رافضیت میں چھپی ناصبیت
جعفر صادقرافضیت میں چھپی ناصبیت
اہل تشیع کے نزدیک ”ناصبیت” کی تعریف کچھ مختلف ہے۔ان کے نزدیک تمام اہل سنت ناصبی ہیں۔
اہل تشیع کے مطابق
اہل تشیع کے نزدیک ”ناصبیت” کی تعریف مختلف ہے ۔
اہل تشیع کے ہاں اپنے تمام مخالف مسالک کو ناصبی کہہ کر پکارا جاتا ہے۔
ہر وہ شخص جو حضرت عثمان اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہو، چاہے وہ اہل بیت کرام کے فضائل و شان کا معترف کیوں نہ ہو، شیعہ کے نزدیک ناصبی میں شمار ہوتا ہے
آج کے شیعہ رافضی عوام اہل سنت کو اکثر یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ اہل سنت سے بغض نہیں رکھتے بلکہ ناصبیوں سے بغض و عداوت رکھتے ہیں۔ جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کی معتبر کتب میں عام طور پر اہل سنت سے بغض کا اظہار “ناصبی” کہہ کر کیا جاتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ شیعہ رافضیوں کے نزدیک ناصبی کسے کہا جاتا ہے۔
شیعہ عالم شیخ محمد حسن نجفی لکھتے ہیں کہ
عن شرح مقداد: ناصبی کا اطلاق ، پانچ طریقوں سے ہوتا ہے ۔
الخارجی : جو امام علی (ع) پر قدح کریں۔
ایسا آدمی جو ائمہ (ع) کی طرف ایسی نسبت دے جس سے ان کی عدالت ساقط ہو جاتی ہو۔
ایسا آدمی جو اہلبیت (ع) کی فضیلت سن کر اس کا انکار کرے۔
ایسا آدمی جو علی (ع) پر کسی اور کو فضیلت دے۔
ایسا آدمی جو علی (ع) کے متعلق ، نص کو سننے کے بعد اس کا انکار کرے جبکہ وہ نص مصدقہ طریقے سے اس تک پہنچی ہو ۔
(جواھرالکلام ، ج 6 ص 66 کتاب الطہارۃ فی المراد من الناصب)
غور فرمائیں۔ شیعہ کے نزدیک ناصبیت کی ان چار اقسام میں اہل سنت چوتھی قسم کے ناصبی تصور کئے جاتے ہیں۔
خلفائے راشدین جس پر پوری امت مسلمہ متفق ہے، خود حضرت علی اور اہل بیت کرام ان صحابہ کرام کے ساتھ پوری زندگی ساتھ رہے ، رشتیداریاں تک کی گئیں، اور حضرت علی بیس سال سے زیادہ عرصہ تک مسجد نبوی میں خلفائے ثلاثہ کی امامت میں نماز ادا کرتے رہے۔ ان کی فضیلت کے معترف رہے ، اور شیعہ رافضی اسی فضیلت کو بنیاد بنا کر تمام اہل سنت کو ناصبی قرار دیتے ہیں، حالانکہ اہل بیت کرام کی محبت کو اہل سنت کے ہاں ایمان کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔
1️⃣ سیدنا مولا علی کی خلافت میں تمام صحابہ کرام خود کو شیعان علی کہتے تھے۔
یعنی شیعہ بمعنی جماعت یا گروہ
شیعان علی کا مطلب کوئی مسلک یا فرقہ نہیں تھا، کیونکہ اس وقت کسی فرقہ یا مسلک کا وجود ہی نہیں تھا۔
تمام صحابہ کرام سیدنا علی کا احترام و عزت کرتے تھے، ظاہر اسی لئے خود کو شیعان علی کہتے تھے۔
2️⃣ شیعہ عالم کی یہ بات غلط ہے کہ اہل سنت نام رکھنے کی وجہ سیدنا علی سے دشمنی ہے، یا حضرت امیر معاویہ نے اہل سنت و جماعت نام رکھا، تاریخ کا ادنی طالب علم بھی جانتا ہے کہ سبائی گروہ نے جب حضرت عثمان غنی کو شہید کردیا اور صحابہ کرام میں اختلاف رائے کرادیا گیا تو اس وقت امت مسلمہ دو گروہ میں بٹ گئی تھی ، یہ اختلاف مذہبی اختلاف ہرگز نہیں تھا بلکہ سیاسی اختلاف تھا۔
یہی وجہ ہے کہ ایک سیاسی گروہ شیعان علی اور دوسرا گروہ شیعان معاویہ کہلایا۔
3️⃣ شیعہ کے نزدیک تمام اہل سنت معاذاللہ ناصبی ہیں۔
شیعہ عالم کی خیانت ملاحظہ فرمائیں۔
یہ اقرار بھی کر رہا ہے کہ حضرت امام حسن نے حضرت امیر معاویہ سے صلح کرلی اور اس سال کو عام الجماعتہ کہا گیا۔
یعنی امت مسلمہ کے دو گروہ ایک ہوگئے، نبی کریم کی وہ پیشیں گوئی من و عن پوری ہوگئی کہ “میرا یہ بیٹا (حضرت امام حسن) مسلمانوں کے دو عظیم گروہوں میں صلح کرائے گا۔”
تعجب کی بات ہے کہ شیعہ عالم اس جماعت کو جو پہلے دو گروہوں میں تقسیم تھی، اس جماعت کو سنی جماعت اور باغی جماعت بھی کہہ رہا ہے، پھر اس پوری جماعت کو معاذ اللہ ناصبی جماعت بھی کہہ دیا ہے!!!
اگر اس دور میں پوری امت مسلمہ یعنی حضرت امام حسن کا گروہ (شیعان علی) اور حضرت امیر معاویہ کا گروہ (شیعان معاویہ) صلح کے بعد ایک ہوگئے تھے ، وہ ایک جماعت شیعہ عالم کے مطابق باغی اور ناصبی جماعت تھی تو پھر اس وقت شیعہ کہاں تھے؟؟
کیا عام الجماعت کے سال بلکہ حضرت امیر معاویہ کے بیس سالہ دور حکومت میں امت مسلمہ ایک نہیں تھی؟ کوئی اور گروہ بھی موجود تھا؟؟
تاریخ میں صرف ایک دشمن اسلام کا سازشی گروہ یعنی سبائی گروہ موجود ہے جو اس وقت گنے چنے افراد پر مشتمل تھا۔
غور فرمائیں۔۔شیعہ عالم سبائی گروہ کو اصل مسلمان مؤمن کہہ کر صحابہ کریم اور اہل بیت کرام کی پوری جماعت کو معاذاللہ باغی اور ناصبی کہہ رہا ہے!! یہ جماعت ان دو گروہ سے مل کر بنی تھی جنہیں صحیح احادیث میں نبی کریم نے مسلمانوں کی دو عظیم جماعتیں کہا ہے۔
۔ ناصبی وہ ہے جو امام علی یا اہل بیت میں سے کسی ایک کے ساتھ دشمنی رکھتا ہو اور اپنی دشمنی کا اظہار بھی کرتا ہو۔ اہلبیت کے فضائل کا انکار کرتا ہو
لیکن ہر وہ شخص جو صحابہ کرام خاص طور پر خلفاء ثلاثہ اور معاویہ رضی اللہ عنہما سے عقیدت رکھتا ہے، رافضیوں کے نزدیک ناصبیوں میں شمار ہوتا ہے۔
ممکن ہے کہ اہل تشیع کے معتدل لوگوں کا مؤقف اس سلسلے میں مختلف ہو تاہم ان کے متشدد لوگوں کا موقف یہی معلوم ہوتا ہے۔
یزید بن ہارون سے کہا گیا: ”آپ حضرت عثمان کے فضائل تو بیان کرتے ہیں لیکن حضرت علی کے فضائل کیوں بیان نہیں کرتے؟” انہوں نے جواب دیا: ”حضرت عثمان کے ساتھی تو حضرت علی کے بارے میں کوئی منفی بات نہیں کرتے لیکن جو لوگ خود کو اصحاب علی کہتے ہیں، وہ حضرت عثمان رضی الله عنہ کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنے قصیدے کے شروع میں کہا ہے:
’’اگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت رکھنی “ناصبیت” ہو تو ثقلین گواہ رہیں کہ میں ناصبی ہوں (الکافیہ الشافیہ)
حضرت علی رضی الله عنہ و حضرت فاطمه رضی الله عنہ اور دیگر اہل بیت رضوان الله اجمین سے مسلمانوں کی محبّت فطری ہے اورہونی بھی چاہیے کہ یہ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے- لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اہل بیت اور دیگر صحابہ کرام رضوان الله اجمعین بہرحال انسان تھے – نبی کی طرح معصوم نہیں تھے کہ اجتہادی غلطیوں سے مبرّا ہوں-
حضرت عثمان غنی رضی الله عنہ کی شہادت کے ساتھ فتنوں کا عظیم سلسلہ شروع ہوا -ان فتنوں کی زد میں صحابہ کرام بھی آئے -لیکن رافضیوں نے ان پاک ہستیوں کی اجتہادی غلطیوں کا اتنا پرچار کیا کہ عوام الناس بڑی تعداد میں گمراہ ہونے لگے۔ رافضیت کو بہرحال ہمیشہ سے یہودیت کی سرپرستی جو حاصل رہی ہے-
ہمارے معاشرے میں رافضی تو الگ لیکن اہل سنّت میں آپس میں رافضیت و ناصبیت کا جھگڑااصل میں اس وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ہمارے اکثر محققین نے واقعہ شہادت عثمان رضی الله عنہ اورخصوصا واقعہ کربلا کو اپنی اہل بیت سے جذباتی وابستگی کی بنیاد پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو کہ تاریخ دانی کا اصول نہیں ہے – جب کہ تاریخی واقعات کو غیر جانبداری سے پرکھنا ہی تاریخ کا صحیح اصول ونہج ہے-
اس جذباتی پن کا نتیجہ یہ نکلا کہ جن تاریخ دانوں یا محققین نے ان واقعات سے متعلق اپنی حقیقت پر مبنی آراء بیان کیں اب چاہے وہ دور قدیم کے محقق ابن خلدون ، یا ابن کثیروغیرہ ہوں یا پھر دورجدید کے محققین محمود احمد عباسی ، یوسف صلاح الدین، زبیرعلی زئی، حبیب الرحمان کاندھلوی یا تمناعمادی وغیرہ ہوں ان پر رافضی نما اہل سنّت نے جھٹ سے “ناصبی” ہونے کا لیبل لگا دیا- یہ دیکھے بغیر کہ آخر حقائق تو حقائق ہی ہوتے ہیں- ہاں یہ ضرور ہے کہ تاریخی اعتبار سے مذکورہ محققین کے بیان کردہ آراء کے ١٠٠ فیصد درست ہونے کا دعوی کرنا بھی بہرحال بے انصافی ہے کیوںکہ اہم واقعات سے متعلق تاریخی معلومات کی ترتیب و تدوین کی صورت میں عینی شہادت ، آثار و شواہد اور گواہیوں کو یکجا کرنے کا مرحلہ کوئی آسان کام نہیں- لیکن بہرحال تاریخ اسلام کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ کچھ احباب اہل سنّت جن میں مولانا مودودی جیسے علماء سرفہرست تھے ان کی جانبداری اور جذباتیت نے تاریخ اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا- حتیٰ کہ اپنے آپ کو جھوٹا محب اہل بیت ثابت کرنے کے لئے کذاب و دجال راوی ابو مخنف ، واقدی ، ہشام کلبی کی روایات کو من و عن قبول کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا گیا –
جب عوام و خواص سمجھنے لگیں گے کہ عصمت صرف اور صرف انبیاء و رسل کا خاصہ ہے تو ان کو ناصبیت کا طعنہ دینے کی عادت چھوٹ جائے گی۔ کاش ہمارے شیعہ نواز اہلِ سُنت کبھی تو جذبات کو الگ کر کے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ کے متعلق لگائے گئے بہتان و افتراء کا جائزہ لیں ۔ اس کام کو کرنے کے لیے عقل کی کچھ زیادہ مقدار کی ضرورت نہیں ہے ،بس تعصب و عناد کو چھوڑنا واجب ہے۔ حضرت عثمان ؓ کی مظلومانہ شہادت کو شیعہ نواز اہلِ سُنت کبھی بھی درد مندی سے بیان نہیں کرتے جتنی حضرت حسینؓ کے سیاسی معاملے کو بیان کرتے ہیں۔ سچ ہی فرمایا ہے کسی نے کہ سبائیت نے اچھے اچھوں کی عقل کو ختم کر دیا ہے۔
اب ظاہر ہے کہ جنہوں نے حقائق کا ساتھ دیا ان پر “ناصبی” کا لیبل لگانا رافضی نما اہل سنّت کے لئے کوئی مشکل کام نہیں رہا-
بلاشبہ یہ بات درست ہے ـ ویسے رافضی نما اہل سنت کہنے سے بہتر ہے اگر انہیں رافضی نما “تحریکی” کہہ دیا جائے ـ کیونکہ اہلنست والجماعت جنہیں کہا جاتا ہے ان میں عقل و شعور پایا جاتا ہے ـ
اگر اہل تشیع کے مطابق اہل بیت سے بغض رکھنے والا ناصبی ہے تو پھر سب سے پہلے شیعہ خود اس جال میں پھنستے ہیں
ازواج مطہرات کے بارے میں راجح قول یہ ہے کہ وہ اہل بیت میں داخل ہيں اس لیے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کوپردہ کا حکم دینے کے بعد فرما یا ہے کہ :
اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے وہ ( ہرقسم کی ) گندگی کودورکردے اور تمہیں خوب پاک کرےالاحزاب ( 33 ) ۔
اورابراھیم علیہ السلام کی زوجہ سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کو بھی اہل بیت کہنا جیسا کہ اس فرمان میں ہے :
فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ تعالی کی قدرت سے تعجب کررہی ہو ؟ اے گھروالوں تم پر اللہ تعالی کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں ھود ( 73 ) ۔
اوراس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کی بیوی کوآل لوط سے خارج کرتے ہوۓ فرمایا :
سوائے لوط علیہ السلام کی آل کے ہم ان سب کوتو ہم ضرور بچا لیں گے مگر اس کی بیوی ۔۔۔ الحجر ( 59 – 60 ) ۔
تویہ سب آیات اس پردلالت کرتی ہیں کہ زوجہ اہل بیت اورآل میں داخل ہے ۔
پس ثابت ہوا کہ اہل بیت یعنی امہات المومنین سے بغض رکھنے والا ناصبی ہے
رافضی اور ناصبی ایک ہی سکے کے دورخ ہیں۔