سوانح سیده رقیہ رضی اللہ عنہا بنت رسولﷺ
مولانا محمد نافعسوانح سیده رقیہ رضی اللہ عنہا
سردار دوعالمﷺ کی صاجزادی سیده رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا تذکرہ حضرت سیدہ زینب رضی اللّٰہ عنہا کے بعد ہدیہ قارئین کیا جاتا ہے۔
سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا تولد
صاجزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا سیدہ زینب رضی اللّٰہ عنہا سے چھوٹی ہیں ان کی والدہ محترمہ ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا بنت خویلد بن اسد ہیں۔ علماء لکھتے ہیں کہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اپنی بڑی بہن سیدہ زینب رضی اللّٰہ عنہا کے تین برس بعد پیدا ہوئیں اس وقت سردار دو عالمﷺ کی عمر مبارک قریباً تینتیس (33) برس تھی ۔
تاريخ الخميس للشيخ حسين الديار البكرى جلد1 صفحہ 274،
تربیت سیدہ رقیه رضی اللّٰہ عنہا
سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نے اپنی بہنوں کے ساتھ اپنے والد شریفﷺ کی نگرانی میں تربیت پائی اور اپنے سَن شعور کو پہنچیں۔
ان کے والدین شریفین کی تربیت اکسیر اعظم تھی جو ان کے آئندہ کمالاتِ زندگی کا باعث بنی ۔
اسلام لانا اور بیعت کرنا
خواتین میں سب سے پہلے اسلام لانے والی خاتون سیدہ خديجہ الكبریٰ رضی اللّٰہ عنہا ہیں ان کے ساتھ آپ کی صاحبزادیاں اسلام لانے میں پیش پیش ہیں جس وقت ان کی والدہ محترمہ اسلام لائیں تو ان کے ساتھ یہ صاحبزادیاں بھی مشرف بہ اسلام ہوئیں اور بیعت نبویﷺ کے ساتھ شرف عزّت حاصل کیا۔
"واسلمت حین اسلمت امها خديجة بنت خويلد و بایعت رسول اللّٰہﷺ هی واخواتها حين بايعه النساء "
1_ طبقات ابن سعد جلد 8 صفحہ 24، تحت رقیه بنت رسول اللّٰہﷺ
2 _ الاصابته لابن حجر جلد 4 صفحہ 297، تحت رقیہ بنت رسول اللّٰہﷺ.
3- تفسير القرطبي جلد 14 صفحہ 242، تحت آیته قل الازواجك وبناتك
" یعنی جب سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا اسلام لائیں تو سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نے بھی اسلام قبول کیا اور جب دوسری عورتوں نے بیعت کی تو سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نے اور ان کی بہنوں نے بھی جناب رسول خداﷺ کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔"
سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح
اسلام سے قبل اس دور کے دستور کے مطابق دو جہاںﷺ نے اپنی دونوں صاحبزادیوں سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح بالترتیب اپنے چچا ابولہب کے دونوں لڑکوں عتبہ اور عتیبہ کے ساتھ کر دیا تھا۔ یہ صرف انتسابِ نکاح تھا اور رخصتی نہیں ہوئی تھی اور شادی و بیاہ کی نوبت نہیں آئی تھی ۔
پھر اسلام کا دور شروع ہوا آنجنابﷺ پر وحی نازل ہونے لگی توحید کی آیات اتریں ۔ شرک و کفر کی مذمت بر ملا کی گئی حتیٰ کہ سورۃ تبت یدا ابی لهب وتب....الخ ابو لہب کے نام کے ساتھ نازل ہوئی۔
اس پر کفار مکہ کی عداوت اہل اسلام کے ساتھ انتہا کو پہنچ گئی اور ابولہب کا غیض و غضب حدود اخلاق سے متجاوز ہو گیا۔
ابو لہب نے اپنے دونوں لڑکوں عتبہ اور عتیبہ کو حکم دیا کہ اگر تم "محمد بن عبد اللّٰہ" کی بیٹیوں کو طلاق نہ دو گے تو میں تم کو منہ نہیں لگاؤں گا اور تمہارا چہرہ تک نہیں دیکھوں گا ۔ یہ طلاق اس وقت ان دختران نبی کا غیبی اعزاز تھا تقدیر الٰہی نے فیصلہ کیا کہ یہ پاک صاحبزادیاں عتبہ اور عتیبہ کے ہاں نہ جا سکیں، باپ کے کہنے پر عتبہ اور عتیبہ نے دونوں معصوم دختران نبیﷺ (یعنی سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا) کو طلاق دے دی اور یہ رشتہ صرف اسلام کے ساتھ عداوت کی بنا پر منقطع کر دیا گیا۔
"فلما بعث رسول اللّٰہ و انزل اللّٰہ "تبت يدا أبي لهب" قال له ابوه ابو لهب رأسى من راسك حرام ان لم ان تتطلق ابنتهٗ فقارقها ولم يكن دخل بها "
1-الطبقات لابن سعد جلد 8 صفحہ 24، تحت رقيہ بنت رسول اللّٰہﷺ
2-تفسیر القرطبی جلد 14 صفحہ 242، تحت آيتہ قل لا زواجك وبناتك۔۔۔الخ
3_ الاصابة لابن حجر جلد 4 صفحہ 297، تحت رقية بنت سید البشرﷺ
4_ تاريخ الخميس جلد1 صفحہ 274، تحت رقیۃ بنت رسول اللّٰہﷺ
ان دونوں صاحبزادیوں (سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا) کا کوئی قصور اور عیب نہ تھا محض رسول خداﷺ کی اولاد ہونے کی وجہ سے ان کو یہ اذیت پہنچائی گئی۔ اور کسی عورت کو بلا وجہ طلاق دیا جانا اس کے حق میں نہایت تکلیف دہ ہوتا ہے ۔ اس کے فطری احساسات مجروح ہوتے ہیں لیکن یہ سب کچھ ان معصومات طاہرات نے دینِ اسلام کی خاطر بر داشت کیا ۔ گو اس طلاق میں ان کا اپنا ہی اعزاز اور کفار کے ہاں جانے سے ایک عملی احتراز تھا۔ ((رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہما)
مسئلہ ہذا شیعہ کے نزدیک
اہل سنت کے علماء نے بھی اس واقعہ کو ذکر کیا ہے اور شیعہ کے اکابر علماء نے بھی اس واقعہ کو مزید تفصیل سے یوں لکھا ہے کہ :
"حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو عتبہ بن ابی لہب نے نکاح میں لیا پھر اس نے شادی ہونے سے قبل رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو طلاق دے دی ۔ اس طریق کار کی وجہ سے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو عقبہ کی وجہ سے نہایت تکلیف پہنچی تو نبی اقدسﷺ نے عتبہ کے حق میں بد دعا فرمائی اورفرمایا یا اللّٰہ! اپنے درندوں میں سے ایک ، درندہ عتبہ پر مسلط فرما دے ( جو اس کو چیر پھاڑ ڈالے ) نبی کریمﷺ کی یہ دعا منظور ہو گئی ۔ ایک موقعہ پر عتبہ اپنے ساتھیوں میں موجود تھا کہ ایک شیر نے آکر عتبہ بن ابی لہب کو پکڑ کر پھاڑ ڈالا۔
واما رقية فتزوجها عتبة بن أبي لهب فطلقها قبل ان يدخل بها ولحقها منه اذى فقال النبي صلى اللّٰہ عليه وسلم " اللهم سلط على عتبة كلبا من كلابك فتناوله الأسد من بين اصحابه"
1 - الانوار النعمانية جلد 1، صفحہ 367 تحت نور مولودی للشیخ نعمت اللّٰہ الجزائري الشيعي۔
2۔ الانوار النعمانية للشيخ نعمت اللّٰہ الجزائری جلد1، صفحہ 80تحت نور مولودی
(قولہ علی عتبة کلبا)
اس بات کی وضاحت اس مقام پر ضروری سمجھی گئی ہے کہ ابو لہب کا کونسا بیٹا تھا جسے ایک درندے نے پھاڑ ڈالا۔ تو ہمارے علماء نے مندرجہ ذیل چیزیں ذکر کی ہیں ان سے اس مسئلہ کی نشاندہی ہوتی ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللّٰہ اور دیگر علماء نے لکھا ہے کہ فتح مکہ کے روز عتبہ بن ابی لہب اور اور اس کا بھائی معتب بن ابی لہب خوفزدہ ہو کر مکہ سے بھاگ کر کسی دوسرے مقام پر چلے گئے تھے۔ نبی اقدسﷺ نے حضرت عباس ابن عبد المطلب سے دریافت فرمایا کہ تیرے بھتیجے کہاں ہیں تو حضرت عباس نے عرض کیا۔ یا رسول اللّٰہ ! وہ خوف زدہ ہو کر کسی دوسری جگہ نکل گئے ہیں تو آنجنابﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان کو بلا لاؤ چنانچہ حضرت عباس تشریف لے گئے اور عتبہ اور معتب دونوں کو بلا لائے۔ وہ دونوں آنجنابﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر مسلمان ہو گئے اور یہ بھی ساتھ لکھا ہے کہ فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین میں یہ دونوں بھائی شریک ہوئے اور غنائم سے حصہ پایا۔
نیز علماء فرماتے ہیں کہ یہ ان لوگوں میں سے تھے جو غزوہِ حنین میں ثابت قدم رہے تھے۔
اور اس کے بعد وہ دونوں بھائی مکہ شریف میں مقیم رہے۔
1 - الاصابه جلد 2، صفحہ 448،449 تحت عتبہ بن ابی لہب
2-الاصابه جلد ثالث صفحہ 422،423 تحت معتب بن ابي لهب۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ درندہ کے پھاڑ ڈالنے کا اگر واقعہ صحیح ہے (جیسا کہ بعض علماء نے ذکر کیا ہے ) تو یہ عتیبہ (مصغر) کے حق میں واقعہ ہو گا۔ جو فتح مکہ سے پہلے مر گیا تھا اور ایمان نہیں لایا تھا ۔
عتبہ (مکبر) کے حق میں یہ واقعہ صحیح نہیں (واللّٰہ اعلم بالصواب) (منہ)
حقیقت میں رقیہؓ کے دل کے یہ وہ احساسات تھے جو نبی کریمﷺ کی زبان مبارک سے بددعا کی شکل میں ظاہر ہوئے اور قدرت کاملہ کی طرف سے وہ منظوری پا گئے
صاحبزادی سیده رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا حضرت عثمان (رضی اللّٰہ عنہما) کے ساتھ نکاح
جب ابولہب کے لڑکوں نے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا کو طلاق دے دی تو اس کے بعد نبی اقدسﷺ نے اپنی صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح مکہ شریف میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ کر دیا ۔
اور اس سلسلہ میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے فضائل کے تحت علماء نے بعض روایات نقل کی ہیں جو ذیل میں درج کی جاتی ہیں۔
ایک روایت عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ اور دوسری حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ سے منقول ہے۔
1_عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ نقل کرتےہیں کہ نبی اقدسﷺ نے فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ نے میری طرف وحی بھیجی ہے کہ میں اپنی عزیزہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ کر دوں ۔چنانچہ نبی کریمﷺ نے رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ مکہ شریف میں کر دیا اور ساتھ ہی رخصتی کر دی اور یہ بات مسلمات میں سے ہے کہ سردار دو جہاںﷺ نے اپنی دونوں صاحبزادیاں حضرت سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا یکے بعد دیگرے حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ کے نکاح میں دے دی تھیں پہلے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا عقد کر دیا تھا یہ کہ مکہ شریف میں ہوا تھا اور ہجرت مدینہ سے پہلے ہوا تھا پھر حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی وفات کے بعد ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح ہوا۔ جس کی تفصیلات آئندہ ذکر کی جارہی ہیں ۔
1 - كنز العمال جلد 6، صفحہ 378 تحت فضائل ذی النورین عثمان رضی اللّٰہ عنہ۔
2۔ ذخائر العقبي للمحب الطبري صفحہ 162،163 تحت ذكر من تزوجها رقیه بنت رسول اللّٰہﷺ ۔
3: تاریخ الخمیس للحسین الدیار البکری صفحہ 275 جلد 1 تحت ذکر رقیہ بنت رسولﷺ۔( اخرجه الطبرانی فی معجمهٖ)
2_دوسری روایت میں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے حق میں ذکر کرتے ہیں کہ نبی اقدسﷺ نے عثمان رضی اللّٰہ عنہ ابن عفان کو ایک صاحبزادی نکاح کر کے دی (اس کے انتقال کے بعد) پھر اپنی دوسری صاحبزادی ان کے نکاح میں دے دی نکاح یکے بعد دیگرے منعقد ہوئے ۔
"و زوجه رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم واحدة بعد واحدة "
کنزالعمال جلد 6، صفحہ 379، بحوالہ عساکر طبع اول حیدرآباد دکن روایت 5875 باب فضائل ذی النورین رضی اللّٰہ عنہ۔
نبی اقدسﷺ کا حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ ان صاحبزادیوں کا نکاح کر دینا حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے لئے بہت بڑی سعادت مندی ہے اور خوش بختی ہے جو ان کو نصیب ہوئی حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ حضورﷺ سے دامادی کا شرف پا گئے۔
نیز یہ چیز بھی قابل قدر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے یہ تعلقات نبی اقدسﷺ کے ساتھ مدت العمر خوشگوار رہے اور کسی ناخوشگواری کی نوبت نہیں آئی اور اسی صورت حالی پر خاتمہ بالخیر ہوا۔
حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی تعریف نساء قریش کی زبانی
علماء تاریخ نے ذکر کیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ نے سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو حُسن اور جمال کے وصف سے خوب نوازا تھا۔ صاحب " تاریخ الخمیس" اپنی تاریخ میں اور محب الطبری اپنی کتاب " ذخائر العقبیٰ " میں اسے ان الفاظ کے ساتھ ذکر کرتے ہیں :
"وکانت ذات جمال رائع "
" یعنی حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نہایت عمدہ جمال کی حامل تھیں۔"
1_ تاریخ الخميس جلد1، صفحہ 274 ج1 تحت رقیهؓ
2_ ذخائر العقبیٰ صفحہ 162تحت حالات رقیهؓ
جس وقت حضرت عثمانؓ کے ساتھ ان کی شادی اور بیاہ ہوا ہے تو اس دور کے قریش کی عورتیں ان زوجین پر رشک کرتی تھیں اور دونوں کے حسن و جمال کو مندرجہ ذیل الفاظ کے ساتھ تعبیر کرتی تھیں۔
" وتزوجها عثمان بن عفان وكانت نساء قريش يقلن حين تزوجها عثمان رضی اللّٰہ عنہ -
احسن شخصین رای انسان
رقية وبعلها عثمانؓ
"یعنی قریش کی عورتیں کہتی تھیں کہ انسان نے جو حسین ترین جوڑا دیکھا ہے وہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور ان کے خاوند عثمان رضی اللّٰہ عنہ ہیں ۔"
1۔ تفسیر القرطبی جلد14، صفحہ 242 تحت آیت قل لازواجك وبناتك ۔۔۔الخ (سورة احزاب)
اسی نوع کا ایک اور واقعہ "ارسال ہدیہ" کے عنوان کے تحت آئندہ درج ہو گا۔
(ان شاءاللّٰہ تعالٰی)
ہجرتِ حبشہ
اسلام کا یہ ابتدائی دور تھا اور مسلمانوں پر مختلف قسم کے دباؤ ڈالے جا رہے تھے اور کئی قسم کے مصائب کا اہل اسلام کو سامنا کرنا پڑتا تھا۔
اس دوران نبی اقدسﷺ نے ان لوگوں کو جو مسلمان ہو چکے تھے یہ مشورہ دیا کہ حبشہ کی ولایت کی طرف اگر تم سفر اختیار کر لو تو بہتر رہے گا۔ اسلئے کہ ارضِ حبشہ کا بادشاہ ایسا شخص ہے جو کسی پر ظلم نہیں کرتا وہاں لوگ آرام و سکون سے زندگی بسر کر سکیں گے وہاں لوگوں پر کسی قسم کی زیادتی نہیں کی جاتی اور وہ پُرامن علاقہ ہے۔ پھر اللّٰہ تعالیٰ تمہارے لئے کوئی کشادگی کی صورت فرما دیں گے۔
اس وقت نبی کریمﷺ کے اصحاب میں سے چند لوگ حبشہ کی ولایت کی طرف ہجرت کے ارادہ سے نکل پڑے ۔ یہ لوگ اہل مکہ کے فتنہ سے بچنا چاہتے تھے اور اللّٰہ کے دین کو بچانے کے لئے گھر سے نکل پڑے تھے اور یہ اسلام میں پہلی ہجرت تھی جو اہل اسلام کو پیش آئی ۔
قرآن مجید میں مہاجرین کے حق میں بہت سی فضیلت کی آیات آئی ہیں ان میں سے ایک یہاں درج کی جاتی ہے۔
والذين هاجروا في اللّٰہ من بعد ما ظلموالنبؤنهم في الدنيا حسنة والاجرالاخر اکبر۔۔۔ الخ پاره 14 قریب نصف
”یعنی جن لوگوں نے ستم رسیدہ ہونے کے بعد اللّٰہ کے راستے میں ہجرت کی اور ترک وطن کیا ان لوگوں کو ہم دنیا میں اچھا ٹھکانہ دیں گے اور آخرت کا اجر بہت بڑا ہے ......... الخ“
یہ آیاتِ قرآنی عام ہیں اور ہر اس ہجرت کو شامل ہیں جو دین کی خاطر ہو۔ سو مہاجرین حبشہ بھی ان کا مصداق ہیں اور وہ ان فضیلتوں کے حامل ہیں جو مالک کریم نے مصائب و شدائد پر مرتب فرمائیں اور انہیں بڑے انعامات سے نوازا۔
اور جو حضرات اس ہجرت میں مکہ شریف سے نکلے تھے ان میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ اور ان کی اہلیہ محترمہ حضرت رقية رضی اللّٰہ عنہا بنت رسولﷺ بھی تھیں مسلمانوں میں اللّٰہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کا یہ پہلا قافلہ تھا اور نبوت کے پانچویں سال میں ہجرت حبشہ کا یہ واقعہ پیش آیا تھا۔
اس مفہوم کو حافظ ابن کثیر رحمہ اللّٰہ نے مندرجہ الفاظ میں ذکر کیا ہے ۔
" قال لهم لو خرجتم إلى الارض الجثة فأن بها ملكا لا يظلم عنده احد وهي أرض صدقٍ حتى يجعل اللّٰہ لكم فرجاً مما انتم فيه فخرج عند ذالك المسلون من اصحاب رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم الى ارض الحبشة مخافة الفتنة وفرارا إلى اللّٰہ بدينهم فكانت أول هجرة كانت في الاسلام فكان أول من خرج من المسلمين عثمان بن عفان وزوجته رقية بنت رسول صلى اللّٰہ عليه وسلم ۔
1_ البداية والنهاية لابن كثير جلد 3، صفحہ 66 تحت باب الهجرة من هاجر....... من مكة إلى أرض الحبشة۔
تفسير القرطبي جلد 14، صفحہ 242 تحت آیتہ قل لازواجک وبناتک۔۔۔۔۔۔الخ۔
سردار دو جہاںﷺ کی صاجزادیوں میں سے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو ہجرت حبشہ کا شرف پہلے حاصل ہوا۔ ان کو اپنے خاوند کی معیت میں یہ سعادت نصیب ہوئی۔ دین کی حفاظت کی خاطر سفر کے مصائب برداشت کرنا کوئی معمولی شرف نہیں ہے۔ اور اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں اس کا بہت بڑا اجر ہے۔
سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے احوال کی دریافت
ہجرت حبشہ کے بعد ان ہجرت کرنے والوں کی خیر وعافیت کے احوال ایک مدت تک معلوم نہ ہو سکے۔ نبی اقدسﷺ کو ان کے متعلق پریشانی لاحق تھی۔ اسی دوران قریش کی ایک عورت حبشہ کے علاقہ سے مکہ شریف پہنچی نبی کریمﷺ نے اس سے ہجرت کرنے والوں کے حال احوال دریافت فرمائے تو اس نے بتلایا کہ اے محمدﷺ ! آپ کے داماد اور آپ کی دختر کو میں نے دیکھا ہے۔ تو رسالت مآبﷺ نے فرمایا کہ کیسی حالت پر دیکھا ہے؟ تو اس نے ذکر کیا کہ عثمان رضی اللّٰہ عنہ اپنی بیوی کو ایک سواری پر سوار کیئے ہوئے لے جا رہے تھے اور خود سواری کو پیچھے سے چلا رہے تھے تو اس وقت نبی اقدسﷺ نے جملہ دعائیہ فرمایا کہ اللّٰہ تعالیٰ ان دونوں کا مصاحب اور ساتھی ہو !! حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ ان لوگوں میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ ہجرت کی ۔
خرج عثمان بن عفان و معه امراته رقیه بنت رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم الى ارض الحبشة فأبطا على رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم خبر هما فقدمت امرأة من قريش فقالت : : يا محمد ! قدرايت ختنك معہ امراته قال : علی ای حال رائيتها ؟ قالت رايته قد حمل امراته على حمار من هذه الدبابه وهو يسوقها فقال رسول اللّٰہ صلى اللّٰہ عليه وسلم ان عثمان اول من هاجر بأهله بعد لوط عليه السلام۔
1۔ البداية لابن كثير صفحہ66، 67جلد ثالث
تحت باب هجرة - من هاجر ....... من مكة إلى أرض الحبشة -
2_ اسد الغابة لابن اثیر جزری صفحہ 457، جلد5 تحت ذكر رقيہؓ-
3_ ذخائر العقبي للمحب الطبرى صفحہ 63، تحت ذكر هجرتها -
4_ شرح مواهب الدنية للزرقاني صفحہ 198، جلد 3 تحت رقیہؓ
5_ تاريخ الخميس صفحہ 275، جلد1 تحت رقیہ بنت رسول اللّٰہﷺ
6_ كنز العمال صفحہ 381 ، جلد6 روایت 5885 بحوالہ طب۔ ق - فی - کو) طبع اول تحت فضائل عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ ۔
شیعہ علماء کی طرف سے تائید
شیعہ علماء نے ہجرت حبشہ کا واقعہ اس طرح تحریر کیا ہے کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے گیارہ مرد اور چار عورتیں تھیں کفار مکہ سے روپوش ہو کہ یہ حضرات حبشہ کی طرف روانہ ہو گئے تھے ان میں (حضرت) عثمان بن عفانؓ بھی تھے اور ان کی اہلیہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا بنت رسول خداﷺ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔
" پس یازده مرد و چهار زن خفیه از اہل کفر گریختند و بجانب حبشہ رواں شدنداز جمله آنها عثمان بودورقیه دختر حضرت رسول که زن او بود "
1_ حیات القلوب از ملا باقر مجلسی صفحہ 330 جلد 2 باب 25 در بیان ہجرت حبشہ
2- الأنوار النعمانية صفحہ 367، جلد1 باب1، تحت نور مولودی۔
اسلام کے ابتدائی دور میں اہل اسلام پر بڑی بڑی آزمائشیں آئی تھیں ان میں ہجرت حبشہ بھی ایک مستقل آزمائش تھی۔ مہاجرین حبشہ میں حضرت عثمان بن عفانؓ کا بمع اپنی اہلیہ (حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا) کے شمار ہونا مسلمات میں سے ہے۔ شیعہ و سنی علماء نے اس مسئلہ کو اپنے اپنے انداز میں بصراحت درج کیا ہے چنانچہ چند ایک حوالہ جات ہم نے دونوں جانب سے پیش کر دیے ہیں تاکہ دونوں فریق کو تسلی ہو سکے ۔
تنبيہ
بعض لوگوں نے ہجرت حبشہ کے مسئلہ میں خواہ مخواہ ایک شبہ پیدا کر لیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ ہجرت حبشہ میں صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نہیں تھیں بلکہ رملہ بنت شیبہ تھی ۔
اس کے متعلق اتنا بیان کر دینا کافی ہے کہ جس مقام سے یہ اعتراض اخذ کیا گیا ہے وہیں اسکا جواب بھی موجود ہے یعنی اس روایت کو علماء نے دلائل کے ساتھ رد کر دیا ہے۔
وہ قول متروک ہے۔ صحیح واقعات کے خلاف پایا گیا ہے اور اقوال متروکہ کو قبول نہیں کیا جاتا۔ فلہٰذا صحیح چیز یہی ہے کہ ہجرت حبشہ میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ ان کی زوجہ محترمہ سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا تھیں جیسا کہ جمہور شیعہ و سنی علماء کے حوالہ جات بالا میں نقل کیا گیا ہے۔
حبشہ سے واپسی
مہاجرین حبشہ نے حبشہ کے علاقہ میں ایک مدت گزاری پھر وہاں سے مکہ شریف کی طرف واپس ہوئے۔ ان حضرات میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ بھی اپنی اہلیہ (حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا) سمیت واپس ہوئے۔ اسی دوران نبی اقدسﷺ مکہ شریف سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لے جاچکے تھے ہجرت حبشہ کے بعد پھر حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ ہجرت مدینہ کے لئے تیار ہو گئے اور اپنی اہلیہ (حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا) سمیت مدینہ شریف کی طرف دوسری ہجرت کی۔
والذي عليه أهل السيران عثمان رجع إلٰى مكة من حبشة مع من رجع ثم هاجر باهلهٖ الى المدينة -
1_ الاصابة لابن حجر صفحہ 298، جلد 4 تحت ذكر رقیهؓ-
2_ مجمع الزوائد للهيثمي صفحہ 217، جلد9 باب ما جاء في رقية بنت رسول اللّٰہﷺ
3_ ذخائر العقبي ( للمحب الطبری) صفحہ 162 لاحمد بن عبد اللّٰہ الطبری تحت ذكر من تزوج رقية بنت رسولﷺ۔
دو بار ہجرت کا اعزاز
اس سلسلہ میں یہ چیز قابل ذکر ہے کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ اپنی اہلیہ محترمہ سمیت دو ہجرتوں کے مہاجر ہیں یعنی اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو اپنے راستے میں دین کی خاطر دوبار ہجرت نصیب فرمائی ایک بار انہوں نے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی اور دوسری مرتبہ مکہ شریف سے مدینہ کی طرف مشہور ہجرت کا شرف حاصل ہوا، دوبار ہجرت کی فضیلت ایک بہت بڑا شرف ہے جو اللّٰہ تعالیٰ نے ان کو نصیب فرمایا۔ اس سلسلہ میں حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا بھی ان دو ہجرتوں سے مشرف ہوئیں اور ان کو یہ عظیم فضیلت حاصل ہوئی۔ دو بار ہجرت کی فضیلت اس حدیث سے بھی ثابت ہے جس میں حضرت اسماء بنت عمیسؓ کا یہ واقعہ مذکور ہے ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے حضرت اسماء بنت عمیسؓ کو کہہ دیا کہ ہم نے (مکہ سے مدینہ شریف) کی طرف ہجرت کرنے میں تم سے سبقت کی پس ہم رسول خداﷺ کے ساتھ تم سے زیادہ حقدار ہیں یہ سن کر حضرت اسماء غصہ میں آگئیں اور رسالت مآبﷺ کی خدمت اقدس میں جاکر شکایت کی کہ عمر بن خطابؓ نے یوں کہتے ہیں۔ تو آنجنابﷺ نے تسلی دلائی اور فر مایا کہ :
" له ولا صحابه هجرة واحدة ولكم انتم أهل السفينة هجرتان "
" یعنی اس کے اور اس کے ساتھیوں کے لئے ایک ہجرت ہے اور اہل السفینة“ تمہارے لئے دو عدد ہجرتیں ہیں تمہارے لئے دو گنا ثواب ہے ۔
1_ ہجرت حبشہ میں کشتیوں پر سواری پیش آئی تھی۔ کشتیوں کے بغیر اس زمانہ میں ارضِ حبشہ کی طرف سفر نہیں ہوتا تھا۔ اس لئے مہاجرین حبشہ کہ " اہل سفینہ " سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔
2_ مسلم شریف جلد ثانی صفحہ 304، جلد 2 باب فضائل جعفر و اسماء بنت عمیسؓ۔
اولاد رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا ذِکر
یہاں اب حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی اولاد کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ علماء نے لکھا ہے کہ حبشہ میں ان کے ہاں ایک نا تمام بچہ پیدا ہوا تھا پھرا س کے بعد ان کا دوسرا بچہ حبشہ ہی میں ہوا جس کا نام "عبداللّٰہ" رکھا گیا اور اسی نام کی نسبت سے حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کی کنیت "ابو عبد اللّٰہ" مشہور ہوئی۔ اپنے والدین کے ساتھ نواسہ رسول عبداللّٰہ مدینہ شریف پہنچے۔
اہل سیر لکھتے ہیں کہ عبداللّٰہ جب قریباً چھ برس کی عمر کو پہنچے تو ان کی آنکھ میں ایک مرغ نے ٹھونگ لگا کر زخم کر دیا تھا۔ جس کی وجہ سے ان کا چہرہ متورم ہو گیا تھا پھر وہ ٹھیک نہ ہو سکا اسی حالت میں وہ انتقال کر گئے ۔
یہ اپنی والدہ کے بعد جمادی الاولٰی سن 40ہجری میں مدینہ طیبہ میں فوت ہوئی۔ اس کے بغیر حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی کوئی اور اولاد نہیں ہوئی۔
وكانت قد اسقطت من عثمان سقطا ثم ولدت بعد ذالك عبد اللّٰہ وكان عثمان يكنى به في الاسلام و بلغ سنين فنقره ديك في وجهه فمات ولم تلد له شيئا بعد ذالك -
1_ تفسير القرطبي صفحہ 242، جلد140 طبع مصر تحت آيتة قل لا زواجك وبناتك۔۔۔۔ الخ
2_ اسد الغابة صفحہ 456، جلد5 تحت ذكر رقيهؓ۔
3_ طبقات ابن سعد صفحہ 24، جلد8 تحت رقیهؓ
4_ البدایة صفحہ 308، جلد 5 فصل اولاد نبوی ﷺ۔
5_ طبقات ابن سعد صفحہ 37، جلد3 تحت عثمان بن عفانؓ۔
اور شیعہ علماء نے بھی حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے لڑکے عبد اللّٰہ (جو حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا سے متولد تھے) کے متعلق اسی طرح تحریر کیا ہے کہ وہ صغير السن تھے کہ ایک مرغ نے اس کی آنکھوں میں چونچ سے زخم کر ڈالا اس کی وجہ سے وہ بیمار پڑ گئے حتیٰ کہ ان کی وفات ہو گئی۔
شیخ نعمة اللّٰہ الجزائری شیعی مجتہد لکھتا ہے کہ :
"فولدت له عبد اللّٰہ ومات صغيرا نقره ديك على عينيه فمرض ومات" ۔۔۔۔ الخ
1_ الانوار النعمانية للشيخ نعمه اللّٰہ الجزائری صفحہ 80،جلد1 تحت نور مرتضوی -
2_ الانوار النعمانية صفحہ367، جلد1 تحت نور مولودی۔
اور مشہور مورخ مسعودی شیعی نے یہاں اس بات کی تصریح کر دی ہے کہ عثمان رضی اللّٰہ عنہ بن عفان کے لئے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا سے دو عدد لڑکے تھے ایک لڑکے کو عبد اللّٰہ اکبر کہتے تھے اور دوسرے کو عبداللّٰہ اصغر دونوں کی والدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا تھیں۔
"وكان له من الولد عبد اللّٰہ الاكبر و عبد اللّٰہ الاصغر امها رقية بنت رسول اللہﷺ"
1۔ مروج الذهب للمسعودي صفحہ 341، جلد2 تحت ذكر عثمان ذكر نسبه ولمع من اخبارهٖ وسيرهٖ۔
صاحبزادہ عبداللّٰہ کا جنازہ اور دفن
بلاذری وغیرہ علماء نے ذکر کیا ہے جب صاحبزادہ عبد اللّٰہ بن عثمانؓ کا انتقال ہوا سردار دو جہاںﷺ نہایت غمناک ہوئے اسی پریشانی کی حالت میں آنجنابﷺ نے عبداللّٰہ کو اٹھا کر گود میں لیا آپ کی آنکھیں اشکبار ہوئیں اور فرمایا کہ " بے شک اللّٰہ تعالیٰ اپنے رحیم و شفیق بندوں پر رحم فرماتا ہے۔" اس کے بعد کی نمازِ جنازہ خود پڑھائی پھر دفن کرنے کے لئے حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ قبر میں اترے اور ان کو دفن کر دیا ۔
"واما عبد اللّٰہ بن عثمان رضی اللّٰہ عنہ فان رسول اللّٰہﷺ وضعه في حجرهٖ ودمعت عليه عينه وقال انما يرحم اللّٰہ من عبادہٖ الرحماء"
وصلى عليه رسول اللّٰہﷺ ونزل عثمان في حضرتهٖ
1_ انساب الاشراف للبلاذری صفحہ 401،جلد1 تحت ذكر بنات رسولﷺ۔
2_ تاريخ الخميس للديار البكري صفحہ 275، جلد1 تحت ذكر رقیهؓ
اس تمام واقعہ میں نبی کریمﷺ شریک غم تھے اور اپنے سامنے اپنے نواسے کے حق میں ہدایات فرمائیں اور ان کے موافق یہ سارے انتظامات مکمل ہوئے۔
انسان کا اپنی اولاد سے فطری طور پر قلبی تعلق ہوتا ہے ۔ جب بھی اولاد پر مصیبت آتی ہے تو وہ پریشان ہو جاتا ہے پھر صبر و سکون کرنے سے ہی یہ مرحلہ طے ہوتا ہے اس موقعہ پر اسی طرح کیا گیا۔
اُمِّ عیاش کا ذکر
سردار دو عالمﷺ کی ایک خادمہ تھیں ان کو اُمِ عیاش کہتے تھے۔ نبی اقدسﷺ کی خدمت گزاریں میں لگی رہتی تھیں اور خانگی امور سر انجام دیتی تھیں ۔ اُمِ عیاش خود کہتی ہیں کہ میں بعض اوقات نبی اقدسﷺ کو وضو کراتی تھی در آنحالیکہ میں کھڑی ہوتی تھی اور آنجنابﷺ بیٹھے ہوتے تھے۔
"قالت كنت اوضی رسول اللّٰہﷺ وانا قائمة وهو قاعد" اخرجها الثلاثة
اسد الغابه لابن اثیر الجزری صفحہ 607، جلد 5 تحت ام عیاش
ام عیاش کے متعلق روایات میں آتا ہے کہ رسالت مآبﷺ نے اُمِ عیاش بطور ہدیہ کے اپنی صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو عنایت فرمائی تھی۔ ام عیاش حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی خدمت گزاری کیلئے حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے گھر رہتی تھیں اورحضرت رسالت مآبﷺ کی طرف سے خاص عنایت کریمانہ تھی کہ ایک خادمہ خصوصی طور پر حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو عنایت فرما دی تھی تاکہ صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کیلیے خانگی کام کاج میں سہولت رہے۔
بعثها مع ابنته الى عثمان رضی اللّٰہ عنہ،
اسد الغابه لابن اثیر الجزری صفحہ 607، جلد 5 تحت ام عیاش
آنجنابﷺ کی طرف سے ھدیه ارسال کیا جانا
سردار دو جہاںﷺ کے ایک خادم اسامہ بن زیدؓ تھے جو زید بن حارثہ کے لڑکے تھے اور آنجنابﷺ کے خاص خدام میں شمار ہوتے تھے۔ اسامہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سردار دو عالمﷺنے مجھے ایک بار گوشت کا پیالہ بھر کر عنایت فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ کے گھر پہنچا دیں پس میں یہ ہدیہ لے کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے گھر پہنچا۔ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ اور رقیہ رضی اللّٰہ عنہا وہاں تشریف فرما تھے میں نے وہ ہدیہ حضرت رسالت مآبﷺ کی طرف سے ان دونوں کی خدمت میں پیش کیا۔ اور اسامہؓ کہتے ہیں میں نے ایسا عمدہ جوڑا پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ میاں بیوی دونوں حسن و جمال میں بڑے فائق تھے ۔
عن اسامة بن زيد قال بعثني رسول اللّٰہﷺ بصحفة فيها لحم إلى عثمان قدخلت عليه فاذا هو جالس مع رقية ما رايت زوجا احسن منها (اخرجه البغوى في معجمهٖ)
1_ ذخائر العقبي لاحمد بن عبد اللّٰہ المحب الطبرى صفحہ162 تحت ذکر من تزوجها رقیه بنت رسول اللّٰہﷺ۔
2_ كنز العمال صفحہ 380، جلد6(بحواله اللغوى - كر) طبع اول تحت فضائل ذی النورین عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ۔
سیدنا عثمان رضی اللّٰہ عنہ کی طرف سے ایک ہدیہ
اسی طرح ایک دوسرے موقعہ پر حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے شہد اور نقی سے مرکب عمدہ طعام تیار کیا (جس کو عربی میں الخبیص کہتے تھے)
قولہ الخبیص
بعض اہل لغة کہتے ہیں کہ کھجور اور گھی سے مرکب ایک طعام تیار کیا جاتا تھا۔ (منہ)
وہ آپ رضی اللّٰہ عنہ نے آنجنابﷺ کی خدمت اقدس میں ارسال کیا۔ اس وقت آنجنابﷺ ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا کے گھر پر قیام فرما تھے ۔جس وقت یہ ہدیہ پہنچا تو آنجنابﷺ گھر میں موجود نہیں تھے جب آپﷺ خانہ اقدس میں تشریف لائے تو ام المومنین ام سلمہ رضی اللّٰہ عنہا نے وہ ہدیہ پیش کیا۔ آنحضرتﷺ نے دریافت فرمایا کہ یہ ہدیہ کس نے ارسال کیا ہے؟ تو اہل خانہ نے عرض کیا کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کی طرف سے یہ پہنچا ہے۔ ام المومنین حضرت سلمہ رضی اللّٰہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس وقت آنجنابﷺ نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا فرمائی کہ اے اللّٰہ ! عثمان رضی اللّٰہ عنہ تجھے راضی کرنا چاہتے ہیں تو بھی ان سے راضی ہو۔
وقال ليث بن ابی سلیم : اول من خبص الخبيص عثمان خلط بين العسل والنقى ثم بعث بلهم الى رسول اللّٰہﷺ إلى منزل أم سلمة فلم يصادفه فلما جاء وضعوه بين يديه فقال من بعث هذا ؟ قالوا عثمان : قالت فرفع يديه إلى السماء فقال اللهم ان عثمان يترضاك فارض عنه۔
البدايه لابن كثير صفحہ 212،جلد 7 تحت روایات فضائل عثمانؓ
خادمہ کا عنایت فرمانا اور ہدایا کا باہمی ارسال کیا جانا وغیرہ کے واقعات بتلا رہے ہیں کہ آنجنابﷺ کی توجہات کریمانہ اپنی صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور اپنے داماد کی طرف مبذول رہتی تھیں اور یہ شائستہ تعلقات دائما قائم تھے۔
سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی اپنے خاوند کی خدمت گزاری
سردار دو جہاںﷺ اپنی صاحبزادی کے ہاں بعض اوقات تشریف لے جایا کرتے تھے اور ان کے احوال کی خیریت دریافت فرماتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنجنابﷺ اپنی صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے ہاں تشریف لے گئے اس وقت وہ اپنے زوج حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے سر کو دھو رہی تھیں ۔ تو آنجنابﷺ نے اس خدمت کو دیکھ کر ارشاد فرمایا "اے بیٹی! اپنے خاوند عثمانؓ کے ساتھ اچھا سلوک رکھا کریں اور حسن معاملہ کے ساتھ زندگی گزاریں۔ عثمانؓ میرے اصحاب میں سے خلق اخلاق میں میرے ساتھ زیادہ مشابہ ہیں" ۔
يا بنية احسنى الٰى ابي عبد اللّٰہ فانه اشبه اصحابی بی خلقا (طب عن عبد الرحمٰن بن عثمان القرشي) ان رسول اللّٰہﷺ دخل علٰى ابنتہ وھی تغسل رأس عثمان رضی اللّٰہ عنہ-
كنز العمال صفحہ 149، جلد 6 روایت 2442 فضائل عثمانؓ ۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ آنجنابﷺ کی اپنی صاحبزادیوں کے ساتھ کمال شفقت تھی اور وقتاً فوقتاً آنجنابﷺ ان کے ہاں تشریف لے جایا کرتے تھے نیز ان صاحبزادیوں کے اپنے ازواج کے ساتھ نہایت شائستہ تعلقات تھے اور وہ اپنے زوج کی خدمت گزار بیبیاں تھیں اور اسلام کی تعلیم بھی یہی ہے کہ زوجہ اپنے خاوند کی بہتر طریق سے خدمت بجا لائے۔
نیز معلوم ہوا کہ سردار دوعالمﷺ حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ عمدہ روابط رکھتے تھے اور آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اخلاق میں عثمان رضی اللّٰہ عنہ میرے زیادہ مشابہ ہیں۔ یہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے حق میں بہت بڑی عظمت ہے جو زبان نبوت سے بیان ہوئی۔
سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی بیماری
مدینہ طیبہ میں اقامت کے دوران سن2 ہجری میں غزوہ بدر پیش آیا جس میں سردار دو جہاںﷺ بنفس نفیس خود تشریف لے گئے تھے اس دوران آپﷺ کی صاحبزادی حضرت حضرت رقیہ رضی اللّٰہ تعالی عنہا اتفاقاً بیمار پڑ گئیں اور بیماری کے متعلق علماء لکھتے ہیں کہ "خسرہ" کی بیماری لاحق ہوئی تھی ۔ اُدھر غزوہ بدر کی تیاری تھی اور آنجنابﷺ کیساتھ صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم بھی غزوہ بدر میں شمولیت کے لئے کی تیار تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کو آنجنابﷺ نے ارشاد فرمایا کہ رقیہؓ بیمار ہیں آپ رضی اللّٰہ عنہ ان کی تیمارداری کے لئے یہاں مدینہ میں ہی مقیم رہیں اور ساتھ ہی آنحضرتﷺ نے اپنے خادم حضرت اسامہ بن زیدؓ کو مدینہ شریف میں ٹھہرنے کا حکم فرما دیا۔ اندریں حالات حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ کا تقاضا تھا کہ میں بھی غزوہ بدر میں شمولیت کی سعادت حاصل کروں تو اس وقت آنجنابﷺ نے ارشاد فرمایا:۔
ان لک اجر رجل ممن شھد بدرًا وسھمه
1_ بخاری شریف جلد اول صفحہ 523 تحت مناقب عثمانؓ
2_ بخاری شریف جلد اول صفحہ 442 باب اذا بعث الامام رسولاً في حاجته
3_ بخاری شریف جلد ثانی صفحہ 582 تحت باب قولہ اللّٰہ تعالیٰ
ان الذين تولوا منكم يوم التقٰى الجمعن۔
" یعنی آپ رضی اللّٰہ عنہ کیلئے بدر میں حاضر ہونے والوں کے برابر اجر ہے اور غنائم میں سے حصہ بھی آپکے لئے ہے۔"
سیدنا عثمانؓ کا بدری صحابہ کے مساوی حصہ
علماء نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کو نبی کریمﷺ نے اپنے فرمان کے ذریعے بدر کی شمولیت سے روکا تھا تو گویا حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ فرمان نبویﷺ کے تحت حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی تیمار داری کے لئے رکے تھے اور پھر حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کو غزوہ بدر کے غنائم میں سے دیگر غانمین اور مجاہدین کے ساتھ باقاعدہ حصہ دیا گیا تھا۔ اور غزوہ بدر میں شمولیت کے ثواب کے متعلق بھی زبان نبوت سے صریح طور پر حکم ہوا کہ عثمان رضی اللّٰہ عنہ اس اجر اور ثواب میں بھی برابر کے شریک ہیں گویا حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی تیمار داری کی خدمت کا درجہ جہاد کے برابر قرار دیا۔ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے حق میں یہ بہت بڑی عظمت ہے جو زبان نبوت سے صادر ہوئی ۔ یہ فضیلت کہ ان کی خدمت جہاد غزوہ بدر کے برابر شمار ہوئی۔ حضورﷺ کی صاحبزادیوں میں صرف حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا ہی اعزاز ہے۔
حافظ نور الدین الہیثمی نے "مجمع الزوائد" میں لکھا ہے کہ :
و تخلف عن بدر عليها بأذن رسول اللّٰہﷺ وضرب له رسول اللّٰہﷺ سهمان اهل بدر و قال و اجرى يا رسول اللّٰہ قال واجرك
مجمع الزوائد للهيثمي صفحہ 217، جلد9
تحت باب ما جاء في رقية بنت رسول اللّٰہﷺ ۔
یعنی نبی کریمﷺ کے فرمان کے باعث حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ غزوہ بدر میں پیچھے رہ گئے تھے۔ ان کے ذمہ حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی تیمار داری تھی پھر آنجنابﷺ نے حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے لئے بدر کے غنائم کے حصوں میں برابر حصہ مقرر فرمایا اور جب حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللّٰہ ! میرے اجر اور ثواب کے متعلق کیا حکم ہے ؟ تو ارشاد نبویﷺ ہوا کہ تمہارا اجرو ثواب بھی باقی اہل بدر کے ساتھ برابر ہے۔
مضمون ہذا بہت سے مصنفین نے تحریر کیا ہے، اہل تحقیق مندرجہ ذیل مقامات کی طرف رجوع کر کے مزید تسلی کر سکتے ہیں۔
1_ اسد الغابه لا بن اثیر جزری صفحہ 456، جلد5 تخت ذکر رقیہؓ
2_ البدايه لابن كثير صفحہ 308-309، جلد 5 فصل في اولاد النبیﷺ۔
3_ البداية والنهاية صفحہ 347، جلد3 فصل في ذكر جمل من الحوادث
4_ کنز العمال صفحہ 382 ،جلد6 تحت فضائل ذی النورین عثمان بن عفانؓ روایت 5903
شیعہ کی طرف سے تائید
شیعہ علماء نے بھی یہ مسئلہ اسی طرح ذکر کیا ہے اور مزید یہ تشریح بھی کر دی ہے کہ آٹھ افراد قتال میں شامل نہیں ہو سکے تھے لیکن پھر بھی ان کے لئے آنجنابﷺ نے غنائم سے برابر حصہ عنایت فرمایا تھا۔ ان افراد میں سے ایک حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ بھی تھے جو غزوہ بدر میں حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی بیماری کی وجہ سے شامل نہ ہو سکے اور حضور اقدسﷺ نے ان کے لئے غنائم میں سے برابر کا حصہ مقرر فرمایا۔ اس وقت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللّٰہ ! میرے اجر کا کیا ہوا ؟ تو آپﷺ نے فرمایا کہ تمہارا اجر تمہیں ملے گا۔
اہل علم کی تسلی کے لئے شیعہ مورخ مسعودی کی عبارت بعینہ پیش خدمت ہے
وضرب لثمانية نفر بأسهمهم لم يشهدوا القتال و هم عثمان بن عفان تخلف عن بدر لمرض رقية بنت رسول اللّٰہ ﷺ واله فضرب له بسهمه فقال يا رسول اللّٰہ واجرى قال واجرک۔
التنبیہ والاشراف صفحہ 205 للمسعودی للشیعی
تحت ذکر السنة الثانیة من الھجرة۔
تنبیہ
بعض لوگ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ پر آنکھیں بند کر کے اعتراض قائم کرتے ہیں کہ وہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور بدر کے فضائل سے محروم رہے۔ تو اس کے متعلق مندرجہ بالا روایات نے واضح کر دیا کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ آنحضرتﷺ کی صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی تیمارداری کی وجہ سے غزوہ ہذا میں شریک نہ ہو سکے اور یہ صورت حال رسالت مآبﷺ کے فرمان کے تحت پیش آئی تھی اور پھر نبی کریمﷺ نے اس تخلف کے ہوتے ہوئے آپ کو ان غنائم کے حصوں اور اجر و ثواب میں برابر کا شریک قرار دیا تھا۔ فلہٰذا حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ ان فضائل اور ثوابِ بدر سے محروم نہیں رہے۔ مسئلہ ہذا اگر مزید سمجھنا مطلوب ہو تو اس واقعہ کو سامنے رکھیں کہ غزوہ تبوک میں جس کے فضائل کتاب وسنت میں بیان فرمائے گئے ہیں حضرت علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ شامل نہیں ہو سکے تھے اور مدینہ طیبہ میں ٹھہرے رہے تھے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا مدینہ شریف میں قیام اور غزوہ تبوک میں شریک نہ ہونا بھی فرمان نبویﷺ کے تحت تھا۔ بالکل اسی طرح حضرت عثمانؓ کی غزوہ بدر میں عدم شرکت بھی اسی نوعیت کی ہے مختصر یہ ہے کہ جیسے علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ کی ذات اس مسئلہ میں قابل طعن نہیں ہے اسی طرح حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ بھی اس مقام میں لائق اعتراض نہیں ہیں ۔
وفات رقيہ رضی اللّٰہ عنہا
جنگ بدر سن 2 ہجری میں رمضان المبارک میں پیش آیا تھا۔ سردار دو جہاںﷺ اپنے صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کے ساتھ جنگ بدر میں شریک ہوئے اِدھر حضرت رقیه رضی اللّٰہ عنہا کی بیماری شدت اختیار کر گئی اور آنجنابﷺ کی غیر موجودگی میں ان کا انتقال ہو گیا پھر ان کے کفن و دفن کی تیاری کی گئی اور یہ تمام امور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے سرانجام دیئے ۔
حدیث اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے کہ غزوہ بدر کی فتح کی بشارت لے کر جب زید بن حارثہؓ اور عبد اللّٰہ بن رواحہؓ مدینہ شریف پہنچے تو اس وقت حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو دفن کرنے والے حضرات اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے کے بعد مٹی جھاڑ رہے تھے ۔
تاریخ وفات
اس مقام میں علماء فرماتے ہیں کہ ہجرت مدینہ کے سترہ ماہ گزرنے کے بعد حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا انتقال ہوا تھا۔
طبقات ابن سعد صفحہ 25-24، جلد 8 تحت ذکر حضرت رقیهؓ۔
تفسير القرطبي صفحہ 242، جلد 14 تحت آيته قل لأزواجك وبناتك.۔۔۔
اور بعض علماء نے اس طرح ذکر کیا ہے کہ ہجرت کو ایک سال دس ماہ گزرنے کے بعد حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی وفات حسرت آیات ہوئی تھی۔
(اناللّٰہ وانا اليه راجعون)
1_ مسند ابی داؤد الطیالسی صفحہ 351 تحت مسندات يوسف بن مہران عن ابن عباس - طبع اول حیدر آباد دکن۔
2_ منحة المعبود في ترتيب مسند الطیالسی ابی داؤد صفحہ 159، جلد اول
باب الرخصة فى البكاء بغير نوح وصياح - (طبع مصر) -
3_طبقات ابن سعد صفحہ 24، جلد 8 تحت ذكر رقیهؓ۔
4_ وفاء الوفاء للسمهودی صفحہ 895، جلد 3 تحت قبر رقیه بنت الرسولﷺ.
بین کرنے اور واویلا کرنے کی ممانعت
چند ایام کے بعد سردار دوعالمﷺ مدینہ طیبہ میں پہنچے تو جنت البقیع میں قبر رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر تشریف لے گئے۔ اور اس موقع پر آنحضرتﷺ کی آمد کی بنا پر مزید عورتیں بھی جمع ہو گئیں اور حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر رونے لگیں جب عورتوں کا زیادہ آواز بلند ہوا تو حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے ان کو منع کیا اس وقت جناب رسالت مآبﷺ نے حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ کو سختی کرنے سے روک کر عورتوں سے ارشاد فرمایا کہ شیطانی آواز کرنے سے باز رہو اور ارشاد فرمایا کہ جب تک آنکھ اور قلب سے رونا صادر ہو تو یہ علامت رحمت اور شفقت کی ہے لیکن جب زبان سے واویلا اور ہاتھ سے جزع و فزع ظاہر ہو تو یہ شیطان کی طرف سے ہے۔
وبكت النساء على رقية فجعل عمر رضی اللّٰہ عنہ ينهاھن يضربهن فقال رسول اللّٰہﷺ مه يا عمر رضی اللّٰہ عنہ قال ثم قال اياكن ونعيق الشيطان فأنه مهما يكون من العين والقلب فمن الرحمة وما يكون من اللسان واليد فمن الشيطان
ذخائر العقبي للمحب الطيري صفحہ 163 تحت ذكر وفاتھا
سیدہ فاطمہ کا وفات رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر گریہ کرنا
اس موقعہ پر حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا اپنے والد شریف کے ساتھ قبر رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر حاضر ہوئیں اور اپنی پیاری بہن کے غم میں ان کی قبر کے کنارے پر بیٹھ کر رونے لگیں تو نبی کریمﷺ ازراہ شفقت فاطمتہ الزہراؓ کے چہرے سے آنسو کپڑے سے صاف کرنے لگے اور انہیں تسلی دی اور صبر و سکون کی تلقین فرمائی ۔
قال وجعلت فاطمة رضى اللّٰہ عنها تبكى على شفير قبر رقيہ رضی اللّٰہ عنہا فجعل رسول اللّٰہﷺ يمسح الدموع وجهها باليد او قال بالثوب
1_ منحة المعبود في ترتيب مسند الطيالسي ابی داؤد صفحہ 159 باب الرخصة فى البكاء على الميت بغير نوح -
2_ السنن الكبرى اللبيهقى صفحہ 71، جلد 4 كتاب الجنائز
تحت باب سياق اخبارٍ تدل على جواز البكاء بعد الموت
3_ طبقات ابن سعد صفحہ 24، جلد8 تحت ذكر رقيہؓ طبع ليدن۔
4_ وفاء الوفاء السمهودى صفحہ 895، جلد 3ت حت قبر رقيہؓ بنت الرسولﷺ۔
ایک خصوصی ارشاد
صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا جب انتقال ہو گیا تو رسالت مآبﷺ نہایت مغموم اور پریشان تھے اور پریشانی کی ایک خاص وجہ یہ بھی تھی کہ آپﷺ عدم موجودگی میں ان کا انتقال ہوا تھا اور آنجنابﷺ ان آخری لمحات میں اور جنازہ یا کفن و دفن میں شمولیت نہیں فرما سکے تھے۔ جب آپ مدینہ طیبہ میں تشریف لائے ہیں تو مزار رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر تشریف لے گئے وہاں پر آپ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے حق میں تحسر کے کلمات ارشاد فرماتے کہ :
" الحقى بسلفنا عثمان ابن مظعون "
1_ طبقات ابن سعد صفحہ 24-25،جلد 8 تحت تذکره راقيہؓ۔
2_ الاصابة صفحہ 297، جلد4 تحت ذکر رقیهؓ
3_ الزرقاني شرح مواهب صفحہ 199، جلد3 تحت رقیهؓ۔
4_ وفاء الوفاء از نور الدين السمہودی صفحہ 894، جلد3 تحت قبر رقیہ بنت رسول اللّٰہﷺ.
یعنی اے رقیہ ! تم ہمارے سلف صالح عثمان بن مظعونؓ کے ساتھ لاحق ہو اور ان کے ساتھ جا کر شامل ہو۔
سیدنا عثمان بن مظعونؓ کا اجمالی تعارف
حضرت عثمان بن مظعون رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا ایک قدیم الاسلام اور بڑے مقتدر صحابی تھے۔ تیرہ افراد کے بعد اسلام لائے تھے اور ہجرتِ حبشہ کی فضیلت بھی ان کو نصیب ہوئی تھی۔ مدینہ شریف میں مہاجرین میں سے یہ پہلے شخص تھے جنہوں نے انتقال فرمایا اور "جنت البقیع" میں مہاجرین میں سے پہلے دفن ہونے والے ہی تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو رسالت مآبﷺ ان کے ارتحال کی وجہ سے نہایت غمناک ہوتے تھے اور آنجنابﷺ کے آنسو مبارک جاری تھے اور اسی حالت میں آپﷺ نے عثمان بن مظعون رضی اللّٰہ عنہ کو بوسہ مبارک سے نوازا تھا۔
اس بناء پر حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ ابن مظعون کو آپﷺ نے اپنے سلف صالحین کے نام سے ذکر فرمایا ہے۔
1_ الاصابة لابن حجر صفحہ 457، جلد2 ثانی تحت عثمان بن مظعونؓ -
شیعہ کی طرف سے تائید
صاحبزادی رقيہ رضی اللّٰہ عنہا بنت رسول اللّٰہﷺ کے انتقال کے احوال جس طرح علماء اہل سنت کی کتب سے مختصراً پیش کیے گئے ہیں اسی طرح شیعہ علماء نے بھی اپنے آئمہ کرام سے اس موقعہ کے حالات باسند نقل کئے ہیں چنانچہ ہم ان کی اصول کی کتاب "فروع کافي" كتاب الجنائز باب المسئله في القبر سے بعض احوال نقل کرتے ہیں اس سے حضرت رقیہؓ کا مقام توقیر جو رسول اللّٰہﷺ کے ہاں تھا وہ واضح ہو جائے گا اور حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا کا اپنی بہن سے قلبی تعلق نمایاں ہو گا اور ان کے باہمی روابط معلوم ہونگے ۔
شیعہ کے آئمہ فرماتے ہیں کہ جب صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا انتقال ہوا تو رسول اللّٰہﷺ نے رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کہ اے رقیہ! تم ہمارے سلف صالح عثمان بن مظعونؓ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ شامل رہو ۔
حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا اپنی پیاری بہن کی قبر شریف کے کنارے پر تشریف لائیں اور فرطِ غم کی وجہ سے رونے لگیں اور فاطمہؓ کے آنسو قبر رقیہ رضی اللّٰہ عنہا میں گر رہے تھے۔ جناب رسول اللّٰہﷺ پاس کھڑے تھے اور اپنے کپڑے سے ان کے آنسو پونچھ رہے تھے وہیں آنجنابﷺ نے رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے حق میں کلمات دعائیہ ارشاد فرمائے ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی ضعیفی مجھے معلوم ہے میں نے اللّٰہ کریم سے سوال کیا ہے کہ وہ رقیہ کو قبر کی گرفت سے پناہ دے
"قال لمامات رقية ابنة رسول اللّٰہﷺ قالی رسول اللّٰہﷺ واله الحقى يسلفنا الصالح عثمان بن مظعون واصحابه قال وفاطمة عليها السلام على شفير القبر تنحذر دموعها في القبر ورسول اللّٰہﷺ وآله يتلقاه بثوبه قائم يدعو قال اني لا عرف ضعفها وسألت اللّٰہ عزوجل أن يجيرها من ضمة القبر"
فروع کافی صفحہ 133، جلد اول كتاب الجائز باب المسئلة في القير طبع نول کشور لکھنو
اسی کتاب "فروع کافی" کے ایک دیگر مقام میں امام جعفر صادق رضی اللّٰہ عنہ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے اس میں بھی حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی وفات کا ذکر ہے اور وہاں امام جعفر صادق رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول خداﷺ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی قبر تشریف لائے آسمان کی طرف سر مبارک اٹھایا اور آپﷺ کے آنسو جاری تھے اور لوگوں سے فرمایا مجھے رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی تکلیف یاد آئی ہے اور جو اس کو مصیبت پہنچی ہے۔ میں نے قبر کی گرفت کے متعلق اللّٰہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ اے اللّٰہ! رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو قبر کی تکلیف سے معافی دے دے پس اللّٰہ تعالیٰ نے رقیہ کو معافی دے دی ہے ۔
"وقف رسول اللّٰہ ﷺ واله على قبرها رفع رأسه إلى السماء فدمعت عيناه وقال للناس انى ذكرت هذه وما لقيت فرققت لها واستوهبتها من ضمة القبر قالى فقال اللهم هب لى رقية من ضمةالقبر فوهبها اللّٰہ له "
فروع كافی صفحہ 129، جلد اول طبع نول کشور لکھنؤ۔كتاب الجنائز باب المسئلة في القبر۔
یہ ایک دو روایتیں شیعہ کے متقدمین علماء نے ذکر کی ہیں اب ایک آدھ روایت شیعہ کے متاخرین علماء کی ذکر کی جاتی ہے تاکہ احباب کو تسلی ہو جائے کہ حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی فضیلت کے یہ واقعات متقدمین اور متاخرین سب علماء نے ذکر کیے ہیں۔ ( اگرچہ بعض مجلس خوان دوستوں کو نظر نہیں آتے) ۔
شیخ عباس قمی چودھویں صدی ہجری کے مشہور و معروف مجتہد ہیں وہ ائمہ کی روایت کا فارسی میں ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
چوں رقیه دختر رسول خداﷺ وفات یافت حضرت رسول اور اخطاب نمود که ملحق شو بگذشتگان شائسته، عثمان بن مظعون و اصحاب شائستہ او۔ و جناب فاطمه علیها السلام برکنار قبر رقیه نشسته بود و آب از دیده اش در قبر می ریخت حضرت رسولﷺ آب از دیده نور دیده خود پاک میکرد و درکنار قبر ایستاده بود و دعا میکرد پس فرمود که من دانستم صنعف و توانانی اور اواز حق تعالی خواستم که اورا امان دہداز فشار قبر "
1_ منتہی الآمال للشیخ عباس قمی صفحہ 108، جلد 1فصل هشتم در بیان اولاد امجاد آنحضرت است طبع تهران ۔
2_ جناب رسالت مآبﷺ تو وفات رقیہ کے وقت بدر میں تھے مندرجہ بالا حالات کیسے صحیح ہوئے؟ تو اس کا مختصر جواب ہمارے علماء نے ذکر کیا ہے کہ :۔
"يحمل على انه اتى قبرها بعد ان جاء من بدر"
"یعنی بدر سے واپس تشریف لانے کے بعد آنجنابﷺ قبر رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر پہنچے اور یہ کوائف و حالات پیش آئے ۔ ملاحظہ ہو (1) طبقات ابن سعد صفحہ 25، جلد8 تحت ذکر رقیهؓ۔
(2) الاصابة لابن حجر صفحہ 297، جلد4 تحت رقیہؓ
(3) شرح مواهب اللدنيه للزرقانی صفحہ 199،جلد3 تحت رقیهؓ۔
شاید شیعہ علماء بھی یہی توجیہہ پسند کریں گے یہ ان کی اپنی صواب دید پر موقوف ہے ۔ (منہ )
"یعنی جب رسول خداﷺ کی صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نے وفات پائی تو آنجنابﷺ نے اس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمارے سلف صالح عثمان بن مظعونؓ اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ تم لاحق ہو اور حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا(اپنی بہن) حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی قبر کے کنارے بیٹھی رو رہی تھیں اور ان کے آنسو قبر میں گر رہے تھے اور جناب رسول خداﷺ قبر کے کنارے کھڑے ہوئے اپنی نور چشم فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا کے آنسو صاف فرما رہے تھے اور دعا کر رہے تھے کہ مجھے رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی ناتوانی اور ضعف معلوم تھا اور حق تعالیٰ سے میں نے درخواست کی کہ قبر کی گرفت سے رقیہ کو کو امان دے دیں"
حاصل کلام
مختصر یہ ہے کہ مذکورہ بالا شیعی روایات میں رسولِ خداﷺ کی صاحبزادی حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے حالات مذکور ہوئے ہیں اور ان میں مندرجہ ذیل نکات آشکارا ہیں۔
حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا جناب رسول خداﷺ کی حقیقی صاحبزادی تھیں۔
آپ نے ان کو اپنے سلف صالحین کے ساتھ لاحق ہونے کا خطاب فرمایا۔
حضرت فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا اپنی بہن کے دفن کے وقت قبر پر حاضر ہوئیں اور گریہ وزاری کی۔
رسالت مآبﷺ نے اپنی صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے حق میں دعائیں فرمائیں اور وہ یقیناً مقبول و منظور ہوئیں ۔
سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر درود بھیجنے کا حکم
مندرجہ بالا حالات ذکر کرنے کے بعد اب ہم شیعہ بزرگوں سے ایک دوسرا مسئلہ نقل کرتے ہیں ان کے شیعہ علماء نے اپنے ائمہ سے ذکر کیا ہے کہ نبی اقدسﷺ کی دونوں صاحبزادیوں (حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور حضرت ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا) پر درود و صلواۃ بھیجا جائے۔ چنانچہ ہم درود و صلوات کے یہ صیغے انکے اصل الفاظ کے ساتھ نقل کرتے ہیں ۔ اللّٰہ تعالٰی سب مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے اور نبی کریمﷺ کے اقارب اور رشتہ داروں کے ساتھ صحیح عقیدت محبت عطا فرمائے ۔ آمین ۔
اصول اربعہ کی مشہور کتاب "تہذیب الاحکام" کتاب الصلاۃ میں تسبیحات و رمضان کے تحت لکھا ہے کہ :۔
"اللهم صلى على القاسم والطاهر ابني نبيك ۔اللهم صلى على رقیة بنت نبيك والعن من آذى نبيك .فيها اللهم صلى على ام كلثوم بنت نبيك والعن من آذى نبيك فيها "
تهذیب الاحکام کامل صفحہ 154 کتاب الصلاة تسبیحات درد رمضان طبع قدیم 1317۔17ہجری
اور یہی درود و صلوٰۃ ان کی متعدد معتبر کتابوں میں موجود ہے ہم صرف تائیداً ایک اور کتاب "تحفة العوام" کا نقل کر رہے ہیں تاکہ لوگوں پر واضح ہو جائے کہ یہ حضرات اپنی اصول اربعہ کی کتب سے لیکر تحفتہ العوام تک لعن و طعن کہ کلمات بڑے التزام کے ساتھ لکھتے چلے آرہے ہیں ۔
"اللهم صل على القاسم الطاهر ابني نبيك . اللهم صل على رقية بنت نبيك والعن من اٰذى نبيك فيها اللّٰهم صل على ام كلثوم بنت نبيك والعن من آذى نبيك فيها "
تحفة العوام باب انیسواں ماه رمضان المبارک فصل ششم از حاجی حسن علی شیعی۔
اہل علم حضرات تو عبارت بالا کا ترجمہ اور مفہوم خوب سمجھتے ہیں لیکن عوام دوستوں کے لیے اس عبارت کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ "اے اللّٰہ ! تو اپنے نبیﷺ کے دونوں فرزندوں قاسم اورطاہر پر درود و صلوٰۃ بھیج اے اللّٰہ ! اپنے نبیﷺ کی بیٹی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر درود و صلواۃ بھیج اور جس شخص نے تیرے نبیﷺ کو رقیہؓ کے حق میں اذیت پہنچائی" اس پر لعنت کر (نعوذ باللّٰہ) اے اللّٰہ ! اپنے نبیﷺ کی بیٹی ام کلثومؓ پر درود و صلواۃ بھیج اور اس شخص پر جس نے تیرے نبی کو ام کلثومؓ کے حق میں اذیت ہے پہنچائی ۔ اس پر لعنت کر (نعوذ باللّٰہ)
عبارت مندرجہ بالا میں ان الفاظ پر غور کیجئے ، جس شخص نے تیرے نبی کو رقیہ رضی اللّٰہ عنہا/ ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا کے حق میں اذیت پہنچائی ۔ اس پر لعنت کر"
ان صاحبزادیوں کو اس سے زیادہ کس بات سے اذیت ہو گی کہ انہیں کہہ دیا جائے کہ یہ آنجنابﷺ کی بیٹیاں ہی نہ تھیں ہر وہ شخص جو ان صاحبزادیاں کو اس طرح اذیت پہنچاتا ہے وہ یقیناً اس بد دعا کے تحت آتا ہے۔
سوانح سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا اجمالی خاکہ
1- صاحبزادی حضرت سیدہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا حضرت سیدہ زینب رضی اللّٰہ عنہا سے تین برس بعد میں پیدا ہوئیں ۔
2ـ اپنے والد شریفﷺ اور خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا کے زیرِ نگرانی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نے تربیت پائی اور جوان ہوئیں ۔
3ـ اپنی والدہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا کے ساتھ ایمان لائیں اور بیعت نبویﷺ ان کو نصیب ہوئی۔
4ـ نو عمری میں ابولہب کے لڑکے "عتبہ" کے ساتھ ان کا نکاح ہوا۔ پھر اسلام کے ساتھ عناد کی وجہ سے رخصتی سے قبل اس نے طلاق دے دی۔
5ـ اس کے بعد حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا نکاح ہوا۔ اور امر الٰہی کے تحت نبی کریمﷺ نے یہ نکاح کر دیا ۔
6- قریش کی عورتوں نے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے حسن و جمال کی تعریف کی۔
7- ہجرت حبشہ کی فضیلت حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ دونوں کو نصیب ہوئی۔ خدا کی راہ میں تکلیف اُٹھا کر اولین مہاجرین میں شمار ہوئے اور آخرت میں ثواب و اجر کے مستحق ہوئے۔
8- اس دوران سید عالمﷺ ان کے احوال کی دریافت کرتے اور کلمات دعا فرماتے تھے کہ "اللّٰہ تعالیٰ ان کا ساتھی ہو"۔
9- ایک مدت کے بعد "ہجرت حبشہ" سے واپسی ہوئی پھر اس کے بعد "ہجرت مدینہ" ان کو حاصل ہوئی گویا دو ہجرتوں سے میاں بیوی دونوں مشرف ہوئے۔
10ـ حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی اولاد ہوئی ۔ "عبداللّٰہ" پیدا ہوتے پھر چند برس کے بعد 4ہجری میں مدینہ طیبہ میں عبد اللّٰہ کی وفات ہوئی غسل کفن دفن وغیرہ جناب رسالت مآبﷺ کی نگرانی میں اتمام پذیر ہوا۔
11- خادمہ (ام عیاش) آنجنابﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کو ہدیہ عنایت فرمائی۔
12- آنجنابﷺ حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے گھر پختہ طعام بطور ہدیہ کے ارسال فرماتے تھے۔
اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کی جانب سے بھی آنجناب کی خدمت اقدس میں ہدیہ طعام پیش کیا جاتا تھا۔
13- حضرت رقیہ اپنے خاوند کی بہت خدمت گزار خاتون تھیں اس مسئلہ پر ان کے والد شریف نے انہیں خاص ہدایت فرمائی ۔
14- 2ہجری ایام بدر میں حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا بیمار ہوئیں آنجنابﷺ غزوہ ہذا میں تشریف لے گئے اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کو ان کی تیمار داری کے لئے مقرر فرما کر ٹھہرایا۔ اور عثمان رضی اللّٰہ عنہ کو اجر و ثواب بدری صحابہ کے برابر حاصل ہوا۔ غنائم بدر سے بھی ان کو دیگر حضرات کے مساوی حصہ عنایت فرمایا گیا۔
15- حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے حق میں بدر میں غیر حاضری کی ایسی ہی نوعیت تھی جیسا کہ غزوہ تبوک میں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی غیر حاضری۔
16- سیدہ رقیہ رضی عنہا اسی دوران فوت ہو گئیں ۔ ہجرت مدینہ کے سترہ روز گزرنے کے بعد 2ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔
17- ان کی وفات کے بعد رسالت مآبﷺ قبر رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر تشریف لے گئے ساتھ مدینہ کی عورتیں بھی تھیں ان کو واویلا کرنے اور بین و نوحہ کرنے سے منع فرما دیا ۔
18- حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللّٰہ عنہا اپنی بہن کی قبر پر حاضر ہوئیں اور گریہ کرنے لگیں۔
19- اس موقعہ پر جناب رسالت مآبﷺ نے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے حق میں ارشاد فرمایا کہ "تم ہمارے سلف صالح عثمان بن مظعونؓ کے ساتھ لاحق ہو" ۔
20- حضرت رقیه رضی اللّٰہ عنہا پر درود و صلوات بھیجنے کا مسئلہ (یہ صرف شیعہ کتب سے منقول ہے۔)
اس کے بعد ازالہ شبہات کا عنوان پیش خدمت ہے۔
ازالہ شبهات
شیعہ کی طرف سے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے حق میں کئی شبہات ذکر کئے جاتے ہیں ۔ حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے سوانح ذکر کرنے کے بعد اب ان شبہات کا ازالہ کر دینا مناسب خیال کیا گیا ہے
1_ ایک تو یہ کہا جاتا ہے کہ صاحبزادی رقیہ رضی اللّٰہ عنہا نبی اقدسﷺ کی حقیقی صاحبزادی نہیں بلکہ حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کے سابق ازواج کی اولاد ہیں اور بعض دفعہ یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ یہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کی خواہرزادہ ہیں ۔
معترضین کی یہ دونوں باتیں درست نہیں ہیں ۔
قبل ازیں ہم نے یہ بحث ابتدائے کتاب ہذا میں مفصل ذکر کر دی ہے یعنی حضرت خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کے سابق ازواج سے اولاد کی بحث اور نبی کریمﷺ سے جو خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کی اولاد ہوئی ان دونوں امور کو پوری تفصیل کے ساتھ وہاں بیان کر دیا گیا ہے اور دونوں فریق کی کتابوں سے اس مسئلہ کو مدلل کیا گیا ہے اور اس شبہ کا جواب تمام کر دیا ہے دوبارہ ذکر کرنے کی یہاں حاجت نہیں ۔ ابتدائی مباحث کی طرف رجوع کر لیں تشقی ہو جائے گی۔
2_ دوسری یہ چیز ذکر کرتے ہیں کہ حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے لئے کوئی "فضیلت" اسلامی کتب میں مذکور نہیں نہ کسی شیعہ کتاب میں فضیلت پائی جاتی ہے نہ کسی سنی کتاب میں درج ہے ۔
یہ چیز بالکل خلاف واقعہ ہے اور محض عناد کی بنا پر اس کو نشر کیا جاتا ہے۔ ورنہ حقیقت حال یہ ہے کہ جناب رسالتﷺ کی حقیقی اولاد مبارک ہونے کا انہیں شرف حاصل ہے۔ ان کے سوانح جو ماقبل میں ہم نے مفصل ذکر کئے ہیں وہ اس بات پر شاہد عادل ہیں۔
حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے سوانح کا ایک ایک عنوان آپ ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرما دیں (جو کم و بیش بیس عدد ذکر کئے گئے ہیں) تو آپ کو یقین آ جائے گا کہ عدم ذکر فضیلت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کا جو اعتراض ذکر کیا جاتا ہے وہ سراسر غلط اور بے بنیاد ہے اور لطف یہ ہے کہ ہم نے بیشتر مقامات میں شیعہ احباب کی معتبر کتابوں سے بھی حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے احوال وسوانح درج کیے ہیں تا کہ کسی فریق کو کلام کرنے کی گنجائش نہ رہے۔ تمام سوانح مذکورہ مندرجہ ملاحظہ کرنے کی فرصت نہ ہو تو صرف "سوانح حضرت رقیہ کا اجمالی خاکہ" پر نظر کر لیں جو ان کے حالات کے آخر میں مندرج ہے تو آپ پر واضح ہو جائے گا کہ جن لوگوں نے یہ لکھا ہے کہ رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کے لئے کوئی فضیلت کتابوں میں نہیں ملتی۔۔ الخ۔"
انہوں نے یہ کتنا قدر " بابرکت جھوٹ " بولا ہے اور عوام کو دھوکہ میں ڈالا ہے۔ اور اپنے نبی مقدسﷺ کی اولاد شریف پر کس قدر افترا کیا ہے ۔ اور تاریخ اسلامی کو کس طرح مسخ کر ڈالا ہے ؟
3_ تیسری چیز یہ ذکر کیا کرتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ نے حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر بڑے مظالم کئے ان کو زد و کوب کیا اور ان کو سخت ایذائیں پہنچائیں حتیٰ کہ ان کا انہیں حالات میں انتقال ہو گیا۔ اور اسی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ پر یہ لوگ لعن و طعن کرتے ہیں۔
ناظرین کرام ! حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا پر مظالم کی یہ داستان سراسر بہتان اور بے اصل ہے اور واقعہ کے برخلاف ہے۔ کوئی بھی عقل مند آدمی اس کو صحیح تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ وجہ یہ ہے کہ:
1- نبی اقدسﷺ نے حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کو غنائم بدر سے باقی اہل بدر کے ساتھ مساوی حصہ عطا فرمایا تھا اور اجر وثواب میں بھی ان کو شریک ٹھہرایا۔ اور حضرت رقیہؓ کا ان ہی ایام میں انتقال ہو چکا تھا۔ اگر حضرت رقیہؓ کا انتقال حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کی ایذا رسانی کی وجہ سے ہوا تھا تو پھر یہ غنائم بدر سے حصہ دینا اور اجر و ثواب میں شریک ٹھہرانا کیسے درست ہوا ؟؟
2- حضرت رقیہ رضی اللّٰہ عنہا کی وفات کے بعد جناب رسالت مآبﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا کو حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے نکاح میں دے دیا جیسا کہ عنقریب حضرت ام کلثومؓ کے سوانح میں اس کا مفصل ذکر آرہا ہے۔)
قابل غور بات یہ ہے کہ اگر پہلی صاحبزادی کے ساتھ ایذا رسانی کی گئی اور مظالم کیے گئے جن کی وجہ سے وہ وفات پا گئیں تو دوسری صاحبزادی کو ایسے ظالم داماد کے نکاح میں دے دینا عقل و عادت کے بر خلاف ہے اور معززین شرفاء کے طریقہ کے برعکس ہے۔
3- نیز حضرت رسالت مآبﷺ نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے حق میں بے شمار مقامات میں مدائح اور فضائل ذکر فرمائے ہیں اور حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ پر رضا مندی کا اظہار دواماّ فرمایا ہے۔ اس کے متعلق چند چیزیں یہاں درج کی جاتی ہیں مثلاً فرمایا کہ :
1- " ان لكل نبي رفيقًا وان رفيقي في الجنة عثمان "
1- مشکوة شریف صفحہ 561 باب مناقب عثمان رضی اللّٰہ عنہ الفصل الثاني، طبع نور محمدی ، دھلی
2_ كنز العمال صفحہ 151،جلد6 تحت فضائل عثمان ذی النورینؓ روایت 2473 ، 2474، طبع اول دکن
یعنی ہر نبی کے لئے ایک رفیق ہوتا ہے اور میرے رفیق جنت میں عثمانؓ ہیں ۔
نیز ارشاد فرمایا کہ :-
2- " عن عبد الرحمن ابن عوف ان النبيﷺ قال ابو بكر في الجنة وعمر في الجنة وعثمان في الجنة وعلى في الجنة.۔۔۔ الخ "
مشكوة شريف بحوالہ ترمذی و ابن ماجه صفحہ 566 طبع نور محمدی باب المناقب العشرة المبشرة - الفصل الثاني ۔
یعنی فرمایا کہ ابو بکرؓ جنت میں ہوں گے۔ عمرؓ جنت میں ہونگے عثمانؓ جنت میں ہوں گے۔ علیؓ جنت میں ہوں گے ...... الخ
یہ چند مرفوع روایات ہیں جو اوپر پیش کی گئی ہیں ان میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا آنجنابﷺ کا جنت میں رفیق ہونا بتلایا گیا ہے اور جنت وہ مقام ہے جو مومن کو اللّٰہ اور اس کے رسولﷺ کی رضا مندی کے ثمرہ میں حاصل ہوتا ہے تو نبی اقدسﷺ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ پر رضا مند تھے تب ہی تو ان کو جنت میں رفاقت کی بشارت دی گئی ۔
اور اگر حضرت رسالت مآبﷺ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ پر کسی وجہ سے ناراض تھے تو حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کو یہ بشارت نہیں نصیب ہو سکتی تھی۔ نیز حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ سے بھی رضا مندی کا یہ مسئلہ مروی ہے وہ ملاحظہ فرمادیں ۔
3- "عن عمر رضى اللّٰہ عنه قال ما احد احق بهذا الامر من هؤلاء النفر الذين توفی رسول اللّٰہﷺ وهو عنهم راضٍ فسمى عليا وعثمان والزبير و طلحة وسعد وعبد الرحمٰن (رواہ البخاری)"
1۔مشكوة شريف صفحہ 565 باب مناقب العشرةؓ من الفسل الأول -
2_ طبقات ابن سعد صفحہ 42، جلد3 تذکره عثمانؓ تحت ذكر الشورىٰ وما كان من أمرهم - طبع ليدن -
"یعنی حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ خلافت کا ان لوگوں سے زیادہ کوئی حقدار نہیں جن لوگوں سے نبی اقدسﷺ رضا مند ہو کر اس عالم سے رخصت ہوئے۔ پھر حضرت عمر رضی اللّٰہ عنہ نے ان کے نام ذکر کیئے وہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ، عثمان رضی اللّٰہ عنہ، زبیر رضی اللّٰہ عنہ، طلحہ رضی اللّٰہ عنہ، سعد رضی اللّٰہ عنہ ، اور عبدالرحمٰن رضی اللّٰہ عنہ ابن عوف تھے۔
4- اور خود حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ نے بھی اپنے متعلق ذکر فرمایا ہے کہ :۔
"و توفى رسول اللّٰہﷺ وهو عنى راضٍ"
كنز العمال صفحہ 371، جلد 6طبع اول دکن ، تحت فضائل ذی النورینؓ
بحوالہ حم - خ - و ابو نعيم في المعرفة۔
" اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اقدسﷺ کا اس عالم سے انتقال ہوا ۔ در آنحال کہ آنجنابﷺ مجھ سے راضی اور خوش تھے"۔
مختصر یہ ہے کہ مندرجات بالا کے ذریعہ واضح ہو گیا کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ پر رسالت مآبﷺ راضی تھے آپﷺ سے کسی قسم کی ناراضگی اور ناچاکی پیش نہیں آئی تھی ۔ اور مدت العمر حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے ساتھ آنجنابﷺ کے تعلقات شائستہ رہے اور اسی پر خاتمہ بالخیر ہوا ۔
اگر ان صاحبزادیاں (رقیه رضی اللّٰہ عنہا و ام کلثوم رضی اللّٰہ عنہا) کے ساتھ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے برا سلوک کیا تھا اور ان کے حق میں اس قدر ایذا رسانی کی تھی کہ ان کی موت واقع ہو گئی۔ تو اس کا احساس نبی اقدسﷺ کو ضرور ہونا چاہئے تھا اور حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم کو یقیناً اس کا صدمہ پہنچنا چاہیے تھا۔
اگر ایسا ہوتا تو اس کی پاداش میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ سزا کے مستحق ہوتے۔ اور کچھ بھی نہ ہوتا تو کم از کم زبانی کلامی سرزنش اور عتاب تو ضرور کیا جاتا۔ اور باہمی تعلقات نا خوشگوار ہو جاتے اور روابط ختم کر لئے جاتے ۔
لیکن ان تمام چیزوں کے بر خلاف یہاں تو آپس میں رضامندی ہے حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے مدائح و فضائل بیان ہوتے ہیں انکے کردار و اعمال بشارتیں دی جاتی ہیں جو ان کی قبولیت کی علامت ہیں ۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ صاحبزادیوں کو ایذارسانی کے قصے تصنیف شدہ ہیں۔ جو حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے حق میں سئوظنی نشر کرنے کے لئے مرتب کئے گئے ہیں۔ ان میں حبّہ بھر صداقت نہیں ہے ۔
5- ایک اور قابل غور چیز
حضرت عثمان ابن عفان رضی اللّٰہ عنہ کے متعلق شیعہ کے اکابر مورخین نے چند ایسی عالی صفات ذکر کی ہیں جن کے آئینہ میں حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا اعلیٰ کردار صاف نظر آتا ہے اور ان کا فضل و کمال سورج بن کر چمکتا ہے۔ چنانچہ مسعودی نے اپنی مشہور تصنیف "مروج الذہب" میں (ذکر ذی النورين کے تحت) حضرت عثمان بن عفان رضی اللّٰہ عنہ کی صفات مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کی ہیں ۔
" وكان عثمان في نهاية الجود والكرم والسماحة والبذل في القريب والبعيد "
مروج الذهب للمسعودي صفحہ 24، جلد2 تحت ذكر ذی النورين رضی اللّٰہ عنہ۔
"یعنی عثمان نہایت سخی اور مہربان تھے اور نرم برتاؤ اور فیاضی کرنے والے تھے اور قریب اور بعید رشتہ داروں میں بہت خرچ کرنے والے تھے"
مسعودی شیعی کے اس بیان سے واضح ہو گیا کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نہایت عمدہ صفات کے حامل تھے اور نرم معاملہ اور نرم برتاؤ کرنے والے تھے اور اپنے رشتہ داروں میں قریبی ہوں یا غیر قریبی ان سب پر خرچ کرنے والے تھے ۔ یہ صفات بتلا رہی ہیں کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ سفاک اور قاتل نہیں تھے اور نہ ہی اپنوں پر ظلم کرنے والے تھے۔ جن لوگوں نے اپنی اہلیہ پر ظلم اور تشدد کرنے کا ان پر الزام لگایا ہے وہ سراسر کذب و افتراء ہے۔ اور ایسا مبارک دروغ تصنیف کیا ہے جس کو کوئی با شعور منصف مزاج آدمی تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اور خود شیعہ کے مندرجات بالا اس کی تردید کرتے ہیں ۔ اور شیعہ کے اعاظم واکابر علماء ذوالنورین کے عنوان کو حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کے لئے بطور لقب کے استعمال کرتے تھے ۔ یہ لقب صاحبزادیوں کی عظمت کی بنا پر مستعمل ہے۔