہ کی گنجائش ختم نہیں کی ہے نہ سزا دینے میں جلدی کی ہے۔۔۔ اس نے توبہ کا دروازہ کھول رکھا ہے جب بھی اسے پکارو وہ تمہاری سنتا ہے جب بھی راز و نیاز کرتے ہوئے اس سے کچھ کہو تو وہ سن لیتا ہے، تم اس سے مرادیں مانگتے ہو اور اس کے سامنے دل کے بھید کھولتے ہو اسی سے اپنے دکھ درد کا رونا روتے ہو اور مصیبتوں سے نکالنے کی التجا کرتے ہو اور اپنے کاموں میں مدد مانگتے ہو اور اس کی رحمت کے خزانوں سے وہ چیزیں طلب کرتے ہو جن کے دینے پر کوئی اور قدرت نہیں رکھتا جیسے عمروں میں درازی، جسمانی صحت و توانائی، اور رزق میں وسعت اور اس پر اس نے تمہارے ہاتھوں میں اپنے خزانے کھولنے کی کُنجیاں دے دی ہیں اس طرح کہ تمہیں اپنی بارگاہ میں سوال کرنے کا طریقہ بتایا، اس طرح تم چاہو دعا کے ذریعے اس کی نعمت کے دروازوں کو کھلوا لو"۔ ( نہج البلاغہ 714۔713)

" اے فرزند میں تمہارے لئے فقر و تنگدستی سے ڈرتا ہوں لہذا فقر و ناداری سے اللہ کی پناہ مانگو"۔ (نہج البلاغہ 913)

 یوں تو نہج البلاغہ میں درجنوں مقامات پر حضرت علیؓ نے اللہ تعالی کی قدرت اور اپنی بے بسی کا اظہار بڑے واضح انداز میں فرمایا ہے اور قرآن وحدیث سے بھی یہی سبق ملتا ہے انسان سب بے بس ہیں کامل قدرت والا صرف اللہ تعالی ہے۔

لیکن موضوع کو اختصار دینے کے لیے صرف چند حوالے درج کرنے پر اکتفاء کیا ہے جس کی قسمت میں ہدایت ہوئی اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے اور جو ازلی بد قسمت ہے اس کے مقدر میں رونا بے کار ہے۔ 

خلاصہ

حضرت علیؓ نے  مشکل اور مصیبت کے وقت آپ نے اللہ کو پکارا۔ نہج البلاغہ کے مطالعے سے جو چیز معلوم ہوئی وہ یہ ہے کہ اہل تشیع کے مشکل کشا پوری زندگی مشکلات کا شکار رہے اور آپ کے اور ہمارے مشکل کشا اللہ سے مدد مانگتے رہے۔  آپؓ نے اپنے خطبات میں اس بات کا رد فرما دیا کہ تمام امور علیؓ انجام دیتے ہیں بلکہ حقیقی کارساز اللہ ہی ہے اس کے آگے سب بے بس ہیں۔