ملک شاہِ سلجوق کی ایک تاریخی تحقیق
مولانا اللہ یار خانؒملک شاہِ سلجوق کی ایک تاریخی تحقیق
مشہور محقق فاتحِ اعظم رافضیت حضرت العلام مولانا اللہ یار خانؒ
نظامُ الملک طوسی
سلجوق بادشاہ الپ ارسلاں کا وزیر تھا اسے ابتداء سے ہی علماء اور صوفیاء کے ساتھ بڑا اُنس تھا اور علماءِ حق کی دل و جان سے قدر کرتا تھا چنانچہ شیخ ابواسحٰق شیرازی متوفی 476 ھجری نے نظامُ الملک کی طرف سے ایک محضر نامہ پر لکھ دیا خیر الظلمۃ حسن یعنی سب ظالموں میں حسن (نظامُ الملک کا اصلی نام) اچھا ہے حالانکہ بہت سے علماء نے اس کی تعریف میں لکھا تھا نظامُ الملک نے جب یہ تحریر دیکھی تو بے اختیار کہہ اٹھا ابواسحٰق کے سواء کسی نے سچ نہیں لکھا امام الحرمین ابوالمعالی نظامُ الملک کی صوفیانہ مجلس کے رکن تھے آپ نے مکہ اور مدینہ میں حلقۂ درس قائم کیے وہیں سے آپ کو امام الحرمین کا خطاب ملا۔
شیخ ابوعلی فارمدی م477 ھجری جو شیخ ابوالقاسم گوگانی کے مرید تھے علم اور معرفت میں یکتائے روزگار تھے نظامُ الملک کی ان کے ساتھ بھی علمی محفلیں ہوتی تھیں وہ آپ کا بڑا عقیدتمند تھا یہاں تک کہ کچھ لوگوں نے اسے کہا کہ آپ سب علماء کے مقابلے میں ان کی ذیادہ عزت کیوں کرتے ہیں تو نظامُ الملک نے جواب دیا کہ شیخ ابوعلی مجھے میرے عیوب سے آگاہ کرتے ہیں اور میں ان سے ہدایت حاصل کرتا ہوں۔
منظر
ملک شاہ سلجوقی کا دربار لگا ہوا ہے باتوں باتوں میں شیعہ مذہب کا ذکر آجاتا ہے بادشاہ پوچھتا ہے شیعہ کون ہوتے ہیں درباریوں میں سے جواب ملتا ہے کہ شیعہ دراصل اسلام کی مخالف ایک سیاسی اور مخفی تحریک ہے بادشاہ کہتا ہے کہ اسلام کے مخالف تو کفر ہی ہو سکتا ہے اگر حقیقت یہی ہے تو شیعہ مسلمان کیوں کر ہوئے۔
اچھا تو میرے وزیر نظامُ الملک کو بلاؤ۔
نظامُ الملک حاضر ہوتا ہے۔
بادشاہ: یہ بتاؤ شیعہ کون ہیں؟ کیا وہ مسلمان نہیں؟۔
نظامُ الملک: حضور مسلمان علماء میں سے جو حضرات مذہب شیعہ کے اصول و فروع سے واقف ہیں وہ تو اس مذہب کو صریح کفر کہتے ہیں اور جو حضرات واقف نہیں وہ توقف اختیار کرتے ہیں۔
بادشاہ: یہ کیا کہا علمائے دین اور اس سے واقف نہ ہوں یہ بات بالکل بے جوڑ ہے۔
وزیر: حضور ان کے مذہب کا ایک بنیادی اصول ہے قال ابوعبداللہ علیہ السلام یا سلمان انکم علی دین من کتمه اعزہ اللہ ومن اذاعه اذله اللہ۔
لہٰذا یہ مذہب تبلیغی مذہب نہیں بلکہ خفیہ تحریک ہے اس لیے بالعموم علمائے اسلام اس سے کماحقہ واقف نہیں ہو سکتے۔
بادشاہ: دین کے چھپا رکھنے میں عزت اور عنداللہ عزت بےتُکی بات ہے اللہ نے تو اپنی کتاب میں فرمایا ہے کہ: اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ
(سورۃ البقرةآیت نمبر: 159)
کیا دین چھپانے کی چیز ہے؟
وزیر: اللہ کی بات اپنے مقام پر اس مذہب کا اصول وہی ہے جو میں نے عرض کر دیا ہے دین تو واقع چھپانے کی چیز نہیں مگر بےدینی کو چھپائے رکھنا ہی مناسب ہے۔
بادشاہ: ان کے تعداد کتنی ہوگی؟
وزیر: حضور جس طرح ان کا مذہب مخفی ہے ان کی تعداد بھی مخفی ہے۔
سیدنا جعفر نے ایک مقام پر فرمایا: اگر مجھے تین شیعہ مل جاتے تو میرے لیے حدیثوں کا چھپانا حلال نہ ہوتا۔
دوسرے مقام پر فرماتے ہیں اگر 17 شیعہ مل جاتے تو میں خاموش نہ بیٹھتا۔
یہ تو سیدنا جعفر کے عہد کی بات ہے بعد کے لیے امام نے ایک اصول بنا دیا کہ جب شیعہ کی تعداد 313 ہوگئی تو امام مہدی ظاہر ہو جائیں گے اب تک وہ تو ظاہر ہوئے نہیں لہٰذا اگر ان کا امام سچا ہے تو ان کی تعداد یقینا 313 سے کم ہی ہے اور یہ تعداد صرف حضور کی سلطنت میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں 313 شیعوں کا پایا جانا امام غائب کے ظاہر ہونے کے لیے ضروری ہے۔
بادشاہ: علمائے اسلام کس دلیل سے انہیں کافر قرار دیتے ہیں؟۔
نظامُ الملک: حضور دلیل کوئی ایک ہو تو عرض کروں۔
بادشاہ: نمونتہً کچھ تو کہو؟۔
نظامُ الملک: حضور عقائد کے باب میں سب سے پہلے توحید کا عقیدہ ہے ان کے ہاں اللہ کے متعلق بداء کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے یہ بَداء فی العلم اور بَداء فی الارادہ دونوں کے عقائد ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کو پہلے علم نہیں ہوتا جب کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اسے علم ہوتا ہے اس عقیدہ کی اہمیت کا یہ عالم ہے کہ:
عن ابی عبداللہ یقول ما تنبأ بنی قط حتیٰ یقراللہ بخمس بالبداء والمشیۃ الخ
سیدنا جعفر فرماتے ہیں کوئی ایسا نبی نہیں آیا جس نے اللہ کی پانچ صفات کا اقرار نہ کیا بَداء کا مشیت کا الخ۔
دوسرا عقیدہ: رسالت ہے اس کے متعلق شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امام معصوم ہوتا ہے مفترض الطاعتہ ہوتا ہے اور اس پر وحی کے ذریعہ احکام نازل ہوتے ہیں۔
یہ عقیدہ ختمِ نبوت کا انکار ہے اور اجرائے نبوت کا اقرار ہے۔
تیسرا بنیادی عقیدہ: آخرت ہے ان کا عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن سُنیوں کی تمام نیکیاں شیعوں کو دے دی جائیں گی اور شیعوں کے تمام برائیاں سُنیوں پر لاد دی جائیں گی اور انہیں جہنم میں بھیج دیا جائے گا۔
چوتھا عقیدہ: قرآنِ حکیم ہے اس کے متعلق ان کا عقیدہ ہے کہ ان القرآن الذی جاءبه جبریل الیٰ محمدﷺ سبعۃ عشرۃ الف اٰیۃ۔
یعنی جو قرآن محمد رسول اللہﷺ پر نازل ہوا وہ 17 ہزار آیت کا تھا اور ظاہر ہے کہ یہ قرآن تو اس کا ایک تہائی کے قریب ہی بنتا ہے۔
پانچواں عقیدہ: اصحابِ رسولﷺ چند ایک کے سواء سب جھوٹے تھے
عن ابی جعفر قال کان الناس اھل الردۃ بعد النبیﷺ الاثلاثۃ فقلت من الثلاثۃ فقال مقدادؓ ابوذرؓ و سلمانؓ۔
یعنی سیدنا باقر کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے بعد 3 کے بغیر سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مرتد ہو گئے وہ 3 سیدنا مقدادؓ سیدنا ابوذرؓ اور سیدنا سلمانؓ ہیں۔
بادشاہ: اگر ان کے بنیادی عقائد یہی ہیں تو کتمان دین کا عقیدہ معقول نظر آتا ہے مگر میں چاہتا ہوں کہ فریقین کے علماء جمع کیے جائیں اور میں ان سے اپنے دین کی حقانیت اور مخالف کے دین کے بطلان کے دلائل سنوں۔
وزیر: حضور والا جہاں تک دینِ اسلام کی حقانیت کا تعلق ہے وہ آپ سے مخفی نہیں رہا معاملہ شیعہ مذہب کا تو بندہ عرض کرتا ہے کہ غلاظت کے ڈھیر کو کریدنے سے تعفّن پھیلانے کے سواء کچھ حاصل نہ ہوگا۔
بادشاہ: جہاں احقاقِ حق ضروری ہے وہاں ابطالِ باطل بھی لازمی ہے آپ جانبین کہ علماء کو جمع کریں میں اس بات کو گومگو کی حالت میں رکھنا نہیں چاہتا۔
وزیر نے بادشاہ کا حکم قطعی سن کر جانبین کے سر کردہ علماء کو دعوت دے دی اور اس کے بعد علماء کو حاضر ہونے کا حکم بھیج دیا۔
مقامِ بحث: مدرسہ نظامیہ
شرائط:
- جانبین بولنے کے لیے اپنے میں سے ایک عالم کو منتخب کریں گے وہ دلائل کے لیے دوسروں سے مدد لے سکیں گے مگر بولے گا وہی۔
- یہ بحث تین روز تک جاری رہے گی۔
- نماز اور کھانے کے اوقات اور حوائج ضروریہ کے علاوہ سارا دن بحث جاری رہے گی۔
- علماء مجھے مخاطب کر کے دلائل پیش کریں گے۔
- فریقین کی مستند اور معتبر کُتب سے حوالے دیے جائیں گے۔
- نظامُ الملک اس کی کاروائی تحریر کریں گے۔
نظامُ الملک نے علماء کو افتتاحی تقریر کرتے ہوئے تاکید کی اپنے مقام اور منصب کا بھی خیال رکھیں اور اخلاق سے گری ہوئی کوئی بات کسی کے حق میں زبان پر نہ آنے پائے۔
اہلِ سنّت کے علماء نے عباسی صاحب کو اور شیعہ نے علوی صاحب کو اپنا نمائندہ بنایا۔
عباسی: حضور والا پہلے یہ طے ہونا چاہیے کہ حق اور باطل کا معیار کیا ہوگا قولِ فصیل کس کا قول ہوگا؟
علوی: حضور والا قرآنُ و حدیث ہی تو معیار ہیں اور یہی شریعت کے بنیادی ماخذ ہیں۔
عباسی: حضور علوی صاحب نے بات تو اصولی کہی مگر اس میں ایک مشکل پیش آئے گی۔
بادشاہ: وہ کونسی؟۔
عباسی: حضور جو قرآن مسلمانوں کے پاس ہے اس پر تو شیعہ کا ایمان نہیں اور جس قرآن پر شیعہ کا ایمان ہے وہ کسی نے دیکھا نہیں وہ ہاتھوں ہاتھ اماموں کو ملتا رہا بارہواں امام اسے لے کر غارمیں چھپ گیا اب کس قرآن کو معیار قرار دیں گے۔
علوی: حضور والا عباسی صاحب کی بات کو میں الزام کہوں یا بہتان مگر حقیقت نہیں کہہ سکتا ہم شیعہ تو اس قرآن پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ اللہ کی کتاب ہے۔
عباسی: حضور والا علوی صاحب تقیہ کا ثواب حاصل کرنے کے لیے یہ فرما رہے ہیں لیکن ایک سوال قابلِ غور ہے کہ علوی صاحب سچے ہیں یا ان کے امام؟۔
علوی: حضور والا ہم تو ائمہ اطہار کی جوتیوں کی خاک ہیں ان کو معصوم عن الخطاء مانتے ہیں۔
عباسی: حضور والا سیدنا باقر فرماتے ہیں:
لو قری القرآن کما انزل لا یغتنا فیه مسیمن۔
قرآن جس طرح نازل ہوا اگر اسی طرح پڑھا جاتا تو ہمارے نام اس میں موجود پاتے۔
اس قرآن میں کسی امام کا نام نہیں۔
پھر سیدنا باقر فرماتے ہیں:
لولا انه زید فی القرآن اونقص ماخفی حقنا علی ذی حجی۔
اگر قرآن میں کمی زیادتی نہ کی جاتی تو ہمارا حق کسی ذی عقل سے مخفی نہ رہتا۔
امام فرماتے ہیں قرآن میں کمی بھی ہوئی اور زیادتی بھی ہوئی۔
امام فرماتے ہیں:
ان القرآن الذی جاء به جبرئیلؑ الی محمد سبعۃ عشر الف آیۃ۔
یعنی جو قرآن جبرائیلؑ حضرت محمدﷺ کے پاس لے کر آئے تھے وہ 17 ہزار آیت کا تھا۔
موجودہ قرآن تو اس کا کوئی تیسرا حصہ بنتا ہے اگر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ امام سچے ہیں تو علوی صاحب کے متعلق وہی لفظ استعمال ہوسکتا ہے جو سچ کا برعکس ہو۔
بادشاہ: کیوں علوی صاحب آپ اپنے امام کے کسی قول کی تردید کرسکتے ہیں؟
علوی: سر جھکائے خاموشی سے نگاہیں نیچے کیے رہے۔
عباسی: حضور والا علوی صاحب کی خاموشی ہی جواب ہے کہ امام نے سچ فرمایا لہٰذا اس سے دو امور ثابت ہوئے۔
اول: یہ کہ شیعہ کا قرآن پر ایمان نہیں۔
دوئم: یہ کہ شیعہ مذہب قرآن سے ماخوذ نہیں اس کا ماخذ کوئی اور ہے۔
حضور والا دین کا دوسرا ماخذ حدیث ہے مگر حدیث روایت ہے جس کا پہلا راوی لازماً صحابی ہونا چاہیے اور شیعہ کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سارے کے سارے جھوٹے ہیں (معاذ اللہ)۔
علوی: حضور والا ہم لوگ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جھوٹا نہیں کہتے بعض کو کہتے ہیں۔ لہٰذا عباسی صاحب کی بات کو اگر جھوٹی کہہ دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔
عباسی: حضور والا یہ سب کو جھوٹا کہتے ہیں فرق یہ ہے کہ ان لوگوں نے جھوٹ کو دو اصطلاحوں میں بانٹ دیا ہے۔
بادشاہ: جھوٹ بہر حال جھوٹ ہے دو اصطلاحوں کا کیا مطلب؟۔
عباسی: حضور والا ان کے سیدنا باقر کے دو قول پیش کرتا ہوں۔
عن ابی جعفر قال کان الناس اھل الردۃ بعد النبیﷺ الاثلاثۃ قلت من الثلاثۃ قال المقدادؓ و ابوذرؓ و سلمانؓ۔
یعنی سیدنا باقر نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ کے بعد تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مرتد ہوئے سوائے تین کے میں نے پوچھا وہ کون فرمایا سیدنا مقدادؓ و سیدنا ابوذرؓ اور سیدنا سلمانؓ۔
دوسری روایت:
عن ابی جعفر قال ان رسول اللہﷺ لما قبض صار الناس کلھم اھل جاھلیۃ الااربعۃ علی والمقدادؓ و سلمانؓ و ابوذرؓ۔
پہلی روایت میں تو سیدنا علیؓ کو بھی ارتداد کا نشانہ بنا گئے دوسری روایت میں ذرا احتیاط برت لی اور سیدنا علیؓ کو ارتداد سے بچا گئے مگر ایک چوک پھر بھی ہوگئی کہ الناس کُلّہم کا اطلاق اگر سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا حسنینؓ پر بھی ہوسکتا ہے تو یہ تین حضرات بقول سیدنا باقر ارتداد سے نہ بچ سکے۔
بہرحال 3 یا 4 صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک طرف اور باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دوسری طرف بڑے گروہ نے بقول شیعہ جو جھوٹ اختیار کیے رکھا اس کا اصطلاحی نام نفاق ہے۔
چھوٹے گروہ کے جھوٹ کے لیے شیعہ نے ایک اپنی اصطلاح ایجاد کی اور وہ ہے تقیہ۔
علوی: حضور والا یہ سَراسَر بہتان ہے کہ تقیہ کا معنیٰ جھوٹ نہیں ہے تقیہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی انسان کو خطرہ ہو تو زبان پر جھوٹ لائے اور دل میں صدق ہو صرف زبان پر جھوٹ ہو معلوم ہوا کہ تقیہ میں دو پہلو ہوتے ہیں ایک صدق کا جو دل میں ہے دوسرا کذب کا جو زبان پر ہے کتنا ظلم ہے کہ صدق کا جو پہلو ترک کر دیا جائے صرف کذب کا پہلو لے لیا جائے کہ تقیہ کا معنیٰ جھوٹ ہے یہ بڑی بے انصافی ہے۔
عباسی: حضور والا ان بیچاروں کی مصیبت یہ ہے کہ ان کے امام کچھ کہتے ہیں یہ کچھ کہتے ہیں جتنے منہ اتنی باتیں۔
قال ابو عبداللہ التقیۃ من دین اللہ قلت من دین اللہ قال ای واللہ من دین اللہ لقد قال یوسف ایتھا العیر انکم لسارقون واللہ ماکانو! سرقوا شئیاً ولقد قال ابراھیم انہ سقیم واللہ ماکان سقیما۔
امام نے تقیہ کہ دین ہونے کے دو ثبوت دیے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اہلِ قافلہ کو چور کہا حالانکہ وہ چور نہیں تھے۔
کوئی پوچھے کہ جو چور نہ ہو اس کو چور کہنا جھوٹ نہیں تو اسے کیا کہا جاتا ہے پھر یہ کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو کون سا خطرہ لاحق تھا کہ امام نے اس جھوٹ کا نام تقیہ رکھا امام تو صاف فرما رہے ہیں کہ جس کو ساری مخلوق جھوٹ کہتی ہے اس کا نام تقیہ ہے اور محبّان امام کہتے ہیں جھوٹ اور چیز ہے اور تقیہ اور چیز ہے۔
حضور والا شیعہ کی ان دونوں اصطلاحوں میں ایک اور فرق بھی ہے کہ تقیہ والا گروہ تقیہ کو صرف جائز ہی نہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کی عبادت بھی سمجھتا ہے۔
(1): قال ابو عبداللہ یا معلی ان التقیۃ من دینی ومن دین اٰبائی ولا دین لمن لا تقیّۃ له۔
یعنی تقیہ میرا دین ہے اور میرے آباء کا دین ہے اور جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین ہی نہیں۔
(2): عن ابی عبداللہ ان تسعۃ اعشار الدین فی التقیّۃ ولا دین لمن لا تقیۃ له۔
یعنی دین میں سے 9 حصے دین تقیہ میں ہے اور جو تقیہ نہیں کرتا وہ بےدین ہے۔
تقیہ اتنی بڑی عبادت ہے کہ آدمی اگر صرف جھوٹ ہی بولتا رہے تو 9 حصّے دین پر عمل ہوگا باقی جتنی عبادات ہیں وہ صرف دین کا دسواں حصّہ ہے شیعہ کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ایک بڑا گروہ جھوٹا ہے مگر وہ جھوٹ کو عبادت نہیں سمجھتا دوسرا گروہ جو تین چار افراد پر مشتمل ہے وہ جھوٹ کو اس پایہ کی عبادت سمجھتا ہے کہ صرف جھوٹ بولتے رہنے سے نو حصّہ دین کے تقاضے پورے ہوگئے گویا دسویں حصّے کی کچھ زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں اللہ معاف کر دے گا اس بناء پر اور اس گروہ کے بیان کردہ حدیثوں کی قدر و قیمت کیا ہو سکتی ہے کہ دین کے معاملات میں انہیں فیصلہ کن سمجھا جائے۔
نتیجہ یہ نکلا کہ شیعہ کو حدیثِ رسولﷺ پر بھی ایمان نہیں یعنی شیعہ مذہب کا ماخذ نہ تو اللہ کا کلام ہے اور نہ اللہ کے رسولﷺ کی حدیث ہے۔
علوی:حضور والا میں عرض کر چکا ہوں کہ ہم لوگ سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جھوٹا نہیں کہتے مثلاً سیدنا مقدادؓ سیدنا سلمانؓ سیدنا ابوذرؓ جھوٹے نہیں ہمارا مذہب ان کی بیان کردہ حدیثوں سے ماخوذ ہے۔
عباسی: حضور والا بقول علوی صاحب ان تین حضرات کے بیان حدیث کی کیفیت ان کے ائمہ کی زبانی سماعت فرمائیں:
(1) ذکرت التقیۃ یوماً عند علی بن الحسینؓ فقال لو علم ابوذرؓ ما فی قلب سلمانؓ لقتله وقد اخا رسول اللہﷺ بینھما فماظنک بسائر الخلق۔
ایک روز سیدنا علی بن حسینؓ(سیدنا زین العابدینؓ) کے سامنے تقیہ کا ذکر ہوا تو فرمایا اگر سیدنا ابوذرؓ کو سیدنا سلمانؓ کے دل کی بات معلوم ہو جاتی تو سیدنا سلمانؓ کو قتل کر دے حالانکہ نبی کریمﷺ نےان دونوں کو بھائی بھائی بنا دیا تھا تو باقی مخلوق کے متعلق کیا پوچھتے ہو۔
یعنی سیدنا سلمانؓ نے اپنے دل کی بات اپنے بھائی تک کو نہیں بتائی تو حدیث کس کے سامنے بیان کی ہوگی۔
اس روایت سے دوسری بات جو اس سے بھی زیادہ شدید ہے یہ ثابت ہوتی ہے کہ سیدنا سلمانں کے دل میں وہ بات تھی کہ اگر ظاہر کرتے ہیں تو اس کی سزا قتل ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سزا تو مرتد کی ہے تو سیدنا سلمان کی حیثیت کیا قرار پائی۔
(2) قال ابو عبداللہ یا سلمانؓ لو عرض علمک علی مقدادؓ لکفرو یا مقدادں لو عرض علمک علی سلمانؓ لکفر۔
علم سیدنا مقدادؓ کا ہو سیدنا سلمانؓ کا ہو یا سیدنا ابوذرؓ کا اگر وہ ظاہر کرتے ہیں تو بقول شیعہ اس کی سزا قتل تھی اور وہ قتل نہیں کیے گئے لہٰذا انہوں نے اپنا علم جیسا کچھ تھا وہ ظاہر ہی نہیں کیا تو حدیث کہاں سے حاصل ہوسکتی تھی۔
(3) عن ابی بصیر قال سمعت ابا عبداللہ یقول رسول اللہﷺ یا سلمانؓ لو عرض علمک علی مقدادؓ او لکفر یا مقدادؓ لو عرض علمک علی سلمانؓ لکفر
لیجیٔے بات امام تک نہ رہی رسولﷺ تک پہنچا دی مگر راویوں نے اتنا نہ سوچا کہ سیدنا سلمانؓ یا سیدنا مقدادؓ کے پاس علم آیا کہاں سے تھا ظاہر ہے کہ انہوں نے نبی کریمﷺ سے ہی حاصل کیا تھا مگر اس علم کی قیمت شیعوں کے ہاں یہ ٹھہری کہ اگر وہ علم ظاہر کرتے تو سننے والا کافر ہو جاتا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مقام تو پھر بھی اپنا ہے شیعوں نے تو اللہ کے رسولﷺ کو بھی معاف نہیں کیا۔
حضور والا یہ تو اصولی بات ہے اب رہا معاملہ واقعات کا تو شیعہ کُتب میں ان تین حضرات کی روایات کی تعداد ہی دیکھ لی جائے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ملے گی ان کی اکثر روایات ذرارہ اور ابوبصیر کی تیار کردہ ہیں لہٰذا یہ امر ثابت ہوگیا کہ شیعہ مذہب کا حدیثِ رسولﷺ سے کوئی تعلق نہیں۔
علوی: حضور والا ہم حدیث رسولﷺ کو مانتے ہیں اور تین حضرات سے جو حدیثیں ہمیں پہنچی ہیں ہمارے دین کا مدار انہی پر ہے۔
بادشاہ: اے گروہِ علماء جانبین کے خیالات سُن کر میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اصول یہ ہے کہ فیصلہ کن بات اسی کی ہوتی ہے جس پر جانبین کو اعتماد ہو قرآن و حدیث کو حق و باطل کے پرکھنے کا معیار وہی بتا سکتا ہے جس کو پورا یقین ہو کہ قرآنِ کریم اللہ کی کتاب ہے اور جُوں کی تُوں محفوظ ہے اور حدیثِ رسولﷺ کو بیان کرنے والے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سچے اور نہایت امین تھے مگر شیعہ امام قرآن کو محرف مانتے ہیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ناقابلِ اعتماد اس لیے وہ قرآن و حدیث کے فیصلے کو قبول کر ہی نہیں سکتے لہٰذا اس بحث کو میں اس انداز سے جاری رکھنا چاہتا ہوں کہ دونوں اطراف کے علماء اپنے اپنے عقیدے کے مطابق میرے سوالات کا جواب دیں۔
میرا پہلا سوال صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
کے متعلق ہے کیونکہ یہ جماعت رسولﷺ اور امت کے درمیان واسطہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بات اللہ تعالیٰ کے بندوں تک اللہ تعالیٰ کے نبی کے بغیر کوئی نہیں پہنچا سکتا اور نبی کی بات نبی کی امت تک اس کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بغیر کوئی نہیں پہنچا سکتا لہٰذا دینِ خداوندی میں نبی کریمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خاص اہمیت حاصل ہے لہٰذا اس جماعت کے متعلق آپ حضرات اپنے عقائد بیان کریں عباسی صاحب پہلے آپ بیان کریں:
عباسی: حضور والا اہلِ سنّت والجماعت کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ جماعت ہے جن کا مُعلم محمد رسول اللہﷺ ہیں اور حضور اکرمﷺ نے 23 برس اس گروہ کی تعلیم و تربیت میں صرف کرکے وَيُزَكِّيھمۡۚ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلۡكِتَـٰبَ وَٱلۡحِكۡمَةَ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 129) کا فریضہ پورا کیا اور اپنے ان شاگردوں کو رازدارِ نبوت بنا کر وحی الٰہی کا امین بنایا اور اشاعتِ دین کا فریضہ ان لوگوں کو سونپ کر اللہ تعالیٰ کا نبیﷺ اس دنیا سے رخصت ہوا اور حضورﷺ نے 23سال کی محنت سے ان کی نسبت رضا مندی کی اللہ تعالیٰ سے جوڑ دی اس نسبتِ رضا کے پختہ اور ناقابلِ شکست ہونے کا اعلان اللہ تعالیٰ نے مختلف پیرایوں میں فرمایا:
(1) ایمان: فرمایا فَإِنۡ اٰمَنُواْ بِمِثۡلِ مَآ اٰمَنتُم بِهِۦ فَقَدِ ٱهۡتَدَواْۖ الخ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 137)۔
یعنی اے گروہ صحابہ کعام رضوان اللہ علیہم اجمعین! قیامت تک آنے والے انسان اگر اس طرح ایمان لائے جیسے تم لائے ہو تو وہ ہدایت کو پالیں گے اور اگر تمہاری طرح ایمان نہ لائے تو ان کا ایمان ہی مقبول نہیں۔
یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے ساری مخلوق کے لئے معیاری ایمان قرار دیا۔
(2) امانت: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 119)۔
وقتِ نزول مہاجرین وانصار کے علاوہ اور کون تھا جس کی معیت کا حکم دیا جا رہا ہے۔
(3) عمل: حضور اکرمﷺ نے 23 برس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عملی زندگی جس سے سانچے میں ڈھالی تھی اللہ تعالیٰ کو وہ کچھ اس طرح پسند آئی کے اٹل فیصلہ دے دیا۔
السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْه الخ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 100)۔
بندے کا منتہائے مقصد اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے اور یہ وہ نعمت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی حیثیت بتا دی و رضوان من اللہ اکبر اللہ تعالیٰ کی رضا سب سے بڑی نعمت ہے تو یہاں فرمایا میں صرف تین جماعتوں سے راضی ہوں اول مہاجرین دوئم انصار سوئم ان دونوں کی سچے دل سے اتباع کرنے والے مہاجرین اور انصار کے وصف سے متصف ہونے کے لئے ایک خاص دور تھا جو بیت چکا اب کوئی اس گروہ میں شامل نہیں ہوسکتا تیسری جماعت قیامت تک آنے والے انسانوں میں سے وہ ہے جو سچے دل سے مہاجرین و انصار یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتباع کرے۔
یعنی قیامت تک ان کی اتباع کے بغیر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل نہیں ہو سکتی یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ایسی جماعت کہ ان کا ایمان دوسروں کے ایمان جانچنے کی کسوٹی اور دوسروں کے عمل کے قبول و عدم قبول کا مدار اس پر ہے کہ اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی اتباع کا جزبہ کس درجے کا ہے۔
(4) حضور والا جب نبی کریمﷺ نےنبوت کا اعلان کیا تو عرب کے لوگ تین گروہوں میں بٹ گئے۔
(1) مشرکین یہ حضورﷺ کے جانی دشمن تھے۔
(2) اہلِ کتاب (یہود و نصاریٰ) یہ حضورﷺ کو (معاذ اللہ) دجال سے تعبیر کرتے تھے۔
(3) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت یہ لوگ نزولِ قرآن کے حضورﷺ کی نبوت کے چشم دید گواہ ہیں پہلے دو گروہوں سے یہ توقع رکھنا کہ وہ اسلام کی دولت بعد میں آنے والی نسلوں کو منتقل کریں عبث ہے تیسرے گروہ کو اگر جھوٹا مان لیا جائے تو نبوت کا ثبوت کہاں سے ملے گا نزولِ قرآن کا گواہ کون ہوگا۔
(5) حضور والا اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت ناقابلِ اعتبار اور جھوٹی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ نے 23 برس میں کونسے انسان تیار کئے حضورﷺ کے یہاں سے جاتے ہی تین رہے وہ تقیہ کی دلدل میں پھنس گئے تو ثابت ہوا کہ حضورﷺ نے 23 برس میں ایک فرد بھی ایسا تیار نہ کیا جو سچی بات زبان پر لاسکے اس سے بڑھ کر نبی کریمﷺ کی توہین کا کوئی تصور ہو سکتا ہے۔
بادشاہ: واقعی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
کی عظمت کا قائل ہونا جُزوِ دین ہے۔
علوی صاحب آپ بیان فرمائیں:
علوی: حضور والا ہمارا عقیدہ یہ ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کچھ ایسے تھے جو دل و جان سے ایمان لائے اور یہ وہی تھے جو نبی کریمﷺ کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے بعد بھی ایمان پر قائم رہے۔ اور وہ سیدنا مقدادؓ سیدنا سلمانؓ اور سیدنا ابوزرؓ ہیں۔
ان کے علاوہ جتنے بھی تھے وہ دنیوی مفاد کی خاطر مسلمان ہوئے جب نبی کریمﷺ کی آنکھیں بند ہوئیں وہ مرتد ہوگئے جو سچے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مسلمان تھے ہم ان کے غلام ہیں۔
بادشاہ: آپ کے عقیدے کے مطابق ان تین سچے مسلمانوں سے دین نقل ہو کر آیا اور دنیا میں پھیلا۔
علوی: جی ہاں حضور یہی بات ہے۔
بادشاہ: کیوں نظامُ الملک کیا یہ بیان درست ہے؟
نظامُ الملک: حضور والا! عباسی صاحب اس پر روشنی ڈالیں۔
عباسی: حضور والا! علوی صاحب نے اس کی وضاحت نہیں فرمائی کہ جن کو یہ مرتد سمجھتے ہیں ان کے حق میں ان کا رویہ عقیدہ کیا ہے۔
علوی: حضور والا! ہم ان لوگوں پر سبِّ وشتم کرنا جائز سمجھتے ہیں۔
بلکہ ہم یہ کہتے ہیں ایسے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر جن میں خلفائے ثلاثہؓ شامل ہیں سبّ کرنا نہ کفر ہے نہ فسق ہے نہ گناہ کبیرہ ہے نہ صغیرہ ہے بلکہ جن پر اللہ لعنت کرے ان پر لعنت کرنا تو ثواب ہے۔
اِنَّ الَّذِیْنَ یَكْتُمُوْنَ مَاۤ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَ الْهُدٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا بَیَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْكِتٰبِۙ-اُولٰٓىٕكَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ یَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 159)
جو لوگ حقائق اسلام پر پردہ ڈالتے ہیں وہ لعنت کے مستحق ہیں۔
عباسی: حضور والا! پہلے کفر و فسق کی بحث طے ہونی چاہیے۔
سوال یہ ہے کیا زنا کفر ہے اور زنا کار کافر ہے؟ کیا سود کھانا کفر ہے اور سود خوار کافر ہے؟ کیا شراب پینا کفر ہے اور شرابی کافر ہے؟
علوی: حضور والا! یہ اعمال کفر نہیں اور ان کا مرتکب کافر بھی نہیں ہاں یہ گناہ ہے۔
عباسی: حضور والا! اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو چیز کفر نہ ہو کیا اس کا کرنا جائز اور حلال ہو جاتا ہے؟
اگر نہیں تو سبِّ و شتم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حرام کیوں نہیں؟۔
رہی دوسری بات حقائق اسلام پر پردہ ڈالنے والا مستحق لعنت ہے تو لعنت کا محل اور موقع تو دیکھ لینا چاہیئے سو وہ مواقع یہ ہیں۔
(1) قال ابو عبداللہ یا سلمان انکم علی دین من کتمه اعزہ اللہ ومن اذاعه اذله اللہ۔
یعنی اے سلمان تم ایسے دین پر ہو(دین شیعہ) کہ جس نے اس کو چھپایا اللہ تعالیٰ اسے عزت دے گا اور جس نے اس کو ظاہر کیا اللہ اسے ذلیل کرے گا۔
ظاہر ہے کہ بقول امام لعنت کا مستحق تو دین شیعہ ہے اور جو سارا دین ہی چھپائے وہ لعنت کے قابل کیوں نہ ہو۔
(2) عن ابی عبداللہ قال یا معلی اکتم امرنا ولم یذعہ اعز اللہ به فی الدنیا وجعله نورا بین عینیه فی الآخرۃ۔
لعنت کے مستحق تو وہ ٹھہرے جو سارا دین چھپائے اور وہ جو دین کو چھپا رکھنے کا حکم دیں اپنے اصول کے مطابق شیعہ لوگوں کو چاہیئے کہ لعنت کا وظیفہ ضرور کریں مگر اپنے دین پر کریں جو ظاہر کرنے کی چیز نہیں اپنے شیعوں پر کریں جو اس فعل کے مرتکب ہوتے ہیں اور اپنے ان پیشواؤں پر لعنت کریں جنھوں نے ان کو دین چھپا رکھنے کا حکم دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جو ان پر لعنت کرتا ہے۔
حضور والا شیعہ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دو گروہ میں بانٹ دیا مگر اللہ نے اس کی تقسیم نہیں کی جیسا کہ ابتداء میں ایمان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور عملِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سلسلے میں آیات پیش کر چکا ہوں اب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق اور ان کو دو گروہوں میں بانٹنے والوں کے متعلق نبی کریمﷺ کے اقوال پیش کرتا ہوں:
(1) قال ان اللہ اختار لی اصحابی فجعلھم اصحابی و اصھاری و سیجئی قوم من بعدی ینقصونھم ویسبو نھم فان ادرکتموھم فلاتناکحوھم فلا تناکحوھم ولا تواکلوھم ولا تشا ربوھم ولا تصلوا معھم ولا تصلوا علیھم۔
(2) قال النبیﷺ ان اللہ اختارنی و اختارلی اصحابی وجعل لی منھم وزراء و انصار روانه سیخرج فی اٰخر الزمان قوم یبغضونھم فلا تواکلوھم ولا تشاربوھم ولا تجالسوھم ولا تصلوا علیھم ولا تصلوا معھم۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے نبوت کے لیے مجھے انتخاب فرمایا پھر میرے مشن کے لیے میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین انتخاب فرمائے ان سے کسی کو میرا وزیر بنایا کسی کو معاون بنایا کسی کو میرا خُسر بنایا مگر آخری زمانے میں ایک قوم آئے گی جو اللہ کے ان منتخب افراد سے بُغض رکھے گی انہیں بُرا بھلا کہے گی ان میں نُقص نکالے گی ان لوگوں کے ساتھ کھانا پینا میل جول ممنوع ہے نہ ان کے ساتھ مل کے نماز پڑھنا نہ ان کی نماز جنازہ پڑھنا۔
(3) قال النبیﷺ لاتسبوا اصحابی فمن سبّ اصحابی فعلیه لعنۃ اللہ والمائکۃ والناس اجمعین لا یقبل اللہ یوما القیامۃ منه صرفا ولا عدل۔
یعنی میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جو لوگ بُرا بھلا کہتے ہیں ان پر اللہ کی فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ان کا کوئی عمل قیامت کے دن قبول نہ ہوگا۔
حضور والا! غور فرمائیے نبی کریمﷺ نے لعنت کے محل کی نشاندہی فرما دی لعنت کا محل بُغضِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہے اور یہ لعنت صرف شیعہ کے حصے میں آئی جس پر اللہ اور فرشتے لعنت بھیجیں وہ بھلا لعنت کا مستحق کیوں نہ ہو۔
(4) قال النبیﷺ یجمع الناس غداً یوم القیامۃ فی المواقف ثم یلتیقط منھم قذفۃ اصحابی ومغبضوھم فیحشر الی النار۔
یعنی کل قیامت کو اللہ تعالیٰ لوگوں کو جمع کرے گا ان میں سے لوگوں کو الگ کرے گا جو میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بُغض رکھنے والے ہیں پھر انہیں جہنم میں داخل کر دے گا۔
ان چار احادیثِ نبویﷺ کا حاصل یہ ہے کہ:
(1)۔ اللہ کے مقرب و مُختار نبی کریمﷺ اور پھر حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں۔
(2)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بُغض رکھنے والے ان کو سبّ و شتم کرنے والے جہنمی ہیں۔
(3)۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض رکھنے والوں (شیعوں) کے ساتھ کھانا پینا میل جول حرام ہے ان کا ذبیحہ حرام ہے ان کے ساتھ نکاح حرام ہے ان کی مجلس میں جانا حرام ہے ان کی نماز جنازہ پڑھنا حرام ہے۔
(4)۔ ان پر اللہ کی لعنت فرشتوں کی لعنت اور تمام انسانوں کی لعنت ہے یہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔
علوی: حضور والا! نبی کریمﷺ نے خود بُعضِ اصحاب پر لعنت کی ہے مثلاً فرمایا: جھز واجیش اسامه لعن اللہ من تخلف عنھا۔
عباسی: حضور والا! ان حضرات کی مجبوری ہے کہ قرآنِ کریم سے جب ان کا کوئی اختراعی مسئلہ ثابت نہیں ہوسکتا تو قرآن کے الفاظ کے ساتھ اپنے پاس سے اپنی مرضی کے الفاظ بڑھا کر کہہ دیتے ہیں واللہ ھکذا نزلت اسی طرح یہاں حدیثِ رسولﷺ کے ساتھ سلوک کیا ہے لعن اللہ من تخلف عنھا کا جُملہ نبی کریمﷺ کا فرمودہ نہیں ان لوگوں نے اپنی فطرت سے مجبور ہو کر حدیثِ رسولﷺ سے یہ سلوک کیا ہے کسی مستند کتاب میں اس حدیث میں یہ الفاظ دکھا دیں۔
حضور والا! اس پر یوں بھی غور کیا جائے تو حقیقت سامنے آ جاتی ہے جھز وجیش اسامه کی عموم کلام میں متکلم داخل ہے یا نہیں یہ کہیں گے خارج ہے یعنی نبی کریمﷺ عموم کلام سے خارج ہوئے تو آپ کا جانشین بھی خارج ہوا۔
پھر یہ کہ جب یہ لشکر واپس آیا تو نبی کریمﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو مسلمانوں کو نماز پڑھانے کے لیے امام مقرر فرمایا اگر لعن اللہ من تخلف حضورﷺ نے فرمایا تو خود ہی اس کو تمام مسلمانوں کا امام بنایا جس پر اللہ کی لعنت کی تہدید سنائی کیا ملعون بھی قابلِ امامت ہوتا ہے کیا اللہ کا رسول یہ اقدام کر سکتا ہے۔
پھر کیا یہ حکم وجوب متعین کے لیے تھا کہ متعین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے حکم تھا جب وجوب متعین کے لیے نہیں تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ و سیدنا عمر فاروقؓ کا نام کیوں لیا جاتا ہے۔
پھر اس اختراعی جملہ کو بفرض ماحول درست مان لیا جائے تو لفظ من عموم کے لیے ہے جس میں سیدنا علیؓ سیدنا سلمانؓ سیدنامقدادؓ اور سیدنا ابوذرؓ بھی شامل ہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ و سیدنا عمر فاروقؓ کا نام تو نہیں ہے۔
بادشاہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے متعلق جانبین کے خیالات معلوم ہوگئے یہاں ایک ضمنی مسئلہ کی وضاحت بھی ضروری ہے وہ یہ کہ خلفائے راشدینؓ اور خلافت کی متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں۔
علوی صاحب: پہلے آپ بیان کریں۔
علوی: حضور والا! اس مسئلہ میں ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خلافتِ منصوصی ہے حضور اکرمﷺ نے بحکمِ الٰہی سیدنا علیؓ کو خلیفہ مقرر فرمایا تھا خلیفہ اوّل وہی ہے خلافت ان کا حق تھا دوسرے لوگوں نے ان سے خلافت کا حق غضب کیا اسلام کو بدنام کیا ان کی فتوحات نے اسلام دشمنی مول لی۔
عباسی: اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ کا تقرر مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اللہ و رسولﷺ نے خلیفہ کے اوصاف کو نشاندہی فرما دی اور امت کو یہ ذمہ داری سونپ دی کہ اصحاب حل و عقد باہمی مشورہ سے ان اوصاف کا حامل خلیفہ منتخب کر لیں خلافت کوئی منصوصی ہی نہیں علوی صاحب نے نص بیان نہیں فرمائی۔
علوی: نبی کریمﷺ کا فرمان من کنت مولاہ خلافت سیدنا علیؓ کے لیے نص ہے۔
عباسی: حضور والا! لغت میں لفظ مولیٰ کے 22 معنیٰ ہیں یعنی یہ لفظ کئی معنوں میں مشترک ہے اسے نص قرار دینا ہی نری جہالت ہے نص تو یوں ہوسکتی ہے کہ جیسے ارشادِ ربانی ہے:
يَـٰدَاوُدُ إِنَّا جَعَلۡنَـٰكَ خَلِيفَةً۬ فِى ٱلۡأَرۡضِ الخ (سورۃ ص آیت نمبر 26)
اسی طرح ارشادِ ربانی یا ارشادِ نبویﷺ یہ ہوتا یا علیؓ انا جعلنٰک خلیفۃ تو اسے نص قرار دیا جاسکتا تھا۔
پھر شیعہ کے نزدیک امامت تو نبوت سے بھی افضل ہے تو اس کے لیے دلائل قطعی درکار ہیں دلائل ظنی سے یہ منصوص نہیں بن سکتا نص یہ ہے کہ ما سیق الکلام لاجله لہٰذا صریح نص پیش کریں یا حدیثِ رسولﷺ متواتر کے وہ مدلول مطابقی قطعی دلیل ہو۔
رہی دوسری بات کے خلفائے ثلاثہؓ کی فتوحات نے اسلام دشمنی مول لی اس میں علوی صاحب کا یہ اعتراف پایا جاتا ہے کہ خلفائے ثلاثہؓ نے کفار کے ملک فتح کیے اور یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ سیدنا علیؓ کی خلافت کے دور میں سلطنت اسلامی میں ایک انچ زمین کا اضافہ بھی نہیں ہوا۔
رہا فحتوحات کے اثرات کا معاملہ تو شیعہ کہتے ہیں کہ:
کون کثیر من البلاد فتح فی خلافۃ عمرؓ و تلقن اصحاب تلک البلاد و سنن عمرؓ فی خلافۃ من نوابه رھبۃ ورغبۃ کما یلقنوا شھادۃ ان لا الٰه الا اللہ وان محمد رسول الله فنشاء علیھا الصغیر ومات علیھا الکبیر ولم تعتقں اصحاب تلک البلاد التی فتحت ان عمرؓ تقدم علی تغییر شیئی من سنن نبیھم ولا احد من المسلمین یوافقه علیٰ ذلک واضل عمرؓ نوابه التابعین له اصل نوابه من تبعھم۔
یعنی سیدنا عمر فاروقؓ کے زمانے میں کثیر تعداد میں شہر اور ملک فتح ہوئے وہاں کے باشندوں کو سیدنا عمر فاروقؓ کے مذہب کی تعلیم دی گئی جیسے انہیں اقرار شہادتین کی تعلیم دی گئی اسی سیدنا عمر فاروقؓ کے مذہب پر بچے پیدا ہوئے اور نشوونما پائی اور اسی کے مذہب پر بڑے لوگ عمر گذار کے چل دیے ان مفتوحہ لوگوں کو علم نہ تھا کہ سیدنا عمرؓ اپنے نبیﷺ کا دین تبدیل کر چکا ہے سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے ماتحت حاکموں کو گمراہ کیا اور انہوں نے ساری مخلوق کو گمراہ کیا۔
حضور والا! یہ آپ کی سلطنت بھی سیدنا عمر فاروقؓ کی فتوحات میں داخل ہے شیعہ کے مطابق آپ کو بھی یہ گمراہی ورثے میں ملی ہے صرف یہ ملک ہی نہیں تمام دیگر ممالک اسلامیہ کے لوگ جو سیدنا عمر فاروقؓ کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے سب بقول شیعہ گمراہی کو ہی ورثے میں حاصل کیے چلے جا رہے ہیں تو اسلام کہاں پھیلا اور کب پھیلا؟۔
پھر اس کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ سیدنا علیؓ نے اپنے عہد میں اس سنِّت سیدنا عمر فاروقؓ میں کوئی تبدیلی کی؟تاریخ شاہد ہے اور شیعہ کُتب میں سیدنا علیؓ کا اعتراف موجود ہے کہ میں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیدنا علیؓ خود معاذ اللہ گمراہی کو سینے سے لگائے عمر گزارتے رہے اور اپنی ساری رعیت کو گمراہی میں پھلتے پھولتے دیکھ کر ان کی غیر دینی میں کوئی حرکت پیدا نہ ہوئی۔
پھر ایک اور پہلو یہ ہے اگر یہ حضرات بقول شیعہ غاصب تھے تو سیدنا علیؓ نے ان کی بیعت کیوں کی؟
علوی:حضور والا! اس وقت حالات ایسے تھے کہ سیدنا علیؓ بیعت نہ کرتے اور مخالفت کرتے تو امت میں انتشار پیدا ہوتا لہٰذا آپ نے تقیہ کر کے بیعت کر لی۔
عباسی: حضور والا! شیعہ اگر شیرِ خدا سیدنا علیؓ کو ایسا ہی بزدل مانتے ہیں تو چلیئے خلفائے ثلاثہؓ کے عہد میں تو ڈر کے مارے تقیہ کی پناہ میں دن گزار دئیے۔
مگر اپنے عہدے خلافت میں ڈر کس کا تھا؟ تقیہ کر کے گمراہی کو کیوں قبول کیے رکھا؟ ڈر کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ایک ہمہ مقتدر حکمران بھی ڈر سے کانپتا رہے تو اس کی حکومت کس کے لیے رحمت ثابت ہوگی۔
پھر ایک اور پہلو سامنے آتا ہے کہ بقول شیعہ سیدنا علیؓ ایسے ہی بزدل تھے خدانخواستہ اگر حضورﷺ کے بعد مسیلمہ کذاب یا اسی قسم کا کوئی کافر حکومت پر قبضہ کر لیتا تو سیدناعلیؓ اس کی بیعت بھی کر لیتے تو تقیہ وہاں ڈھال کا کام بھی دیتا اور اسلام تو پہلے مرحلے میں ہی ختم ہو جاتا۔
پھر ایک اور پہلو قابلِ غور ہے کہ سیدنا علیؓ نے تقیہ کر کے خلفائے ثلاثہؓ کی بیعت کئے رکھی تو سیدنا حسینؓ نے تقیہ کر کے اپنی جان کیوں نہ بچائی شیرِ خدا باپ ہے یا بیٹا؟ اور ان دونوں میں سے حق پر باپ تھا یا بیٹا؟۔
پھر ایک بات قابلِ غور ہے کہ جہاں شیعوں کے ہاں قولِ امام حجت ہے وہاں فعل معصوم بھی حجت ہے تو جب سیدنا علیؓ نے بقول شیعہ تقیہ کرکے خلفائے ثلاثہؓ کے حق ہونے پر بیعت کر لی تو تم اپنے امام کے عمل کو حجت قرار دے کر تقیہ کر کے سہی خلفائے ثلاثہؓ کی خلافت کو حق کیوں نہیں تسلیم کرتے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیعہ کے نزدیک عمل معصوم کی مخالفت کرنا ہی اصل دین ہے ان کے دوسرے امام نے اپنی آزاد مرضی سے سیدنا امیر معاویہؓ کو حکومت کیوں سونپ دی۔
ان کے تیسرے امام نے سیدنا امیر معاویہؓ کی بیعت کیوں کی اور 20 برس تک بقول شیعہ کے ایک کافر کے وظیفہ خوار کیوں رہے۔
پھر ایک اور پہلو قابلِ غور ہے کہ سیدنا علیؓ اگر اتنے طویل تقیہ کہ عادی تھے تو اس کی کیا ضمانت ہے کہ انہوں نے لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ بھی تقیہ کر کے نہ پڑھا ہو پھر شیعہ کو یہ مشکل پیش آئے گی کہ وہ اپنے امام کا کوئی مذہب بھی ثابت نہیں کر سکیں گے اور واقعی نہیں کرسکتے۔
بادشاہ: شیعہ مذہب میں تقیہ تو بڑی اہمیت کا حامل نظر آتا یہ عقیدہ شیعہ مذہب کا سنگِ بنیاد محسوس ہوتا ہے ذرا اس پر تفصیلی بحث کی جائے عباسی صاحب کہیے:
عباسی :حضور والا! میں تو پہلے عرض کرچکا ہوں کہ شیعہ کے ہاں دین کے دس حصوں میں سے نو حصے تقیہ میں پنہاں ہیں۔
علوی صاحب ہی اپنے اس متاعِ عزیز کے مناقبات بیان فرمائیں:
علوی: عالی جاہ ہمارے ائمہ کا یہ فرمان ضرور ہے کہ التقیه من دینی ومن دین آبائی لادین لمن لا تقیۃ له کہ تقیہ میرا دین ہے اور میرے آباؤ اجداد کا دین ہے اور جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں لیکن اس کا مطلب وہ نہیں جو عباسی صاحب بیان کرتے ہیں۔
بادشاہ: آپ مطلب کی فکر نہ کریں اپنی بات کہتے جائیں۔
علوی: حضور والا! یہ ہمارے دین کا اہم عقیدہ ہے۔بادشاہ:عباسی صاحب! آپ اس کے متعلق کچھ وضاحت کر سکتے ہیں۔
عباسی: عالی جناب! تقیہ کی اہمیت جو شیعہ کے ہاں مسلّم ہیں اس کی وجہ ان کی ایک مجبوری ہے اور وہ یہ کہ اس سیاسی تحریک کا بنیادی نعرہ یہ ہے کہ سیدنا علیؓ خلیفہ بلافصل ہیں اور خلفائے ثلاثہؓ غاصب ہیں مگر سیدنا علیؓ کا خود ان حضرات کی خلافت کا حق تسلیم کر لینا اور ان کی بیعت کر لینا ان کے اس دعویٰ کی عملی تردید ہے جس سے یہ بنیادی ھباء منثورا ہو جاتی ہے اس لئے انہیں یہ عقیدہ وضع کرنا پڑا کہ سیدناعلیؓ نے تقیہ کے طور پر بیعت کی تھی چنانچہ ان کا عقیدہ ہے کہ:
مامن الامۃ احد بایع مکرھا غیر علی واربعتنا۔
کہ پوری امت میں کوئی شخص بھی نہیں پایا جاتا جس نے آزاد مرضی سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیعت نہ کی ہو سوائے سیدنا علیؓ اور ہمارے چار آدمیوں کے۔
اس سے ظاہر ہے کہ نبی کریمﷺ کی پوری امت میں سے صرف پانچ آدمیوں نے تقیہ کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ تقیہ کہ عقیدہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
کس تاریخی جھوٹ پر بس نہیں کہ بلکہ خود اپنے سیدنا علیؓ کی زبانی اس کا اعتراف کرایا گیا۔
ثم نادی قبل ان یبایع یابن ام ان القوم استضعفونی وکادوا یقتلوننی۔
یعنی سیدنا علیؓ نےفرمایا! اے میرے ماں جائے قوم نے مجھے کمزور سمجھا اور قریب تھا مجھے قتل کر دیتے۔
ثم تناول ید ابوبکرؓ فبایع۔
یعنی پھر آپ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا ہاتھ پکڑ کر بیعت کر لی یہ ہے وہ تصویر جو شیعہ نے اپنے پہلے امام کی پیش کی کہاں وہ شان اسد اللہی کہاں دروازہ خیبر اکھاڑنا اور کہاں اپنے قتل ہونے کے خوف سے بقول شیعہ وہ کچھ کرنا جو بقول شیعہ کفر سے کم نہیں۔
لہٰذا یہ مجبور تھے کہ تقیہ کا عقیدہ ایجاد کر کے سیدنا علیؓ کے اپنے بنائے ہوئے امیج پر سے غبار دور کرتے پھر اس میں مزید رنگ بھرنے کے لئے روایات گھڑ لی گئیں کہ امام نے فرمایا
التقیۃ من دین اللہ قلت من دین اللہ؟ قال ای واللہ من دین اللہ اوران تسعۃ اعشارالدین فی التقیۃ۔
یہ قدرتی بات ہے کہ ایک جعل سازی کو چھپانے کے لئے کئی جھوٹ بولنے پڑتے ہیں اس لئے شیعہ نے اس پہلی جعل سازی کو چھپانے کے لیے تقیہ کا اتنا پروپگینڈا کیا کہ دین شیعہ از اول تا آخر تقیہ ہی تقیہ بن گیا۔
بادشاہ: اب میں عقیدہ رسالتﷺ کے متعلق جانبین کے عقائد سننا چاہتا ہوں عباسی صاحب آپ بیان کریں۔
عباسی: حضور والا! ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے مختلف زمانوں میں اپنے برگزیدہ بندے مبعوث فرماتا رہا اور سب سے آخر محمد رسولﷺ کو آخری نبی اور رسول بنا کر بھیجا اور آپ پر دین مکمل کر دیا ہر نبی مامور من اللہ ہوتا ہے مفترض الطاعتہ ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتا ہے اور ہر نبی آتا اس لیے ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے
وَمَآ أَرۡسَلۡنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذۡنِ ٱللَّهِۚ الخ (سورۃ النساء آیت نمبر 64)۔
ہر شخص کی رائے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے مگر نبی کی رائے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔
علوی: حضور والا! ہمارا عقیدہ بھی یہی ہے ہاں اتنا اضافہ ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور نبیﷺ کے وصی سیدنا علیؓ ہیں۔
عباسی: حضور والا! علوی صاحب نے بات پوری نہیں بیان کی اوّل یہ کہ یہ ختمِ نبوت کے قائل نہیں بلکہ اجرائے نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں.
علوی: حضور والا! یہ تہمت ہے ہم ختمِ نبوت کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
عباسی: حضور والا! آپ نے نوٹ فرمایا کہ لفظوں سے کھیلتے ہیں جھوٹ کا نام تقیہ رکھا پھر تقیہ کو 9/10 حصہ بنا دیا۔
اسی طرح ان کا عقیدہ یہ ہے کہ امام مامور من اللہ ہوتا ہے مفترض الطاعتہ ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتا ہے اور یہ تینوں خصوصیات نبوت کی ہیں لہٰذا یہ لوگ نبی کریمﷺ کے بعد 12 مزید انبیاء کی نبوت کے قائل ہیں صرف نام بدلا ہے کہ نبی نہ کہا امام کہا۔
چنانچہ ائمہ کے متعلق ان کا عقیدہ یہ ہے۔
(1)۔ عن محمد سنان قال کنت عند ابی جعفر الثانی فاجریت اختلاف الشیعۃ فقال یا محمد ان اللہ تبارک و تعالیٰ لم یزل منفردا ابوحد انیته ثم خلق محمداًﷺ وعلیاًؓ و فاطمۃؓ فمکثوا الف دھرثم خلق جمیع الاشیاء فاشھدھم خلقھا واجری طاعتھم علیھا وفوض امورھا الیھم فھم یحلون ما یشاؤن و یحرمون ما یشاؤن ولن یشاؤ الا ماشاءاللہ۔
محمد سنان کہتا ہے میں سیدنا محمد تقی کے پاس بیٹھا تھا شیعوں کے مذہبی اختلاف کا ذکر چلا فرمایا اے محمد اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں منفرد تھا اس نے محمد ﷺ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کو پیدا کیا اور ان کو اپنی مخلوق پر گواہ بنایا اور ان کی اطاعت مخلوق پر فرض کی اور مخلوق کے تمام معاملات ان کے سپرد کیے یہ لوگ جس چیز کو چاہے حلال کہیں جسے چاہیں حرام کہیں یہ وہی چاہتے ہیں جو خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔
حضور والا! یہ ہے شیعوں کے نزدیک امامت کا مقام
(2)۔ اب پہلے امام کے اختیارات سنئیے:
سیدنا جعفر فرماتے ہیں
ماجاء به علیؓ اخذ به وما نھی عنه انتھی عنه جری له من الفضل مثل ماجری لمحمدﷺ و لمحمدﷺ الفضل علی جمیع ما خلق اللہ عزوجل والمعتقب علیه فی شیئی من احکامه کالمعتقب علی اللہ وعلی رسوله والراد علیه فی صغیرۃ و کبیرۃ علی حد الشرک باللہ کان امیر المومنینؓ باب اللہ الذی لایؤتی الامنه وسبیله الذی من سلک بغیره لیھلک وکذلک یجری لائمۃ الھدی واحد بعد واحد۔
میں ان احکام پر عمل کرتا ہوں جو سیدنا علیؓ لائے ہیں اور ان کاموں سے باز رہتا ہوں جن سے سیدنا علی نے منع کیا ان کی شان محمدﷺ کی مثل ہے اور محمد رسول اللہﷺ کی فضیلت تمام مخلوق پر ہے سیدنا علیؓ کے حکم پر اعتراض کرنے والا ایسا ہے جیسے خدا و رسولﷺ کے حکم پر اعتراض کرنے والا اور علی کی کسی چھوٹی بڑی بات کا انکار کرنا اللہ سے شرک کرنے کے برابر ہے سیدنا علیؓ اللہ کا دروازہ ہے جس کے بغیر کوئی شخص اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا وہ اللہ کا راستہ ہیں جو اس راہ کے بغیر کسی دوسری راہ پر چلا ہلاک ہوا اسی طرح اماموں کی عظمت اور شان ہے امام اول کو رسولﷺ کے مقام پر کھڑا کر کے باقی تمام اماموں کے لیے وہی مقام تسلیم کیا اور یہ سیدنا جعفر کا قول ہے۔
(3)۔ اماموں کے پاس سامانِ امامت یا نبوت بھی موجود ہے۔
ثم قال یا ابا محمد وان عندنا الجامعۃ وما یدریھم ما الجامعۃ قال قلت جعلت فداک وما الجامعۃ قال صحیفۃ طولھا سبعون زراعا یذراع رسول اللہﷺ واملاءہ من فیه وخط علی بیمنیه فیھا کل حلال و حرام وکل شیئی یحتاج الیه الناس۔
پھر فرمایا اے ابو محمد ہمارے پاس جامعہ بھی ہے اور لوگ کیا جانے جامعہ کیا ہے
(6)۔ یہ تو اماموں کا مستقل سرمایہ ہے جو اتنا ضیخم ہے کہ کسی نبی کو اتنا سرمایہ نہ ملا خاتم النبیینﷺ کو صرف قرآنِ کریم ملا مگر اماموں کے پاس ایک فرضی قرآن کے علاوہ جامعہ جفر اور مصحفِ سیدہ فاطمہؓ بھی ہے جو قرآن سے تین گنا ہے اسی پر بس نہیں سیدنا باقر فرماتے ہیں۔
انه لینزل فی لیلۃ القدر الی اولی الامر نفسهٖ بکذا وکذ وفی امر الناس بکذا وکذا۔
شب قدر میں بلاشبہ امام کی طرف امام کی ذات کے لیے اور لوگوں کی ہدایت کے لیے احکام نازل ہوتے ہیں۔
(7)۔ یا خثیم نحن شجرۃ النبوۃ و بیت الرحمۃ و مفاتیح الحکمۃ ومعدن العلم و موضع الرسالۃ و مختلف الملائکۃ۔
سیدنا جعفر نے فرمایا اے خثیمہ ہم نبوت کے درخت ہیں رحمت کے گھر ہیں حکمت کی کنجیاں ہیں علم کی کان ہیں رسالت کا مقام اور جگر ہیں ہمارے پاس فرشتوں کی آمدورفت رہتی ہے۔
(8)۔ تنزل الملائکۃ والروح الی الاوصیاء یأتونھم بامر
لم یکن رسول اللہ قد علمه۔
اماموں کی طرف فرشتے اور جبرائیلؑ نازل ہوتے ہیں ان کو ایسے امور بتاتے ہیں جن کا محمد رسول اللہﷺ کو بھی علم نہیں تھا۔
(9)۔ وکون ائمتنا علیھم السلام افضل من سائر الانبیاء ھوالذی لا یرتاب فیه من تبتع اخبارھم علی وجه الازعان والیقین والاخبار نی ذلک اکثر من ان تحصی وعلیه عمدۃ الامامیۃ۔
ہمارے شیعہ اماموں کا تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل ہونا وہ حقیقت ہے کہ جس نے شیعہ احادیث کو پورے یقین کے ساتھ پڑھا وہ اس میں شک نہیں کر سکتا۔اس بارے میں اتنی حدیثیں ہیں جن کا شمار نہیں ہوسکتا اور اسی عقیدہ پر امامیہ فرقہ کا مدار ہے۔
حضور والا! اماموں کا مامور من اللہ ہونا مفترض الطاعتہ ہونا اور اماموں پر وحی کا سلسلہ جاری رہنا ثابت ہوگیا اس پر مستزاد یہ کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق اماموں کا تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل ہونا بھی ثابت ہوچکا اور اماموں کو ان باتوں کا علم ہونا بھی ثابت ہوگیا جن کا معاذ اللہ محمد رسول اللہﷺ کو بھی علم نہیں تھا۔
بادشاہ: وزیر! میں یہ کیا سن رہا ہوں یہ افسانہ ہے خواب کی باتیں ہیں یا حقیقت ہے؟۔
وزیر: حضور والا! ان کی یہ باتیں تو اکثر ان کی مایہ ناز کتاب اصولِ کافی میں موجود ہیں اور یہ کتاب امام کی مصدقہ ہے۔
علوی: حضور والا! عباسی صاحب نے جو روایات بیان کی ہیں الفاظ تو وہی ہیں جو ائمہ نے فرمائے مگر مانی وہ نہیں جو عباسی صاحب نے بیان کیے ہمارا عقیدہ اجرائے نبوت کا نہیں۔
بادشاہ: الفاظ آپ کے اماموں کے ہیں تو مفہوم سمجھنے کے لیے ہم عباسی صاحب کے محتاج نہیں الفاظ کا مفہوم ہم خود خوب سمجھتے ہیں۔
رسالت کے متعلق شیعہ کا عقیدہ معلوم ہوگیا اب توحید کے متعلق پہلے آپ بیان فرمائیں۔
علوی: حضور والا! ہمارے ہاں تمام جہات سے توحید کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔
(اول) وہ ذات کے اعتبار سے واحد ہے واجب الوجود ہے۔
(دوم) وہ صفات کے اعتبار سے واحد ہے لا شریک ہے۔
(سوم) توحید فی العبادۃ کہ اس کہ بغیر کسی کی عبادت جائز نہیں۔
(چہارم) اس کی صفات ثبوتیہ مثلاً علم قدرت ارادہ حیات سب اس کی عین ذات ہے۔
(پنجم) اس کی صفات ثبوتیہ سے ایک صفت عدل ہے۔
عباسی: حضور والا! توحید کے بارے میں ہمارا عقیدہ سورۃ اخلاص اور آیۃ الکرسی میں جامعیت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے مگر شیعہ کا عقیدہ جو علوی صاحب نے بیان کیا وہ اس سے بالکل مختلف ہے جو ان کی بنیادی کتابوں میں درج ہے،مثلاً
(1) لانه تعالیٰ جسم کاجسام وانه فی صورۃ شاب حسن الصورۃ ینزل کل لیلۃ جمعۃ راکباً علی فیک برامر الارض الی الجمعۃ الاخریٰ حتیٰ انھم ربما وصنعو الحمارہ شعیرۃ فوق سطوحھم وبعضھم صنعوا له شریکا فی التمر۔
محقق بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ جسم ہے مثل دوسرے اجسام کے نہایت خوبصورت جوان کی طرح ہے اور گدھے پر سوار ہو کر ہر جمعہ کی رات کو نازل ہوتا ہے اور زمین کے امور کی تدبیر فرماتا ہے جو دوسرے جمعہ تک چلتے ہیں حتیٰ کہ وہ خدا کے گدھے کے لیے مکانوں کی چھتوں پر جَو کے دانے ڈال رکھتے ہیں اور بعض لوگ جو میں کھجوریں بھی ملا دیتے ہیں۔
یہ ہے اللہ کی ذات کے متعلق عقیدہ۔
(2) اللہ کی صفات کے متعلق ایک عقیدہ بَداء کا ہے کہ خدا تعالیٰ بھول جاتا ہے اور جاہل بھی ہے (معاذ اللہ) اور جب کوئی کام ہوچکا ہے تو اس کو خبر ہوتی ہے اور یہ عقیدہ رکھنا اتنا ضروری ہے کہ:
القول بالبداء کما قال اصحابنا وفی اخبارنا عن الائمۃ انه ماعبداللہ بشیئ مثل البد وان اللہ لم یرسل بنیا حتیٰ اقرللہ بالبداء ۔
علمائے شیعہ نے بیان کیا اور ائمہ کی حدیثوں میں ہے کہ خدا کی عبادت کا حق پورا یوں ادا ہوتا ہے کہ اسے جاہل مان لیا جائے خدا نے کوئی ایسا نبی نہیں لیا جس سے بَداء اقرار نہ لیا ہو یعنی جب وہ خدا کے جاہل ہونے کا اقرار کرتا ہے تب اسے نبی بنایا جاتا۔
(3) جہاں تک لاشریک ہونے کا عقیدہ ہے اس کی تفصیل یہ ہے:
قال علی علیه السلام کنت مع ابراہیم فی النار وانا الذی جعلتھا بردا و سلاما وکنت مع النوح فی السفینۃ فانجیته من الغرق وکنت مع موسیٰ فعلمته التوراۃ والظقت عیسیٰ فی المھد وعلمته الانجیل وکنت مع یوسف فی الجب فانجیته من کیدا خوته وکنت مع سلیمان علی البساط وسخرت له الریاح۔
سیدنا علیؓ نے فرمایا میں آگ میں حضرت ابراہیم علیہ اسلام کے ساتھ تھا آگ کو ٹھنڈا اور سلامت میں نے بنایا میں حضرت نوح علیہ اسلام کے ساتھ کشتی میں تھا کشتی کو غرق ہونے سے میں نے بچایا میں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کے ساتھ تھا میں نے انہیں تو رات پڑھائی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے پنگھوڑے میں نے باتیں کرائیں۔ میں حضرت یوسف علیہ اسلام کے ساتھ تھا کنویں میں میں نے انہیں بھائیوں سے بچایا اور حضرت سلیمان علیہ اسلام کے ساتھ تخت پر میں ہوتا تھا ہوا کو میں نے مسخر کر رکھا تھا پھر بھی اللہ لا شریک ہے۔
علوی: حضور والا! اہلِ سنّت نے اللہ کے متعلق عجیب عقائد بنا رکھے ہیں مثلاً خدا اپنا پاؤں جہنم میں رکھے گا وہ سرد ہو جائے گی۔
عباسی: حضور والا! جنت دوزخ مکلّفین کے لیے ہیں دوزخ محلِ غضب ہے جنت محلِ رحمت ہے جیسا کہ اس کی ذات بے مثل ہے اسی طرح اس کا قدم بھی بے مثل و بے مثال ہے مراد یہ کہ جنت اور دوزخ میرے قدم قدرت کے نیچے ہیں محاورے میں کہتے ہیں فلاں کا سر میرے قدموں کے نیچے ہیں یا جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے مگر محاورہ کی بات سمجھنا علم کا کام ہے یہ تو بات وہی بنی کہ "شعر مرا بمدرسہ کہ برد"۔
حضور والا! میں شیعوں کا عقیدہ توحید بیان کر رہا تھا سو عرض ہے۔
ان الائمۃ یعلمون علم ما کان وما یکون وانه لایخفیٰ علیھم شیئی صلوات اللہ علیھم۔
امام کو ماضی اور مستقبل کا پورا پورا علم ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی چیز امام سے مخفی نہیں ہوتی۔
یہ توحید فی العلم ہوئی۔
بادشاہ: توحید کے عقیدہ کا عجیب نقشہ ہے کہ ایک طرف اللہ کے علم کو ناقص تسلیم کرنا ضروری قرار دیا گیا تو دوسری طرف اماموں کا علم محیط علیٰ کل شی ثابت کر کے ائمہ کو مقام الوہیت اور فائز کر دیا گیا ہے گویا شرک کا نام توحید رکھ دیا گیا ہے عقیدہ توحید کے ساتھ اس سے بڑھ کر مذاق کیا ہوسکتا ہے۔
اچھا اب آپ حضرات ایمان بالکتب کے متعلق اپنا اپنا عقیدہ بیان کریں۔
علوی صاحب پہلے آپ بولیں:
علوی: عالیجاہ! ہمارا عقیدہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی ہدایت کے لیے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام پر کتابیں نازل کرتا رہا قرآنِ کریم اللہ کی آخری کتاب ہے۔
عباسی: اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ نے روزِ اول حضرت آدم علیہ السلام سے فرمایا تھا:
فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًى فَمَنْ تَبِـعَ هُدَایَ فَلَاخَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَلَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
(سورۃ البقرہ: آیت 38)
پھر اللہ تعالیٰ نے اس ارشاد کے مطابق ہر زمانے میں انبیاء علیہم السلام مبعوث فرمائے اور ان پر کتابیں اور صحف نازل فرمائے وہ تمام کتابیں اللہ کی طرف سے تھی اور حق تھیں تا آنکہ آخری نبیﷺ پر قرآن نازل فرمایا جو قیامت تک تمام انسانوں کے لیے مکمل کتاب ہدایت ہے۔
قرآنِ کریم کی دو صفات پر بالخصوص ایمان لانا ضروری ہے کہ اوّل یہ کتاب محفوظ اور جوں کی توں موجود ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گی۔
دوم یہ کہ ہدایت کے لیے قرآن اس کے علاوہ کسی اور منزل من اللہ کتاب کی احتیاج نہیں وہ شیعہ ان دونوں امور پر ایمان نہیں رکھتے۔
علوی: حضور والا! ہم پر یہ بہتان ہیں ہم قرآن کو کامل و محفوظ سمجھتے ہیں۔
عباسی: عزت مآب! علوی صاحب جو کچھ فرما رہے ہیں اسے ان کی ذاتی رائے کہا جا سکتا ہے مگر شیعہ عقیدہ یہ نہیں ہے۔
علوی: حضور والا! میں آپ کو کیسے یقین دلاؤں کہ یہ میری رائے نہیں بلکہ ہمارا عقیدہ یہی ہے۔
بادشاہ: عباسی صاحب! کہیے آپ کے پاس اس امر کی کیا دلیل ہے کہ یہ علوی صاحب کی ذاتی رائے ہے ان کے مذہب کا عقیدہ نہیں۔
عباسی: عالیجاہ! یہ تو ثابت ہوچکا ہے کہ شیعہ مذہب کے ماخذ اللہ رسول نہیں بلکہ وہ روایات جو اماموں سے منسوب ہیں لہٰذا اس مذہب کا عقیدہ وہ ہوگا جو امام کا ارشاد ہوگا کسی عالم کی رائے کو عقیدہ نہیں کہا جاسکتا ان کے امام کا ارشاد ہے:
ان القرآن الذی جاء به جبرئیلؑ الی محمدﷺ عشرۃ الف اٰیۃ
یعنی وہ قرآن جو جبرائیلؑ محمد رسولﷺ کے پاس لے کر آئے وہ 70 ہزار آیت کا تھا۔
اور شیعہ عقیدہ کے مطابق موجودہ قرآن 6236 آیت کا ہے پھر قرآن محفوظ کیسے ہوا۔
پھر قرآن تحریف کے متعلق شیعہ اکابر علماء کا اقرار چھ قسم کا موجود ہے کہ:
- تحریفِ قرآن کی روایات کثیرہ ہیں زائد از دو ہزار ہیں اور روایات امامت سے کم نہیں ہیں۔
- یہ روایات تحریف پر صاف دلالت کرتی ہیں نہ تاویل کی ضرورت نہ شک کی گنجائش۔
- یہ روایت تحریف متواتر ہیں۔
- تحریفِ قرآن کا عقیدہ عقل کے عین مطابق ہے۔
- تحریفِ قرآن کا عقیدہ شیعہ مذہب کی ضروریاتِ دین میں سے ہے اور ضروریاتِ دین کا انکار کفر ہے اس لیے قرآن کی تحریف کا انکار بھی کفر ہے۔
- ان روایات کے مطابق شیعہ کا عقیدہ ہے۔
اقرار نمبر1: روایات کا کثیر ہونا اس امر کا اعتراف ہے کہ اگر چند روایات ہوتیں تو تردید ہوسکتی تھی اب تو یا امامت کو چھوڑنا پڑے گا یا قرآن سے دستبردار ہونا قبول کیا۔
اقرار نمبر 2: صریح دلالت قید سے ظاہر ہے کہ ان روایات کی تاویل نہیں ہوسکتی۔
اقرار نمبر3: متواتر سے ظاہر ہے کہ قرآن تواتر سے ثابت اگر روایات غیر متواتر ہوں تو تحریفِ قرآن ثابت نہیں ہوسکتی۔
اقرار نمبر 4: مطابقِ عقل ہونے کا اعتراف یہ ثابت کرتا ہے کہ مرتدین کے ہاتھوں جمع کیا ہوا قرآن کا صحیح ہونا عقلاً محال ہے۔
اقرار نمبر 5: عقیدہ کہنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ تحریفِ قرآن کوئی محض علمی مسئلہ نہیں کہ اس میں اختلاف رائے کی گنجائش ہو بلکہ یہ تو شیعہ کا اجتماعی عقیدہ ہے۔
اقرار نمبر 6: ضروریاتِ دین میں سے ہونا کہ اگر کوئی شیعہ عالم تحریفِ قرآن کو اپنا عقیدہ نہ قرار دے تو وہ ضروریاتِ دین کا منکر ہوگا اور ضروریاتِ دین کا انکار کفر ہے۔
لہٰذا اگر کوئی شیعہ کہے میں تحریفِ قرآن کا قائل نہیں ہوں تو وہ شیعہ مذہب کے نزدیک کافر ہے کیونکہ ضروریاتِ دین کا منکر ہے۔
لہٰذا امام کے بیان اور اکابر علمائے شیعہ کے ان چھ اقراروں کے باوجود علوی صاحب کا یہ کہنا کہ ہم عدمِ تحریر کا عقیدہ رکھتے ہیں ان کی ذاتی رائے کے سواء کیا کہا جاسکتا ہے اس پر مستزاد یہ کہ علوی صاحب نے بے خیالی میں یہ کہنے کی جرأت کر ڈالی یہ نہ سوچا کہ ایک تو وہ ضروریاتِ دین کا انکار کر کے خود کافر ہو رہے ہیں دوسرا اپنے امام پر کافر ہونے کا فتویٰ بھی دے رہے ہیں۔
علوی: عالیجاہ! تحریف کا عقیدہ تو سُنیوں کا ہے ان کے ہاں روایت موجود ہے کہ سیدنا عثمانِ غنیؓ نے قرآن جمع کیا اور کچھ جلا دیا۔
عباسی: سیدنا عثمان غنیؓ نے قرآن نہیں جلایا تھا بلکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآنی آیات کے ساتھ حاشیے میں جو تفسیری نوٹ لکھ رکھے تھے وہ الگ کر دیے تاکہ بعد میں آنے والے ان تفسیری الفاظ و عبارات کو قرآن کا متن نہ سمجھ لیں پھر یہ کہ کوئی ایک روایت عقیدہ نہیں بن جاتی اگر علوی صاحب اس پر جمے ہوئے ہیں تو اہلِ سنّت و الجماعت کی کتابوں میں سے ان 6 اقراروں کے ساتھ تحریفِ قرآن کا عقیدہ اہلِ سنّت کے ہاں ثابت کر دیں۔
بادشاہ: علوی صاحب! فرمائیے۔
علوی: سر جھکائے منہ ٹکائے کھڑے ہیں گویا
"دو لب بر چہرہ زخمے بود و بہ شد"
عباسی: حضور والا! تحریفِ قرآن کا پہلو تو واضح ہوگیا اب دوسری خصوصیت کے متعلق ان کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کے علاوہ امام کے پاس ہدایت کا سامان اور بھی ہوتا ہے یعنی:
- جامعہ: جس کا طول 70 گز ہے اور اس میں تمام حلال و حرام اور وہ چیزیں جن کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے لکھی ہوئی ہیں۔
- جفر: چمڑے کا تھیلا جس میں تمام انبیاء علیہم السلام اور اوصیاء کا علم ہے۔
- صحفِ سیدہ فاطمہؓ: جو قرآن سے تین گنا ہے اور اس میں اللہ کی کتاب قرآنِِ کریم کا ایک حرف بھی نہیں۔
- ہر سال لیلۃ القدر میں لوگوں کی ہدایت کے لیے امام پر احکام نازل ہوتے ہیں۔
بادشاہ: کیوں علوی صاحب! کیا یہ درست ہے؟
علوی: ٹِک ٹِک ویدم دم ناک کشیدم کی تصویر بنے کھڑے ہیں۔
بادشاہ: نظامُ الملک! بات صاف ہوگئی کہ اللہ کی آخری کتاب قرآنِ کریم پر شیعہ کا ایمان نہیں ہے۔
اب ہم لفظ امام اور منصبِ امامت کے متعلق آپ کے عقائد معلوم کرنا چاہتے ہیں عباسی صاحب کہیے۔
عباسی: عالی جناب! اسلامی عقائد میں امام نہ تو نبی کی طرح کی کوئی خاص شخصیت ہے نہ امامت کوئی منصب ہے۔
جو شخص دین کے کسی شعبے میں کوئی خاص تحقیقی تعمیری اور مابہ الامتیاز علمی یا عملی کوئی کام کرے اسے اس فن کا امام کہتے ہیں نہ اس پر ایمان لانا واجب ہوتا ہے نہ اس کے غیر مشروط اطاعت کرنا فرائض میں داخل ہے جیسے ائمہ تفسیر ائمہ فقہ ائمہ حدیث وغیرہ۔
علوی: حضور والا! ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے محمد رسول اللہﷺ کے وصی سیّدنا علیؓ ہیں اور ان کی اولاد میں گیارہ افراد امامت کے منصب پر من جانب اللہ فائز ہیں امام مامور من اللہ ہوتا ہے مفترض الطاعتہ ہوتا ہے اور معصوم عن الخطاء ہوتا ہے۔
بادشاہ: یہاں تو بات اور الجھ گئی یہ تین خصوصیات تو انبیاء علیہم السلام کی ہوتی ہیں اس سے تو شیعہ کا عقیدہ اجرائے نبوت ظاہر ہوتا ہے اور ختمِ نبوت کا انکار ہے۔
عباسی: عالیجاہ! علوی صاحب نے ائمہ کے متعلق پوری تفصیل نہیں دی اجازت ہو تو بندہ عرض کرے۔
بادشاہ: ہاں کہیئے۔
عباسی: جہاں تک امامت اور اس سے انکار کا تعلق ہے شیعہ عقیدہ یہ ہے کہ امامت کا انکار نہ صرف کفر ہے بلکہ دنیوی ہلاکت اور اُخروی عذاب کا مستحق ہوتا ہے کل من حجدھم (ائمۃ) او انکر امامتھم اوشک فی ذلک فھو کافر الکفر قوله واعتقاد۔
جس شخص نے اماموں کی امامت کا انکار کیا یا اماموں کی امامت میں شک کیا وہ کافر ہے اس کا قول بھی کفر اعتقاد بھی کفر۔
اس عقیدہ کے الفاظ ذرا وضاحت طلب ہیں۔
یہ قضیہ موجبہ کلیہ ہے کل موجبہ کلیہ کا داخل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انکار کرنے والا نبی ہو رسول ہو یا عامی شخص ہو کافر ہے مگر یہ بات وہی سمجھ سکتا ہے جو منطق سے واقف ہو لہٰذا اس کمی کو یوں پورا کیا گیا۔
قال امیر المومنینؓ ان اللہ تعالیٰ عرض ولایتی علی اھل السمٰوٰت والارض اقربھا من اقربھا وانکرھا من انکرھا و انکرھا یونسؑ حبه فی بطن الحوت حتیٰ اقربھا۔
ان کے سیدنا علیؓ نے فرمایا کہ میری ولایت اہلِ آسمان اور اہلِ زمین پر پیش کی گئی کسی نے اقرار کیا کسی نے انکار کیا حضرت یونس علیہ السلام نے انکار کیا تو اللہ نے ان کو مچھلی کے پیٹ میں قید کر دیا حتیٰ کہ انہوں نے اقرار کر لیا جہاں تک کہ عقاب و ہلاکت کا تعلق ہے ارشاد ہوتا ہے۔
اما واللہ ما ھلک من کان قبلکم وما ھلک من ھلک حتیٰ یقیم قائمتنا الا فی ترک ولایتنا وحجود حقنا۔
خدا کی قسم! تم سے پہلے جو ہلاک ہوئے وہ ہماری امامت کا انکار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور جو امام مہدی کے آنے تک آئندہ ہلاک ہونگے وہ ہماری امامت کے انکار کی وجہ سے ہلاک ہوں گے۔
ولا یخفی ان ھلاک الاھم کان سبب ترک ولایتنا۔
یہ امر مخفی نہیں کہ پہلی امتیں جو ہلاک ہوئیں وہ ہماری امامت کے عقیدہ کو ترک کرنے کے سبب ہلاک ہوئیں۔
عقیدہ امامت کے اہمیت کا اندازہ کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا (سورۃ بنی. اسرائیل آیت نمبر 15) کی دھجیاں بکھر رہی ہیں۔
امتوں کا تو کیا کہنا انبیاء علیہم السلام بھی ہلاکت سے بچ نہ سکے۔
ان اللہ تعالیٰ لم یبعث نبیا من اٰدمؑ الی ان صار جدک محمدﷺ قد عرض علیه ولاتیکم اھل البیت ومن قبلھا من الانبیاء سلم وتخلص ومن توقف عنھا وتتعتع فی حملھا لقی ما لقی اٰدمؑ من المعصیۃ ولقی ما لقی نوحؑ من الغرق ولقی ما لقی ابراھیمؑ من النار ولقی ما لقی یوسفؑ من الجب ولقی ایوبؑ من البلاء ولقی داؤدؑ من الخطیئۃ الی ان بعث اللہ یونسؑ فاوحی الیه ان تولی امیر المومنین علیاؓ والائمۃ الراشدین من صلبه قال یونسؑ کیف اقول من لم آرہ ولم اعرفه الی ان التقمه الحوت فلما اٰمن بولاتیکم امر ربیع فقذفته علی الساحل۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہﷺ تک کوئی نبی نہیں بھیجا جس کے سامنے تمہاری امامت کا عقیدہ نہ پیش کیا گیا ہو جس نبی نے یہ عقیدہ قبول کر لیا وہ سلامت رہا اور مصائب سے بچ گیا جس نے توقف کیا اور امامت کے اقرار میں زبان اٹکی مبتلائے مصیبت ہوا جیسا کہ حضرت آدم علیہ السلام گناہ میں مبتلا ہوئے نوحؑ غرق ہوئے کہ یہ مصیبت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں حضرت یوسف
علیہ السلام کنویں میں حضرت ایوب علیہ السلام بدنی مصیبت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں حضرت یوسف علیہ السلام کنویں میں حضرت ایوب علیہ السلام بدنی مصیبت میں حضرت داؤد علیہ السلام گناہ میں۔ حتیٰ کہ اللہ نے حضرت یونس علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ان پر وحی کی کہ سیدنا علیؓ اور ان کی اولاد میں سے اماموں کے امامت قبول کرو اور ان سے دوستی کا عہد کرو حضرت یونس علیہ السلام نے جواب دیا میں نے جن کو دیکھا نہیں جن کو پہچانتا نہیں ان کی امامت کیسے تسلیم کروں تو وہ مچھلی کا لقمہ بنے جب امامت پر ایمان لائے تو اللہ نے مچھلی کو حکم دیا کہ اس نے ان کو ساحل پر پھینک دیا۔
یہاں تک تو امامت کے عقیدے کا ایک پہلو واضح کیا گیا کہ اس عقیدے کے انکار کی وجہ سے انبیاء علیہم السلام اور اولعزم رسول بھی اللہ کی گرفت سے بچ نہ سکے۔
امامت کا دوسرا پہلو اس سے بھی بڑھ کر ہے یہاں امام وجہ ہلاکت نظر آتے ہیں آگے سنئیے:
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں:
وانا والذی اھلکت عادا وثمودا واصحاب الرس وقرونا بین ذلک کثیرا وانا الذی ذللت الجبابر وانا صاحب مدین ومھلک فرعون و منجی موسیٰ وانا القرن الحدید۔
میں نے عادیوں اور ثمودیوں کو ہلاک کیا اصحاب الرس کو میں نے ہلاک اور ان کے درمیان والوں کو میں نے ہلاک کیا بڑے بڑے ظالموں کو میں نے ہلاک کیا فرعون کو میں نے غرق کیا موسیٰ علیہ السلام کو میں نے نجات دی۔
ایک قدم اور آگے:
وانا صاحب العصاء المسیح وانا سخرت السحاب والرعد والبرق والظلم والا نوار والریاح والجبال والبحار والنجوم والشمس والقمر
خلاصہ یہ کہ ساری کائنات اور اس کا نظام میرے تابع ہے ان پر میرا ہی حکم چلتا ہے۔
تو حضور والا! یہ ہے شیعہ ائمہ کا منصب اور امامت کی اصل تصویر۔
بادشاہ: لاحول ولا قوۃ الا بالله یہ تو نرا الحاد ہے اس کے لئے تو کفر کا لفظ بھی بہت ہلکا ہے۔
بادشاہ: دین کے چند بنیادی عقائد کے متعلق کسی قدر اظہارِ خیال ہوچکا اب میں چاہتا ہوں کہ آپ حضرات نفسِ دین کی حقانیت کے متعلق اظہارِ خیال کریں عباسی صاحب پہلے آپ آئیے!
عباسی: حضور والا! دین اور مذہب کے اجزائے ترکیبی دو ہیں
اول مقصد زندگی کا تعین۔
دوم حصول مقصد کے لیے زندگی گزارنے کا انداز۔
دنیا میں دو قسم کے مذہب پائے جاتے ہیں اول وہ جو انسان نے اپنی ذہنی کاوش سے تیار کیے۔
دوم وہ جو انسان کو خالقِ کائنات کی طرف انبیاء کی وساطت سے بذریعہ وحی ملے۔
اسلام وہ دین ہے جو انسان کو خالق کی طرف سے انبیاء علیہم السلام کی وساطت سے ملا جس کی آخری مکمل اور ابدی صورت محمد رسول اللہﷺ کے ذریعے عالمِ انسانیت کو پہنچی لفظ مذہب کے مفہوم میں بالعموم مقصد اور ذریعہ دونوں کا منتہائے مقصودِ دنیوی زندگی کی کامیابی ہے مگر دین کے مفہوم میں زندگی کا تصور ایسا جامع ہے کہ اس کے دو حصے بنتے ہیں۔
ایک دنیوی زندگی جو عارضی ہے اور ذریعہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
دوسرا اُخروی زندگی جو ابدی ہے اور مقصد کا درجہ رکھتی ہے اس لیے دین کے تصور میں جامعیت پائی جاتی ہے خالق کی طرف سے دین کے بارے میں اعلان ہے کہ
ان الدین عند اللہ الاسلام (سورۃ آل عمران آیت نمبر 19)
: یعنی اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام ہے۔
(1) اسلام میں مقصد حیات اللہ کا مقرر کردہ ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (سورۃ الذاریٰت آیت نمبر 56)۔
یعنی تمہاری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ جو میں کہوں وہ کرو۔
2)اور ذریعہ کا تعین بھی خود خالق نے کر دیا کہ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ الخ (سورۃ الاخزاب آیت نمبر 21) یعنی تمہارے لیے زندگی گزارنے کا مثالی نمونہ محمد رسول اللہﷺ کی سنت ہے۔
3)اسلام نے بہت زیادہ یہ تعلیم بھی دی ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی زندگی میں کچھ پہلو ایسے بھی ہوتے ہیں جنہیں خصائصِ نبوی کہا جاتا ہے وہ صرف نبی کے لیے ہی ہوتی ہے امت اس عمل میں مستثنیٰ ہیں اس لیے نبی کریمﷺ نے ایک ایسی جماعت تیار کی جو ہر صورت میں اُمت کے لیے مثالی زندگی کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لیے نبی کریمﷺ نے اعلان فرمایا کہ اصحابی کا لنجوم بایھم اقتدیتم اھدیتم ۔
اور اللہ کریم نے اعلان فرما دیا کہ وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (سورۃ التوبہ آیت نمبر 100)۔
(4) اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ دنیا امتحان گاہ ہے ہر شخص کے ذمے اللہ کی طرف سے ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں اس دارالعمل سے جانے کے بعد اس کی کارکردگی کو جانچا جائے گا اور ہر شخص کو اپنے کیے کا بدلہ ملے گا۔وَ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰىؕ الخ (سورۃ فاطر آیت نمبر 45)
(5) نبی کریمﷺ کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد امت کے ہر فرد پر لازم ہے کہ اپنی بساط بھر اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچاتے كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ الخ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 110) یہ امور اسلام کے حقانیت اور اس کی جامعیت کا خلاصہ کہے جا سکتے ہیں۔
علوی: اسلام کے حقانیت کے جو دلائل عباسی صاحب نے دیے ہیں وہی ہمارے دین شیعہ کی جو عین اسلام ہے حقانیت کی دلیل ہے البتہ عباسی صاحب نے ایک اہم پہلو چھوڑ دیا ہے وہ یہ کہ ہمارے دین شیعہ کے مطابق نبی کے بعد قابلِ اتباع اس کا وصی ہوتا ہے اس لئے جب تک امامت کا عقیدہ نہ اپنایا جائے اسلام و ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی ہم امام کے بغیر کسی کو قابلِ اتباع نہیں سمجھتے لہٰذا ہمارا دین حق ہے کامل ہے جامع ہے۔
عباسی: حضور والا! علوی صاحب میں اجمال پر اکتفاء کیا ہے حالانکہ ان کی جامعیت کا عقیدہ تفصیل طلب ہے۔
آپ نے جو یہ فرمایا کہ نبی کے بعد قابلِ اتباع اس کا وصی ہوتا ہے اس میں وہ ذرا سا تقیہ کر گئے ہیں ان کا عقیدہ نبی کے بعد کا نہیں بلکہ اصل مطاع صرف امام ہوتا ہے چنانچہ ان کا عقیدہ ہے کہ:
ان العلم لیس ما یحصل بالسماع وقراۃ الکتب وحفظھا فان ذلک تقلید وانما العلم ما یفیض من عند اللہ سبحانه علی قلب المؤمن یوما نیوما وساعۃ ساعۃ فیکشف بہ من الحقائق ما تطمئن بہ النفس وینشرح لہ الصدور وتنور القلب والحاصل ان ذلک مؤکدہ و مقرر عما علم مسابقا یوجب مزید الایمان والیقین والکرامۃ الشرف فا فاضۃ العلم علیھم (ائمۃ) بغیر واسطۃ المرسلین والنبین بل بغیر واسطۃ الملائکۃ۔
یعنی علم وہ نہیں جو کتابوں سے پڑھ کر یا سن کر یاد کیا جاتا ہے یہ تو تقلید ہے بلکہ حقیقی علم وہ ہے جو براہِ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر آن مومن کے دل پر فیضان کی صورت میں نازل ہوتا ہے اس علم سے چیزوں کے حقائق واضح ہوتے ہیں شرح صدور ہوتا ہے منور ہوتا ہے۔اس علم کا فیضان اماموں کے دلوں پر اس طرح ہوتا ہے کہ کسی نبی یا رسول یا فرشتہ کا واسطہ درمیان میں نہیں ہوتا۔
(1) ظاہر ہے کہ اللہ کی کتاب کو پڑھ کر یا اللہ کی رسول کی باتیں سن کر جو دین سیکھا جائے وہ تو تکلید ہوئی۔
(2) امام کو رسول کے واسطہ کی ضرورت نہیں اسے براہِ راست اللہ سے ہدایت اور علم ملتا ہے شیعہ کا امام اللہ کے رسول سے بے نیاز ہے ان کے سیدنا موسیٰ کاظم کا ارشاد ہے:
فبلغ علمنا علی ثلاثۃ وجوہ ماض و غابر و حارث فاما الماضی قمفسر واما الغابر فمز بور واما الحارث فقذف فی القلوب و نقرنی السماع وھو افضل علمنا۔
خلاصہ یہ کہ اصل اماموں کا علم وہ ہے جو اللہ کی طرف سے بذریعہ وحی اماموں کے دلوں اور کانوں میں ڈالا جاتا ہے۔
اور ان کے سیدنا جعفر کا مذہب ہے۔
ما جاء به علی اخذ به وما نھی انتھی عنه۔
یعنی میرا مذہب یہ ہے کہ اوامر اور نواہی وہ ہے جو سیدنا علیؓ نے مقرر کیےدینِ اسلام اور دینِ شیعہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام میں اوامر و نواہی کا ماخذ اور مرکز رسول ہے اور دینِ شیعہ میں یہ حیثیت تمام کی ہے جو رسول کے واسطہ سے بے نیاز ہے اس لیے دینِ شیعہ کو اسلام کا نام دینا علوی صاحب کی زیادتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ شریعتِ اسلامیہ میں ادلہ شرعیہ چار ہیں۔
اول: احکام بذریعہ وہی ہوں گے پھر وحی کی دو صورتیں ہیں وہی جلی یا متلویہ قرآنِ کریم ہے۔
دوم وحی خفی یا غیر متلو۔
دوم: یہ حدیثِ رسولﷺ ہے یعنی پہلا مآخذ قرآن دوسرا حدیث۔
سوم: وہ حکم دینی اجتہاد اور رائے سے ثابت ہے اگر یہ اجتہاد قرآن و سنت سے مستبنط کُل کی رائے ہے تو اسے اجماع کہتے ہیں۔
چہارم: اگر یہ اجتہاد ماخود از کتاب و سنت بعض کی رائے ہے تو وہ قیاس کہلاتا ہے۔
اور اگر کوئی حکم کتاب و سنت سے ماخوذ نہیں تو وہ مردود ہے مگر شیعہ کے نزدیک احکامِ ذندگی کے لئے مرکز و محور امام ہے کتابُ اللہ اور سنتِ رسولﷺ سے کوئی واسطہ نہیں احکام صرف امام سے لئے جائیں گے۔
تیسری بات یہ ہے کہ دین شیعہ سرے سے کوئی دین یا مذہب ہی نہیں بلکہ یہ ایک خفیہ سیاسی تحریک ہے اس لئے اس کو خفیہ رکھنے کا پورا پورا اہتمام کیا گیا ہے۔ مثلاً:
(1) قال ابو عبداللہ یا سلمان انکم علی دین من کتمه اعزہ اللہ ومن اذاعه اذله اللہ۔
یعنی تم اس دین پر ہو کہ جس نے اسے چھپا رکھا اللہ اسے عزت دے گا اور جو اس دین کو ظاہر کرے گا اللہ اسے ذلیل کرے گا وہ ظاہر ہے کہ ذلت کی زندگی بسر کرنا کون پسند کرتا ہے۔
(2) قال ابو عبداللہ مازال سرفا مکتو ما حتیٰ صارنی یدیٰ ولد کیسان فتحدثوا به فی الطریق وقریٰ۔
یعنی ہماری امامت کا مسئلہ (دین شیعہ کا محور) ہمیشہ پوشیدہ رہا تھا حتیٰ کہ دھوکہ بازوں اور دغا بازوں کی اولاد نے راستوں اور شہروں میں بیان کرنا شروع کر دیا۔
(3) قال ابو جعفر ولایۃ اللہ اسرھا الی جبرئیلؑ واسرھا جبرئیلؑ الی محمدﷺ واسرھا محمدﷺ الی علیؓ واسرھا علیؓ الی من یشاء اللہ ثم انتم قدیعون ذلک۔
یعنی امامت کا مسئلہ ایک پوشیدہ راز تھا جو اللہ نے جبرائیلؑ کو راز میں بتایا جبرائیلؑ نے چپکے سے محمدﷺ کو بتایا اور محمدﷺ نے سرگوشی کے طور پر سیدنا علیؓ کے کان میں کہہ دیا اور سیدنا علیؓ نے راز کے طور پر اسے بتایا جسے اللہ نے چاہا مگر تم (اے شیعہ) ایسے ہو کے اس راز کو ظاہر کر رہے ہو۔
ظاہر ہے کہ یہ راز ظاہر کرنا اللہ کی مخالفت رسولﷺ کی مخالفت اور امام اول کی مخالفت ہوئی۔
(4) قال ابو الحسن موسیٰ بن جعفر یا خلف سر اللہ سر اللہ فلا تذیعوہ ولا تعلمو ھذا الخلق اصول دین اللہ بل ارضوا لھم ما رضی اللہ لھم من ضلال۔
ان کے سیدنا موسیٰ نے فرمایا اے خلف! شیعہ مذہب کے ایک راز ہے اس کو تشہیر مت کرو اور اللہ کے دین کے اصولِ احکام مت بیان کرو بلکہ تم بھی مخلوق کی گمراہی پر راضی رہو جب اللہ ان کی گمراہی پر راضی ہے.
(5) قال ابو عبداللہ من اذاع علینا حدیثنا سلبه اللہ الایمان۔
ان کے سیدنا جعفر نے فرمایا جس نے ہماری حدیث ظاہر کیں اللہ تعالیٰ اس کا ایمان سلب کر لے گا۔
حضور والا! غور فرمائیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں دین پھیلاؤ تمہاری یہ ڈیوٹی ہے اور ان کے امام فرماتے ہیں دین چھپاؤ ورنہ تمہارا ایمان سلب ہو جائے گا پھر یہ لوگ اپنے مذہب کو اسلام کا نام بھی دیتے ہیں حالانکہ اسلام اور دین شیعہ ایک دوسرے کے بالکل ضد ہیں امر بالمعروف کے فریضہ کو دین سے خارج کرنے کے لیے ان لوگوں نے اللہ کی کتاب میں یہاں تک تحریف کر دی کہ قرآن کہ اصلی لفظ یہ تھے کہ کنتم خیر ائمۃ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بدل کر خیر امۃ بنا دیا۔
علوی: حضور والا! قرآن میں تقیہ کا حکم موجود ہے کہ الا من اکرہ و قلبه مطمئن بالایمان (سورة النخل آیت نمبر 106) جس سے مراد یہ ہے کہ خوف جان ہو تو کلمہ کفر بھی زبان پر لایا جا سکتا ہے۔
عباسی: حضور والا! تقیہ و اکراہ میں زمین و آسمان کا فرق ہے کہ اکراہ سے رضا مندی سلب ہوتی ہے اختیار باقی رہتا ہے اور یہ عمل وقتی ہوتا ہے۔
پھر اکراہ میں کلمہ کفر زبان پر لانا یہ عزیمت نہیں رخصت ہے اگر زبان پر نہ لائے اور مارا جائے تو عظیم ثواب کا مستحق ہوگا۔
اس کے برعکس شیعہ مذہب میں تقیہ نہ کرے اور مارا جائے تو حرام کی موت مرا پھر تقیہ تو فرض ہے اور ابدی ہے یعنی ان کے امام مہدی کے ظاہر ہونے تک فرض ہے۔
حضور والا! میں علوی صاحب کے اجمال کی تفصیل بیان کر رہا تھا اس سلسلے میں ایک پہلو کی وضاحت ابھی باقی ہے۔
دینِ اسلام میں عقیدہ آخرت اعمال کی جزا و سزا اور ہر شخص کو اپنے کیے کا بدلہ ملنے کا یقین بنیادی عقائد میں سے ہے دین شیعہ میں یہ پہلو اتنا مختلف ہے کہ اس اختلاف کی بجائے تضاد کہنا زیادہ مناسب ہے ان کے امام کے سامنے شیعوں کی بد اعمالیوں کا شکوہ کیا گیا اور اہلِ سنّت کے شوق اطاعت کا بیان کیا گیا تو انہوں نے عقیدہ آخرت کی وضاحت فرما دی۔
اذ کان یوم القیامۃ نزع اللہ عزوجل مسحۃ الایمان منھم (اھل النسة) فردھا الی شیعتنا و نزع ما اکتسبوا من السئیات فردھا الی احدائنا قال (ای راوی) قلت جعلت فداک تؤخذ حسناتھم فقرو الینا تؤخذ سئیاتنا فترد الینا و تؤ ذ سئیاتنا فتود الیھم قال ای واللہ لا الہ الا ھو قلت جعلت فداک اتجدھا فی کتاب اللہ قال نعم یا ابا اسحاق اما تتلوا ھذہ الآیۃ اولئک یبدل اللہ سئیاتھم حسنات۔
اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اہلِ سنّت کا ایمان ان سے چھین کر شیعوں کو دے دے گا اور شیعوں کی تمام برائیاں ان سے لے کر سُنیوں کو دے دے گا راوی کہتا ہے میں نے کہا قربان جاؤں کیا سُنیوں کی نیکیاں شیعوں کو اور شیعوں کی برائیاں سُنیوں کو دے دی جائیں گی؟ کیا یہ عقیدہ کتابُ اللہ میں ہے امام نے ایک قسم کھا کر فرمایا اے ابواسحاق کیا تم نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی کہ اللہ ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔
اس عقیدہ میں اللہ کی صفتِ عدل کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ تو اپنی جگہ اس امر کا اعتراف بھی ہے کہ شیعہ ایمان سے خالی ہے اور سُنی اس دولت سے مالا مال ہیں جب آخرت کے متعلق یہ عقیدہ ہو تو جی بھر کے برائی کرنے کی آزادی تو یقیناً ہے لیکن اس عقیدہ کے باوجود دین شیعہ کو اسلام کا نام دینے کی جرأت اسی طرح ہے جیسے کوئی شخص اندھیری رات کو روز روشن کے نام سے پکارنے لگے۔
بادشاہ: آپ حضرات کے بیانات سے بلا کسی ادنیٰ شبہ کے واضح ہوگیا کہ شیعہ مذہب کا ماخذ نہ تو قرآن ہے نہ حدیث نہ اس مذہب کا اللہ سے کوئی تعلق ہے نہ رسولﷺ سے واسطہ مگر میں اس مذہب کا ماخذ معلوم کرنا چاہتا ہوں۔
عباسی صاحب کیا آپ اس پر کوئی روشنی ڈال سکیں گے؟۔
عباسی: حضور والا! شیعہ مذہب کہ دو پہلو ایک نمائشی اور ضابطے کی کاروائی دوسرا حقیقی۔
جہاں تک ضابطے کی خانہ پوری کا تعلق ہے اس مذہب کی ابتداء خود انہی کی زبانی سماعت فرمائیں۔
فکان الامام علی ثم کان حسن بن علیؓ ثم کان حسین بن علیؓ ثم کان علی بن الحسین ثم کان محمد بن علی ثم جعفر علیه السلام وکانت الشیعۃ قبل ان یکون ابوجعفر لا یعرفون مناسک حجھم ولا حلالھم ولا حرامھم حتیٰ کان ابوجعفر علیه السلام ففتح لھم و بین لھم مناسک حجھم و حلالھم و حرامھم حتیٰ صار الناس یحتاجون الیھم من بعد ما کانوا یحتاجون الی الناس۔
یعنی پہلے امام سیدنا علیؓ تھے پھر سیدنا حسن بن علیؓ پھر سیدنا حسین بن علیؓ پھر علی بن حسین (زین باقر) پھر محمد بن علی (باقر) پھر جعفر اور محمد باقر سے پہلے شیعہ نہ تو حج کے مناسک جانتے تھے نہ انہیں حلال کا علم تھا نہ حرام کا سیدنا باقر نے ان کے لئے حج کے احکام بیان کئے حلال اور حرام میں تمیز کے مسائل بتائے یہاں تک کہ دوسرے لوگ مسائل دینی میں شیعہ کے محتاج ہوئے جبکہ اس سے پہلے دین کے معاملے شیعہ دوسرے لوگوں کے محتاج تھے۔
حضور والا! آپ جانتے ہیں دین یا مذہب کی ابتداء ہی حلال و حرام اور جائز و ناجائز میں حد فاصل کے تعین سے ہوتی ہے اور یہ بات سیدنا باقرؒ سے شروع ہوئی یعنی شیعہ مذہب سیدنا باقرؒ سے شروع ہوا ان سے پہلے چار اماموں کے نام بطورِ تبرک یا خانہ پُری کے لکھ دیے گئے انہوں نے حلال و حرام میں فرق بھی شیعوں کو نہیں سکھایا اگر اس مذہب کا اسلام سے کچھ تعلق ہوتا تو بات واضح ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنی 23 برس کی نبوی زندگی میں تمام مسائل دینی اپنی امت کو سکھا دیئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا اعلان حُجتہُ الوداع کے موقع پر فرمادیا کہ:
ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ وَأَتۡمَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ نِعۡمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلۡإِسۡلَـٰمَ دِينً۬اۚ الخ (سورة المآئدہ آیت نمبر 3)۔
شیعہ کا مذہب اگر اسلام ہوتا تو یہ کہنے کی حاجت نہ تھی کہ پانچویں امام نے آ کر ہمیں دین کی بنیادی باتوں کی تعلیم دی اور شیعہ کو یہ اعتراف کرنا یا اس حقیقت کا اظہار کرنا پڑا کہ دین شیعہ اماموں سے چلا ہے۔
لیکن یہ بھی صرف دعویٰ ہے اس کی حقیقت بھی اتنی ہے کہ شیعہ مذہب ان روایات پر مبنی ہے جو ائمہ شیعہ سے منسوب کر کے مختلف راویوں نے بیان کی ہیں گویا دین شیعہ کی حقانیت کا مدار راویوں کی ثقاہت اور صداقت پر ہے ان راویوں میں سرِفہرست دو بزرگ ہیں زرارہ اور ابو بصیر جن سے قریباً دو تہائی دینِ شیعہ مروی ہے اس لئے ان کے متعلق ان کے ائمہ کی شہادت ملاحظہ ہو۔
قال ابو عبداللہ زرارہ شرمن الھیود و انصاریٰ ومن قال ان اللہ ثالث ثلاثه۔
یعنی امام نے فرمایا زرارہ یہود و نصاریٰ سے بھی برا ہے اور ان لوگوں سے بھی برا ہے جو تثلیث کے قائل ہیں۔
قال ابو عبداللہ لعن اللہ زرارہ لعن اللہ زرارہ لعن اللہ زرارہ۔
یعنی امام نے تین دفعہ تاکید سے فرمایا کہ زرارہ ملعون ہے۔
حالانکہ زرارہ وہ شخص ہے قال اصحاب زرارہ من ادرک زرارہ بن اعین فقد ادرک ابا عبداللہ یعنی جسے زرارہ مل گیا گویا اسے سیدنا جعفر مل گیا۔
ابوبصیر کا حال یہ ہے کہ امام کو لالچی اور رشوت لینے والا سمجھتا ہے اسی طرح ان کے راوی محمد بن مسلم یزید بن معاویہ ہشام بن سالم اور جابر جعفی وغیرہ ان راویوں کو امام جعفر وغیرہ ائمہ نے ملعون اور کذاب کے القاب دیے حاصل یہ شیعہ مذہب کا مدار ان راویوں کی روایت پر ہے جن کو خود ائمہ نے ملعون اور کذاب کے القاب سے نوازا ہے بہرحال ان روایات کی مدد سے شیعہ مذہب کا وہ پہلو تیار کیا گیا جس کی بنا پر یہ کہا جا سکے کہ یہ واقعی ایک مذہب ہے۔
اس کا دوسرا اور حقیقی پہلو یہ ہے کہ ایک سیاسی اور خفیہ تحریک ہے جو یہود نے دینِ اسلام کے خلاف اسلام کے نام سے ایک کفر ایجاد کیا ہے اس اجمال کی تفصیل یہ ہے۔
اس سازش کا بانی عبداللہ ابنِ سباء یہودی ہے جس کے متعلق شیعہ کا بیان یہ ہے کہ:
وحکی جماعۃ من اھل العلم من اصحاب علی علیه السلام ان عبداللہ بن سباء کان یھودیا فاسلم و والی علی علیه السلام کان یقول وھو ولی یھودیۃ فی یوشع بن نون وصی موسیٰؑ بالغلو فقال فی اسلام بعد وفات رسول اللہﷺ فی علیؓ مثل ذلک وکان اول من اشتھر بالقول بفرض امامۃ علیؓ واظھر البرأۃ من اعدائه و کاشف مخالفیه واکفر فمن ھناک قال من خالف الشیعۃ اصل التشیع والرفض ماخوذ من الیھودیۃ۔
یعنی اصحابِِ سیدنا علیؓ میں سے اہلِ علم نے بیان کیا ہے کہ عبداللہ ابنِ سباء یہودی تھا پھر وہ اسلام کا دعویٰ کرنے لگا اس نے سیدنا علیؓ سے محبت کا دعویٰ کیا وہ یہودیت کے زمانے میں یوشع بن نون کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا وصی کہتا تھا دعویٰ اسلام کے بعد وہ غلو کر کے سیدناعلیؓ کو نبی کریمﷺ کا وصی کہنے لگا یہ عبداللہ ابنِ سباء پہلا شخص تھا جس نے امامتِ سیدنا علیؓ کے عقیدہ کو فرض قرار دے کر اسے شہرت دی ان کے دشمنوں سے تبراء کیا انہیں کافر کہا اس وجہ سے شیعہ کے مخالفین یہ کہتے ہیں کہ شیعہ مذہب دراصل یہودیت کی ایک شاخ ہے۔
اس اعتراف سے ظاہر ہے کہ شیعہ مذہب کا بنیادی عقیدہ سیدنا علیؓ کو نبی کریمﷺ کا وصی تسلیم کرنا ہے پھر ان کی امامت کا عقیدہ رکھنا فرض ہے پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بالخصوص خلفائے ثلاثہؓ کو کافر کہنا ہے اور یہ تینوں عقیدے اسی یہودی کی ایجاد ہیں اس سے پہلے کسی کا یہ عقیدہ نہیں تھا۔
اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ اسلام نے یہودیت کی بیخ کنی کی اور یہود نے محسوس کر لیا کہ سیاسی میدان میں اسلام کا مقابلہ ممکن نہیں اس لیے زیرِ زمین کوئی ایسی تحریک چلائی جائے کہ اسلام کی نظریاتی استحکام کو کھوکھلا کیا جا سکے یہود نے اس غرض کو پورا کرنے کے لیے عبداللہ ابنِ سباء کا انتخاب کیا اس نے اپنے مسلمان ہونے کا دعویٰ کیا مگر پہلا قدم یہ اٹھا یا کہ نبی کریمﷺ کی شخصیت کو ثانوی بلکہ کوئی حیثیت نہ دیتے ہوئے سیدنا علیؓ کی شخصیت کو سامنے لا کر ان کی محبت کا دعویٰ کیا اور قبائلی عصبیت کو زندہ کر کے اسے ہوا دی اور اسلام کے نظامِ خلافت میں یوں نقب لگائی کے اصل حق سیدنا علیؓ کا تھا باقعی غاصب ہے اور معاذ اللہ کافی ہیں۔
شیعوں کا دوسرا اعتراف:
عبداللہ ابنِ سباء کان فمن اظھر الطعن علی ابی بکرؓ و عمرؓ و عثمانؓ و الصاحبۃ وتبراء منھم وقال ان علیا علیھم السلام امرہ بذلک فاخذہ علی فسأله عن ذلک قوله ھذا فاقر به فامر لقتله فصاح الناس الیه یا امیر المومنین اتقتل رجلا یدعوابی حبکم اھل البیت والی ولا تیک والبرأۃ من اعدائک نصیرہ الی مدائن۔
یعنی عبداللہ ابنِ سباء ان لوگوں میں سے تھا جس نے سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ و سیدنا عثمانؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعن طعن کرنا شروع کیا اور تبراء بازی کی اور یہ دعویٰ کیا کہ مجھے سیدنا علیؓ نے ایسا کرنے کا حکم دیا سیدنا علیؓ کو اطلاع ملی تو آپؓ نے اسے گرفتار کیا اور اس سے پوچھا کہ واقعی اس نے ایسا کہا تو اس نے اس کا اقرار کیا تو اس نے اس کا اقرار کیا تو آپؓ نے اسے قتل کر دینے کا حکم دیا یہ سن کر اس کی پارٹی کے لوگ چیخ اٹھے کہ کیا آپؓ اس شخص کو قتل کرتے ہیں جو آپؓ کی محبت کا دعویٰ اور آپؓ کی ولایت کے عقیدہ کی دعوت دیتا ہے اور آپؓ کے دشمنوں پر تبراء بازی کرتا ہے سیدنا علیؓ نے مجبور ہو کر اسے مدائن کی طرف جلا وطن کر دیا۔
اس سے ظاہر ہے کہ سیدنا علیؓ نے وصی اور امامت کے عقیدہ کو ایسا جرم قرار دیا جس کی سزا قتل ہے۔
دوسری بات یہ ظاہر ہے کہ اس نے اپنے ہم خیال لوگوں کی جماعت تیار کر لی جن کی اجتماعی قوت سیدنا علیؓ کو یہاں تک مجبور کر چکی تھی کہ وہ اپنے شرعی فیصلوں کو نافذ بھی نہیں کر سکتے تھے۔
تیسری بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی تخریبی کاروائیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے محبت اہلِ بیت کے نعرے سے خوب کام لیا۔
شیعہ کا تیسرا اعتراض
ولما بلغ عبداللہ بن سباء نقی علی بالمدائن قال للذی نعاہ کذبت لو جئنا برماغهٖ سبعین مرۃ واقمت علی قتله سبعین عدلا لعلمنا انه لم یمت ولم یقتل ولا یموت حتیٰ یملک الارض۔
جب مدائن میں عبداللہ ابنِ سباء کو سیدنا علیؓ کے شہید ہونے کی اطلاع ملی تو خبر دینے والے سے کہا تم جھوٹ کہتے ہو اگر تم سیدنا علیؓ کا دماغ نکال کر بھی لاؤ اور اس پر 70 عادل گواہ بھی پیش کر دو تو میں نہیں مانتا سیدنا علیؓ جب تک ساری دنیا کے حکمران نہ بن جائیں وفات نہیں پائیں گے۔
شیعہ کے ان بیانات سے اظہر من الشمس ہے کہ
- امامت کا عقیدہ عبداللہ ابنِ سباء کی ایجاد ہے۔
- امام کا مفترض الطاعتہ ہونا۔
- خلفائے ثلاثہؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر لعن طعن کرنا۔
- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سیدنا علیؓ کا دشمن قرار دینا۔
- رجعت کا عقیدہ ایجاد کرنا۔
- محبت اہلِ بیت کے نعرہ کے پردے میں اسلام کے خلاف تخریبی کاروائی کرنا۔
یہ سب اس عبداللہ ابنِ سباء یہودی کی ایجاد ہے اور شیعہ مذہب کا تانا بانا ان بنیادی عقائد سے تیار کیا گیا ہے۔
حضور والا! شیعہ مذہب کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کی چند ایسی خصوصیات پائی جاتی ہیں جو اور کہیں نہیں ملیں گی۔ مثلاً
(1) شیعہ مذہب کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ:
اللہ رسول اللہﷺ کی پسند کے خلاف نفرت کا جذبہ پیدا کرنا اور اسے ہوا دینا۔
اللہ تعالی نے فرمایا:اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْۙ-اَعْظَمُ دَرَجَةً عِنْدَ اللّٰهِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَ (سورة التوبہ آیت نمبر 20)۔
شیعہ مذہب کا اصول یہ ہے کہ یہی لوگ سب سے پست اور ناکام ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتے:اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ الخ (سورِة الحجرات آیت نمبر 3)۔
کہ اللہ نے ان کا امتحان کر لیا ان کے دل تقویٰ سے لبریز ہیں۔
شیعہ کہتے ہیں کہ یہ بظاہر مسلمان تھے ان کے دل میں کفر تھا۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں: وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَاَهْلَهَاؕ الخ (سورة الفتح آیت نمبر 26)۔
کہ تقویٰ ان کے قلوب کی لازمی صفت ہے اور یہی لوگ اس کے زیادہ حقدار اور اہل ہیں۔
شیعہ کہتے ہیں یہی لوگ منافق تھے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الرّٰشِدُوْنَ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ (سورة الحجرت آیت نمبر 6 7)کہ ان کے دلوں کو ہم نے ایمان سے مزین کیا کفر اور عصیان سے محفوظ رکھا اور یہی لوگ ہدایت کے ستارے ہیں۔
شیعہ کہتے ہیں کہ ان کے دلوں میں ایمان سرے سے تھا ہی نہیں نبی کریمﷺ فرماتے ہیں: اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ستاروں کی مانند ہے کسی ایک کی بھی اتباع کر لو فلاح کو پہنچ جاؤگے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سارے کے سارے گمراہ ہیں اور جھوٹے ہیں اکثر نے اپنا جھوٹ نفاق کے پردے میں چھپائے رکھا جو بچے رہے انہوں نے اپنا جھوٹ تقیہ کی چادر میں لپیٹے رکھا۔
(2) شیعہ مذہب کی دوسری خصوصیت یہ ہے:
کہ برائی کو عبادت کا درجہ دے کے مسلمانوں کو اخلاقی اور دینی اعتبار سے کھوکھلا کر دیا جائے چنانچہ جھوٹ جو دنیا کے ہر مذہب میں برائی شمار ہوتا ہے ان کے ہاں جھوٹ اتنی بڑی عبادت ہے کہ دین شیعہ کا 9/10 حصہ جھوٹ میں مضمر ہے زنا ہر جگہ اور ہر زمانے میں گھناؤنا اخلاقی جرم ہے مگر شیعہ کے ہاں اس کا یہ مقام ہے کہ عمر بھر میں ایک دفعہ کرو تو حسین کے برابر دو دفعہ کرو تو حسن کے برابر تین دفعہ کرو تو علی کے برابر اور چار دفعہ کرو تو رسول کے برابر درجہ ہے۔
گالی گلوچ کرنا ہمیشہ برائی شمار ہوتا ہے مگر شیعہ کے نزدیک اہلِ حق کو گالی دینا بہت بڑی عبادت ہے۔
(3) تیسری خصوصیت یہ ہے کہ:
برائی کے لیے ایک نئی اصطلاح وضع کرو پھر اسے عبادت قرار دو چنانچہ انہوں نے جھوٹ کے لیے تقیہ کہ اصطلاح وضع کی زنا کے لیے متعہ کی گالی گلوچ کے لیے براءت کی اور اس وصف کی صورت بعینہٖ یہی ہے کہ کتے کا نام بکری رکھ دو اور بسم اللہ پڑھ کے خوب مزے سے کھاؤ۔
(4) چوتھی خصوصیت یہ ہے کہ:
دنیا بھر میں یہ اصول مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر مصلح ہر مفکر اور ہر نبی کے مخاطبین اول جو اس کے گرد جمع ہوں اور جن کی وہ تربیت کرے وہ اس جماعت کے بہترین اور مثالی افراد ہوتے ہیں۔
شیعوں کا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام میں بدترین وہ لوگ تھے جن کی نبی کریمﷺ نے 23 برس تک تربیت فرمائی اچھا آدمی اگر کوئی پایا جاتا ہے تو وہ اس جماعت کے باہر مل سکتا ہے اس کے اندر کوئی نہیں۔
(5) شیعہ مذہب کی پانچویں خصوصیت یہ ہے:
کہ یہ جن حضرات کو اپنا امام اور معصوم کہتے ہیں انہی کو کافر بھی کہتے ہیں اور انہی کے قتل کے درپے رہتے ہیں ان کی توہین بھی کرتے ہیں چنانچہ سیدنا علیؓ کو خود شیعہ نے کافر بھی کہا اور قتل بھی کیا عبدالرحمٰن ابنِ ملجم نے سیدنا علیؓ سے بیعت کی اور بیعت کر کے سیدنا علیؓ کو شہید کیا۔
دوسرے سیدنا حسنؓ نے جب سیدنا امیرِ معاویہؓ سے صلح کی تو شیعوں نے کہا واللہ یرید ان یصالح معاویۃؓ ویسلم الامر الیه کفرو اللہ الرجل کما کفر ابوہ فانتبھوا فسطاطه حتیٰ اخذوا مصلاہ من تحته ونزع مطرفه عبدالرحمٰن بن جعال وطعنه جراح بن سنان فی فخذہ۔
شیعوں نے کہا خدا کی قسم سیدنا حسنؓ کا ارادہ ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ سے صلح کر لے اور حکومت اسے دے خدا کی قسم سیدنا حسنؓ کافر ہو گیا جیسے کہ اس کا باپ کافر ہو گیا تھا پھر انہوں نے سیدنا حسنؓ کے خیمے پر حملہ کر دیا ان کے نیچے سے مصلیّٰ گھسیٹ لیا ان کی چادر چھین لی اور ان کی ران کو نیزہ مار کے زخمی کر دیا اور سیدنا حسنؓ کو یا مزلل المؤمنین یعنی مومنوں کو ذلیل کرنے والا کے نام سے پکارتے تھے تیسرے سیدنا حسینؓ کو 12 ہزار خط لکھ کر کوفہ میں بلایا اور خود پانی بند کر کے اپنے ہاتھوں سے ذبح کیا اور جھوٹ موٹ سے ماتم کرنے کا ڈرامہ کرنا شروع کر دیا چنانچہ زین العابدین نے یہ منظر دیکھ کر کہا ان ھؤلاء یبکون ومن قتلنا غیرھم کہ یہ لوگ ماتم جو کر رہے ہیں تو بتاؤ کہ ان کے بغیر ہمارا قاتل کون ہے۔
یعنی چوتھے امام کی شہادت یہ ہے کہ ہمیں شیعوں نے قتل کیا اور سیدہ فاطمہؓ دخترِ سیدنا حسینؓ نے تو کوئی بات ڈھکی چھپی نہ چھوڑی کہا یا اھل الکوفۃ یا اھل المکروا لغدد والخیلا کزبتمونا و کفرتمو فاورایتم قتالنا حلالا واھوالنا نبھا کانا اولاد المترک کما قتلتم جدنا بالامس وسیوفکھم یقطر من ومائنا اھل البیت لحقد متقدم قرت بذالک عیونکم و فرحت قلوبکم اجتراء منکم علی اللہ ومکرتم واللہ خیرا الماکرین۔
یعنی اے کوفے والو! مکارو! غدارو! تم نے ہمیں جھٹلایا ہمیں کافر کہا ہمارے قتل کو حلال سمجھا ہمارے مال کو غنیمت جانا ہمیں قتل کیا جیسا کہ کل تم نے ہمارے جدّ (سیدنا علیؓ) کو قتل کیا تھا تمہاری تلواروں سے ہمارا خون ٹپک رہا ہے سابقہ کینہ کی وجہ سے تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں تمہارے دل خوش ہوئے تم نے اللہ کے مقابلے میں بڑی جرأت کی اور خوب غداری کی مگر اللہ خوب سزا دینے والا ہے۔
اور سب سے بڑھ کر نبی کریمﷺ کی توہین کی یہاں تک کہ اسے اپنا عقیدہ بنالیا ان کا عقیدہ ہے کہ بارہواں امام جب ظاہر ہوگا تو اول من بایعہ محمدرسول اللہﷺ
یعنی سب سے پہلے اس کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا محمد رسول اللہﷺ ہوں گے۔
امام الانبیاء اور رحمۃ اللعالمینﷺ کو ان لوگوں نے ایک موہوم بارہویں امام کا مرید تصور کیا اور اپنے امام کو پیر کا درجہ دیا۔
(6) ان کی چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ:
اسلام نے اللہ کی طرف سے جو دستورِ حیاتِ قرآن میں پیش کیا وہ اس کا انکار کرتے ہیں اور اس سلسلے میں اللہ اور رسولﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو معاذ اللہ خائن سمجھتے ہیں حقیقت میں انہیں اصل دشمنی قرآن سے ہے کیونکہ یہ کتاب ان کی سازش کو ایک قدم نہیں چلنے دیتی صرف قرآن دشمنی کی وجہ سے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن کرتے ہیں جب تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خائن نہ ثابت کیا جائے قرآن کا انکار ممکن نہیں اس لیے وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین
پر لعن طعن کرتے ہیں اسلام کے اس قلع کو جب تک راستے سے ہٹایا نہ جائے قرآن سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔
حضور والا! یہ ہے شیعہ مذہب کا مختصر سا تعارف
بادشاہ: واقعی ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ شیعہ مذہب کوئی مذہب ہی نہیں بلکہ اسلام کے خلاف کفر کی ایک خفیہ سازش ہے اور یہ وہ کفر ہے جس پر اسلام کا لیبل لگا کر مخلوق کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
الا لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ الَّذِينَ يَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَيَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُمْ بِالآخِرَةِ هُمْ كَافِرُونَ(سورة ہود آیت نمبر 18 19)۔
عباسی: حضور والا! یہ تو تاریخی حقائق تھے جو میں نے پیش کر دیے اگر اجازت ہو تو میں ان کے متعلق نبی کریمﷺ کہ چند ارشادات بھی پیش کر دوں۔
بادشاہ: ہاں ہاں ضرور کہیے۔
عباسی: قال رسول اللہﷺ اربعۃ اصناف من امتی لیس لھم فی السلام نصیب ولا فی الجنۃ نصیب ولا تنالھم شفاعتی ولا ینظر اللہ الیھم ولا یکلمھم ولھم عذاب الیم المرجئۃ والقذریۃ والجھمۃ والرافضة
سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا میری امت ہونے کا دعویٰ کرنے والے چار گروہ ایسے ہیں کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں نہ ان کے لیے جنت میں داخلہ ہے نہ میری شفاعت نہ اللہ تعالیٰ ان پر نگاہ کرے گا نہ ان سے کلام کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے وہ گروہ مرحبۂ قدریہ جہمیہ اور رافضی ہیں۔
(2) عن علیؓ قال سیئاتی قوم یقال لھم الرافضۃ فاذا لقیتموھم فاقتلوھم فانھم مشکرکون۔
سیدنا علیؓ فرماتے ہیں ایک قوم ہوگی جن کو رافضی کہیں گے تو جب تمہیں وہ ملے انہیں قتل کرو کیونکہ وہ مشرک ہیں۔
(3) عن علیؓ قال رسول اللہﷺ تفرقت الیھود علی احدی وسبعین فرقۃ والنصاریٰ علی ثنتین وسبعین فرقۃ وانتم علی ثلاث و سبعین فرقۃ وان من اضلھا واخبثھا من تیشیع والشیعۃ۔
سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا یہود 71 فرقوں میں بٹ گئے نصاریٰ 72 فرقوں میں اور تم 73 فرقوں میں بٹ جاؤ گے ان میں سے بدترین اور خبیث ترین فرقہ شیعہ ہے
(4) عن علىؓ قال قال رسول اللهﷺ يكون فی أمتى قوم ليمون الرافضة يرفضون الاسلام۔
سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا میری امت میں ایک قوم ہوگی جس کا نام روافض ہو گا وہ اسلام سے خارج ہوں گے۔
(5) عن علىؓ قال قال رسول اللهﷺ سئیاتی بعدی قوم لهم نبذ (لقب) يقال لهم الرافضة فان ادركتم فاقتلهم فانهم مشركون قال قلت يا رسول اللهﷺ ما العلامة لهم اوتيهم قال يغرطونك ما ليس فيك ويطعنون على السلف ينتحلون جبنا أهل البيت وليس كذلك ورأيت ذلك يسبون ابابكرؓ و عمرؓ۔
حضور اکرمﷺ نے فرمایا اے سیدنا علیؓ میرے بعد ایک قوم ہوگی جسے رافضی کہا جائے گا اگر تم نے انہیں پایا تو انہیں قتل کرنا وہ مشرک ہوں گے سیدنا علیؓ نے ان کی علامت پوچھی تو حضورﷺ نے فرمایا تمہاری ذات میں غلو کریں گے جو اوصاف تم میں نہیں وہ بیان کریں گے وہ سلف صالحین پر طعن کریں گے وہ ہماری محبت کا دعویٰ کریں گے مگر حقیقت میں وہ ہماری محبت سے خالی ہوں گے اور سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو گالیاں دیں گے۔
بادشاہ: صدق اصدق الصادقینﷺ شیعہ مذہب کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں یہ یہود کی سازش خفیہ سیاسی تحریک اور اسلام کی نظریاتی سرحدوں پر منظم اور بھرپور یلغار ہے اعاذنا اللہ منھا۔
یہ شکر میں لپٹی ہوئی زہرِ ہلاہل ہے یہ منقش اور نظر فریب سانپ ہے یہ حیات کے نام سے موت کا پیغام ہے اور یہ اللہ و رسول اللہﷺ کے خلاف صاف اعلانِ جنگ ہے یہ اللہ سے بیزاری اور نبی کریمﷺ سے کھلم کھلا غداری ہے یہ عبداللہ ابنِ سباء کی منافقانہ کاروائی ہے جس نے عبد اللہ بن ابی کی سکیم کو بھی مات کر دیا ہے ۔