یہ زورِصداقت تھا جس نے نادر کو شیعہ سے سُنّی کیا
اہل سنتبسم الله الرحمٰن الرحيم
یہ زورِصداقت تھا جس نے نادر کو شیعہ سے سُنّی کیا
ہمارے دوست مولوی عبدالرحمٰن صاحب نے جن کے دل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خاص عقیدت ہے جو اس شہرہ آفاق مناظرے کا عربی سے اردو میں ترجمہ کیا ہے اس کا تمام مسلمانوں کو منونِ احسان ہونا چاہیے ہم نے اس مضمون کو پڑھا ہے اور مزے لے لے کر پڑھا ہے اس سے مذہب اہلِ سنت والجماعت کے حق پر ہونے کا ہمیں اور بھی یقین واثق ہو گیا ہے امید ہے جو اہلِ بصیرت اس کا تعصب کی عینک اتار کر مطالعہ کریں گے وہ کبھی پسند نہیں کریں گے کہ ایک لمحہ کے لئے بھی شیعہ مذہب میں رہیں۔
نادر شاہ کا شیعہ سے سُنی ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے کوئی شخص کبھی خواب میں بھی وہم نہیں کر سکتا کہ نادر شاہ جیسا جواں مرد بہادر تقیہ سے سُنی ہو گیا ہو نادر کے حالات کا وقتِ نظر سے مطالعہ کرنے کے بعد ثابت ہو گا کہ وہ کسی دباؤ یا حرص سے سُنّی نہیں ہوا بلکہ صداقت نے اسے مجبور کیا کہ وہ ایسے مذہب کو خیر باد کہے جو حق کو چھپانے کی تلقین کرتا ہے اور اسی لئے اس قابل نہیں کہ کوئی شجاع اور غیور انسان اسے ایک ساعت کے لئے بھی قبول کرے۔
نادر ایران میں اس وقت پیدا ہوا جب یہ فاروقی مجاہدوں کی پاک کردہ سر زمین سلاطینِ صفویہ کی شیعیت نوازی سے قریباً پونے دو سو سال سے رفض و بدعت کا گھر بن چکی تھی وہاں جو لڑکا پیدا ہوتا تھا اس کے کان میں صحابہ کرامؓ کے حق میں کبھی کلمہ خیر نہیں پڑھ سکتا تھا اسی لئے جب نادر جوان ہوا تو اس نے شیعی دین کی حمایت کو اپنا نصبُ العین قرار دیا چنانچہ زور حاصل کر کے جو اس نے پہلا کام کیا وہ سُنّی افغان بادشاہ اشرف کی حکومت کا ایران سے استیصال تھا اشرف چار سال سے فارس کا بادشاہ چلا آتا تھا چونکہ وہ اہلِ سنت والجماعت سے تعلق رکھتا تھا اس لئے نادر نے سن 1143 ھ 1729ء میں اس کی بادشاہی کا خاتمہ کر کے اس کی جگہ طہماسپ صفوی شیعی کو بادشاہ بنا دیا۔
اس کے تعصب کا یہیں خاتمہ نہیں ہو گیا بلکہ وہ اور آگے بڑھا اور غیر شیعہ اقوام کو ایران سے خارج کر کے اس نے قابل و قندھار بھی فتح کر لیا ہمارے شہر لاہور میں بھی آیا اور یلغار کرتا ہوا دہلی جانچا جہاں سن 1150 ھ میں اس نے قتل عام کرایا اور 30 کروڑ کی مالیت کا مالِ غنیمت لیکر ایران کو واپس چلا گیا۔
اس وقت سلطنتِ عثمانیہ دنیا میں بہت بڑی اسلامی سلطنت تھی جس کا مذہب بفضلہ اہلِ سنّت والجماعت تھا نادر چونکہ شیعہ مذہب کا بڑا حامی تھا اس لئے اس نے اس پر بھی دھاوا بول دیا اِس حملہ سے بھی اس کی اصلی غرض شیعہ مذہب کو فروغ دینا اور اس کا کعبہ میں پانچواں مصلیّٰ قائم کرانا تھا یہ ہماری رائے ہی نہیں ہے بلکہ تمام معتبر تاریخیں ہمارے بیان کی تصدیق کرتی ہیں دیکھو تاریخِ ملکم تاریخِ عثمانی صفحہ 239 اور تاریخِ خاندانِ عثمانیہ صفحہ 91 وغیرہ حق کا زور دیکھو صداقت کی طاقت ملاخطہ کرو کہ وہی نادر جو شیعہ مذہب کو کل جہان میں فروغ دینا چاہتا تھا صدق و راستی کے سامنے اس قدر مجبور ہوا کہ نہ صرف خود سُنّی بن گیا بلکہ اس نے حکم دے دیا کہ شیعہ مذہب میں جو کفریات بھری ہیں ان کو چھوڑ دیا جائے اور خطبوں میں بڑے زور سے سیدنا علیؓ سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ یا سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان ذوالنورینؓ کے نام کی منادی ہو چنانچہ یہ حکم نادری نافذ ہوتے ہی عمل پذیر ہو گیا اور کوفہ کی جامع مسجد سب سے پہلے ان مبارک ناموں سے گونج اٹھی کیا ہے کوئی سوچنے والا! جو سوچے اور سمجھے کہ نادر جیسے طاقتور انسان کو کس نے مجبور کیا کہ مذہب حق کی تائید کرے صاحبان یہ مذہب اہلِ سنّت والجماعت کی صداقت ہے جس کے سامنے بڑے بڑے گردن کشوں کے سر تسلیم خم ہو جاتے ہیں نادر ایک غیور بہادر تھا اس کے لئے شیعہ رہنا واقعی باعثِ ننگ و عار تھا وہ شیر تھا اگرچہ بھیڑوں کے گلے میں اس کی نشوونما ہوئی تھی جب اس نے اپنے ہم جنس شیروں (ترکوں) کو دیکھا تو وہ حق کا قائل ہو گیا اور اس نے ایسے دین میں رہنا پسند نہ کیا جس کے اظہار میں بقول جعفر صادق ذلت ہو اور جس کے پیروؤں نے دنیا میں کبھی کوئی قابلِ فخر اسلامی کام نہ کیا ہو آپ اس رسالہ کا نام جس کا ترجمہ پیش کیا جاتا ہے معلوم کرنے کے لئے بیتاب ہوں گے سو عرض ہے کہ یہ "الحج القطعية لاتفاق فرق الاسلامیہ" سے موسوم ہے اور اس کے مصنف علامہ سید عبداللہ آفندی بن حسین بن مرعی بن ناصر الدین بغدادی عباسی ہیں جو سویدی کے لقب سے مشہور ہیں اور جن کا ذکر اصل کتاب میں با رہا آیا ہے یہ کتاب سن 1323 ھ میں مطبع موسوم السعادة واقع مصر کی طبع شدہ ہے۔
اِعْتِذَار
ہم مترجم رسالہ ہذا سے طالبِ معافی ہیں کہ انہوں نے اس عجالہ نافعۂ کے ترجمہ کرنے میں جو تکالیف "خالصاً لوجہ اللہ" گوارا فرمائیں اس سے ہم نے بردرانِ اسلام کو اس قدر دیر کے بعد مستفیض کیا اصل بات یہ ہے کہ جب مولوی صاحب کی یہ تالیف موصول ہوئی ہم نے اسے چند علماءِ کرام کو دکھایا مضمون تھا ہی ایسا دلچسپ کہ سب کو پسند آتا مگر چونکہ ہم بغیر اچھی طرح اطمینانِ قلب حاصل کر لینے کے کوئی رسالہ نہیں چھاپتے اور تقیہ شعار مخالفین کی طرح بے تکی نہیں ہانکتے اس لئے ہم نے مترجم صاحب سے استدعا کی کہ وہ اصل عربی کتاب بھی ارسال فرمائیں تاکہ اس سے مقابلہ کر کے رسالہ شائع کیا جائے مولوی صاحب موصوف نے فرمایا کہ وہ کتاب دوسری کتابوں کے ساتھ مجلد ہے جب وہ لاہور آئیں گے ساتھ لیتے آئیں گے اس کے بعد آپ سے ملاقات نہ ہوئی اور مسودہ کاغذوں میں ایسا دبا کہ یاد ہی سے اتر گیا حال ہی میں ایک اور مولوی صاحب نے ذکر کیا کہ ہمارے پاس عربی میں ایک صحیح تاریخی مناظرہ کی کتاب ہے جس کا ترجمہ ہم نے شروع کر دیا ہے اسے دائرۃ الاصلاح ضرور شائع کرے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ وہی کتاب ہے جس کا ترجمہ ہمارے پاس موجود ہے پس ترجمہ کو اصل کے مطابق پاکر ہم نے اپنے فاضل دوست کی محنت کی داد دی اور رسالہ فوراً کاتب کو دے دیا امید ہے مولوی صاحب یہ بیان سُن کر اس دیر کو حق بجانب قرار دیں گے کیونکہ:
اگر دیر آمدم شیر آمدم شیر
دائرة الاصلاح لاہور
مقدمہ
اصل رسالے کا ترجمہ کرنے سے پہلے ایک مقدمہ کی تمہید ضروری معلوم ہوتی ہے جس سے ناظرین کرام اور زیادہ محظوظ ہونگے اور جس سے اس رسالے کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے اصل حقائق کا انکشاف ہو جائے گا یہ رسالہ جس کا ہم اس وقت ترجمہ کر رہے ہیں اصل میں عربی زبان میں ہے جس کے مصنف "حضرت علامہ شیخ عبداللہ آفندی مالکی" ہیں جو عراق عرب کے اکابر علماءِ اہلِ سنّت والجماعت میں سے تھے علامۂ موصوف نادر شاہ کے حکم سے عراق عرب کے سُنی اور شیعہ کے مشہور معرکۃُ الآرا مناظرے میں (جو نادر شاہ کے زیر اہتمام منعقد ہوا تھا اور جس میں علمائے اہلِ سنّت والجماعت کو ایسی فتح نصیب ہوئی جو قیامت تک صفحہ تاریخ پر آفتاب کی طرح روشن رہے گی) جج مقرر کیے گئے تھے علامہ موصوف نے اس مناظرے کی کیفیت کو خود قلمبند کیا ہے لیکن اس مباحثہ کے حالات کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ کسی قدر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے جس سے ناظرین رسالہ ہٰذا کی ضیافت طبع کے لئے چند ایک اور لذیذ روحانی کہانیوں کا اضافہ ہو جائے۔
خاندان صفوی کی مُسْلم کشی
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ایران میں جب سلطنت صفویہ کا آغاز ہوا اور شیخ صفی الدین کے پوتے شاہ اسمٰعیل نے محرم سن907 ھ میں سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اس کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا طہماسپ فرمان روا ئہوا اور جب یہ بھی چند دن دنیا کی ہوا کھا کر ملک عدم روانہ ہو گیا تو اس کے بعد اس کا بیٹا شاہ عباس اس تخت پر بیٹھا شاہ عباس نے تمام ایران کو مسخر کر لیا اور اربک قوم سے خراسان چھین کر عراق عرب اور آرمینیہ کو فتح کر لیا اور ترکوں سے برابر کی صلح کی شاہ عباس نے سن 1038 ھ میں انتقال کیا یہ خاندان چونکہ شیعہ مذہب رکھتا تھا اس لئے اس نے سُنی مذہب کو بزورِ شمشیر ایران سے معدوم کردیا یعنی جو لوگ شیعہ مذہب قبول نہیں کرتے تھے وہ قتل کر دیے جاتے تھے اور شاہ اسماعیل کے زمانے سے لے کر نادر شاہ کے وقت تک تمام ایرانی قلمرو میں علانیہ منبروں پر چڑھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں دینا شیعہ مذہب کا ایک رکن قرار پاگیا تھا شیعہ مذہب کے لوگ ہمیشہ سے اسلام کے دشمن چلے آئے ہیں خلافت بغداد کی تباہی کا باعث بھی یہی لوگ تھے اسلامی تاریخ میں یہ امر نہایت قابلِ افسوس ہے کہ جب کبھی سُنّی بادشاہوں کا کفار سے مقابلہ ہوا ہے تو شیعہ مذہب کے لوگوں نے ہمیشہ کفار کی مدد کی ہے ایران کے شیعہ فرماں روا بجائے اس کے کہ عیسائی قوم سے لڑتے الٹا جب کبھی ترکوں کی عیسائی طاقتوں سے جنگ چھڑ گئی ہے تو ایرانیوں نے بھی موقع پا کر ترکوں پر ہلّہ بول دیا ہے لیکن ترکی تلوار کے سامنے ہر بار ان کو سرنگوں ہونا پڑا ہے اور عثمانی فرماں رواؤں نے بارہا اس امر کی کوشش کی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اعلانیہ گالیاں دینے کی کفریہ بدعت کو ایران سے بزورِ شمشیر مٹا دیں چنانچہ بارہا ایران پر فوج کشی کی گئی لیکن ایرانیوں کے بھائی عیسائی جنگ چھیڑ کر سر راہ ہو جاتے تھے اور ترک مجبوراً اپنی بڑی طاقت کو اُدھر پھیر لیتے تھے اہلِ سنت کی خنجر خار اشگاف نے ہمیشہ ناموسِ اسلام کی حفاظت کی ہے اور قیامت تک یہی لوگ اسلام کی حفاظت کرتے رہیں گے ایرانی شیعہ اگر احسان فراموش نہ ہوتے تو وہ بھی ایک ایسے شخص کو گالیاں نہ دیتے جس کے جرار اور قہار لشکر کے طفیل ایرانیوں کو اسلام کی دولت نصیب ہوئی اگر فاروقی گھوڑے ایران کو پامال نہ کرتے تو آتش پرستی کے سوا ان کے حصے میں اور کیا تھا بہر حال جب صفوی خاندان کی سلطنت کمزور ہو گئی اور ایک طرف سے افغانوں نے شاہ حسین کو سن 1135 ھ میں قتل کر کے اس کے پایہ تخت اصفہان پر قبضہ کر لیا اور دوسری طرف سے ترکوں نے عراق عرب اور آرمینیہ وغیرہ پر تسلط جما لیا تو شاہ حسین کے قتل ہونے کے بعد اس کے بیٹے طہماسپ ثانی نے اپنی حالت کو دوبارہ درست کرنے کی کوشش شروع کی چنانچہ ایران کی بہت سی فوجیں اس نے جمع کیں۔
نادر کی ملک گیری
انہی فوجی لوگوں میں سے ایک "نادر شاہ" بھی تھا جو قوم کا افشاری ترک اور ایک معمولی گڈریا تھا لیکن قضا اور قدر کے مالکون نے اسے خاص قابلیت عنایت کی تھی طہماسپ چونکہ عیاش اور مے نوش تھا لہٰذا سلطنت کا انتظام اس سے نہیں ہو سکتا تھا اس لئے نادر نے رفتہ رفتہ اس کی بارگاہ تک رسائی حاصل کر کے اعتماد حاصل کر لیا اور ایرانی فوجوں کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی نادر سب سے پہلے اصفہان پر حملہ آور ہوا اور افغانوں کو شکستِ فاش دیکر اصفہان پر قابض ہو گیا اور اس وقت اس نے اپنا لقب طہماسب قلی یعنی طہماسب کا غلام رکھا اصفہان پر قبضہ کرنے کے بعد نادر شاہ نے یہ ارادہ کیا کہ عثمانی ترکوں نے جن ایرانی علاقوں پر قبضہ کیا ہوا ہے وہ ان سے واپس لے لئے جائیں چنانچہ ایک بہت بڑا بھاری لشکر لے کر اس نے بغداد کا محاصرہ کر لیا ان ایام میں بغداد کا ترکی گورنر "احمد پاشا" تھا اور "احمد پاشا" کو ترکی حکومت کی طرف سے یہ ہدایت تھی کہ وہ قلعے کے اندر رہ کر مدافعت کرے کیونکہ ترک حسبِ معمول دوسری طرف مشغول تھے نادر شاہ نے تقریباً آٹھ مہینے تک بغداد کو گھیرے رکھا اور محصور فوج نے اگرچہ راشن کے ختم ہو جانے کی وجہ سے گھوڑے گدھے بلکہ بلیاں اور کتوں تک کھا لیے لیکن ترکی سپاہیوں نے قلعے کو غنیم کے حوالے نہ کیا اور اسی اثنا میں ترکوں کا مشہور "جنرل طوبال پاشا عثمان" کثیر التعداد ترکی سپاہ کے ساتھ نادر شاہ کی سرکوبی کے لیے آگیا "طوبال پاشا عثمان" کی فوج سے نادری فوج کی معرکہ آرائی شروع ہو گئی اور ایک شدید جنگ کے بعد نادر شاہ کو شکست ہوئی اور وہ بقیہ السیف فوج کو لیکر بھاگ گیا اور پھر کچھ وقفے کے بعد پھر تیاری کر کے بغداد پر حملہ آور ہوا لیکن اس دفعہ بھی کچھ نہ چلی پھر ارضِ روم پر چڑہائی کی لیکن وہاں بھی منہ کی کھائی اور جب آذر بائیجان کے علاقے میں واپس آیا تو ایرانی لوگوں نے اس کی سلطنت کو تسلیم کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس بیعت کی تاریخ فقره الخير فيحا وقع سے نکالی گئی یعنی سن 1148 ھ اس کے بعد نادر شاہ نے ہندوستان پر چڑھائی کی اور دہلی میں قتل عام کر کے تخت طاؤس اور 36 کروڑ روپیہ لیکر اور محمد شاہ کو باجگذار بنا کر واپس چلا گیا ہندوستان کے بعد اس نے تمام افغانستان اور ترکستان پر قبضہ کر لیا اور اس طرح نادر شاہ اس وقت میں ایران ہندوستان ترکستان اور افغانستان کا مالک تھا اور اسی وجہ سے وہ اپنے آپ کو شہنشاہ کہلاتا تھا پھر داغستان پر چڑھائی کی اور چار سال تک اس میں مصروف رہا لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا اس تمام میں نادر شاہ کی خط و کتابت دولتِ عثمانیہ کے ساتھ جاری رہی۔
نادر مذہب شیعہ کی حمایت میں
نادر شاہ ترکوں سے کبھی تو یہ مطالبہ کرتا تھا کہ میں تیمور کا وارث ہوں علاقہ رہا سے لے کر عبادان کے ورثے تک میرے حوالے کر دیا جائے کیونکہ یہ علاقہ تیموری تسلط میں تھا اور کبھی دولت علیہ عثمانیہ سے یہ مطالبہ کرتا تھا کہ وہ اس کے شیعہ مذہب کی تصدیق کرے اور اس امر کا اقرار کرے کہ اسلامی مذہب بجائے چار کے پانچ ہیں اور پانچواں مذہب ہمارا ہے جو دراصل سیدنا جعفر صادق کا مذہب ہے اور ہم نے انہی سے لیا ہے چونکہ یہ ایک برحق مذہب ہے لہٰذا حرمین الشریفین میں ہمیں بھی پانچویں مصلے کی اجازت دی جائے اور کعبہ مکرمہ میں پانچواں مصلیٰ شیعوں کا ہو اور اس کے علاوہ حج کے راستے کی حفاظت اور حاجیوں کا انتظام بھی ہمارے سپرد کر دیا جائے چونکہ دولت علیہ عثمانیہ کے تمام سلاطین اور اربابِ دولت اور علماءِ اہلِ سنّت حنفی المذہب چلے آتے تھے وہ اس بدعتی کے مطالبات کو کب پورا کر سکتے تھے لہٰذا نادر شاہ نے پھر سن 1156 ھ میں مرنے سے چار برس پہلے عراقِ عرب پر ایک بہاری جرار لشکر لے کر حملہ کیا اور اس دفعہ اس نے ستر ہزار فوج صرف بغداد کے محاصرے کے لئے رکھی اور نوے ہزار فوج بصرہ کے محاصرے کے لئے بھیجی اور چھ ماہ تک بصریٰ کا محاصرہ جاری رہا اور قلعوں پر گولہ باری ہوتی رہی لیکن نادری فوج بغداد کے نزدیک نہ آسکی کیونکہ گورنر احمد پاشا نے پہلے ہی سے اس کو دُور رکھنے کے لئے انتظام کر لیا تھا اور قلعوں کے برجوں پر دور کی مار کی توپیں نصب کر دی تھیں جن کی وجہ سے نادری فوج نزدیک نہیں آسکتی تھی نادر شاہ اپنی فوج کے اس حصے کو بصریٰ اور بغداد کی تسخیر کے لئے مصروف کر کے خود باقی دو لاکھ فوج کے ساتھ دیر الزور اور گردستان پر حملہ آور ہوا اور ان علاقوں کو فتح کر کے قلعہ فرقوق پر چڑھ آیا اور آٹھ دن تک اس کا محاصرہ کر نے کے بعد جس میں اس نے پچیس ہزار توپ کے فیر اس پر کئے مسخر کر لیا اور پھر جس اربل کو فتح کر کے موصل پر آیا موصل کے ترکی قلعوں پر توپ کے چالیس ہزار فیر کیے لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا پھر ایک سرنگ لگا کر بارود سے بھر کر اسے آگ لگائی لیکن اس سے بھی الٹی اس کی اپنی ہی فوج تباہ ہوئی جب موصل کو مسخر نہ کرسکا تو وہاں سے مایوس ہو کر باقی فوج کو لے کر بغداد کی طرف آیا اور حضرت موسیٰ بن جعفر کے گاؤں میں اتر کر ان کی قبر کی زیارت کی حضرت امام ابوحنیفہ امام الہام کی قبر پر پہنچ کر تبرک حاصل کیا اور اس کے بعد نجف اشرف میں آکر سیدنا علیؓ کی زیارت کی اور اس گنبد کا بھی ملاحظہ کیا جس کی بابت اس نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ سونے کا بنایا جائے۔
نادر کا مطالبہ اور احمد شاہ کی معقول تجویز
اس تمام مذکورہ بالا عرصہ میں اس کی خط و کتابت بغداد کے ترکی گورنر احمد پاشا کے ساتھ جاری تھی جس میں وہ بار بار یہی مطالبہ کرتا تھا کہ دولتِ عثمانیہ اس امر کی تصدیق کرے کہ شیعہ مذہب ایک صحیح مذہب ہے اور اس امر کو بھی مان لے کہ شیعہ مذہب دراصل سیدنا جعفر صادق کا مذہب ہے۔
لیکن علمائے اہلِ سنّت و الجماعت یہی کہتے تھے کہ شیعہ مذہب جو کفریات سے لبریز ہے اہلِ بیت نبویﷺ کا مذہب ہرگز نہیں بلکہ یہ خود شیعوں کا خود ساختہ مذہب ہے جسے مذہب اسلام سے کچھ تعلق نہیں لیکن آخر کار نادر شاہ نے اپنے اس مطالبے کو واپس لے لیا اور اس واپسی کی وجہ یہ تھی کہ احمد پاشا کی تدبر نے نادر شاہ کو اس امر کی ترغیب دلائی کہ مذہب دراصل کوئی ایسی چیز نہیں ہے۔
جس کا اعتقاد زبردستی کسی کے دل میں رکھا جا سکے بلکہ صحیح مذہب دراصل وہی ہوتا ہے جس کو طبائعِ صحیحہ اور فطرتِ سلیمہ طوعاً قبول کرلے نہ کہ کرہاً کیونکہ دل میں ہمیشہ کے لئے وہی عقیدہ جاگزیں ہو سکتا ہے جسے دل طبعاً قبول کر لے لہٰذا اگر آپ کا مذہب سچا ہے تو اس بےبہا گوہر کو اس طرح چھپانے کی کیا ضرورت ہے جس طرح کہ عورت اپنے حیض کو چھپاتی ہے بلکہ اسے علی رؤس الاشہاد لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے تاکہ مذاہب کے صراف اسے کسوٹی پر رکھ کر پرکھیں کہ یہ گوہر کس قدر حقیقتِ گوہری سے تعلق رکھتا ہے اور اس کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ آپ خود اپنے اہتمام میں ایک مجلس مناظرہ کے انعقاد کا انتظام کریں اور اس کی تمام کاروائی خود اپنے ہی زیر اہتمام رکھیں شیعہ علماء کو آپ خود بلالیں اور سُنی علماء اگر آپ چاہیں تو میں بھیج سکتا ہوں ورنہ ان کو بھی آپ خود ہی بلالیں اور پھر آپ کے نزدیک جو فرقہ دلائل اور براہین کی رو سے غلبہ حاصل کرے اس کے مذہب کی تصدیق ہم کرنے کے لئے تیار ہونگے احمد پاشا کی یہ تدبیر نہایت قابلِ تعریف تھی جس سے سُنی مذہب کو ایک ایسی فتح نصیب ہوئی جو قیامت تک مشہور رہے گی احمد پاشا کو دراصل اس کے جاسوسوں نے یہ بات ذہن نشین کرا دی تھی کہ نادر شاہ ایک غیر متعصب آدمی ہے اور اس کو سُنّی مذہب سے کوئی ذاتی عداوت نہیں ہے لیکن آخر کار ایرانی النسل ہے اور شیعہ ملاؤں نے جو ہر وقت اس کے گرد پیش رہتے ہیں اسے ایسا بنا دیا ہے چونکہ خود عالم نہیں ہے اس لئے مذہبی فتووں کا مقابلہ نہیں کر سکتا اور اس کے علاوہ ترکستان اور افغانستان کی تسخیر کے دوران میں سُنی علماء سے بھی اس کی صحبت رہی ہے جن کی جادو بیانی سے وہ متاثر ضرور ہے لہٰذا اسے احقاق حق کے لئے خود اپنے ہی اہتمام میں ایک مجلس مناظرہ منعقد کر لینی چاہئیے اس کے علاوہ احمد پاشا کو یہ بھی یقین تھا کہ اہلِ سنّت والجماعت جیسا کہ تلوار کے مقابلہ میں کبھی کفر اور بدعت سے مغلوب نہیں ہوئے اسی طرح براہین اور دلائل کے مقابلہ میں بھی ہر ایک موقع پر فتح نے انہی کی قدم بوسی کی ہے لہٰذا مناظرے کی صورت میں حق کا ہی بول بالا رہے گا اور اس مناظرے کا اگر اور کچھ نتیجہ نہ نکلے تب بھی اس کا اثر یہ ضرور ہو گا کہ شیعہ ملاؤں کی وہ قدر و منزلت نادر شاہ کی نظر میں نہ رہے گی جو اس سے پہلے ہے اور اس طرح وہ پھر کبھی ایسے بے جا مطالبات نہیں کرے گا۔
مناظرہ کی تجویز منظور ہوگئی
نادر شاہ بہادر ہونے کے علاوہ عقلمند اور مدّبر بھی تھا اسے معلوم تھا کہ سوائے ایران کے باقی تمام ممالک جو اس کے زیرِ تصرف ہیں ان کی رعایا سُنی ہے اور اس کا یہ مذہبی تعصب جو شیعہ ملاؤں کا ایجاد کردہ ہے دراصل حکمرانی اور جہان بانی کے اصول کے برخلاف ہے بادشاہ کے لئے یہ ضروری ہےکہ وہ مذہبی تعصب سے الگ رہے نادر شاہ کو یہ بھی معلوم تھا کہ دولت علیہ عثمانیہ اگرچہ اس کی ان کاروائیوں سے اس وقت بعض مجبوریوں کی وجہ سے اغماض کئے ہوئے ہے لیکن جب اس کو فرصت ملے گی تو وہ اس کا انتقام لے گی یہی حالات تھے جن کی وجہ سے نادر شاہ نے احمد پاشا کی تجویز کو قبول کر لیا احمد پاشا کا یہ ایک نہایت دانشمندانہ فعل تھا کہ اس نے اس مجلس کے انعقاد کا بانی میانی خود نادر شاہ کو ہی ٹھہرایا کیونکہ اس کا اثر بہت زیادہ ہوا بہ نسبت اس کے کہ احمد پاشا اس کے انتظام کو خود اپنے ہاتھ میں لیتا بہرحال نادر شاہ نے احمد پاشا کو لکھا کہ مجلسِ مناظرہ کا انعقاد ہونے والا ہے اور اپنی طرف سے کسی ایسے عالم کو بھیجیں جو اس مجلس کا صدر بننے کے قابل ہو اور فنِ مناظرہ میں یکتا اور زبردست عالم ہو نادر شاہ نے اس مناظرے کے لئے ایران کے بڑے بڑے جليل القدر شیعہ آقاؤں اور مجتہدوں کو مدعو کیا اور کربلا اور نجف اور حلہ اور حوارز کے شیعہ علماء بھی بلائے گئے اور اس کے علاوہ بخارا اور افغانستان کے اکابر علماءِ اہلِ سنّت والجماعت کو بھی نادر شاہ کی طرف سے اس میں شمولیت کی دعوت دی گئی اور اس رسالے میں بڑے بڑے نامی شیعہ علماء کی تعداد 70 تک بیان کی گئی ہے اور صاحبِ رسالہ نے ہر ایک فریق کے صرف مشہور علماء کے نام قلمبند کئے ہیں ادھر احمد پاشا نے ایک مشہور مالکی المذہب زبردست عالم کو جس کا نام نامی سید عبداللہ آفندی ہے اور اس مجلس کے ہیرو تھے صدر بنا کر بھیجا اور نادر شاہ نے ان کو اس مباحثے کے تمام اختیارات دے دیئے تھے جس کی کیفیت خود مناظرے کے ترجمے سے معلوم ہو جائے گی افسوس ہے کہ جس قدر علامہ موصوف یا دیگر علماۓ اہلِ سنّت تیاری کر کے گئے تھے اس قدر شیعہ علماء مرغوب اور بزدل ہو گئے حالانکہ نادری فوج اور نادری قوت ان کی پوری مدد گار تھی اور علامہ سید عبداللہ آفندی نے شروع میں ہی کچھ ایسا رعب بٹھایا کہ تمام شیعہ علماء پر ہیبت طاری ہوگئی اور وہ بجائے اس کے کہ تمام متنازع فیہ مسائل کا ذکر چھیڑ کر مباحثہ کو بڑھا دیتے ان کے صدر نے صرف خلافتِ سیدنا علیؓ کے مسئلے کو چھیڑ کراپنی شکست کو تسلیم کر لیا اور ایسے مرعوب ہو گئے کہ جو کچھ بحرُ العلم کہتا جاتا تھا اسے تسلیم کرتے جاتے تھے۔
فتح حق ہی کی ہوا کرتی ہے
میں یہاں اس امر کا بیان کر دینا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ نادر شاہ جو اس وقت ہندوستان ترکستان افغانستان اور ایران کا مالک تھا کس طرح آخر کار باوجود شدیدُ التعصب شیعہ ہونے کے سُنی ہو گیا اور اس نے کس طرح خلیفہ اہلِ سنّت و الجماعت "سلطان محمود خان عثمانی" مرحوم کے نام کا کوفہ میں خطبہ پڑھنے کا حکم دیا اور اپنے آپ کو اس نے خلیفة المسلمین کا نائب اور چھوٹا بھائی قرار دیا میں جب تاریخ کے اس باب پر پہنچتا ہوں تو مجھ پر خلافتِ عظمیٰ اسلامیہ کی جس کی آج کل بحث چھڑی ہوئی ہے اور جسے بعض لوگ صرف علماء کی خود ساختہ بات قرار دے رہے ہیں ہیبت طاری ہو جاتی ہے کہ نادر شاہ جیسا شہنشاہ آخر کار عرش خلافت کے سامنے کس طرح سرنگوں ہوا نادر شاہ نے حقیقت نفسُ الامریہ کا اعتراف کرتے ہوئے صاف لفظوں میں علامہ سید عبداللہ آفندی سے کہہ دیا کہ میں جب دنیا میں آیا تھا تو میرے باپ دادا میں سے کوئی بھی بادشاہ نہیں تھا لیکن "خليفةُ المسلمين سلطان ابنِ السلطان" ہیں اور میں حکم دیتا ہوں کہ آج جامع کوفہ میں حسبِ معمول اہلِ سنّت جمعہ پڑھایا جائے اور خطبہ میں خلفائے اربعہؓ کا نام حسبِ ترتیبِ اہلِ سنّت لیا جاۓ اور اس کے بعد "خلیفةُ المسلمين سلطان محمود خان خادم الحرمين الشريفين" کا اور اس کے بعد میرا نام بحیثیت ان کے چھوٹا بھائی ہونے کے لیا جائے ناظرین کرام اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شاہانِ اسلام عرشِ خلافت کی کیسی عزت کرتے تھے اس کے متعلق زیادہ تفیصل کی اگر کسی کو ضرورت ہو تو وہ سرٹامس کی اس تاریخ شاہانِ اسلام کو دیکھے جس میں اس نے سن 1771 ھ میں اسلامی بادشاہوں کی تاریخ ان کے رائجُ الوقت سکون کے کتبوں سے مرتب کی ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شاہانِ اسلام اپنے آپ کو خلیفہ وقت کا نائب سمجھتے تھے کیونکہ تقریباً ہر ایک بادشاہ کے سکے پر ایک طرف بادشاہ اور دوسری طرف خلیفہ وقت کا نام ہے حقیقت یہ ہے کہ خلافتِ اسلامیہ قرآنِ مجید کے رُو سے اسلام کا ایک جزو لانیفک ہے اگر ضرورت پڑی تو ہم اس موضوع پر پھر کبھی قلم اٹھائیں گے۔
واللہ الهادی الموفق للصواب وهو حسبی ونعم الوكيل۔
الراقم احقر العباد محمد عبدالرحمٰن مولوی فاضل و منشی فاضل۔
مباحثہ
سنیوں کی طرف سے مناظر کا تقرر
الحمدلله رب العالمين والصلواة والسلام على رسوله سيدنا محمد خاتم الانبياء والمرسلين وعلىٰ الٰه واصحابه الطيبين الطاهرين اما بعد۔
علامہ شیخ عبداللہ آفندی
فرماتے ہیں کہ جب نادر شاہ نجف اشرف میں پہنچا تو بتاریخ 11 شوال سن 1156 ھ شام کے وقت سے کچھ پہلے میرے پاس احمد شاہ گورنر بغداد کا ایک خاص آدمی آیا اور کہا کہ آپ کو احمد شاہ بلاتے ہیں میں مغرب کی نماز کے بعد احمد شاہ کے ایوان میں داخل ہوا آگے سے احمد آغا میرے استقبال کے لئے آئے احمد آغا گورنر مذکور کے خاص ہمنشین تھے انہوں نے مجھے پوچھا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ احمد پاشا نے آپ کو کیوں بلایا ہے میں نے کہا نہیں کہا پاشائے موصوف یہ چاہتے ہیں کہ آپ نادر شاہ کے پاس جائیں کیونکہ نادر شاہ نے ہم سے ایک ایسا سُنی عالم طلب کیا ہے جو ایرانی شیعہ علماء کے ساتھ شیعہ مذہب کے متعلق مباحثہ کر سکے اور وہ اس قابل ہوکہ مذہب اہلِ سنّت والجماعت پر دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ پیش کرے جیسا کہ علمائے ایران اپنے مذہب کی حقانیت پر دلائل قائم کریں گے اب اگر خدا نخواستہ آپ مغلوب ہو گئے تو آپ کو بجائے چار مذاہب اسلامیہ کے پانچویں مذہب کی بھی تصدیق کرنی پڑے گی اس لئے آپ اس کے متعلق اچھی طرح غور کر لیں میں احمد آغا کے اس کلام سے سخت گھبرایا اور عرض کیا کہ آپ جانتے ہیں کہ رافضی لوگ اہلِ مکابرہ اور اہلِ عناد ہوتے ہیں اور وہ میری باتوں کو اگرچہ وہ حق ہوں کیسے تسلیم کریں گے خصوصاً اس حالت میں جب کہ ان کے پاس اس وقت فوجی قوت بھی ہے اور اس مذہب کا حامی نادر شاہ جیسا آدمی ہے جس کا ظلم اور جبر مشہور ہے تو ایسی صورت میں یہ امید کیسے ہو سکتی ہے کہ میں ان پر حُجت قائم کر سکوں گا میرے خیال میں ان کے ساتھ بحث کرنے سے کوئی مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوگا کیونکہ اوّل تو رافضیوں کے ساتھ مناظرہ کرنا ہی مشکل ہے جب کہ وہ تمام ان کُتب احادیث کو جن پر ہمارے دلائل کا مدار ہے تسلیم نہیں کرتے اور اگر اثبات مدعی کے لئے میں کوئی قرآنی آیت پیش کروں گا تو وہ اس کے الٹے پلٹے معنی کر کے کہیں گے کہ یہ آیت محتمل المعانی ہے "اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال" یعنی یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ دلیل مثبت المدعی میں اگر کسی اور معنی کا بھی احتمال ہو تو ایسی دلیل استدلال کے قابل نہیں ہوتی اور اس کے علاوہ وہ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ دلیل ایسی ہونی چاہیے جس پر دونوں فریق متفق ہو سکیں پھر اجتہادی امور سے تو صرف ظن ہی ثابت ہوتا ہے اب فرض کیجئے موزوں پر مسح کرنے کا جواز جو صرف احادیث سے ثابت ہے میں ان کے سامنے کیسے ثابت کروں گا کیونکہ اگر میں ایسے نہ کہوں کہ حدیث "مسیح علی الخفین" کو تقریباً ستر صحابہ کرامؓ نے روایت کیا ہے جن میں سے سیدنا علیؓ بھی ہیں تو وہ یہ کہ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس مسح کے عدمِ جواز پر ایک سو صحابہ کرامؓ کی روایت کردہ حدیث موجود ہے جن میں سے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ بھی ہیں پھر اگر میں اس کے جواب میں یہ کہوں کہ تمہاری تمام حدیثں جعلی اور موضوع ہیں تو وہ بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ تمہارے احادیث بھی جعلی اور موضوع ہیں پس ایسی صورت ان کو کس طرح الزام دیا جا سکتا ہے لہٰذا میری رائے یہ ہے کہ آپ بجائے میرے کسی اور حنفی یا شافعی مفتی کو بھیج دیں جو اس کام کے لئے موزوں ہو آغا احمد نے کہا احمد پاشا نے صرف آپ کو ہی منتخب کیا ہے اس لئے آپ کو ہی جانا پڑے گا اور حکم مانے کے بغیر اور کچھ چارہ نہیں ہے پھر اسی صبح کو پاشائے موصوف سے بھی میری ملاقات ہو گئی اور اس مناظرے کے متعلق خاص خاص امور معرض بیان میں آئے اور اس کے بعد احمد پاشا نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اس بارے میں آپ کی مدد فرمائے اور آپ کے دلائل اور براہین کو مضبوط کرے اور آپ کو جانا تو ضرور پڑے گا لیکن آپ کو اختیار ہے کہ آپ ان سے مباحثہ کریں یا نہ کریں میری رائے میں آپ اگر ایسا کریں تو اچھا ہوگا کہ شروع میں ہی آپ جب ان سے ملیں تو کوئی علمی بحث اس مناظر سے غیر متعلق چھیڑ کر اپنی قابلیت کا لوہا ان سے منوا لیں اور جب اس طرح آپ کا رعب قائم ہو جائے گا تو پھر دیکھ لینا کہ آیا وہ بطورِ انصاف اظہار ثواب طالب ہیں یا نہیں اگر یہ امید ہوئی کہ وہ انصاف سے علیحدہ نہیں ہوں گے تو پھر مباحثہ شروع کر دینا لیکن استقلال کی زیادہ ضرورت ہے اور کسی امر میں بھی ان کے سامنے سرنگوں نہیں ہونا ہوگا (باطل سے دبنے والے اے آسمان نہیں ہم سو بار کر چکا ہے تو امتحان ہمارا) نادر شاہ اس وقت نجف میں ہے اور میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ بدھ کی صبح کو اس کے پاس پہنچ جائیں پھر میرے لئے ایک خلعت فاخرہ اور سواری اور نوکر لائے گئے اور پاشائے موصوف نے خاص اپنی اردل کے بعض سوار بھی میرے ساتھ کر دیئے۔
علامہ شیخ عبداللہ آفندی کا تفکر
اور ہم سب ان ایرانیوں کے ساتھ جو ہمارے لینے کے لیے آئے تھے دوشنبے کے دن عصر سے پہلے بتاریخ 22 شوال بغداد سے نجف کی طرف روانہ ہوئے میں راستہ میں طرفین کے دلائل سوچ رہا تھا اور ہر ایک دلیل پر جو عتراض کرنا ممکن ہو سکتا تھا اس کا جواب بھی تیار کر لیتا تھا یہاں تک کہ میں نے ایک سو سے زیادہ دلائل تیار کر لیے اور ہر ایک دلیل پر اعتراض اور اس کا جواب بھی سوچ لیا اور اس طرح گویا کئی سو دلائل ذہن میں جمع ہو گئے راستہ میں مجھے بول الدم کی بیماری بھی لاحق ہو گئی جب ہم رئیس بن مزید کے گاؤں میں پہنچے جو اس وقت نادر شاہ کے قبضے میں تھا تو وہاں اہلِ سنّت و الجماعت کے بعض آدمی مجھے ملے جنہوں نے بتایا کہ نادر شاہ نے اس مباحثے کے لئے جو مشہور مفتی بھی اس کو اپنے علاقے میں مل سکتا تھا بلالیا ہے جن کی تعداد اب 70 مفتیوں تک پہنچ گئی ہے اور وہ سب کے سب رافضی ہیں جب میں نے یہ سنا تو "لاحول ولا قوة الا باللہ العلی العظیم اور انا للہ وانا اليه راجعون" پڑھا اور اس وقت میری طبیعت عجیب کش مکش میں پڑی ہوئی تھی کیونکہ میں یہ خیال کرتا تھا کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں بحث کرنے کے لئے نہیں آیا تو یہ بھی کمزوری کی دلیل ہے جس سے اہلِ سنّت کی کمزوری ثابت ہو گی اور بنا بنایا کام بگڑ جائے گا اور اگر مباحثے میں شریک ہو جاؤں تو پھر یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ رافضی لوگ نادر شاہ کے سامنے مباحثہ کے اصلی حالات کو دوسری شکل میں ظاہر کریں اور انصاف کا خون ہو جائے لیکن بہت کچھ غور کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ نادر شاہ کے روبرو مباحثہ کرنے پر زور دیا جائے اور میں نادر شاہ سے یہی کہوں گا کہ آپ اپنے سامنے مناظرہ کرائیں اور اس کے علاوہ ایک ایسا منصف بھی مقرر کر دیں جو نہ سُنی ہو اور نہ شیعہ بلکہ یہودی یا عیسائی ہو تاکہ کسی کی طرفداری کا احتمال نہ رہے اور میں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اگر اہلِ کتاب میں سے کوئی منصف مقرر کیا گیا تو میں اس سے یہ کہوں گا کہ دیکھ ہم دونوں فریق نے تجھے حاکم بنایا ہے اور یہ یاد رکھ کہ خدا تعالیٰ کے رو برو تجھ کو جواب دینا ہے اس لئے ہماری باتوں کو اچھی طرح سمجھ کر تو نے فیصلہ کرنا ہو گا میں نے یہ بھی سوچ لیا تھا کہ اگر وہ یہودی یا عیسائی شیعوں کی طرفداری کرے گا تو میں آخری دم تک لڑوں گا خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ ضائع ہو جائے اس کے بعد مذکورہ بالا گاؤں سے ہم چہار شنبہ کی رات کے وقت میں نکلے اور رات میں خفیف سی بارش بھی ہو رہی تھی اور سخت سردی کے علاوہ اس قدر تاریکی چھائی ہوئی تھی کہ انسان اپنے ہاتھ کو بھی نہیں دیکھ سکتا تھا اور یہ رات وہی تھی جس کی بابت ایک حماسی شاعر کہتا ہے
"فی ليلة من جمادى ذات اندية
لا يبصر الكلب فی ارجاها الطنبا"
بہر حال رات بھر چلنے کے بعد صبح کے قریب ہم ذوالکفل نبیؑ کے مشہد تک پہنچے اور کچھ تھوڑی دیر مشہد کے مکان کے باہر ہم نے آرام کیا اور فجر کی نماز ہم نے دندآن نامی کنوئیں پر پڑھی یہ مقام حلہ اور نجف کے درمیان نصف پر واقع ہے۔
شیخ آفندی کی قوتِ ایمانی
اس اثنا میں نادر شاہ کا ایک قاصد دوڑتا ہوا آپہنچا اور مجھ سے کہنے لگا کہ جلدی کریں کیونکہ بادشاہ آپ کو بلاتا ہے میرے اور نادر شاہ کے خیمے کے درمیان چھ میل کا فاصلہ تھا اور میں نے قاصد سے پوچھا کہ نادر شاہ کی کیا عادت ہے کہ جب کسی بادشاہ کا ایلچی اس کے پاس آتا ہے وہ اسی طرح راستے میں سے ہی اس کو بلا لیتا ہے یا کچھ دیر ٹھہرانے کے بعد اسے باریابی کا موقع دیتا ہے اس نے کہا صرف آپ کے ساتھ ہی ایسا کیا گیا ہےکہ آپ کو راستے سے ہی بلا لیا ہے ورنہ اور کسی کے ساتھ ایسا نہیں ہوا کہ اس کو ٹھہرانے کے بغیر ہی بلا لیا ہو میں اس سے گھبرایا اور دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ جلدی بلانے کی غرض شاید یہی ہو کہ وہ مجھے مجبور کرےگا کہ تم "امامیہ" مذہب کی تصدیق کرو ممکن ہے کہ جبر کرنے سے پہلے وہ مجھے دنیاوی لالچ میں پھنسائے اور اگر میں دنیاوی لالچ میں نہ آیا تو پھر مجھ پر جبر کرے گا لیکن میں نے مصمّم ارادہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہی ہو کلمہ حق کے کہنے سے باز نہ رہوں گا اگر جان بھی چلی جائے تو پرواہ نہیں لیکن راستی کو نہ چھوڑوں گا اور کوئی دنیاوی طاقت مجھے حق کہنے سے نہیں روک سکے گی میرے دل میں اس وقت یہ خیال تھا کہ اسلام آنحضرتﷺ کی وفات کی وجہ سے چلتے چلتے رک گیا تھا اور پھر سیدناصدیقِ اکبرؓ کی وجہ سے چلنے لگا اور پھر مسئلہ خلق القرآن کے وقت اس کی رفتار رک گئی لیکن امام احمد بن حنبلؒ کی وجہ سے پھر چلنے لگا اور اب پھر رک گیا ہے لہٰذا اگر میں ثابت قدم رہا تو یہ چلتا رہے گا اور اگر میں ٹھہر گیا تو یہ بھی ہمیشہ کے لئے ٹھہر جائے گا اور اس کی ترقی رک جائے گی کیونکہ اسلام کا ٹھہرنا یا چلنا علمائے کاملین کے ثبات قدم پر موقوف ہے اور چونکہ اس علاقے کے لوگ میری نسبت حُسنِ ظن رکھتے ہیں لہٰذا اگر میں اس امتحان میں ناکام رہا تو عام اہلِ سنّت شیعہ ہو جائیں گے اور اگر کامیاب ہو گیا تو اس کا اثر بھی بہت ہوگا بہر حال میں نے اپنے آپ کو موت کے لئے تیار کر دیا تھا اور کلمۂ شہادت پڑہتا ہوا اس مقام تک پہنچا جہاں سے دو بڑے بڑے بلند جھنڈے نظر آتے تھے میں نے ان کی بابت پوچھا تو کہا گیا کہ یہ جھنڈے شاہی خیمہ کے گردا گرد نصب کئے جاتے ہیں تاکہ فوجی افسروں کو یہ معلوم ہو جائے کہ بادشاہ اس خیمے کے اندر ہے اور وہ اپنے اپنے مناصب اور مراتب کے مطابق ان جھنڈوں کے یمیں اور یسار میں حسبِ قوانینِ مقررہ اتر پڑیں۔
شیخ علیہ الرحمتہ نادری دربار میں
اس کے بعد ہم شاہی خیمہ تک پہنچے جو بڑے بڑے سات ستونوں پر نصب کیا گیا تھا اور پھر اس محل تک آئے جس کو کشک خانہ کہتے ہیں یہ کشک خانہ تقریباً پندرہ خیموں پرمشتمل ہوتا ہے جو ایک دوسرے کے بالمقابل نصب کئے ہوئے ہوتے ہیں اور جو ایوان دار قبہ نما شکل کی طرح ہوتے ہیں ان خیموں کی وہ جانب شاہی خیمے کے متصل تھی اس کے درمیان ایک تیسرا پردہ تھا جس کے دروازے پر پردے معلق تھے اور شاہی خیمے کے داہنے جانب جو خیمے تھے ان پر تقریباً چار ہزار رائفل بردار سپاہی دن رات پہرہ دیتے تھے اور بائیں جانب کے خیمے خالی تھے جس میں صرف کرسیاں بچھائی ہوئی تھیں جب میں کشک خانہ کے قریب پہنچا تو گھوڑے سے اتر پڑا اور میرے استقبال کے لئے ایک شخص نکلا جس نے میری بڑی تعظیم کی اور احمد پاشا اور اس کے خاص آدمیوں کی بابت مجھے پوچھتا رہا مجھے تعجب آتا تھا کہ یہ شخص اور اس کے خاص آدمیوں کا اس قدر کس طرح واقف ہوا لیکن اس نے خود ہی میرے اس تعجب کو دور کرتے ہوئے کہا کہ میرا نام عبدالکریم بیگ ہے اور میں احمد پاشاہ کے پاس مدت تک ملازم رہا ہوں اور ان ایام میں ایرانی سلطنت کی طرف سے ایلچی بن کر سلطنت عثمانیہ کی طرف جا رہا ہوں اسی اثنا میں نو آدمی اور آگئے اور عبدالکریم بیگ ان کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو گیا لیکن میں بیٹھا رہا انہوں نے مجھے السلام علیکم کہا جس کا میں نے جواب دیا میں نہیں جانتا تھا کہ یہ لوگ کون ہیں لیکن عبدالکریم بیگ نے میرا ان سے تعارف کرایا اور کہا کہ یہ معیار الممالک حسن خاں اور یہ مصطفیٰ خاں ہے اور یہ نظر علی خاں ہے اور یہ مرزا ذکی ہے اور یہ مرزا کافی ہے جب میں نے معیار الممالک کا نام سنا تو میں کھڑا ہو گیا اس پر اس ان سب نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مرحبا کہا یہ معیار الممالک نادر شاہ کا وزیراعظم کرجی النسل اور شاہ حسین مقبول کا چچا زادہ بھائی تھا پھر انہوں نے مجھے کہا کہ مہربانی کیجئے۔اور بادشاہ کی ملاقات کے لئے تشریف لے چلیں میں چل پڑا اور انہوں نے اس پردے کو جو سرا پردہ کے درمیان میں تھا اٹھایا جس کے بعد ایک دوسرا پردہ نظر آیا اور ان دونوں سرا پردوں کے درمیان تقریباً تین گز کا فیصلہ تھا انہوں نے مجھے وہاں ٹھہرا کر کہا کہ جہاں کہیں ہم ٹھہر جائیں گے وہاں آپ بھی ٹھہر جائیں اور جب ہم چلنے لگیں تو آپ بھی چلیں یہاں سے ہم کسی قدر بائیں جانب کو چلے جہاں سرا پردہ ختم ہو گیا تھا اور یہاں دفعتہً میری نظر ایک بہت بڑے برقعے پر پڑی جو سرا پردوں سے گھرا ہوا تھا اور دور سے دکھائی دیتا تھا اور جس کے اندر بہت سے خیمے تھے جس میں اس کی عورتیں اور تمام حرم رہتا تھا اتنے میں میری نظر شاہی خیمے پر جا پڑی اور میں نے دیکھا کہ نادر شاہ ایک بہت بلند کرسی پر جلو افروز ہے یہ خیمہ مجھ سے تقریباً سو گز کے فاصلے پر تھا جب نادر شاہ نے مجھے دیکھا تو میرا نام لے کر بلند آواز سے مرحبا کہتے ہوئے کہا کہ احمد شاہ نے مجھے خبر دی ہے کہ میں نے عبداللہ آفندی کو آپ کے پاس بھیجا ہے پھر نادر نے مجھے کہا کہ آگے آئیے میں تقریباً دس قدم آگے بڑھا اور ٹھہر گیا اور میرے داہنے جانب تمام خوانین تھے۔اور بائیں جانب عبد الکریم بیگ تھا نادر شاہ نے پھر کہا آگے آئیے پھر دس قدم آگے بڑھا اور اسی طرح کرتے ہوئے میں تقریباً پانچ گز کے فاصلے پر پہنچ گیا۔
نادر کا حلیہ
نادر شاہ کی نشست سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایک طویل القامت آدمی ہے اس کے سر پر مربع شکل کا ایک عجمی کلاہ تھا جس پر ریشمی پگڑی باندھی ہوئی تھی اور اس پر یاقوت موتی ہیرے غرض ہر ایک قسم کے نفیس جواہر لگے ہوئے تھے نادر شاہ کی گردن میں بھی موتیوں اور جواہر کے ہار تھے اور بازوں پر بھی کپڑے کے ٹکڑے پر نفیس جواہرات لگا کر کے کپڑے کو بازوؤں کے ساتھ سیا ہوا تھا چہرے سے عمر رسیدہ معلوم ہوتا تھا اگلے دانت گر گئے تھے اور تقریباً اسّی 80 سال کی عمر کا معلوم ہوتا تھا داڑھی اگرچہ وسمے سے سیاہ کی ہوئی تھی لیکن خوبصورت معلوم ہوتی تھی اور کمانی شکل کے کشادہ ابرو بہت خوبصورت تھے آنکھوں میں کسی قدر زردی تھی لیکن خوبصورتی سے خالی نہ تھیں خلاصہ یہ کہ وہ ایک خوبصورت انسان تھا اور جب میں نے اسے دیکھ لیا تو اس کی ہیبت میرے دل سے زائل ہو گئی۔
نادر سے گفتگو اور مباحثہ کی تیاری
پھر نادر شاہ نے ترکمانی زبان میں مجھے پوچھا کہ احمد پاشا کا کیا حال ہے میں نے کہا بخریت ہیں پھر کہنے لگا کیا تم کو معلوم ہے کہ میں نے تم کو کیوں بلایا ہے میں نے کہا نہیں کہا میں نے تم کو اس لئے بلایا ہے کہ میری سلطنت میں اس وقت دو مذہبی گروہ ہیں سُنی اور شیعہ اور ترکستان اور افغانستان کے لوگ ایرانیوں سے یہ کہتے ہیں کہ تم کافر ہو اور میں یہ نہیں چاہتا کہ میری سلطنت میں ایسے لوگ ہوں جو ایک دوسرے کو کافر کہیں اس لئے آپ میری طرف سے وکیل ہیں اور آپ کا کام یہ ہوگا کہ آپ ان تمام کفریات کو دور کر کے سب کو ایک کر دیں تاکہ کوئی ایک دوسرے کو کافر نہ کہے اور سب آپس میں متفق ہو جائیں اور یہ تمام کارروائی آپ مجھ تک اور احمد پاشا تک بے کم و کاست پہنچا دیں اور اس کے بعد نادر شاہ نے مجھے یہ بھی حکم دیا کہ میں ظہر کے بعد ملا باشی علی اکبر سے ملوں اور یہ کہ میرا دار الضیافت اعتماد الدولہ کے پاس ہے یعنی میری ضیافت اور رہائیش کا انتظام اعتماد الدولہ کرے گا پھر نادر شاہ نے مجھے رخصت کیا میں وہاں سے ایسی حالت میں نکلا کہ خوشی کے مارے پھولا نہیں سماتا تھا کیونکہ ایرانیوں کا مذہبی معاملہ میرے ہاتھ میں آگیا تھا میں دار الضیافت میں آکر تھوڑی دیر ٹھہرا تھا کہ اتنے میں اعتماد الدولہ آگیا اور مجھے کھانا کھلانے کے لئے بلایا اور میری مہمانی کی خدمت کے لئے نظر علی خاں اور عبدالکریم بیگ اور ابوذر بیگ مقرر کئے گئے تھے جب میں اعتماد الدولہ کے پاس پہنچا تو میں نے اسے السلام علیکم کہا اور اس نے بیٹھے ہوئے میرے سلام کا جواب دیا اور میری تعظیم کے لئے کھڑا نہ ہوا اور اس کا یہ فعل مجھے بہت ناگوار معلوم ہوا اور میں نے دل میں یہ خیال کیا کہ نادر شاہ نے مجھے حکم دیا ہےکہ میں تمام کفریات کو مٹا دوں اس لئے بسم اللہ اعتماد الدولہ کے قتل سے کرنی چاہئیے کیونکہ اس نے عمداً ایک عالم کی تحقیر کی ہے لیکن جب میں بیٹھا تو اعتماد الدولہ فوراً کھڑا ہو گیا اور مجھے مرحبا کہا میں نے دیکھا کہ وہ ایک طویل القامت گورے رنگ کا آدمی ہے جس کی لمبی داڑھی پر وسمہ لگا ہوا تھا اور نہایت عقلمند اور علمی مذاکرات کو سمجھنے والا انسان تھا اور اس کی طبیعت کا میلان اہلِ سنّت و الجماعت کی طرف تھا بہرحال جب وہ کھڑا ہوگیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ ان لوگوں کی رسم ہے کہ مہمان کے بیٹھ جانے کے بعد اس کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں میں نے اس کے پاس کھانا کھایا اور اس کے بعد حکم آگیا کہ میں ملا باشی علی اکبر کے ساتھ مناظرہ کروں میں اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور میری جلو میں میری ضیافت کے منتظمین جا رہے تھے راستہ میں ایک شخص لمبے قد کا ملا جو بظاہر پٹھان قدر معلوم ہوتا تھا اس نے مجھے السلام علیکم اور مرحبا کہا میں نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اس نے کہا کہ میں ملا حمزہ قلنجانی افغانوں کا مفتی ہوں میں نے اس سے پوچھا کہ تم عربی زبان بولنی جانتے ہو اس نے کہا ہاں میں نے کہا کہ نادر شاہ نے مجھے تفصیلاً یہ نہیں بتایا کہ ایرانی رافضیوں کے کون کون سے کفریات کو دور کر دیا جائے اور شاید وہ بعض کفریات پر اڑ بیٹھیں یا ان کے بعض کفریات ایسے ہوں جو مجھے معلوم نہ ہوں کیونکہ مجھے ان کے مذہب کے تمام جزئیات سے واقفیت نہیں ہے لہٰذا برائے مہربانی اثنائے گفتگو میں اگر آپ ان کی کفریات پر آگاہ ہوں تو مجھے بتا دینا تاکہ میں اس کے دور کرنے کی کوشش کروں ملا حمزہ نے کہا کہ آپ بالکل نادر شاہ کی بات پر دھوکا نہ کھائیں کیونکہ نادر شاہ اسی صورت میں رافضیوں کے تمام کفریات کو دور کرنے کے لئے تیار ہو گا جب کہ آپ ملا باشی علی اکبر کے ساتھ مباحثہ کر کے اسے مغلوب کر لیں گے اس لئے آپ کو نہایت استقلال اور حزم و احتیاط کے ساتھ بحث کرنی ہوگی میں نے کہا کہ ملا باشی کے ساتھ بحث کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن مجھے یہ ڈر ہےکہ یہ لوگ ناانصافی کریں گے اور یہاں ہم اگر غالب بھی ہو جائیں تو پھر بھی نادر شاہ کو جا کر یہی کہیں گے کہ سُنی ہار گئے ہیں اور ہر ایک بات کو الٹی کر کے بتایا کریں گے ملا حمزہ نے کہا کہ آپ اس کی کچھ پروا نہ کریں کیونکہ نادر شاہ نے اصلیت کو دریافت کرنے کے لئے جاسوسوں کا ایسے طریق سے جال بچھایا ہے کہ کوئی شخص خلافِ واقع بات اس تک نہیں پہنچا سکتا ہے ہر ایک جاسوس کے اوپر دوسرا جاسوس نگراں مقرر کیا گیا ہے اور پھر کسی جاسوس کو یہ خبر نہیں کہ دوسرا جاسوس کونسا ہے اس لئے یہ بالکل ناممکن ہے کہ بادشاہ پر اصلیت پوشیدہ رہ جائے جب میں ملا باشی علی اکبر کے خیمے کے پاس پہنچا تو وہ پیادہ پا میرے استقبال کے لئے نکلا ملاباشی علی اکبر گندم گون کوتاہ قد کا آدمی تھا میں اپنے گھوڑے سے اترا اور اس نے مرحبا کہہ کر اپنی مسند کے اوپر مجھے بٹھایا اور خود میرے سامنے اس طرح بیٹھ گیا جیسے استاد کے سامنے شاگرد بیٹھتا ہے اس کے بعد سلسلہ کلام شروع ہو گیا ملا باشی نے ملا حمزہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے آج ہادی خواجہ بحرُ العلم کو دیکھا ہے ہادی خواجہ حنفی المذہب بخارا کا قاضی تھا جو بحرُ العلم کہلاتا تھا اس کو بھی نادر شاہ نے مع دیگر چھ علماء کے بلایا تھا چنانچہ میرے آنے سے چار دن پہلے یہ لوگ نادر شاہ کے کیمپ میں پہنچ گئے تھے ملاحمزہ نے کہا کہ ہاں میں نے ہادی خواجہ بحرُ العلم کو دیکھا ہے ملاباشی علی اکبر نے کہا کہ معلوم نہیں وہ کس طرح بحرُ العلم کہلاتا ہے جب کہ علم کے نام سے بھی وہ واقف نہیں ہے۔
سیدنا علیؓ کی خلافت کے متعلق شیعوں کے دلائل
خدا کی قسم اگر میں سیدنا علیؓ کی خلافت کے متعلق دو دلیلیں اس کے سامنے پیش کروں تو وہ ان کا جواب کبھی نہیں دے سکے گا بلکہ وہ دو دلیلیں ایسی ہیں کہ تمام اکابر اہلِ سنّت بھی ان کا جواب دینے سے عاجز ہیں ملاباشی نے اس جملے کو تین دفعہ دوہرایا آخر کار مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے پوچھا کہ بتائیے وہ کونسی ایسی دو دلیلیں ہیں جن کا جواب کوئی سُنی عالم نہیں دے سکتا ملاباشی نے کہا کہ تعیین بحث سے پہلے میں آپ سے صرف یہ سوال کرتا ہوں کہ کیا آنحضرتﷺ نے سیدنا علیؓ کو یہ نہیں فرمایا تھا کہ "انت منی بمنزلة هارونؑ من موسىٰؑ الا انه لا نبی بعدی" اور کیا آپ اس کو مرفوع صحیح حدیث تسلیم کرتے ہیں یا نہیں میں نے کہا ہاں یہ ایک مشہور حدیث ہے اور اس کی صحت اور سقم پر آگے چل کر بحث کریں گے تم اپنا مطلب بیان کرو ملاباشی نے کہا کہ یہ حدیث بلحاظ اپنے صریح اور صاف مفہوم کے اس امر کی قطعی دلیل ہے کہ آنحضرتﷺ کے بعد خلیفہ برحق سیدنا علیؓ ہیں میں نے پوچھا کہ خلافتِ سیدنا علیؓ پر اس حدیث سے کس طرح استدلال کرتے ہو تفصیلاً بیان کرو اس نے کہا کہ اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے حضرت ہارون علیہ السلام کے تمام مراتب سوائے نبوت کے سیدنا علیؓ کے لئے ثابت کر دیئے ہیں اور صرف نبوۃ کو مستثنیٰ قرار دیا ہے اور استثناء معیار العلوم ہے لہٰذا سیدنا علیؓ کے لئے خلافت ثابت ہوئی کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام کے مناصب میں سے ایک خلافت بھی ہے اب اگر حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے نہ مر جاتے تو وہ ان کے بعد خلیفہ ہوتے میں نے کہا کہ تمہارے صریح کلام سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ قضیہ موجبہ کلیہ ہے تو بتاؤ کہ اس ایجاب کلی کا سور (وہ علامت جو کلیت پر دلالت کرتی ہے) کیا ہے؟ اس نے کہا اس کا سور بقرینہ استثناء وہ اضافت ہے جو استغراق میں ہے میں نے کہا بہتر ہے اب تفصیلی جواب سنو تمہارا یہ مذہب ہے کہ خلافت کے ثبوت کے لئے نص جلی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ حدیث نص جلی نہیں کیونکہ محدثین میں سے کوئی تو اس کو صحیح ٹھہراتا ہے اور کوئی حسن اور کوئی ضعیف بلکہ علامہ ابنِ جوزی نے اس کو موضوع قرار دیا ہے لہٰذا یہ حدیث خلافتِ سیدنا علیؓ کو ثابت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ تمہارے مذہب کے مطابق نص جلی نہ رہی ملاباشی علی اکبر نے کہا کہ بیشک ہمارا یہی مذہب ہے کہ ثبوت خلافت کے لئے نص جلی کی ضرورت ہے اور میں اس امر کو بھی تسلیم کرتا ہوں کہ یہ حدیث نص جلی نہیں اور ہم تو مذکورہ بالا حدیث سے خلافتِ سیدنا علیؓ کو ثابت نہیں کرتے بلکہ ہم تو "حدیث الطائر" اور "حدیث سلموا علی علی اموءة المومنین" سے سیدنا علیؓ کی خلافت ثابت کرتے ہیں اور یہ دونوں حدیثیں سیدنا علیؓ کی خلافت پر نص جلی ہیں لیکن چونکہ اہلِ سنّت ان دونوں حدیثوں کو موضوع قرار دیتے ہیں لہٰذا میں نے ان دونوں حدیثوں کو چھوڑ کر آپ سے یہ سوال کیا ہے کہ آپ اس حدیث سے خلافتِ سیدنا علیؓ کو کیوں نہیں ثابت کرتے جو کہ آپ کی کتابوں میں موجود ہے۔
شیعی دلائل کا عالمانہ رَد
میں نے کہا کہ یہ حدیثِ خلافتِ سیدنا علیؓ پر دلیل نہیں ہو سکتی اوّل تو اس لئے کہ تمام مراتب حضرت ہارون علیہ السلام کا استغراق سیدنا علیؓ کے لئے ممنوع ہے کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں بھی نبی تھے حالانکہ سیدنا علیؓ بالاتفاق نہ تو آنحضرتﷺ کی زندگی میں نبی تھے اور نہ ہی آپﷺ کے بعد اس لئے کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے تمام مراتب سیدنا علیؓ کے لئے ثابت کئے جائیں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ سیدنا علیؓ آنحضرتﷺ کی موجودگی میں اور آپﷺ کے بعد بھی نبی ہوں "واللازم باطل فالملزوم مثلہ" کیونکہ مطلق نبوت جو حضرت ہارون علیہ اسلام کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے مستثنیٰ نہیں کی گئی بلکہ مستثنیٰ تو نبوت بعد النبیﷺ ہے دوم یہ کہ حضرت ہارون علیہ السلام کے مراتب میں سے مثلاً ایک امر یہ بھی ہے کہ وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے حقیقی بھائی ہیں حالانکہ سیدنا علیؓ رسولﷺ کے حقیقی بھائی نہیں ہیں اور یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے "العام اذا تخصص من غير استثناءٍ صارت دلالتہ ظنيةً" لہٰذا اس حدیث سے صرف ایک ہی مرتبہ مراد لیاجا سکتا ہے چنانچہ لفظ "بمنزلت" میں تا "وحدت" کا بھی یہی مقتضیٰ ہے جب یہ ہوا تو پھر یہ اضافتِ "عہدی" ہوئی نہ کہ "استغراقی" جیسا تمہارا خیال ہے "والاصل فی الاضافتہ ان تكون للعہا" اور لفظ "الا" اس حدیث میں معنیٰ لٰکن ہے جیسے کہتے ہیں "فلان جواد الا انه جيان" پس یہ قضیہ موجبہ کلیہ نہ ہوا جیسا کہ تمہارا خیال ہے بلکہ یہ قضیہ مہملہ ہے جس میں افراد کی کمیت بیان نہیں کی جاتی اور جس میں مناطقہ کے نزدیک بعض غیر معین افراد ہی مراد لیے جاتے ہیں اور تعیین کرنے والا کوئی خارجی امر ہوتا ہے اور یہاں اس حدیث میں وہ خاص مرتبہ معینہ مراد ہے جو حضرت ہارون علیہ السلام کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں حاصل ہوا تھا جب کہ ان کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر جاتے ہوئے اپنی قوم میں اپنا جانشین چھوڑ گئے تھے چنانچہ آیت اخْلُفْنِیْ فِیْ قَوْمِیْ الخ (سورة الاعراف آیت نمبر 142) اس پر دلالت کرتی ہے۔
نبیﷺ کی زندگی میں خلافت
اور سیدنا علیؓ کا وہ خاص مرتبہ اس حدیث میں جو کہ ان کو آنحضرتﷺ کی زندگی میں حاصل ہوا جب کہ آنحضرتﷺ نے ان کو واقعہ غزوہ تبوک میں مدینہ منورہ میں اپنا جانشین بنایا تھا ملاباشی نے کہا کہ آنحضرتﷺ کا سیدنا علیؓ کو خلیفہ بنانا اس امر کی دلیل ہے کہ سیدنا علیؓ افضل ہیں اور ان کے بعد خلافت انہی کا حق ہے میں نے کہا کہ یہ صحیح نہیں کیونکہ پھر تو ابنِ ام مکتوم کا بھی یہی حق ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کے بعد خلیفہ ہوں کیونکہ ان کو بھی آنحضرتﷺ نے مدینہ منورہ پر خلیفہ بنایا تھا لہٰذا سیدنا علیؓ کی تخصیص تم نہیں کر سکتے جب کہ اس استخلاف میں سب برابر ہیں اور نیز اس واقعہ میں سیدنا علیؓ کا مدینہ منورہ میں خلیفہ بنایا جانا اگر باعثِ فضیلت ہوتا تو خود سیدنا علیؓ اس کے برخلاف احتجاج نہ کرتے اور اس پر راضی ہو جاتے حالانکہ سیدنا علیؓ اس پر راضی نہ تھے چنانچہ انہوں نے فرمایا کہ آپ مجھے عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں میں چھوڑ چلے ہیں جس کے جواب میں آنحضرتﷺ نے ان کو تسلی دیتے ہوئے یہ فرمایا تھا "اما ترضى ان تكون منى الخ"۔
اس پر ملاباشی علی اکبر نے یہ کہا کہ تمہارے اصولِ فقہ میں یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ "العبرة لعموم اللفظ لالخصوص السبب" میں نے جواب دیا کہ میں نے خصوصِ سبب کو دلیل نہیں ٹھہرایا بلکہ خصوصِ سبب حرفِ قرینہ ہے جو کہ ایک مبہم رہم فرد کی تعیین کرتا ہے اس پر ملاباشی خاموش ہو گیا۔
خلافتِ سیدنا علیؓ پر دوسری دلیلِ مباہلہ اور اس کی حقیقت
اس کے بعد اس نے کہا کہ میرے پاس ایک اور دلیل ہے جو کسی تاویل کو قبول نہیں کر سکتی اور وہ خدا تعالیٰ کا یہ قول ہے: فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اَبْنَآءَنَا وَ اَبْنَآءَكُمْ وَ نِسَآءَنَا وَ نِسَآءَكُمْ وَ اَنْفُسَنَا وَ اَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ (سورۃ آلِ عمران آیت 61) میں نے کہا کہ دلیل کی وجہ بیان کرو کہ خلافتِ سیدنا علیؓ کو کس طرح اس آیت سے ثابت کرتے ہو اس نے کہا کہ جب نجران کے عیسائی مباہلہ کے لئے آئے تو آنحضرتﷺ نےاپنی آلِ بیت یعنی سیدنا حسینؓ اور سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کو بلایا اور دعاء کے لئے نکلے اور دعاء کے لئے اس شخص کو پیش کیاجا سکتا ہےجو افضل ہو میں نے جواب دیا کہ اس سے صرف مناقب ثابت ہو سکتے ہیں نہ کہ فضائل فضائل اور چیز ہیں اور مناقب اور ہر ایک صحابی جیسا کہ کُتبِ سیر سے معلوم ہوتا ہے ایک خاص قسم کی منقبت رکھتا تھا جو دوسرے میں نہیں پائی جاتی تھی دوم یہ کہ قرآنِ مجید کا نزول محاورت عرب کے مطابق ہوا ہے مثلاً دو قبیلوں کے دو بڑے بڑے سرداروں میں لڑائی کی صورت پیدا ہو جائے اور ان میں سے ایک دوسرے سے کہے کہ تم بھی اپنے قبیلے کے چند خاص آدمیوں کو بلاؤ یعنی لڑائی کے لئے اور میں بھی اپنے قبیلے کے چند خاص آدمیوں کو لیکر نکلتا ہوں اور کوئی غیر آدمی نہ تو تمہارے ساتھ ہو اور نہ ہی میں ساتھ لاؤں گا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ دو بڑے سرداروں کے پاس سوا ان کے چند خاص آدمیوں کے اور کوئی بہادر نہیں ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس ایسے لوگ بھی موجود ہوں جو بہادری میں ان کے اپنے قبیلے کے لوگوں سے زیادہ ہوں لیکن چونکہ دشمن نے یہ شرط لگائی ہے کہ جانبین میں سے صرف اپنے ہی قبیلے کے لوگ ہوں لہٰذا لڑائی کے لیے انہی کو بلایا جائے گا سوئم یہ کہ اس واقعہ میں آنحضرتﷺ نے اپنے اقارب کو اس لئے بلایا تھا کہ اقارب کے روبرو اور ان کی معیت میں دعاء میں خشوع اور خضوع زیادہ ہوتا ہے جس سے دعا جلدی قبول ہوتی ہے ملاباشی علی اکبر نے کہا کہ خشوع اور خضوع دعا میں سوائے کثرتِ محبت کے پیدا نہیں ہو سکتا لہٰذا رسولﷺ کو اپنی اہلِ بیت کے ساتھ نسبت اور لوگوں کے زیادہ محبت ہو گی میں نے کہا کہ انسان کو اپنی اولاد یا خویش و اقارب سے جو محبت ہوتی ہے وہ طبعی اور جبلی محبت ہوتی ہے اور انسان بالطبع اپنی جان کو اور اپنی اولاد وغیرہ کو تمام دوسرے لوگوں سے جو اس کی اولاد سے افضل بھی ہوتے ہیں زیادہ محبوب رکھتا ہے اور اس طبعی محبت پر کوئی ثواب یا عذاب مرتب نہیں ہو سکتا بلکہ وہ محبت جو موجبِ ثواب یا عذاب ہے وہ اختیاری محبت ہے نہ کہ اضطراری ملاباشی علی اکبر نے کہا کہ اس آیت میں ایک اور بات بھی ہےجو سیدنا علیؓ کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے وہ یہ کہ اس میں آنحضرتﷺ کے نفس کو سیدنا علیؓ کا نفس اور ان کی جان کو سیدنا علیؓ کی جان قرار دیا گیا ہے کیونکہ ابناءنا سے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ مراد ہیں اور نساءنا سے سیدہ فاطمہؓ مراد ہیں اور باقی لفظ انفسنا میں سوائے آنحضرتﷺ اور سیدنا علیؓ اور کوئی باقی نہیں رہا میں نے جواب دیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمہیں نہ تو علمِ اصول سے واقفیت ہے اور نہ ہی عربی زبان کی تم قواعد جانتے ہو کیونکہ خدا تعالیٰ نے یہاں لفظ انفسنا ذکر کیا ہے اور لفظ انفس جمع قلت ہے جو نا علامت جمع متکلم کی طرف مضاف ہے ومقابلة الجمع بالجمع يقتضى تقسیم الاحاء علم معانی وغیرہ کا ایک مسلمہ اصول ہے مثلاً جب ہم یوں کہتے ہیں رکب القوم دوابھم تو اس کے یہ معنیٰ ہوتے ہیں رکب کل واحد دابتہ اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو تمام کتبِ اصول میں مذکور ہے اور یہاں جو جمع کا اطلاق ما فوق الواحد پر کیا گیا ہے یہ بھی مسموعی امر ہے جو اہلِ زبان سے سنا گیا ہے جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے أُولَٰئِكَ مُبَرَّءُونَ مِمَّا يَقُولُونَ الخ (سورۃ النور آیت نمبر 26) مبرءون جمع کا صیغہ ہے جس سے صرف سیدہ عائشہؓ اور صفوان مراد ہے۔ اور پھر فرمایا فقد فَقَدْ صَغَتْ قُلُوْبُكُمَاۚ (سورۃ التحریم آیت نمبر 4) قلوب جمع قلب کی ہے حالانکہ دو آدمیوں کے صرف دو ہی دل ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ منطق والے جمع کا اطلاق ما فوق الواحد پر بھی کرتے ہیں لہٰذا یہاں ابناء جو جمع کا لفظ ہے اس سے مجازاً صرف سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور نساء سے بھی جو جمع ہے فقط سیدہ فاطمہؓ مجازاً مراد ہیں ہاں اگر لفظ انفسنا سے بجائے نفسی ہوتا تو البتہ اس کے لئے بظاہر کوئی نہ کوئی وجہ ہو سکتی تھی نیز اگر اس آیت سے سیدنا علیؓ کی خلافت ثابت ہو سکتی ہے جیسا کہ تمہارا خیال ہے تو پھر اس سے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی خلافت بھی ثابت ہونی چاہیئے حالانکہ اس کا کوئی قائل نہیں کیونکہ سیدنا حسنؓ و سیدنا حسینؓ اس وقت چھوٹے بچے تھے اور سیدہ فاطمہؓ باقی عورتوں کی طرح خلافت کا استحقاق نہیں رکھتی تھیں اس پر ملاباشی خاموش ہوگیا (دائرہ رساله دخترانِ نبیﷺمیں بھی اس مسئلہ پر لطیف بحث کر چکا ہے)۔
نماز میں زکوٰۃ دینے سے استحقاقِ خلافت
اس کے بعد ملی باشی علی اکبر نے کہا کہ میرے پاس سیدنا علیؓ کی خلافت پر ایک اور آیت کی دلیل بھی ہے یعنی اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ (سورۃ المائدہ 55)۔ 1۔
(1)۔ اس آیت کے متعلق کئی جواب ہیں جو منہاجُ السنتہ سے نہایت اختصار کے ساتھ ہم نقل کرتے ہیں اوّل یہ کہ سیدنا علیؓ کے متعلق یہ قصہ جعلی اور موضوع ہے چنانچہ پہلے اور دوسرے طبقے کے مفسرین نے اس کو بیان نہیں کیا دوم یہ کہ وہی ثعلبی جو اس قسم کے سینکڑوں موضوع اور جعلی بیان کرتا ہے اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ بقول سیدنا ابنِ عباسؓ یہ آیت سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے حق میں نازل ہوئی سوم یہ کہ اس تفسیر میں عبدالملک بن ابی سلیمان سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا ابوجعفر محمد بن علی سے اس آیت کے متعلق پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اس سے تمام مومنین مراد ہیں اور سیدنا علیؓ بھی مومنین میں سے ہیں چہارم یہ کہ اگر رکوع کی حالت میں زکوٰۃ دینا موالات کے لئے شرط ہے تو پھر مسلمان سوائے سیدنا علیؓ کے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور باقی بنی ہاشم سے موالات نہ رکھیں کیونکہ ان میں یہ شرط نہیں پائی گئی حالانکہ یہ باطل ہے پنجم یہ کہ خدا تعالیٰ انسان کے اس فعل کی تعریف کرتا ہے جو اس کے نزدیک پسندیدہ ہوتا ہے خواہ وہ فعل واجب ہو یا مستحب وغیرہ ہو جب یہ ہے تو پھر نماز کی حالت میں صدقہ دینا یا ہبہ یا ہدیہ یا نکاح یا اجارہ وغیرہ کرنا باتفاق کسی کے نزدیک بھی نہ فرض ہے اور نہ واجب اور نہ سنت اور نہ ہی مستحب ہے بلکہ اکثر علماء کا یہ مذہب ہے کہ ایسا کرنا نماز کو باطل کر دیتا ہے خواہ کلام کرے یا نہ کرے اور اگر ایسا کرنا مستحسن فعل ہوتا تو خود آنحضرتﷺ بھی کرتے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی حکم دیتے کہ تم نماز میں زکوٰۃ دیا کرو اور خود سیدنا علیؓ بھی اس واقعہ کے سوا بھی ہمیشہ ایسا ہی کرتے لیکن جب یہ نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ نماز میں صدقہ دینا اعمالِ صالح میں سے نہیں ہے ششم یہ کہ اگر یہ فرض کر لیا جائے کہ صدقہ دینا نماز میں ضروری ہے تو پھر رکوع کی تخصیص غیر ضروری ہے کیونکہ قیام اور قعود کی حالت میں زیادہ آسانی کے ساتھ دیاجا سکتا ہے پھر یہ کیسے کہا گیا کہ ولی وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو صرف رکوع کی حالت میں صدقہ دیتے ہیں ہفتم یہ کہ یوتون الزکوۃ وھم راکعون شیعوں کے اس جعلی قصہ کے مطابق یہ چاہتا ہے کہ سیدنا علیؓ نے رکوع کی حالت میں چاندی کی انگوٹھی بطورِ زکوٰۃ دی حالانکہ سیدنا علیؓ عہدِ نبویﷺ میں فقیر تھے اور چاندی کے نصاب میں زکوٰۃ اس شخص پر واجب ہوتی ہے جو سال بھر تک اس نصاب کا مالک رہا ہو اور سیدنا علیؓ کی یہ حالت نہ تھی اور اس کے متعلق زیادہ تفصیل منہاجُ السنہ میں دیکھو مترجم)۔
کیونکہ تمام اربابِ تفاسیر کا اتفاق ہے کے یہ آیت سیدنا علیؓ کے حق میں اُس وقت نازل ہوئی تھی جبکہ نماز کی حالت میں انہوں نے ایک سائل کو اپنی انگشتری دے دی تھی اس آیت میں لفظ انما حصر کے لئے ہے اور ولی بمعنی اولی منکم بالتصرف ہے میں نے کہا میرے پاس اس آیت کے بہت سے جواب ہیں لیکن قبل اس کے میں جوابی تقریر کروں اہلِ مجلس میں سے ایک شیعہ نے فارسی زبان میں ملا ضباشی علی اکبر سے کہا اس شخص کے ساتھ مباحثہ نہ کرو کیونکہ یہ مجسم شیطان معلوم ہوتا ہے اور تم جس قدر دلائل بیان کرتے جاؤ گے ان سب کا یہ جواب دیتے چلا جائے گا جس سے تمہاری وقعت نہیں رہے گی لہٰذا ملاباشی علی اکبر نے میری طرف دیکھا اور مسکرا کر کہا کہ آپ تو ایک زبردست فاضل ہیں اور تمام دلائل کا مسکت جواب دیتے جاتے ہیں اور میرا مطلب صرف یہ تھا کہ میں بحرُ العلم کے ساتھ مناظرہ کرتا جو میری ان باتوں کا کبھی جواب نہ دے سکتا میں نے کہا کہ چونکہ تم نے اس وقت یہ کہا تھا کہ میرے ان دلائل کا کوئی سُنّی عالم جواب نہیں دے سکتا لہٰذا مجھے مجبوراً تم سے معارضہ کرنا پڑا ورنہ ضرورت نہ تھی اس پر ملاباشی نے کہا کہ میں عجمی آدمی ہوں اور مجھے عربی زبان اچھی طرح بولنی نہیں آتی اور ایسی حالت میں ممکن ہے کہ میری زبان سے کوئی لفظ نکل جائے جو میرے مقصود سے بعید ہو اور اس پر مجھے پشیمان ہونا پڑے۔
نکاحِ اُم کلثومؓ والا لاجواب سوال
اس کے بعد میں نے ملاباشی علی اکبر سے کہا کہ اب میں تم سے دو سوال ایسے پوچھتا ہوں جن کا جواب تمام شیعہ علماء کبھی نہیں دے سکیں گے ملاباشی علی اکبر نے کہا وہ کون سے سوال ہیں میں نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ تمہارے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا کیا حکم ہے اس نے کہا کہ تمام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سوائے سیدنا علیؓ سیدنا مقدادؓ سیدنا ابوذرؓ سیدنا سلیمان فارسیؓ اور سیدنا عمار بن یاسرؓ کے مرتد ہوگئے تھے کیونکہ انہوں نے سیدنا علیؓ کو خلیفہ نہیں بنایا میں نے کہا کہ جب تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کافر تھے تو سیدنا علیؓ نے اپنی لڑکی سیدہ ام کلثوم کی شادی سیدنا عمرؓ کے ساتھ کیسے کر دی تھی ملاباشی علی اکبر نے جواب دیا کہ شاید سیدنا عمرؓ نے زبردستی سیدنا علیؓ سے ان کی لڑکی لے لی ہوگی میں نے کہا کہ خدا کی قسم تم سیدنا علیؓ کو بے عزت بنا کر ان کی سخت ہتک کر رہے ہو اور تم ان کے متعلق ایک ایسی ذلت کا اعتقاد رکھتے ہو جس کو سیدنا علیؓ تو کجا ایک ادنیٰ غیرت مند عرب بھی کبھی گوارا نہیں کر سکتا چہ جائیکہ بنی ہاشم جو تمام عرب کے سردار تھے وہ اس بےعزتی اور بےغیرتی کو قبول کر لیتے پھر سیدنا علیؓ جو شیرِ خدا ہوں اور ذوالفقار قاتلِ کفار ان کے ہاتھ میں ہو وہ ذلیل تریں عربوں سے بھی گر جائیں کہ سیدنا عمر فاروقؓ ان کی لڑکی کو زبردستی لے جائیں اور وہ دیکھتے رہ جائیں۔
(اس مقام پر اس امر کا بیان کر دینا ضروری ہے کہ موجودہ شیعہ حضرات اس شادی کے متعلق طرح طرح کی تاویلوں سے کام لے کر اس واقعہ کا انکار کرتے ہیں لیکن تمام قدما اس کو تسلیم کرتے چلے آتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ کے ساتھ سیدہ ام کلثوم بنتِ علیؓ کی شادی ہوئی تھی چنانچہ اس بنا پر ملاباشی علی اکبر جو شیعہ علماء کا صدر تھا اس واقعہ سے انکار تو نہ کر سکا اور اس میں زبردستی کی تاویل کی غور کا مقام ہے کہ اگر یہ تاریخی واقعہ غلط ہوتا تو اس وقت ستر سے زائد شیعہ علماء موجود تھے جن کی پشت پر ان کی امداد کے لئے نادر شاہ کی قہار فوجی طاقت بھی موجود تھی پھر ان میں سے کوئی ایک بھی نہ بولا کہ یہ واقعہ غلط ہے اور سیدنا عمرؓ کے ساتھ یہ شادی نہیں ہوئی جب یہ ہے تو پھر اس کے یہ معنیٰ ہیں کہ ستر سے زائد شیعہ مجتہدوں نے اس واقعہ کو اسی طرح صحیح تسلیم کر لیا جیسا کہ ان سے پہلے لاکھوں شیعہ علماء اس کو تسلیم کرتے چلے آئے تھے اس لئے موجودہ شیعہ کا انکار جہالت اور مکابرۀ محض ہے اس موضوع پر ملاحظہ ہو:
(دائرة الاصلاح لاہور کابرساله قرآن الیعدن مترجم)۔
اس کے بعد ملاباشی جیسا کہ غرق ہونے والا آدمی ہاتھ پاؤں مارتا ہوا کسی چیز کا سہارا ڈھونڈھتا ہے جب یہ سمجھا کہ زبردستی والا اعتقاد تو اور اپنی اس تباہی کا موجب بنا جس سے سیدنا علیؓ کو بے عزت تسلیم کرنا پڑتا ہے تو وہ دیوانہ وار کہنے لگا کہ شاید وہ عورت جس کی شادی سیدنا علیؓ کے ساتھ ہوئی تھی وہ حقیقت میں سیدہ ام کلثوم بنتِ علیؓ نہ ہو بلکہ کوئی بھوتنی اور جننی عورت ہو جس نے سیدہ ام کلثوم بنتِ علیؓ کی شکل اختیار کر لی ہو میں نے جواب دیا کہ تمہاری یہ تاویل پہلی تاویل سے بھی زیادہ بری اور تباہ کن ہے کیونکہ اگر اس تاویل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے تو پھر شریعت کے تمام دروازے بند ہو جاتے ہیں اور اس ایک شرعی (بلکہ غیر شرعی امر میں بھی یہی تاویل چل سکے گی مثلاً کوئی شخص اپنی عورت کے پاس جائے تو ہو سکتا ہے کہ وہ عورت یہ کہدے کہ تو جن ہے جو میرے خاوند کی شکل بن کر آیا ہے میرے پاس سے چلا جا پھر اگر وہ شخص دو عادل گواہ پیش کرے کہ میں وہی تیرا خاوند ہوں تو پھر بھی یہی احتمال ہوگا کہ وہ دونوں عادل گواہ جن ہوں جنہوں نے انسانی شکل اختیار کر لی ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ایک انسان کسی کو قتل کر کے یہ کہدے میں نے اس کو نہیں مارا۔ بلکہ میری شکل کسی جن نے اختیار کر لی ہو گی اور اس نے یہ قتل کیا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سیدنا جعفر صادق جس کی بابت تمہارا خیال ہے کہ تم اس کے مذہب پر ہو اور تمہارے جو عقائد ہیں وہ اس کے عقائد تھے وہ حقیقت میں کوئی جن ہو جس نے سیدنا جعفر صادق کی شکل اختیار کر لی ہو اور تم کو عقائد سکھانے آگیا ہو پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جس شخص نے سیدنا علیؓ کو قتل کیا ہے وہ کوئی جن ہو جس نے ابنِ ملجم کی شکل اختیار کر لی ہو اور اس طرح کربلا کے معرکہ میں ابنِ زیاد اور شمر وغیرہ کی شکلیں جنات نے اختیار کر کے سیدنا حسینؓ کو شہید کر دیا ہو اور تمہارا وہ امام جو سرمن رائے علاقہ شام کی غار میں جا کر چھپ گیا ہے وہ حقیقت میں کوئی جن ہوجس نے امام منتظر کی شکل اختیار کر لی ہو کیا سچ کہا ہے۔
ان الروافض قوم لاخلاف لهم
من اجھل الناس فی علم واكذبه۔
اس پر ملاباشی علی اکبر خاموش ہو گیا۔
اصحابِ ثلاثہؓ کے عہد کے جائز جہاد
اس کے بعد میں نے ملاباشی سے کہا کہ دوسرا سوال تم سے یہ کیا جاتا ہے کہ بتاؤ تم شیعوں کے نزدیک ظالم خلیفہ کے افعال کا کیا حکم ہے کیا وہ شرعاً درست اور نافذ ہو سکتے ہیں؟ ملا باشی نے کہا کہ ہرگز نہیں یعنی ہمارے نزدیک جابر اور ظالم خلیفہ کے افعال شرعاً درست نہیں ہو سکتے میں نے کہا کہ میں تمہیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ بتاؤ محمد بن حنیفیہ بن علی کی ماں کسی قبیلے میں سے تھی اس نے کہا کہ بنی حنیفیہ میں سے میں نے پوچھا کہ بتاؤ بنی حنفیہ کس کے عہد میں اسیرِ جنگ ہو کر آئے تھے ملاباشی نے جواب دیا کہ میں نہیں جانتا ملاباشی نے یہ جھوٹ بولا کیونکہ وہ جانتا تھا لیکن اس وقت شیعہ علماء میں سے ایک شخص نے کہا کہ بنی حنفیہ کو سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی فوج نے اسیر کیا تھا میں نے کہا کہ سیدنا علیؓ سے یہ کیسے توقع ہو سکتی ہے کہ وہ ایک ایسے ظالم خلیفہ کی اسیر کردہ لونڈی کو جس کا جہاد تمہارے نزدیک شرعاً درست نہیں اپنے تصرف میں کر کے اس سے اولاد پیدا کرے کیونکہ نکاح تو ثابت نہیں و الاحتیاط فی الفروج امر مقرر ملاباشی نے جواب دیا کہ شاید محمد بن حنیفیہ کی ماں کو اس کے والیوں نے سیدنا علیؓ کو شادی کر کے دے دیا ہو میں نے کہا کہ اس کا ثبوت پیش کرو اس پر ملاباشی علی اکبر خاموش ہو گیا والحمد لله على ذلک (یہی اعتراض شہر بانو بنت کسریٰ کے متعلق ہو سکتا ہے جو کہ فاروقی عہد میں اسیر ہو کر آئی اور سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا حسینؓ کو یہ شہزادی عطا کر دی تھی اگر یہ واقعہ درست ہے تو پھر یا تو شیعہ لوگ سیدنا عمر فاروقؓ کو ظالم کہنا چھوڑ دیں یا یہ ماننا پڑے گا کہ سیدنا حسینؓ کرتے رہے اور وہ تمام سید جو اس لونڈی سے پیدا ہوئے وہ ہیں کیونکہ جب سیدنا عمر فاروقؓ کا جہاد ان کے نزدیک شرعاً درست نہیں ہے تو پھر یہ لونڈی لونڈی نہیں ہے اور ایسی عورت سے اولاد پیدا کرنا شرعاً درست نہیں ہے کیونکہ وہ مشرکہ ہے (مترجم)۔
تقیہ میں اصل مذہب معلوم نہیں ہوسکتا
اس کے بعد میں نے ملاباشی علی اکبر سے یہ سوال کیا کہ تم سیدنا جعفر صادق کے مذہب کی تعیین کرو کہ حقیقی طور پر ان کا اصلی مذہب کیا تھا کیونکہ یہ مذہب جو تم لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے یہ ایک باطل مذہب ہے جو کسی مجتہد کے اجتہاد سے نہیں ملتا ملاباشی نے جواب دیا کہ مذہب سیدنا جعفر صادق کا اپنا اجتہاد تھا میں نے کہا کہ یہ غلط ہے اس میں سیدنا جعفر صادق کے مذہب کی کوئی بات نظر نہیں آتی کیونکہ تم ہرگز امام مذکور کے مذہب کو معین نہیں کر سکتے کیونکہ اگر امام موصوف کے مذہب میں تقیہ ہے تو پھر شیعوں میں سے کوئی بھی اس کے مذہب کو پہچان نہیں سکتا کیونکہ اس صورت میں اس مذہب کے ہر ایک مسئلہ میں یہی احتمال ہو گا کہ وہ تقیہ پر مبنی ہے مثلاً تمہاری کتابوں میں لکھا ہے کہ کنواں جب پلید ہو جائے تو اس کے متعلق امام مذکور سے تین قول ہیں اول یہ کہ کنواں ایک سمندر کی طرح ہے جو کبھی پلید نہیں ہو سکتا اور دوم یہ کہ اس کا تمام پانی نکالا جائے اور سوم یہ کہ اس میں سے صرف سات یا چھ ڈول نکالے جائیں اور میں نے ایک دفعہ تمہارے ایک عالم سے دریافت کیا کہ تم ان متضاد اقوال میں کسی طرح تطبیق دیتے ہو اس نے کہا کہ ہمارا یہ مذہب ہے کہ جب کسی شیعہ عالم میں اجتہاد کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے تو وہ امام مذکور کے اقوال میں اجتہاد کر کے ایک قول کو صحیح کر لیتا ہے اور پھر اس صحیح کردہ قول پر عمل کرتا ہے میں نے پوچھا کہ باقی دو اقوال وہ کیا کرتا ہے اس نے کہا کہ باقی کی نسبت وہ یہ کہتا ہے کہ سب تقیہ پر مبنی ہیں میں نے سوال کیا کہ بہت اچھا پھر جب ایک شیعہ مجتہد امام مذکور کے تین متضاد اقوالوں میں سے ایک کو صحیح کر دے گا اور اس پر عمل کرتا رہے گا اور جب اس کے بعد دوسرا مجتہد آگیا اور اس نے دوسرے قول کو جو اس صحیح شدہ قول کے علاوہ ہے جس کو پہلے مجتہد نے صحیح کیا تھا صحیح کرے تو وہ اس قول کی نسبت کیا کہے گا جس کو پہلے مجتہد نے صحیح کیا تھا اس نے جواب دیا کہ وہ اس صحیح کردہ قول کی نسبت یہ کہے گا کہ وہ قول یا وہ تصحیح تقیہ پر مبنی تھی میں نے کہا کہ اب بات بالکل صاف ہونے کو ہے بتاؤ جب تیسرا مجتہد آ جائے اور وہ اس قول کی تصحیح کرے جس کو پہلے دو مجتہدوں نے صحیح نہیں کیا تو پھر وہ باقی دو اقوال کے متعلق کیا فیصلہ کرے گا جن کو پہلے دو مجتہدوں نے صحیح قرار دیا تھا اور جن میں سے ہر ایک مجتہد نے باقی دو قولوں کو تقیہ پر مبنی ٹھہرایا تھا کیا وہ بھی یہی کہے گا کہ پہلے دو قول جن کی دو مجتہدوں نے تصحیح کی تھی وہ تقیہ پر مبنی تھے اس نے کہا کہ ہاں وہ یہی کہے گا میں نے کہا کہ اس تیسرے مجتہد کے صحیح کردہ قول کو بھی تو پہلے مجتہد نے یا دوسرے نے تقیہ پر مبنی ٹھہرایا تھا اس نے کہا ہاں میں نے کہا کیا اب تینوں اقوال کا بیڑہ تباہ نہیں ہو گیا؟ اس وقت وہ شیعہ عالم میرے سوال کا تو کچھ جواب نہ دے سکا میں نے کہا تمہارے پاس اس کا کوئی جواب ہے لیکن ملاباشی پھر خاموش رہا پھر میں نے کہا کہ اور اگر امام موصوف کے مذہب میں تقیہ نہیں ہے تو پھر جو مذہب اس وقت تمہارے پاس ہے وہ سیدنا جعفر صادق کا مذہب نہیں ہوسکتا کیونکہ تم سب تقیہ اصول دین میں سے شمار کرتے ہو فَبُهِتَ الَّذِیْ كَفَرَؕ وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ (سورۃ البقرہ آیت نمبر 258)۔
شیعوں کی شکست نادر کا حکم
اس کے بعد نادر شاہ کو اس کے جاسوسوں نے اس مباحثے کی صحیح کیفیت پہنچائی اور جب اس کو یقین ہو گیا کہ شیعہ علماء مباحثے میں شکست کھا گئے ہیں تو اس نے حکم دیا کہ ایران افغانستان ترکستان وغیرہ کے سب علماء اکٹھے ہو کر تمام مکفرات کو دور کر دیں اور مجھے حکم دیا گیا کہ میں نادر شاہ کی طرف سے ناظر اور وکیل بنوں اور تمام کاروائی میری نگرانی میں ہو اور سب کے اتفاق سے جو فیصلہ ہو میں اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر کے نادر شاہ تک پہنچا دوں لہٰذا ہم سب مناظرہ گاہ سے اٹھے اور تمام ایرانی اور افغان اور ازبک اپنی انگلیوں سے میری طرف اشارہ کر کے کہتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے تمام شیعوں کا ناطقہ بند کر دیا ہے اور یہ ایک ایسا یوم مشہور تھا جس میں خدا تعالیٰ نے اہلِ سنّت والجماعت کو فتح عظیم عنایت فرمائی بہر حال روضہ سیدنا علیؓ کے پیچھے ایک میدان میں ستر سے زائد ایرانی علماء جمع ہوئے جو سوائے مفتی اردلان کے سب کے سب شیعہ تھے پھر میں نے کاغذ قلم دوات منگوا کر شیعہ علماء میں سے جو مشہور تھے ان کے نام نوٹ کر لیے جو حسبِ ذیل ہیں:
1 ملاباشی علی اکبر 2 مفتی رکاب آقا حسین
3 ملامحمد امام لاھجان 4 آقا شریف مفتی شہد الرضا
5 میرزا برهان قاضی شروان 6 شیخ حسین مفتی بار دمیہ 7 میرزاابو الفضل مفتی بقم 8 الحاج صادق مفتی بجام 9 سید محمد مہدی امام اصفہان 10 الحاج مفتی محمد ذکی مفتی کرمان شاه 11 الحاج محمد الثمامی مفتی شیراز 12 میرزا اسد اللہ مفتی تبریز 13ملا طالب مفتی مازندان 14 ملامحمد مہدی نائب الاصدار و مشہد الرضا 15 ملامحمد صادق مفتی خلخاں 16 محمد مومن مفتی محمد استراباد 17 سید محمد تقی مفتی قروین 18 ملا محمد حسین مفتی سبز وار 19 سید بہاؤالدین مفتی کرمان 20 سید احمد مفتی اردلان شافعی سُنی اس کے بعد افغانستان کے علماء آئے اور میں نے نام بھی نوٹ کر لیے جو حسبِ ذیل ہیں۔
1 شیخ فاضل ملاحمزه قلنجانی حنفی مفتی افغان 2 ملاامین افعانی قلنجانی حنفی ابنِ ملا سلیمان قاضی افعان 3 ملادینا خلفی حنفی 4 ملاطہٰ افغانی مدرس نادر آباد حنفی 5 ملانور محمد افغانی قلنجانی حنفی 6 ملاعبد الرزاق افغانی قلنجانی حنفی 7 ملا ادریس افغانی ابدالی حنفی پھر اس کے ترکستان کے علماء آئے اور جن آگے ایک جلیل القدر شیخ تھا جس کے چھرے سے ہیبت اور وقار ٹپکتا تھا اور اس کے سر پر ایک بڑا گول عمامہ تھا جیسے دیکھ کر یہ معلوم ہوتا تھا یہ شخص امام الہمام امام ابوحنیفہؒ کے مشہور شاگرد امام ابویوسف ہیں یہ شخص علامہ ہادی خواجہ بحرُ العلم تھا سلام مسنوں ادا کرنے کے بعد ترکستان کے علماء کو میرے داہنے طرف بیٹھنے کے لئے جگہ دی گئی اور میری بائیں طرف افغانی علماء کو بٹھایا گیا تھا لیکن دونوں طرف میرے اور ان افغانی اور ترکستانی علماء کے درمیان میں تقریباً پندرہ پندرہ اور آدمی بیٹھائے گئے تھے اور شیعہ لوگوں نے یہ فعل اس لئے کیا تھا تا کہ میں ان علماء کو کوئی بات نہ سکھا دوں پھر میں نے ترکستانی علماء کے نام نوٹ کر لیے جو حسب ذیل تھے 1 علامہ ہادی خواجہ ملقب بحرالعلم بن علاؤ الدین البخاری قاضی بخاری حنفی 2 میر عبدالله صدور بخاری حنفی 3 قلندر خواجہ بخاری حنفی 4 ملاامید صدور بخاری حنفی 5 پادشاه میر خواجه بخاری حنفی 6 میرزاخواجہ بخاری حنفی 7 ملاابراہیم بخاری حنفی۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
جب مجلس جم گئی تو اس کے بعد ملاباشی علی اکبر نے بحرُ العلم سے میری بابت پوچھا کہ کیا آپ ان کو جانتے ہیں اس نے کہا نہیں ملاباشی نے کہا کہ یہ علامہ شیخ عبدالله آفندی ہیں جو اعراق کے اکابر علماءِ اہلِ سنّت میں سے ہیں اور ان کو نادر شاہ نے احمد پاشا گورنر بغداد کے پاس سے منگوایا ہے تا کہ یہ مجلس مناظرہ میں حاضر ہو کر بطورِ حکم فیصلہ کریں یہ نادر شاہ کی طرف سے وکیل ہیں اور ان کا کام یہ ہے کہ جب ہم دونوں فریق آپس میں متفق ہو جائیں تو یہ ہمارے اتفاق پر مہر تصدیق ثبت کر دیں لہٰذا آپ وہ امور بیان کر دیں جن کے سبب آپ ہم کو کافر کہتے ہیں تا کہ ہم ان امور کو ان کے رو برو ترک کر دیں اگرچہ ہم حقیقت میں کافر نہیں ہیں جیسا کہ صاحب جامعُ الاصول اور صاحبِ مواقف نے ہم کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے اور امام ابوحنیفہؒ نے فقہ اکبر میں فرمایا لا تكفر احداً من اهل القبلة اور اسی طرح صاحب شرح ہداتہ الفقہ نے بھی امامیہ کو اسلامی فرقوں میں سے شمار کیا ہے لیکن چونکہ مناظرین شیع اور اہلِ سنّت ایک دوسرے کو کافر کہتے ہیں حالانکہ نہ تو آپ کا فر ہیں اور نہ ہی ہم لہٰذا آپ وہ امور بیان کر دیں جن کے سبب آپ ہم کو کافر کہتے ہیں۔
عقائد کفریہ سے شیعوں کی توبہ
اس پر بحرُ العلم نے کہا کہ وہ امور جن کے سبب ہم تم کو کافر کہتے ہیں وہ یہ ہیں (1)سبِ الشیخینؓ (2) تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گمراہ اور کافر کہنا (3) متعہ کو حلال سمجھنا (4) سیدنا علیؓ کو باقی خلفاء پر فضیلت دینا اور آنحضرتﷺ کے بعد خلافت کا حق سیدنا علیؓ کے لئے ثابت کرنا ملاباشی نے کہا کہ ان چاروں باتوں کو ہم ترک کرتے ہیں شیخینؓ کو گالی نہیں دیں گے متعہ کو وہی شیعہ حلال سمجھتا ہے جو بے وقوف ہے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مومن اور مسلمان ہیں اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے افضل سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور ان کے بعد سیدنا عمرؓ اور ان کے بعد سیدنا عثمانؓ اور ان کے بعد سیدنا علیؓ ہیں اور خلافت کی ترتیب بھی یہی ہے۔
پھر بحرُ العلم نے پوچھا کہ تمہارے عقائد کیا ہیں ملاباشی نے کہا کہ ہمارے عقائد سیدنا ابوالحسن اشعری کے عقائد ہیں جو اہلِ سنت کا امام ہے پھر بحرُ العلم نے ایک اور شرط عائد کی اور ملاباشی نے کہا "واشرط علیکم ان لا تحلوا حراماً لعلوماً من الدين بالضرورة و حرمته مجمع عليها ولا تحرموا حلالاً مجمعاً عليه معلوم حله بالضرورة"۔
ملاباشی نے کہا کہ ہمیں یہ شرط بھی منظور ہے اس کے بعد بحرُ العلم نے کچھ اور شرائط پیش کیے جو مؤجب کفر نہیں تھے اور شیعہ علماء نے ان کو منظور کر لیا اس کے ملاباشی نے بحرُ العلم سے کہا کہ جب ہم نے ان تمام شرائط کو منظور کر لیا ہے تو کیا اس کے بعد آپ ہم کو اسلامی فرقوں میں شمار کریں گے بحرُ العلم نے کس قدر سکوت کے بعد فرمایا کہ شیخینؓ کو گالی دینا کفر ہے جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ رافضی لوگ اگرچه اب سبِ شیخینؓ سے توبہ کرتے ہیں لیکن سابقہ زمانے میں جو گالیاں ان سے سرزد ہوئی ہیں حنفی مذہب میں ان کے متعلق ان کی توبہ قبول نہیں ہو سکتی اس پر ملاحمزہ مفتی افغان نے بحرُ العلم سے کہا کہ کیا آپ کے پاس اس کی شہادت موجود ہے کہ اس واقعہ سے پہلے ان سے سبِ شیخینؓ سرزد ہوئی ہے بحرُ العلم نے کہا نہیں اس پر ملاحمزہ مفتی افغان نے فرمایا تو پھر جب وہ آئندہ کے لئے اقرار کرتے ہیں کہ وہ ایسا نہیں کریں گے تو آپ ان کو کیوں نہیں اسلامی فرقوں میں شمار کرتے اس پر بحرُ العلم نے کہا کہ بیشک یہ ٹھیک ہے اور میں ان کو اسلامی فرقوں میں شمار کرتا ہوں اور یہ لوگ مسلمان ہیں اور ہمارے اور ان کے حقوق ایک ہیں۔
عہد نامہ کی تیاری اور اس کی توثیق
جب بحرُ العلم نے یہ فیصلہ کر دیا تو تمام شیعہ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور سُنیوں سے انہوں نے مصافحہ کیا اور ایک دوسرے کو بھائی بھائی کہہ کر پکارنے لگے اور علماء کے ان تینوں فرقوں کے اتفاق پر مجھے گواہ بنایا گیا اور پھر ماہِ شوال کی چوبیسویں تاریخ کو چہار شنبہ کے دن مغرب سے پہلے جب یہ جلسہ برخاست ہونے لگا تو میں نے دیکھا کہ ہمارے ارد گرد تقریباً دس ہزار سے زائد ایرانی کھڑے تھے (جو سب شیعہ مذہب تھے) اور پھر اس کے بعد عشاء کی نماز کے بعد نادر شاہ کا ایک خاص معتمد علیہ آدمی میرے پاس یہ پیغام لے کر آیا کہ بادشاہ سلامت آپ کی اس کارروائی کے نہایت مشکور ہیں اور آپ کو دعائے خیر دیتے ہیں اور سلام مسنون کے بعد انہوں نے یہ حکم دیا ہے کہ کل آپ تمام علماء کو ہمراہ لے کر اس پہلی جگہ پر حاضر ہو جائیں کیونکہ میں نے حکم دیا ہے کہ اس فیصلہ کو قلمبند کر دیا جائے اور اس کے نیچے ہر ایک عالم اپنا نام لکھ کر اس کے نیچے اپنی مہر لگائے۔ اور آپ اس کے آخر میں اس تمام کاروائی کے درست ہونے کی توثیق ثبت کر دیں کہ یہ تمام فیصلہ میرے روبرو ہوا ہے اور ایرانی افغانی ترکستانی علماء کے تینوں گروہ کا اس پر اتفاق ہو گیا ہے میں نے کہا کہ میں بخوشی ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں پھر ماہِ شوال کی پچیسویں کو جمعرات کے دن ظہر سے پہلے ہم کو حکم پہنچا کہ ہم سب سیدنا علیؓ کی قبر کے پیچھے اکٹھے ہو جائیں پس جب ہم سب وہاں جمع ہو گئے تو میں نے دیکھا کہ ایرانی روضہِ سیدنا علیؓ کے ارد گرد تقریباً ساٹھ ہزار کی تعداد میں کھڑے ہیں اور لوگوں کا سخت ہجوم ہے پس جب ہم بیٹھ گئے تو ایک لمبا سا کاغذ لایا گیا جو سات بالشت سے زیادہ لمبا تھا جس کی دو تہائی حصے پر تو لمبی لمبی سطریں لکھی ہوئی تھیں اور تیسری تنہائی چار قسموں پر منقسم تھی ہر ایک قسم کے خاتمہ کے بعد بقدر چار انگشت تھے یا اس سے زائد بیاض چھوڑا گیا تھا لیکن پہلی سطروں کی نسبت یہ سطریں بہت چھوٹی تھیں پھر ملاباشی علی اکبر نے آقا حسین کو جو علاقہ رکاب کا مفتی تھا حکم دیا کہ وہ اس کاغذ کو کھڑے ہو کر تمام علماء کے سامنے پڑھیں آقا حسین ایک طویل اقامت شخص تھا جس نے وہ کاغذ پڑھنے کے لئے اٹھایا یہ کاغذ فارسی زبان میں لکھا ہوا تھا جس کا عربی ترجمہ یہ ہے:
ان الله اقتضت حكمته ارسال الرسل فلم يزل يرسل رسولاً بعد رسول حتى جاء محمدﷺ ولما توفى او كان خاتم الانبياء والمرسلين اتفق الاصحاب علىٰ افضلهم واخيرهم واعلمهم ابی بكر الصديقؓ بن ابى قحافة فاجمعوا واتفقوا على بیعتہٖ فبايعوہ كلهم حتىٰ الامام علىؓ ابن ابى طالب بطوعهٖ واختيارهٖ من غير جبر ولا اكراہٍ فتمّت له البيعة والخلافة ثم عهد ابوبكرالصديقؓ الخلافة العمرؓ ابن الخطاب فبايعه الصحابة كلهم حتىٰ الامام علیؓ بن ابی طالب فكانت بعیتهٗ بالنص والاجماع ثم ان عمرؓ جعل الخلافة شورىٰ بين ستةٍ احدهم علىؓ بن ابى طالب فاتفق رايھم على عثمان بن عفانؓ ثم استشهد فی الدار ولم يعمد فبقت الخلافة شاغرة فاجتمع الصحابة فی ذالك العصر علىؓ بن ابى طالب وكان هؤلاء الاربعۃ فی عصر واحد ولم يقع بينهم تخاصم ولا نزاع بل كان كل منهم يحب الاخر و يمدحه ويثنی عليه حتىٰ ان علياًؓ سئل عن الشيخينؓ فقال هما امامان عادلان قاسطان كانا على الحق وماتا عليه وان ابابكرؓ لما ولى الخلافة قال اتبايعونى وفيكم علىؓ بن ابى طالب فاعلموا ايها الإيرانيون ان فضلهم وخلافتهم علىٰ هذا الترتيب فَمَنْ سَبهم اوانتقصھم فماله وعياله ودمه حلال للشاة وعليه لعنة الله والملئكة والناس اجمعين۔
پھر اس کاغذ کے اس حصہ پر غیر ضروری باتیں بھی تھیں جن کی یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں بہرحال لمبی سطریں جو نادر شاہ کا کلام تھا یہاں پورا ہو گیا اور اس کے بعد میں نے اس کاغذ کی عبارت کے بعض لفظوں پر اعتراض کیا کہ مثلاً سیدنا عمرؓ کی خلافت کے متعلق لفظ نصب جو استعمال کیا گیا ہے اس کے بجائے لفظ عہد چاہیئے کیونکہ اس سے یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ناصبہ تھے اور شیعوں کے نزدیک ناصبہ وہ شخص ہے جو سیدنا علیؓ کی عداوت کے لئے کمربستہ ہو اس پر بعض حاضرین نے مجھ سے کہا کہ لفظ نصب کا جو مطلب آپ نے لیا ہے وہ تو کسی کے خیال میں بھی نہیں آیا اور اس لفظ کے ظاہری معنی ہرگز یہ نہیں لہٰذا اس لفظی نزاع کو آپ چھوڑ دیں کیونکہ اس سے فتنہ برپا ہو جائے گا ملاباشی علی اکبر نے بھی زور دیا چونکہ بات معمولی تھی اس لئے میں خاموش ہو گیا دوسرا اعتراض میں نے اس پر یہ کیا شیخینؓ کے حق میں سیدنا علیؓ کا یہ مقولہ: "امامان عادلان قاسطان كانا على الحق" شیعہ لوگ اس عبارت کا ایسا مطلب بیان کرتے ہیں جو شیخینؓ کے اوصاف کے برخلاف ہے اس پر بھی انہوں نے شور مچایا کہ ہم ہرگز ایسا نہیں کرتے بلکہ عبارت کا جو لغوی اور ظاہری مفہوم ہے وہی مراد ہے تیسرا اعتراض میں نے یہ کیا سیدنا ابوبکر صدیقؓ بوقتِ بیعت سیدنا علیؓ کے حق میں یہ کہنا "اتبایعونی وفيكم علیؓ ابن ابی طالب" اہلِ سنت کے نزدیک ثابت نہیں ہے بلکہ یہ ایک موضوع اور من گھڑت بات ہے اور میرے پاس سیدنا علیؓ کے اس کے علاوہ اقوال ہیں جن میں شیخینؓ کی تعظیم و تکریم بیان کی گئی ہے اور اس طرح کے اقوال سیدنا علیؓ کی مدح میں بھی موجود جو مذکوره بالا تمہارے پیش کردہ قول سے زیادہ صحیح ہیں لیکن اس پر بھی ملاباشی وغیرہ نے یہی کہا یہ جزوی امور ہیں جن پر بحث کرنا فضول ہے ان لمبی سطروں کے بعد جو ہو نادر شاہ کے کلام پر مشتمل تھیں فارسی زبان میں شیعہ علماء کا اقرار نامہ درج تھا جس کا عربی ترجمہ یہ ہے "انا قد التزمنا الخ" اور اس عبارت کے بعد جو بیاض تھا اس پر ایرانی علماء اپنے دستخط کر کے ان کے نیچے اپنے مواہیر ثبت کیے اور اس کے بعد علماءِ نجف اور کربلا اور حلہ اور خوارزم کے شیعہ علماء کا اقرار نامہ جس کا مضمون بقیہ وہی تھا جو ایرانی علماءِ شیعہ کے اقرار نامہ کا تھا اور اس کے بعد اس کاغذ پر جو بیاض یعنی خالی جگہ چھوڑی ہوئی تھی اس پر کربلا اور نجف وغیرہ کے علماء نے جن میں سے سید نصر الله المعروف ابنِ قطراد شیخ جواد نجفی کوفی وغیرہ بھی ہیں اپنے دستخط کر کے مہرین لگائیں اور اس کے بعد افغانی زبان میں افغان علماء نے اپنے اپنے ناموں کے نیچے اپنے مواہیر ثبت کئے اس کے بعد اس کاغذ پر علماءِ ترکستان کا اقرار نامہ درج تھا جس کا مضمون بعینہ وہی تھا جو افغان علماء کے اقرار نامہ کا تھا اور علماۓ ترکستان نے بھی اپنے اپنے مواہیر اس پر لگائے اس کے بعد میں نے اس کی تصدیق پر اپنی مہر ثبت کی اور یہ لکھا کہ تمام فیصلہ میری نگرانی میں میرے روبرو ہوا ہے "وكان ذلك الوقت وقتاً مشهوداً من عجائب الدنيا وصاء لاهل السنة فرح وسرور لہ يقع مثله فی العصور لا تشبه الاعراس و الاعياد والحمد للہ على ذالک"۔
جب یہ فیصلہ ہو چکا تو نادر شاہ نے چاندی کے برتنوں میں جن پر سونے کا ملمع تھا اور جو ہر قسم کے بیش قیمت اور نفیس جواہر سے مرصع تھے مٹھائیاں بھیجیں جن میں کثرت سے عنبر ڈالا گیا تھا بہت سا دہونی دینے کے لئے عنبر بھی تھا چنانچہ سیدنا علیؓ کی قبر کے پاس عنبر کی دہونی دینے کے بعد ہم نے ان مٹھائیوں کو کھایا اور اس کے بعد نادر شاہ تو اسی مقام پر ٹھہر گیا جہاں دہونی دی گئی تھی جس کو تبنجرہ کہتے ہیں اور جب ہم سب باہر نکلے تو ترکوں عربوں اور ایرانیوں اور افغانوں کی اس قدر کثرت تھی جن کی تعداد سوائے خدا کسی کو معلوم نہیں ہو سکی اور یہ وقت جمعرات کے دن ظہر کے بعد کا وقت تھا اور اس کے بعد نادر شاہ نے مجھے پھر اپنے پاس بلایا اور حسبِ دستور میں اس کے نزدیک پہنچا لیکن اس دفعہ میں بہ نسبت پہلے کے اب زیادہ نزدیک ہو گیا تھا مجھ سے نادر شاہ نے کہا کہ خدا تعالیٰ آپ کو اور احمد خان یعنی احمد پاشا کو جزائے خیر دے آپ دونوں کی کوشش سے شیعہ اور سُنی کا فتنہ فرو ہو گیا اور مسلمان خونریزی سے محفوظ ہو گئے اور پھر نادر شاہ نے خلیفةُ المسلمین کے حق میں یہ دعا کی۔ "اید اللہ سلطان ٰال عثمان و جعل الله عزه ورفعته اكثر من ذالك"
نادر شاہ کا بجا فخر
پھر نادر شاہ نے مجھ سے کہا کہ اے عبداللہ آفندی تم یہ خیال مت کرو کہ شہنشاہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس کے ذریعہ سے سُنی اور شیعہ کا اتفاق ہو گیا بلکہ یہ تو امرِ محض خدا تعالیٰ کی تائید سے یہ میرے ہاتھ پر ظاہر ہوا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو گالیاں نکالنا میرے ذریعے سے موقوف ہو گیا جب کہ سلاطین آلِ عثمان سلطان سلیم کے زمانے سے لے کر آج تک اس بدعت کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہے اور انہوں نے بارہا اس کے لئے فوج کشی کی اور جان و مال کا اتلاف کیا لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے اور میں نے بغیر کسی خونریزی کے آسانی سے یہ بدعت روک دی اور یہ برے بدعات شیعوں میں شاہ اسماعیل جیٹ کے زمانہ سے رائج ہو گئے تھے جبکہ شاہ مذکور کو شیعہ ملاؤں نے گمراہ کر دیا تھا میں نے نادر شاہ سے کہا کہ:
ان شاء اللہ تمام ایرانی آخر کار جیسا کہ پہلے وہ اہلِ سنّت و الجماعت تھی اہلِ سنّت ہو جائیں گے اس نے کہا کہ ان شاء اللہ تعالٰی لیکن یہ بات آہستہ آہستہ ہوگی اس کے بعد نادر شاہ نے کہا کہ اے عبداللہ آفندی میں اس وقت جتنا فخر کروں بجا ہے کیونکہ اسوقت چار سلاطین کا ملک میری تصرف میں ہے اور میں گویا سلاطین اربعہ کا مجموعہ ہوں یعنی سلطان ہندوستان سلطان افغانستان سلطان ترکستان اور سلطان ایران ہوں اور یہ سب کے سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا احسان ہے اور تمام دنیا کے مسلمانوں کو میرا ممنون ہونا چاہیئے کہ میں نے سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی بدعت کو دور کر دیا اور میں امید کرتا ہوں کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قیامت کے دن میری شفاعت کریں گے۔
کوفہ کی مسجد میں چار یارؓ کے مناقب کا بیان
اس کے بعد نادرشاہ نے مجھ سے کہا کہ مجھے اگرچہ اس امرکا علم ہے کہ احمد خان آپ کا انتظار کر رہا ہوگا لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ کل تک یہاں ٹھہریں تا کہ جامع مسجد کوفہ میں جمعہ پڑھا جائے او منبر پر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا نام اس ترتیب لیا جائے جو اہلِ سّنت کا مذہب ہے اور اس کے بعد میرے بڑے بھائی سلطان آلِ عثمان سلطان محمود خان خلیفتہ المسلمین کے لئے دعا کی جائے اور تمام القاب حسنہ ان کے بیان کئے جائیں اس کے بعد ان کے چھوٹے بھائی یعنی میرے لئے دعا کی جائے لیکن میرے لئے سلطان السلمین سے کم دعا کی جائے کیونکہ چھوٹے بھائی کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی کی تو توقیر اور تعظیم کرے اور سلطان محمود خان در حقیقت مجھ سے اعلیٰ اور افضل اور امیر ہیں کیونکہ وہ توسلطان ابنِ السلطان ہیں اور میں جب دنیا میں آیا تھا تو نہ میرا باپ سلطان تھا اور نہ دادا پھر نادر شاہ نے مجھے رخصت کیا جب میں باہر نکلا تو تمام ایرانی علمائے شیعہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مناقب اور فضائل اور مفاخر ہر ایک خیمہ میں بیان کر رہے تھے اور ہر ایک ایرانی کی زبان سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فضائل جاری تھے جن کو وہ آیاتِ قرآنی اور احادیث سے ایسے طور پر استنباط کرتے تھے کے اہلِ سنّت کے بڑے بڑے علماء بھی اس سے عاجز تھے اور ساتھ ہی شاہ اسماعیل کو برا بھلا کہتے تھے کہ اس نے کیوں اس بدعت کو جاری کیا جمعہ کے دن بوقت صبح نادر شاہ نے نجف سے کوفہ کی طرف رخ کیا نجفِ اشرف سے کوفہ تقریباً ساڑھے تین میل کے فاصلہ پر ہے جب ظہر کا وقت ہو گیا نادر شاہ نے حکم دیا اپنے مؤذن کو کہ جمعہ کی اذان دے اور سب لوگوں کو حکم دیا کہ وہ جمعہ کے لئے حاضر ہو جائیں میں نے اعتمادُ الدولہ سے کہا کہ جمعہ کی نماز کوفہ کی جامع مسجد میں اہلِ سنّت کے نزدیک جائز نہیں ہے امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک تو اس لئے جائز نہیں کہ کوفہ مصر نہیں ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک اس لئے درست نہیں کہ شہر کے اصلی باشندے چالیس سے کم ہیں اس نے کہا کہ بادشاہ کا مطلب صرف یہی کہ آپ وہاں حاضر ہوں اور خطبہ سن لیں خواہ آپ نماز پڑھیں یا نہ پھر میں جامع مسجد کی طرف گیا اور میں نے دیکھا کہ اس میں تقریباً پانچ ہزار آدمی موجود ہیں ایران کے تمام علماء اور سب خواتیں حاضر تھے اور ممبر پر شاہ علی مدد نامی امام بیٹھا تھا ملاباشی نے کربلا کے ایک عالم سے مشورہ کر کے ملاشاہ علی مدد کو منبر سے اتار دیا اور کربلائی ملا ممنبر پر چڑھا اور اس نے خطبہ شروع کیا اور خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء اور درود کے بعد اُس نے کہا وعلی الخليفة الأول الخ اور تمام خلفاء کا حسبِ ترتيب اہلِ سنت نام لیا اور اس کے بعد سلطان محمود خان ابنِ سلطان مصطفیٰ خان ترکی اور پھر نادر شاہ کے لئے دعا کی اس کے بعد رافضی نے نماز پڑھائی جو مذاہب اربعہ سے خارج تھی اور اعتمادُ الدولہ نے مجھ سے پوچھا کہ خطبہ اور نماز کیسی تھی میں نے کہا کہ خطبہ تو اہلِ سنّت کے مذہب کے مطابق تھا لیکن نماز چاروں مذہبوں سے خارج تھی حالانکہ بحرُ العلم نےان پر یہ شرط لگائی تھی کہ وہ کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جو چاروں مذہبوں سے خارج ہو اسلیے نادر شاہ کو چاہیے کہ وہ اس کے متعلق ان کو ہدایت کردے اعتمادُ الدولہ نے یہ بات نادر شاہ تک پہنچا دی نادر شاہ اس بات سے ناراض ہوا اور اس نے اعتمادُ الدولہ کے ذریعہ کہلا بھیجا کہ احمد خان کو یہ خبر دے دینا کہ میں تمام اختلافات حتیٰ کہ مٹی پر سجدہ کرنے کو بھی روک دوں گا اس کے بعد نادر شاہ کی طرف کو مٹھائیاں لائی گئیں اور اسقدر ہجوم ہوگیا کہ ملاباشی علی اکبر کا عمامہ اس کے سر سے گر گیا اور اس کی دو انگلیاں بھی زخمی ہو گئیں میں نے پوچھا یہ لوگ دیدہ و دانستہ اس قدر بھیڑ کیوں کرنے لگے ہیں اور ایک دوسرے کے اوپر چڑھے جاتے ہیں مجھ سے کہا گیا کہ نادر شاہ اس سے خوش ہوتا ہے اور سب ازدہام اس کی خوشی کے لئے ہیں اور اس کے بعد نادر شاہ نے مجھے رخصت کر دیا۔
تم الكتاب بالخير والحمد لله رب العالمين