Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

لفظ شیعہ کےاصطلاحی معنی

  توقیر احمد

 لفظ شیعہ کے اصطلاحی معنی 

پہلی اصطلاحی تعریف
معروف شیعہ عالم سعد بن عبداللہ القمی( المتوفی301ھ) شیعہ کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں 
“وہ لوگ جو علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ کے اتباع اور ماننے والے ہیں ؛
المقالات و الفرق صفحہ 3 
نیز لکھتا ہے ۔شیعہ سے مراد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی جماعت ہے جنہیں عہد نبوی میں اور اس کے بعد کے زمانے میں شیعان علی کہا جاتا تھا اور بعد میں یہ لوگ علی رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنے مخصوص تعلق اور ان کی امامت کے عقیدے سے معروف ہوئے 
المقالات والفرق ص10
ایک اور معروف شیعی عالم حسن بن موسی النوبختی نے بھی بھی بعینہ انہی الفاظ میں شیعہ کی تعریف کی ہے 
فرق الشیعۃ صص2۔17
 یہ تعریف جامع ومانع نہیں۔ ۔
یہ ہے شیعہ کی تعریف جو اس فرقہ کی اہم ترین اور فرق وجماعت کے متعلق قدیم و معتبر کتب میں مرقوم ہے لیکن یہ تعریف فرقہ اہل تشیع کے کسی بنیادی اصول اور ان کے امتیازی عقائد و نظریات کی طرف ادنیٰ اشارہ بھی نہیں کرتی 
١۔ ۔ شیعہ کے ہاں علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کے حق میں ولایت و امامت کی وصیت کے منصوص ہونے کا عقیدہ ہے یعنی جیسے بارہ آئمہ
 ٢۔ ۔اس تعریف کے آخر میں امامت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر تو موجود ہے لیکن اس سے متعلق باقی ائمہ شیعہ کی ولایت و امامت کا کوئی تذکرہ نہیں ہے
٣۔ ۔۔ شیعہ مذہب کی تعریف جو بعد میں پیدا ہونے والے شیعہ اصول و عقائد سے خالی ہے درحقیقت یہی اصل شیعان علی رضی اللہ عنہ اور ان کے حقیقی متبعین کی معتبر تعریف ہے جو شیعیت کا دعوی کرنے والوں کو دائرہ تشیع سے نکال باہر کرتی ہے جنہوں نے اپنے مذہب میں ایسے عقائد و نظریات ایجاد کرلیے تھے جن کے ائمہ اہل بیت قطعاقائل نہیں تھے 
 ۴۔ ۔۔فرقہ اہل تشیع کے معیار کے مطابق یہ شیعہ مذہب کی صحیح تعریف نہیں حالانکہ قمی اور نوبختی فرقہ اہل تشیع کے افراد بلکہ ان کے معروف اور ممتاز علماء میں سے تھے ۵۔ ۔۔اس تعریف میں یہ بھی دعوی کیا گیا ہے کہ شیعان علی رضی اللہ عنہ عہد نبوی میں بھی موجود تھے بلکہ ان کے نام بھی ذکر کیے گئے ہیں 
 مقداد بن اسود ۔سلمان فارسی ۔ابوذر جندب بن جنادہ ۔عمار بن یاسر اور دوسرے وہ صحابہ جن کی محبت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے تابع تھی یہ لوگوں شیعہ کے ہاں  اس امت کے اولین افراد ہیں جنہیں شیعہ نام سے ملقب ہونے کا شرف حاصل ہے 
المقالات والفرق صفحہ-15
الفرق الشیعۃ صفحہ 918 
 ٦۔ ۔۔۔ کتاب و سنت اور صحیح معتبر تاریخی حقائق و واقعات سے اس کی قطعا کوئی تائید نہیں ہوتی
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں 

   Surat No 3 : Ayat No 19 
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟  ﴿۱۹﴾

 بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔

Surat No 3 : Ayat No 85 
وَ مَنۡ یَّبۡتَغِ غَیۡرَ الۡاِسۡلَامِ دِیۡنًا فَلَنۡ یُّقۡبَلَ مِنۡہُ ۚ وَ ہُوَ فِی الۡاٰخِرَۃِ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ ﴿۸۵﴾

جو شخص اسلام کے سوا اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا ۔  
یعنی اللہ تعالی کے ہاں اصل دین اسلام ہے نہ کہ تشیع
٧۔ ۔۔ عہد نبوی میں صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین صرف ایک جماعت اور ایک گروہ تھے جن کا تشیع اور اتباع صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص وممیز تھا 
دوسری تعریف
معروف شیعہ عالم محمد بن محمد بن نعمان العکبری المفید (413 ھ) لفظ شیعہ کا اطلاق امیرالمومنین علیہ الصلاۃ والسلام کے ان متبعین پر ہوتا ہے جو ان سے محبت ولاء (ولایت کے لفظی معنی سرپرستی اور حق تصرف کے ہیں اور شیعہ اصطلاح میں عموماً ولایت یعنی معصومین (ع)  کا خداوند کی طرف سے مومنین کا سرپرست ہونا ہے۔ ولایت کامل کے لیے چار وصف ہیں: ولایت تشریعی، ولایت تفسیری، ولایت تکوینی، ولایت سیاسی۔)کا تعلق اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ بلا فصل ہیں اور ان سے پہلے خلافت پر متمکن ہونے والے اشخاص سے امامت اور خلافت کی نفی کرتے ہیں اور وہ یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ ان سب صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کے مقتداءمتبوع امام تھے وہ ان میں سے کسی اور کی اقتدا کی صورت میں اطاعت کرنے والے نہیں تھےپھر یہ مولف ذکر کرتا ہے کہ اس تعریف میں فرقہ امامیہ اور زیدیہ فرقہ جارودیہ شامل ہیں البتہ دیگر زیدی فرقہ اس تعریف کی رو سے شیعہ ہیں نہ انہیں یہ شیعی امتیاز اور تشخص حاصل ہے 
اوائل المقالات صفحہ 39 
تعریف جامع ومانع نہیں ہے 
١۔ ۔۔مفید کی اس تعریف میں اولاد علی رضی اللہ عنہ کی امامت پر ایمان رکھنے کا کوئی ذکر نہیں ہے حالانکہ ان لوگوں کا نظریہ ہے کہ جو شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا وہ شیعہ کہلانے کا حق دار نہیں ہے اسی طرح اس تعریف میں تشیع کےبعض ایسے اساسی پہلو کی صراحت سے بھی چشم پوشی کی گئی ہے جن سے فرقہ شیعہ متصف ہے 
مثال۔ مسئلہ وصیت ۔عصمت ائمہ وغیرہ جو اہل تشیع کے اصول و عقائد میں شامل ہیں 
٢۔ ۔۔اس تعریف میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مفید نے صراحت کی ہے کہ معتدل زیدی فرقہ شیعہ ہیں نہ ان پر یہ وصف تشیع صادق آتا ہے ہاں البتہ اس کی نظر میں صرف ایک غالی زیدی فرقہ جارودیہ (جارودیہ ایک زیدی فرقہ ہے جو ابوالجارود زیاد بن منذر ہمدانی الکو فی الاعمی کی طرف منسوب ہے اس ابوالجارود سے متعلق امام ابوحاتم فرماتے ہیں رافضی تھا  جو اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیوب و نقائص میں احادیث بنا بنا کر لوگوں کو سنایا کرتا تھا فرقہ جارودیہ کا نظریہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تعین وتسمیہ کے بغیر خلافت علی کی طرف اشارے اور بعض اوصاف کے ذریعے وصیت فرمائی تھی لیکن امت گمراہی کا شکار ہوگئی اور امر خلافت کسی دوسرے کو سونپ کر کفر کی مرتکب ہوگئی 
تفصیل دیکھیے رجال کشی میں صفحہ  151,229,230اس کتاب میں ابوالجارود کی مذمت میں چھ روایات منقول ہیں جن میں سے بعض مرویات میں اسےکذاب اور کافر تک کہا گیا ہے لیکن مفید اسے شیعہ گردانتے ہیں کیونکہ اس کی تعریف کی رو سے شیعہ سے مراد یہی غلو آمیز عقیدہ ہے 
الفہرست صفحہ 192 
جامع الرواة جلد 1 صفحہ 339 
الکنی والالقاب جلد 1 صفحہ 30 
تہزیب التہذیب جلد 3 صفحہ 386
المقالات والفرق صفحہ-18 
فرق الشیعہ صفحہ 21 
نشوان حورالعین صفحہ 156 
خطط والاثارجلد 2 صفحہ 352 
الملل والنحل جلد 1 صفحہ 159 
التنبیہ والرد صفحہ 30 
المنیه والامل  صفحہ-20 ۔90
مقالات الاسلامیین جلد 1 صفحہ 140 
   شیخ مفید نے اپنی اس تعریف میں تمام غالی فرقوں کے لیے تشیع کا دروازہ کھول دیا 
٣۔ ۔۔۔اسی طرح شیعہ المفید کا تعریف میں یہ کہنا ۔وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ (علی رضی اللہ عنہ)حقیقت   میں ان سب( صحابہ کرام )کے متبوع امام تھے اور اقتداء کی صورت میں ان
(خلفاےثلاثہ) میں سے کسی کے تابع نہیں تھے اس میں شیعہ مذہب کے ایک بنیادی عقیدے تقیہ کی طرف اشارہ ہے کیونکہ شیعہ کے نزدیک علی  رضی اللہ عنہ صرف ظاہری طور پر خلفائے ثلاثہ کے اطاعت گزار تجبکہ باطن میں وہ ان کے متبوع امام تھے لہذا شیعہ عالم مفید اور شیعہ کی نظر میں خلفائے ثلاثہ کے حق میں علی رضی اللہ عنہ کی بیعت واطاعت کی خاطر نہ تھی بلکہ وہ تقیہ کے طور پر دلی اعتقاد کے بغیر محض ظاہری طور پر ان کی موافقت تھی  
۴۔ ۔۔مذکورہ بالا تعریف میں مفید کا یہ کہنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت علی بلافصل کا اعتقاد رکھنا تو اس کی بنیاد خلفائے ثلاثہ کی صحت خلافت سے شیعہ کا انکار ہے اسی شیعہ عالم مفید نے اس بات کو اپنی ایک دوسری کتاب (مقدمۃ الارشاد صفحہ 8 )میں زیادہ تفصیل کے ساتھ اس طرح بیان کیا ہے امیرالمومنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد 30 سال خلیفہ اور امام تھے اس مدت کے دوران میں چوبیس سال اور 6 مہینے تو اقتدار اور تصرف پر بظاہر قادر نہیں تھے اور اس دوران میں تقیہ اور مصلحت سے کام لیتے رہے پھر وہ پانچ سال اور 6 مہینے منافقین جن میں ناکثین قاسطین اور مارقین شامل تھے (معانی الاخبارصفحہ 204 ۔۔۔سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے مدینے میں علی کی بیعت کی اور بصرہ جاکر اسے توڑ دیا ناکثین ۔قاسطین ۔۔سے مراد معاویہ اور ان کے شامی اصحاب ہیں ۔مارقین۔ سے مراد خوارج ہیں )میں مصروف جہاد رہے نیز کئی گمراہ لوگوں کے فتنوں سے دوچار اور ان کے فساد سے نبرد آزما رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت کے تیرہ سال(ثلاث عشر سنة۔ ۔۔ثلاث عشرةسنة)  تصرف و اقتدار سے محروم اور ڈرے ہوئے قیدی کی طرح ادھر ادھر بھاگ کر بیچارگی کی زندگی بسر کرتے رہےاور اس دوران میں کفار کے خلاف جہاد اور مسلمانوں کا دفاع کرنے پر قادر نہیں تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اور مدینے میں اقامت کے دوران مشرکین کے خلاف جہاد میں مشغول اور منافقین کی سازشوں میں مبتلار ہے حتی کہ وفات پا گئےاور اللہ تعالی نے آپ کو نعمتوں والی جنت میں جا ٹکرایا 
الارشادصفحہ 12 
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مفید کی نظر میں صرف وہ شخص شیعہ کہلانے کا حقدار ہے جو یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ علی بن ابی طالب کی خلافت وفات رسول اللہ علیہ وسلم  سے لے کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی وفات تک تھی 
شیعہ عالم عبداللہ شبر مذہب شیعہ کی تعریف میں اس بات کی تاکید کرتے ہوئے کہتا ہے جان لو لفظ شیعہ کا اطلاق صرف اس شخص پر ہوتا ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ بلافصل ہونے کا معتقد ہے حق الیقین جلد 1 صفحہ 195 
(شیعہ کے حضرت علی کے بارے میں خلیفہ بلا فصل ہونے کے تین دعوے ہیں دعوت ذوالعشیرہ کے موقع پر
تفسیر قمی ج2/124
صافی ج4/56
مجمع البیان ج8/355
ترجمہ مقبول 748
 ۔غدیرخم کے موقع پر
تفسیر المتقین ص153
تفسیر انوارالنجف ص139تا144
تفسیر الصافی ج1/10
 ۔اور رجعت کے بعد
حق الیقین ص354 
عقائد اثنا عشریہ ص49
تفسیر نمونہ ج8/726 )
جب خلفائے ثلاثہ کی خلافت و امارت درست نہیں تو اس تعریف کی رو سے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صرف تین صحابہؓ پر شیعت کا اطلاق درست قرار پایا ہے جبکہ دیگر صحابہ شیعہ کی نظر میں معاذاللہ ان مشرکین کی مانند ہیں جو عہد رسالت میں موجود تھے نیز ان کی حکومت ایک کفریہ حکومت ہے اس کے دوران میں علی رضی اللہ عنہ علیہ اور نفاق کے پردے میں چھپ کر زندگی بسر کرتے رہے 
خود فیصلہ کیجئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ناکام نبی اور رسول کون گزرا معاذاللہ ۔اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ حق کو چھپاتے رہے اور باطل کا ساتھ دیتے رہے مصلحت کی خاطر معاذاللہ اللہ رب العزت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اسلام کی اس سے بڑھ کر کیا گستاخی ہو سکتی ہے 
  تیسری تعریف  
مفید اگرچہ شیعہ کی تعریف میں مسئلہ وصیت خلافت کی صراحت نہیں کرتا لیکن ایک دوسرا شیعہ عالم طوسی (ابوجعفر محمد بن الحسین بن علی الطوسی ۔تہذیب الاحکام ۔الاستبصار کامولف) (389ھ۔ 460ھ) شیعیت کی تعریف میں یہ عقیدہ رکھنا ضروری قرار دیتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالی کی خلافت وصیت  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسلمانوں کے خلیفہ تھے معلوم ہوا طوسی وصیت خلافت کو شیعی مذہب کی بنیاد قرار دیتا ہے 
تعریف جامع اورمانع نہیں 

١۔ ۔۔۔1۔۔۔العنکبوت
أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ۔2
2۔۔۔آل عمران 
لَيْسَ لَكَ مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ (128)

تفسیر الصافی ۔۔

وعنه (عليه السلام) أن رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم) كان حريصا على أن يكون علي (عليه السلام) من بعده على الناس وكان عند الله خلاف ما أراد فقال له ليس لك من الأمر شئ يا محمد في علي الأمر إلي في علي وفي غيره ألم أنزل عليك يا محمد فيما أنزل من كتابي إليك ألم أحسب الناس أن يتركوا أن يقولوا آمنا وهم لا يفتنون الآيات قال ففوض رسول الله الأمر إليه.أقول: معنى قوله أن يكون علي من بعده على الناس أن يكون خليفة له عليهم في الظاهر أيضا من غير دافع له.

ترجمہ متعلقہ۔۔اوراسی یعنی امام باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ تحقیق رسول اللہ کا انتہائی حرص تھا کہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ  لوگوں پر خلیفہ مقرر ہو حالانکہ اللہ کے نزدیک فیصلہ آپ کے ارادے کے خلاف تھا پس اللہ تعالی نے آپ کو فرمایا اے محمد خلافت علی کے معاملے میں تیرے ہاتھ میں کوئی چیز نہیں ہے یہ معاملہ میرے سپرد ہے یعنی خلافت کا فیصلہ علی کے بارے میں ہو یا کسی اور کے بارے 
اس کے بعد مفسر لکھتا ہے میں کہتا ہوں کہ ان یکون علی من بعدہ علی الناس کا معنی ہے کہ علی   لوگوں پر خلیفہ مقرر ہوں بغیر کسی رکاوٹ کے لیکن اللہ کا ارادہ اس کے خلاف تھا کہ جس کو چاہوں خلافت عطا کروں علی کو یا کسی اور کو
تفسیر الصافی ج 1/379
تفسیر العیاشی ج1/179
تفسیر فرات الکوفی ص93
تفسیر الآصفی ج 1/179
العیاشی ج1/198
الکافی ج2/288
البیضاوی ج2/43
مجمع البیان ج1/500۔501
تفسیر نورالثقلین ج1/288
کنز الدقائق ج2/222
البرھان فی تفسیر القران ج1 /314 
مستدرک سفینة البحار ج1/324
تاویل آیت الظاہرہ ج1/199 ۔362
تاویل مانزل من القران فی النبی وآلہ ج14/7
غایة المرام وحجِةالخصام ج4/13
تاویل الآیات ج2/235
٢۔ ۔۔اسی لئے ایک زیدی فرقہ سلمانیہ(سلمانیہ ایک زیدی فرقہ ہے جو سلیمان ابن جریر الزیدی کی طرف منسوب ہےاکثر مولفین اسے سلمانیہ کے نام سے ذکر کرتے ہیں مقالات الاسلامیین جلد 1 صفحہ 143 اعتقادات فرق المسلمین ‏78۔الملل والنحل جلد 1 صفحہ 160 التبصیر فی الدین صفحہ71بعض مولفین نے اسے جریریہ نام سے بھی موسوم کیا ہے الخطط للمقریزی جلد 2 صفحہ 352نیز الفرق بین الفرق صفحہ22المنیةالامل ص143نے دونوں ناموں سے موسوم کیا  ) کو شیعہ تسلیم نہیں کیا جاتا کیونکہ وہ خلافت علی کے لیے وصیت نبوی کے قائل نہیں بلکہ وہ کہتے ہیں کہ امامت ایک شورائی امر ہےجودو نیک مسلمان مردوں کے قائم کرنے سے بھی درست ہوتی ہے اور یہ کبھی افضل کی موجودگی میں مفضول کے لیے بھی درست ہوتی ہے یہ لوگ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت کو بھی صحیح سمجھتے ہیں 
 مقالات اسلامیین جلد 1 صفحہ 142  
٣۔۔۔ان نظریات  کے حامل فرقوں کوشیعت سے خارج بلکہ انہیں ناصبی قرار دیتے ہیں بلکہ نواصب سے بھی بدتر قرار دیتے ہیں  
(شیعہ نواصب کا ایک مختلف مفہوم بیان کرتے ہیں کہ جو شخص صرف ابوبکر و عمر سے محبت رکھتا ہے وہ بھی شیعہ کے نزدیک ناصبی بلکہ جو شخص سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ پر مقدم وا فضل رکھتا ہے وہ بھی ان کے نزدیک ناصبی  ہے )
طوسی التہذیب جلد 1 صفحہ 363 
الوسائل جلد 4 صفحہ 288 
السرائر صفحہ 471 
۴۔۔۔۔زیدی فرقے سلیمانیہ ۔صالحیہ۔ بتریہ( صالحیہ حسن بن صالح بن حی کے اتباع ہیں ۔بتریہ کثیر النوی الابتر کے متبعین ہیں یہ لوگ رجعت کے منکر ہیں حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اس وقت خلیفہ و امام تسلیم کرتے ہیں جب لوگوں نے ان کی بیعت کی تھی  مقالات الاسلامیین جلد 1 صفحہ 144 ۔الملل النحل جلد 1 صفحہ 161 )کو بھی نواصب سے بدتر شمار کیا جاتا ہے 
چوتھی تعریف
جو شخص یہ ایمان رکھتا ہے کہ علیؓ ہی  تصریح نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق خلیفہ تھے صرف اس پر شیعہ نام کا اطلاق ہوتا ہے 
محمد جواد مغنیۃ ۔الشیعۃ فی المیزان صفحہ 15 
تعریف جامع ومانع نہیں
یہ تعریف بھی شیعہ کو جامع اور مانع نہیں ہے کیونکہ شیعہ محققین و مفسرین ومحدثین نے خود اس کی مخالفت فرمائی ہے 
١۔ ۔۔ خلافت اللہ تعالی کے رازوں میں سے ایک راز تھا جس کا کبھی بھی اعلان نہیں کیا گیا یہ راز صرف اللہ رب العزت نے اپنے نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میرے بعد ابوبکر خلیفہ بلافصل بنے گا اور اس کے بعد عمرؓ خلیفہ بنے گااور ہوا بھی ایسا ہی 
تفسیر قمی ج2 /376
ترجمہ مقبول ص 894
تفسیر نور الثقلین ج5 /367
تفسیرکبیرمنہج الصادقین فی الزام المخالفین
ج9 /331/332/334
تفسیر الصافی ج5 /154
البرھان فی تفسیر القران ج4 /352
مجمع البیان فی تفسیرالقران ج10/314
تفسیر البصائر 
کتاب الاربعین ج2 /106
مستدرک سفینة البحارج4 /155
آیت۔ ۔۔۔ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ ۖ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
٢۔ ۔قابل غور بات یہ ہے کہ مسئلہ وصیت خلافت جدید و قدیم ہر دور میں بڑی توجہ کا حامل رہا ہے یہاں تک کہ کلینی نےاپنی کتاب الکافی میں مسئلہ نص سے متعلق 13 ابواب قائم کیے ہیں اس میں اس نے 109 احادیث ذکر کی ہیں اور بے انتہا تضادات پائے جاتے ہیں 
 ٣۔ ۔ایک طرف تو وصیت خلافت میں انتہا کی مبالغہ آرائی کی گئی ہے جبکہ دوسری طرف مقدمہ شیعت کے مصنف نے  اماموں کا خلیفہ نہ بنناحکمت خداوندی لکھا ہے
۴۔ ۔۔ عہد حاضر میں ایک رافضی نے خلافت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے سلسلہ میں اثبات الوصیت سے متعلق جن روایات سے استدلال کیا ہے ان میں سے ایک روایات غدیر کے بارے میں اس نے 16 جلدوں میں ایک کتاب الغدیر(عبدالحسین الامینی النجفی)  کے نام سے تالیف کی ہے
اسی طرح شیعہ کے دوسرے عقائد جیسے مسئلہ رجعت ہے اس کے بارے میں انہوں نے اپنی احادیث میں کہا ہے کہ جو شخص ہمارے عقیدہ رجعت پر ایمان نہیں رکھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے 
الفقیہ جلد 3 صفحہ 291 
وسائل الشیعہ جلد 7 صفحہ 438 
تفسیر صافی جلد 1 صفحہ 348 
الانوار جلد 53 صفحہ 96 
ان تمام مبالغہ آرائیوں کے باوجود ان کی کسی تعریف میں میں بھی  ان عقائدکا ذکر تک موجود نہیں ہے
اسی طرح عقیدہ متعہ ہے اس کے بارے میں ان کا عقیدہ ہے کہ جو شخص ہمارے متعہ کو حلال نہیں سمجھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے 
نتیجہ۔ معلوم ہوا کہ شیعہ قوم اپنے مذہب کی تعریف کے سلسلے میں کسی معقول اور صحیح منہج پر گامزن نہیں ہے بلکہ انتہا درجے کے تضادات کا شکار ہے جوکہ سلجھائے نہیں سلجھتے 
۵۔۔احزاب آیت 72 
البصائر میں جناب امام محمد باقر سے منقول ہے امانت سے مراد ولایت ہے آسمان و زمین اور پہاڑ اس کے حاصل ہونے یعنی اٹھانے سے انکار کیا  اور یہ جو فرمایا کہ حملہ الانسان یہاں انسان سے مراد ابوبکر ہے 
المعلم جناب امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ امانت سے مراد امامت ہے اور انسان سے مراد ابو شرور منافق ہے 
ترجمہ مقبول صفحہ 682 سورہ البصائر میں جناب امام محمد باقر سے منقول ہے امانت سے مراد ولایت ہے آسمان و زمین اور پہاڑ اس کے حاصل ہونے یعنی اٹھانے سے انکار کیا  اور یہ جو فرمایا کہ حملہ الانسان یہاں انسان سے مراد ابوبکر ہے 
المعلم جناب امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ امانت سے مراد امامت ہے اور انسان سے مراد ابو شرور منافق ہے 
ترجمہ مقبول صفحہ 682 سورہ احزاب آیت نمبر 72 
تفسیر المتقین صفحہ 554  سورہ احزاب آیت 72 
تفسیر صافی بحوالہ عیون الاخبار معانی الاخبار صفحہ 411 وو
تفسیر صافی جلد 4 ۔207 ۔
تفسیر نور التقلین جلد 4 صفحہ 312 صفحہ 314 
البرہان فی تفسیر القرآن جلد 3 صفحہ 341 اور صفحہ 342 
تفسیر المیزان جلد 16 صفحہ 532 
تفسیر نمونہ جلد 9 صفحہ752 
تفسیر قمی سورہ احزاب آیت 72 
تفسیر ضیاء الایمان صفحہ 681 سورہ احزاب آیت 72 
اصول کافی باب 107 جلد 1 صفحہ 509 
پانچویں تعریف 
احمد بن علی بن احمد بن عباس بن محمد النجاشی 450ھ
شیعہ کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں
شیعہ وہ ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول کسی امر میں لوگ اختلاف کرے تو وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کو اختیار کرتے ہیں اور جب لوگ علی رضی اللہ تعالی عنہ سے منقول کسی امر میں اختلاف کریں تو وہ شیعہ جعفر بن محمد کے قول کو اختیار کرتے ہیں 
رجال النجاشی ص 5
تعریف جامع اور مانع نہیں  
١۔۔۔۔شیعہ عقائد و نظریات کا کوئی تذکرہ تعریف میں نہیں ہے 
٢۔ ۔حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ  اور حضرت جعفر بن محمد رحمہ اللہ کے علاوہ کسی امام کا تذکرہ نہیں ہے 
٣۔۔۔اس تعریف کی رو سے جعفر ابن محمد کے اقوال حتمی ہونے چاہیے  لیکن شیعہ ان کی مرویات و اقوال سے اختلاف کرتے ہیں 
۴۔ ۔۔اس تعریف میں اسلامی نظریہ سے بغاوت کی گئی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ افضل ہیں 
اور جعفر ابن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ دونوں سے زیادہ افضل اور معتبر ہیں 
  ۵۔۔۔جب لوگ جعفر ابن محمد کی مرویات واقوال سے اختلاف کریں تو کس کی پیروی کریں 
چھٹی تعریف
شیعان علی رضی اللہ عنہ تو صرف وہ ہیں جن کا پیٹ اور شرمگاہ پاکیزہ ہوتی ہے وہ عبادت میں بڑی کوشش کرتے ہیں اپنے خالق حقیقی کے لئے ہر عمل کرتے ہیں اسی سے ثواب کی امید رکھتے اور اسی کے عذاب سے ڈرتے ہیں پس جب تو انہیں دیکھیں تو یہی لوگ شیعان جعفر ہیں
سفینة البحار جلد 1 صفحہ732  
ساتویں تعریف
تم طرح طرح کے نظریات و عقائد کا شکار نہ بنو اللہ کی قسم ہمارے شیعہ تو صرف وہی ہیں جو اللہ جل شانہ کی اطاعت کرتے ہیں 
الکافی ایک صفحہ 73 
آٹھویں تعریف
ابوحاتم رازی جو کبار اسماعیلی مبلغین میں سے ہیں کہتےہیں 
شیعہ اس گروہ کا لقب ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں امیر المومنین علی بن ابی طالب صلواۃ اللہ علیہ کے ساتھ محبت و الفت میں معروف ہوگئے جیسے سلمان فارسی ابوذرغفاری مقداد بن اسود اور عمار بن یاسر ہیں انہیں شیعان علی اور اصحاب علی کے نام سے پکارا جاتا تھاپھر یہ ہر اس گروہ کا لقب بن گیا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آج تک علی رضی اللہ عنہ کی دوسروں پر فوقیت کا قائل ہے پھر اس ایک گروہ سے بہت زیادہ فرق نمودار ہوئے جو مختلف ناموں اور متعدد القابات سے موسوم ہوئے جیسے رافضہ زیدیہ کیسانیہ وغیرہ لقب ہیں یہ سب لوگ اپنے اپنے مذاہب اور آراء میں اختلاف کے باوجود ایک ہی لفظ شیعہ میں داخل ہیں 
الزینہ صفحہ 659 
نوویں تعریف
 ابوالحسن اشعری کے نزدیک شیعہ کی تعریف ابو الحسن اشعری کہتے ہیں 
انہیں اس لئے شیعہ کہا گیا ہے کیونکہ انہوں نے علی رضی اللہ عنہ کی اطاعت گذاری اختیار کی اور وہ انہیں دیگر تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر فوقیت دیتے ہیں 
المقالات الاسلامیہ جلد 1 صفحہ 65
الصلة بین التصوف و التشیع  صفحہ-20 
دسویں تعریف
ابن حزم فرماتے ہیں جو شخص اس امر میں شیعہ کی موافقت کرتا ہے کہ یقینا علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے افضل ہیں اور ان سب سے زیادہ امامت و خلافت کا حق رکھتے ہیں اور ان کے بعد ان کی اولاد خلافت کی سب سے زیادہ حقدار ہے تو وہ شیعہ ہے اگرچہ اس کے علاوہ دیگر  مسائل میں شیعہ کی مخالفت کرتا ہے جن میں مسلمانوں کے مابین اختلاف ہے لیکن اگر وہ ہمارے ذکر کردہ شیعہ عقائد میں شیعہ سے اختلاف رکھتا ہے تو وہ قطعاً شیعہ نہیں ہے 
الفصل جلد 2 صفحہ 107
الملل والنحل صفحہ-10 جلد2  
گیارہویں تعریف
علامہ شہرستانی فرماتے ہیں 
شیعہ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بالخصوص علی رضی اللہ عنہ کی معاونت اور متابعت کی اور وہ صراحت نبوی کے مطابق خواہ وہ جلی ہویامخفی ان کی خلافت و امامت کے قائل ہیں نیز وہ لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کسی بھی حال میں امامت اولاد علی رضی اللہ سےخارج نہیں ہوتی اور اگر خلافت ان سے کبھی نکلی تو یا تو وہ کسی دوسرے کے ظلم و زیادتی کی بنا پر ہوگی یا پھر خود انکی طرف سے تقیے کی بنا پر ایسا ہوگاوہ کہتے ہیں کہ امامت کوئی ایسا مسئلہ نہیں جس کا تعلق مصلحت سے ہو اور عام لوگوں کے اختیار و انتخاب پر موقوف ہو اور ان کے امام مقرر کرنے سے کوئی امام بن جائے بلکہ یہ ایک اصولی معاملہ اور دین کا بنیادی رکن ہے جس سے چشم پوشی کرنا انبیاء و رسل کے لئے جائز نہیں ہے اور نہ اسے عام لوگوں کے سپرد کرنا اور معلق رکھنا ہی روا ہے ان سب لوگوں شیعہ فرقوں کو یہ امر متحد کرتا ہے کہ خلافت کے تعیین اور وصیت کرنا واجب ہے انبیاء اور ائمہ کا معصوم ہونے کا عقیدہ رکھنا اور ولاء اور براء کا قولا فعلا اور عقیدتا تقیہ کی حالت کے سوا قائل ہونا ضروری ہےالبتہ بعض زیدی فرقہ چند عقائد میں ان کی مخالفت کرتے ہیں    
الملل والنحل جلد 6 صفحہ 146 
بارہویں تعریف
علامہ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ شیعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  کی محبت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر ان کو فوقیت دینے کا نام ہے لہذا جس نے ان کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ پر فوقیت دی وہ شیعت میں غالی ہےاور اسے رافضی بھی کہا جاتا ہے اور اگر ایسا نہیں یعنی حضرت علی کو ان پر فوقیت نہیں دیتا تو وہ شیعہ ہے لیکن اگر وہ حضرت علی کی محبت کے ساتھ دوسروں پر سب و شتم کرتا ہے یا کھل کر بغض کا اظہار کرتا ہے تو وہ رفض میں غالی ہےاور اگر اس کے ساتھ دنیا میں ان کی رجعت کا بھی قائل ہے تو یہ غلو میں اور زیادہ سخت ہے 
مقدمہ فتح الباری صفحہ 459