Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا ابوبکر صدیقؓ

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

سیدنا ابوبکر صدیقؓ 

 آفتاب رسالتﷺ کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یار غار رسالت، پاسدار خلافت، تاجدار امامت، افضل بشر بعد الانبیاء حضرت ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب سے افضل امتی کہا گیا ہے۔ بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسلام ہوئے۔ آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ کو رسولﷺ کی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

حضرت ابوبکر عام الفیل کے اڑھائی برس بعد ۵۷۲ء میں پیدا ہوئے۔ نبیﷺ سے اڑھائی سال چھوٹے تھے۔ ان کا تعلق قریش کے قبیلہ بنو تیم بن مرہ سے تھا۔ ابو بکر کا شجرۂ نسب اس طرح ہے: عبد ﷲ بن عثمان بن عامر بن عمروبن کعب بن سعدبن تیم بن مرہ۔ مرہ ہی پر ان کا شجرہ نبیﷺ کے شجرے سے جاملتا ہے۔ کلاب بن مرہ آپ کے جبکہ تیم بن مرہ ابو بکر کے جد تھے۔ عبدﷲ اپنی کنیت ابو بکر اور ان کے والد عثمان اپنے نام کے بجائے اپنی کنیت ابو قحافہ سے مشہور ہیں۔

 حضرت ابو بکر صدیقؓ کی والدہ کا نام سلمیٰ بنت صخر اورکنیت ام خیر تھی۔ بیان کیا جاتا ہے کہ ابوبکر کے کئی بھائی بچپن ہی میں فوت ہو گئے تو ان کی والدہ نے ان کی پیدایش سے پہلے نذر مانی کہ اب اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام عبدالکعبہ رکھیں گی۔ ان کے بچپن کا یہ نام قبول اسلام کے بعد بدل کر عبدﷲ ہو گیا۔ خون بہا، تاوان اور دیتوں (اشناق) کی رقوم کا تعین کرنا بنو تیم بن مرہ کے سپرد تھا۔ تاوانوں کی رقوم وہی وصول اور جمع کرتے،

متعلقہ مقدمات بھی انھی کے سامنے پیش ہوتے اورانھی کا فیصلہ نافذ ہوتا۔ ابو بکر جوان ہوئے تو یہ خدمت ان کو سونپی گئی۔ اگرچہ عمر بھر حضرت ابو بکر اپنی کنیت سے موسوم کیے جاتے رہے، لیکن اس کنیت کا یقینی سبب معلوم نہیں ہو سکا۔ انھیں جوان اونٹوں (بکر) کی پرورش اور ان کے علاج معالجے سے دل چسپی تھی یا شایدان کا سب سے پہلے اسلام لانا (بکر الی الاسلام) اس کنیت کا سبب بنا۔ ان کا ایک نام عتیق بھی ہے، جس کے معنی ہیں: خوب صورت اور سرخ و سفید، شروع سے نیک۔ ایک سبب یہ ہے کہ آں حضور صلیﷲ علیہ وسلم نے ابو بکر کو دیکھ کر فرمایا:

 ’تم ﷲ کی طرف سے دوزخ سے آزاد (عتیق ﷲ من النار) ہو۔‘‘ (ترمذی، رقم ۳۶۷۹) ہمیشہ سچ بولنے اورواقعۂ معراج کی فی الفور تصدیق کرنے کی وجہ سے صدیق کا لقب ملا۔ ان کی رافت و شفقت کی وجہ سے ان کو اواہ بھی کہا جاتا۔

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا نام عبداللہ بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن تیم بن مرہ بن کعب ہے۔ مرہ بن کعب تک آپ کے سلسلہ نسب میں کل چھ واسطے ہیں۔ مرہ بن کعب پر جاکر آپ رضی اللہ عنہ کا سلسلہ حضورﷺ کے نسب سے جاملتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہے۔

_(المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، 1:1)_

آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر ہونے کی درج ذیل وجوہات بیان کی جاتی ہیں:

عربی زبان میں ’’البکر‘‘ جوان اونٹ کو کہتے ہیں۔ جس کے پاس اونٹوں کی کثرت ہوتی یا جو اونٹوں کی دیکھ بھال اور دیگر معاملات میں بہت ماہر ہوتا عرب لوگ اسے ’’ابوبکر‘‘ کہتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا قبیلہ بھی بہت بڑا اور مالدار تھا نیز اونٹوں کے تمام معاملات میں بھی آپ مہارت رکھتے تھے اس لئے آپ بھی ’’ابوبکر‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے۔

عربی زبان میں ابو کا معنی ہے ’’والا‘‘ اور ’’بکر‘‘ کے معنی ’’اولیت‘‘ کے ہیں۔ پس ابوبکر کے معنی ’’اولیت والا‘‘ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ عنہ اسلام لانے، مال خرچ کرنے، جان لٹانے، الغرض امتِ محمدیہﷺ میں ہر معاملے میں اولیت رکھتے ہیں اس لئے آپ رضی اللہ عنہ کو ابوبکر (یعنی اولیت والا) کہا گیا۔

_(مراة المناجيح،) 

سیرت حلبیہ میں ہے کہ کُنِيَ بِاَبِی بَکْرٍ لِاِبْتِکَارِهِ الْخِصَالِ الْحَمِيْدَةِ ’’آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت ابوبکر اس لئے ہے کہ آپ شروع ہی سے خصائل حمیدہ رکھتے تھے‘‘

 ابوبکرؓ کے دو لقب زیادہ مشہور ہیں:

عتیق

صدیق

عتیق پہلا لقب ہے، اسلام میں سب سے پہلے آپ کو اسی لقب سے ہی ملقب کیا گیا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا نام ’’عبداللہ‘‘ تھا، نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: اَنْتَ عَتِيْقٌ مِنَ النَّار ’’تم جہنم سے آزاد ہو‘‘۔ تب سے آپ رضی اللہ عنہ کا نام عتیق ہوگیا۔

_(صحيح ابن حبان، کتاب اخباره عن مناقب الصحابة، ج9، ص6)

حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا پہلا نکاح قریش کے مشہور شخص عبدالعزی کی بیٹی ام قتیلہ سے ہوا۔ اس سے آپ رضی اللہ عنہ کے ایک بڑے بیٹے حضرت سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی حضرت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔

آپ رضی اللہ عنہ کا دوسرا نکاح ام رومان (زینب) بنت عامر بن عویمر سے ہوا۔ ان سے ایک بیٹے حضرت سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ اور ایک بیٹی ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تیسرا نکاح حبیبہ بنت خارجہ بن زید سے کیا۔ ان سے آپ رضی اللہ عنہ کی سب سے چھوٹی بیٹی حضرت سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔

 آپ رضی اللہ عنہ نے چوتھا نکاح سیدہ اسماء بنت عمیس سے کیا۔ یہ حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں، جنگ موتہ کے دوران شام میں حضرت سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے نکاح کرلیا۔

 حجۃ الوداع کے موقع پر ان سے آپ رضی اللہ عنہ کے بیٹے محمد بن ابی بکر پیدا ہوئے۔ جب حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے آپ سے نکاح کرلیا۔ اس طرح آپ کے بیٹے محمد بن ابی بکر کی پرورش حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمائی۔

_(الرياض النضرة، امام ابو جعفر طبری، 1: 266)_

 حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے گھرانے کو ایک ایسا شرف حاصل ہے جو اس گھرانے کے علاوہ کسی اور مسلمان گھرانے کو حاصل نہیں ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ خود بھی صحابی، ان کے والد حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی، آپ کے دونوں بیٹے (حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ، حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ) بھی صحابی، آپ رضی اللہ عنہ کے پوتے بھی صحابی، آپکی بیٹیاں (حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا) بھی صحابیات اور آپ کے نواسے بھی صحابی ہوئے۔

حضرت سیدنا موسیٰ بن عقبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوئے اور شرف صحابیت پایا اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کرکے شرف صحابیت حاصل کیا۔

ان چاروں کے نام یہ ہیں:

ابوقحافہ عثمان بن عمر رضی اللہ عنہ

ابوبکر عبداللہ بن عثمان رضی اللہ عنہ

عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ

محمد بن عبدالرحمن رضی اللہ عنہ

_(المعجم الکبير، نسبة ابی بکر الصديق واسمه، الرقم: 11)

سیدنا ابوبکرؓ کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں مرہ پر رسولﷺ سے مل جاتا ہے

(طبقات ابن سعد قسم اول جزء ثالث صفحہ 119)

سیدنا ابوبکرؓ کے والد:

ابو قحافہ عثمان بن عمرو شرفائے مکہ میں سے تھے اور نہایت معمر تھے ابتداء جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ہے وہ اسلام کی تحریک کو بازیچہء اطفال سمجھتے تھے چنانچہ سیدنا عبد اللہؓ کا بیان ہے کہ جب رسولﷺ نے ہجرت فرمائی تو میں رسولﷺ کی تلاش میں ابو بکرؓ کے گھر آیا اور وہاں ابوقحافہ موجود تھے انہوں نے سیدنا علیؓ کو ایک طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نےمیرے لڑکے کو بھی خراب کر دیا ہے۔

 _(الاصابہ جلد 4 صفحہ 221)_

ابو قحافہ فتح مکہ تک اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے فتح مکہ کے بعد جب رسولﷺ مسجد میں تشریف فرماتھے اور وہ اپنے فرزند سعید سیدنا ابو بکرؓ کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے اور رسولﷺ نے ان کی ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں کیوں تکلیف دی ہے میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا اس کے بعد رسولﷺ نے نہایت شفقت سے ان کے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کر کے مشرف بہ اسلام فرمایا سیدنا ابو قحافہ نے بڑی عمر پائی۔ رسولﷺ کے بعد اپنے فرزند ارجمند سیدنا ابوبکرؓ کے بعد بھی کچھ دنوں تک زندہ رہے آخر عمر میں بہت ضعیف ہوگئے تھے اور آنکھوں کی بصارت چلی گئی تھی۔ 14ھ میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔

_(الاصابہ جلد4 صفحہ 222)_

ابتدائی زندگی

واقعہ فیل کے تین برس بعد آپ کی مکہ میں ولادت ہوئی۔ آپؓ کا سلسلہ نسب ساتویں پشت پر رسولﷺ سے مل جاتا ہے۔ آپؓ کا نام پہلے عبد الکعبہ تھا جو رسولﷺ نے بدل کر عبد اللّٰه رکھا، آپؓ کی کنیت ابوبکر تھی۔ آپؓ قبیلہ قریش کی ایک شاخ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ آپؓ کے والد کا نام عثمان بن ابی قحافہ اور والدہ کا نام ام الخیر سلمٰی تھا۔ آپؓ کا خاندانی پیشہ تجارت اور کاروبار تھا۔ مکہ میں آپؓ کے خاندان کو نہایت معزز مانا جاتا تھا۔ کتب سیرت اور اسلامی تاریخ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعثت سے قبل ہی آپ کے اور رسولﷺ کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم تھے۔ ایک دوسرے کے پاس آمد و رفت، نشست و برخاست، ہر اہم معاملات پر صلاح و مشورہ روز کا معمول تھا۔ مزاج میں یکسانی کے باعث باہمی انس ومحبت کمال کو پہنچا ہوا تھا۔ بعثت کے اعلان کے بعد آپؓ نے بالغ مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ایمان لانے کے بعد آپؓ نے اپنے مال و دولت کو خرچ کرکے مؤذن رسول حضرت بلالؓ سمیت بے شمار ایسے غلاموں کو آزاد کیا جن کو ان کے ظالم آقاؤں کی جانب سے اسلام قبول کرنے کی پاداش میں سخت ظلم وستم کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ آپؓ کی دعوت پر ہی حضرت عثمانؓ، حضرت زبیر بن العوامؓ، حضرت طلحہؓ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ اور حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جیسے اکابر صحابہؓ ایمان لائے جن کو بعد میں دربار رسالت سے عشرہ مبشرہ کی نوید عطا ہوئی۔

سیدنا ابوبکر صدیقؓ اسلام سے قبل ایک متمول تاجر کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی دیانتداری اور راست بازی کی خاصی شہرت تھی اہل مکہ ان کو علم تجربہ اور حسن خلق کے باعث نہایت معزز سمجھتے تھے ایام جاہلیت میں خون بہا کا مال آپؓ ہی کے پاس جمع کرایا جاتا تھا اگر کبھی کسی دوسرے شخص کے یہاں جمع ہوتا توقریش اس کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔سیدنا صدیقؓ کو ایام جاہلیت میں بھی شراب نوشی سے نفرت تھی جیسی زمانہ اسلام میں تھی اس قسم کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ شراب نوشی میں نقصان آبرو ہے رحمت کائنات کے ساتھ بچپن ہی سے ان کوخاص انس اور خلوص تھااور رسولﷺ کے حلقہ ء احباب میں ہی داخل تھے اکثر تجارت کے سفروں میں بھی ہمراہی کا شرف حاصل ہوتا تھا۔

اسلام اور صدیقؓ:

رسولﷺ کو جب خلعت نبوت عطا ہوا اور رسولﷺ نے مخفی طور پر احباب مخلصین اورمحرمان راز کے سامنے اس حقیقت کو ظاہر فرمایا تو مردوں میں سے سیدنا ابو بکرؓ نے سب سے پہلے بیعت کے لیے ہاتھ بڑھایا اور بعض ارباب سیر نے ان کے قبول اسلام کے متعلق بہت سے طویل قصے نقل کیے ہیں لیکن یہ سب حقیقت سے دور ہیں اصل یہ ہے کہ سیدنا ابوبکرؓ کا آئینہ دل پہلے ہی سے صاف تھا فقط خورشید حقیقت کے عکس افگنی کی دیر تھی کیونکہ گذشتہ صحبتوں کے تجربوں نے نبوت کے خدوخال کو اس طرح واضح کر دیا تھا کہ معرضت حق کے لیے کوئی انتظار باقی نہ رہا البتہ ان کے اول مسلمان ہونے میں بعض مؤرخین اور اہل آثار نے کلام کیا ہے بعض روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کا اسلام سب سے مقدم ہے اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا علیؓ کو اولیت کا فخر حاصل ہے۔اور بعض کا خیال ہے کہ سیدنا زید بن ثابت بھی سیدنا ابوبکرؓ سے پہلے مسلمان ہوچکے تھے لیکن اس کے مقابلہ میں ایسی اخبار وآثار بھی بکثرت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اولیت کا طغرائے شرف و امتیاز صرف اسی ذات گرامی کے لیے مخصوص ہے اور سیدنا حسان بن ثابت کے ایک قصیدہ سے بھی اسی خیال کی تائید ہوتی ہے۔

اذاتذکرت شجوا من اخی ثقۃ

فاذکر اخاک ابابکر بما فعلا

جب تم صداقت شعار ہستی کے دکھ درد کو یا د کرنے لگو تو اپنے بھائی ابوبکر رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ کے کارناموں کو یاد کرلینا۔

خیر البریۃ اتقاھا واعدلہا

بعدالنبی واوفاہا بما حملا

جو رسولﷺ اور انبیاء کرام کے بعد تمام مخلوق میں سب سے بہتر، سب سے زیادہ پرہیزگار اور سب سے زیادہ انصاف پسند ہیں ،نیز ذمہ داری میں سب سے زیادہ ذمہ داریوں کو پورا کرنے والے ہیں ۔

والثانی التالی المحمود مشہدہ

واول الناس ممن صدق الرسلا

رسولﷺ کے یار غار ، ہمیشہ آپ کی صحبت میں رہنے والے اور مخلوق میں قابل تعریف ہیں ‘ اور سب سے پہلے رسولوں کی تصدیق کرنے والے ہیں ۔

محقیقن نے ان مختلف احادیث وآثار میں اس طرح تطبیق دی ہے کہ ام المؤمنین سیدہ خدیجہؓ عورتوں میں سیدنا علیؓ بچوں میں سیدنا زید بن حارثہؓ غلاموں میں اور سیدنا صدیقؓ آزاد اور بالغ مردوں میں سب سے اول مومن ہیں۔_(فتح الباری ج7 ص 130)_

صدیقؓ اسلام اور مکی زندگی:

رسولﷺ نے بعثت کے بعد کفار کی ایذا رسانی کے باوجود تیرہ برس تک مکہ میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ جاری رکھا سیدنا ابوبکرؓ اس بے بسی کی زندگی میں جان مال رائے اور مشورہ غرض ہر حیثیت سے رسولﷺ کے رنج و راحت میں دست و بازوبنے رہے امام کائنات روزانہ صبح وشام سیدنا ابوبکرؓ کے گھر تشریف لے جاتے اور دیر تک مجلس راز قائم رہتی۔

 _(بخاری باب الہجرۃ النبی واصحابہؓ الی المدینہ)_

مکہ میں ابتداً جن لوگوں نے داعی توحید کو لبیک کہا ان میں کثیر تعداد غلاموں اور لونڈیوں کی تھی جو اپنے مشرک آقاؤں کے پنجہء ظلم و ستم میں گرفتار تھے بندگانِ توحید کو ان کے جفاکار مالکوں سے خرید کر آزاد کردیا۔

 چنانچہ سیدنا بلالؓ عامر بن فہیرہؓ، نہدیہ، جاریہ بنی مؤمل اور بنت نہدیہ وغیرہ نے اس صدیقی جودوکرم کے ذریعہ نجات پائی۔ لیکن آج معاملہ اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ ایک نام نہاد مسلم حاکم وقت جس نے ایک آزاد بنت حوا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو کافروں اور اسلام کے دشمنوں کے حوالے کیا آج کہاں ہیں صلاح الدین ایوبیؒ اور طارق بن زیادؒ کے روحانی فرزند جو زیاد کی طرح اپنی بہن کی عصمت کے لیے لبیک کہیں؟ اور وہ صدیقؓ تھے کہ جب بھی کفار مکہ رسولﷺ پر دست درازی کرتے تو یہ مخلص جانثار اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے کافروں کے آگے سینہ سپر ہو جاتے ایک دفعہ رسولﷺ خانہ کعبہ میں تقریر کر رہے تھے اور مشرکین مکہ اس تقریر سے سخت برہم ہوئے اور اس قدر مارا کہ رسولﷺ بے ہوش ہوگئے اور ابوبکرؓ نے آگے بڑھ کر کہا کہ اللّٰه تمہیں سمجھائے کیا تم ان کو اس لیے قتل کرو گے کہ یہ صرف ایک اللّٰه کا نام لیتاہے۔

_(فتح الباری ج7 ص 129)_

ایسے پیچیدہ حالات کی وجہ سے رسولﷺ نے ہجرت مدینہ کا ارادہ کیا اور مشرکین مکہ اپنے تمام مکروں کو آزمانے کے باوجود اپنی ناکامی پر سخت برہم ہوئے اور اسی رسولﷺ کی گرفتاری کا اعلان کیا کہ جوشخص رسولﷺ کو گرفتار کرکے لائے گا اس کو سو اونٹ انعام میں دیئے جائیں گے چنانچہ متعدد بہادر اپنے باطل مذہب کے جوش اور انعام کی طمع و لالچ میں امام کائنات کی تلاش میں نکلے یہاں تک کہ مکہ کے اطراف میں کوئی آبادی ویرانہ جنگل اورپہاڑ یا سنسان میدان ایسا نہ ہوگا جس کا جائزہ نہ لیا گیا ہو یہاں تک کہ ایک جماعت غارثور کے پاس جاپہنچی(جوکہ ہجرت کے دوران سب سے پہلی آرام گاہ تھی) اس وقت سیدنا صدیق اکبرؓ کو نہایت اضطراب ہوا اور حزن و یاس کے عالم میں بولے اللّٰه کے رسولﷺ اگر وہ ذرا سی بھی نیچے کی طرف نگاہ کریں گے توہمیں دیکھ لیں گے مگر رسولﷺ نے صدیقؓ کو تشفی دی اور فرمایا مایوس وغمزدہ نہ ہوں ہم صرف دو نہیں ہیں ایک تیسرا (یعنی اللّٰہ) بھی ہمارے ساتھ ہے۔

 (مسلم فضائل ابی بکر الصدیقؓ)_

اس تشفی آمیز فقرہ سے سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو اطمینان ہو گیا اور ان کا مضطرب دل امداد غیبی کے تیقن پر لازوال جرأت و استقلال سے مملو ہوگیا خدا کی قدرت کہ کفارجو تلاش کرتے ہوئے اس غار تک پہنچے تھے ان کو مطلق محسوس نہ ہوا کہ ان کا گوہر مقصود اسی کان میں پنہاں ہے اور وہ ناکام واپس چلے گئے۔ فرمایا رسولﷺ نے

  (من کان للہ کان اللّٰه لہ۔۔۔) اسی طرح یہ مختصر قافلہ دشمنوں کی گھاٹیوں سے بچتا ہوا بارہویں ربیع الاول سنہ نبوت کے چودہویں سال مدینہ کے قریب پہنچا اور انصار کو رسولﷺ کی روانگی کا حال معلوم ہو چکاتھا۔

 وہ نہایت بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے تھے رسولﷺ شہر کے قریب پہنچے تو انصار مدینہ استقبال کے لیے نکلے اور ہادی برحق کو حلقہ میں لے کر شہر قبا کی طرف بڑھے رسولﷺ نے اس قافلے کو داہنی طرف مڑنے کا حکم دیا اور بنی عمرو بن عوفؓ میں قیام پذیر ہوئے اور یہاں انصار جوق در جوق زیارت کےلیے آنے لگے اور رسولﷺ خاموشی کے ساتھ تشریف فرماتھے اور سیدنا ابوبکرؓ کھڑے ہو کر لوگوں کا استقبال کر رہے تھے بہت سے انصار جو پہلے رسولﷺ کی زیارت سے مشرف نہیں ہوئے تھے وہ غلطی سے سیدنا ابوبکرؓ کے گرد جمع ہونے لگے یہاں تک کہ جب آفتاب نبوت ﷺ سامنے آنے لگا اور جانثار خادم نے بڑھ کر اپنی چادر سے رسولﷺ پر سایہ کیا تو اس وقت خادم اور مخدوم میں امتیاز ہو گیا اور لوگوں نے رسالت مآب کو پہنچانا۔

 _(بخاری باب ہجرۃ النبی واصحابہؓ)_

ایک المناک سانحہ پر سیدنا ابوبکرؓ کی ثابت قدمی

جب اللّٰه کے رسولﷺ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سیدنا ابوبکرؓ مدینہ کی مشرقی جانب سُخ نامی گاؤں میں مقیم تھے یہ جگہ اب مدینہ کے ائیرپورٹ کے قرب وجوار میں بنتی ہے جیسے ہی ان کو اس عظیم سانحے کی اطلاع ملی تو فوراً گھوڑے پر سوار ہوکر سُخ نامی گاوں سے مدینہ منورہ تشریف لائے اور گھوڑے سے اترتے ہی مسجد نبوی میں داخل ہوئے لوگوں سے گفتگو نہیں کی سیدھے سیدہ عائشہ رضی اللّٰه عنہا کے حجرے میں پہنچے جہاں رسولﷺ کا جسد اطہر یمنی کپڑے سے ڈھکا ہواتھا سیدنا ابوبکرؓ نے رسولﷺ کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹایا اور جھک کر آپ کے سر مبارک کا بوسہ لیا اور فرط غم سے رونے لگے پھر فرمایا:

بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللهِ لاَ يَجْمَعُ اللَّهُ عَلَيْكَ مَوْتَتَيْنِ أَمَّا الْمَوْتَةُ الَّتِي كُتِبَتْ عَلَيْكَ فَقَدْ مُتَّهَا

_صحيح البخاري (2/ 90)_

اللّٰه کے نبی! میرا باپ آپ پر قربان ہو! اللّٰه آپ کو دو مرتبہ موت نہیں دے گا جو موت آپ کے لیے لکھی تھی وہ آچکی ہے۔

سیدنا ابوبکرؓ حجرے سے باہر نکلے سیدنا عمرؓ لوگوں سے محو گفتگو تھے آپؓ نے فرمایا(اجلس یا عمر!) عمر بیٹھ جائیے لیکن سیدنا عمرؓ نے جوش و غضب میں اپنی گفتگو جاری رکھی سیدنا ابو بکرؓ کھڑے ہو گئے اور خطبہ دینے لگے آپ نےاللّٰه کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد وہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ اگر ان الفاظ کو سونے کے پانی سے لکھا جائے تو پھر بھی حق ادا نہیں ہوگا۔

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم فَإِنَّ مُحَمَّدًا صلى الله عليه وسلم قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَىٌّ لاَ يَمُوتُ

_صحيح البخاري(2/ 91)_

جو شخص رسولﷺ کی عبادت کرتا تھا تو وہ جان لے کہ وہ فوت ہوگئے ہیں اور جو شخص اللّٰه تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ اللّٰه تعالیٰ زندہ ہے۔

رسولﷺ کی نظر میں

میں نے جس شخص پر اسلام پیش کیا اس نے پس وپیش سے کام لیا مگر ایک واحد ابوبکرؓ تھے جنہوں نے میری ایک آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کیا۔

ابو بکرؓ کے مال نے مجھے جتنا نفع پہنچایا اتنا نفع مجھے کسی کے مال سے نہیں پہنچا۔ اس پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے روتے ہوئے عرض کیا " یا رسولﷺ! میں اور میرا مال سب آپ ﷺ ہی کا ہے۔

میں اگر اللّٰہ  کے سوا کسی کو اپنا دوست و خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا۔

ایک موقع پر رسولﷺ  نے ارشاد فرمایا! کہ آج سے مسجد نبوی میں کھلنے والی تمام کھڑکیاں اور دروازے بند کر دیے جائیں آئندہ صرف ابوبکرؓ کا دروازہ کھلا رکھا جائے گا۔

آپؓ امت پر اتنے شفیق تھے کہ ایک روز سرکار دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا "میری امت پر ان میں سب سے مہربان ابوبکرؓ ہیں۔ "(ترمذی)

تم (ابوبکرصدیقؓ) غار میں بھی میرے ساتھ رہے اور بروز قیامت حوض کوثر پر بھی میرے ہمراہ ہوگے۔ (ترمذی)

انبیا کرامؑ کے سوائے سورج کبھی ابوبکرؓ سے بہتر آدمی پر طلوع نہیں ہوا۔

کسی قوم کے لیے بہتر نہیں کہ ان میں ابوبکرؓ ہوں اور ان کی امامت کوئی دوسرا کرے۔

اے ابوبکرؓ! تم کو اللّٰہ  جل شانہ نے آتش جہنم سے آزاد کر دیا ہے۔ اسی روز سے آپ کا لقب عتیق مشہور ہو گیا۔

ایک روز آپؓ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا " یا رسول اللّٰہ  صلی اللّٰہ  علیہ و آلہ وسلم! کیا کوئی شخص ایسا بھی ہے جس کو بروز قیامت جنت کے تمام دروازوں سے بلایا جائے گا؟ "، سرکار دو عالم صلی اللّٰہ  علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا " ہاں ابوبکرؓ! مجھے امید ہے کہ تم انہی لوگوں میں سے ہو" (بخاری)

سرکار دوعالم صلی اللّٰہ  علیہ و آلہ وسلم نے ایک روز ارشاد فرمایا " ہم نے ہر شخص کے احسان کا بدلہ چکا دیا مگر ابوبکرؓ کے احسانات ایسے ہیں کہ ان کا بدلہ اللّٰہ  جل شانہ ہی عطا فرمائے گا"۔

آپؓ کو یہ اعزاز بھی تنہا حاصل ہے کہ آپ کی مسلسل چار نسلوں کو شرف صحابیت حاصل ہوا۔ آپؓ کے والد گرامی حضرت ابو قحافہ آپ خود، آپ کے صاحبزادے عبد الرحمن اور پوتے ابو عتیق محمد بھی شرف صحابیت سے مشرف ہوئے۔ رسالت مآب صلی اللّٰہ  علیہ و آلہ وسلم نے ساری زندگی آپ پر کسی دوسرے کو فضیلت نہیں دی۔

 صحابہؓ کی نظر میں

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ " حضرت ابوبکرؓ ہمارے سردار، ہمارے بہترین فرد اور رسول اللّٰہ  ﷺ کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔

ایک موقع پر حضرت عمر فاروقؓ نے ارشاد فرمایا کہ " اگر ابوبکرؓ شب ہجرت میں رسالت مآب صلی اللّٰہ  علیہ و آلہ وسلم کی خدمت اور مرتدین سے قتال کا کارنامہ مجھے دے کر میری ساری عمرؓ کے اعمال لے لیں تو میں سمجھوں گا کہ میں ہی فائدے میں رہا"۔

حضرت عمرؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ " ابوبکرؓ نے ایسا راستہ اختیار کیا کہ اپنے بعد آنے والے کو مشقت میں ڈال گئے "۔

اس عظیم خلیفہ نے ہر معاملے میں اپنا وہ ہی معیار رکھا جو اس وقت کسی عام مزدور کا ہوا کرتا تھا۔

حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ قسم ہے اس رب کی جس نے رسول اللّٰہ  ﷺ کو آخری رسول بنا کر بھیجا اور ابوبکرؓ سے اس کی تصدیق کروائی۔ (تاریخ خلفاء)

 حضرت معصب بن عمیرؓ فرماتے ہیں "اس امرپر تمام امت کا اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کا لقب صدیق ہے کیونکہ آپ نے بے خوف و نڈر ہوکر رسالت مآب صلی اللّٰہ  علیہ و آلہ وسلم کی تصدیق کی اور اس میں کسی قسم کی کوئی جھجک سرزد نہیں ہوئی۔

سیدنا صدیق اکبرؓ بصیرت و تدبر، عزم و استقلال، وفاداری و فداکاری، ایثار و انفاق کا مرقع خیر، مجسم اسلام کے مردِ مومن کی سچی تصویر تھے، وہ ثانی اثنین فی الغار، وہ جانثارِ ذات مصطفی صلی اللّٰہ  علیہ وآلہ وسلم، پروانہ شمع رسالت، اسلام کے پہلے خلیفہ راشد، ہر دور میں اہلِ حق اور متلاشیان راہ حق و ہدایت کے لئے اصحاب رسولﷺ میں سے نمونہ کامل کی حیثیت رکھتے ہیں۔

جنکے بارے میں حضرت اسد بن زرارہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ

’’میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا۔ آپ ﷺ نے توجہ فرمائی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کو نہ دیکھا تو آپ ﷺ نے پکارا ابوبکر! ابوبکر! روح القدس جبرائیل علیہ السلام نے مجھے خبر دی ہے کہ میری اُمت میں سے میرے بعد سب سے بہتر ابوبکر صدیقؓ ہیں۔ ‘‘

_(طبرانی، معجم الأوسط، 6/292، رقم : 6448)_

آپؓ عشق مصطفی ﷺ کے سمندر میں اپنی ذات کو فنا کر چکے تھے۔ دولتِ دنیا ان کے سامنے ہیچ تھی۔

اسم محمدﷺ لبوں پر مچلتا تو لہو کی ایک ایک بوند وجد میں آ جاتی، ہمہ وقت بارگاہ مصطفی ﷺ میں سراپائے ادب رہتے، اور سود وزیاں سے بے نیاز ہر وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے اشارے کے منتظر رہتے کہ کب حکم ہو اور وہ اپنی جان و مال آقائے دو جہاں صلی اللّٰہ  علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار کریں۔

ایک موقع پر جب حضور نبی اکرم ﷺ نے صدقہ دینے کا حکم فرمایا تو حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس جو کچھ تھا وہ سب کچھ لے کر حاضر خدمت ہوئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے ابوبکرؓ! اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑ آئے ہو؟ انہوں نے عرض کیا : میں ان کے لئے اللّٰہ  تعالٰی اور اس کا رسولﷺ چھوڑ آیا ہوں۔‘‘

_(ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب فی مناقب ابی بکر و عمر رضی الله عنهما کليهما، 6 : 614، رقم : 3675)_

جملہ صفات کے ساتھ ساتھ آپؓ کی وفا شعاری اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت نے اللّٰہ  اور اسکے رسول ﷺ کی بارگاہ میں آپ کو وہ مقام و مرتبہ عطا کیا جس پر ساکنانِ عرش بھی رشک کرتے ہیں۔

صحابی رسول کا لقب قرآن سے

قرآن مجید میں الحمد سے والناس تک ایک لاکھ چودہ ہزار یا چوبیس ہزار صحابہ کرامؓ کی جماعت میں سے سیدنا صدیق اکبرؓ ہی ایک فرد ہیں جنکی صحابیت پر اللّٰہ  رب العزت نے نص صریح کے ساتھ مہر تصدیق لگا دی۔ ان کو صحابی رسول، اللّٰہ  تعالی نے خود قرار دیا ہے۔ غار ثور میں ہجرت کے وقت حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا یارِ غار ہونے کا شرف آپ کو نصیب ہوا۔ اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے سورہ توبہ کی آیات میں اس طرح شان بیان کی گئی۔

إِلاَّ تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لاَ تَحْزَنْ إِنَّ اللّهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللّهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللّهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌo (التوبه، 9 : 40)

’’اگر تم ان کی (یعنی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی) مدد نہیں کرو گے تو (ان کا کچھ نقصان نہیں، کیونکہ) اللہ ان کی مدد اس وقت کرچکا ہے جب ان کو کافر لوگوں نے ایسے وقت (مکہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ : غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھی ہے۔ (٣٧) چنانچہ اللہ نے ان پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی، اور ان کی ایسے لشکروں سے مدد کی جو تمہیں نظر نہیں آئے، اور کافر لوگوں کا بول نیچا کردکھایا، اور بول تو اللہ ہی کا بالا ہے، اور اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔

(یہ ہجرت کے واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اپنے ایک رفیق حضرت صدیق اکبر (رضی اللہ عنہ) کے ساتھ مکہ مکرمہ سے نکلے تھے، اور تین دن تک غار ثور میں روپوش رہے تھے۔ مکہ مکرمہ کے کافر سرداروں نے آپ کی تلاش کے لیے چاروں طرف لوگ دوڑائے ہوئے تھے، اور آپ کو گرفتار کرنے کے لیے سو اونٹوں کا انعام مقرر کیا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ آپ کو تلاش کرنے والے کھوجی غار ثور کے منہ تک پہنچ گئے اور ان کے پاؤں حضرت صدیق اکبر کو نظر آنے لگے جس کی وجہ سے ان پر گھبراہٹ کے آثار ظاہر ہوئے۔ لیکن حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس موقع پر ان سے فرمایا تھا کہ غم نہ کرو، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے غار کے دہانے پر مکڑی سے جالا تنوا دیا۔ اور وہ لوگ اسے دیکھ کر واپس چلے گئے۔ اس واقعے کا حوالہ دے کر اللہ تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے، ان کے لیے اللہ تعالیٰ کی مدد کافی ہے، لیکن خوش نصیبی ان لوگوں کی ہے جو آپ کی نصرت کی سعادت حاصل کریں۔)

اس میں ’’اذ یقول لصاحبہ‘‘ جب وہ اپنے ساتھی (ابوبکر صدیقؓ) سے فرما رہے تھے کے الفاظ قرآن مجید میں سیدنا صدیق اکبرؓ  کا سب سے بڑا بیانِ فضیلت ہے اور یہ لقب کائناتِ صحابہؓ میں کسی اور کو عطا نہیں کیا گیا۔

یار غار ہونے کا شرف

جب قریش کی ایذاء رسانی حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کو ستانے میں انہوں نے کوئی کسر باقی نہ رکھی تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضی اللّٰہ  عنہم اور حبشہ کے بعد پھر مدینہ ہجرت کا حکم فرمایا۔ اور خود نبی اکرمﷺ حکم خداوندی کے منتظر تھے، جب اللّٰہ  نے آپ کو حکم ہجرت دیا تو آپ ﷺ نے سیدنا صدیق اکبرؓ سے ہجرت کا ذکر فرمایا۔ تو سیدنا صدیق اکبرؓ  پکار اٹھے

’’اللّٰہ  کے رسول ﷺ مجھے بھی معیت سے نوازئیے۔ ‘‘

ارشاد گرامی ہوا ’الصحبۃ‘ معیت تو ضرور ہو گی اس مصائب والے سفر میں تم میرے ساتھ ہو گے۔ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ  عنہا فرماتی ہیں۔

’’بخدا مجھے اس دن سے قبل معلوم نہ تھا کہ کوئی خوشی سے بھی آنسو بہاتا ہے میں نے ابوبکر صدیقؓ کو اس روز روتے دیکھا۔‘‘

_(سيرت ابن هشام، 1 : 485)_

اور یوں سیدنا صدیق اکبرؓ کو ہجرت کے وقت پیغمبر خدا کا ساتھی ہونے اور یار غار ہونے کا لازوال اعزاز حاصل ہوا اور غار ثور میں تین دن اور تین راتیں متوجہ مصطفی ﷺ تھے اور متوجہ علیہ ابوبکرؓ تھے۔

بارگاہِ مصطفیﷺ میں حضرت ابوبکر صدیقؓ کا مقام و مرتبہ

’’حضرت عمرو بن العاصؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے جنگِ ذاتِ السلاسل کا امیرِ لشکر بنا کر روانہ فرمایا جب میں واپس آیا تو آپ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا : (یارسول ﷲ!) عورتوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبت کس سے ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا : عائشہؓ کے ساتھ۔ میں نے پھر عرض کیا : مردوں میں سے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اُس کے والد (ابوبکر رضی اللّٰہ  عنہ) کے ساتھ۔ میں نے عرض کیا پھر اُن کے بعد؟ آپ ﷺ نے فرمایا عمر بن خطابؓ کے ساتھ۔ اور پھر آپ ﷺ نے اُن کے بعد چند دوسرے حضرات کے نام لئے۔‘‘

_(بخاری، الصحيح، کتاب : فضائل أصحاب النبي صلی الله عليه وآله وسلم، باب : من فضائل أبی بکر الصديق، 3/1339، الرقم : 3462)_

حضور نبی اکرم ﷺ کو حضرت ابوبکر صدیقؓ سے جو محبت تھی وہ صرف اس وجہ سے نہ تھی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ بھی آپ ﷺ سے محبت کرتے اور آپﷺ پر سب کچھ نچھاور کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے بلکہ یہ محبت اس وجہ سے بھی تھی کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی ذاتی خصوصیات، اپنے اعلی اوصاف اپنے کردار اور باکمال صلاحیتوں کی وجہ سے حضور نبی اکرم ﷺ کی نگاہ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے۔

حضرت عمر بن الخطابؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا

’’حضرت ابوبکر صدیقؓ ہمارے سردار، ہم سب سے بہتر اور حضور نبی اکرم ﷺ کو ہم سب سے زیادہ محبوب تھے۔‘‘

_(ترمذی، السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب مناقب ابی بکر صديق رضی الله عنه 5 : 606، رقم : 3656)_

’’امام زہری سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا : کیا تم نے ابوبکر (صدیق رضی اللّٰہ  عنہ) کے بارے میں بھی کچھ کلام کہا ہے۔ انہوں نے عرض کیا جی ہاں (یا رسول ﷲ!)۔ حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ  علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ کلام پڑھو تاکہ میں بھی سنوں۔ حضرت حسانؓ عنہ یوں گویا ہوئے : وہ غار میں دو میں سے دوسرے تھے۔ جب وہ حضور ﷺ کو لے کر پہاڑ (جبل ثور) پر چڑھے تو دشمن نے اُن کے ارد گرد چکر لگائے اور تمام صحابہ رضی اللّٰہ  عنہم کو معلوم ہے کہ وہ (یعنی حضرت ابوبکر رضی اللّٰہ  عنہ) رسول ﷲ صلی اللّٰہ  علیہ وآلہ وسلم کے محبوب ہیں اور آپﷺ کسی شخص کو اُن کے برابر شمار نہیں کرتے ہیں(یہ سن کر) رسول ﷲ ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دندانِ مبارک ظاہر ہو گئے پھر آپ ﷺ نے فرمایا : اے حسان تم نے سچ کہا، وہ (ابوبکر رضی اللّٰہ  عنہ) بالکل ایسے ہی ہیں جیسے تم نے کہا ہے۔‘

_(حاکم، المستدرک، 3 : 67، رقم : 4413)_

’’حضرت عبدﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا اگرمیں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکرؓ کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں۔ ‘‘

_(بخاری، الصحيح، کتاب : المناقب، باب : قول النبی : لو کنت متخذا خليلا، 3/1338، رقم : 3456)_

’’حضرت انس بن مالکؓ جو کہ حضور نبی اکرمﷺ کی خدمت میں رہتے تھے سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضور نبی اکرمﷺ کے مرضِ وصال کے دوران صحابہ کرام رضی اللّٰہ  عنہم کو نماز پڑھایا کرتے تھے، یہاں تک کہ پیر کا دن آ گیا اور صحابہ کرامؓ نماز  کی حالت میں صفیں باندھے کھڑے تھے۔ (اِس دوران) حضور نبی اکرم ﷺ نے(اپنے) حجرہ مبارک سے پردہ اُٹھایا اور کھڑے ہو کر ہمیں دیکھنے لگے۔ ایسے لگ رہا تھا کہ آپ ﷺ کا چہرہ انور کھلے ہوئے قرآن کی طرح ہے پھر آپ ﷺ تبسم ریز ہوئے۔ پس ہم نے ارادہ کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے دیدار کی خوشی سے نماز توڑ دیں پھر حضرت ابوبکرؓ اپنی ایڑیوں کے بَل (مصلّی امامت سے) پیچھے لوٹے تاکہ صف میں شامل ہو جائیں اور گمان کیا کہ حضور نبی اکرمﷺ نماز کے لئے (گھر سے) باہر تشریف لانے والے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ہمیں اشارہ فرمایا کہ تم لوگ اپنی نماز کو مکمل کرو اور پردہ نیچے سرکا دیا۔ پھر آپ ﷺ کا اُسی دن وصال ہو گیا۔‘‘

_(بخاری، الصحيح، کتاب : الأذان، باب : أَهْلُ الْعِلْمِ وَالْفَضْلِ أَحَقُّ بِالإِمَامَةِ، 1 : 240، رقم : 648)_

اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ

’’حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کسی قوم کے لئے مناسب نہیں کہ ان میں ابوبکر صدیقؓ موجود ہوں اور اُن کی امامت اِن (یعنی ابوبکر صدیقؓ) کے علاوہ کوئی اور شخص کروائے۔ ‘

_(ترمذی، السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : فی مناقب ابی بکر وعمر رضی اﷲ عنهما کليهما، 5 : 614، رقم : 3673)_

’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : حضرت جبرائیل علیہ السلام نے میرا ہاتھ پکڑا، پھر مجھے جنت کا وہ دروازہ دکھایا جس سے میری اُمت (جنت میں) داخل ہو گی۔ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا : یا رسول ﷲ ﷺ! کاش میں آپ کے ساتھ ہوتا تاکہ میں بھی جنت کا وہ دروازہ دیکھتا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : یقیناً تم تو میری اُمت کے وہ پہلے شخص ہو جو جنت میں اُس دروازہ سے داخل ہو گا۔‘‘

_(ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب الخلفاء، 4 : 213، رقم : 4652)_

المختصر یہ کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کو جو مقام و مرتبہ اللّٰہ اور اس کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں نصیب ہوا۔ اس کی وجہ آپؓ کا حضور رسولﷺ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ والہانہ عقیدت و محبت اور بارگاہ نبوی ﷺ میں انتہا درجے کی ایسی تعظیم و تکریم ہے جس کا رنگ آپکے جملہ اعمال اور ارادوں پر چڑھا ہوا نظر آتا ہے۔ آپ کے اخلاص اور وفا شعاری نے قیامت تک آنے والے ہر اس کارکن کو سلیقہ محبت اور قرینہ ادب سکھا دیا جو مشن رسولﷺ کے فروغ کے لئے کوشاں ہے اور روزِ قیامت رسولﷺ کی سنگت و معیت کا خواہاں ہے۔

خلافت علی منہج النبوۃ(نبوت کے طرز پر خلافت):

رسولﷺ کو خواب میں دوخلفاء دکھائے گئے جن کی خلافت عین منہج نبوی کے مطابق ہوگی اور وہ آپﷺ کے طریقے سے ذرہ برابر انحراف نہیں کریں رسولﷺ فرماتےہیں میں سویا ہوا تھا مجھے خواب میں دکھایا گیا کہ میں اپنے حوض سے پانی نکال کر لوگوں کو پلا رہا ہوں اتنے میں ابوبکرؓ آگئے انہوں نے میرے ہاتھ سے ڈول لے لیا تاکہ مجھے آرام وسکون کا موقع دیں انہوں نے دو ڈول نکالے لیکن ان کے ڈول نکالنے میں کمزوری تھی اللّٰہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے پھر عمؓر آگئے انہوں نے ابوبکرؓ سے ڈول لے کر(خوب پانی نکالا) میں نے کبھی اس سے زیادہ قوت کےساتھ ڈول کھینچتےکسی کو نہیں دیکھا حتی کہ لوگ سیر ہوکر چلے گئے اور حوض ابھی بھرا ہوا تھا اور بڑے جوش کے ساتھ پھوٹ رہا تھا۔

_(صحیح مسلم حدیث 2392)_

پہلا خطبہ خلافت:

بیعت کے بعد سیدنا ابوبکرؓ نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ کی شان اقدس کے لائق حمد وثنا بیان کی اور فرمایا حاضرین کرام مجھے تمہارا سربراہ بنایا گیا ہے اور میں خود کو تم سے بہتر نہیں سمجھتا۔ اگر میں درست کام کروں تو میری مدد کرنا اگر مجھ سے غلطی ہو جائے تو میری اصلاح کرنا۔ سچ امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے چنانچہ میں اس کا شکوہ دور کر دوں گا اور تم میں جو قوی ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے چنانچہ میں اس سے حق لوں گا۔ جو قوم جہاد کو چھوڑ دیتی ہے اللّٰہ اس پر ذلت کو مسلط کردیتاہے جس قوم میں بے حیائی عام ہوجائے اللّٰہ تعالیٰ ان پر عمومی عذاب نازل کر دیتا ہے۔ میری اطاعت اس وقت تک کرنا جب تک میں اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتا رہوں جب میں اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی نافرمانی کرنے لگوں تو تم پر میری اطاعت ضروری نہیں۔ اُٹھو نماز ادا کرو اللّٰہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔

_(البدایہ و النہایہ 305-306/6)_

جبکہ آج ہمارے حکمرانوں کی تیاریاں عروج پر ہیں غریب عوام کا خون چوسنے کےلیے ہر طرح کے جال بچھائے جا رہے ہیں اور کروڑوں روپے کا سرمایہ رائیگاں کیا جارہاہے حالانکہ یہ منصبِ حکومت رسولﷺ اور صحابہ کرامؓ کا تشکیل دیا ہوا ہے آج اس منصب پر مسلط ہونے کے لیے ہر دنیا دار آدمی تیار ہے جو کہ دین اسلام سے کورے نظر آتے ہیں۔ جیسے کہ امیدوارانِ الیکشن سے کچھ سوالات پوچھے جا رہے تھے اور سوالات بھی ایسے کہ جن کے جوابات ایک دینی گھرانے سے تعلق رکھنے والا بچہ بھی بآسانی دے سکتا ہے کسی سے فجر کی نماز کی رکعتیں پوچھی جا رہی ہیں اور کسی سے قرآن پاک کے پاروں کے متعلق پوچھا جا رہا ہے جوکہ انسانیت کےلیے اللّٰہ نے ضابطہ حیات اتارا ہے تو ان کے سوالوں کے جواب بھی نہیں آرہے تھے یہاں تک کہ ایک نام نہاد مسلم بول پڑا کہ قرآنی سوالات کیوں کیے جا رہے ہیں؟* یہی وجہ ہے کہ قرآن و حدیث سے دوری نے انہیں جلاد بنادیا ہے کہ غریبوں کے چھوٹے چھوٹے بچے بھوک پیاس سے ان کے سامنے تڑپتے رہیں اور انکے رونگٹے بھی کھڑے نہ ہوں اور انکی سیاست بھی ایک جھوٹ کا حال ہے آج اپنے مفاد کی سیاست کی جاتی ہے اور عوام کو جھوٹ پہ جھوٹ تحفۃً پیش کیا جاتاہے۔

(الامان والحفیظ) اور ایک وہ بھی تو سیاسی لیڈر تھے۔

صدیقؓ اور سیاسی بصیرت

سیدنا ابوبکرؓ بے پناہ سیاسی بصیرت کے حامل تھے اور حالات کے نشیب و فراز پر گہری نگاہ رکھتے تھے، اپنے دور کی حکومتوں اور ان کےقوانین سے بھی پوری طرح آگاہ تھے۔ اس وقت ایران اور روم کی دو مملکتوں کا تمام دنیا میں شہرہ تھا اور کسی معاصر حکومت کو ان کے سامنے سر اٹھانے کی جرأت نہ تھی اور جمہوریت کا اس زمانے میں کہیں نام و نشان نہ تھا تمام حکومتیں جبر و آمریت کی بنیاد پر قائم تھیں۔ آج کے حکمرانوں کی طرح رعایا ان کے ہاتھوں سخت تکلیف میں مبتلا تھی ہر باشندہِ ملک کو انہوں نے دبا کر رکھا ہواتھا اور لوگوں سے اچھوتوں کا سا برتاؤ رکھا جاتا تھا۔ سیدنا ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں دنیا کی ان دو عظیم مملکتوں کے جو علاقے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوئے وہاں کامل مساوات کا قانون نافذ کیا گیا سیدنا صدیقؓ نے فوج کے سر براہوں کے نام حکم جاری کیا کہ بلا امتیاز مذہب و ملت سب سے یکساں معاملہ کیا جائے کسی سے بے کار نہ لی جائے اور کسی کو محکوم اور مفتوح سمجھ کر مبتلائے اذیت نہ کیا جائے چھوٹے بڑے ہر طبقے کے لوگوں سے عدل و انصاف کیا جائے کسی قوم کی عبادت گاہوں کو منہدم نہ کیا جائے۔ مذہبی اور معاشرتی آزادی کا کھلے الفاظ میں اعلان کیا جائے حالانکہ مفتوحہ علاقے کے لوگوں نے مساوات کا کبھی نام تک بھی نہیں سنا تھا وہ مسلمانوں کے اس طرز عمل اور طریق گفتگو سے نہایت خوش ہوئے اور بہت سے لوگ صرف ان کے رویے سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔

_(ابو بکر صدیقؓ: محمد حسین ھیکل صفحہ 25)_

جیسے حکمران ویسی رعایا:

ایک بدوی خاتون نے سیدنا صدیقؓ سے پوچھا اے خلیفہ رسولﷺ جاہلیت کے بعد اللّٰہ نے ہمیں اسلام کی وجہ سے جو نعمت عطا کی ہے ہم اس پر کب تک قائم رہیں گے صدیقؓ نے فرمایا: بَقَاؤُكُمْ عَلَيْهِ مَا اسْتَقَامَتْ بِكُمْ أَئِمَّتُكُمْ

تم لوگ اس پر اس وقت تک قائم رہو گے جب تک تمہارے حکمران اسلام پر قائم رہیں گے وہ کہنے لگی حکمرانوں سے کون لوگ مراد ہیں؟ صدیقؓ نے فرمایا:

أَمَا كَانَ لِقَوْمِكِ رُؤُوسٌ وَأَشْرَافٌ يَأْمُرُونَهُمْ فَيُطِيعُونَهُمْ

کیا تمہاری قوم کے شرفاء اور سردار نہیں ہیں جو قبیلے والوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ ان کی اطاعت کرتے ہیں اس نے کہا بالکل ہیں۔ جناب صدیقؓ نے فرمایا: فَهُمْ أُولَئِكَ عَلَى النَّاسِ

یہی لوگ تو حکمران ہیں۔

_(صحیح بخاری3834)_

وسعت علم اور صدیقؓ:

رسولﷺ نے دنیائے اسلام کے پہلے حج میں سیدنا صدیقؓ کو مدینہ منورہ سے امیر الحج بناکر روانہ فرمایا۔ عبادات میں سے مناسک حج کا علم انتہائی دقیق ہے، اگر صدیقؓ کے پاس وسعت علم نہ ہوتی تو رسولﷺ کبھی امیر الحج نہ بناتے اور اسی طرح نماز کے معاملہ میں رسولﷺ نے سیدنا صدیقؓ ہی کو اپنا نائب بنایا اور رسولﷺ نے سیدنا انسؓ سےجو کتاب الصدقہ لکھوائی تھی اس کو سیدنا صدیقؓ سے روایت کیا ہے وہ صدقہ کے بارے میں سب سے زیادہ قابل اعتماد دستاویز ہیں کوئی شرعی مسئلہ ایسا نہیں جس میں سیدنا صدیقؓ نے غلطی کی ہو۔ جبکہ دیگر صحابہ کرامؓ کے کئی ایک ایسے مسئلے مذکور ہیں جن میں ان کو غلطی لگی۔

_(ابو بکرؓ افضل الصحابہؓ ص 60)_

اجتہاد اور صدیقؓ:

سیدنا صدیقؓ کے سامنے کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس کی اصل کتاب اللّٰہ اور سنت رسولﷺ سے نہ ملتی تو وہ اس میں اجتہاد کرتے اور کہا کرتے تھے:

أَقُولُ فِيهَا بِرَأْي فَإِنْ يَكُنْ صَوَابًا فَمِنَ اللَّهِ، وَإِنْ يَكُنْ خَطَأً فَمِنِّي وَمنَ الشَّيْطَانِ

_السنن الصغير للبيهقي (2/ 362)_

میں اپنی رائے سے کہتا ہوں اگر یہ صحیح ہے تو اللّٰہ کی طرف سے ہے اور اگر غلط ہے تو یہ میری غلطی ہے اور شیطان کی طرف سے ہے۔

جب بھی ان کے پاس کوئی مسئلہ آتا تو وہ کتاب اللّٰہ سے اس کا حل ڈھونڈتے اگر مل جاتا تو اس کے مطابق فیصلہ کرتے اگر نہ ملتا تو پھر صحابہ کرامؓ سے اس بارے میں پوچھتے ایسے موقعوں پر آپ کہا کرتے تھے:

اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى جَعَلَ فِينَا مَنْ يَحْفَظُ عَنْ نَبِيِّنَاصلى الله عليه وسلم

_السنن الكبرى للبيهقي (10/ 114)_

اللّٰہ کا شکر ہے ہم میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے رسولﷺ کی سنت کو محفوظ کر رکھا ہے۔

لیکن دور حاضر میں اہل الرائے کا ایک ٹولہ دلیلیں تو ابو بکرؓ و عمرؓ کے اجتہاد کی پیش کرتے ہیں لیکن ان کے اکثر و بیشتر مسائل حدیث رسولﷺ سے ٹکرا رہے ہوتے ہیں ۔ سچ کہا تھا سیدنا علی ؓنے (الکلمۃ حق أرید بہا الباطل) آئیڈیل اور نمونہ تو صحابہؓ کے اجتہاد کو پیش کرتے ہیں لیکن حقیقت میں شریعت کی مخالفت کرتے ہیں اللّٰہ انہیں ہدایت دے اور دین کی سمجھ دے۔

صدیقؓ بطور فیصل:

سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے اپنے نہایت معتمد ساتھی سیدنا عمر فاروقؓ کے خلاف ایک مقدمہ میں فیصلہ دیا تھا۔آئیے اس واقعہ کے بارے میں ان کا موقف پڑھتے ہیں ہوا کچھ یوں کہ سیدنا عمؓر نے اپنی ایک انصاری اہلیہ کو طلاق دے دی تھی اس خاتون سے ان کا بیٹا عاصم تھا کچھ عرصہ بعد سیدنا عمرؓ نے دیکھا کہ وہ انصاری خاتون اپنے بیٹے کو اٹھائے تھی اور بچہ دودھ پینا چھوڑ چکا تھا اور اب چلنے پھرنے کےقابل ہوگیا تھا سیدنا عمرؓ نے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر ماں سے چھیننا چاہا اور تھوڑی سختی بھی کی کہ بچہ رونے لگا سیدنا عمرؓ کہنے لگے میں اپنے بیٹے کا تمہاری نسبت زیادہ حقدار ہوں یہ جھگڑا سیدنا صدیقؓ تک پہنچا تو سیدنا صدیقؓ نے ماں کے حق میں فیصلہ دے دیا اور فرمایا اس بچے کے لیے ماں کی محبت و شفقت، اس کی گود اور بستر تمہاری نسبت زیادہ بہتر ہے حتی کہ بچہ جوان نہ ہوجائے اور اپنا فیصلہ خود نہ کرے کہ وہ کس کے پاس رہنا چاہتا ہے اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں ماں زیادہ مشفق و مہربان زیادہ رحم دل زیادہ محبت کرنے والی اور زیادہ نرم مزاج ہےجب تک وہ عورت دوسری شادی نہ کرے تب تک وہ بچے کی زیادہ حقدار ہے۔

_(مصنف عبدالرزاق 54/7 حدیث 2600)_

صدیقؓ بطور خطیب:

سیدنا ابوبکرؓ نے لشکر اسامہ کے فوجیوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اے لوگو! ٹھہرو میں تمہیں کچھ ہدایات دینا چاہتا ہوں۔ انہیں اچھی طرح یاد کرلو، نہ خیانت کرنا، نہ مال غنیمت چرانا، نہ بد عہدی کرنا، نہ لاشوں کی بے حرمتی کرنا، نہ پھل دار درخت کاٹنا، نہ بلاضرورت بکری، گائے اور اونٹ ذبح کرنا۔(اب ذرا سوچئے جتنے کاموں سے سیدنا صدیقؓ نےمنع کیا ہے ان میں سے وہ کونسا ایسا کام ہے جو ہم اورہمارے حکمران نہیں کرتے؟ پھر فرق صرف اتنا پڑتا ہے کہ وہ ان سب امور کی پابندی کر کے فتح، عزت،

عظمت و کامیابی ان کا ثمرہ بنتی تھی اور ہم ان سب کاموں میں مخالفت کرتے

ہیں تو ذلت و رسوائی آج ہمارا مقدر بن چکی ہے) عنقریب تم ایسے لوگوں کے پاس سے گزروگے جو گرجا گھروں میں عبادت میں مصروف ہوں گے۔ ان سے تعرض نہ کرنا، تم ایسے لوگوں کے پاس جا رہے ہو جو تمہارے لیے رنگ برنگے کھانے لائیں گے تم ہر کھانے سے پہلے بسم اللّٰہ پڑھنا تمہارا ایسے لوگوں سے مقابلہ ہوگا جنہوں نے اپنے سر درمیان سے مونڈ رکھے ہوں گے اور بقیہ بالوں کو پٹیوں کی مانند چھوڑ دیا ہوگا ایسے لوگوں کو تہ تیغ کر دینا، اب اللّٰہ کا نام لیکر روانہ ہو جاؤ۔پھر سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا اسامہؓ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

اصنع ما أمرك به نبي الله صلی الله عليه و سلم ابدأ ببلاد قضاعة ثم إيت آبل ولا تقصرن في شيء من أمر رسول الله صلى الله عليه و سلم ولا تعجلن لما خلفت عن عهده

رسولﷺ کے حکم کی تعمیل کرنا جنگ کی ابتدا بلاد قضاعہ سے کرنا پھر آبل (موجودہ اردن کے جنوب میں واقع ایک شہر ہے) پر حملہ آور ہونا لیکن رسولﷺ کے کسی حکم میں ذرہ بھر بھی کوتاہی نہ کرنا اور رسولﷺ کے عہد سے پیچھے مت ہٹنا۔

سیدنا اسامہؓ کا لشکر چلاگیا اہل لشکر رسولﷺ کے حکم کے مطابق قضاعہ کےقبائل پر حملہ آور ہوئے آبل فتح کیا اور مال غنیمت اور فتح کے ساتھ سرخرو ہو کر لوٹے۔ ان کا یہ پورا مشن چالیس روزہ تھا اور چالیس ہی دن میں مکمل کامیابی مل گئی۔

_(تاریخ الطبری 45-47/4،والسیرہ النبویۃ الصحیحہ للدکتور العمری 470-467/2)_

سیدنا صدیقؓ کی اولو العزمی

سیدنا صدیقؓ نہایت درجہ اولوالعزم اور صمیم القلب خلیفہ تھے۔ ان کی اولوالعزمی کے واقعات تو بہت ہیں لیکن یہاں ہم چند ایک ذکر کرتے ہیں۔

1۔ مرتدین اور مانعین زکوٰۃ کا فتنہ بپا ہوا تو سیدنا صدیقؓ نے فتنہ بپا کرنے والوں کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان فرمایا۔ زیادہ تر صحابہؓ نے اس بات سے اختلاف کیا جن میں سیدنا عمرؓ بھی شامل تھے لیکن سیدنا صدیقؓ اپنے ارادے پر قائم رہے اور بہ درجہ غایت اولوالعزمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے صاف لفظوں میں فرمایا کہ جو لوگ نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریں گے میں ان سے ضرور جنگ کروں گا چاہے مجھے اکیلا ہی کیوں نہ مقابلہ کرنا پڑے۔

2۔ عراق میں مثنی بن حارثہ شیبانی جب برسر پیکار تھے تو انہوں نے دربار خلافت سے مزید فوج کا مطالبہ کیا تو سیدنا صدیقؓ نے ان کی امداد کےلیے خالد بن ولیدؓ کو اچھی خاصی فوج دے کر عراق روانہ کیا۔

3 ۔ شام کے محاذ پر فوج بھیجنے کی ضرورت پڑی تو تمام عرب سے فوجیں جمع کیں پھر سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ اور اسلامی فوج کے سربراہوں کی طرف سے جو شام میں مقیم تھے دشمن پر حملہ کرنے میں کچھ ہچکچاہٹ سی ہوئی تو سیدنا خالد بن ولیدؓ کو وہاں پہنچنے اور حملہ کرنے کا حکم دیا۔

_(الصدیق ابو بکر لمحمد حسین ھیکل ص 40،41)_

سیدنا صدیقؓ کا وقت رحلت:

سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدنا ابوبکرؓ کی بیماری کی ابتدا اس طرح ہوئی کہ انہوں نے سخت سردی والے دن غسل کیا تو انہیں بخار ہوگیا جو پندرہ دن تک جاری رہا بیماری کی شدت کے باعث آپ ان دنوں مسجد نہ جا سکتے تھے اس لیے سیدنا عمؓر کو نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے۔ صحابہ کرامؓ آپ کی تیمارداری کرنے آتے تھے سب سے زیادہ خبر گیری سیدنا عثمانؓ کرتے تھے۔

( اصحاب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم لمحمود المصری)

جب انکی بیماری شدید ہوگئی تو ان سے عرض کیا گیا ہم آپ کے لیے طبیب بلائیں؟ تو فرمایا: قَدْ رَآنِي فَقَالَ: إِنِّي فَعَّالٌ لِمَا أُرِيدُ

_ترتیب و تہذیب البدیہ والنہایہ للدکتور السلمی،ص 33_

طبیب نے مجھے دیکھ لیا ہے اور وہ کہتا ہے بیشک میں جو چاہتا ہوں کرتاہوں۔

سیدہ عائشہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں: سیدنا ابو بکرؓ نے فرمایا:

انظروا ماذا زاد في مالي منذ دخلت في الإمارة فابعثوا به إلى الخليفة بعدي

_صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1_

جب سے میں خلیفہ بنا ہوں اس دوران جتنا مال بڑھا ہے وہ میرے بعد والے خلیفہ کو پہنچا دینا۔

ہم نے جب ان کا مال چیک کیا تو ایک نوبی غلام تھا مصر کے جنوب میں سوڈان کے شہر نوبہ میں ایک قوم آباد تھی یہ غلام انہیں میں سے تھا اور یہ خلیفہ کے بچے کھلاتا تھا۔

اس کے علاوہ ایک اونٹ تھا جو ان کے باغ کو سیراب کرتا تھا ہم نے یہ دونوں چیزیں سیدنا عمرؓ کی خدمت میں بھیج دیں تو وہ رو پڑے اور روتے روتے فرمایا: ابو بکرؓ پر اللّٰہ کی رحمتیں ہوں انہوں نے اپنے بعد والوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔

_(صفۃ الصفوۃ لابن الجوزی 265/1)_

(اللّٰہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ آمین بجاہ النبی صلي اللّٰہ عليہ وسلم)