ثانی اثنین کا مصداق کون ؟
سیفی خانثانی اثنین کا مصداق کون ؟
لفظ ِ ثانی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ
شیعہ حضرات جہاں بغض صحابہ میں بہت سارے حقائق کو جھٹلاتے ہیں وہاں پر ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ثانی اثنین کے مصداق نہیں ہیں ۔ بلکہ اس کے مصداق عبداللہ بن اریقط ہیں ۔
قارئین کرام میں یہاں کوشش کروں گا کہ صحابہ کرام کی زبانی یہ بات واضح کر سکوں کہ ثانی اثنین کے مصداق سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہی ہیں ۔ انشا ءاللہ ۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے اپنے کلام مجید میں ثانی اثنین سے ذکر فرمایا ہے ۔ اور یہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے خصوصی فضیلت اور لقب ہے ۔ مفسرین یہاں یہاں ثانی کے لفظ سے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات مراد لیتے ہیں ۔ یہ اس کلمہ کا ایک مفہوم ہے لیکن ایک دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ثانی اثنین کا لفظ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال کیا گیا ہے ۔ یعنی دو شخصوں میں سے دوسرے شخص سمیت کافروں نے نکال دیا ۔ اس صورت میں ثانی سے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مراد لینا درست ہے ۔ ذیل میں ایسے قرائن پیش کیے جاتے ہیں کہ جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صحابہ کرام اپنے کلام اور تکلم میں سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ثانی اثنین کے لقب سے یاد فرماتے تھے ۔
اس کی چند ایک مثالیں ۔ ان مقامات سے ظاہر اور ثابت ہو گا کہ ثانی اثنین کا لقب صحابہ کرام سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے حق میں صحیح تصور فرماتے تھے
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا کلام
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بیعت کرنے کے موقعہ پر ایک کلام کیا تھا ۔ اس میں آں موصوف نے آپ کے صفات شمار کئے
ان ابابکر صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ثانی اثنین و انہ اولی المسلمین بامورکم فقوموا فبایعو ۔ ۔ ۔ الخ
درج ذیل مقامات پر محدثین اور اہل سیرت نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے خطبہ کو نقل کیا ہے ملاحظہ ہو
مصنف لعبدالرزاق ص 438-437 باب بداء مرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
بخاری شریف ۔ ص 1702 ج 2 کتاب الاحکام باب الاستخلاف طبع نور محمد
المصنف لابن شیبہ ص 566 ج 14 باب ماجاء فی خلافۃ ابی بکر
سیرت ابن ہشام ۔ ص 661-600 ج 2 تحت خطبہ عمر قبل ابی بکر عند البیعت عامہ
حضرت ابو عبیدہ کا قول
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پاک کے بعد بیعت کے معاملہ میں حضرت ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو بیعت خلافت کے لئے آمادہ کرنا چاہا تو حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا :
۔ ۔ ۔ اتبا یعنی وفیکم الصدیق و ثانی اثنین ۔ یعنی تم میرے ساتھ بیعت کرنا چاہتے ہو حالانکہ تم میں الصدیق اور ثانی اثنین موجود ہیں
طبقات ابن سعد ص 128 ج 3 ۔ کنزالعمال لعلی متوی الہندی ص 140 ج 3 طبع اول دکن
حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہما کا قول
تاریخ ابن جریر الطبری ص 209 ج 3 میں طبری نے نقل کیا ہے کہ جس وقت مہاجرین اور انصار میں خلافت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس معاملہ میں معذرت چاہی تو اس وقت حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما دونوں نے فرمایا : اللہ کی قسم اس معاملے کا آپ کو چھوڑ کر ہم ( کسی دوسرے کو) والی نہیں بنانا چاہتے کیوں کہ آپ افضل المہاجرین ہیں اور ثانی اثنین ہیں جبکہ دونوں حضرات غار میں تھے اور نماز پر بھی آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور قائمقام ہیں ۔ حالنکہ نماز مسلمانوں کے دین میں افضل چیز ہے ۔پس کس کے لئے مناسب ہے کہ وہ آپ سے مقدم ہو سکے ؟ یعنہ آپ سے مقدم ہونا کسی کے لائق نہیں ۔ ۔ ۔
شیعہ علماء کی طرف سے تائید
شیعہ علماء میں ابن ابی الحدید نے اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ طبع قدیم میں بحث ہذا میں حضرت عمر اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا ہے
وہ لکھتے ہیں کہ ۔ ۔ ۔ ۔فقال عمر و ابو عبیدہ ما ینبغی لاحد من الناس ان یکون فوقک انت صاحب الغار ثانی اثنین وامرک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم با الصلوۃ۔ فانت احق النسا بھذالامر
یعنی حضرت عمر اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہما نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خطاب کرتے ہوے فرمایا کہ اس وقت کوئی شخص آپ پر فائق نہیں ہے ۔ آپ صاحب غار ہیں اور ثانی اثنینہیں ۔ اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا ۔ پس آپ خلافت کے معاملہ میں سب لوگوں سے زیادہ حقدار اور مستحق ہیں
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا قول
کنزالعُمال میں بحوالہ خیثمہ بن سلیمان روایت ہے کہ ۔ ۔ ۔ ۔ عن حمران قال عثمان ابن عفان ان ابابکر الصدیق احق النا س بہا یعنی الخلافۃ انہ صدیق و ثانی اثنین وصاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
یعنی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تحقیق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلافت کے معاملہ میں زیادہ حقدار ہیں ۔ وہ صدیق ہیں ثانی اثنین ہیں اور وہ صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں
(کنزالعمال لعلی متقی الہندی ص 140 بحوالہ خیثمہ فی فضائل الصحابہ روایت نمبر 2331 ۔ کتاب الخلافۃ۔ طبع اول دکن)
حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما کا قول
جب خلافت و نیابت کے معاملہ میں گفتگو ہوئی تو ان دونوں حضرات نے فرمایا
۔ ۔ ۔ انا نری ان ابا بکر احق الناس بہا ۔ انہ لصاحب الغار و ثانی اثنین ۔ ۔ یعنی حضرت علی اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہما مسئلہ خلافت کی بحث میں فرماتے ہیں کہ ہم تمام لوگوں میں سے خلافت کا زیادہ حقدار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو جانتے ہیں ۔ کیوں کہ وہ صاحب غار اور ثانی اثنین ہیں
السنن الکبریٰ للبیہقی ص 18 ۔ الاعتقاد علی مذہب السلف للبیہقی ص 179 طبع مصر
حضرت ربیعہ بن کعب رضی اللہ عنہ کا قول
مسند امام احمد میں یہ واقعہ درج ہے کہ ایک بار ربیعہ بن کعب الاسلمی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کا ایک نخلہ ( کھجور) کے متعلق وقتی طور پر تنازع پیش آیا تھا ۔ ربیعہ کے قبیلے کے لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ شکوہ کرنے لگے تو ربیعہ نے ان کو فہمائش کرتے ہؤے کہا
۔ ۔ ۔ ۔ اتدرون ماھذا ؟ ھذا ابوبکر الصدیق ھذا ثانی اثنین ھذا ذو شیبہ المسلمین ۔ ۔ ۔الخ
یعنی ربیعہ نے کہا کیا تم جانتے کہ ان کا کیا مقام ہے ؟
یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ ثانی اثنین ہیں ۔ یہ مسلمانوں کے شیخ اور بزرگ ہیں ۔ ۔الخ
مسند امام احمد ص 58-59 ج رابع تحت مسندات ربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ
حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے اشعار
روایات کی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت کو فرمایا : کہ تو نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی کچھ اشعار کہے ہیں تو کہو تا کہ ہم بھی سن لیں ۔ تو حسان کہنے لگے
وثانی اثنین فی الغار ا لمنیف
وقد طاف العدو بہ اذ صعد الجبلاء
وکان حب رسول اللہ قد علموا
من البریہ لم یعدل بہ زجلا
( دیوان حسان ص 240 طبع مصر ۔ ازالہ لشاہ ولی اللہ ص 99 جلد اول تحت مسند حسان بن ثابت)
ان اشعار کا مفہوم یہ ہے کہ ۔ بلند غار میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دو شخصوں میں سے دوسرے تھے اور جب یہ پہاڑ پر چڑھے تو دشمن نے اس غار کا چکر لگایا ۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کے محبوب ہیں ۔ اور لوگوں نے یقین کر لیا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو ان کے برابر نہیں قرار دیا ۔ ۔
مختصر یہ کہ صحابہ کرام اپنی گفتگو اور کلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کوثانی اثنین کے لقب سے ذکر کرتے تھے یعنی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ثانی درجہ میں ہیں ۔ اور کلمہ ثانی میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں
قاعدہ :
قاعدہ ہے کہ باب تفسیر میں اقوالصحابہ کرام حجت قرار دئیے جاتے ہیں ۔ فلہذا ثانی اثنین کے مفہوم کی وضاحت صحابہ کرام کے مندرجہ بالا اقوال حجت شرعی کے درجہ میں ہیں ۔ اس لئیے یہ بات بالکل درست ہے کہ اس مقام ثانی سے مراد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں اور یہ ان کا لقب درست ہے اور یہ اُن کی صفت صحیح ہے ۔ اور صحابہ کرام اس چیز کا اعتراف کرتے تھے اور اس میں خلافت صدیق کی طرف اشارہ پاتے تھے
اب ہم اس چیز کی وضاحت پیش کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ثانویت(ثانی ہونے کی) کی خصوصیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے دیگر مقامات میں بھی حاصل ہوئی مثلاً
(1) ثانی فی الاسلام ، قبول اسلام میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد دوسرے شخص ہیں
(2) ثانی فی الہجرہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ہجرت کرنے میں آپ رض دوسرے درجہ میں ہیں
(3) ثانی فی عریش ِبدر ، مقامِ بدر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار کیے جانے والے عریش میں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں بیٹھنے والے دوسرے شخص ہیں( عریش ” چھاتہ “ کو کہتے ہیں )
(4) ثانی فی الامامہ باالصلوۃ ، جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں نماز کی امامت کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے درجہ میں ہیں
(5) ثانی فی مقبرہ النبی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ اطہر میں دفن ہونے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دوسرا درجہ ہے
(6) ثانی فی دخول الجنۃ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت کے مطابق جنت میں داخل ہونے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دوسرے شخص ہونگے
سفر ہجرت اور آیت غار کے متعلق شیعہ اکابر کے بیانات
سابقہ سطور میں میں نے ثانی اثنین کے مصداق کے حوالہ سے چند چیزیں ذکر کی ہیں ۔ جن سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سفر ہجرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سا تھ حضرت ابوبکر صدیق بن ابو قحافہ رضی اللہ عنہ ہی تھے ۔اس کے بعد اسی سفر ہجرت اور آیت غار کے متعلق شیعہ اکابر کے بیانات ذکر کیے جارہے ہیں جن میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس مبارک سفر میں معیت اور مصاحبت پائی جاتی ہے ۔ اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک سفر ہونا ثابت ہو تا ہے ۔ اور اسلام کا یہ مبارک سفر بڑی اہمیت کا حامل ہے
۔
اس سلسلہ میں چند ایک حوالہ جات شیعہ حضرات کی کتب سے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ اصل واقعہ کی صحت کے ثبوت میں کوئی اشتباہ نہ رہے
اور فریقین کے بیانات کے ذریعہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت کا مسئلہ ازرُؤئے قرآن پختہ ہو جائے
شیعہ کے مشہور قدیم مفسر شیخ ابوعلی الفضل بن حسن الطبری اپنی تفسیر مجمع البیان میں آیت غار کے تحت بیان کرتے ہیں
الا تنصروہ فقد نصرہ اللہ ۔ معناہ ان لم تنصرو الی علی القتال قتال العدو فقد فعل اللہ بہ النصر اذا خرجہ الذین کفروا من مکہ فخرج یرید المدینہ ثانی اثنین یعنہ کان ھو ابوبکر اذھما فی الغار ولیس معھما ثالث ای وھو احد اثنین ومعناہ فقد نصرہ اللہ منفردا من کل شیء من ابی بکر والغار ۔ ۔ ۔ الخ
اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے قتال پر اگر تم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نہ کرو گے تو اللہ نے اپنے نبی کی مدد کی ۔ جبکہ کفار نے نبی کو مکہ سے نکالا اور آپ مدینے کا ارادہ کر کے نکل پڑے ۔ ثانی اثنین یعنی پیغمبر اورحضرت ابوبکر تھے ۔ جبکہ دونوں غار میں تھے ۔ ان دونوں کے ساتھ تیسرا نہیں تھا ۔ معنیٰ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کی مدد کی درآں حالیکہ وہ سوائے ابوبکر کے سب سے منفرد تھے ۔ اور جبل میں ایک بڑا شگاف تھا ۔ اس سے مراد غار ثور ہے جو کے مکہ کے پہاڑ میں ہے ۔ جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھی سے کہ رہے تھے کہ غم نہ کھا نہ خوف کر اللہ ہمارے ساتھ ہے
تفسیر مجمع البیان الطبرسی ص 504 تحت آیت غار پ10 طبع قدیم ایران
شیعہ کے شیخ الطائفہ ابو جعفر الطوسی اپنی تفسیر امالی میں حضرت انس بن مالک کی روایت نقل کرتے ہیں
قال لما توجد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی الغار ومعہ ابوبکر ۔ ۔ الخ
یعنی انس بن مالک کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غار کی طرف متوجہ ہوؤئے تو ان کے ساتھ ابوبکر تھے ۔ اس پر نبی اکرم نے حضرت علی کو حکم دیا کہ ان کے بستر پر سو جائیں اور آپ کی چادر اوڑھ لیں
امالی للشیخ الطوسی ص 61 ج 2 طبع نجف اشرف
شیخ طوسی واقعہ ہجرت کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آگے چل کر لکھتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر چلے گئے تو ہند (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب تھے عنی حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے پہلے شوہر سے فرزند)اور حضرت ابوبکر کے پاس جا پہنچے ۔ اور انہیں اٹھایا اور وہ دونوں آنجناب صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے حتیٰ کہ یہ سہ حضرات غار تک جا پہنچے اس کے بعد ہند مکہ کی طرف واپس آگیا ۔ اس لئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسکو واپسی کا حکم دیا ۔ اور خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر غار میں داخل ہو گئے
امالی للشیخ الطوسی ص 81 ج 2 طبع نجف اشرف