ثقیفہ بنی سعد کی کاروائی اور صحابہ کرام
مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبندعقیدہ شیعان علی
سقیفہ بنی سعد کی کارروائی ایک ڈھونگ تھا
شیعہ کہتے ہیں کہ "پھر وہ فرصت کو غنیمت سمجھ کر کہ امیر المومنین آنحضرتﷺ کے کفن میں مشغول ہیں اور بنی ہاشم حضرت محمدﷺ کے غم میں گرفتار ہیں سقیفہ میں چلے گئے اور آپس میں اتفاق کیا کہ ابوبکرؓ کو خلیفہ قرار دیں۔ جیسا کہ آنحضرتﷺ کی زندگی میں ایسی ہی سازش تیار کی گئی تھی۔۔۔۔ جب ابوبکرؓ کی بیعت تمام ہوگئی تو ایک شخص امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ منافقوں نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت کر لی ہے۔ اس لیے کہ آپؓ فارغ ہوجائیں تو آپؓ کا حق غصب نہ کر سکیں گے۔
( حیات القلوب ج2 ص1027)
️جواب اہل سنت
یوں تو اس بے بنیاد الزام کا ذکر شیعانِ علی کی ہر کتاب، ہر تفسیر ،اور ہر محفل میں ہوتا ہے لیکن یہاں اختصار سے کام لیتے ہوئے صرف ایک ہی حوالہ دینے پر اکتفا کیا گیا ہے۔
اب حضرت علیؓ سے پوچھتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں کیا فرماتے ہیں!
چنانچہ حضرت علیؓ فرماتے ہیں:-
" اپنی جان کی قسم! اگر خلافت کا انعقاد تمام افرادِ امت کے ایک جگہ اکٹھا ہونے سے ہو تو اس کی کوئی سبیل ہی نہیں۔ بلکہ اس کی صورت انہوں ( اصحابِ سقیفہ) نے رکھی تھی کہ اس کے کرتا دھرتا لوگ اپنے فیصلے کا ان لوگوں کو بھی پابند بنائیں گے جو بیعت کے وقت موجود نہ ہوں گے پھر موجود کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ بیعت سے انحراف کرے اور نہ غیر موجود کو یہ حق ہوگا کہ وہ کسی اور کو منتخب کرے۔" ( نہج البلاغہ:463)
دوسری جگہ فرماتے ہیں:-
" جن لوگوں نے ابو بکر، عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی بیعت کی تھی انہوں نے میرے ہاتھ پر اسی اصول کے مطابق بیعت کی جس اصول پر وہ ان (ثلاثہ) کے ہاتھ بیعت کر چکے تھے اور اس کی بنا پر جو حاضر ہیں انہیں نظر ثانی کا حق نہیں اور جو بروقت موجود نہ ہو اسے رد کرنے کا اختیار نہیں اور شوریٰ کا حق صرف مہاجرین اور انصار کو ہے۔ وہ اگر کسی پر ایکا کریں اور اسے خلیفہ سمجھ لیں تو اسی میں اللہ کی رضا اور خوشنودی سمجھی جائے گی۔ اب جو کوئی اس شخصیت پر اعتراض یا نیا نظریہ اختیار کرتا ہوا الگ ہو جائے تو اسے وہ سب اسی طرف واپس لائیں گے جدھر سے وہ منحرف ہوا ہے اور اگر انکار کرے تو اس سے لڑیں۔ کیونکہ وہ مؤمنوں ( ثلاثہ) کے طریقے سے ہٹ کر دوسری راہ پر ہو لیا ہے اور جدھر وہ پھر گیا ہے اللہ تعالی بھی اسے ادھر ہی پھیر دے گا۔" ( نہج البلاغہ 657)
ایک مکتوب میں فرماتے ہیں:-
" کیونکہ یہ بیعت ایک دفعہ ہوتی ہے نہ پھر اس میں نظر ثانی کی گنجائش ہوتی ہے، اور نہ پھر سے چناؤ ہو سکتا ہے۔ اس سے منحرف ہونے والا نظامِ اسلامی پر منحرف قرار پاتا ہے اور غور اور تامل کرنے والا منافق سمجھا جاتا ہے"۔ ( نہج البلاغہ 659)
وائے ناکامی شیعانِ علی!
خود حضرت علیؓ کیسے زور دار طمانچے ان کی عقل کے چہرے پر لگاتے جا رہے ہیں۔ اسے کہتے ہیں
"مدعی سست گواہ چست" جس معاملہ کی وجہ سے تمام اصحابِ رسولﷺ ان کی نظر میں مرتد قرار پائے، اس معاملے کو حضرت علیؓ کس اعلٰی انداز میں اپناتے ہیں۔ قربان جاؤں حضرت علیؓ اور تمام صحابہ رسولﷺ پر جو دین اسلام کی شان ہیں اور اللہ تعالی ان بدبختوں کو ہدایت نصیب فرمائے جو فرضی کہانیوں پر بھروسہ کر کے جلیل القدر اصحابِ رسولﷺ پر کفر اور ارتداد کا نہ صرف فتویٰ لگاتے ہیں بلکہ ان کی اصولِ کافی، اسرار آلِ محمد، جلاء العیون، الانوار النعمانیہ، حق الیقین، تحقیق المتین، حیات القلوب، عین الحیاۃ، تذکرہ آئمہ، بحار الانوار، کشف الاسرار، چراغ مصطفوی، اور شرا ابولہبی جیسی سینکڑوں کتب میں اصحابِ رسولﷺ کو جو شرمناک گالیاں دی گئی ہیں زبان بولنے سے گنگ ہو جائے۔ دماغ پاگل ہو جائے۔ اگر ایک نظر بھی کوئی صاحب ان کو دیکھ لے ان ظالموں نے نہ صرف اصحابِ رسولﷺ کو برا بھلا کہا بلکہ امہات المومنینؓ کو بھی نہیں بخشا۔ خدایا تو خود انصاف پر فیصلہ فرما۔
صاحبانِ بصیرت میری خواہش ہے کہ ایک اندرونی اور فطری شہادت بھی دیتا چلوں۔ دیکھئے لوگ اپنے بچوں کے نام کیسے رکھنا پسند کرتے ہیں۔ ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، یوسف، یعقوب، محمد حسین ،محمد حسن یعنی اچھے اور قابلِ تقلید شخصیات کے ناموں پر نہ کہ ہامان، فرعون ، شدّاد اور قارون حتیٰ کہ یزید نام بھی رکھنا کوئی گوارا نہیں کرتا، اسی طرح بعض لوگ اپنی سوچ اور معاشرت کے مطابق نام رکھتے ہیں۔ نیک اور خدا ترس لوگ عبداللہ، عبدالحکیم ، عبدالرشید جیسے نام رکھنا پسند کرتے ہیں۔ جب کہ فلم بین اور کرکٹ کے شوقین اپنے نام فلم کے ہیرو اور کرکٹ کے ستاروں پر رکھنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح آج تک کسی پاکستانی مسلمان نے کبھی اپنے بچے کا نام پرکاش پرتھوی نہیں رکھا اور نہ ہندوؤں نے اپنے بیٹوں کے نام غوری، محمد بن قاسم جیسے رکھے ہیں۔ اس ساری بحث کا مطلب یہ تھا کہ والدین اپنے بچوں کے نام اپنی پسندیدہ، قابلِ احترام اور قابلِ تقلید شخصیات کے نام پر رکھنا پسند کرتے ہیں۔
چنانچہ آئیے ایک اقتباس پڑھتے ہیں
" پس برادران بزرگوان امام اخیارؑ نے رخصت جہاد طلب کی اول عبداللہ فرزند جناب امیرؓ کہ ان کو "ابوبکر" کہتے تھے میدان کارزار میں پہنچے اور ایک گروہِ کافران کو جہنم واصل کر کے تیغ عبداللہ بن عقبیٰ یا رجز بن بدر کی تلوار سے شہید ہوگئے۔ ان کے بعد عمر بن علیؓ ان کے برادر بزرگ نے عزمِ میدان کیا اور معرکہ کارزار میں پہنچنے کے بعد اپنے بھائی کے قاتل کو جہنم واصل کیا۔ پھر رجز خواں صفوف مخالفین پر جا پڑے اور اکثر مخالفین کو جہنم واصل کر کے آپ بھی اپنے پدر بزرگوار کے پاس پہنچے۔
ان کے بعد عثمان بن علیؓ میدان میں گئے اور بہت ظالموں کو قتل کیا"۔
( جلاء العیون ج2 ص244)
برائے مہربانی اس ساری بحث کو ایک مرتبہ پھر پڑھیے پھر جلاء العیون کا اقتباس پڑھئے ، ناممکن ہے کہ آپ کے ذہن میں درج ذیل سوالات نہ انگڑائی لینے لگیں:-
1۔۔ خلفائے ثلاثہ اور حضرت علیؓ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں تھا۔
2۔۔ شیعانِ علی کی کتب جن کا تذکرہ پیچھے گزر چکا ہے یا ان کے علاوہ دوسری کتب کا مطالعہ کرنے سے یا ان کی محفلوں میں خلفاءثلاثہ کے بارے میں استعمال ہونے والی زبان سے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ اللہ کی مخلوق میں سب سے کم تر اور گمراہ ترین لوگ خلفائے ثلاثہ ہی تھے۔ چنانچہ حضرت علیؓ نے اپنے بیٹوں کے نام ان کے ناموں پر رکھ کر یہ ثابت کیا کہ حضرت علیؓ بھی انہیں کی طرح تھے جیسا کہ شیعہ خلفائے ثلاثہ کو سمجھتے ہیں یا وہ ان کے ساتھ بہت محبت و عقیدت رکھنے والے تھے۔ کیونکہ بہت زیادہ عقیدت و محبت کے بغیر کوئی شخص اپنے بیٹے کا نام اس کے نام پر نہیں رکھتا ہے۔
3۔۔۔ خلفائے ثلاثہ کے بارے میں شیعانِ علی کی تمام روایات جھوٹی، من گھڑت اور شیاطین کی ذہنی خباثت کا مظہر ہیں ان تمام روایات کا مقصد صرف اور صرف اسلام دشمنی ہے۔
جس کا اندازہ آپ مشہور شیعہ مورخ حسین کاظم زادہ کے اس اقتباس سے خودکر سکتے ہیں:-
"جس دن سعد بن ابی وقاصؓ نے خلیفہ دوم کی جانب سے ایران کو فتح کیا۔ ایرانی اپنے دلوں میں کینہ و انتقام کا جذبہ پالتے رہے۔ یہاں تک کہ شیعہ فرقے کی بنیاد پر جانے سے پورے طور پر اس کا اظہار کرنے لگے۔۔۔۔ ایرانی ہرگز اس بات کو کبھی نہ بھول سکتے تھے کہ مٹی پر ننگے پاؤں پھرنے والے عربوں نے جو جنگل و صحرا کے رہنے والے تھے ان کی مملکت پر تسلط کر لیا اور ان کے قدیم خزانوں کو لوٹ کر غارت کر دیا اور ہزاروں لوگوں کو قتل کر دیا۔۔۔ اس معاملے نے ایرانیوں کے دلوں میں عمرؓ اور عثمانؓ کے خلاف غصہ اور کینہ کو بھڑکا دیا اور حضرت علیؓ کے ساتھ ان کی محبت کو اور زیادہ کر دیا"۔
جب کہ قرآن و حدیث اور تاریخ اسلام نے ان نفوس قدسیہ کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے۔ وہ حرف بہ حرف سچ ہے ۔اسی لیے حضرت علیؓ ان اصحابِ رسولﷺ کی دل سے قدر کرتے تھے اور انہیں قابلِ تقلید سمجھتے تھے۔ جن کا ثبوت طریقہ خلافت کے ذیل میں نہج البلاغہ کے اقتباسات اور اپنے بیٹوں کے نام اصحابِ ثلاثہؓ کے اسمائے گرامی پر رکھنے سے ملتا ہے اور یہ ایسا ثبوت ہے جس کی تردید نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ لہذا ہمیں اپنا فرض سمجھتے ہوئے انہیں ایرانی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہوگا جو اپنے قدیم تعصب کی وجہ سے دین اسلام کے خلاف کام کر رہے ہیں۔
خلاصہ:
حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر فاروقؓ، اور حضرت عثمانؓ کے خلیفہ بننے کے طریقہ کار کو پسند فرما کر اپنے مخالفین کو بطور دلیل حوالہ دے کے ساتھ دینے کا حکم دیا۔