حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رات کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور دفن کردیا کسی کو بتایا ہی نہیں۔
جعفر صادقشیعہ اعتراض
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رات کو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا جنازہ پڑھایا اور دفن کردیا کسی کو بتایا ہی نہیں۔
الجواب
حضرت سیدہ فاطمہؓ کی نماز جنازہ میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی شرکت
(اس موضوع پر مختلف تحاریر تلاش کر کے پڑھیں)
شیعہ حضرات یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر سیدہ فاطمہ کے نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اور اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ سیدہ نے وصیت کردی تھی کہ ابوبکر میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں۔ اس کے جواب میں پہلے تو ہم ایک اصولی بات کرنا چاہتے ہیں کہ حضرت فاطمہ کے جنازہ میں کسی شخص کا بالخصوص شریک ہونا نہ فرض تھا اور نہ واجب۔ اور اگر بالفرض شیعہ ہر فرد کی شرکت فرض سمجھتے ہیں اور عدم شرکت کو منافی اسلام سمجھ کر شریک نہ ہونے والوں پر زبان طعن دراز کرتے ہیں تو ان کے پاس اس کا کیا جواب ہے کہ ان کی مستند روایات کے مطابق صرف سات آدمیوں نے حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی۔ چنانچہ شیعوں کی معتبر کتاب جلاء العیون میں کلینی سے روایت ہے۔
از حضرت امیر المومنین صلوات اﷲ علیہ روایت کردہ است کہ ہفت کس بر جنازۂ حضرت فاطمہ نماز کردند، ابوذر، سلمان،عمار، حذیفہ، عبداﷲ بن مسعود و مقداد ومن امام ایشاں بودم
جلاء العیون
حضرت امیر المومنین علی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا۔ صرف سات آدمیوں نے فاطمہ کی نماز جنازہ پڑھی جن کے نام یہ ہیں۔ ابوذر، سلمان، عمار، حذیفہ، عبداﷲ بن مسعود، مقداد اور میں ان کا امام تھا۔
جلاء العیون کی اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ صرف سات افراد نے سیدہ فاطمہ کے نماز جنازہ میں شرکت کی جن کے نام اوپر مذکورہیں اور مندرجہ ذیل افراد نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ مثلا حضرت امام حسن اور حسین، عبداﷲ بن عباس، عقیل بن ابی طالب برادر حقیقی حضرت علی، ابو ایوب انصاری، ابو سعید خدری، سہل بن حنیف، بلال، صہیب، براء بن عاذب، ابو رافع، یہ بارہ افراد ہیں جن کو شیعہ بھی مانتے ہیں اور ان کی جلالت قدر کے قائل ہیں۔ ملاحظہ ہو حیات القلوب، رجال کشی، رجال نجاشی
تو اب سوال یہ ہے کہ اگر بالفرض حضرت ابوبکر صدیق سیدہ فاطمہ کی نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے اور یہ بھی فرض کرلیجئے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیدہ ان سے ناراض تھیں تو شیعہ ان بارہ حضرات کے متعلق کیا کہیں گے۔ یہ بھی تو سیدہ کے نماز جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ کیا ان سے بھی سیدہ ناراض تھیں اور کیا سیدہ فاطمہ نے یہ وصیت بھی کردی تھی کہ میرے نماز جنازہ میں حسن و حسین بھی شریک نہ ہوں، جو ان کے لاڈلے بیٹے تھے؟
حقیقت یہ ہے کہ جنازہ کی شرکت یا عدم شرکت کو ناراضگی یا رضامندی کی بنیاد بنانا ہی غلط ہے اور اگر اسی اصول کو تسلیم کرلیا جائے تو پھر حضرت حسن، حسین ،عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہم اور دیگر افراد کے متعلق بھی یہ کہنا پڑے گا کہ ان سے حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا ناراض تھیں۔ کیونکہ جلاء العیون کی روایت کے مطابق یہ حضرات بھی سیدہ کے جنازہ میں شریک نہیں ہوئے۔ پس ثابت ہوا کہ اگر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ بھی جائے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے سیدہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تو اس کو حضرت ابوبکر صدیق سے سیدہ کی ناراضگی کی دلیل بنانا کسی طرح بھی درست نہیں ہے۔
اس کے علاوہ شیعوں کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ نے اپنی زوجہ محترمہ اسماء بنت عمیس رضی اﷲ عنہا کو جناب سیدہ کی خدمت کے لئے چھوڑ دیا تھا اور حضرت اسماء سیدہ کی تیمارداری کی تمام خدمات انجام دیتی تھیں اور شبانہ روز ان کے گھر میں مقیم تھیں۔ حضرت فاطمہ نے بوقت وفات انہیں غسل دینے، کفن پہنانے اور جنازہ تیار کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ اس کے ثبوت کے لئے کتاب کے حوالہ کی ضرورت تو نہیں ہے پھر بھی عوام الناس کے لئے شیعہ کتاب سے ثبوت پیش کئے جاتے ہیں۔
یہ واقعات شیعوں کی ہر اس کتاب میں مذکور ہیں جس میں حضرت فاطمہ کی وفات اور تجہیز و تکفین کے واقعات درج ہیں۔ جیسے جلاء العیون، ناسخ التواریخ وغیرہ… نہ صرف یہ بلکہ کتب شیعہ میں یہ بھی تصریح ہے کہ جب حضرت فاطمہ کو یہ خیال ہوا کہ کپڑے سے عورتوں کا پردہ اچھی طرح نہیں ہوتا ہے تو گہوارہ کا مشورہ حضرت ابوبکر کی زوجہ محترمہ ہی نے دیا تھا اور یہ بیان کیا تھا کہ حبشہ میں انہوں نے یہ صورت دیکھی ہے کہ جنازہ پر لکڑیاں باندھ کر گہوارہ بناتے ہیں۔ چنانچہ اسی صورت گہوارہ کو جناب سیدہ نے پسند کیا اور حضرت ابوبکر کی زوجہ محترمہ نے موافق وصیت جناب سیدہ ان کے غسل و تجہیز و تکفین میں شریک ہوئیں۔ اس سچے تاریخی واقعہ سے جو شیعوں کی تمام کتب میں موجود ہے۔ مندرجہ ذیل امور پر روشنی پڑتی ہے۔
اول: اگر جناب سیدہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے ناراض ہوتیں تو حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کبھی ان کی زوجہ محترمہ سے خدمت لینا پسند نہ کرتیں اور نہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ اپنی زوجہ کو یہ اجازت دیتے کہ وہ شبانہ روز سیدہ کے گھر مقیم رہیں اور ان کی تیمارداری میں مشغول ومصروف رہیں۔
دوم: بالکل وضاحت سے ثابت ہوا کہ جناب سیدہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے قطعاً راضی تھیں اور اسی سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو اپنی زوجہ محترمہ سے سیدہ کے حالات معلوم ہوجاتے تھے۔ یا وہ خود اپنی زوجہ سے پوچھ لیتے تھے۔
♦️یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ وفات کی اطلاع خصوصی طور پر حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کو بھیجنے کی ضرورت نہ تھی۔ کیونکہ جب ان کی زوجہ محترمہ سیدہ کی تیمارداری میں مصروف تھیں تو حضرت ابوبکر کو ایک ایک پل کے حالات معلوم ہوتے رہتے ہوں گے۔
♦️ چنانچہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ نے مشکوٰۃ کی جلد آخر میں یہ روایت نقل کی ہے کہ گہوارہ کی خبر پاکر ابوبکر رضی اﷲ عنہ یہ پوچھنے آئے کہ یہ نئی چیز کیوں بنائی تو حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کی زوجہ نے ان کو سمجھا دیا کہ جناب سیدہ نے اس کی وصیت کی تھی اور گہوارہ کو پسند کیا تھا۔ یہ سن کر حضرت ابوبکر خاموش ہوگئے۔
♦️ ان مذکورہ بالا امور سے واضح ہوگیا کہ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا بوقت وفات حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ سے بالکل راضی تھیں۔ لہذا جنازہ میں ابوبکر کی عدم شرکت بالکل خلافِ عقل دعویٰ معلوم ہوتا ہے۔ مذکورہ بالا عبارات سے تو اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ سیدہ کے جنازہ میں شریک ہوئے تھے۔
حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے پڑھی
بخاری یاصحاح ستہ کی کسی روایت سے یہ ثابت نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ، سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کی نماز جنازہ کی نماز میں شریک نہ تھے، سیدنا علی رض کا اطلاع نہ دینا عدم شرکت پر دلالت نہیں کرتا، کیونکہ وفات کی اطلاع دینے کی ضرورت ہی نہ تھی، رات کو تدفین کرنا بھی کوئی معیوب فعل نہیں ہے ۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت ابوبکر نماز جنازہ کے امام تھے۔ طبقات ابن سعد میں امام شعبی و امام نخعی سے دو روایتیں مروی ہیں۔
(١) عن الشعبی قال صلی علیہا ابوبکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
(٢) عن ابراہیم قال صلی ابوبکر الصدیق علی فاطمۃ بنت رسول اﷲ وکبر علیہا اربعاً
امام شعبی و ابراہیم نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے حضرت فاطمہ بنت حضور اکرمﷺ کی نماز جنازہ پڑھائی اور انہوں نے نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں۔
اہل تشیع کے ہاں وقت کے حکمران کی موجودگی میں کوئی دوسرا نماز جنازہ نہیں پڑھا سکتا۔
شیعہ کتب سے حوالاجات
اس میں پہلی روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہے
اس میں مذکور ہے
کہ جب وقت کا حاکم موجود ہو جنازہ پڑھانے کا زیادہ حقدار وہی ہے۔
اگلی روایت اس میں واضح موجود ہے کہ وہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ ولی سے زیادہ حقدار وقت کا سلطان اور حاکم ہے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ وقت کے حاکم تھے وہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے فرمان کے مطابق حقدار تھے
اور نیچے مذکور ہے کہ ام کثوم بنت علی جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور زوجہ حضرت عمر فاروق تھیں، اس کا جنازہ مروان نے پڑھایا جو اس وقت مدینہ کا والی تھا اس موقعہ پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر یہ سنت نہ ہوتی تو جنازہ میں خود پڑھاتا اس سے معلوم ہوا کہ سیدنا حسین ر ضی اللہ عنہ نے بھی اقرار کیا ہے کہ سنت طریقہ یہ ہے کہ وقت کا حاکم جنازہ پڑھائے
اس سے شیعوں کا اعتراض ختم ہوتا ہے
دوسری روایت شیعہ کتب سے
اس میں مذکور ہے
شیعوں کے امام معصوم کا قول ہے
کہ مستحب یہ ہے کہ جنازہ نماز کو پھلایا جائے اور اعلان کیا جائے تانکہ اور بھی اس میں شامل ہوں اور اس سے میت کو بہت اجر ملتا ہے اور اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں
اب شیعہ یہاں بھی بند دیواروں میں پھنس جاتا ہے
کیونکہ اس کا اپنا اصول ہے امام کا قول ہے کہ جنازہ کو پھیلانا ہر کسی کو اطلاع پہنچانا مستحب ہے
اس سے ثابت ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی ایسا نہیں کیا ہوگا کہ اکیلے نماز جنازہ پڑھ کر سیدہ رض کو اجر سے محروم کردیا ہو کبھی نہیں۔