Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سنی شیعہ مکالمہ متفرقات

  شہید ناموس صحابہؓ مولانا عبدالغفور ندیم شہیدؒ

(1) کلمہ

ساری دنیا کے مسلمان جو کلمہ پڑھتے ہیں وہ دو اجزا پر مشتمل ہے:

(1) توحید (۲) رسالت

مثلا: لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه.

ترجمہ: اللّٰہ کے سوا کوئی معبود نہیں حضرت محمدﷺ اللّٰہ کے رسول ہیں ۔

حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر ہمارے پیغمبر محمد رسول اللہﷺ تک ہمیشہ کلمہ دو اجزا پر مشتمل رہا ہے۔

مثلاً لا اله الا اللّٰه آدم صفی اللّٰه

لا اله الا اللّٰه نوح نجى اللّٰه

لا اله الا اللّٰه موسى كليم اللّٰه

لا اله الا اللّٰه عيسى روح اللّٰه

اور لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه

قرآنِ کریم سے اور احادیثِ رسولﷺ سے جس کلمے کا ثبوت ملتا ہے وہ یہی مذکورہ کلمہ ہے لیکن شیعہ حضرات نے جہاں دیگر مقامات پر اِسلام سے ہٹ کر الگ راستہ اختیار کیا ہے وہاں اس کلمۂ اِسلام میں بھی پیوند کاری کر کے اصلی کلمہ پر اپنے عدمِ اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ فرق ملاحظہ فرمائیے:

اسلام کا کلمہ: "لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه"

 شیعہ کا کلمہ : "لا اله الا اللّٰه محمد رسول اللّٰه علی ولی اللّٰه وصی رسول اللّٰه وخليفته بلا فصل 

آپ نے دیکھا کہ شیعہ، اسلام کے کلمہ پر بھی راضی نہیں۔ اس سے پہلے آپ شیعہ کتب میں دیکھ چکے ہیں کہ شیعہ کا قرآن پر ایمان نہیں ہے، قرآن کریم پر ایمان تو بعد کی بات ہے اِسلام میں داخلے کے لیے سب سے پہلی چیز "کلمۂ اسلام" ہے جو طبقہ، اِسلام کے کلمہ کو ہی تسلیم نہیں کرتا وہ تیس پاروں کے قرآن کو کیسے تسلیم کرے گا، یہی وجہ ہے کہ شیعہ کلمہ سے لیکر مذہبِ اسلام کے ہر ہر مسئلے میں اختلاف کرتا چلا آرہا ہے، اور اس کے باوجود بڑی ڈھٹائی کے ساتھ اِسلام سے اپنی محبت کا اظہار کرنے سے بھی نہیں چُوکتا۔

شبیر: میں تو کلمے میں علی ولی اللّٰہ اور دیگر الفاظ کے اضافے کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دیتا تھا۔ بلکہ میرے ذہن میں تو یہ تھا کہ ہمارے کلمے میں جہاں اللّٰہ کی وحدانیت اور سیدناﷺ کی رسالت کا ذکر ہے وہاں سیدنا علیؓ کی ولایت، وصایت اور خلافت کا

ذکر بھی ایک مستحسن چیز ہے؟ اس میں کیا حرج ہے؟

سلیم: بات دراصل یہ ہے کہ حضور ﷺ کے بتلائے ہوئے کلمے میں اضافہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپﷺ کا کلمہ مکمل نہیں تھا، جس میں حضرت علیؓ کی ولایت وغیرہ کا ذکر ہونے سے رہ گیا تھا اسے شیعہ حضرات نے مکمل کر کے کلمے کے نقص کو دور کر دیا۔ 

پھر اسلام کے کلمے میں جن دو چیزوں کا ذکر ہے، یعنی "توحید اور رسالت" ان دونوں چیزوں پر ایمان لانا فرض اور انکار کفر ہے۔ شیعہ نے ان دو چیزوں کے ساتھ حضرت علیؓ کی ولایت کا ذکر شامل کر کے ولایتِ علیؓ پر ایمان لانے کو بھی فرض اور اس کے انکار کو کفر قرار دینے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے کہ آپ "اصولِ کافی" کی روایت میں پڑھ چکے ہیں کہ شیعہ کے ہاں جس طرح رسول اللّٰہﷺ کے منکر کو کافر کہا جاتا ہے اِسی طرح ” علی ولی اللّٰہ کا منکر بھی کافر ہے۔ 

الغرض کلمہ میں " علی ولی اللّٰہ وصی رسول اللّٰه و خلیفته بلا فصل" کو شامل کرنے کا مقصد ان تمام لوگوں کو "کافر" قرار دینا ہے۔ جو اس کلمہ کے بقیہ جزو کو نہیں مانتے۔

چنانچہ کلمہ کے معاملے میں شیعوں نے مسلمانانِ عالم سے الگ راستہ اختیار کیا۔ اور نویں، دسویں جماعت کے شیعہ طلباء کے لیے اُنہوں نے بالاِصرار وہی اِضافہ شدہ

کلمہ شائع کروایا۔

 (2) اذان

 کلمہ کی طرح شیعہ حضرات اس اذان پر بھی راضی نہیں ہیں جو حضورﷺ نے اپنے صحابہؓ کو سکھائی تھی ، اور سیدنا بلالؓ ، سیدنا ابنِ ام مکتومؓ اور دیگر صحابہؓ سے دلوائی تھی۔

اِسلام نے جس اذان کا حکم دیا ہے اور جو اذان، اِسلام کا شعار ہے وہ وہی اذان ہے جو اہلِ سنت کی مساجد میں پڑھی جاتی ہے۔ لیکن اہلِ تشیع نے اس اذان کو بھی نامکمل اور نا کافی سمجھتے ہوئے اپنی طرف سے "علی ولی اللّٰہ" کا اضافہ کر دیا۔ حالانکہ شیعہ مجتہد، شیخ صدوق ابو جعفرقُمّی نے اپنی تصنیف " من لا يحضر الفقیه" میں اس اضافہ کو ملعون مفوضہ کی بدعت قرار دیا ہے۔ 

چنانچہ اذان کے کلمات نقل کرنے کے بعد وہ شیعہ کی طرف سے اِضافہ کے بارے میں جو کچھ لکھتے ہیں وہ آپ مذکورہ کتاب میں خود پڑھ سکتے ہیں ۔ عبارت ملاحظہ فرمائیے

 *سنیوں کی اذان ، شیعہ کی کتابوں میں* 

" هذا هوا الاذان الصحيح لا يزاد فيه ولا ينقص منه والمفوضة لعنهم اللّٰه قد وضعوا اخبار وزادوا في الاذان محمدﷺ وال محمدﷺ خير البرية مرتين، وفي بعض رواياتهم بعد اشهدان محمدﷺ رسول اللّٰه اشهدان علياؓ ولی اللّٰه مرتين ومنهم من رو يبدل ذلك اشهد ان علیا امیر المومنينؓ حقا مرتين، ولا شك في ان علياؓ ولی اللّٰه و انه امیر المومنينؓ حقاً وان محمدﷺ واله صلوات اللّٰه عليهم خير البرية ولكن ليس ذلك في اصل الاذان وانما ذكرت ذلك ليعرف بهذه الزيادة المتهمون بالتفويض المدلسون انفسهم في جملتنا

 ترجمہ: "یہی صحیح اذان ہے اس میں اضافہ نہیں کیا جائے گا نہ اس میں کمی کی جائے گی۔ اور فرقہ مفوضہ نے ان پر اللّٰہ کی لعنت ہو، کچھ روایتیں گھڑی ہیں اور اُنہوں نے اذان میں "محمدﷺ وآل محمدﷺ خير البرية “ کے الفاظ دو مرتبہ بڑھائے ہیں۔ اور ان کی بعض روایات میں "اشهد ان محمد رسول اللّٰه" کے بعد "اشهد ان علیاؓ ولی اللّٰه" ( دو مرتبہ ) کے الفاظ ہیں۔ اور بعض نے ان الفاظ کے بجائے "اشهدان امیر المومنین" ( دو مرتبہ ) کے الفاظ روایت کیے ہیں۔ اور کوئی شک نہیں کہ علیؓ، ولی اللّٰہ ہیں، اور یہ کہ وہ واقعی امیر المومنین ہیں اور یہ کہ محمدﷺ وآل محمدﷺ، خیر البریہ ہیں لیکن یہ الفاظ اصل اذان میں نہیں۔ میں نے یہ اس لیے ذکر کیا تا کہ اس زیادتی کے ذریعے وہ لوگ پہچانے جائیں جن پر تفویض کی تہمت ہے اور جو اپنے عقیدے کو چُھپا کر ہماری جماعت کے اندر گُھسنے کی کوشش کرتے ہیں ۔"

ملاحظہ فرمائیے کہ شیخ صُدوق تاکیدِ شدید فرماتے ہیں کہ اذان کے اصل کلمات میں کمی بیشی نہ کی جائے اور یہ کہ "اشهد ان علیاؓ ولی اللّٰه" کے کلمات کا اضافہ بدبخت اور ملعون مفوضہ کی ایجاد کردہ بدعت ہے۔ لیکن آج کل ان ملعونوں کی بدعت پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ آپ جانتے ہیں کہ اذان میں کچھ اور کلمات کا بھی اضافہ کر دیا گیا ہے۔ مثلاً : " اشهد ان امیر المومنين، و امام المتقين، عليا ولى اللّٰه وصی رسول اللّٰه، وخليفته بلا فصل "

ذرا مجھے سمجھائیے کہ شیخ صدوق کے زمانے میں "اشهد ان علیا ولی اللّٰه" کے الفاظ بدعت اور موجبِ لعنت تھے اور آج اِن طویل الفاظ کے بڑھانے سے یہ بدعت اور لعنت کتنے گنا بڑھ گئی ہو گی ؟

 شبیر: یہ تو آپ نے بڑی زبردست دلیل پیش کی ہے، گویا شیعہ کتاب میں سُنیوں کی اذان کا ثبوت مل گیا اور شیعہ کی اذان کو بدعت کہہ دیا گیا ہے۔ پھر مزے کی بات یہ ہے کہ شیعہ اذان کو بدعت لکھنے والے شیخ صدوق صاحب خود بھی شیعہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ ہوئی ناں بات۔

سلیم: میرے بھائی! یہ کوئی حیرت کی بات نہیں بلکہ شیعہ مُجتہدین کو یہ سب معلوم ہے اور وہ بھی یہ سب کچھ اپنی کتابوں میں پڑھتے ہیں لیکن اپنی عوام کو اندھیرے میں رکھتے ہیں، ورنہ عوام کو اگر پتہ چل جائے کہ شیعہ مصنفین نے اہلِ سنت کی اذان کو صحیح اور شیعہ کی اذان کو غلط اور بدعت قرار دیا ہے تو شیعہ عوام اپنے بڑوں کی گردن ناپے۔ 

شبیر: آخر کب تک عوام کو اندھیرے میں رکھیں گے۔ آخر ایک دن تو حقیقت کھل ہی جائے گی۔ جیسے آج میرے سامنے حقیقت کا اِنکشاف ہوا ہے اور آپ نے شیعہ مذہب کا سارا کچّا چھٹّا کھول کر میرے سامنے رکھ دیا ہے۔ ورنہ آج تک تو میں بھی یہی سمجھتار ہا کہ ہماری اذان بالکل صحیح اور سُنیوں کی اذان غلط ہے۔

 سلیم: آپ نے یہ دیکھ لیا کہ سُنیوں کی اذان کا ثبوت شیعہ کتابوں سے مل رہا ہے لیکن خود شیعہ کی اذان کو شیعہ مصنّفین بدعت لکھ رہے ہیں، پھر بھی شیعہ اپنی اس بدعت پر قائم ہیں۔ آخر کیوں؟

شبیر: میری تو سمجھ میں بات نہیں آتی ۔ پتہ نہیں ، ایک چیز معلوم ہونے کے باوجود بھی وہ ہٹ دھرمی پر کیوں قائم ہیں؟ آپ ہی بتائیں؟

سلیم: میں نے پہلے بھی آپ کو بتایا ہے کہ شیعہ مذہب قدم قدم پر اِسلام سے ٹکراتا ہے اس لیے شیعہ نے ہر ہر جگہ، اسلامی شعائر سے ہٹ کر اپنا الگ راستہ بنایا ہے، اِسی وجہ سے اُنہوں نے اِسلام کی اذان میں بھی اپنی طرف سے اِضافہ کر کے، اِسلامی اذان پر عدمِ اعتماد کا اظہار کر کے اپنی الگ اذان گھڑ لی۔ تاکہ اذان میں بھی مسلمانوں سے اتحاد نہ ہو سکے۔

شبیر: لیکن آج کل تو شیعہ را ہنما اِتحاد، اِتحاد کے عنوان پر بڑی باتیں کرتے رہتے ہیں اور "اتحاد بین المسلمین" پر بہت زور دیتے ہیں اور خاص طور پر سپاہِ صحابہؓ کے لیے وہ کہتے ہیں کہ اِس تنظیم کے لوگ اِتحاد کے بجائے اِنتشار پیدا کر رہے ہیں، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

سلیم: بھئی دیکھیں ! میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ میرا سپاہِ صحابہؓ سے کوئی تعلق نہیں ، ہاں سپاہِ صحابہؓ کے لوگوں سے کچھ ہمدردی رکھتا ہوں۔ وہ بھی جھنگوی شہیدؒ کی ایک تقریر سننے کے بعد۔ اس لیے میں سپاہِ صحابہؓ کی وکالت تو آپ کے سامنے نہیں کروں گا۔ ہاں آپ نے جو کہا کہ شیعہ راہنما تو ہمیشہ اِتحاد کی بات کرتے ہیں۔ تو جواباً عرض ہے کہ شیعہ کی طرف سے اِتحاد کی بات محض ایک دھوکہ ہے۔ ورنہ آپ خود سوچیں کہ شیعہ کا کلمہ ، شیعہ کی اذان، شیعہ کا قرآن، شیعہ کا نظامِ زکوۃ ، شیعہ کا روزہ، شیعہ کا وضو، شیعہ کی نماز، شیعہ کی حدیث اور دیگر بے شُمار مسائل ہم نے تو اُنہیں الگ بنا کر نہیں دیئے۔ اُنہوں نے خود ہی اپنے لیے ایک علیحدہ راستے کا انتخاب کیا ہے۔ اور وہ اپنے اس راستے پر پوری ڈھٹائی سے قائم بھی ہیں ، اس راستے کو چھوڑنے پر تیار ہی نہیں۔ یہاں تک کہ اسکولوں میں شیعہ سُنی بچے اکٹھے ایک ہی استاذ کے پاس ایک ہی نصاب پڑھا کرتے تھے، شیعہ کو یہ بات بھی پسند نہ آئی اور اُنہوں نے شیعہ سُنی اختلاف کا بیج اسکول کے بچوں کے معصوم ذہنوں میں ڈالنے کے لیے اپنی اسلامیات،حکومت سے پُرزور مطالبہ کر کے الگ کر والی۔ کیا ہم نے اُنہیں یہ مشورہ دیا تھا کہ اسکول میں بھی شیعہ سُنی اختلافات پیدا کر دیئے جائیں تاکہ اسکولوں میں بھی جھگڑا شروع ہو جائے اور بچپن سے ہی شیعہ سُنی لڑائی کا آغاز کر دیا جائے جو کبھی ختم ہونے کا نام ہی نہ لے؟ ہر ہر قدم پر، ہر ہر مسئلے میں ، اُنہوں نے ملتِ اسلامیہ سے اتحاد کرنے کے بجائے اپنے لیے الگ راستہ نکالا ۔ تو اِس پس منظر کی بنیاد پر آپ شیعہ راہنماؤں کی طرف سے اِتحاد، اتحاد اور اتحاد بین المسلمین کے کھوکھلے دعوؤں کا خود ہی اندازہ کر لیں کہ وہ اپنے مؤقف میں کہاں تک مخلص ہیں؟

شبیر: آپ نے بجا کہا کہ ہمارے مذہب کی کوئی چیز اثنہیں پسند نہیں ، ہر جگہ اُنہوں نے اختلاف کیا ہے اور پھر کہتے یہ ہیں کہ اتحاد ہونا چاہیے۔ تو اتحاد کا راستہ تو اُنہوں نے خود بند کر دیا ہے۔ پھر اتحاد کہاں سے ہو؟

اچھا تو بات دوسری طرف نکل گئی۔ آپ مجھے اسلام سے شیعہ مذہب کے اختلافات کی مثالیں دے رہے تھے۔ مثلا کلمہ اور اذان میں شیعہ کا راستہ الگ ہے۔مزید کوئی مثال؟

سلیم : ہاں ، ہاں سنئے ! 

 (3) نماز

 آپ نے دیکھا ہوگا کہ ساری دنیا کے مسلمان ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں یہاں تک کہ مکہ اور مدینہ جو اسلام کا سر چشمہ اور منبع ہیں، وہاں بھی نماز ہاتھ باندھ کر پڑھی جاتی ہے، اللّٰہ کے گھر، خانہ کعبہ میں بھی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی جاتی ہے ، حضور اکرمﷺ کی مسجد نبویﷺ میں بھی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھی جاتی ہے۔ گویا ساری دنیا کے مسلمان، حنفی ،شافعی، مالکی، حنبلی، دیوبندی، بریلوی، اہلِ حدیث، مقلّدین، غیر مقلّدین، نماز ہاتھ باندھ کر پڑھتے ہیں لیکن شیعہ کو نماز میں ہاتھ باندھنا پسند نہیں۔ اب آپ یا تو یہ کہیں کہ ساری دنیا کے مسلمان غلط راہ پر چل رہے ہیں اور شیعہ کا طریقہ صحیح ہے یا پھر اکیلے شیعہ کو غلط کہیں اور دنیا کے تمام مسلمانوں کو صیح راہ پر سمجھیں۔

اس لیے کہ آنحضرتﷺ کا اِرشاد ہے :

"لن يجتمع امتى على الضلالة - (حديث)"

ترجمہ : "میری امت کبھی گمراہی پر متحد نہیں ہوگی ۔“

اس کا مطلب یہ ہوا کہ ساری امت متّحد ہو کر کوئی غلط فیصلہ نہیں کر سکتی۔ تو پوری دنیا میں مسلمانوں کا ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا، اِس عمل کے صحیح ہونے کی دلیل ہے اور صرف شیعہ کا ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھنا، ایک الگ راستہ ہے، جو اس کا وطیرہ ہے۔

شبیر: لیکن شیعوں کے ہاں عورتیں تو ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتی ہیں؟ 

سلیم: ہو سکتا ہے کہ اُن کے ہاں عورتوں کے لیے الگ مذہب ہو اور مردوں کے لیے الگ۔ ورنہ پورے عالمِ اسلام میں تمام مرد حضرات اور تمام خواتین ہاتھ باندھ کر ہی نماز پڑھتے ہیں۔ لیکن شیعہ حضرات کا معاملہ الگ ہے۔ اُنہوں نے تو ہر ہر جگہ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنائی ہے ناں۔ اس لیے اگر وہ بھی ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنے لگ جائیں تو پھر تو ملتِ اسلامیہ کے ساتھ ان کا اتحاد ہونے کا امکان پیدا ہو جائے گا اور یہ انہیں مطلوب نہیں ہے۔

 شبیر: خیر، یہ تو ایک ایسا اختلاف ہے جو ہر انسان پر عیاں ہے، تقریبا ہر مسلمان اس اختلاف سے بخوبی واقف ہے۔ کوئی اور اختلاف؟

 سلیم: بھئی اختلافات تو بہت ہیں ، کونساوہ مسئلہ ہے جس میں شیعہ کو دیگر مسلمانوں سے اختلاف نہیں ہے؟

 (4) روزه

آپ نے اخبارات میں رمضان شریف کے مہینے میں روزوں کے اوقات کا تراشا تو ضرور پڑھا ہوگا ، جس میں مسلمانوں کے لیے روزوں کے اوقات درج ہوتے ہیں تو ساتھ ہی برائے اہلِ تشیع کا عنوان دیکر ان کے لیے الگ اوقات تحریر کیے جاتے ہیں اور وہ اوقات ہمارے اوقات سے مختلف ہوتے ہیں۔

حضورﷺ نے سحری میں تاخیر کرنے اور افطار میں جلدی کرنے کا امت کو حکم دیا ہے۔ لیکن شیعہ اس کے برعکس سحری میں جلدی اور افطار میں تاخیر کرتا ہے، جس کا اندازہ آپ اخبارات میں لکھے ہوئے سحر و افطار کے اوقات سے بخوبی کر سکتے ہیں۔

میں آپ کو کیا کیا بتاؤں؟

 شیعت اور اسلام میں فرق ہے

قدم قدم پر شیعہ مذہب، اسلام اور اہلِ اسلام سے متصادم ہے۔

1...مسلمان عبادت کے لیے مساجد بناتے ہیں، شیعہ کے ہاں امام بارگاہ ہوتی ہے۔ 

2......مسلمان وضو ہاتھوں سے شروع کرتے ہیں اور شیعہ، وضو پاؤں سے شروع کرتے ہیں۔

3.....مسلمان ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں، شیعہ ہاتھ چھوڑ کر نماز پڑھتے ہیں۔ 

4......مسلمان زکٰوة ادا کرتے ہیں۔ شیعہ خمس ادا کرتے ہیں۔

5..... ۔مسلمان حج کے موقع پر اللّٰہ کی عبادت اور مناسکِ حج ادا کرتے ہیں، جبکہ شیعہ وہاں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرتے اور روضۂ رسولﷺ پر حضرات شیخین ( ابوبکرؓ و عمرؓ) کو گالیاں دیتے ہیں۔

6.... مسلمان صرف اللّٰہ کو مشکل کُشا سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ کے ہاں گھوڑا بھی مشکل کُشا بن جاتا ہے۔

7.....مسلمانوں کی نظر میں مقدس ترین مقامات مکہ اور مدینہ ہیں۔ لیکن شیعہ کے ہاں کر بلا ہے۔

8.....مسلمانوں کے ہاں نوحہ کرنا حرام ہے۔ شیعہ اسے عبادت سمجھتے ہیں۔ 

9.....مسلمانوں کے نکاح کے موقع پر صرف لڑکی کی طرف سے وکیل مقرر کیا جاتا ہے جبکہ شیعہ کے ہاں لڑکے کی طرف سے بھی وکیل ہوتا ہے۔ ... 10......مسلمان قرآن کریم کو اللّٰہ کی لاریب ولا شک اور ہر قسم کی غلطی سے پاک کتاب مانتے ہیں جبکہ شیعہ قرآن کریم پر اِیمان نہیں رکھتے۔

11.... مسلمان، قرآن کے بعد احادیثِ رسولﷺ کو معیار مانتے ہیں، جبکہ شیعہ نہ قرآن کو مانتا ہے اور نہ ہی حدیث کو ۔ اس لیے کہ حدیث کے سب سے پہلے راوی صحابہ کرامؓ ہیں۔

12.......مسلمانوں کے ہاں صحابہ کرامؓ، معیارِ ایمان و عمل ہیں۔ جبکہ شیعہ صحابہ کرامؓ کو مسلمان ہی تسلیم نہیں کرتے۔

13....... مسلمانوں کے ہاں حضور اکرمﷺ کے سب سے پہلے خلیفہ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہیں جبکہ شیعہ، سیدنا ابو بکرؓ کی خلافت کو غصب شدہ خلافت سمجھتے ہوئے سیدنا ابو بکرؓ صدیق کو غاصب و ظالم قرار دیتے ہیں۔ 

14........مسلمانوں کے عقیدے میں تمام انسانوں سے انبیاء افضل ہیں۔ جبکہ شیعہ عقیدے میں تمام انسانوں سے بارہ امام افضل ہیں۔ یہاں تک کہ نبیوں سے بھی افضل ہیں۔ ( نعوذ باللّٰہ )

15.... مسلمان "زنا" کو گناہ کبیرہ جانتے ہیں ۔ جبکہ شیعہ "زنا" کو "متعہ" کا نام دیکر جائز بلکہ مستحسن عمل قرار دیتے ہیں۔

16........مسلمان جھوٹ بولنے کو حرام اور گناہ سمجھتے ہیں جبکہ شیعہ جھوٹ کو تقیہ کا نام دیکر اسے دین کا اہم جزو سمجھتے ہیں۔ اور اس کے بغیر دین کو نامکمل بتاتے ہیں۔ 

الغرض کلمه، اذان، وضو، نماز ، روزہ ، زکوۃ، حج ، قرآن، حدیث، صحابہؓ ، اہلِ بیتؓ اور دیگر بیشتر مواقع پر شیعہ مذہب، اسلام سے الگ نظر آتا ہے۔ پھر انہیں کس بنیاد پر مسلمان تسلیم کر کے ان سے اتحاد کیا جائے؟

شبیر: ٹھیک ہے شیعہ کا ہر ہر جگہ، اسلام سے اور دیگر مسلمانوں سے اختلاف ہے لیکن بنیادی طور پر وہ خدا کو تو مانتا ہے۔ قیامت کے دن پر تو یقین رکھتا ہے؟ 

سلیم: آپ کو حیرت ہوگی کہ شیعہ کا خدا کے بارے میں بھی وہ نظر یہ نہیں ہے جو تمام اہلِ اسلام کا ہے۔ مثلاً اللّٰہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں۔

"قل اللّٰهم ملك الملك توتى الملك من تشاء وتنزع الملك ممن تشاء"

 ترجمہ: "کہہ دیجیے اے اللّٰہ ! جو مالک ہے بادشاہی کا، جس کو چاہے حکومت دے اور جس سے چاہے چھین لے ۔“

 حضرت عثمانؓ و معاویهؓ بد قماش ( نعوذ باللّٰه )

کسی کو حکومت دینا، یا چھین لینا۔ عزت دینا یا ذلت اللّٰہ ہی کا کام ہے۔ جیسے لوگ اور عوام ہوتے ہیں ویسے ہی اللّٰہ ان پر حاکم بھیج دیتا ہے۔ لیکن شیعوں کا اللّٰہ کے بارے میں نظریہ ایرانی انقلاب کے محرک خُمینی نے یوں پیش کیا ہے۔ 

"ہم اُس خدا کی پرستش نہیں کرتے ، گویا وہ خدا لائقِ عبادت نہیں جس نے عثمانؓ،معاویہؓ اور یزید جیسے بدقماشوں کو خلافت دے دی ۔ ( کشفِ اسرار صفحہ 119) 

 شبیر: اس عبارت میں تو خُمینی صاحب نے سیدنا عثمانؓ ،سیدنا معاویہؓ اور یزید کی خلافت پر طعن و تشنیع کی ہے۔ اللّٰہ کی ذات کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا؟ 

سلیم: آپ مجھے اوپر کی آیت کی روشنی میں بتائیں کہ حکومت دینا یا چھین لینا کس کا فعل ہے؟

شبیر: اللّٰہ تعالیٰ کا۔

سلیم: تو سیدنا عثمانؓ ، سیدنا معاویہؓ اور یزید کو حاکم بنانے والا کون ہے؟

شبیر: اللّٰہ تعالیٰ۔

سلیم: یہی بات تو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ سیدنا عثمانؓ ، سیدنا معاویہؓ اور یزید کو اللّٰہ نے ہی تو حکومت دی ہے۔ اور خُمینی کہتا ہے کہ میں ایسے خدا کو لائقِ عبادت نہیں سمجھتا۔ جس نے مذکورہ اشخاص کو حکومت دی ہے۔

شبیر: اب میری سمجھ میں بات آئی۔ یہ عبارت تو واقعی کُفریہ عبارت ہے۔ لیکن میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہورہا ہے کہ حکومت دینا اگر اللّٰہ تعالیٰ کا فعل ہے تو اس وقت دنیا میں بڑے بڑے فسّاق و فجّار بلکہ کافر قسم کے لوگ بھی حکومت کر رہے ہیں۔

اگر یہ نظریہ مان لیا جائے کہ حکومت اللّٰہ دیتا ہے تو گویا ان کافروں،فاسقوں، جابروں وغیرہ کو بھی حکومت اللّٰہ نے دی ہے۔

 سلیم: نہیں ، اس لیے کہ حدیث میں آتا ہے۔

 "اعمالکم عمالكم " ( حديث )

ترجمہ : جیسے تمہارے اعمال ہونگے ویسے تمہارے حکمراں ہونگے ۔“

تو اللّٰہ تعالی پر حرف کیسے آئے گا ؟ اس کا قانون ہے جیسی عوام ہوگی ویسے ہی ان پر حکمران مسلّط کر دیئے جائیں گے۔ اگر عوام اپنے اندر اسلامی تبدیلی لائیں گے تو ان کے حکمران بھی پھر اُنہی میں سے ہونگے ۔ گویا جیسی عوام ویسے حُکام۔

 شبیر: میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ شیعہ قیامت کو بھی تو مانتا ہے؟ آپ ذرا وضاحت کریں کہ اس میں بھی کوئی اختلاف ہے؟ 

 سلیم: صرف قیامت کو مان لینا کافی نہیں بلکہ قیامت کے اُس تصور کو ماننا ضروری ہے جو اِسلام پیش کرتا ہے ۔ مثلاً ..... 

"فمن يعمل مثقال ذرة خيرايره ومن يعمل مثقال ذرة شرايره" . (سورة الزلزال پاره ۳۰)

 ترجمہ: اور جس نے ذرہ بھر نیک عمل کیا وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرا برابر برا عمل کیا وہ اسے بھی دیکھ لے گا ۔“ 

قرآن، قیامت کا یہ تصور پیش کرتا ہے کہ جہاں اچھے اور بُرے اعمال کے مطابق انسان کے ساتھ جزاوسزا کا معاملہ ہوگا۔

 شیعہ کا نظریہ قیامت

لیکن شیعہ کا نظریہ یہ ہے کہ چونکہ ہمارے دلوں میں اہل بیتؓ کی محبت ہے اس لیے ہمارا کوئی برا عمل یا گناہ ہمیں جہنم میں لے جانے کا باعث نہیں بنے گا۔ بلکہ جب اعمال کا وزن کیا جائے گا تو ترازو کے ایک پلڑے میں ہمارے تمام گناہ اور دوسرے پلڑے میں ایک پرچہ، جس پر یہ لکھا ہو گا کہ "یہ شخص اہلِ بیتؓ سے محبت رکھنے والا ہے" رکھ دیا جائے گا۔ جس کے وزن سے محبت اہلِ بیتؓ والا پلڑا جھک جائے گا، اور وہ شخص جنت میں چلا جائے گا۔ ( ضمیمہ مقبول احمد دہلوی صفحه 454) 

اب آپ بتائیں کہ شیعہ "نظریۂ قیامت" میں بھی اہلِ اسلام سے متفق ہیں؟ 

 شبیر: یہ عجیب نظریہ ہے؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ دنیا میں جتنے چاہو گناہ کرتے رہو، بس دل میں اہلِ بیتؓ کی محبت ہونی چاہیے، جو جنت میں لے جانے کا سبب بن جائے گی ؟

سلیم : تو اور کیا؟ دنیا میں بھی مزے کرو اور آخرت میں بھی۔ ”بس شیعہ بن جاؤ۔“

 شبیر نہیں بھئی، دنیا میں تو مزے ہیں ہی لیکن آخرت میں ان کے لیے مزے کہاں؟ یہ تو ان کا خیال اور وہم ہے۔ ایسے تھوڑی جنت مل جائے گی ؟ یہ جنت تو نہ ہوئی خالہ جان کا گھر ہوا ؟

سلیم : میں اُنہی کے نظریے کی بات کر رہا ہوں کہ وہ اس زعم میں مبتلا ہیں کہ دنیا میں عیاشی کرتے رہیں اور آخرت میں اہلِ بیتؓ سے محبت کی بدولت جنت مل جائے گی۔ کیا خوب رہی ؟

رات کو خوب سی پی، صبح کو توبہ کرلی 

رند کے رند ہے، ہاتھ سے جنت نہ گئی

 شبیر: کافی وقت بیت گیا ہے۔ آپ بھی یقیناً تھک گئے ہونگے لیکن چند چیزیں میرے ذہن میں کھنکتی ہیں۔ اگر آپ کو بوریت نہ ہورہی ہو تو پوچھوں؟

سلیم: ہاں، ہاں ضرور پوچھیں اور یہاں سے مطمئن ہو کر جائیں۔

شبیر: یہ بات تو سمجھ گیا کہ شیعہ کافر ہی نہیں بلکہ بدترین کافر ہے لیکن شیعہ کے علاوہ دنیا میں اور بھی تو کافر ہیں ۔ ہندو، سکھ، مجوسی ، یہودی، عیسائی، قادیانی وغیرہ سبھی کافر ہیں لیکن "سپاہِ صحابہؓ" والے صرف ایک ہی نعرہ لگاتے ہیں۔

"کافر ،کافر شیعہ کافر" 

وہ آخر کافر ،کافر، ہندو کافر ۔ کافر ،کافر ، سکھ ،کافر، کافر، کافر، مجوسی ،کافر یا کافر ،کافر،قادیانی ،کافر کے نعرے کیوں نہیں لگاتے ؟ صرف شیعہ کے کفر کا نعرہ لگانا اور دوسرے تمام کافروں کو نظر انداز کر دینا چہ معنی دارد؟

سلیم: اس کا صحیح جواب تو سپاہِ صحابہؓ والے ہی دے سکتے ہیں لیکن میری سمجھ میں جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ یہودیوں،عیسائیوں، مجوسیوں، قادیانیوں اور ہندوؤں کے بارے میں تو کسی کو شبہ ہی نہیں ۔ ہر چھوٹا بڑا مسلمان جانتا ہے کہ یہ غیر مسلم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی مسلمان آج ان کافروں سے مسلمانوں والا برتاؤ نہیں کرتا۔ نہ ان کو شادی غمی میں بلاتا ہے نہ ان سے کوئی مسلمان رشتہ ناطہ کرتا ہے۔ اور نہ ان کی دعوتوں میں جاتا ہے۔ اس لیے کہ بچہ بچہ اُن کے کفر سے آگاہ ہے اور کوئی اُنہیں مسلمان تسلیم نہیں کرتا ۔ لہذا ان کے بارے میں اس اعلان کی ضرورت ہی نہیں کہ وہ غیر مسلم ہیں۔ لیکن شیعہ کا معاملہ اُن سے الگ ہے۔ شیعہ کو ہمارے نا واقف مسلمان بھائی، مسلمان سمجھتے ہیں، اُن سے رشتہ ناطہ کرتے ہیں، اُن کی شادی، غمی میں شریک ہوتے ہیں، اُنہیں اپنی شادیوں اور غموں میں شریک کرتے ہیں۔ گویا اُن سے مسلمانوں والا برتاؤ کر کے اپنی عاقبت خراب کر رہے ہیں، اس لیے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو حقیقت سے آگاہ کریں اور اُنہیں بتائیں کہ جسے آپ مسلمان سمجھ کر مسلمانوں والا برتاؤ کر رہے ہیں وہ حقیقت میں مسلمان نہیں۔ بلکہ اپنے کُفریہ عقائد کی بناء پر اِسلام سے خارج ہیں۔

شبیر: بات تو معقول ہے۔ اہلِ تشیع کے بارے میں عوام کی سوچ یہی ہے بلکہ بہت سے پڑھے لکھے اور سمجھدار لوگ بھی شیعہ سُنی اختلاف کو معمولی نوعیت کا فروعی اختلاف سمجھ کر شیعہ سُنی بھائی چارہ کی فضاء قائم رکھنے کی ضرورت پَر زور دیتے ہیں۔ جبکہ شیعہ سُنی اختلاف، فروعی قسم کا اختلاف ہرگز نہیں بلکہ بنیادی عقائد میں شدید اختلاف موجود ہے۔ اور صرف اختلاف ہی نہیں بلکہ شیعہ کے عقائد تو سراسر کفر پر مبنی ہیں جن کی موجودگی میں اُن سے اِتفاق و اِتحاد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

سلیم: آپ ماشاء اللّٰہ سمجھ دار ہیں اور یہ بات بڑی آسانی سے آپ کی سمجھ میں آسکتی ہے کہ اِسلام اور کفر بھلا کیسے یکجا ہو سکتے ہیں۔ جس طرح ہندو مسلم اتحاد، عیسائی مسلم اتحاد، یہود مسلم اتحاد، قادیانی مسلم اتحاد نہیں ہو سکتا ، اسی طرح شیعہ مسلم اتحاد بھی ناممکنات میں سے ہے۔ ہاں بعض ملکی ، سیاسی یا علاقائی مسائل کے حل کے لیے اتحاد ہو سکتا ہے۔

 شبیر: جب یہ حقیقت اظہر من الشمس ہوگئی کہ شیعہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں تو پھر ان سے سیاسی یا علاقائی اتحاد کیوں کیا جائے؟

سلیم: اگر ان سے اتحاد کیے بغیر کام چل سکتا ہو تو ان سے اتحاد نہ کرنا ہی بہتر ہے لیکن اگر کبھی ملکی یا سیاسی یا علاقائی معاملات میں ضرورت پڑے تو ان سے اتحاد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ اس لیے کہ سیاسی طور پر ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ نے بھی مدینہ میں یہود سے معاہدہ کیا تھا۔ اور یہ معاہدہ اسلامی اسٹیٹ کی بقاء اور استحکام کے لیے تھا۔

شبیر: ٹھیک ! میں سمجھ گیا لیکن ایک بات تو بتائیں۔ میں نے سنا ہے کہ کسی کافر کو "کافر" نہیں کہنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ کل کو مسلمان ہو جائے ، کیا یہ بات صحیح ہے؟

سلیم: یہ بات کچھ معقول نظر نہیں آتی اس لیے کہ اگر کسی کافر کو کافرنہیں کہنا چاہیے شاید کہ وہ کل کو مسلمان ہو جائے تو پھر کسی مسلمان کو بھی مسلمان نہیں کہنا چاہیے، شاید کہ وہ کل کو کافر ہو جائے۔

پھر کسی بچے کو بھی بچہ نہیں کہنا چاہیے۔ شاید کہ وہ کل کو جوان ہو جائے۔

پھر کسی جوان کو بھی جوان نہیں کہنا چاہیے۔ شاید کہ وہ کل کو بوڑھا ہو جائے۔

پھر کسی زندہ کو بھی زندہ نہیں کہنا چاہیے۔ شاید کہ وہ کل کو مردہ ہو جائے۔

پھر کسی بیمار کو بھی بیمار نہیں کہنا چاہیے۔ شاید کہ وہ کل کو تندرست ہو جائے۔

پھر کسی تندرست کو بھی تندرست نہیں کہنا چاہیے۔ شاید کہ وہ کل کو بیمار ہو جائے۔

پھر کسی چور کو بھی چور نہیں کہنا چاہیے کہ شاید وہ کل کو چوکیدار بن جائے۔

پھر کسی وزیر کو بھی وزیر نہیں کہنا چاہیے۔ کہ شاید وہ کل کو صدر بن جائے۔ 

پھر کسی قیدی کو بھی قیدی نہیں کہنا چاہیے۔ شاید کہ وہ کل کو آزاد ہو جائے۔ 

پھر کسی آزاد کو بھی آزاد نہیں کہنا چاہیے۔ شاید کہ وہ کل کو قیدی بن جائے۔

بھئی سیدھی سی بات ہے کہ جو چور ہے اسے چور کہا جائے گا۔

جو ڈاکو ہے اسے ڈاکو کہا جائے گا۔

جو شریف ہے اسے شریف کہا جائے گا۔

جو وزیر ہے اسے وزیر کہا جائے گا۔

جو قیدی ہے اسے قیدی کہا جائے گا۔

اسی طرح جو مسلمان ہے اسے مسلمان کہا جائے گا۔ جو کافر ہے اسے کافر کہا جائے گا۔ ہاں ، جو مسلمان ہے اسے کافر کہنا اور جو کافر ہے اسے مسلمان کہنا واقعی غلط ہے۔ 

آپ ہی بتائیں کہ اگر میں آپ سے پوچھوں کہ ابو جہل ، مسلمان تھا یا کافر؟ ابو لہب، مسلمان تھا یا کافر؟ فرعون ، مسلمان تھا یا کافر؟ نمرود، مسلمان تھا یا کافر؟ قادیانی مسلمان ہیں یا کافر؟ ، ہندو، مسلمان ہیں یا کافر؟ ، مجوسی ، مسلمان ہیں یا کافر؟ تو آپ مجھے کیا جواب دیں گے؟

شبیر: جن لوگوں یا جن طبقات کا آپ نے ذکر کیا ہے یہ تو واقعی کافر تھے۔

سلیم: تو پھر میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ نے کافروں کو کافر کیوں کہا؟ 

 شبیر: بھئی! یہ تو دنیا جانتی ہے اور تمام اہلِ اسلام نے بتایا ہے کہ مذکورہ لوگ یا طبقات غیر مسلم اور کافر ہیں۔ اس لیے ہم بھی بلا جھجک اُنہیں کافر کہتے ہیں۔ 

 سلیم: تو بات واضح ہوگئی ناں کہ کا فر کو کافر کہنا صحیح ہے اور بعض اوقات تو کافر کو کافر کہنا ضروری ہو جاتا ہے؟

شبیر: وہ کب؟

سلیم: جب لوگ کافروں کو مسلمان سمجھ کر اپنے ایمان کو نقصان پہنچا رہے ہوں۔ جیسے آج اگر لوگ ابو جہل، ابولہب ، فرعون ، نمرود اور ہامان وغیرہ کو مسلمان سمجھنے لگ جائیں تو ظاہر ہے کہ اُنہیں یہ بتانا ضروری ہو جائے گا کہ جن کو تم مسلمان سمجھ رہے ہو مسلمان نہیں بلکہ کافر تھے۔ اور اگر ہم ، لوگوں کو نہیں بتائیں گے تو ہم بھی اللّٰہ کے ہاں مجرم ٹھہریں گے۔

چنانچہ جب یہ بات آپ پر واضح ہوگئی کہ شیعہ مسلمان نہیں ۔ اور عوام نا واقفیت اور کم عِلمی کی وجہ سے اُنہیں مسلمان سمجھ کر اپنا ایمان اور عاقبت برباد کر رہے ہیں۔ اُن سے رشتے ناطے کر رہے ہیں۔ اُن سے مسلمانوں والا برتاؤ کر رہے ہیں تو میری اور

آپ کی یہ مذہبی ذمہ داری ہے کہ ہم اُنہیں بتائیں کہ شیعہ مسلمان نہیں اس لیے اُن سے رشتہ ناطہ حرام ہے۔

شبیر: یہ تو آپ نے بڑی اہم بات بتائی۔ واقعی کسی غیر مسلم سے تو نکاح ہو ہی نہیں سکتا۔ تو جو لوگ شیعہ کو بیٹی کا رشتہ دیتے ہیں یا اُن سے رشتہ لیتے ہیں وہ تو بہت بڑا گناہ کر رہے ہیں؟

سلیم: اس میں کیا شک ہے۔ جب یہ حقیقتِ مسلمہ ہے کہ کسی غیر مسلم سے نکاح نہیں ہوتا اور شیعہ بھی غیر مسلم ہے تو نکاح کہاں ہوا؟ جب نکاح ہی نہیں ہوا تو اُسے رشتہ دینے کی صورت میں تو زندگی بھر "زنا" کا گناہ لازم آئے گا۔

شبیر: اور اِس صورت میں جو اولاد پیدا ہو گی وہ کس زمرے میں جائے گی ؟

 سلیم: آپ خود ما شاء اللّٰہ سمجھدار ہیں۔ خود ہی فیصلہ کر لیجیے کہ اولاد کسی زمرے میں جائے گی۔

 شبیر: اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جو لوگ شیعہ کے کفر سے ناواقفیت کی بناء پر اُن سے رشتے داریاں کر رہے ہیں، اُنہیں شیعہ کے کفر سے آگاہ کرنا ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ ورنہ اُن کے گناہ میں ہم بھی شریک ہونگے ؟

 سلیم: اگر ہم قدرت ہونے کے باوجود اُنہیں نہیں بتائیں گے تو یقینا ہم بھی اللّٰہ کے ہاں مجرم ہونگے ۔

شبیر : یہ جولوگوں میں مشہور ہے کہ کسی کافرکو بھی کافر نہ کہو، یہ غلط ہے؟ 

 سلیم: ظاہر ہے یہ عوام الناس کا پھیلایا ہوا شوشہ ہے، جبکہ قرآن پاک میں خود اللّٰہ رب العزت نے اپنے محبوب محمدﷺ کو حکم دیا ہے کہ کافروں کو کافر کہو۔

شبیر : قرآن میں یہ بات کہاں لکھی ہے؟

سلیم : دیکھیے ! قرآن پاک کے آخری پارے میں ایک سورت ہے۔ جسے "سورۃ الکافرون" کہتے ہیں۔ اس کی پہلی آیت میں ہے: ” قل یا ایها الکافرون" 

 ترجمہ : کہہ دیجیے (اے نبیﷺ) اے کافرو!۔

اس آیت میں اللّٰہ تعالیٰ نے خود حضورﷺ کو حکم دیا کہ کافروں سے اس طرح خطاب کرو کہ اے کافرو!

اب آپ ہی بتائیں کہ حضورﷺ نے ”اے کافرو!‘ کن لوگوں سے کہا تھا؟ مسلمانوں سے یا کافروں سے؟ ظاہر ہے کہ کافروں سے ہی اس آیت میں خطاب ہے۔ اور صاف لفظوں میں خطاب ہے کہ "اے کا فرو!“

معلوم ہوا کہ کافر کو کافر کہنا غلط نہیں بلکہ یہ تو اللّٰہ کا حکم ہے۔ اور حضورﷺ کی سنت ہے۔

ہاں! کسی کافر کو اگر آپ کسی کام سے بلانا چاہتے ہیں ۔ یا اُسے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں یا وہ آپ کے سامنے جا رہا ہے اور آپ اُسے آواز دینا چاہتے ہیں تو اس وقت اُسے "کافر" کہہ کر نہیں بلکہ اُس کا نام لے کر اُسے آواز دو ۔ "او کافر" ! کہہ کر آواز دینا اخلاقاً صحیح نہیں ۔ اِسی چیز کی حدیث میں بھی ممانعت آئی ہے۔ لیکن کافروں کا کفر واضح کرنے کے لیے عوام کو بتانا کہ اِس قسم کے عقائد و نظریات رکھنے والا شخص یا طبقہ کافر ہے، گناہ نہیں بلکہ ضروری ہے، تا کہ عوام اس کے کفر سے آگاہ ہو کر اپنے اِیمان و اِسلام کو بچانے کی فکر کریں۔

 شبیر : تو سپاہِ صحابہؓ کا مقصد گویا یہ ہوا کہ شیعہ کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا جائے۔

سلیم : صرف یہ مقصد نہیں بلکہ سپاہِ صحابہؓ کے راہنما یہ بتاتے ہیں کہ سپاہِ صحابہؓ کا مقصد پاکستان میں نظامِ خلافتِ راشدہؓ کے نفاذ کی راہ ہموار کرنا ہے۔ لیکن اِس نظام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شیعہ ہے، حکمران اسے مسلمان سمجھتے ہوئے اس کی رائے کا بھی احترام کرتے ہیں اس لیے حکّام و عوام کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ شیعہ مذہبِ اسلام سے متصادم ہے اس لیے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے شیعہ کی رائے کا احترام ضروری نہیں۔

سلیم: اگر چہ دیگر تنظیمیں بھی نظامِ خلافتِ راشدہؓ کے نفاذ کی بات تو کرتی ہیں لیکن وہ تنظیمیں اہلِ تشیع کو مسلمان سمجھتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ ملا کر خلافتِ راشدہؓ کا نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں جبکہ شیعہ خلفاءِ راشدینؓ ہی کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا تو وہ اُن کے نظام کے نفاذ کے لیے کیا خاک تعاون کرے گا؟ بلکہ وہ تو پوری کوشش کرے گا کہ ملک میں خلفائے راشدینؓ والا نظامِ حکومت نافذ نہ ہو سکے اور وہ اس نہج پر کوشش کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران اور سیاستدان قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک اس نظام کے نفاذ میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اور جب تک شیعہ کے تعاون سے اِسلام کے نفاذ کی کوشش کرتے رہیں گے، کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ اس لیے کہ شیعہ نے ہر دور میں اِسلام اور اہلِ اسلام کو نقصان پہنچایا ہے۔ تاریخ اس پر شاہد ہے۔

*شیعیت ، تاریخ کے آئینے میں* 

شبیر: آپ نے تاریخ کی بات کی ہے۔ کیا آپ تاریخ میں شیعہ کی اِسلامی دشمنی کی کوئی مثال پیش کریں گے؟ 

 سلیم : جی ہاں ! اِسلام کے ابتدائی دور سے ہی شیعہ نے اِسلام دشمنی کو اپنا وطیرہ بنایا ہے۔ خلفائے راشدینؓ میں سب سے پہلے سیدنا عمرؓ کو شہید کیا گیا۔ جن کو ایرانیوں نے ایک سازش کے تحت فتوحاتِ فاروقی کا انتقام لینے کے لیے ایک کرائے کے غلام ابو لؤلؤ فیروز مجوسی سے شہید کروایا۔ اور شیعہ آج بھی قاتلِ فاروقِ اعظمؓ، ابولؤلؤ فیروز مجوسی کو "بابا شجاع "کہہ کر اُس سے اظہارِ عقیدت کرتے ہیں اور اس کے اس مکروہ فعل پر اظہارِ مسرت کرتے ہیں۔

 *شہادتِ عثمانِ غنیؓ* 

سیدنا فاروق اعظمؓ کی شہادت کے بعد سیدنا عثمان غنیؓ کا دور خلافت آیا جس میں تقریباً 44 لاکھ مربع میل کے وسیع رقبے پر اِسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ دشمنانِ اِسلام اور دشمنانِ نظامِ خلافتِ راشدہؓ کو اِسلام کا یہ عروج ایک آنکھ نہ بھایا۔ اور اُنہوں نے اِسلام کے اس عظیم تاجدار کو شہید کر دیا۔ 

سیدنا عثمانؓ کا یومِ شہادت دشمنانِ اسلام کے لیے یومِ عید تھا۔ اور آج تک شیعه 18 ذوالحجہ کو، جو سیدنا عثمانؓ کا یوم شہادت ہے، "عیدِ غدیر" کے طور پر مناتے ہیں، چراغاں کرتے ہیں، شیرینی تقسیم کرتے ہیں اور خوشی و مسرت کے طور پر نئے لباس پہنتے ہیں، اور اپنے اِس عمل سے وہ قاتلانِ عثمانؓ سے اظہارِ یَکجِہتی کرتے ہیں۔ 

 شہادت سیدنا علیؓ

سیدنا عثمان غنیؓ کے بعد سیدنا علیؓ کا دور خلافت آیا۔ ابتداء اسلام سے اسلامی سلطنت کا دارالخلافہ مدینہ منورہ چلا آ رہا تھا۔ لیکن جب سیدنا علیؓ کا دور خلافت آیا تو ایک خفیہ سازش کے تحت اُنہیں دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل کرنے پر مجبور کر دیا گیا۔ اور پھر کوفہ میں سیدنا علیؓ کے لیے عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا۔ قدم قدم پر اُن کے راستے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں اور یہ رکاوٹیں ڈالنے والے اپنے آپ کو "شیعانِ علیؓ" کہتے تھے۔ یہ تمام حقائق شیعہ کی معتبر ترین کتاب "نہج البلاغة "میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ نتیجاً سیدنا علیؓ کو بھی شیعوں نے شہید کر دیا۔

 شہادتِ حسینؓ

سیدنا علیؓ کی کوفہ میں شہادت کے بعد شیعت کا اگلا نشانہ فرزندِ علیؓ نواسۂ رسولﷺ، سیدنا حسین بن علیؓ تھے۔ جن کو شہید کرنے کے لیے منظّم منصوبہ بندی کے تحت ہزاروں خطوط لکھ کر مدینہ سے کوفہ بلوایا گیا۔ اور جب وہ اہلِ کوفہ کے ظاہری اخلاص اور محبت سے متاثر ہو کر کوفہ پہنچے تو اُنہیں بھی میدان کربلا میں شہید کر دیا گیا۔

چونکہ سیدنا علیؓ اور سیدنا حسینؓ کوفہ میں شہید کیے گئے ۔ جس کے بارے میں ایک شیعہ مجتہد نور اللّٰہ شوستری اپنی کتاب ” مجالس المومنین" کی مجلسِ اوّل میں رقمطراز ہے کہ "کوفہ اہلِ تشیع کا شہر تھا، جہاں اہلِ سنت نہ ہونے کے برابر تھے۔“

جب یہ بات تسلیم کر لی گئی کہ کوفہ شیعوں کا شہر تھا، تو اِسی شہر میں سیدنا علیؓ اور سیدنا حسینؓ کا شہید ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان دونوں شخصیات کے قاتل کوفہ کے شیعہ ہیں۔ مزید ثبوت کے لیے شیعہ کی کتاب "جلاء العیون" کا مطالعہ کریں جس میں شہدائے کربلا کے ورثاء کااحتجاج تحریر ہے۔ کہ ہمیں ہمارے شیعوں نے بلوایا اور پھر شہید کر دیا۔

 *بغداد کی تباہی* 

ملّتِ اسلامیہ کے خلیفہ مستعصم باللّٰہ کا ایک شیعہ وزیر تھا جس کا نام تاریخ "ابنِ علقمی" بتلاتی ہے، علامہ جلال الدین سیوطیؒ نے "تاریخُ الخلفاء" میں ابنِ علقمی کو کٹر شیعہ لکھا ہے۔ اس نے محض شیعہ اسٹیٹ قائم کرنے کے لیے تاتاریوں سے ساز باز کی۔ ہلاکو اور چنگیز کو بغداد پر حملہ کرنے کی دعوت دی۔ اور اس حملے کے نتیجے میں بغداد میں ہلا کو اور چنگیز نے مسلمانوں کا اس قدر قتلِ عام کیا کہ تاریخی روایات کے مطابق کئی دنوں تک دجلہ دریا کا پانی سرخ رہا۔ پھر بغداد میں مسلمان علماء و مفکّرین کی تحریر شدہ کتابوں کو دریا برد کر دیا گیا۔ جن کی سیاہی نے کئی مہینوں تک دجلہ کے پانی کو سیاہی مائل رکھا۔ اس طرح شیعہ سازش کے نتیجے میں دولتِ عباسیہ سخت ترین نقصان سے دوچار ہوئی اور بغداد، مسلمانوں کا مقتل بن گیا۔

 مصر کی فاطمی حکومت

تاریخ کی ورق گردانی کرنے سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ مصر میں شیعوں کی فاطمی حکومت، وہ متعصب ترین حکومت تھی۔ جس میں اہلِ سنت عقیدے کا حامل ہونا اپنے آپ کو موت کے حوالے کر دینے کے مترادف تھا۔ وہ تمام مسلمان ، جو سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو خلیفۂ برحق تسلیم کرتے تھے۔ اور ان عظیم شخصیات سے روحانی عقیدت وابستگی رکھتے تھے۔ اُنہیں فاطمی دور حکومت میں زندہ رہنے کا حق نہیں تھا۔ اگر کوئی مسلمان، زندہ رہتا تو اس کے لیے ضروری تھا کہ وہ شیعہ مذہب قبول کرے، گویا فاطمی حکومت میں مسلمانوں کو مذہبی آزادی میسر نہیں تھی اور شیعت نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔

 صفوی دورِ حکومت

1501ء سے قبل ایران میں اہلِ سنت واضح اکثریت میں تھے۔ لیکن 1501ء کے بعد جب اسماعیل صفوی شیعہ کا دورِ حکومت آیا تو اس سیاہ ترین دورِحکومت میں اہلِ سنت کا قتل عام روزمرہ کا معمول بن گیا۔

اہلِ سنت علماء کو چوکوں، چوراہوں پر بنے ہوئے سرکاری اسٹیجوں پر لایا جاتا۔ جہاں پر خلقِ کثیر پہلے سے یہ قیامت خیز منظر دیکھنے کے لیے موجود ہوتی۔ علمائے اہلِ سنت کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اسٹیچ پر کھڑے ہو کر مجمعِ عام کے سامنے سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور دیگر جلیل القدر صحابہؓ کے خلاف زبان طعن دراز کریں اور ان پر تبراء کریں۔ اگر وہ ایسا کر لیتے تو اُن کی جان بخشی ہو جاتی۔ بصورت دیگر اُنہیں قتل کر دیا جاتا۔

شیعہ حکومت کے ان مظالم و شدائد کے نتیجے میں بہت سے مسلمانوں نے شیعہ مذہب قبول کر لیا۔ جس کی وجہ سے آج ایران میں شیعہ اکثریت میں اور اہلِ سنت اقلیت میں ہیں۔

 متفرقات

تاریخ نے جن سیاہ ترین ادوارِ حکومت کی نشاندہی کی ہے۔ اُن میں ایک دور حکومتِ ہندوستان کے ایک شیعہ حکمران ، آصف خان کا بھی ہے۔ جس نے ایران سے نادر شاہ کو دہلی بلوایا اور جس طرح بغداد میں ابنِ علقمی نے چنگیز خان کے ذریعے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی اور بغداد کو تباہ و برباد کیا ، اسی طرح آصف خان نے بھی نادر شاہ کے ذریعے دہلی میں مسلمانوں کے خون کو پانی کی طرح بہایا اُس کے دورِ حکومت میں صرف اُسی شخص کی جان بخشی ہو سکتی تھی جس کے بارے میں سرکار کو یقین ہو جائے کہ وہ شیعہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے۔ 

اسی طرح کے بے شمار واقعات تاریخ کی کتابوں میں شیعہ کی مسلم دشمنی اور اسلامی دشمنی کو بے نقاب کرتے ہیں، تاریخ کا ہر طالب علم اس حقیقت کو بخوبی جانتا ہے کہ ملّتِ اسلامیہ کے عظیم فرمانروا اور جرنیل صلاح الدین ایوبیؒ سے غداری کر کے مملکتِ اسلامیہ کو نقصان پہنچانے والے شیعہ تھے۔

  •  ترکوں سے غداری کر کے سلطان عبد الحمیدؒ کو معزول کرانے والے شیعہ تھے۔
  • اسلامی حکومت کے سربراہ نورالدین زنگیؒ پر قاتلانہ حملہ کے مرتکب شیعہ تھے۔
  • سلطان ٹیپوؒ سے غداری کرنے والا میر صادق شیعہ تھا۔ 
  •  نواب سراج الدولہؒ سے غداری کر کے دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے والا میر جعفر شیعہ تھا۔ 
  • ملتان میں اہلِ سنت کے خون سے ہاتھ رنگین کرنے والا ابو الفتح داؤد شیعہ تھا۔
  • دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکتِ پاکستان کو دولخت کرنے والا حکمران یحییٰ خان شیعہ تھا۔
  • مسلک اہلِ حدیث کے جیّد اور متبحّر عالمِ دین اور عظیم اسکالر علامہ احسان الہی ظہیرؒ کے قاتل شیعہ تھے ۔ 
  • سپاہِ صحابہؓ پاکستان کے سب سے پہلے قائد و بانیٔ حضرت علامہ حق نواز جھنگویؒ کو شہید کرنے والے شیعہ تھے۔
  • چند سال قبل سعودی عرب میں حج کے موقع پر عین حرم پاک میں غیر قانونی جلوس نکالنے اور دہشت گردی کا مظاہرہ کر کے حجاج کرام کو ایذاء پہنچانے والے شیعہ تھے۔
  • سپاہِ صحابہؓ پاکستان کے نائب سر پرستِ اعلیٰ مولانا قاری ایثار القاسمیؒ کو شہیدکرنے والے شیعہ تھے۔
  •  مولانا عبد الصمدؒ آزاد سمیت جھنگ کے پانچ جید علماء کرام کو دن دہاڑے گولیوں کا نشانہ بنانے والے شیعہ تھے۔
  • جرنیلِ سپاہِ صحابہؓ مولانا محمد اعظم طارقؒ پر بموں اور راکٹوں سے حملہ کرنے اور مولاناؒ کے دو محافظوں کو شہید کرنے والے شیعہ تھے۔ 
  • لاہور اسٹیشن عدالت میں خطرناک ترین بم دھماکہ کر کے قائدِ سپاہِ صحابہؓ علامہ ضیاء الرحمن فاروقیؒ سمیت درجنوں پولیس اہلکاروں اور صحافیوں کو شہید کرنے والے اور جرنیل سپاہِ صحابہؓ علامہ محمد اعظم طارقؒ سمیت بیسیوں بے گناہوں کو شدید زخمی کرنے والے شیعہ تھے۔

شبیر: سلیم بھائی! میں آپ کا بے حد مشکور و ممنون ہوں کہ آپ نے میرے سامنے آج ایک ایسی حقیقت بیان کی جو آج تک میری نظروں سے پوشیدہ تھی۔ آپ یقین

جانیں مجھے آج تک خود یہ معلوم نہیں تھا کہ ہمارے مذہب میں اس قدر خرافات ہونگی۔ لیکن آپ نے تو ایک مخفی حقیقت کو میرے سامنے مُنکشِف کر دیا۔ اور آپ نے شیعہ مذہب کے رد میں جو دلائل پیش کیے ہیں، اگر کوئی عقلِ سلیم رکھنے والا تعصّب کی عینک اتار کر اِن دلائل پر غور کرلے تو وہ یقیناً شیعہ مذہب پر چار حرف بھیجتے ہوئے فی الفور تائب ہو کر صحیح اِسلام کی حقانیت کو تسلیم کر لے گا۔

آج مجھے دیر تو بہت ہوگئی لیکن آپ کے توسط سے اللّٰہ نے مجھ پر بہت سی حقیقتوں کو مُنکشِف کر دیا ۔ اللّٰہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

سلیم: مجھے بہت خوشی ہے کہ اللّٰہ رب العزت نے آپ کو راہِ حق کا راہی بنا دیا ، خداوندِ عالم مجھے اور آپ کو حق و صداقت کی راہ پر گامزن رکھے۔

وما علينا الاالبلاغ