Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سوانح سیده زینب رضی اللہ عنہا بنت رسولﷺ

  مولانا محمد نافع

سوانح سیده زینب رضی اللہ عنہا بنتِ رسولﷺ

 سردارِ دو عالمﷺ کی چاروں صاحبزادیوں میں سب بڑی صاحبزادی سیدہ زینبؓ ہیں اور ان کی والدہ محترمہ کا نام سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ بنتِ خویلد بن اسد ہے ۔ 

 ولادت با سعادت

نبی اقدسﷺ کے ساتھ خدیجہ الکبریٰؓ کی ترویج قبل از اسلام کے دستور کے مطابق ہوئی تھی اور بعض تذکرہ نوسیوں کے قول کے مطابق اس بابرکت نکاح کے پانچ برس کے بعد سیدہ زینبؓ کی ولادت باسعادت ہوئی اور سردار دو عالمﷺ کی عمر مبارک اس وقت تیس برس کے قریب تھی۔ ظہورِ اسلام کے وقت سیدہ زینبؓ کی عمر قریباً دس سال کو پہنچ چکی تھی اعلانِ نبوت کے بعد سب سے پہلے سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ مشرف باسلام ہوئی تھیں۔ اور ان کے ساتھ ساتھ آنجنابﷺ کی اولاد بھی اسلام میں داخل ہوئی۔ اولاد کے رحجانات اور خیالات پر فطری طور پر ماں زیادہ اثر انداز ہوتی ہے سو ان سب صاحبزادیوں کا ابتداء سے ہی اسلام سے مشرف ہونا از خود واضح ہے اور اصولِ فطرت کے مطابق ہے۔ 

علماء فرماتے ہیں کہ سیدہ زینبؓ نے اسلام کے دور کو پایا اسلام لائیں اور پھر جب ہجرت کا دور آیا تو انہوں ہجرت کی ہجرت کا واقعہ اپنی جگہ پر آئے گا بڑی اولاد سے جو فطری موانست ہوتی ہے وہ کسی سے چھپی نہیں رسول خداﷺ اپنی اس بڑی صاحبزادی کے ساتھ خصوصی محبت فرمایا کرتے تھے یہ چیز ابنِ عبدالبر نے بھی ذکر کی ہے اور محب الطبری کی کتاب "زخائر العقبٰی" میں بھی ہے اور الشیخ حسین دیار البکری "تاریخ الخمیس" میں بھی اسی طرح لکھتے ہیں۔ 

 "عبيد الله بن محمد بن سليمان الهاشمي يقول ولدت زينب بنتِ رسولﷺ فى سنة ثلاثين من مولد النبیﷺ وادركت الاسلام واسلمت وهاجرت و كان رسولﷺ محباً فيها "

 [¹· ذخائر العقبٰی صفحہ 156 از المحب الطبري-

 تحت الفصل الرابع فی ذكر زینب، ابنتہ رسولﷺ

²· الاستيعاب لابن عبد البر صفحہ305 جلد4 تحت بنتِ رسول اللهﷺ

³· تاريخ الخمیس للشیخ الدیار بکری صفحہ 273جلد1] تحت ذکر زینبؓ۔

 نکاحِ زینب رضی اللہ عنہا کے متعلق روایت

 بعض روایات میں سیدہ عائشہؓ سے منقول ہے وہ فرماتی ہیں کہ ابو العاص بن ربیع ( بن عبدالعزیٌ بن عبد الشمس بن عبد مناف ) مکہ شریف میں ان لوگوں میں شمار ہوتے تھے جو صاحبِ مال تھے اور صاحبِ تجارت تھے اور کردار کے اعتبار سے) صاحبِ امانت بھی تھے سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ نے رسالت مآبﷺ سے گزارش کی کہ زینبؓ کا نکاح ابو العاصؓ سے کر دینا چاہیے اور رسالت مآبﷺ سیدہ خدیجہؓ کی کسی معاملہ میں مخالفت نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ ان کی رائے کو تسلی کر لیتے تھے سو اس تجویز پر سیدہ زینبؓ کا نکاح ابو العاصؓ کے ساتھ کر دیا گیا اس روایت کے اعتبار سے یہ واقعہ نزولِ وحی سے پہلے پیش آیا جب اللہ تعالیٰ نے آنجنابﷺ کو اعلانِ نبوت کا حکم دیا تو سیدہ خدیجہؓ ایمان لائیں اور آپ کی صاحبزادیاں بھی ساتھ ہی ایمان لائیں ۔ 

عن عائشة رضى الله عنها قالت كان ابو العاص ابيع من رجال مكة المعدودين مالاً وتجارة و امانةً فقالت خديجة الرسول اللهﷺزوجه وكان رسول اللهﷺ لا يخالفها وذالك قبل أن ينزل عليه الوحى فزوجه زينب فلما اكرم الله نبيهﷺ بنبوتهٖ امنت خديجة وبناته

[¹· ذخائر العقبٰى صفحہ 157 از المحب الطبري 

تحت ذکر تزویجھا زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ)

 ²· البدايه لابن كثير صفحہ311 جلد 3 طبع اول فصل في وصول خبر مصائب اہلِ بدر 

³· سیرت ابنِ ہشام صفحہ 652,651 جلد اول تحت سبب زواج ابی العاص من زينبؓ ]

1_ ابو العاصؓ کا پورا نام بعض نے لقیط ذکر کیا ہے اور بعض نے مقسم وغیرہ لکھا ہے اور سلسلۂ نسب اس طرح ہے ابو العاص بن ربیع بن عبدالعزىٰ بن عبد الشمس بن عبد مناف یعنی ابو العاصؓ کا نسب چہارم پشت میں رسالت مآبﷺ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ سے مل جاتا ہے ۔ ابو العاصؓ کی وفات کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ خلافتِ صدیق اکبرؓ ذو الحجہ سن 12ہجری میں ہوئی اور بعض علماء نے کہا ہے کہ ابو العاصؓ یوم الیمامہ میں شہید ہوئے تھے۔ 

2_ ابو العاصؓ سیدہ خدیجہؓ کے خواہر زادے ہیں یعنی ان کی والدہ کا نام ہالہ بنتِ خویلد بنی اسد ہے جو سیدہ خدیجہ ؓ کی حقیقی بہن ہیں اور خدیجہؓ ابو العاصؓ کی خالہ ہیں۔

 3_ ابو العاصؓ صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے خالہ زاد بھائی ہیں اور نبی اقدسﷺ کے بڑے باوفا اور باوقار داماد ہیں چنانچہ (ان کی وفا کے متعلق ان شاء اللہ آگے ذکر آئے گا)

 4_ سیدہ زینبؓ اور سیدہ فاطمہؓ چونکہ آپس میں حقیقی بہنیں ہیں اس بنا پر سیدنا علی المرتضیٰؓ اور ابو العاصؓ آپس میں ہم زلف ٹھہرے اور اس با عزت رشتہ داری میں باہم منسلک ہوئے۔

 5_ ابو العاصؓ بن ربیع جس طرح نبی کریمﷺ کے داماد ہیں اسی طرح سیدنا علی المرتضیٰؓ ابو العاصؓ بن ربیع کے داماد ہیں (کتاب المجر صفحہ99) 

6_ سیدہ فاطمہؓ نے اپنے انتقال سے قبل سیدنا علیؓ کو وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد اگر آپ نکاح کریں تو میری خواہر زاڈی یعنی امامہ بنتِ ابی العاص کو نکاح میں لانا چنانچہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اس وصیت کے مطابق عمل کیا اور امامہ بنت ابی العاصؓ کو نکاح میں لائے اس کا مزید تذکرہ حسبِ موقع ان شاء اللہ آئے گا۔

 7_ ابو العاصؓ بن ربیع سیدنا علی المرتضیٰؓ کے سسر ہیں اور سیدہ زینبؓ اس رشتہ کے بعد سیدہ علیؓ کے لئے خوش دامن بنیں۔ یہ رشتہ داری کے تعلقات ان حضرات کے درمیان وقتی نہیں دائمی تھے۔

 ناظرین کرام کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ہم نے سیدہ زینبؓ اور سیدنا ابو العاصؓ دونوں کا اجمالی تذکرہ رحماء بينهم حصہ صدیقی کے صفحہ 166,167 پر پہلے بھی کر دیا تھا اور یہاں پھر سوانح زینبؓ کے سلسلہ میں ہو رہا ہے۔ 

8_ ابو العاصؓ جب ہالہ بنتِ خویلد کے فرزند ٹھہرے اور ان کے ساتھ سیدہ زینبؓ کا نکاح ہوا تو معلوم ہوا کہ سیدہ زینبؓ کے بنتِ ھالہ ہونے کی روایت سراسر غلط ہے کیونکہ اس صورت میں یہ بہن بھائی کا نکاح ہو گا جس کی اجازت کسی دین و مذہب میں نہیں ہے۔

ابتدائی دورِ نبوت میں صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کی خدمات

سردارِ دوعالم ﷺنے قوم کو جب دعوتِ دین دینا شروع کی اور قومِ قریش کو اسلام کی طرف بلایا تو وہ لوگ سخت برہم ہوئے اسلام کی دعوت زبان سے سننے کے لیے وہ ہر گز آمادہ نہیں تھے اور آنجنابﷺ کی ایذاء رسانی میں پیش پیش تھے۔ چنانچہ اس دور کا ایک واقعہ حدیث شریف کی کتابوں میں منقول ہے جس سے سیدہ زینب کی خدمات نمایاں ہوتی ہیں۔ 

علامہ الہیثمی نے طبرانی کے حوالہ سے الحارث بن الحارث کی زبانی نقل کیا ہے کہ وہ اپنے باپ حارث کے ساتھ ایک دفعہ مکہ شریف میں پہنچا۔ لوگ ایک شخص کے گرد جمع تھے جس کو وہ ”صابی" (نیا دین اختیار کرنے والا) کہتے تھے۔ یہ صاحبِ رسول خداﷺ تھے جو لوگوں کو توحید اور ایمان باللہ کی دعوت دے رہے تھے لیکن لوگ آنجنابﷺ کی بات کو رد کر رہے تھے اور آپﷺ کو ایذاء دینے کے درپے تھے یہ سلسلہ دوپہر تک جاری رہا حتیٰ کہ لوگ آپﷺ سے جدا ہونے لگے اس وقت ایک نو عمر خاتون آئیں جو پریشانی میں دو پٹہ پیچھے ڈالے ہوئے تھیں۔ پانی کا بڑا پیالہ اور ایک رومال اٹھائے ہوئے تھیں یہ چیزیں اس نے آنجنابﷺ کی خدمت میں پیش کیں تو آپﷺ نے پانی نوش فرمایا اور ہاتھ منہ صاف کیا۔ پھر آنجنابﷺ نے نظر اٹھا کر ارشاد فرمایا بیٹی یا دوپٹہ کو سینے پر ڈال لو اور ان حالات میں اپنے والد پر (ہلاکت کا کوئی خوف نہ کرنا ۔(اللہ تعالیٰ حافظ و ناصر ہیں)۔

ہم نے کہا یہ کون خاتون ہیں لوگوں نے جواب دیاکہ یہ آنجنابﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ ہیں۔ 

اس مقام میں واقعہ ہذا کے متعلق حدیث شریف میں متعدد روایات منقول ہیں ان میں سے ایک درست روایت کی اصل عبارت ذیل میں پیش کی جاتی ہے تاکہ اہلِ علم تسلی کر سکیں۔

 عن الحارث بن الحارث قال قلت لابي ما هٰذه الجماعة قال هؤلاء القوم الذين اجتمعوا على صابی لهم قال فنزلنا فاذا رسولﷺ يدعوا الناس إلى توحيد الله عز وجل والايمان وهم يردون عليه ويؤذونهٗ حتىٰ انتصف النهار وانصرع الناس عنه اقبلت امراءةً قد بد انحرها تحمل قدحاً ومنذيلاً فتناوله منها فشرب وتوضاً ثم رفع رأسه فقال يا بنيهٰ خمرى عليك نحرك ولا تنحا فين على ابيكِ قلنا من هذهٖ؟ قالوا هذهٖ زينب بنته

 "رواه الطبرانی ورجالہ ثقات" 

[مجمع الزوائد للہیثمی صفحہ 21جلد سادس كتاب المغازی والسير باب تبلیغ النبیﷺ مارسل بهٖ وصبره علیٰ ذالك]

 واقعہ ہذا سے درج ذیل چیزیں مستفاد ہو رہی ہیں 

دین و اسلام کی ابتدائی مشکلات میں صاحبزادی سیدہ زینبؓ اپنے والد شریف کی معاونت میں ہمہ تن مصروف رہتی تھیں۔ اور اپنی استطاعت کے مطابق مقدور بھر خدمات سرانجام دیتی تھیں۔ اس دور میں پیغمبر اسلامﷺ کے ساتھ ادنیٰ تعاون بھی کوئی سہل کام نہ تھا، بلکہ اپنی جان کو خطرات میں ڈالنا تھا ۔

اور ان جاں گداز مراحل میں ہلاکتِ نفس کے خطرات سے آنجنابﷺ عزیزو کو بڑی شفقتوں کے ساتھ تسلی دلاتے کے ہمیں اس کا کوئی خوف و ہراس نہیں اللہ تعالیٰ ہمارا حافظ و ناصر ہے دین کے دشمن لوگ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے یہ دور جس طرح خدا کے آخری رسولﷺ کے لیے دشوار تر اسی طرح ان کی اولاد شریف اور دخترانِ عزیز کے حق میں بھی مشکل ترین تھا۔

 نامساعد حالات میں بھی دینِ حق کی حمایت میں ان معصومات طاہراتؓ کا کوشاں رہنا اور اسلام کے فروغ میں معاونت جاری رکھنا، ان کے دینی معیار و کردار کا اعلیٰ نمونہ ہے جو تمام امت کی مسلم خواتین کے لیے قابل رشک مغل اور لائق تقلید عمل ہے ۔ 

یاد رہے کہ اسی نوعیت کا ایک واقعہ سیدہ فاطمہؓ کے متعلق بھی محدثین نے ذکر کیا ہے ۔ جو اپؓ کے حالات میں ان شاء اللہ تعالیٰ درج کیا جائے گا ۔

 واقعہ شعب ابی طالب میں جناب ابو العاصؓ کی مخلصانہ خدمات ( شیعہ کی کتاب سے)

 سیرت نگار علماء نے شعب ابی طالب کے واقعات کے تحت لکھا ہے کہ: ابو العاصؓ بن ربیع، جو آنحضرتﷺ کے داماد تھے ، گھاٹی میں محصور حضرات کے فقروفاقہ کی تنگی کے موقعہ پر ان کی نصرت اور امداد کے لیے گندم اور خرما سے لدے ہوئے شتر لاتے تھے اور انہیں گھاٹی کے دہانہ پر ایک آواز دے کر چھوڑ دیتے تھے۔ تا کہ وہ گھاٹی میں داخل ہو سکیں اور خود وہاں سے واپس آجاتے تھے ۔ اسی طرح محصور حضرات کی جناب ابو العاصؓ خیر خواہی کرتے تھے اور خوراک پہنچانے کا انتظام کرتے تھے۔ اسی بنا پر سردارِ دوجہاںﷺ فرماتے تھے ابو العاصؓ نے ہماری دامادی کی بہترین رعایت کی ہے اور اس کا حق ادا کیا ہے۔ اس واقعہ کو شیعہ کے متعدد علماء نے اپنی تصانیف میں ذکر کیا ہے۔ ذیل میں ملا باقر مجلسی کی تصنیف "حیات القلوب" سے اس واقعہ کی اصل عبارت پیش کی جاتی ہے۔

"و ابو العاص بن ربیع که داماد رسولﷺ بود بردر شعب اشترمےآورد که گندم وخرمابر آنها بار کرده بود صدامیزد برآن شتراں که داخل وره میشدند و برمے گشتند. لہٰذا حضرت فرمود کہ ابوالعاص حق دامای مارا نیکورعایت کرو"

 [حیات القلوب صفحہ337 جلد ثانی فارسی مطبوعہ نول کشور لکھنؤ تحت باب بست وششم (26) دربیان دخول شعب ابی طالب]

اسی طرح شیخ عباس قمی نے اس واقعہ کو بعارت ذیل نقل کیا ہے: 

"واز کسانیکہ گاہے برائے آنہا خوردنی مے فرستاد ابوالعاص بن الربیع داماد پیغمبرﷺ و ہشام بن عمرو و حکیم بن حزام بن خویلد برادرزاده خدیجه بود و نقل شده که ابوالعاص شتران از گندم و خرما حمل داده بشعب مے بردور ہامے کرد۔ و ازینجا است که حضرت پیغمبرﷺ فرموده که ابو العاص حق دامادی ما بگذاشت "

[منتهی الآمال از شیخ عباس القمی صفحہ 49 جلد 1 و طبع تہران تحت احوال شعب ابی طالب]

 یعنی شیخ عباس قمی نے حوالہ مذکورہ بالا میں مزید یہ بات واضح کردی کہ شعب ابی طالب میں محصور حضرات کے لیے خوراک پہنچانے کا انتظام کرنے والوں میں ایک ابو العاصؓ بن ربیع بھی تھے جو دامادِ پیغمبرﷺ ہیں۔ دوسرے ہشام بن عمروؓ تھے اور تیسرے شخص حکیم ابنِ حزام بن خویلد تھے جو سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے برادرزاہ تھے - 

مختصر یہ کہ نبی اقدسﷺ اور دیگر محصور حضرات بنی ہاشم کے حق میں ابوالعاصؓ بن ربیع نے اس مشکل ترین دور میں خصوصی اعانت کی تھی اور حق قرابت داری کو بطریقہ احسن سرانجام دیا تھا۔ یہ چیز ابوالعاصؓ کے اخلاص اور اعلیٰ کردار کی دلیل ہے اور مواساة و جذبہ غم خواری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ اس واقعہ کو ابو العاصؓ کے خصوصی کارناموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

 اسی مضمون کو شیعہ کے مشہور عالم ملا باقر مجلسی نے اپنی تصنیف "مرأة العقول" شرح اصول صفحہ 183 جلد خامس5 میں تحت باب مولد النبیﷺ (طبع تہران) درج کیا ہے۔

شعب ابی طالب میں حکیم بن حزامؓ کا تعاون

 اس مضمون کو ابنِ کثیرؒ نے البدایہ والنہایة کے صفحہ 68 جلد ثامن تحت حکیم بن حزامؓ سن54 ہجری (طبع مصر) بعبارت ذیل نقل کیا ہے :

" كان حكيم بن حزام ، يقبل بالعير يقدم من الشام فيشتريها بكما لها بها ثم یذھب بھافيضرب ادبارها حتى يلج الشعب يحمل الطعام و الكسوة تكرمة الرسول اللهﷺ ولعمته خدیجة بنت خویلد"

 قوم کی طرف سے طلاق دلانے کا منصوبہ اور ابو العاصؓ کا صاف انکار

 نبی اقدسﷺ نے مکی زندگی میں بڑے ابتلا اور آزمائش کا دور گزارا ہے سب اہلِ مکہ اور مضافات کے قبائل سب اسلامی تعلیم کے خلاف تھے۔ توحید اور رسالت کے مسائل سننے اور سمجھنے کے لئے یہ معاشرہ ہرگز تیار نہ تھا۔ اور اپنے پرائے جو اسلام میں داخل نہیں ہوتے تھے، مسلمانوں سے سب انتہائی بغض رکھتے تھے) اسلام اور اہلِ اسلام کے ساتھ عداوت انتہاء تک پہنچی ہوئی تھی اس انتہائی مشکل ترین دور میں جہاں آنجنابﷺ نے اسلامی تعلیم کی مساعی جاری رکھیں اور ترویج دین کی کوشش فرماتے رہے وہاں آپ معاشرتی مسائل کو بھی نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیتے رہے۔ آنجنابﷺ نے عرب کے عام دستور کے مطابق اپنی صاحبزادیوں کے نکاح اپنی قوم اور قبیلہ میں کر دیئے تھے۔ اہلِ مکہ کی اسلام کے ساتھ مخالفت انہوں نے ہر معاملے میں مشکلات کھڑے کرنے کا نصب العین بنا لیا حتیٰ کے ازواجی مسائل میں بھی انہوں نے مخالفت کی راہ اختیار کی اور نبی کریمﷺ کی صاحبزادیوں کے نکاح جن لوگوں سے ہو چکے تھے ان سے نکاح ختم کروانے اور طلاق دلوانے کا عزم کر لیا۔

 نبی اکرمﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کا نکاح ابو العاصؓ بن ربیع سے ہو چکا تھا۔ زعماء قوم قریش نے ابو العاصؓ کو اس سلسلہ میں جاکر مجبور کیا کہ آپ زینبؓ بنتِ محمدﷺ کو طلاق دے دیں اور قبیلہ قریش میں سے جس عورت کے ساتھ نکاح کرنا چاہیں ہم وہ عورت پیش کر سکتے ہیں۔ ابو العاصؓ نے جواب دیا کہ میں اپنی بیوی زینبؓ کو طلاق دے کر اپنے سے جدا نہیں کر سکتا اور اس کے عوض میں قریش کی کسی عورت کو پسند نہیں کرتا اور نہ ہی کوئی قریش کی کوئی عورت اس کے عوض میں مجھے مطلوب ہے۔

" فلما نادى قريشاً بامر الله تعالى اتوا ابا العاص بن ربيع فقالوا فارق صاحبتك ونحن نتزوجك بای امراة شئت من قريش فقال لا والله لا افارق صاحبتي وما يسرني ان لى بأمراتى افضل امرأة من قريش"

[¹· ذخائر العقبٰی صفحہ 157 تحت ذکر تزویجها زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ)

 ²· البدايه لابن كثير صفحہ311 جلد 3 فصل في وصول خبر مصائب اہلِ بدر۔

 ³· تاريخ الخميس للديار السكرى صفحہ 273 جلد1 تحت ذکر زینبؓ]

 ابو العاصؓ کا قرابتداری میں کامل اخلاص اور آنجنابﷺ کی طرف سے انکی قدردانی

 ابو العاصؓ بن ربیع نے اس موقع پر اپنی ثابت قدمی کا پورا مظاہرہ کیا اور قریش نے بھی نبی اقدسﷺ کے ساتھ اس رشتے کو ختم کرانے کے لئے پوری قوت صرف کی ابو العاصؓ قابل صد مبارکباد ہیں کہ وہ ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے اور انہیں قومِ قریش کے مسلک پر تھے اس کے باوجود جب قوم نے مسئلہ طلاق اور تفریق بین الزوجین پر زور دیا تو آپ نے رسالت مآبﷺ کے ساتھ رشتہ داری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے یہ جواب دیا :

 قال لا والله اذن لا افارق صاحبتي له

[ البدایہ لابن کثیر صفحہ 311,312جلد 3 تحت فصل وصول خبر مصائب لاہلِ بدر]

 یعنی اللہ کی قسم میں اپنی بیوی سیدہ زینبؓ سے ہرگز جدا نہیں ہو سکتا"

 ابو العاصؓ کا یہ استقلال بہت قابلِ قدر ہے۔ اور رسالتِ مآبﷺ کی ابو العاصؓ نے نہایت قدردانی کی ہے اور آنجنابﷺ کے ساتھ برادرانہ قرابتداری کو خلوص کے ساتھ قائم رکھا ہے۔ اور سردارِ دو عالمﷺ نے بھی اس مسئلہ میں اس کی شکر گزاری اور قدر دانی کو عمدہ الفاظ کے ساتھ سراہا ہے اور اس مسئلہ میں ابو العاصؓ کے حق میں ثناء خیر بیان فرمائی آنجنابﷺ سے یہ فرمودات اسی موقع پر صادر ہوئے تھے جب قریش نے سیدہ زینبؓ کی طلاق طلب کی تھی اور ابو العاصؓ نے ان کو طلاق دینے اور اپنے سے جدا کر دینے سے انکار کر دیا تھا۔ علمائے سیرة نگار اس موقع پر ابو العاصؓ کے حق میں لکھتے ہیں: 

 "وكان ابو العاص بن ربيع مواخيا لرسول الله ﷺ مصافيا له وكان ﷺ قد شكر مصاهرة واثنى خيرا حين ابی ان يطلق زينب لما سألته قريش ذالك"

[¹· ذخائر العقبة منها تحت ذكر السلام زوجها ابى العاصؓ 

²· البدايه والنہايه لابن كثير صفحہ311، 312 جلد3 تحت فصل وصول خبر مصائب اہلِ بدر]

 مکّی زندگی کا آزمائشی دور

 اہلِ مکہ کی طرف سے جب مسلمانوں کے حق میں عداوت شدت اختیار کر گئی تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے نبی اقدسﷺ کے اذن سے مسلمان مدینہ شریف کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ اور حسبِ اتفاقات، یہ ہجرت جاری رہی پھر فرمان الہٰی نبی کریمﷺ نے بھی ہجرت فرمائی۔ ہجرت کے بعد اسلام کا ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ مدینہ شریف پہنچ کر مالک کریم کی طرف سے کفار کے ساتھ قتال کرنے کی اجازت مل گئی مدنی زندگی میں اسلام اور کفر میں بڑا مقابلہ رہا بڑی بڑی جنگیں لڑیں گئیں۔ ایک مشہور جنگ غزوۂ بدر کے نام سے معروف ہے۔ اس میں قریشِ مکہ اپنی پوری تیاری سے اہلِ اسلام کے مقابلے کے لئے بدر میں پہنچے تھے اور ادھر اہلِ اسلام مدینہ شریف سے سردارِ دو عالمﷺ کی قیادت میں تھے میدانِ جہاد پہنچے غزوۂ ہذا (بدر ) کی تفصیلات عام اہلِ علم کو معلوم ہیں یہاں ان کے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں اس جگہ صرف ایک واقعہ جو ابو العاصؓ اور سیدہ زینبؓ سے متعلق ہے وہ ذکر کیا جاتا ہے۔

سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ہار کا واقعہ

جنگِ بدر میں جب اہلِ اسلام کو فتح ہو گئی تو جنگی قاعدہ کے مطابق شکست خور کفار کو اہلِ اسلام نے قید کر لیا اور قیدیوں کو حسبِ دستور مرکزِ اسلام مدینہ میں لایا گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے یہ فیصلہ ہوا جو لوگ بدر میں قید کر کے یہاں لائے گئے ہیں ان سے معقول معاوضہ لے کر انہیں رہا (آزاد) کیا جائے۔ اس سلسلہ میں ابو العاصؓ ابن ربیع بھی مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہو کر مدینہ میں آئے ہوئے تھے اور عباس بن عبد المطلب عمِّ نبوی بھی اس زمرہ میں قید ہو کر مدینہ شریف پہنچے ہوئے تھے۔ یاد رہے کہ جناب عباس بن عبد المطلب و ابو العاصؓ و غیرہما ایسے حضرات تھے جو اپنی قوم کی مجبوری کی بنا پر کفار کے ساتھ آ گئے تھے لیکن انہوں نے اہلِ اسلام میں سے کسی کو قتل نہیں کیا تھا تاہم ان کا شمار زمرہ مخالفین میں ہی تھا۔ پھر اہلِ مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کو خلاص اور واگزار کرانے کے لئے فدیے اور معاوضے بھی مدینہ طیبہ ارسال کیئے تھے۔ اس ضمن میں ابو العاصؓ کی رہائی کے لئے سیدہ زینبؓ نے اپنا وہ ہار جو ان کو ماں خدیجہؓ کی طرف سے عطا شدہ تھا، ابو العاصؓ کے فدیہ کے طور پر ارسال کیا۔ مدینہ شریف میں یہ فدیے اور معاوضے رسالت مآبﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیے گئے اور ابو العاصؓ کا معاوضہ سیدہ زینبؓ کی طرف سے ہار کی شکل میں پیش ہوا اور رسالت مآبﷺ نے اس پر نظر فرمائی تو آنجنابﷺ پر (بلا اختیار) رقت کی کیفیت طاری ہو گئی۔ اور اس کو دیکھ کر سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کے دور کی یاد تازہ ہو گئی۔ نبی کریمﷺ کی اس کیفیت کے اثر میں تمام اہلِ مجلس متاثر ہوئے آنجنابﷺ نے اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو ارشاد فرمایا اگر تم ابو العاصؓ کو رہا کرو اور زینبؓ کے اس ہار کو جو ان کے عوض میں انہوں نے ارسال کیا ہے واپس کر دو تو تم ایسا کر سکتے ہو اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ کا ارشاد درست ہے ہم ابو العاصؓ کو بلاعوض خلاص کرتے ہیں اور زینبؓ کے ہار کو واپس کرتے ہیں۔ اس موقع پر سردارِ دو جہاںﷺ نے ابو العاصؓ سے عہد لیا اور وعدہ لیا تھا کہ جب آپ مکہ میں واپس پہنچیں تو سیدہ زینبؓ کو ہمارے ہاں پہنچنے کی اجازت دے دیں۔ ابو العاصؓ نے یہ عہد کر لیا چنانچہ ابو العاصؓ کو بلا معاوضہ رہا کر دیا گیا۔ اور سیدہ خدیجہؓ والے ہار کو بھی سیدہ زینبؓ کی طرف واپس بہیج دیا گیا یہ واقعہ متعدد کبار محدثین اور مشہور اہلِ سیرت وتاریخ نے اپنے اپنے انداز میں ذکر کیا ہے۔ یہاں چند حوالہ جات نقل کیئے جاتے ہیں پہلے سنی علماء کے حوالہ جات درج ہیں پھر ساتھ ہی شیعہ علماء کی عبارت بطور تائید کے نقل کر دی ہے۔

"عن عائشةرضی اللہ عنہا قالت لما بعث اهل مكة في فداء اسرائهم بعثت زينب في فداء إبى العاص بمال وبعثت فيه بقلادة كانت خديجةؓ ادخلتها بها على أبي العاص حين بنا عليها فلما رأها رسول اللهﷺ رق لها رقة شديدةً وقال ان رأيتم ان تطلقوا لها أسيرها و تردوا عليها الذي لها فافعلوا! قالوا نعم يا رسول الله فأطلقوه وردوا عليها الذي لها وكان رسول اللهﷺ قد اخذ عليه اووعد رسولﷺ ان يخلى زينب اليه"

 [¹· دلائل النبوة للبيهقى صفحہ 423 ،424,جلد2

 تحت باب ما جاء فى زينبؓ بنتِ رسول اللهﷺ

 ²· مسند احمد بن حنبل صفحہ 276, جلد6 ( سادس) تحت مسندات عائشہؓ 

³· ابو داؤد شریف صفحہ 367 جلد 2 طبع مجتبائی دہلی باب فی قداء الاسير بالمال.

⁴· مشکٰوة شريف صفحہ 346 عن عائشهؓ باب حکم الاسراء الفصل الثانی بحوالہ احمد وابی داؤد 

⁵· البدايه والنہايه لابن كثير صفحہ 312 جلد 3 فصل في وصول خبر مصائب اہلِ بدر]

 اور شیعہ علماء لکھتے ہیں

 " ابو العاص در جنگ، بدر اسیر شد و زینبؓ قلاده که حضرت خدیجه رضی اللہ عنہا باد داده بود بنیز دحضرت رسول اللہﷺ فرستاد برائے فدائے شوہر خود چوں حضرت، نظرش بر قلاده افتاد خدیجه رضی اللّٰہ عنہا را یا نمود و رقت کرد و از صحابه طلب نمود که فدائے او را بخشند و ابو العاص را بے فدا رہا کنند. صحابه چنین کردند۔ حضرت از ابو العاص شرط گرفت که چوں بمکه برگرد و زینب رضی اللہ عنہارا بخدمت آنحضرت فرستد - او شرط خود و فا نمود زینبؓ را فرستد بعد ازاں خود بمدینه آمد و مسلمان شد(1)"

[حواشی منتهی الآمال طبع طہران صفحہ 108 جلد1 فصل ہشتم از شیخ عباس القمی

  در بیان احوال اولاد امجاد آنحضرتﷺ است]

ترجمہ

ابو العاصؓ غزوۂ بدر میں قید ہو گئے تو سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر (ابو العاصؓ) کے فدیہ میں اپنے والد ماجد رسول مقبولﷺ کی خدمت میں وہ ہار بھیجا جو انہیں ان کی والدہ سیدہ خدیجہؓ نے عطا فرمایا تھا۔ حضورﷺ نے ہار دیکھا تو خدیجہؓ کی یاد تازہ ہو گئی اور جسم اطہر پر رقت کی کیفیت طاری ہو گئی آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے خواہش ظاہر کی کہ وہ ابو العاصؓ کو بغیر فدیہ کے رہا کر دیں چنانچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایسے ہی کیا ۔ آپﷺ نے ابو العاصؓ سے عہد لیا کہ وہ مکہ جا کر سیدہ زینب رضی اللّٰہ عنہا کو آپﷺ کے پاس مدینہ منورہ میں بہیج دیں گے۔ ابو العاصؓ نے اس شرط کو پورا کیا۔ مکہ جا کہ زینبؓ کو بھیج دیا بعد میں خود بھی مدینہ پہنچ کر مسلمان ہو گئے۔ اب یہ صورت پیش آئی کہ ابو العاصؓ کو مذکورہ وعدہ لینے کے بعد رہا کر دیا گیا اور ساتھ ہی سیدہ زینبؓ کے ہار کو واپس کر دیا گیا۔ چند ایام کے بعد سیدہ زینبؓ کو لانے کے لئے سردارِ دو عالمﷺ نے زید بن حارثہؓ اور ایک انصاری کو روانہ فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ فلاں وادی کے فلاں مقام میں جا کر انتظار کرنا بعض محدثین کہتے ہیں کہ اس وادی کا نام یأجج تھا۔ان کو فرمان تھا کہ اس وادی کے پاس زینبؓ پہنچیں گی تم ان کے ساتھ ہو لینا اور یہاں مدینہ میں لا کر ہمارے ہاں پہنچا دینا۔

 و بعث رسولﷺ زيد بن حارثة و رجلاً من انصار فقال كونا ببطن يأجج حتٰى تمربكما زينبؓ فتصحباها حتٰى تاتيا بها -

[¹· ابو داؤد شریف صفحہ 367 جلد2 تحت في نداء الاسير بمال

 ²· طبقات ابنِ سعد صفحہ 20 جلد81 تحت ذکر زینبؓ]

 مقامِ غور

 بیٹی سوتیلی ہو تو اسے رشتہ اور میکہ داری کا تعلق بیوی (اس کی ماں) کی زندگی تک ہوتا ہے مذکورہ واقعہ اس دور کا ہے جب سیدہ خدیجہؓ وفات پا چکی تھی اس کے بعد حضورﷺ وطن بھی چھوڑ چکے تھے اب اس حال میں سیدہ زینبؓ کی واپسی اور مدینہ میں ان کی طلب ماں کی مامتا کے وراء باپ کا جذبہ شفقت پدری ہے اگر زینبؓ سیدہ خدیجہؓ کے پہلے خاوند کی بیٹی ہوتیں تو حضور انہیں ان بدلے حالات میں ہر گز مدینہ میں طلب نہ فرماتے۔

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی ہجرت کا واقعہ اور ہبار بن اسود کی ایذا رسانی

ابو العاصؓ بن ربیع رہا ہو کر جب مکہ پہنچ گئے سیدہ زینبؓ کو تمام احوال ذکر کیئے اس وقت ابو العاصؓ نے سیدہ زینبؓ کو بطبیبِ خاطر کہ دیا کہ میری طرف سے اجازت ہے آپ بخوشی اپنے والد شریف کے ہاں جا سکتی ہیں۔ سیدہ زینبؓ سفرِ ہجرت کی تیاری میں لگ گئیں۔ جب تیاری سے فارغ ہوئیں اور وعدہ کے ایام بھی آ گئے تو ابو العاصؓ نے اپنے بھائی کنانہ بن ربیع کی نگرانی میں ان کو رخصت کیا سیدہ زینبؓ اونٹ پر سوار ہوئیں اور کنانہ نے اپنی قوس اور فردکش وغیرہ کو بھی ساتھ کیا کنانہ آگے آگے ساتھ چل رہا تھا اور سواری کو کھنچے لئے جارہا تھا سیدہ زینبؓ سواری کے اوپر کجاوہ میں فروکش تھیں اس دوران اہلِ مکہ کو اطلاع ہو گئی کہ زینبؓ ہجرت کیئے جا رہی ہیں (یہ دن کا واقعہ تھا، جب وادی ذی طویٰ کے پاس سیدہ زینبؓ پہنچی ہیں تو مکہ والے پیچھے سے معارضہ کے لئے آ پہنچے۔ پہلا وہ شخص جو سبقت کرتے ایذاء پہنچانے کے لئے درپے ہوا۔ ہبار بن اسود تھا۔ اس نے نیزہ لگایا سیدہ زینبؓ ہودج (کجاوہ) میں تھیں اور امید سے تھیں۔ مؤرخین کہتے ہیں کہ سیدہ زینبؓ کو سواری سے گرا دیا گیا۔ آپ چٹان پر گر گئیں۔ سخت چوٹ آنے کی وجہ سے خون جاری ہو گیا اور بہت مجروح ہو گئیں۔ اس وقت کنانہ نے اپنا ترکش کھول دیا اور معارضہ کرنے والوں پر تیر اندازی شروع کر دی۔ اور کہا جو بھی قریب آئے گا۔ اس کو تیروں سے پرو دیا جائے گا۔ تب وہ کہیں معارضہ سے نرم پڑے اور ہٹنے لگے۔ 

وكان أول من سبق اليها هبار بن الاسود بن المطلب بن اسد ابنِ العزىٰ الفهري فروعها هبار بالرمح وهي في الهودج وكانت حاملا فيما يزعمون فطرحت برك حموها كنانة ونثر كنانة ثم قال والله لايد نوا منى رجل الا وضعت فيه سهما فتكر كر الناس عنه

¹· ہباربن اسود کے متعلق حافظ ابنِ حجرؒ نے الاصابہ میں لکھا ہے کہ ہبار نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور توحید ورسالت کا اقرار کیا اس کے بعد اس نے اپنے سابقہ جرائم اور معاصی کی بھی معذرت پیش کی اور اپنی جہالتوں کا اقرار کر کے معافی طلب کی۔ جناب نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ۔

 قد عفوت عنك وقد احسن اليك حيث هداك الى الاسلام والاسلام يجب ما قبله

 [ الاصابة صفحہ 566جلد3 تحت ہباربن اسود]

یعنی میں نے تجھ کو معاف کر دیا تحقیق اللہ تعالیٰ نے تیرے ساتھ عمدہ معاملہ کیا ہے اس طور پر کہ اس نے تجھے اسلام کی ہدایت دی ہے اور اسلام گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ 

[¹· البدايه والنہايه صفحہ 330جلد3

 فصل فی قدوم زینبؓ بنتِ رسول اللهﷺ مہاجرة من مكه الى مدينة

 ²· مجمع الزوائد للهيثمى صفحہ 215 ،216 جلد9 باب ما جاء في فضل في زينبؓ بنتِ رسول الله

 ³· نسبِ قریش صفحہ 219 تذکرہ بن ہبار بن اسود

 ⁴· المنتخب من ذيل المذيل من تاريخ الصحابه والتابعين . از محمد بن جریر الطبری صفحہ3 تحت حالات زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ

اس موقعہ پر سخت مقابلہ پیش آنے کی وجہ سے سیدہ زینبؓ کو واپس ہونا پڑا او کفارِ مکہ سیدہ زینبؓ کے برملا سفرِ ہجرت کو گورا نہیں کر سکتے تھے۔ اس وجہ سے چند راتیں سیدہ زینبؓ اس پیش قدمی سے خاموش ہو گئیں۔ جب اس واقعہ کا چرچا فرد ہو گیا تو سیدہ زینبؓ رات کو اپنے دیور کے ساتھ مکہ سے باہر تشریف لے گئیں ۔ اور زید بن حارثہؓ اپنے ساتھی سمیت جو اس کام کے لئے مستقل طور پر مدینہ منورہ سے آئے ہوئے تھے اور وہ ان کے منتظر تھے ان کے پاس پہنچا دیا گیا پس وہ دونوں سیدہ زینبؓ کو لے کر نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو گئے اور امانت داروں نے آنجنابﷺ کی امانت کو بڑی عزت اور احترام کے ساتھ پہنچا دیا۔

  فاقامت ليال حتى اذا هدأت الاصوات خرج بها ليلا حتى أسلمها إلى زيد بن حارثه وصاحبه فقد ما بها على رسول اللهﷺ

 [¹· البدايه والنہايہ صفحہ330، 331جلد 3

 فصل في قدوم زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ مہاجرة من مكة إلى المدينه]

1_ یعنی زید بن حارثہؓ اور ان کے ساتھی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللّٰہ عنہا کو لے کر آنجنابﷺ کی خدمت میں بخیریت پہنچ گئے۔ اس مقام میں یہ چیز واضح کر دینا مناسب ہے کہ نبی اقدسﷺ نے جب ابو العاصؓ کو بدر کے قیدیوں سے رہا فرمایا تھا اور خدیجہؓ کا ہار بھی واپس کر دیا تھا تو اس وقت ابوالعاصؓ سے وعدہ لیا تھا کہ جب آپ مکہ شریف پہنچیں تو میری لڑکی زینبؓ کو ہمارے ہاں مدینہ طیبہ بھیج دینا۔ ابو العاصؓ نے آپﷺ کی خدمت میں اس وعدہ کو پورا کرنے کا عہد کیا تھا۔ جب ابو العاصؓ مکہ شریف میں پہنچے تو اسی وعدہ کے مطابق وہاں جا کر سیدہ زینبؓ کو مدینہ روانہ کر دیا۔ اس بنا پر نبی اکرمﷺ فرمایا کرتے تھے۔ 

"اني انكحت ابا العاص بن الربيع فحدثنی وصدقنی » ابنِ شہاب کی روایت میں اس طرح ہے کہ مسور کہتا ہے۔ سمعت النبيﷺ ذكر صهرً اله من بنى عبد الشمس فأثنى عليه في مصاهرته اياه فأحسن قال حدثني وصدقني ووعد فی فوقى لى

[¹- بخاری شریف صفحہ 438جلد1 باب ما ذكر من درع النبيﷺ

 ²- بخاری شریف صفحہ 527جلد1 کتاب المناقب تحت اصہار النبیﷺ

 ³- مسند احمد صفحہ 326جلد 4 تحت روایات مسور بن مخرمه]

 مفہوم: عبارت یہ ہے کہ رسول خداﷺ فرماتے تھے کہ ابو العاصؓ ابنِ ربیع کو میں نے نکاح کر دیا اس نے میرے ساتھ گفتگو کی اور راست گوئی کی۔ 

دوسری روایت کا مطلب یہ ہے کہ آنجنابﷺ نے بنی عبد الشمس کے ساتھ اپنے رشتہ (دامادی) کا ذکر فرمایا دامادی کے حق میں اس کی ثنائے خیر فرمائی اور اس کے عمدہ معاملہ کی تحسین فرمائی نیز فرمایا کہ اس نے میرے ساتھ کلام کیا ہے اور سچ کہا ہے اور اس نے میرے ساتھ وعدہ کیا اور اس کو ٹھیک طور پر پورا کر دکھایا۔ مختصر یہ ہے کہ نبی کریمﷺ ابو العاصؓ کے داماد ہونے میں اس کی تعریف فرمایا کرتے تھے اور اس کے ایفائے عہد کی تحسین فرماتے یہ ابو العاصؓ کے حق میں اس کے عملی کردار کی بہت بڑی توثیق اور تصدیق کا پایا جانا کوئی معمولی بات نہیں یہ ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور اس کے عمدہ کردار کی ترجمانی کرتی ہے۔ 

[البداية لابن كثير صفحہ 354جلد6 تحت ابی العاصؓ بن الربيع 2ہجری ]

صاحبزادی سیدہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی ایک عمدہ فضیلت

  جس طرح مسلمان مردوں نے سفرِ ہجرت میں بڑی بڑی اذیتیں اٹھائیں اسی طرح اہلِ اسلام کی عورتیں نے بھی ہجرت کے واقعہ میں مختلف تکالیف برداشت کیں۔ عورت چونکہ صنفِ نازک ہے اور مردوں کی نسبت فطرتاً کمزور اور ضعیف واقع ہوتی ہے وہ معمولی تکلیف میں بھی نہایت پریشان اور خوفزدہ ہو جاتی ہے۔ نبی اقدسﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے سفرِ ہجرت کے درد ناک واقعات اوپر ذکر ہو چکے ہیں ان معصومہ نے یہ مصائب صرف دین کی خاطر برداشت کیئے اور نبی اقدسﷺ کی صاحبزادی ہونے کی وجہ سے ان کو یہ جان گریزاں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہجرت کرتے ہوئے انہیں راستے میں جا کر روکنا اور غیر معمول تشدد کرنا صرف اس لئے تھا کہ آپؓ حضور اکرمﷺ کی صاحبزادی تھیں ورنہ ان معصومہ کا کوئی قصور نہیں تھا نہ ہی وہ کسی جرم کی مرتکب تھیں ان کی یاد اس وقت بنتِ خدیجہؓ کی حیثیت سے نہ تھی بنتِ رسول کی حیثیت سے ان سب مشکلات کا باعث تھی۔ تاہم سیدہ زینبؓ نے یہ تمام مشکل مراحل گزار کر اور مصائب برداشت کر کے جب دربار رسالتﷺ میں پہنچیں اور تمام واقعات گوش گزار کیئے تو نبی کریمﷺ نے اپنی پیاری صاحبزادی کے بارے میں ارشاد فرمایا ۔ 

 هي خير بناتی أصيبت في اور بعض روایات کے اعتبار سے هي افضل بناتی أصببت في

 [¹- مجمع الزوائد للهيثمی صفحی213 جلد9

 باب ما جاء في فضل زينبؓ بنتِ رسول اللهﷺ

²- دلائل النبوة للبيہقى صفحہ 426 جلد 2

باب ما جاء في زينبؓ بنتِ رسول اللهﷺ]

یعنی میری بیٹیوں میں زینبؓ سب سے افضل ہے۔ جو میری وجہ سے مصیبت زدہ ہوئیں اور انہیں اذیت دی گئی۔ آنجنابﷺ کا یہ ارشاد گرامی سیدہ زینبؓ کے سفرِ ہجرت سے بعد کا ہے اور متعدد علماء نے اس کو اپنی تصانیف میں نقل کیا ہے ہم نے بطور اختصار کے صرف دو مصنفین کا حوالہ دیا ہے اطمینان کے لئے اس قدر کافی ہے اس میں آنجنابﷺ نے صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے حق میں ایک بڑی فضیلت کا اظہار فرمایا ہے۔ دینِ اسلام کے معاملہ میں ایمان اور یقین کے اعتبار سے سیدہ زینبؓ کا مقام بہت اونچا ہے جس کی خبر انہیں دربار نبوتﷺ سے بطور خوشخبری کے دی گئی

ناظرین کرام! کی خدمت میں یہ وضاحت ذکر کی جاتی ہے کہ یہ فضیلت جو سیدہ زینبؓ کے لئے رسالت مآبﷺ کی زبان مبارک سے ذکر کی گئی ہے یہ تحمل مصائب اور شدائد کے برداشت کرنے کے پیش نظر ہے۔ اور سیدہ فاطمہؓ کی فضیلت عظیمہ جو زبانِ نبوتﷺ سے ثابت ہے وہ "سیادت" کے بارے میں ہے۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ باپ اپنی جگہ موجود ہے بیٹے سے افضل بھی ہے مگر بعض دوسرے وجوہ کے باعث بیٹا قوم کا سردار ہوتا ہے۔ افضل ہونا اور بات ہے اور سراہنا اور بات ہے آپﷺ کی دونوں بیٹوں کی شان اپنی جگہ مسلم ہے ان کا آپس میں تقابل پیدا کرنا مقصود نہیں۔ "انزلوا الناس على قدر منازلهم" قول مشہور ہے سو اس کے موافق معاملہ کرنا ہر پہلو سے درست ہے۔

 نیز یہ توجیہ بھی ہو سکتی ہے کہ سیدہ زینبؓ کے حق میں جو الفاظ فضیلت فرمائے گئے ہیں وہ جزوی فضیلت ہے جو آنجنابﷺ کی دیرینہ رفاقت آپؓ کو حاصل رہی اور سیدہ فاطمہؓ کے حق میں جو الفاظ مروی ہیں وہ فضیلتِ عامہ کے اعتبار سے ہیں کہ یہی بیٹی آنجنابﷺ کے بعد زندہ رہی اور آنجنابﷺ نے اپنی اولاد میں سے اس کو باقی چھوڑا ۔ لہٰذا اس معاملہ میں کوئی باہمی منافات نہیں ۔ اس پر سیدہ فاطمہؓ کے سوانح کے تحت ان شاء اللہ تعالیٰ مزید گفتگو ہوگی۔

تنبیہ

   اس مقام میں عروہؓ اور سیدنا زین العابدینؓ کے درمیان جو مکالمہ پایا جاتا ہے وہ بعض راویوں کی طرف سے مدرج ہے اور ان کا اپنا بیان قرینہ یہ ہے کہ دورِ نبوتﷺ میں اور دورِ صحابہ کرامؓ میں انتقاص حق فاطمہؓ کا یہ مسئلہ پیدا نہیں ہوا تھا بلکہ ایک اہم دور گزر جانے کے بعد یہ مسئلہ پیدا کیا گیا اور اکابر کی طرف اس کی نسبت کر دی گئی۔ روایت میں الفاظ کے اوراج کو پہچاننا حاذق محدثین کا کام ہے مسئلہ میں افراط تفریط کا پہلو اختیار نہ کیا جائے۔ تو مسئلہ از خود صاف ہو جاتا ہے جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے۔

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی طرف سے پناہ دینے کا واقعہ پھر اس کے بعد ابو العاصؓ کا اسلام لانا

ابو العاصؓ جب تک اسلام نہیں لائے تھے مکہ میں مقیم رہے اور سیدہ زینبؓ اپنے والد شریف کے ہاں مدینہ میں مقیم رہیں۔ مکہ معظمہ والے تجارت کے سلسلہ میں شام کی طرف سفر کیا کرتے تھے ایک تجارتی قافلہ شام کی طرف روانہ ہوا اس قافلہ میں ابو العاصؓ بن ربیع بھی تجارتی مقصد کے لئے شریکِ سفر تھے۔ اور قریش کے اموال تجارت ان کے پاس تھے۔ ملک شام سے جب یہ تجارتی قافلہ تجارت کرنے کے بعد واپس ہوا تو مسلمانوں کو ان کی واپسی کا علم ہو گیا انہوں نے اس قافلہ کو جمادی الاولیٰ سن 6 ہجرى میں گرفتار کر لیا اور ان کے اموال کو اپنی نگرانی میں لے لیا اور ابو العاصؓ قافلہ والوں سے گریز کرتے ہوئے قافلہ سے قبل مدینہ طیبہ پہنچ گئے اور سیدہ زینبؓ کے ہاں پناہ لی سیدہ زینبؓ نے ان کو پناہ دے دی باقی قافلہ والے مدینہ شریف بعد میں پہنچے۔ عام مسلمانوں کو اس بات کی اطلاع تھی جب صبح کی نماز نبی اقدسﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو پڑھائی سلام پھیرنے کے بعد عورتوں کی صفوں میں سے سیدہ زینبؓ نے آواز دی کہ اسے مسلمانو! میں نے ابو العاصؓ بن الربیع کو پناہ دے دی ہے نبی اقدسﷺ نے جب یہ سنا تو آنجنابﷺ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا جو کچھ میں نے سنا تم نے بھی سن لیا انہوں نے عرض کیا جی ہاں ۔ یا رسول اللہﷺ! اس کے بعد آپ نے بطورِ حلف کلام فرمایا کہ مجھے بھی پہلے اس بات کا علم نہیں تھا اور جب مسلمانوں کا ایک ادنیٰ شخص کسی کو پناہ دے دے تو اس کی پناہ اسلام میں منظور کی جاتی ہے اور اس کا پناہ دینا درست ہوتا ہے ( لہٰذا زینبؓ کا ابو العاص كو پناہ دینا صحیح قرار دیا جاتا ہے اس کو مسلمان ملحوظ رکھیں۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ اپنی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے گھر تشریف لائے اور زینبؓ کو ارشاد فرمایا اے پیاری بیٹی! اكرمی مثواه - ان کی خاطر داری اچھی کرنا اور ان کو باعزت رکھنا ، اور ازدواجی تعلق سے پرہیز رکھنا اس کے بعد سردار دو عالمﷺ نے ان صحابہ کرامؓ کی طرف آدمی بھیجا جنہوں نے ابو العاصؓ کے اموال کو ضبط کر لیا تھا اور اپنی نگرانی میں لیئے ہوتے تھے۔ حضورﷺ کا حکم ہوا کہ ابو العاصؓ کے تمام اموال اس کی طرف واپس کر دیئے جائیں اور ان میں سے کوئی چیز روک نہ رکھی جائے چنانچہ ابو العاصؓ نے اپنا تمام مال وصول کر لیا اور مکہ شریف واپس آ گئے مکہ معظمہ میں پہنچنے کے بعد جن لوگوں کے مال ابو العاصؓ کے پاس تھے ان تمام کو بلوایا اور ان کے اموال انہیں واپس کر دیئے اس کے بعد ان سے کہا کہ اے قریش کی جماعت! کسی ایک کے لئے میرے پاس مال باقی رہ گیا ہے؟ یا تم نے وصول کر لیا سب نے کہا کہ اب ہمارا کسی کا کوئی مال تمہارے پاس نہیں۔ فجزاك الله خيرا و قد وجدناك وقياً کریما یعنی اللہ تعالیٰ تم کو جزائے خیر عطاء فرمائے ہم نے تمہیں بڑا شریف اور وفادار پایا۔ اس کے بعد جماعتِ قریش کے سامنے ابو العاصؓ نے اعلان کیا انی اشهد ان لا اله الا الله وأن محمدا عبدہ و رسوله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی پرستش کے لائق نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسولﷺ ہیں۔ اللہ کی قسم ! مدینہ شریف میں اسلام لانے سے صرف یہ چیز مجھے مانع رہی کہ کہیں تم لوگ یہ گمان کرنے لگیں کہ میں نے تمہارے اموال کو کھا جانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ جب اللہ تعالیٰ نے تمہاری طرف تمہارے اموال واپس کر دیئے اور میں ان سے فارغ گیا تو اب میں اسلام لایا ہوں اس کے بعد ابو العاصؓ بن ربیع مکہ سے نکل پڑے اور نبی اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے اور پھر ان کا اسلام بڑا عمدہ اور پختہ ہو گیا اور نبی اقدسﷺ نے سیدہ زینبؓ کو نکاحِ اوّل پر ہى ابو العاصؓ بن الربيع كى طرف واپس کر دیا۔

 [¹- البدايه والنہایه صفحہ 333 جلد 3 فصل فی قدوم زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ مہاجرة من مكه الى مدینہ

²- طبقات ابنِ سعد صفحہ 21، 22 جلد 8 تحت ذکر زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ 

³-ذخائر عقبیٰ صفحہ 159 في مناقب ذوى القربیٰ لاحمد بن عبد الله المحب الطبری تحت ذکر اسلام زوجها ابی العاصؓ  

⁴- الاصابه لابن حجر صفحہ 306جلد 4 تحت ذکر من اسمها زینبؓ بنتِ سید ولد آدم

 ⁵- الفتح الربانی ترتیب مسند احمد بن حنبل صفحہ98، جلد22 روایت 892 طبع مصر 

⁶- المصنف لعبد الرزاق صفحہ 171، 172جلد 7 باب متی ادرک الاسلام من نکاح اوطلاق]

ناظرین کرام! کو معلوم ہونا چاہیئے کہ ابتداء اسلام میں زوجین کا آپس میں مسلمان ہونا نکاح کے لئے ضروری نہیں تھا۔ اور ابتداء اسلام میں بہت سے ایسے نکاح قائم رہے جن میں زوج یا زوجہ میں سے ایک مسلمان ہوتا تھا تو دوسرا کفر پر ہوتا تھا۔ اس دستور مروجہ کی بنا پر سیدہ زینبؓ ابو العاصؓ کے نکاح میں رہیں مدینہ شریف سن 6 ہجری صلح حدیبیہ کے سال میں اللہ تعالیٰ نے مسلمان عورتوں کو مشرکین پر حرام کر دیا۔

 انما حرم الله المسلمات على المشركين عام الحديبية سنة ست من الهجرة

{البدايه لابن کثیر صفحہ311 جلد3 فصل في وصول غير مصائب اہلِ بدر}

 ابو العاصؓ جس وقت اسلام لا کر مدینہ منورہ پہنچے تو بعض علماء کہتے ہیں کہ سیدہ زینبؓ کو نکاح جدید اور مہر جدید کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ نکاح اول پر ہی ان کو ابو العاصؓ کی طرف روانہ کیا گیا۔ مندرجات بالا کی روشنی میں بعض لوگوں کا یہ اعتراض کرنا بے جا ہے کہ ابو العاصؓ تو غیر مسلم تھے ان کی زوجیت میں سیدہ زینبؓ کا رہنا کس طرح صحیح ہوا وجہ یہ ہے کہ فریقین کے کبار علماء نے تصریح کر دی ہے کہ مسلم و مشرک کے درمیان ابتداء اسلام میں مناکحت جائز تھی بعد میں منع ہوتی ہے اور قبل از منع یہ ازدواجی تعلقات درست تھے ان میں کوئی حرج نہیں تھا۔ ذیل میں علماء کے بیانات ملاحظہ فرمائیں اور ہم نے شیعہ علماء کے بیانات نقل کرنے پر اکتفاء کی ہے ہمارے علماء تو اس چیز کے بلا اختلاف قائل ہیں شیعہ کے مشہور عالم شیخ ابو علی الفضل بن حسن الطبرسی اپنی تفسیر مجمع البیان میں حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی لڑکیوں کے واقعے کے کے تحت لکھتے ہیں۔ 

 وكذا كان يجوز ایضاً في منتداء الاسلام وقد زوج النبیﷺ بنته من ابی العاص بن الربيع قبل ان يسلم ثم نسخ ذالك.

 یعنی اسی طرح ابتداء اسلام میں مؤمنہ کی تزویج کافر کے ساتھ جائز تھی تحقیق نبی کریمﷺ نے اپنی صاحبزادی زینبؓ کا نکاح ابو العاصؓ بن الربیع سے اسلام لانے سے پہلے کر دیا اس کے بعد یہ حکم منسوخ ہوا تھا۔

[ تفسیر مجمع البيان للطبرسی صفحہ 573 جلد1 طبع قدیم تحت آيت قال يقوم هؤلاء بناتي ھن أطهر لكم الخ]

 ملا باقر مجلسی اپنی کتاب حیات القلوب میں لکھتا ہے کہ:

  دختران آنحضرت چهار نفر بودند و همه از حضرت خدیجهؓ را بوجود آمدند. اول زینبؓ حضرت پیش از بعثت و حرام شدن دختر بکافران داندن اور ابابی العاص بن ربیعؓ تزویج نمود و امامهؓ دختر بن ابی العاص ازا و بوجود آمد و حضرت امیرالمومنین بعد از حضرت فاطمہؓ بمقتضائے وصیت آنحضرت امامه را بنکاح خود در آورد .

 [حیات القلوب از ملا باقر مجلسی صفحہ718 جلد 2 باب51 تحت ذکراولاد امجاد آنحضرتﷺ طبع نول کشور لکھنؤ]

 شیخ عباس قمی کتاب منتہیٰ الآمال میں لکھتے ہیں:

 تزویج زینبؓ با بی العاص پیش از بعثت و حرام شدن دختر بکافراں بود و از زینبؓ امامه دختر ابی العاص بوجود آمد و حضرت امیر المؤمنین علیه السلام بعد از فاطمہ سلام اللہ علیہا بمقتضائے وصیت آں مخدرہ اورا تزویج فرمود

[حواشى منتہٰى الآمال صفحہ108جلد1 فصل ہشتم در بیان احوال اولاد امجاد آنحضرت است]

 عبارات مندرجہ بالا کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اقدسﷺ کی سیدہ خدیجہؓ سے چار صاحبزادیاں تھیں پہلی زینبؓ تھیں۔ آنجنابﷺ نے بعثت سے پہلے اور کفار کے ساتھ مسلمان لڑکیوں کے نکاح حرام قرار دیئے جانے سے قبل سیدہ زینبؓ کو ابو العاصؓ بن ربیع کے ساتھ تزویج کر دیا۔ ابو العاصؓ سے امامہ نامی دختر پیدا ہوئی سیدنا علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی وصیت کے مطابق ان کے بعد امامہ بنت ابی العاصؓ سے نکاح کیا۔

شیعہ مورخین کی جانب سے واقعات ہذا کی تائید

شیعہ سیرت نگاروں نے بھی اس طرح لکھا ہے کہ جب مسلمانوں نے قریش کے قافلے پر گرفت کی اور ان کے اموال کو اپنی تحویل میں لے لیا تو اس وقت ابو العاصؓ بن الربيع مدینہ شریف میں داخل ہوئے اور صاحبزادی زینبؓ کے پاس انہوں نے پناہ لی۔ جب صبح کی نماز رسولِ خداﷺ پڑھا چکے تو صاحبزادی زینبؓ نے آواز دی کہ میں نے ابو العاصؓ بن الربیع کو پناہ دی ہے تو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا اے حاضرین جماعت! سن لیا ؟ تو سب نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہﷺ سن لیا ہے پھر جناب نے فرمایا کہ میں نے اس کو پناہ دے دی جس کو میری بیٹی زینبؓ نے پناہ دی ہے اہلِ اسلام میں سے اگر کوئی چھوٹا آدمی بھی پناہ دے تو وہ دے سکتا ہے پھر آپ مسجد سے اُٹھ کر باہر تشریف لائے اور زینبؓ و ابو العاصؓ کے پاس تشریف فرما ہوئے آپﷺ نے فرمایا اے زینبؓ! ان کی خدمت میں کوتاہی نہ کرنا اوران کو عزت و احترام سے رکھنا اور جو ابوالعاصؓ کا مال لیا گیا تھا آپﷺ نے اس کو واپس فرما دیا اس کے بعد ابو العاصؓ مکہ کو واپس چلے گئے اور جن لوگوں کا مالی حق ان کے پاس تھا سب کو واپس لوٹا دیا پھر اسلام لے آئے اور رسول اللہﷺ کی طرف مدینہ منورہ چلے آئے نبی کریمﷺ نے صاحبزادی زینبؓ کو نکاح اول کے ساتھ ابو العاصؓ کی طرف رخصت کر دیا ۔

 [تاريخ يعقوبي الشيعي صفحہ 71 جلد2 تحت الامراء على السرايا: طبع بيروت]

 اہلِ علم کی تسلی کے لئے یعقوبی شیعی کی بلفظه عبارت نقل کی جاتی ہے۔

 واقبل ابو العاص بن الربيع حتىٰ دخل المدينة فاستجار بزينب بنت رسول اللهﷺ فلما صلى رسول اللهﷺ الغداة نادت زينب الا اني قد اجرت ابا العاص بن الربيع فقال رسول الله حسين انصرف اسمعتم ؟ قالوا نعم قال قد اجرت من اجارت ان أدنى المؤمنين يجير اقصاهم وقام فدخل عليهما فقال لا يقوتنك أكرمى مثواه۔ ورد عليه ما أخذ له ترجع الى مكه فرد الى كل ذي حق حقه ثم اسلم ورجع الى رسول الله فرد عليه زينب بالنكاح الأول

[تاريخ يعقوبي الشيعی صفحہ 71 جلد 2طبع بیروت تحت الامراء على السرايا والجيوش]

 اس مقام کے متعلق چند فوائد

 سیدہ زینبؓ اور ان کے زوج ابو العاصؓ بن الربیع دونوں کے حق میں مذکورہ بالا واقعہ اسلامی تاریخ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

1_ ابو العاصؓ بن الربیع مسلمانوں کی گرفت سے بچتے ہوئے زینبؓ کے ہاں پناہ لیتے ہیں ۔

 2_ صاحبزادی زینبؓ ان کو پناہ دے دیتی ہیں اور یہ پناہ دینا رسالت مآبﷺ کی خدمت اقدس میں ذکر کر دیا جاتا ہے۔

 3_ آنجنابﷺ بھی اس پناہ کو منظور فرما لیتے ہیں۔

4_ اس کے بعد رسالت مآبﷺ سیدہ زینبؓ اور ابو العاصؓ کے ہاں تشریف لاتے ہیں اور حسبِ موقع ان کو ہدایات فرماتے ہیں۔

 5_ ابو العاصؓ کی خاطر داری کرنے اور اس کے وقار کو ملحوظ رکھنے کا سیدہ زینبؓ کو حکم دیتے ہیں۔ 

6_ ابو العاصؓ کے جتنے اموال تھے ان کی واپسی کا حکم صادر فرماتے ہیں۔

 7_ ابو العاصؓ مکہ میں جا کہ اہلِ حق کے حقوق ادا کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اسلام لاتے ہیں۔ اور رسالت مابﷺ کے حضور ان کا اسلام مقبول ٹھہرتا ہے۔ 

8_ پھر ان کو مزید شرف بخشا جاتا ہے کہ صاحبزادی زینبؓ کو سردار دو عالمﷺ ان کے حق میں علی اختلاف الاقوال نکاح اوّل یا ثانی پر واپس کر دیتے ہیں۔ یہ تمام چیزیں سیدہ زینبؓ اور ابو العاصؓ کے حق میں بہت بڑی عنایات کریمانہ ہیں جو آنجنابﷺ کی خدمت سے ان کو نصیب ہوئیں۔ ان فضائل و عنایات سے انکار کرنا۔ نبی کریمﷺ کی اولاد شریف کے ساتھ عناد کی بناء پر ہی ہو سکتا ہے ورنہ یہ چیزیں آنجنابﷺ کی طرف سے تمام امت میں مشہور و معروف طریقہ سے منقول چلی آرہی ہیں اور ہر دور کے علماء و مصنفین ان کو ذکر کر رہے ہیں۔ 

قیمتی لباس کا استعمال

 صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے متعلق حدیث اور روایات کی کتابوں میں یہ چیز دستیاب ہوتی ہے کہ بعض اوقات آنمحترمہؓ نے قیمتی کپڑے بھی استعمال فرمائے ہیں اور عورت کے لئے اسلام میں اس قسم کا قیمتی لباس استعمال کرنا جائز ہے۔ چنانچہ خادم نبویﷺ انس ابن مالکؓ ایک بار کا ذکر کرتے ہیں کہ میں نے سیدہ زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ پر ایک قمیض دھاری دار حریہ سے بنی ہوئی دیکھی وہ اس کو زیبِ تن کیئے ہوتے تھیں قمیص اور بعض روایات کے اعتبار سے قمیص کی بجائے چادر ریشمی کا استعمال کرنا آتا ہے۔ روایت کے الفاظ اس طرح منقول ہیں۔ 

عن انس ابن مالكؓ قال رأيت على زينب بنتِ رسول اللهﷺ قميص حرير سيراء

  [¹- السنن للنسائى صفحہ252 طبع دہلی، تحت ذكر الرخصة للنساء في لبس السيراء

 ²- كتاب المعرفة والتاريخ لابي يوسف يعقوب ابنِ سفيان البسوی صفحہ163، 164 جلد3

³- طبقات ابنِ سعد صفحہ 22 جلد 8 تحت ذکر زینبؓ بنتِ رسول اللهﷺ طبع بیروت]

 سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی اولاد کا ذکر خیر

 سیده زینبؓ کی متعدد اولاد ابو العاصؓ بن الربیع سے ہوئی۔ ان میں ایک صاحبزادہ تھا جس کا نام علی تھا۔ اور ایک صاحبزادی ہوئی جس کا نام امامہ بنت ابی العاصؓ تھا۔ امامہؓ کا ذکرِ خیر ہم عنقریب کر رہے ہیں، ان کے ماسوا ایک اور بچہ ابو العاصؓ کا سیدہ زینبؓ سے ہوا تھا وہ صغیر سنی میں ہی فوت ہو گیا اس بچہ صغیر کے متعلق محدثین نے ایک واقعہ ذکر کیا ہے ہم ناظرین کی خدمت میں اسے پیش کرتے ہیں ۔

 اولادِ زینب رضی اللہ عنہا کے ساتھ حضورﷺ کی محبت

 محدثىن فرماتے ہیں اسامہ بن زیدؓ سے منقول ہے کہ جناب رسالت مآبﷺ کی صاحبزادی کا ایک بچہ قریب المرگ ہو گیا انہوں نے آنجنابﷺ کی خدمت میں ایک آدمی بھیجا کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائیں جناب نے جواب میں سلام فرمایا اور کہلا بھیجا کہ آپ صبر کریں جو اللہ تعالیٰ لے لیتے ہیں وہ بھی اللہ کے لئے ہے اور جو دیتے ہیں وہ بھی اس کے لئے ہے اور ہر شخص کے انتقال کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں وقت مقررہ ہے ہر حالت میں تم کو صبر کر نا چاہیے محترمہ زینبؓ پریشانی کے عالم میں تھیں پھر انہوں نے آنجنابﷺ کی خدمت میں قسم دے کہ آدمی بھیجا کہ آنجنابﷺ ضرور تشریف لائیں تو اُٹھ کھڑے ہوئے آپﷺ کے ساتھ سعد بن عبادہؓ معاذ بن جبلؓ، ابی بن کعبؓ اور زید بن ثابتؓ وغیرہ وغیرہ صحابہؓ کی جماعت بھی چل پڑی اور آپﷺ بچے کے پاس پہنچے وہ قریب المرگ تھا آنجنابﷺ کی گود میں پیش کیا گیا و نفسه تتقعقع یعنی بچہ کے آخری سانس تھے اور وہ فوت ہو رہا تھا یہ حالت ملاحظہ فرما کر نبی کریمﷺ کے آنسو مبارک جاری ہو گئے تو سعد بن عبادہؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیا ہے؟ آپﷺ آنسو بھی بہا رہے ہیں تو آنجنابﷺ نے فرمایا یہ تو رحمت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھ دی ہے۔ 

فانما يرحم الله من عباده الرحماء

 [¹- مشکٰوة شریف صفحہ 150 باب البكاء و على الميت الفصل الأول طبع نور محمدی دہلی(بحوالہ بخاری و مسلم)  

²- ابوداؤد شریف جلد2 صفحہ90 باب البكاء وعلى الميت:طبع مجتبائی دہلی]

یعنی اپنے نرم دل بندوں پر ہی اللہ تعالیٰ رحمت فرماتے ہیں "ناظرین کرام! مطلع رہیں کہ واقعہ مذکورہ بالا جس میں سیدہ زینبؓ کے بچے کی مرض الموت پر بمع صحابہؓ آنجنابﷺ کا تشریف لانا ازراه شفقت و ترخم اس حالت میں گریہ فرمانا الله ما اعطٰى والله ما اخذ۔۔الخ کی تلقین فرمانا وغیرہ وغیرہ مذکور ہے۔ 

یہی واقعہ اپنی تفصیلات کے ساتھ شیعہ کے اکابر علماء نے بھی اپنی اسناد کے ساتھ سیدہ علی المرتضیٰؓ سے نقل کیا ہے ۔ ملاحظہ ہو۔

[الجعفريات او الاشعثياب لأبی العباس عبد الله بن جعفر الحميری208 باب الرخصة في البكاء من غير نياحة (مطبوعه طهران)]

اس واقعہ سے سردارِ دو جہاںﷺ کی اپنی دختر سیدہ زینبؓ اور اس کی اولاد کے ساتھ شفقت وعنایت حد درجہ کی ثابت ہوتی ہے اور مشفقانه تعلقات کمال درجہ کے عیاں ہوتے ہیں۔

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے بیٹے علی بن ابی العاصؓ کا مختصر حال

ان کا نام علی بن ابی العاص بن الربيع بن عبد العزیٰ بن عبد شمس ہے ان کی والدہ محترمہ سیدہ زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ ہیں یہ امامہ بنتِ ابی العاصؓ کا بھائی ہے اس کو قبیلہ بنی غاضرہ میں استرضاع یعنی دودھ پینے کے لئے بھیجا گیا تھا شیر خوارگی سے فارغ ہونے کے بعد سرکار دوعالمﷺ نے اس کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور ابو العاصؓ ابھی تک مکہ میں مقیم تھے۔ اسلام نہیں لائے تھے۔ فكان على مترضعاً في بنی غاضره فضمه رسولﷺ اليه

 علی بن ابی العاصؓ نبی کریمﷺ کی نگرانی میں ہی پرورش پاتے رہے اور جناب کی تربیت ان کو حاصل رہی جب فتح مکہ ہوئی ہے تو سردار عالمﷺ نے ان کو اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا ہوا تھا۔ بعض علماء فرماتے ہیں کہ آنجنابﷺ کی زندگی میں ہی ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ بعض کے نزدیک یہ قریب البلوغ ہو کر فوت ہوئے۔

[¹- اسد الغابه لابن اثیر صفحہ 41 جلد 4 -تحت علی بن ابی العاصؓ الاصابه لابن 

²- حجر عسقلانی صفحہ 503 جلد 2 تحت علی بن ابی العاصؓ

³- کتاب نسبِ قریش صفحہ 22 تحت ولد عبد اللہ بن عبد المطلب]

امامہ بنتِ ابی العاصؓ متعلقات

 اس کا نام امامہ بنت ابی العاصؓ بن ربیع ہے، اور اس کی والدہ سیدہ زینبؓ بنتِ رسول خداﷺ ہیں۔ 

1_ رسالت مآبﷺ کے مبارک دور میں ان کی ولادت ہوئی نبی اقدسﷺ کے خانہ مبارک میں پرورش پاتی رہیں اور یہاں شیعہ علماء نے بھی لکھا ہے کہ آنجنابﷺ امامہؓ کے ساتھ حد درجہ کا پیار اور محبت فرمایا کرتے تھے۔

[تنقيح المقال ما مقانی صفحہ 29 جلد3 فصل النساء - الفصل الرابع ]

 ابوقتادہ انصاریؓ ذکر کرتے ہیں کہ سردارِ دو عالمﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور امامہ بنت ابی العاصؓ آپﷺ کے دوش مبارک پر تھی آپﷺ نماز ادا فرماتے رہے جب آپ رکوع فرماتے تو اس کو زمین پر بٹھا دیتے اور جب آپ کھڑے ہوتے تو امامہ کو اٹھا لیتے تھے امامہ کو محبت کے ساتھ اٹھانے کے واقعات حدیث میں متعدد بار مذکور ہوئے ہیں اور حدیث کی کتابوں میں یہ واقعات دستیاب ہیں کہ جنابِ رسولِ خداﷺ اس صغیرہ بچی کے ساتھ غایت درجہ کی محبت اور شفقت فرمایا کرتے تھے مندرجہ ذیل مقامات ملاحظہ ہوں۔

[¹- بخاری شریف صفحہ74 جلد1 باب اذا حمل جارية صغيرة عنقه في الصلوة۔

²- بخاری شریف صفحہ887 جلد 2 باب رحمة الولد وتقبيله ومعانقته

³- مسلم شریف صفحہ205 جلد 1 کتاب الصلوٰة باب جواز حمل الصبيان في الصلٰوة 

⁴- مسند ابوداؤد طیالسی حدیث زید بن ثابت طبع اول 

⁵- ابو داؤد شریف صفحہ 132 جلد1 باب العمل في الصلوٰة 

⁵- صحیح ابنِ حبان صفحہ 313 جلد2 ذكر الجزال على نفی ايجاب الوضو من الملامسة

⁷- المصنف لعبد الرزاق صفحہ 33، 34 جلد ثانی باب يقطع الصلوة.]

 ان روایات میں نبی اقدسﷺ کا امامہؓ كے ساتھ محبت اور پیار کرنا اور غایت شفقت کے ساتھ بار بار اٹھا لینا مذکور ہے جس طرح آنجنابﷺ حسنین شریفینؓ کو اپنے دوش مبارک پر اٹھایا کرتے تھے اسی طرح ان کی خالہ زاد بہن امامہ بنتِ زینبؓ کو اٹھایا کرتے تھے آنجنابﷺ کی توجہات کریمانہ سے یہ تمام اولاد مستفید ہوتی تھی اور یہ سلسلہ عنایت ہمیشہ قائم رہتا تھا جس طرح حسنینؓ آپ کی اولاد تھے اسی طرح امامہؓ بھی آپﷺ کی اولاد میں سے تھیں ۔ 

2_ سیدہ زینبؓ کی صاحبزادی امامہ بنتِ ابی العاصؓ کے متعلق ایک اور عجیب واقعہ محدثین اور اہلِ تراجم نے اپنے اپنے الفاظ میں ذکر کیا ہے سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جناب رسالت مآبﷺ کی خدمت میں ایک بیش قیمت ہار بطور ہدیہ آیا آنجناب کی ازواج مطہراتؓ اتفاقاً وہاں جمع تھیں اور امامہ بنتِ ابی العاصؓ چھوٹی لڑکی تھیں اپنے بچین کے طرز پر گھر میں ایک طرف کھیل رہی تھیں نبی اقدسﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ہار كس طرح کا ہے؟ ہم نے عرض کیا کہ اس سے بہترین تو ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں۔یہ تو بہت عمدہ ہے پھر آپ نے اس ہار کو پکڑا لادفعنھا الی احب اھلی الی یعنی میں اپنے اہلِ بیت میں سے جو مجھے زیادہ پسند ہے اس کی گردن میں یہ ڈالوں گا۔ تمام ازواج مطہراتؓ اس بات کی منتظر تھیں کہ بلا وہ کس کے حصہ میں آتا ہے تو آنجنابﷺ نے اپنی دختر زادی امامہ بنتِ زینبؓ کو بلایا اور اس کے گلے میں ہار پہنا دیا اس واقعہ کو کچھ کمی بیشی کے ساتھ مندرجہ ذیل مقامات میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

[¹- مجمع الزوائد للهيثمى صفحہ254 جلد9 تحت مناقب زینبؓ بنتِ رسول اللهﷺ

 ²- الفتح الرباني صفحہ 420 جلد22 (ترتيب مسند احمد) باب ما جاءفی امامة بنتِ زينبؓ بنتِ رسول اللهﷺ

 ³- اسد الغابه صفحہ 400 جلد5 تحت امامه بنتِ ابی العاصؓ 

⁴- الاصابة صفحہ 230 جلد4 تحت بنتِ ابی العاصؓ بن ربيع]

 واقعہ ہذا سے یہ واضح ہوا کہ صاحبزادی سیدہ زینبؓ کی لڑکی امامہ کے ساتھ آنجنابﷺ کا کس قدر قلبی تعلق تھا آپﷺ نے اپنی دختر زادی امامہؓ کے لئے٫ أحب اهلی" کے الفاظ ذکر فرمائے یہ ماں اور بیٹی کے حق میں کتنے شفقت کے الفاظ ہیں اور غایت درجہ کے التفات کی دلیل ہے۔ یہ سب چیزیں صاحبزادی زینبؓ کی وجہ سے صادر ہو رہی ہیں اس کی بنا پر سیدہ زینبؓ کا مقام جو رسالتِ مآبﷺ کے نزدیک ہے وہ اظہر من الشمس ہے اور ازواج مطہراتؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سب حضرات ان مسائل سے خوب واقف تھے انہوں نے امتِ مسلمہ کو یہ سب مسائل بتائے اور جمہور اہلِ اسلام ان چیزوں کے قائل تھے۔ لیکن اس دور کے بعض مرثيہ خواں آنجنابﷺ کی اولاد شریف کے ان فضائل سے بر ملا انکار کر رہے ہیں لیکن یاد رکھیئے ان کے انکار کی وجہ سے اولادِ نبویﷺ کا مشرف و مجد کم نہیں ہو سکتا۔

 گــرنــه بــیــنـد بــــروز شیــــره چــــشـــم 

 چــشمــهِ آفتــاب راچــــه گنــــاه

امامہ رضی اللہ عنہا کے حق میں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وصیت

 مندرجہ ذیل واقعہ اگرچہ سیدہ فاطمہؓ کی وفات کے بعد پیش آیا تھا لیکن امامہؓ کے متعلقات چونکہ ما قبل میں ذکر ہورہے ہیں اس مناسبت کی بناء پر واقعہ ہذا کو بھی یہاں ذکر كر دینا غیر مناسب نہ ہوگا ہم نے یہ بطور معذرت کے عرض کر دیا ہے، امامہ بنتِ ابی العاصؓ سیدہ زینبؓ سے ابو العاصؓ کی صاحبزادی ہے ابو العاصؓ قريباً سنــــہ12 ہجرى کے آخر میں فوت ہو گئے تھے۔ انہوں نے وفات سے پہلے زبیر بن عوامؓ کو لڑکی امامہؓ کی نگرانی کی وصیت کی تھی اور ان کو ان کی کفالت میں دیا تھا۔

 و امامه بنتِ ابی العاص واوصى بها ابو العاص إلى الزبير اپنی بن عوام

[کتاب نسبِ قريش لمصعب زبیری صفحہ 22 تحت ولد عبد الله بن عبد المطلب]

  اور سیدہ فاطمہؓ نے اپنے انتقال سے قبل سیدنا علىؓ کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر میرے بعد شادی کریں تو میری بہن زینبؓ کی لڑکی امامہؓ کے ساتھ نکاح کرنا وه میری اولاد کے حق میں میری قائم مقام ہو گی۔ چنانچہ شیعہ علماء نے اس مسئلہ کو متعدد بار ذکر کیا ہے۔ سلیم بن قیس کی کتاب میں یہ الفاظ ہیں سیدہ فاطمہؓ سیدنا علیؓ کو فرماتی ہیں۔ وانا أوصيك ان تزوج بنت اختى زينب تكون لولدي مثلی الخ

[کتاب سليم بن قيس الكوفى صفحہ226 تحت وصیت فاطمةؓ علىؓ طبع ایران

 ۱ـ العبرللذهبی جلد اول 

۲ـ جمہرة الانساب لابن حزم صفحہ 77 ،78]

چنانچہ سیدنا علیؓ نے اس وصیت کے مطابق 12 ہجرى ميں امامہ بنتِ ابی العاصؓ کے ساتھ نکاح کیا اور زبیر بن عوامؓ نے اپنی نگرانی میں ان کی شادی سیدنا علیؓ، سے کر دی یہ نکاح مسلم بین الفریقین ہے۔ اہلِ سنت اور شیعہ دونوں حضرات اپنے اپنے مقام میں اس کو ذکر کیا کرتے ہیں نکاح ہذا کو مزید تائید کے طور پر شیعہ علماء کی مندرجہ ذیل کتب میں بھی ملاحظہ فرمالیں۔ 

[¹- مروج الذهب للمسعودی الشيعي صفحہ298 جلد 2تحت ذكرا موروا حوالى من مولد الى وفاتهﷺ 

²- انوار النعمانيه: از شیخ نعمت الله جزائري الشيعی صفحہ 367 جلد1 تحت نور مولودی] 

پھر امامہ بنتِ ابی العاصؓ سیدنا علیؓ کے نکاح میں رہیں لیکن اتفاق قدرت کی وجہ سے سیدنا علیؓ کی ان سے کوئی اولاد نہیں ہوئی جس وقت سیدنا علیؓ کوفہ میں شہید ہوئے تو اس وقت وہاں سیدنا علیؓ کی ازواج میں یہ زندہ تھیں سیدنا علیؓ کی شہادت کے بعد امامہؓ کا نکاح مغیرہ بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب سے ہوا تھا پھر مغیرہ کے نکاح میں سیدہ امامہ فوت ہوئیں۔ 

[¹- الاصابه صفحہ433 جلد3 تحت مغيره بن نوفل

²- اسد الغابه صفحہ 407، 408جلد رابع تحت مغیرہ بن نوفل ]

 قابل توجہ

 غور کرنے سے اس مقام میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ امامہ بنتِ ابی العاصؓ کی وجہ سے رشتہ داری کے درج ذیل تعلقات قائم ہوئے۔ 

• امامہؓ سیدہ فاطمہؓ کی بھانجی تھی۔ 

 نکاح سے قبل سیدنا علیؓ کی سالی زینبؓ کی لڑکی تھی پھر بعد از نکاح ان کی زوجہ محترمہ ہوئی ۔

• اور ابو العاصؓ سیدنا علیؓ کے سسر ہوتے ۔ حسنین شریفینؓ کے لئے (نکاح مرتضویؓ سے قبل امامہؓ خالہ زاد بہن تھی اور بعد از نکاح سوتیلی ماں ہوئی اور ابو العاصؓ نے سوتیلے نانا ہوئے۔

• گویا امامہؓ محترمہ کے ذریعہ ابوالعاصؓ اور سیدنا علیؓ اور ان کی اولاد کے درمیان رشتہ داری کی بہت سی نسبتیں قائم ہو گئیں جن کا احترام ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

سیده زینب رضی اللہ عنہا کی وفات

 صاحبزادی سیده زینبؓ بنتِ رسول اللہﷺ مشہور قول کے مطابق آنجناب کی صاحبزادیوں میں سے عمر میں سب سے بڑی تھیں اور ان نیک بیبیوں میں سے تھیں جن کو اسلام کے ابتدائی دور میں ایمان سے مشرف ہونے کا شرف ملا۔ یہ قدیم الاسلام عورتوں میں شمار ہوتی تھیں۔ نیز ان کو نبی کریمﷺ کے ساتھ بیعت کرنے کا شرف بھی حاصل ہوا چنانچہ انہیں مبایعات النبیﷺ میں شمار کیا جاتا ہے۔ ابو جعفر بغدادی نے المجر میں رسالت مآبﷺ کی چاروں صاجزادیوں سیدہ زینبؓ، اُمِ کُلثومؓ، رقیہؓ اور سیدہ فاطمہؓ کو مبایعات، الرسولﷺ میں ذکر کیا ہے۔

[¹- كتاب المحبر لابی جعفر بغدادی صفحہ 406 تحت اسماء النسوة المبايعات الرسول اللهﷺ]

 وفات کا سبب

 “ مکہ شریف سے ہجرت کرنے کے بعد یہ مدینہ منورہ میں مقیم رہیں اور ہجرت کے مصائب انہوں نے بڑے تحمل کے ساتھ برداشت کیئے تھے۔ اس واقعۂ ہجرت میں آپؓ مخالفین کے ہاتھوں زخمی بھی ہو گئیں تھیں۔ سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ ان کا وہی سابقہ زخم ایک دفعہ مندمل ہو گیا تھا۔ پھر کچھ مدت کے بعد دوبارہ تازہ ہو گیا اور یہی زخم ان کی وفات کا موجب بنا اور ان کی وفات سن 8 ہجرى میں مدینہ طیبہ میں ہوئی۔

 صبر کی تلقین اور واویلا سے منع

 علماء ذکر کرتے ہیں سن 8 ہجرى میں سیدہ زینبؓ کا مدینہ منورہ میں انتقال ہوا ان کی وفات کی وجہ سے سردارِ دو عالمﷺ نہایت مغموم ہوئے اور سیدہ زینبؓ کی باقی بہنیں اُمِ کُلثومؓ و فاطمہؓ بھی اس حادثہ فاجعہ کی وجہ سے نہایت پریشان اور غم زدہ ہوئیں۔ باقی مسلمان عورتیں سیدہ زینبؓ کی وفات پر جمع ہوئیں اور بلا اختیار رونے لگیں اور چیخ و پکار تک نوبت پہنچی تو سیدنا عمرؓ اس وقت عورتوں کو سختی سے منع کرنے لگے رسول خداﷺ نے سیدنا عمرؓ کو روکا اور اس موقع پر سختی کرنے سے منع فرما دیا ۔ 

وقال مهلا يا عمرؓ ثم قال اياكن ونعيق الشيطن ثم قال انه مهما كان من العين ومن القلب فمن الله عز وجل ومن الرحمة وما كان من اليد ومن اللسان فمن الشيطان۔ (رواہ احمد)

[مشکٰوة شریف صفحہ 152 طبیع نور محمدی دہلی باب البكاء على الميت الفصل الثالث]

 یعنی اے عمر! اس سختی کرنے سے ٹھہر جائیے پھر آنجنابﷺ نے عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ شیطانی آواز نکالنے سے تم پرہیز کرو پھر ارشاد فرمایا جو آنسو آنکھ سے بہتے ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے ہے اور اس کی رحمت میں سے ہے اور جو کچھ ہاتھ سے یا زبان سے صادر ہوتا ہے وہ شیطان کی طرف سے ہے یعنی ہاتھ اور زبان سے صادر ہونے سے مراد پیٹنا اور واویلا کرنا۔ مختصر یہ ہے کہ سردارِ دو عالمﷺ نے اپنی صاحبزادی کی وفات پر امت کو اس بات کی تعلیم فرمائی کہ ہاتھ اور زبان سے بے صبری کی حرکات صادر کرنا اور کلمات کہنا مسلمان کے لئے کسی طرح جائز نہیں یہ جاہلیت کی رسومات تھیں جو وہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کی موت پر ادا کیا کرتے تھے۔ اسلام نے آ کر صبر اور برداشت کی تلقین فرمائی جو اس موقعہ پر آنجنابﷺ کے ارشادات میں موجود ہے۔

 سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے غسل اور کفن کا انتظام

 سیدہ زینبؓ کے غسل کا انتظام سردارِ دو عالمﷺ کی خاص نگرانی میں ہوا تھا اور اس فضیلتِ غسل میں خصوصی طور پر اُم المؤمنین سیدہ سودہ بنت زمعہؓ اور اُم المؤمنین امِ سلمہؓ اور صالحہ عورت امِ ایمنؓ نے حصہ لیا اور انہوں نے اس پاک دامن خاتون کے غسل کا انتظام عمدہ طریقے سے کیا۔

[انساب الاشراف للبلاذرى صفحہ 400 جلد1 بحث أزواج رسول اللهﷺ وولدهٖ]

 حدیث کی بعض کتب میں اس طرح منقول ہے کہ امِ عطیہ انصاریہ بھی غسلِ زینبؓ میں شامل تھیں۔امِ عطیہؓ فرماتی ہیں جب سیدہ زینبؓ کا انتقال ہوا تو ہمارے پاس نبی اقدسﷺ تشریف لائے اور آپﷺ نے فرمایا کہ زينبؓ کے نہلانے کا انتظام کرو پانی اور بیری کے پتوں کو مہیا کرو اور ان کے ابلے ہوئے پانی کے ساتھ تین بار یا پانچ بار غسل دو اور آخری بار میں کا فور کی خوشبو لگاؤ پھر جب نہلا چکو تو مجھے اطلاع کرنا۔

 "فلما فرغنا اٰذناه فاعطانا حقوه : قال اشعرنها اياه تعنى ازارہٗ۔"

ارشاد فرمایا تم جب غسلِ زینبؓ سے فارغ ہو تو مجھے اطلاع کرنا پس ہم نے اطلاع کر دی تو آنجنابﷺ نے اپنے جسم مبارک سے اپنا تہ بند اتار کر عنایت فرمایا اور فرمایا کہ میرے تہ بند کو کفن کے اندر داخل کر دو۔

[¹- بخاری شریف صفحہ 167 جلد 1 باب غسل الميت ووضوءهٖ بالمآء والسدر 

²- مسلم شریف صفحہ 304 جلد1 کتاب الجنائز

³- طبقات ابنِ سعد صفحہ 334 جلد 8تحت ذکر امِ عطیه انصاریہؓ۔

⁴- طبقات ابنِ سعد صفحہ 22 جلد8 تحت ذکر زینبؓ۔

 اسی طرح دیگر حدیث کی کتابوں سے بھی واقعہ ہذا دستیاب ہو سکتا ہے۔ 

⁵- مصنف ابنِ ابی شیبۃ صفحہ242 جلد3 کتاب الجنائز - طبع کراچی]

تبرک حاصل کرنا

 اس مقام میں حافظ ابنِ حجر عسقلانیؓ نے ایک عجیب بات ذکر کی ہے وہ یہ ہے کہ آنجنابﷺ نے اپنا تہ بند مبارک اتار کر پہلے ہی ان کے حوالے نہیں کر دیا کہ کفن میں شامل کریں بلکہ ارشاد فرمایا کہ جب تم نہلا لو تو مجھے اطلاع کرنا اس میں حکمت یہ تھی کہ نبی اقدسﷺ کے جسم مبارک کے ساتھ وہ تہ بند زیادہ دیر لگا ہے اور قریب تر وقت میں اپنے جسم سے منتقل ہوا اور زینبؓ کے جسم سے لگے تہ بند کے منتقل کرنے میں زیادہ فاصلہ نہ ہو۔ یہ چیز صالحین کے آثار کے ساتھ تبرک پکڑنے میں اصل چیز ہے۔ 

 ولم ينا ولن اياه اولا ليكون قريب العهد من جسدهٖ الكريم حتٰى لا يكون بين انتقاله من جسد الى جسدها فاصل وهو اصل في التبرك بآثار الصالحين

[¹- فتح الباری شرح بخاری صفحہ 101 جلد3 کتاب الجنائز آخر باب غسل الميت و وضوئه]

صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا پر نقش یعنی ڈولی کا بنایا جانا

 سیدہ زینبؓ کا غسل مکمل ہونے کے ساتھ کفن کا انتظام بھی تمام ہو گیا وہاں اسماء بنتِ عمیسؓ (جو اس وقت سیدنا جعفر طیارؓ کی زوجہ محترمہ تھیں بھی موجود تھیں انہوں نے عرض کیا کہ حبشہ کے ملک میں ہم نے دیکھا ہے کہ عورتوں کی پردہ داری کے لئے ان کی چار پائی پر ایک قسم کی نعش یعنی ڈولی بنا دی جاتی ہے۔ تاکہ میت کی جسامت پوری طرح مستور رہے تو سیدہ اسماءؓ کے اس مشورہ پر اس موقع پر سیدہ زینبؓ کی چار پائی پر بھی نعش کی شکل میں پردہ داری کا انتظام کیا گیا یہ پہلى مسلم خاتون ہیں جن کا جنازہ اس اہتمام اور تکریم سے اٹھایا گیا۔

 بلاذری نے انساب الاشراف میں یہ واقعہ ذکر کیا ہے۔

وجعل لها نعش فكانت اول من اتخذ لها ذالك والذي أشارت باتخاذه اسماء بنت عميس رائة بالحبشه و هي مع زوجها جعفر بن أبي طالب ..... الخ 1

[انساب الاشراف للبلاذري صفحہ 400 جلد1بحث ازواج رسول اللهﷺ وولده]

میت کی پردہ داری کے لئے نعش کا بنایا جانا جو سیدہ اسماءؓ نے یہاں بیان کیا ہے سیدہ فاطمہؓ کی وفات کے موقع پر بھی سیدہ اسماءؓ نے اسی طرح مشورہ دیا تھا اور اس کے مطابق وہاں بھی نعش کا انتظام کیا گیا تھا آئندہ سیدہ فاطمہؓ کے واقعات میں اس کا بھی ذکر ہو گا۔ ان شاء اللہ العزیز یاد رہے کہ سیدہ فاطمہؓ کے جنازہ کے وقت یہ اسماءؓ سیدہ ابوبکر صدیقؓ کی زوجہ محترمہ تھیں۔ 

 سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا جنازہ اور اس میں سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کی شرکت

 صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے لئے جب جنازہ کی تیاری ہوئی تو خود سردارِ دو عالمﷺ نے سیدہ زینبؓ پر نمازِ جنازہ پڑھائی جو ایک عظیم شرف ہے اور امت کے خاص خاص افراد کو ہی حاصل ہوا۔

 وصلى عليها رسول اللهﷺ

[¹- انساب الاشراف صفحہ 400 جلد1 بحث ازواج رسول الله وولدهٖ]

سیدہ زینبؓ کے بابرکت جنازہ میں جس طرح مدینہ شریف کے مسلمان شامل ہوئے اسی طرح مدینہ منورہ کے مسلمانوں کی عورتیں بھی جنازہ پڑھنے کی فضیلت میں شریک ہوئیں اور یہ تمام عورتیں سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ مل کر تشریف لائیں تھیں اور سیدہ فاطمہؓ نے اپنی بڑی بہن کے جنازہ میں شرکت کی تھی، اور اپنی بہن کے ساتھ مودت اور محبت کا پورا پورا ثبوت دیا تھا۔ جنازہ کے اس واقعہ کو شیعہ علماء نے اپنے مقام میں پوری تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے ذیل میں ان کی معتبر کتاب اصولِ اربعہ سے چند عبارات نقل کی جاتی ہیں تاکہ کسی شک اور شبہ کی گنجائش نہ رہے۔ 

سیدنا جعفر صادقؒ سے ایک شخص نے مسئلہ دریافت کیا کہ جنازہ پر عورتیں آ کر شامل ہو سکتی ہیں؟ اور عورتیں جنازہ ادا کر سکتی ہیں یا نہیں؟ اس کے جواب میں جعفر صادقؒ نے ارشاد فرمایا کہ رسول خداﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ جب انتقال فرما گئی تو سیدہ فاطمہؓ عورتوں کے ساتھ مل کر تشریف لائیں اور اپنی خواہر زينبؓ پر نمازِ جنازہ ادا فرمائی۔ 

فقال يا ابا عبد الله اتصلى النساء على الجنازة؟ قال فقال ابو عبد الله عليه السلام ...وان زینب بنت النبيﷺ توفيت وان فاطمة عليها السلام خرجت في نسائها فصلت على اختها

[¹- تہذیب الاحکام لمحمد بن حسن بن علی الطوسی صفحہ215 آخر باب الصلٰوة على الاموات طبع قدیم ایران

²- کتاب الاستبصار للشيخ الطوسی (محمد بن حسن بنی علی) صفحہ245 جلد1 باب الصلٰوة على جنازة معها امرارة طبع لكهنؤ قديم 

³- منتہٰى المقال لابی علی صفحہ 434 باب ذکرنساء لہن طبع قدیم ایران]

 مندرجات بالا کے ذریعے یہ بات واضح ہو گئی کہ طاہرہ مطہرہ سیدہ زینبؓ کا جنازہ خود جناب نبی کریمﷺ نے پڑھایا اور ان کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی جس کی مقبولیت میں کچھ شبہ نہیں ہے۔ اور پھر سیدہ فاطمہؓ نے اپنی پیاری بہن پر نمازِ جنازہ ادا فرما کر حق اخوت پورا کیا اور ان کے حق میں دعائے مغفرت فرمائی اور مدینہ کی مسلمان عورتوں مردوں نے بھی ان کے ساتھ ساتھ سیدہ زینبؓ کے لئے دعائے مغفرت کی۔ یہ چیزیں سیدہ زینبؓ کے حق میں عظیم فضیلت اور شرف کی ہیں جن کا انکار کوئی مسلمان نہیں کر سکتا۔ اس دور کے بیچارے مرثیہ گو اور مجلس خواں اگر ان فضائل کا انکار کریں تو ان کو البتہ زیب دیتا ہے جن کو نہ سردارِ دو عالمﷺ کے افعال و اقوال کی پرواہ ہے نہ اپنے ائمہ اور اہلِ بیتؓ کے اعمال اور اقوال کی حاجت ہے اور نہ ہی شیعہ کے مجتہدین کے احکام کی کوئی وقعت ہے اصل میں یہ بزرگ بقلم خود مجتہد ہیں ان کو اپنے اکابر کا کوئی پاس نہیں۔

 قبر زینب رضی اللہ عنہا میں اتر کر دعا فرمانا

 جس وقت سیدہ زینبؓ کا جنازہ ہو چکا اس کے بعد ان کی تدفین کا مرحلہ تھا اس مقام میں علماء نے دفن کے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین سے نقل کیا ہے۔ سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول خداﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کا انتقال ہوا ہم صحابہؓ کی جماعت سیدہ زینبؓ کو دفنانے کے لئے نبی کریمﷺ کے ساتھ حاضر ہوئے ہم قبر پر پہنچے سردارِ دو عالمﷺ نہایت مغموم تھے ہم میں سے کوئی آنجنابﷺ کی خدمت میں کلام کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ قبر کی لحد بنانے میں ابھی كچھ معمولی دیر تھی آنجنابﷺ قبر کے پاس تشریف فرما ہوئے اور ہم لوگ آپ کے آس پاس بیٹھ گئے ہم سب پر ایک قسم کی حیرانی کا عالم طاری تھا اسی اثناء میں آپ کو اطلاع کی گئی کہ قبر تیار ہو گئی ہے۔ اس کے بعد آنجنابﷺ خود قبر کے اندر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد آپﷺ قبر سے باہر تشریف لائے آنجنابﷺ کا چہرہ انور کھلا ہوا تھا اور غمگینی کے آثار کم ہو چکے تھے طبیعت بشاش تھی ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ! ہم پہلی حالت کے متعلق کلام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اب جناب کی طبیعت میں بشاشت ہے اس کی کیا وجہ ہے ل؟ آنجنابﷺ نے فرمایا کہ قبر کی تنگی اور خوفناکی میرے سامنے تھی اور زینبؓ کا ضعف اور کمزوری بھی مجھے معلوم تھی یہ بات مجھے بہت ناگوار گزر رہی تھی پس میں نے اللہ عزوجل سے دعا کی ہے کہ زینبؓ کے لئے اس حالت کو آسان فرما دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے منظور فرما لیا اور زینبؓ سے اس مشکل کو دور کر دیا گیا۔ 

فقلنا يا رسول الله رأنياك مهتما حزينا فلم نستطع أن نكلمك ثم رأيناك سرى عنك فلم ذالك قال كنت اذكر ضيق القبر وغمه وضعف زينب فكان ذالك يشق على فدعوت الله عزوجل ان يخفف عنها ففعل

[¹- مجمع الزوائد للهيثمي صفحہ47 جلد 3 تحت باب في ضغطة القبر

 ²- كنز العمال لعلى المتقى الهندى صفحہ120 جلد8 طبع اول دكن تحت سوال القبر وعذابه

 ³-اسد الغابه صفحہ468 جلد5 تحت زينب بنتِ رسول اللهﷺ

⁴- ذخائر العقبي المحب الطبري صفحہ160 من تحت ذکر وفات زینبؓ بنتِ رسول اللهﷺ]

مندرجہ بالا مسئلہ کو شیعہ علماء نے بھی اپنی معتبر کتابوں میں درج کیا ہے شیعہ کتب سے بعینہ عبارت نقل کی جاتی ہے تاکہ ناظرین کرام کو اس مسئلہ میں پوری طرح تسلی ہو جائے کہ یہ مسئلہ شیعہ و سنی دونوں فریقین کے ہاں مسلم ہے حالاتِ زینبؓ دختر نبویﷺ میں مامقانی نے لکھا ہے کہ:

 ماتت سنة ثمان في حياة رسول اللهﷺ ونزل في قبرها و هو مهموم محزون فلما خرج سرى عنه وقال كنت ذكرت زينب وضعفها فسالت الله تعالىٰ ان يخفف عنها ضيق القبر وغمسه ففعل وهون عليها 

 [¹- تنقيح المقال لعبد الله مامقانی صفحہ79 جلد 3 طبع ایران من فصل النساء تحت زينب بنتِ رسول اللہﷺ]

 اس کا مفہوم یہ ہے کہ رسولِ خداﷺ کی زندگی میں سن 8 ہجرى میں سیدہ زینبؓ فوت ہوئیں اور زینبؓ کی قبر میں رسولِ خداﷺ غمگینی کی حالت میں اُترے اور نہایت غمزدہ تھے جب قبر سے باہر تشریف لائے تو طبیعت کِھلی ہوئی تھی اور ارشاد فرمایا کہ زینبؓ کے ضعف کا مجھے بہت خیال تھا میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا ہے کہ قبر کی تنگی زینبؓ سے کم کر دی جائے پس اللہ تعالیٰ نے منظور فرما لیا اور اس پر آسانی کر دی ہے۔ فریقین کی کتابوں سے معلوم ہو گیا کہ آنجنابﷺ نے اپنی پیاری صاحبزادی کے حق میں کس قدر مشفقانہ معاملہ فرمایا وفات سے لے کر دفن تک تمام مراحل میں آنجنابﷺ کی نظر عنایت شامل حال رہی جیسا کہ حوالہ جات بالا میں تفصیلاً پیش کر دیا ہے آخر مرحلہ قبر میں تو خصوصی توجہ فرما کر آنجنابﷺ نے سیدہ زینبؓ کے لئے سفر آخرت کا مرحلہ اپنی خصوصی شفاعت کے ساتھ طے فرما دیا اور قبولِ شفاعت کو اس عالم میں ہی بر ملا طور پر بیان فرما دیا ۔

 سیدہ زینبؓ كے حق میں بڑی فضیلت ہے جو ان کو دربارِ نبوتﷺ سے مل چکی اور اہلِ اسلام کی خواتین کے لئے سرمایہ عبرت ہے وجہ یہ ہے کہ قبر کا مرحلہ کوئی معمولی بات نہیں اس کی فکر رکھنا اور تیاری کرنا مہماتِ دین میں سے ہے آنجنابﷺ کی اولاد شریف کے لئے جب یہ حالات پیش آرہے ہیں تو دوسروں کو تو ان واقعات کی خصوصی فکر کی ضرورت ہے۔ 

 صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کیلئے شہیدہ کے لقب کی خصوصی فضیلت

سیده زینبؓ بنتِ رسول خداﷺ کے متعلقہ سوانح اور حالات مختصر طور پر ناظرین کی خدمت میں پیش کیئے گئے ہیں ان کی زندگی کا ہر ایک واقعہ بڑی اہمیت کا حامل ہے ابتدائی دور سے لے کر ہجرت تک یہ ایک دور اول ہے پھر ہجرت کے بعد ان کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے۔ مدنی زندگی کے متعلق ہے ان تمام حالات پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے دشوار تر واقعہ ان کی ہجرت کا ہے جس میں ان کو سخت اذیتیں پہنچیں۔ اور ان معصومہ نے بڑے صبر وثبات کے ساتھ برداشت کیں علماء نے لکھا ہے کہ وفات سے قبل ان کے وہی زخم تازہ ہو گئے جو ان کو واقعہ ہجرت میں پہنچے تھے اور وہی چیزیں ان کی وفات کا سبب بنیں اس بناء پر بڑے بڑے اکابر مصنفین نے ان کے حق میں یہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔

 فلم تزل وجعة حتٰى ماتت من ذالك الوجع فكانوا یرون انها شهيدة

[مجمع الزوائد للهيثمي صفحہ 215 جلد9 باب ماجاء في فضل زينبؓ]

 اور حافظ ابنِ کثیرؒ نے البدایہ جلد خامس سیدہ زینبؓ کے تذکرہ میں یہی مفہوم مندرجہ ذیل الفاظ میں ادا کیا ہے۔ 

 فكانوا يرونها ماتت شهيدة

[البداية لابن كثير صفحہ308 جلد8 من فصل فی ذکر اولادہﷺ]

 ان عبارات کا مطلب یہ ہے کہ سیدہ زینبؓ اس درد زخم کی وجہ سے ہمیشہ بیمار رہیں حتیٰ کہ ان کا انتقال ہو گیا اس بناء پر اہلِ اسلام ان کو شہیدہ کے نام سے تعبیر کرتے ہیں اور ان کا لقب شہیدہ زینبؓ تجویز کیا گیا ہے۔

صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے سوانح کا اجمالی خاکہ

 ماقبل میں آنجنابﷺ کی پیاری صاحبزادی سیدہ طاہرہ زینبؓ کے احوال درج کیئے گئے ہیں ان احوال کا ایک اجمالی خاکہ ہم ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تاکہ ان کے کوائف زندگی یکجا نظر آسکیں علمائے کرام نے لکھا ہے کہ :۔ 

1_ رسالت مآبﷺ کی صاحبزادیوں میں سیده زینبؓ سب سے بڑی صاحبزادی ہیں۔ 

2_ آنجنابﷺ کی عمر مبارک کے تیسویں سال ان کی ولادت ہوئی۔ 

3_ اپنی والدہ ماجدہ سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کے زیرِ تربیت ان کی پرورش ہوئی اور انہی والدہ شریفہؓ کی نگرانی میں انہوں نے ہوش سنبھالا۔ باشعور زندگی حاصل کی اور جوان ہوئیں۔ 

4_ ابو العاص بن ربیعؓ کے ساتھ سیدہ زینبؓ کا نکاح نبی کریمﷺ نے سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کے مشورہ سے کیا بعض اقوال کے اعتبار سے اس وقت تک نزول وحی شروع نہیں ہوا تھا۔

 5_ جب آنجنابﷺ نے اظہارِ نبوت فرمایا تو اُم المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ پہلے مرحلہ پر ہی ایمان لے آئیں اور آپ کی صاحبزادیاں بھی اپنی ماں کے ساتھ مشرف با سلام ہوئیں اور مشکلات کے دور کو ان سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ اور مصائب برداشت کیئے۔ 

6_ (حاشیہ میں) داماد نبیﷺ ابو العاصؓ کے حق میں چند مختصرات مذکور ہیں۔

7 _ مشرکینِ مکہ نے منصوبہ بنایا کہ جس طرح بھی ہو سکے ابو العاصؓ سے سیدہ زینبؓ کو طلاق دلوا دیں اور حسبِ منشاء دیگر رشتہ کی پیش کش کی لیکن ابو العاصؓ ثابت قدم رہے اور رشتہ نبویﷺ کو قطع کرنا منظور نہ کیا۔

8 جنگِ بدر سن 2 ہجرى میں ہوئی ابوالعاصؓ تا حال مسلمان نہیں ہوئے تھے کفار کے مجبور کرنے پر وہ بھی شریکِ جنگ ہوئے اور اہلِ اسلام کے ہاتھوں قید ہو کر مدینہ منورہ پہنچے۔ ابوالعاصؓ کی رہائی کے لئے سیدہ زینبؓ نے اپنا ہار بطورِ فدیہ کے مدینہ شریف بھیجا۔ یہ ہار سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کا تھا جو انہوں نے جہیز میں اپنی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کو دیا تھا حضورﷺ کی خدمت اقدس میں اس بابرکت ہار کی پیشگی ہونے پر ایک رقت انگیز منظر پیدا ہوا اور جنابﷺ کو خدیجہ الکبریٰؓ کی یاد تازہ ہو گئی۔ صحابہ کرامؓ کے ساتھ مشورہ کی بنا پر اس تاریخی ہار کو واپس کر دیا گیا اور رسالت مآبﷺ نے ابو العاصؓ سے وعدہ لیا کہ صاحبزادی زینبؓ کو آپ کے ہاں مدینہ میں بھیج دیا جائے گا۔ 

9_ چنانچہ ابو العاصؓ نے حسب وعدہ سیدہ زینبؓ کو مدینہ منور بھیجنے کا انتظام کر دیا اندریں حالات کفار سیدہ زینبؓ کے سفر میں معارض ہوئے ہبار بن اسود نے انتہائی درجہ کی اذیت پہنچائی سیدہ زینبؓ نے مشکل مراحل گزار کر اس صبر آزما سفر کو بڑی اذیت سے طے کیا اور زید بن حارثہؓ وغیر کی معیت میں مدینہ طیبہ پہنچیں۔ 

10- اس واقعہ کے بعد سردار دوعالمﷺ نے اپنے داماد ابوالعاصؓ کی عمدہ تعریف کی اور اس کے وفائے عہد کی تحسین فرمائی۔

11_ ان دشوار تر مصائب گزار نے پر نبی کریمﷺ نے سیدہ طاہرہ زینبؓ کی منقبت ان الفاظ میں فرمائی 

 هی خیر بناتی _او_هي افضل بناتي أصيبت في

 یعنی میری بیٹیوں میں بہترین بیٹی زینبؓ ہیں جو میری وجہ سے مصیبت زدہ ہوئیں۔ گویا سیدہ زینبؓ کے حق میں برداشت مصائب پر زبان نبوتﷺ نے شہادت دی اور عظیم فضیلت بیان فرمائی۔

12- ایک موقع پر ابوالعاصؓ مدینہ منورہ پہنچے اور سیدہ زینبؓ نے ان کو پناہ دی اور سیدہ زینبؓ کے پناہ دینے کو رسالت مآبﷺ نے صحیح قرار دیا یعنی وہ پناہ منظور ہوئی یہ چیز سیدہ زینبؓ کے حق میں منقبتِ عظیمہ ہے۔ 

13 - اس واقعہ کے بعد ابو العاصؓ مکہ شریف چلے گئے اور لوگوں کی امانتیں واپس پہنچا کہ اسلام لائے اور واپس مدینہ شریف آ کر آنجنابﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو گئے۔ 

14_ ایک حاشیہ ہے جس میں سیدہ زینبؓ کو نکاحِ جدید اور مہرِ جدید کے ساتھ ابو العاصؓ کی طرف واپس کیا جانا مذکور ہے۔ اور اس مسئلہ میں دیگر اقوال بھی پائے جاتے ہیں۔

15_ مقام ہذا کے چند فوائد جو سیدہ زینبؓ اور سیدنا ابو العاصؓ دونوں کے متعلقہ ہیں۔ 

16_ سیدہ زینبؓ کی اولاد کا ذکرِ خیر خصوصاً امامہ بنتِ ابی العاصؓ اور علی بن ابی العاصؓ کا مختصراً حال نیز یہاں سیدہ فاطمہؓ اکی وصیت امامہؓ کے حق میں مذکور ہے۔

 17_ سیدہ زینبؓ کی وفات مدینہ طیبہ میں سن 8 ہجرى میں ہوئی ہجرت والے زخم پھر تازہ ہو گئے تھے جو ان کی وفات کا باعث ہوئے علماء فرماتے ہیں کہ سیدہ زینبؓ قریباً تیس برس زندہ رہیں۔ 

18_ ان کی وفات پر عورتیں واویلا کرنے لگیں جس سے فرمان نبویﷺ کے ذریعے منع کر دیا گیا۔ 

19_ سیدہ زینبؓ کے غسل اور کفن کا انتظام آنجنابﷺ کی نگران میں اُم المؤمنین سیدہ امِ سلمہؓ وغیرہ نے کیا۔ 

20_ ان کے کفن میں چادرِ نبویﷺ کا استعمال ہوا جو غایت درجہ کا تبرک ہے۔  

21_ اپنی بہن سیدہ زینبؓ کے جنازہ میں سیدہ فاطمہؓ نے شرکت کی۔

22_ رسالت مآبﷺ کا قبرِ زینبؓ میں اُتر کر دعا کرنا اور دعا کا قبول ہونا ایک خصوصی فضیلت عظیمہ ہے۔

 23_ سیدہ زینبؓ کے مناقب میں علمائے کرام یہ ذکر فرماتے ہیں کہ وہ اللہﷻ کے راستہ میں شہید ہونے والی خاتوں ہیں اور شہیدہ کے لقب سے ملقب ہیں ۔  

 رضی الله تعالى عنها وعن جميع اخواتها

لمحہ فكريہ

 قارئین کرام نے سیدہ زینبؓ کے متعلقات ملاحظہ فرما لیئے یہ فضائل و کمالات ان کو حاصل ہوئے دین کے لئے مصائب و شدائد کا برداشت کرنا ان کو نصیب رہا۔ اور اس میں ثابت قدمی ان کا شیوہ رہا۔ تمام زندگی تمام اپنے والد شریفﷺ کے ساتھ خدمت و اطاعت میں گزار دی آپ نے ان کو ان کے اعمال مقبولہ کی بنا پہ خیر بناتی اور افضل بناتی کے مخصوص القاب سے نوازا۔ اور وفات تک ان پر سید دو عالمﷺ کی نظر شفقت قائم رہی۔ انتقال کے بعد تجہیز و تکفین کے جملہ مراحل میں آپ کے شفیقانہ سلوک اور کریمانہ عنایات کی انتہاء ہو گئی یہاں تک کہ آنجنابﷺ ان کے آخری مقام قبر میں اترے اور سیدہ زینبؓ کو آنجنابﷺ کی طرف سے شفاعت کی قبولیت کی بشارتِ عظیمہ حاصل ہوئی ۔ ان صاحبزادیوں رضی اللہ عنہن کے حق میں بعض لوگ اس دور میں زبان طعن دراز کیئے ہوئے ہیں اور لکھتے ہیں کہ یہ نبی کی روایتی بیٹیاں تھیں، یہ نبی کی رواجی بیٹیاں تھیں اور ان کے حق میں کوئی فضیلت قرآن و حدیث سے نہیں ملتی مطلب یہ ہے کہ صاحبزادیاں (سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ سیدہ اُمِ کُلثومؓ نبی اقدسﷺ کی اولاد نہیں ہیں اور ان کی کوئی فضیلت کتابوں میں مذکور نہیں .......... الخ (استغفر الله العظيم) 

ناظرین کرام ! اپنے مہربان پیغمبرﷺ کی اولاد شریف کے حق میں ان لوگوں کا کی نفی نہایت نازیبا سلوک ہے۔ یہ لوگ بڑی بے باکی کے ساتھ ان صاحبزادیوں سے آنجنابﷺ کے نسب كى نفى كرتے ہیں اور اللہ سے بالکل نہیں ڈرتے اور ساتھ ہی ساتھ دعویٰ یہ ہے کہ ان بیبیوں کی کوئی فضیلت کتابوں میں نہیں ملتی نہ شیعہ کی کسی کتاب میں نہ کسی سنی کتاب ہیں۔ ہم نے یہ چند واقعات اسلامی کتب سے جمع کر کے ناظرین کی خدمت میں پیش کر دیئے ہیں ساتھ ساتھ شیعہ معتبرات کے بھی حوالے دے دیئے ہیں۔ اب باانصاف اور شریف با شعور آدمی اس چیز کا فیصلہ خود کر لیں کہ حق بات کون سی ہے؟ اور از خود تراشیدہ چیزیں کون سی ہیں؟ مزید کسی تبصرہ و تشریح کی حاجت نہیں رہے گی۔ قلیل سے خوفِ خدا کی حاجت ہے اگر کہیں سے دستیاب ہو جائے ، تو سبحان اللہ وہ ساتھ ملا لیں۔ اس کے بعد ازالہ شبہات کا عنوان درج کیا جاتا ہے۔

صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے متعلقہ شبہات کا ازالہ

 سردارِ دو جہاںﷺ کی حقیقی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے متعلقہ سوانح اور ان کے حالات، فضائل اور سیرت و کردار ہم نے بقدر ضرورت بیان کر دیئے ہیں۔ ان تمام حالات پر بشرط انصاف نظر کرنے سے اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ آنجنابﷺ کی تحقیقی صاحبزادی ہیں اوران کی والدہ محترمہ اُم المؤمنین سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ بنتِ خویلد ہیں۔ صاحبزادی زینبؓ نہ لے پالک بیٹی ہیں اور نہ ہی اُم المؤمنین سیدہ خدیجہؓ کی خواہر زادی ہیں بلکہ رسالت مآبﷺ کی حقیقی دختر محترمہ ہیں اگر کوئی شخص ان گذشتہ مندرجات سے روگردانی کرتے ہوئے از راہ عناد اولادِ نبویﷺ کے ساتھ بعض اور تعصب اختیار کرتا ہے اور سیدہ زینبؓ کو ربیبہ ذکر کرتا ہے تو یہ تاریخی حقائق کی تکذیب ہے۔ اہلِ سنت کے حوالہ جات اس مسئلہ پر ہم نے سابقاً ایک ترتیب کے ساتھ ذکر کر دیئے ہیں اور شیعہ کے بھی ہر دور کے معتبر حوالہ جات ہم نے پیش کر دیئے ہیں اب فریقین کو اس مسئلہ پر غور و فکر کرنے کا پورا موقعہ حاصل ہے۔ اب اس چیز کے متعلقات ذکر کیئے جاتے ہیں جو لوگ سیدہ زینبؓ کو ربیبہ ثابت کرتے ہیں ان کے اس دعوے کی حقیقت کیا ہے؟ کیا ان کے پاس کوئی چیز قابلِ غور ہے۔ یا ان کے دلائل درجہ اعتبار سے بالکل ساقط ہیں؟ ناظرین کرام وہ چیزیں ملاحظہ فرمالیں جن کو وہ دلائل کا درجہ دیتے ہیں اس کے بعد ان کی اصل حقیقت پیش ہو گی۔ ناظرین کرام! ان چیزوں کے ملاحظہ کرنے کے بعد خود ایک نتیجہ پر پہنچ جائیں گے۔

 بعض اہلِ سیرت کا ایک قول

بعض لوگ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں سے ایک قول پیش کرتے ہیں کہ اُم المؤمنین سیدہ خدیجة الکبریٰؓ کے سابق خاوند ابو ہالہ بن مالک سے ان کی جو اولاد ہوئی اس میں زینب بنتِ ابی ہالہ ایک لڑکی تھی اور ایک لڑکا ہند بن ابى ہالہ تھا۔ اس قول کی بناء پر مسئلہ تجویز کیا گیا ہے کہ صاحبزادی سیدہ زینبؓ نبی کریمﷺ کی حقیقی بیٹی نہیں بلکہ خدیجہ الکبریٰؓ کے سابق خاوند ابو ہالہ کی اولاد میں سے ہے اعتراض کا تمام مدار اسی قول پر ہے اس کے بغیر اور کوئی چیز ان کے پاس نہیں۔

 توضیحات

 ناظرین کے افادہ کی خاطر یہاں چند چیزیں ذکر کی جاتی ہیں ان کو بغور ملاحظہ فرما لینے کے بعد اس مسٔلہ کے متعلق ان شاء اللہ تشغی ہو جائے گی۔ 

1_ ابو ہالہ کی لڑکی زینب جو اس قول میں ذکر کی گئی ہے اور اس کی ماں خدیجہ الکبریٰؓ بیان کی ہے یہ قول بعض سیرہ نگار مثلاً ابنِ ہشام نے لکھا ہے، اور اس کی کوئی سند پیش نہیں کی اور نہ ہی اس قول کے متعلق کہیں کوئی انتساب مذکور ہے کہ فلاں صحابی، تابعی یا تبع تابعی کا یہ قول ہے نہ ہی کسی باسند محدث اور سیرت نویس کا نام درج کیا گیا ہے مختصر یہ ہے کہ اس قول کے متعلق یہ نہیں معلوم ہو سکا کہ یہ کس بزرگ کا فرمان ہے اور جس کا بھی یہ قول ہے وہ بغیر سند سے ہے جس کا کوئی وزن نہیں۔

 2_ اس سیرت نگار یعنی ابنِ ہشام سے یہ قول جس نے بھی نقل کیا وہ نقل در نقل چلتا رہا ہے ان ناقلین میں سے کوئی بھی اس کی سند پیش نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی اس کے قائل کی طرف کوئی صحیح انتساب سامنے آیا ہے۔

3_ نیز قابل غور بات یہ ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کے سابق خاوند کی اولاد بے شمار علمائے حدیث، سیرت نگار، علمائے انساب و علمائے تراجم و تاریخ نے ذکر کی ہے لیکن ان لوگوں نے ابو ہالہ کی اولاد جو خدیجہ الکبرىٰؓ سے ذکر کی ہے، اس میں کہیں زینب کا نام ذکر نہیں کیا یہ حضرات زینب نام کی کوئی لڑکی ابو ہالہ کی سیدہ خدیجہؓ سے تو تحرير نہیں کرتے یہ اس بات کا قوی قرینہ ہے کہ زینب کے نام کی کوئی لڑکی ابو ہالہ کی سیدہ خدیجہؓ سے نہیں ہوئی تھی ورنہ ابو ہالہ کی اولاد ذکر کرنے والے علماء اس کو ضرور اس مقام میں بیان کرتے اب ہم یہاں مذکورہ علماء کی تصانیف سے اس مسئلہ پر حوالہ جات نقل کرتے ہیں تاکہ ناظرین کرام کو تسلی ہو جائے ۔ پہلے اہلِ سنت علماء کے حوالہ جات پیش خدمت ہوں گے اس کے بعد شیعہ مصنفین اور شیعہ مجتہدین کے اقوال اس مسئلہ پر بطورِ تائید درج کیئے جائیں گے۔

حوالہ جات

1_ طبقات ابنِ سعد میں مسئلہ ہذا اس طرح مذکور ہے 

فولدت خديجة لابي هالة رجل ايضا ثم خلف عليها بعد ابي هالة عتيق بن عابد بن عبد الله

[طبقات ابنِ سعد صفحہ8 جلد8 طبع لیڈن تحت تسمية النساء المسلمات والمهاجرات ... الخ ]

2_ واخوة ولد رسول اللهﷺ لا مهم هند بن عتيق بن عابدين عبد الله .. .. وهندبن ابي هاله ........ نباش بن زراه و هاله بنت ابي هاله.

[کتاب نسبِ قریش صفحہ 22 تحت والد عبدالله بن عبدالمطلب] حوالہ جات کا مضمون یہ ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کے سابق خاوند ابو ہالہ سے سیدہ خدیجہؓ کی اولاد میں ہند نامی ایک لڑکا پیدا ہوا اور بقول بعض ہالہ ابو ہالہ کی لڑکی تھی مختصر یہ ہے کہ زینب نامی لڑکی ابو ہالہ سے نہ تھی۔ اب ہم ذیل میں کتابوں کے صرف حوالہ جات اختصار نقل کرتے ہیں۔ عبارات پیش کرنے سے بڑی طویل ہو جاتی ہے ان حوالہ جات میں یہی مضمون موجود ہے۔

 3_ ¹- كتاب المحبر صفحہ 78 تحت ازواج رسول اللهﷺ

 ²- كتاب المحبر لابی جعفر بغدادى صفحہ 452 تحت اسماء من تزوج ثلثة ازواج فصاعداً من النساء

⁴- المعارف لابن قتيبة الدينوري صفحہ 58 ،59 باب نسب سیدنا محمد بن عبدالله المصطفىﷺ ⁵- کتاب انساب الاشراف للبلاذري صفحہ406، 407 جلد1

 ⁶- جمهرة انساب العرب لابن حزم صفحہ143"142 210

 ⁷- السنن الكبرىٰ للبيهقی صفحہ71جلد سابع كتاب النكاح باب تسمية بة ازواج النبيﷺ وبناته 

⁸- مجمع الزوائد للهيثمی صفحہ219 جلد 9 تحت باب فضل خديجةؓ بنتِ خویلد 

 ⁹- الاستيعاب لابن عبد البر صفحہ 568 جلد3 تحت ہندبن ابي ہالہ مع الاصابة

¹⁰- الروض الانف للسيهلى صفحہ124 جلد1 فصل تزويجه عليه السلام خديجةؓ

 ¹¹- اسد الغابه لابن اثیر جزری صفحہ434 جلد 5 تحت خديجه أم المؤمنين رضي الله عنها۔

¹²- البدايه لابن كثير صفحہ 293 ،294 جلد5 باب ذكر زوجاتهٖ صلوات الله وسلامه عليه ورضى الله عنهن واولادهٖﷺ

¹³- الاصابه لابن حجر صفحہ410 جلد4 تحت ہند بن عتیق 

¹⁴- سيرة حلبيه صفحہ167 جلد1 الجزء الاول تحت باب تزوجهﷺ خديجه بن خويلد تصنيف علي بن برهان الدین حلبي طبع مصر ۔]

مندرجہ بالا مصنفین نے ابو ہالہ اور عتیق کی اولاد جو خدیجہؓ سے ہوئی تھی ذکر کی ہے لیکن ان میں کسی جگہ بھی زینب نامی لڑکی کا ذکر نہیں کیا اس بناء پر ابنِ ہشام زینب کو سابق ازواج کی لڑکی ذکر کرنے میں منفرد نظر آتا ہے۔

 شیعی حوالہ جات

 مسئلہ ہذا کے متعلق شیعہ علماء و مجتہدین کے چند حوالہ جات تحریر کیئے جاتے ہیں تاکہ مسئلہ ہذا اپنے مقام میں پوری طرح واضح ہو سکے اور ہر ایک فریق اس پر غور کر سکے۔

1_ علی ابنِ عیسیٰ اربلی نے کشف الغمہ جلد روم میں ذکر مناقب خدیجہ کے تحت لکھتا ہے۔

 كانت خديجه قبل أن يتزوج بها رسول اللهﷺ عند عتيق بن مائز بن عبد الله بن عمرو بن مخزوم يقال ولدت له جارية وهي ام محمد بن صيفي المخزومي ثم خلف عليها بعد عتيق ابو هالة هند بن الزرارة التيمي فولدت له هند بن هند ثم تزوجها رسول اللهﷺ

[¹- كشف الغمة في معرفة الأئمة بمع ترجمه فارسى ترجمة المناقب جلد ثانی صفحہ 76 تحت مناقب خدیجهؓ]

 2_ شیخ نعمت الله الجزائری نے الانوار النعمانیہ ، جزء اول میں نور مولودی کے تحت لکھا ہے۔

 فاول امراءة تزوجها خديجة بنت خويلدؓ وكانت قبله عند عتيق بن عائذ المخزومي فولدت للمجارية ثم تزوجها رسول الله ﷺ واله وربي ابنها هندا

[الانوار النعمانية جلد أول صفحہ 367 نور مولودي تحت حالات خدیجہ بنتِ خویلد]

3_ ملا باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد دوم باب 52 میں ذکر کیا ہے ۔

 و پیش از انکه حضرت او تزویج نماید عتیق بن عائذ مخرومی اور تزویج کرده بود و از او دختر بهم رسانید و بعد از او ابوهاله اسدی را تزویج کرد و هند بن ابی هاله را از بهم رسانید پس حضرت رسول اورا خواستگاری نموود هند پسر او را تربیت نمود

[حیات القلوب صفحک 768 جلد2 باب52 تحت ذكر ازواج نبیﷺ]

4_ شیخ عباس قمی نے اپنی کتاب منتهی الآمال جلد اول فصل ششم میں لکھا ہے:

 وآل مخدره دختر خویلد بنی اسد بن عبد العزی بوده و نخست زوجه عتیق بن مائيد المخروی بودو فرزندے از او آورد که جاريه نام داشت و از پس عتيق زوجة ابوهاله بنى منذرالاسدى گشت و از دهند ین هاله را آورد

[منتهى الآمال صفحہ45 جلد1 فصل ششم دروقائع ایام و سینن عمر مبارک حضرت خاتم البينﷺ 

 مندرجہ بالا شیعی حوالہ جات کا خلاصہ یہ ہے کہ سیدہ خدیجہؓ کے سابق خاوند عقیق سے ایک جاریہ نامی لڑکی پیدا ہوئی اس کو امِ محمد بن صیفی بھی کہا گیا ہے پھر عتيق کے بعد ابو ہالہ کے ساتھ سیدہ خدیجہؓ کا نکاح ہوا اس سے ایک لڑکا ہوا جس کو ہند بن ابی ہالہ کہتے ہیں اس کے بعد رسالت مآبﷺ سے اُم المؤمنین سیدہ خدیجہ کا نکاح ہوا۔ ان تمام شیعہ حضرات نے خدیجہؓ کے سابق ازواج کی اولاد میں زینب نامی کسی لڑکی کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابو ہالہ کی لڑکی زینب کے نام سے جس صاحب نے ذکر کی ہے وہ جمہور علماء اہلِ سنت اور شیعہ کے خلاف ذکر کیا ہے اور اس مسئلہ میں اس نے اپنا تفرد بیان کیا ہے اور اس پر کوئی سند پیش نہیں کی ظاہر ہے کہ منفرد اشیاء اپنے تفرد کی بنا پر قبول نہیں کی جاتیں اور علماء کی اصطلاح میں اس مسئلہ کو اس طرح ذکر کیا جاتا ہے کہ

 هذا قول شاذ لايتابع عليه

یعنی ابنِ ہشام کا یہ قول شاذ ہے اس کی متابعت نہیں پائی گئی۔ اس بناء پر عموماً علمائے محدثين میں اہلِ سیر، اہلِ تاریخ نے اس کو ذکر نہیں کیا فلہٰذا اس قسم کا شاذ قول قبول نہيں كيا جا سكتا كيونكک قاعده يہ ہے

 "الثقة اذا شذ لا يقبل ما شذفيه"

 (مرقات شرح مشكٰوة صفحہ 328 جلد سادس باب العدة الفصل الاول تحت روايات فاطمه بنتِ قیس) 

یعنی اگر شذوذ اختیار کرنے والا آدمی ثقہ ہے تب بھی اس کی شاز چیز کو قبول نہیں کیا جائے گا۔

 ایک تلبیس کا ازالہ

 آنجنابﷺ کی اولاد کے مخالفین نے کئی قسم کے شبہات مسلمانوں میں پیدا کر دیئے ہیں ان میں سے ایک شبہ آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے متعلق یہ ہے کہ دور نبویﷺ میں زینب نام کی متعدد خواتین تھیں اور زینب نامی ایک لڑکی اُم المؤمنین سیدہ امِ سلمہؓ کی بھی تھی جو ان کے سابق خاوند ابوسلمہ سے تھی اس کا تذکرہ جب علماء تراجم نے کیا ہے تو اس کو ربیتہ الرسولﷺ کے نام سے لکھا ہے (سیدہ امِ سلمہؓ کی اس لڑکی کا نام "زینب" تھا اور سیدہ اُمِ سلمہ کی وجہ سے اس نے آنحضرتﷺ کے گھر میں پرورش پائی تھی اس وجہ سے ان کو ربیبہ رسول خداﷺ بھی کہا جاتا تھا محض اس لفظی مشابہت کی بناء پر معترضین نے آنجنابﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کی طرف اس کا انتساب کر دیا اور کہہ دیا کہ زینب تو رسول خداﷺ کی ربیبہ ہے حالانکہ اجتہادی سیدہ زینبؓ کی ماں حضرت خدیجہ الکبریٰؓ ہیں اور آنجنابﷺ کی نسب شریف سے ہے اور ربیبہ مذکورہ کی ماں ام سلمہؓ ہیں اور والد کا نام ابوسلمہ ہے۔

 اس چیز کی تصدیق اگر مطلوب ہو تو حافظ ابنِ حجر عسقلانیؒ کی کتاب الاصابہ ملاحظہ کریں۔

 [1- الاصابه صفحہ 310 جلد رابع تحت زينب بنت ابی سلمهؓ 

 ²- کتاب اسد الغابه صفحہ 468 جلد5 تحت زينب بنتِ ابی سلمہؓ ملاحظہ کریں ابنِ اثیر جزریؒ نے یہاں مزید یہ تصریح کر دی ہے کہ زینب ربیبہ کا نام عبداللہ بن زمعہ تھا۔

[اسد العابه صفحہ469 جلد5]

 اور ظاہر ہے کہ حضورﷺ کی صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے خاوند کا نام ابو العاصؓ بن ربیع تھا۔

[¹- انساب الاشراف للبلاذرى صفحہ 430 جلد اول 

²- طبقات ابنِ سعد صفحہ338 جلد8 تحت زینب بنتِ ابی سلمہ طبع لیڈن بھی ملاحظہ کے قابل ہے۔

 مقامات ہذا مطالعہ کرنے سے خوب تسلی ہو جائے گی۔ اور اس تشابہ لفظی کی وجہ سے جو اشکال معترضین نے پیدا کیا ہے وہ زائل ہو جائے گا۔ اور اس سے زیادہ تسلی مطلوب ہو تو اپنے (علماء شیعہ) کی معتبر کتاب تنقیح المقال جلد ثالث تحت زینب بنتِ ابی سلمہ ملاحظہ فرمائیں وہاں بڑی صراحت کے ساتھ زینب بنتِ ابی سلمہؓ کا تذکرہ موجود ہے یعنی اس کی ماں کا نام سلمہ اور والد کا نام ابوسلمہ ہے اس کا اصل نام برہ تھا سردار دو جہاں ﷺ نے تبدیل فرما کر اس کا نام زینب رکھا، جب امِ سلمہ نے حبشہ کی ہجرت کی تھی (یعنی اپنے زوج ابو سلمہ کے ساتھ تو وہاں یہ لڑکی زینب پیدا ہوئی تھی پھر اپنی ماں کے ساتھ یہ مدینہ طیبہ آئی اپنے وقت کی خواتین میں یہ بڑی فقیہ اور مسائل میں بڑی عقلمند و مشہور خاتون تھی اور اس کو حسنتہ الحال اعتبار کرتے ہیں یہ شیعہ علماء کے اقوال ہیں اب مامقانی کی اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں۔ تاکہ حق الیقین کا درجہ حاصل ہو جائے اور مسئلہ مسلم بین الفریقین قرار پائے۔

 زينب بنتِ ابي سلمه عدها الشيخ وه في رجاله وابن عبد البر وابن مندة وابو نعيم من صحابة رسولﷺوهي على ما صرحوا به زينب بنت أبي سلمه بن عبد الاسد القرشية المخزومية وهي ربية رسول الله وامها ام سلمه زوجة النبي مكان اسمها برة فسماها رسول الله - زينب ولدتها أمها بارض الحبشة حين هاجرت إليها مع زوجها وقدمت بها معها وقد قيل أنها كانت من افقه زمانها واني اعبرها حسنة الحال

[تنقيح المقال لعبد الله ما مقانی صفحہ78 جلد3 زینب بنتِ ابی سلمہ تحت باب الخاد الراء والزای المعجمة من فصل النساء]

 قارئین کرام

 کو معلوم ہونا چاہئیے کہ ہم نے کتاب کے رحماء بینھم حصہ صدیقی صفحہ127 میں اس اشتباہ کو حل کر دیا تھا لیکن یہاں دوبارہ اسے سوانح سیدہ زینبؓ کی مناسبت سے ذکر کر دیا ہے اور شیعہ و سنی ہر دو مکتب فکر کی کتابوں سے ثابت کر دیا کہ زینب نامی جو امِ سلمہؓ کی لڑکی ہے وہ دوسری تھی اس کی ماں کا نام امِ سلمہؓ ہے ۔ خاوند کا نام عبد اللہ بن زمعہ ہے اور سردار دو جہاںﷺ کی صاحبزادی زینبؓ وہ دوسری ہیں ان کی ماں کا نام خدیجہ الکبریٰؓ اور خاوند کا نام ابو العاصؓ بن ربیع ہے۔

 "اگر در خانه کسی است ہمیں گفت بیس است"