سوانح صاحبزادی سیدہ اُمِ کُلثوم رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہﷺ
مولانا محمد نافعسوانح صاحبزادی سیدہ اُمِ کُلثوم رضی اللہ عنہا
اسمِ گرامی
سردارِ دو جہاںﷺ کی یہ تیسری صاحبزادی ہیں۔ ان کی والدہ محترم سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ ہیں ۔ ان کا اسمِ گرامی "اُمِ کُلثومؓ" ہے اور اسی کنیت کے ساتھ مشہور ہے اور کوئی الگ نام معروف نہیں ہے بہت سے علماء نے اس چیز کی وضاحت کر دی ہے۔
ذیل مقامات ملاحظہ ہوں۔
وهي ممن عرف بكنيته ولم يعرف لها اسم
[¹· تاريخ الخمس صفحہ 275جلد اول تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ بنتِ رسول اللهﷺ
²· الزرقانی شرح مواهب اللدنيه جلد 3 صفحہ 199تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ۔
³· ذخائر العقبىٰ لاحمد ابنِ عبدالله الطبرى صفحہ 164تحت فصل السادس في ذكر اُمِ كُلثوم بنتِ رسول اللہﷺ
ولادت باسعادت
اکثر علماء کے نزدیک سیدہ اُمِ کُلثوم اپنی بہن سیدہ فاطمہؓ سے بڑی اور اپنی بہن سیدہ رقیہؓ سے چھوٹی تھیں اور بعض علماء فرماتے ہیں کہ سیدہ رقیہؓ سے بڑی تھیں لیکن یہ قول شاذ ہے پہلی چیز تذکرہ نوسیوں میں زیادہ مشہور ہے اور اسی پر اعتماد کیا گیا ہے۔
[ ¹· اسد الغابه صفحہ 612 جلد 5 تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ
²· تاريخ الخميس للديار البكریٰ صفحہ 275 جلد اول تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ]
اسلام لانا اور بعیت کرنا
قبل ازیں سیدہ اُمِ کُلثومؓ کی بہنوں کے تذکرہ میں یہ بات گزر چکی ہے کہ نبی اقدسﷺ اور سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کی نگرانی میں انہوں نے ہوش سنبھالا اور اس بابرکت تربیت میں جوانی کو پہنچیں۔ پھر جس وقت جناب رسالت مآبﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو یہ تمام بہنیں اپنی والدہ کے ہمراہ اسلام لائیں اور بیعت کے موقع پر اپنے والد شریفﷺ کے ساتھ بعیت کی اور دیگر عورتوں نے بھی بیعت کی اور ہجرت تک مکہ شریف میں ان کا قیام رہا۔
"فلم تزل بمكة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم و اسلمت حین اسلمت امها و بایعت رسول الله صلى الله عليه وسلم مع اخواتها حين بايعه النساء"
[¹· تفسير احكام القرآن للقرطبى صفحہ 242 جلد رابع عشر(14)تحت آية قل لا زواجك وبناتك.
(سورة الأحزاب)
²· طبقات ابنِ سعد صفحہ 25 جلد8 تحت اُمِ کُلثومؓ]
سیدہ اُمِ کُلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاحِ اوّل اور طلاق
اعلانِ نبوت سے پہلے اس دور کے دستور کے مطابق نبی اقدسﷺ نے اپنی صاحبزادی اُمِ کُلثومؓ کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے لڑکے عتیبہ کے ساتھ کر دیا تھا اور سیدہ رقیہؓ کا نکاح عتبہ کے ساتھ کیا تھا۔
لیکن جب اسلام کا دور آیا اور نبی کریمﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا اور قرآن مجید کا نزول شروع ہوا۔ قرآن مجید میں شرک کی مزمت کی گئی اور مشرکین کا برا انجام واضح کیا گیا ان دنوں ابولہب اسلام دشمنی میں پیش پیش تھا۔ ابولہب کی مذمت میں اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل سورت (سورۃ تبت یدا ابی لہب ... الخ) نازل فرمائی۔ ابولہب اور اس کی بیوی (اُمِ جمیل) دونوں کی اس مختصر سورۃ میں قباحت واضح کی گئی تھی۔
اس وقت ابولہب اور اُمِ جمیل میاں بیوی دونوں نے اپنے لڑکے عتیبہ کو مجبور کیا کہ محمدﷺ کی لڑکی اُمِ کُلثومؓ کو طلاق دے۔ اور اُمِ جمیل اپنے دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ کو کہنے لگی کہ محمدبن عبداللہﷺ کی دونوں لڑکیاں رقیہؓ اور اُمِ کُلثومؓ بے دین ہو گئیں ہیں اور قدیمی مذہب چھوڑ چکی ہیں۔ لہٰذا ان دونوں لڑکیوں کو تم دونوں بھائی طلاق دے دو۔ پس انہوں نے اپنے والدین کے مجبور کرنے پر دونوں صاحبزادیوں کو بلاوجہ طلاق دے دی اللہ تعالیٰ کو منظور یہی تھا۔ کہ یہ پاک بیبیاں ان ناپاک مشرکین کے گھر نہ جائیں سو عتبہ نے سیدہ رقیہؓ عتیبہ نے سیدہ اُمِ کُلثومؓ کو چھوڑ دیا۔ اور یہ طلاق ان کی رخصتی سے قبل واقع ہوئی تھی۔
قالت ام جميل ....... لا بنيها ان رقيه وام كلثوم قد صبتا فطلقا هما فقعلا فطلقا هما قبل الدخول بها
[¹· اسد الغابة لابن اثیر الجزری صفحہ 612 جلد5 تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ
²· البداية لابن كثير صفحہ 309 جلد 5 تحت فصل اولادِ نبویﷺ
³· تفسير القرطبی صفحہ 242/ 243 جلد رابع عشیر(14) تحت آية قل لا زواجك وبناتك . (سورة الأحزاب)
قبل ازیں سیدہ رقیہؓ کے سوانح میں ذکر کیا گیا ہے ان صاحبزادیوں رقیہؓ اُمِ کُلثومؓ کو بلاوجہ طلاق دے دی گئی تھی ان کا کوئی قصور نہ تھا آنحضرتﷺ کو دکھ دینے کے لئے اور اسلام کی دشمنی کی وجہ سے ابو لہب کے بیٹوں نے یہ ستم روا رکھا تھا۔ اور اسلام کی خاطر ہی ان پاک دامن بیبیوں نے یہ مصیبت اٹھائی۔ ان بناتِ رسولﷺ نے نہایت صبر کے ساتھ یہ مراحل طے کیئے۔
سرورِ دو عالمﷺ کی ان معصوم صاحبزادیوں نے یہ صدمے صرف دین کی خاطر برداشت کیئے اور اجر و ثواب کی مستحق ہوئیں اور صبر واستقامت کے ساتھ اپنے والد شریفﷺ کی خدمت میں مقیم رہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں ان کا بہت بڑا مقام ہے۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا و عن اخواتها وعن امها ۔
مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کرنا
نبی اقدسﷺ نے اللہ تعالیٰ کے اذن سے مکہ شریف سے مدینہ شریف کی طرف ہجرت فرمائی۔ سفرِ ہجرت میں آنجناب کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیقؓ رفیق سفر تھے۔ اور ابتدائی ایام میں ابو ایوب انصاریؓ کی منزل پر مدینہ میں قیام تھا ۔نبی کریمﷺ کے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے اہل و عیال تاحال مکہ شریف میں مقیم تھے اپنی ہجرت کے کچھ مدت بعد نبی کریمﷺ نے ارادہ فرمایا کہ باقی گھر والوں کو بھی یہاں مدینہ شریف بلوا لیا جائے۔
آنجنابﷺ نے ابو رافعؓ اور زید بن حارثہؓ کو اس کام کے لئے تیار کر کے مکہ شریف روانہ فرمایا اور سواریاں بھی ساتھ دیں اور کچھ دراہم آمد و رفت کے مصارف کے طور پر عنایت فرمائے۔ بعض علماء نے تصریح کی ہے کہ آنجنابﷺ نے سواری کے لئے دو اونٹ ارسال کیئے اور خرچ کے لیے پانچ سو درہم عنایت فرمائے تھے اور یہ درہم آنجنابﷺ کی خدمت میں سیدنا ابو لبکر صدیقؓ نے پیش کیئے تھے۔
آپﷺ نے ابورافعؓ اور زید بن حارثہؓ کو ارشاد فرمایا کہ مکہ شریف پہنچ کر ہمارے اہل و عیال کو ساتھ لائیں۔
ان کے ساتھ ہی سیدنا ابو لبکر صدیقؓ نے عبداللہ ابنِ اریقط الدئلی کو دو اونٹ دے کر بھیجا اور اپنے بیٹے عبداللہ بن ابی بکرؓ کی طرف لکھ بھیجا کہ وہ بھی ان کے گھر والوں کو ان کے ساتھ روانہ کرے یعنی یہ دونوں گھرانے ایک دوسرے کے ساتھ ہو کر ہجرت کر کے مدینہ شریف آئیں۔ چنانچہ زید ابنِ حارثہؓ اور ابورافعؓ مکہ شریف پہنچے اور سفر ہجرت کر کے نبی اقدسﷺ کے گھر والوں یعنی اُم المؤمنین سیدہ سودہؓ بنتِ زمعہ اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ کو لے کر مدینہ شریف کی طرف روانہ ہوئے۔
زید ابنِ حارثہؓ نے اپنی بیوی اُمِ ایمنؓ اور اپنے لڑکے اسامہ بن زید کو بھی ساتھ لیا۔ اور یہ نبی اقدسﷺ کے اہل و عیال کے ساتھ رہتے تھے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے صاحبزادے عبداللہ ابنِ ابی بکر صدیقؓ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی زوجہ محترمہ اُمِ رومان اور اپنی دونوں بہنوں سیدہ عائشہؓ اور اسماء کو ساتھ لے کر ہجرت کے لئے نکلے اور نبی اقدسﷺ کے اہل و عیال کے ساتھ ہم سفر ہو کہ مدینہ شریف جا پہنچے۔ اس وقت نبی اقدسﷺ مسجدِ نبوی کی تعمیر میں مصروف تھے اور مسجد کے آس پاس اپنے حجرات کی تعمیر کروا رہے تھے۔ آنجنابﷺ نے اپنے اہل خانہ کو اس موقعہ پر حارثہ بن نعمانؓ کے مکان پر ٹھہرایا تھا اور نبی اقدسﷺ نے سیدہ عائشہؓ کے لئے وہ حجرہ بنوایا جس میں آنجنابﷺ کا مزار اقدس ہے ۔ اور آپ اس میں مدفن ہیں آپ نے اس حجرہ مبارک کا ایک دریچہ مسجدِ نبوی کی جانب بنوایا تھا جس سے آنجنابﷺ نماز کے لئے مسجدِ نبوی کی طرف تشریف لے جایا کرتے تھے۔ صاحبزادی سیدہ زینبؓ کو اس کے زوج ابو العاص بن ربیعؓ نے روک لیا تھا اس بنتِ رسولﷺ نے بعد میں ہجرت کی تھی۔ اور سیدہ رقیہؓ نے اپنے زوج سیدنا عثمانؓ کے ساتھ مدینہ شریف کی طرف ہجرت کی تھی.
( جیسا کہ قبل ازیں تحریر کیا گیا ہے ل)
[ ¹· طبقاب ابنِ سعد صفحہ 118/119 جلد ثامن۔ طبع لیڈن تحت ذکر منازل ازواجِ النبیﷺ
²· البدایہ لابن کثیر صفحہ 202 جلد ثالث فصل فی خولہ علیہ السلام المدینہ الخ۔
³· انساب الاشراف للبلاذرى صفحہ 269 جز مدءاول]
اور بعض روایات میں منقول ہے کہ جس وقت زید بن حارثہؓ اور اس کے ساتھی مکہ شریف پہنچے تو طلحہ بن عبید اللہ سے ملاقات ہوئی حال احوال بیان کیے تو معلوم ہوا کہ طلحہؓ بھی سفرِ ہجرت کے لئے تیار ہیں چناچہ مندرجہ بالا تمام حضرات اور طلحہؓ بھی اور عبیداللہ سفر ہجرت کے لئے مل کر نکلے اور مدینہ طیبہ پہنچ گئے ۔
[ مجمع الزوائد للھيثمی صفحہ 227 جلد9 باب فی فضل عاشت اُم المؤمنين تزویجہا]
مندرجہ بالا واقعات سے معلوم ہوا کہ
1ـ جس طرح جناب رسالتﷺ کے سفرِ ہجرت میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ آنجنابﷺ کے ہم سفر تھے اسی طرح آنجنابﷺ کے اہل و عیال (دو صاحبزادیاں سیدہ فاطمہؓ و اُمِ کُلثومؓ اور اُم المؤمنین سیدہ سودہؓ) کے ساتھ سفرِ ہجرت میں صدیقِ اکبرؓ کے اہل وعیال شامل تھے۔ یہ چیز دونوں خاندانوں کے تعلقات کی یگانگت ظاہر کرتی ہے اور خوشی اور غمی کے معاملات میں کامل اتفاق و اتحاد کا پتہ دیتی ہے۔
2_ آنحضرتﷺ کے اہل و عیال کے سفرِ ہجرت کے مصارف سیدنا صدیق اکبرؓ نے پیش خدمت کیئے تھے اور ثوابِ دارین حاصل کیا تھا۔
3_ اور سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ نے ہجرتِ مدینہ کا سفر مل کر کیا تھا۔ ان دونوں بہنوں کی ہجرت ایک سفر میں ہوئی تھی یہ دونوں بہنیں اپنی دو بڑی بہنوں
(سیدہ زینبؓ و سیدہ رقیہؓ) سے ہجرت میں اسبق رہیں۔ مہاجرین کے فضائل جو اسلام میں منقول ہیں اور جو آیات ان کے حق میں موجود ہیں ، وہ ان دونوں صاحبزادیوں کے لئے بھی ثابت ہیں اور ہجرت کے اجر و ثواب میں یہ دونوں برابر کی شریک ہیں ۔
سیدہ اُمِ کُلثوم رضی اللہ عنہا کی تزویج
پہلے ایک تمہیدی روایت تحریر کی جاتی ہے اس کے بعد دیگر روایات پیش خدمت ہونگی ۔
1- پہلی روایت میں اس طرح مذکور ہے کہ ایک موقع پر نبی اقدسﷺ نے اپنی صاحبزادیوں کے نکاح اور تزویج کے متعلق ارشاد فرمایا کہ:
"ما انا ازوج بناتی ولكن الله تعالى يزوجهن "
"یعنی میں اپنی بیٹیوں کو اپنی مرضی سے کسی کی تزویج میں نہیں دیتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے نکاحوں کے فیصلے ہوتے ہیں"
[المستدرك للحاكم صفحہ 49 جلد رابع تحت ذکر اُمِ کُلثوم بنتِ نبیﷺ كتاب معرفة الصحابة]
یہ آنجنابﷺ کا ارشاد ہے کہ اپنی بیٹیوں کو میں کسی کے نکاح میں نہیں دیتا بلکہ اللہ تعالیٰ ان کی تزویج کا امر فرماتا ہے اس روایت سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ سیدنا عثمانؓ کے ساتھ سیدہ اُمِ کُلثومؓ کا نکاح اللہ تعالیٰ کے اذن کے موافق ہوا تھا۔ اور باقی صاحبزادیوں (سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ، سیدہ فاطمہؓ) کے نکاح بھی امرِ الہیٰ کے تحت ہی سرانجام پائے تھے۔ رسالت مآبﷺ کی صاحبزادیوں کے حق میں گویا یہ ایک خصوصیت پائی جاتی ہے کہ ان کا نکاح باامرِ خداوندی ہوتا ہے اور ان کے نکاح کے ساتھ کسی دوسری عورت کو نکاح میں نہیں لیا جاتا ۔ چنانچہ اس مسئلہ کو بعض علماء نے بحوالہ ابنِ حجرؒ نقل کیا ہے فرماتے ہیں کہ
"قال ابن حجر لا يبعد ان يكون من خصائصه صلى الله عليه وسلم منع التزويج على بناتهٖ"
"یعنی یہ چیز کچھ بعید نہیں کہ جنابِ رسالتِ مآبﷺ کے حق میں یہ خصوصیت ہو کہ آنجنابﷺ کی صاحبزادیوں کے نکاح کے ساتھ کسی دوسری بیوی کو ان کے نکاح میں جمع نہ کیا جائے۔"
[الخصائص الکبریٰ للسیوتی جلد 2 صفحہ 255 الجزء الثانی طبع اول دکن باب اختصامہ بنان بناته کا یتزوج علیھن۔]
2_ سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں پہلے سیدہ رقیہ بنتِ رسول اللہﷺ ہیں ان کا انتقال جنگِ بدر کے موقع پر ہو گا جیسا کہ سیدہ رقیہؓ کے سوانح میں یہ بیان کیا جا چکا ہے ۔ اس کے بعد سیدنا عثمانؓ اس چیز کے خواہشمند اور مُتمنی تھے کہ آنجنابﷺ کے ساتھ رشتہ دامادی قائم رہتا تو بہتر تھا۔ سیدہ رقیہؓ کے انتقال کی وجہ سے آپ نہایت مغموم رہتے تھے، اور پریشانی کے عالم میں تھے۔
چنانچہ اُمِ عیاشؓ ذکر کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ نے ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنی بیٹی اُمِ کُلثومؓ سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دینے کا ارادہ کیا ہے اور یہ چیز وحیِ آسمانی کے مطابق عمل میں آئے گی ۔ اُمِ عیاشؓ وہ عورت ہیں جو نبی کریمﷺ نے سیدہ رقیہؓ کو بطورِ خادمہ عنایت فرمائی تھی اور اُمِ عیاش بنی اقدس کو وضو کرانے کی خدمت بجا لاتی تھیں۔(قبل ازین ان کا ذکر سیدہ رقیہؓ کے تذکرہ میں گزر چکا ہے)
اصل روایت کے الفاظ اس طرح مروی ہیں۔
"عن ام عياش وكانت أمةً لرقبة بنت رسول اللہ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما زوجت ام كلثوم من عثمان الا بوحي من السماء وبهذا الاسناد عن ام عياش قالت ومنأت رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا قائمة وهو قاعد"
[¹· التاريخ الكبير امام بخارى صفحہ281 جلد 2 القسم الاول تحت باب روح
²· کنز العمال صفحہ 149جلد 6 روایت 2418 طبع اوّل دکن
بحوالہ (طب عن ام عياش ) تحت فضائل ذی النورین عثمانؓ
³· کنز العمال صفحہ 149 جلد 6 روایت 2430 طبع اوّل دکن۔
تحت فضائل ذی النورین عثمانؓ بحوالہ (ابنِ مندة طب - خطیب - ابنِ عساکر
⁴· شرح مواهب اللدينه للزرقانی صفحہ 200 جلد ثالث تحت ذكر اُمِ کُلثومؓ
⁵· تاریخ بغداد للخطيب بغدادى صفحہ 364 تذكره فضل ابنِ جعفر بن عبدالله
⁶· مجمع الزوائد للهيثمي صفحہ 83 جلد 9 تذكره اُمِ كلثومؓ]
3_ اور تیسری روایت میں اس طرح ہے کہ جناب رسالتِ مآبﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے عثمانؓ! یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں خبر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں اُمِ کُلثومؓ کو آپ کے نکاح میں دوں اور جو مہر رقیہؓ کے لئے مقرر ہوا تھا اسی کے موافق اُمِ کُلثومؓ کا مہر ہو اور ان کی مصاحبت اور رفاقت بھی انہیں کے مطابق ہو گی۔
[¹· اسد الغابه جلد5 صفحہ 213 تذکره اُمِ کُلثومؓ۔
²· ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربیٰ صفحہ 165 للحافظ محب الدین احمد بن عبد الله الطبرى المتوفى 694ھ طبع مصرى ( الفصل السادس في ذكر اُمِ كُلثومؓ)
( قال المحب الطبرى) خرجه ابنِ ماجته القرديني والحافظ ابو القاسم الدمشقي والامام ابو الخير القزويني المالكي -
³· كتاب المعرفة والتاريخ جلد ثالث جلد 3 صفحہ 159لابی يوسف يعقوب بن سفيان اليسوى۔
⁴· کنز العمال جلد6 صفحہ 375 روایت 5824 تحت فضائل ذی النورین عثمانؓ۔
⁵· المستدرك للحاكم صفحہ 49 جلد رابع(4) تذکره اُمِ کُلثومؓ بنتِ الرسولﷺ۔
⁶· كنز العمال صفحہ 149 جلد 6 تحت فضائل عثمانی روایت 2429۔
4_ اور بعض روایات میں سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے نکاح کا مسئلہ اس طرح مذکور ہے کہ جب سیدنا عمرؓ کی صاحبزادی سیدہ حفصہؓ کا سابق خاوند فوت ہو گیا اور سیدنا عثمانؓ کی زوجہ سیدہ رقیہؓ بھی فوت ہو گئیں تو کچھ مدت کے بعد سیدنا عمرؓ نے اپنی دختر سیدہ حفصہؓ کے نکاح کے لیے سیدنا عثمانؓ کو پیش کش کی لیکن سیدنا عثمانؓ نے فی الحال نکاح لینے سے معذرت کی ۔ پھر سیدنا عمرؓ نے نبی کریمﷺ کی خدمت میں جا کر (بطورِ اظہارِ افسوس کے) ذکر کیا تو آنجنابﷺ نے (اطمینان دلاتے ہوئے) ارشاد فرمایا کہ حفصہؓ کو وہ زوج نکاح کر لے گا جو عثمانؓ سے بہتر ہوگا اور عثمانؓ اس عورت سے نکاح
کریں گے جو حفصہؓ سے بہتر ہوگی۔
فعرضھا علی عثمان حین ماتت رقیة بنت النبی صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم مااريد اتزوج اليوم فذكر عمرؓ الرسول اللہ صلى الله عليه وسلم قال يتزوج حفصة من هو خير من عثمان ويتزوج عثمان من هي خير من حفصة
[ ¹· الاصابة جلد 4 صفحہ 264 تحت حفصة بنتِ عمرؓ۔
²· شرح مواهب اللدنيه للزرقاني جلد3 صفحہ200 من تحت ذكر اُمِ كُلثومؓ۔
³· تاريخ الخميس صفحہ 276 جلد اول تحت ذكر اُمِ كُلثومؓ۔
⁴· نسبِ قریش صفحہ 352 تحت حفصہ بنتِ عمرؓ۔]
چنانچہ نبی اقدسﷺ کے فرمان کے مطابق سیدہ حفصہؓ کو خود نبی کریمﷺ نے نکاح میں لیا اور وہ ازواج مطہراتؓ میں نے داخل ہوئیں اور آنجنابﷺ نے اپنی صاحبزادی اُمِ کُلثومؓ سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دی۔
اس طرح سیدنا عثمانؓ نے آنجنابﷺ کے دوہرے داماد ہونے کا شرف حاصل کیا۔ اور اس نکاح اور تزویج کے حق میں جو ارشادات خداوندی ہو چکے تھے وہ پورے ہوئے ۔
نیز مندرجہ بالا مقام میں سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے حق میں "لفظ خیر" کا استعمال فرمایا گیا۔ یہ چیز اُمِ کُلثومؓ کے لیے بڑے اعزاز و اکرام کی ہے۔
جن لوگوں کے دل میں اپنے نبی مقدسﷺ کی اولاد شریف کا احترام ہے وہ اس کلمہ کی قدر دانی کرتے ہیں اور اس کے وزن کو سمجھتے ہیں ۔ اور جو لوگ "اولادِ ثلاثہؓ" کو آنجنابﷺ کی اولاد سے خارج کرنے پر کمر بستہ ہیں ان کی نگاہ میں ان کا کیا احترام ہو سکتا ہے؟؟
مندرجات بالا سے ذیل چیزیں ثابت ہوتی ہیں۔
1_ سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے متعلق متعدد روایات حدیث اور تاریخ کی کتابوں سے دستیاب ہیں جن میں سے چند حوالہ جات اوپر پیش کر دیئے ہیں۔ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ با برکت رشتہ نکاح امرِ خداوندی کے تحت ہوا تھا۔ اور یہ چیز زوجین (سیدنا عثمانؓ اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ) دونوں کے حق میں بڑی عالی منقبت ہے۔
ّ2_ نیز یہ چیز واضح ہوئی کہ سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے نکاح میں وہی مہر رکھا گیا جو سیدہ رقیہؓ کے لئے تجویز کیا گیا تھا اور ان کے ساتھ بہتر مصاحبت اور اور عمدہ رفاقت کی بھی وہی حدود ملحوظ رکھی گئیں جو سیدہ رقیہؓ کے حق میں ملحوظِ خاطر رہی تھیں۔
ان حالات سے واضح ہوتا ہے کہ سیدہ رقیہؓ پر ظلم وستم کی داستانیں جو مخالف لوگ تیار کرتے ہیں وہ بالکل غلط اور حقیقت کے خلاف (من گھڑت) ہیں۔
3_ نیز اس مقام سے سیدنا عثمانؓ کی فضیلت اور برتری اعلیٰ درجے کی ثابت ہوتی ہے کہ ایک صاحبزادی کے انتقال فرمانے کے بعد رسالت مآبﷺ اپنی دوسری لختِ جگر سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دیتے ہیں اور یہ سارا معاملہ وحی آسمانی کے تحت سر انجام پاتا ہے جیسا کہ سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا علیؓ کے ساتھ وحیِ آسمانی کے تحت ہوا تھا اسی طرح یہ بھی ہوا ہے ۔ اس بناء پر امتِ مسلمہ نے سیدنا عثمانؓ کے لئے ذوالنورین کا صحیح لقب تجویز کیا ہے وہ اس اعزاز کے بجا طور پر مستحق ہیں اور یہ ایسا اعزاز ہے جس میں ان کے ساتھ اور کوئی صحابی شریک نہیں ہے۔
تاریخ تزویج سی اُمِ کُلثوم رضی اللہ عنہا
علماء نے لکھا ہے کہ سیدہ اُمِ کُلثومؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ کے ساتھ ربیع الاول 3 ہجری میں ہوا تھا اور چند ماہ کے بعد یعنی ماہ جمادی الاخری 3 ہجری میں رخصتی ہوئی تھی اور اس طرح قلیل مدت میں یہ تقریب سعید پوری ہوئی۔
"وكان نكاحه اياها في ربيع الأول من سنة 3ھ ثلاثِ وبنىٰ بها في الجمادى الاخرىٰ من السنة ثلاث"
[¹· اسد الغابه لابن أثير الجزری صفحہ 612 جلد 5 تحت ذکر اُمِ کُلثوم بنتِ رسول اللہﷺ.
²· طبقات ابنِ سعد صفحہ 25 جلد8 تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ]
شیعہ علماء کی طرف سے تائید
شیخ نعمت اللہ الجزائری نے اپنی کتاب الانوار النعمانیہ میں لکھا ہے کہ صاحبزادی رقیہؓ کے بعد سیدنا عثمانؓ نے ان کی بہن سیدہ اُمِ کُلثوم کے ساتھ نکاح کیا اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں ہی فوت ہوئیں ۔
"و اما ام كلثوم فتزوج ايضاً عثمان بعد اختها رقیة وتوفیت عندہ"
[الانوار النعمانية صفحہ 367 جلد اول تحت نور مولودی (باب 1)]
عدم اولاد
اللہ تعالیٰ اپنے تکوینی مصالح آپ ہی جانتا ہے نظامِ عالم کے یہ امور اس کے اپنے قبضۂ قدرت میں ہیں ۔ ہماری عقل نارسا انہیں پا نہیں سکتی یہ چیزیں عقول عامہ سے بالاتر ہیں اور فہم قاصر سے بعید ہیں۔ چنانچہ رسالت مآبﷺ کی ان صاحبزادیوں سے بعض کی اولاد ہوئی ہی نہیں اور بعض سے اولاد شریف ہوئی لیکن کچھ مدت کے بعد اس کا انتقال ہو گیا البتہ سیدہ فاطمہؓ سے جو اولاد ہوئی تھی اس سے آنجنابﷺ کی نسل مبارک چلی۔ جیسا کہ عنقریب ہم تذکرہ سیدہ فاطمہؓ میں ذکر کریں گے ۔ ان شاء اللہ تعالی۔
ہر ایک صاحبزادی کے تذکرہ کے تحت ان کی اولاد کا ذکر جس صورت میں پایا جاتا ہے وہ بیان کر دیا ہے۔
سیدہ اُمِ کلثومؓ کے متعلق یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ پہلے نکاح ( جو عتیبہ بن ابی لہب سے ہوا تھا)، میں رخصتی ہی نہیں ہوئی تھی اور شادی کی رسم نہیں ادا کی گئی تھی۔ اس سے اولاد کا نہ ہونا تو ظاہر بات ہے۔
پھر اس کے بعد سیدنا عثمانؓ کے ساتھ ان کی تزویج ہوئی اور رخصتی بھی ہوئی اور زوجین کے ازدواجی تعلقات بھی درست رہے لیکن سیدہ اُمِ کُلثومؓ سے سیدنا عثمانؓ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی بنا بریں اس عنوان کے تحت یہ تصریح کر دی گئی ہے۔
ایک انتباه
سیدنا عثمانؓ کا اخلاق بہت بلند تھا نہایت کریم النفس اور شریف الطبع تھے ۔ آپؓ کے آنجنابﷺ کے ساتھ رشتہ داری کے مراسم نہایت مخلصانہ تھے اس بنا پر سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں جب تک سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ (یکے بعد دیگرے) زندہ رہیں تو انھوں نے کوئی دوسرا نکاح اور شادی نہیں کی۔ کیونکہ ضرائر یعنی سوکنوں میں عموماً چپقلش ہو جاتی ہے اور تنازعات پیدا ہو جاتے ہیں اور کئی قسم کے باہمی مناقشات چل نکلتے ہیں اپنے اہلِ خانہ کو ان تمام چیزوں سے بچانے کے لئے یہی طریق اسلم تھا جو سیدنا عثمانؓ نے اختیار فرمایا اور صرف آنجنابﷺ کے احترام اکرام کے پیشِ نظر نکاحِ ثانی کا ارادہ تک نہیں کیا۔ حالانکہ سیدنا عثمانؓ نے ان صاحبزادیوں کے انتقال کے بعد متعدد خواتین سے نکاح کیئے اور ان سے ان کی اولاد بھی ہوئی۔ مثلاً فاختہ بنتِ غزوان - فاطمه بنتِ ولید - رملہ بنتِ شیبه نائلہ بنتِ فرافضه وغیرہ۔ سیدنا عثمانؓ۔ کے نکاح میں آئیں۔
بیش قیمت چادر کا استعمال
نبی کریمﷺ کے خاص خادم انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ "میں نے اُمِ کُلثومؓ پر ایک بیش چادر دیکھی جو ریشم کی دھاریوں سے بنی ہوئی تھی"
اس بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدہ اُمِ کُلثومؓ کا لباس عمدہ ہوتا تھا سیدنا عثمان غنیؓ جیسے خاوند کے ساتھ رہتے ہوئے یہ اندازِ معاشرت لازمی تھا آپ اس طرح کے اچھے لباس کو استعمال فرماتی تھیں یہ حالات ان کی معاشرتی خوشحالی پر بھی دلالت کرتے ہیں اور ان سے زوجین کے درمیان تعلقات کی شائستگی بھی معلوم ہوتی ہے۔ روایت کے الفاظ ذیل میں منقول ہیں ۔
"اخبرنى انس بن مالك انه رائى على ام كلثوم بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم برد حرير سيراء"
[¹· بخاری شریف جلد 2 صفحہ 867 كتاب اللباس باب الحرير النساء
²· السنن للنسائی صفحہ 252 باب ذكر الرخصة النساء في لبس السيراء
³· طبقات ابنِ سعد جلد8 صفحہ 25 تحت ذكر اُمِ كُلثومؓ۔
⁴· كتاب المعرفة والتاريخ للبسوى صفحہ 164 جلد 3
⁵· الاصابة في تمييز الصحابة لابن حجر جلد 4 صفحہ 466 تحت اُمِ كُلثومؓ بنتِ رسول اللّٰہﷺ۔]
سیدہ اُمِ کُلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال
جناب رسالت مآبﷺ کی صاحبزادی سیدہ رقیہؓ کا انتقال 2ہجری میں ہو گیا تھا (جیسا کہ سیدہ رقیہؓ کے حالات میں ذکر کیا گیا) اور سیدہ زینبؓ کا انتقال 8ہجری میں ہوا تھا جیسا کہ یہ بات ان کے حالات میں ذکر کی جا چکی ہے۔
قدرتِ کاملہ کی طرف سے حالات کی یہی صورت فیصلہ تھی اور اللہ تعالیٰ کو اسی طرح منظور تھا کہ حضرت رسالت مآبﷺ کی تیسری صاحبزادی سیدہ اُمِ کُلثومؓ کا انتقال بھی آنجنابﷺ کی حیات مبارک میں ہی ہوا چنانچہ ماہ شعبان 9ہجری میں آپؓ بھی اپنے سفر آخرت پر چلی گئیں۔
" وتوفيت أم كلثوم في حیات النبي صلى الله عليه وسلم في شعبان سنة تسع من الهجرة "
[¹· تفسیر القرطبی صفحہ 242،243 جلد رابع عشر(14) تحت ایة قل لازواجک وبنات ۔۔۔ الخ (سورة الأحزاب)
²· کتاب الثقات لابن حیان صفحہ 105 جلد ثانی تحت سنة التاسع
³· البداية لابن كثير صفحہ 39 جلد5 تحت سنة تاسع
⁴· طبقات ابنِ سعد صفحہ 25 جلد8 تحت ذكر اُمِ کُلثومؓ۔]
سردار دو جہاںﷺ کی ان تینوں صاحبزادیوں کا جناب رسالتﷺ کی حیات میں ہی انتقال کر جانا عجیب اتفاقاتِ قدرت میں سے ہے آنجنابﷺ کے صاحبزادگان بھی آنجنابﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہی فوت ہو گئے تھے۔ اندریں حالات آنجنابﷺ کی غمگینی وا ندوہناکی ایک فطری امر تھا اور انسانی تقاضوں کے عین مطابق تھا۔ مگر حضرات انبیاء علیہم السلام اپنے مالک کریم کے فرمان کے تحت نہایت صابر و شاکر ہوتے ہیں اور اپنی امت کو بھی برداشت مصائب کی تلقین فرمایا کرتے ہیں اس بنا پر آنجنابﷺ بھی اپنی پیاری صاحبزادی سیدہ اُمِ کُلثومؓ کی وفات پر پوری طرح صابر و شاکر تھے۔ آنجنابﷺ کی اولاد شریف میں سے اب صرف ایک صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ زندہ تھیں باقی تمام صاحبزادے اور صاحبزادیاں انتقال فرما گئیں ۔ اِنّا لِلّٰهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن .
حدیث شریف میں مذکور ہے :
"اشد الناس بلاءً الانبياء الامثل الامثل۔ الخ (او كما ذكر في الحديث"
یعنی انبیاء علیہم السلام لوگوں کے اعتبار سے زیادہ آزمائش میں ہوتے ہیں پھر جو ان کے زیادہ مشابہ ہو۔۔۔ الخ
اس مقام میں بھی اسی چیز کا مظاہرہ ہوا۔ اور امت کے لئے تسکین و تسلی کا ایک طرح یہ نمونہ قائم ہوا کہ جب ہمارے آقائے نامدارﷺ کی اولاد شریف کے معاملہ میں یہ صورت پیش آئی اور ایک صاحبزادی کے بغیر باقی اولاد زندہ نہ رہی تو ہمارے لئے ایسی صورت ہو تو ہمیں بھی صبر و سکون سے کام لینا چاہیئے اور رضائے الہیٰ پر راضی رہنا چاہیے ۔ (لقد کان لكم في رسول الله اسوة حسنة )
"یعنی فرمانِ خداوندی ہے کہ تمہارے لئے اللہ کے رسول میں اسوۂ حسنہ ہے۔ اس کے موافق عمل پیرا ہونا چاہیے"۔
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی تسکین خاطر
روایات کی کتابوں میں یہ چیز بھی ملتی ہے کہ جب سیدہ اُمِ کُلثومؓ کا انتقال ہو گیا تو سیدنا عثمانؓ اس انقطاع صہریت پر نہایت غم زدہ اور پریشان خاطر تھے۔ ان حالات میں نبی اقدسﷺ نے سیدنا عثمانؓ کی تسکین خاطر فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
لوكن عشرًا لزوجتهن عثمان
[¹· طبقات ابنِ سعد صفحہ 25 جلد8 تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ
²· مجمع الزوائد للهيثمی صفحہ 217 جلد9 تحت ما جاء في رقيہؓ او اختها اُمِ كُلثومؓ]
یعنی اگر میرے پاس دس بیٹیاں ہوتیں تو میں (یکے بعد دیگرے) عثمانؓ کی تزویج میں دے دیتا "
اور بعض روایات میں اس سے زیادہ تعداد بھی منقول ہے۔
یہاں سے معلوم ہوا کہ سیدنا عثمانؓ کے ساتھ آنجنابﷺ کے کتنے عمیق تعلقات تھے اور اس رشتہ کے منقطع ہونے پر جانبین میں کس قدر قلبی اضطراب پیدا ہوا۔
نیز واضح ہوا کہ سیدہ رقیہؓ اور اُمِ کُلثومؓ پر ظلم وستم کیے جانے کے قصے جو لوگوں نے وضع کیے ہوئے ہیں وہ سراسر جعلی اور بے بنیاد ہیں اگر ان میں سے کوئی بات صحیح ہوتی تو سیدنا عثمانؓ اور نبی اقدسﷺ کے درمیان تعلقات کشیدہ ہونے چاہیے تھے۔ لیکن یہاں معاملہ برعکس ہے۔
سیدہ اُمِ کُلثوم رضی اللہ عنہا کے غسل کا بیان
سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے انتقال کے بعد ان کے غسل اور کفن کے انتظامات سردارِ دو عالمﷺ نے خود فرمائے اور جو عورتیں سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے غسل دینے میں شریک ہوئی تھیں ان کا ذکر متفرق روایات میں پایا جاتا ہے ۔ خلاصہ یہ ہے کہ سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے غسل دینے میں صفیہؓ بنتِ عبدالمطلب اور اسماء بنتِ عمیسؓ اور لیلیٰؓ بنتِ قانف الثقفیہ اور اُمِ عطیہؓ انصاریہ شامل تھیں اور انہوں نے اُمِ کُلثومؓ کا غسل حسبِ دستور سر انجام دیا۔
اُمِ عطیہؓ کہتی ہیں کہ صاحبزادی اُمِ کُلثومؓ کے غسل دلانے میں میں بھی موجود تھی۔ اور حضرت رسالت مابﷺ نے ارشاد فرمایا کہ بیری کے پتوں والے پانی سے تین پانچ یا سات بار غسل دلائیں اس کے بعد آخر میں کافور کی خوشبو لگائیں اس کے بعد مجھے اطلاع کریں۔ پس ہم نے اسی طرح کیا اور نبی اقدسﷺ کی خدمت میں اطلاع کی تو آپﷺ نے ہمیں کفن کے کپڑے اس ترتیب سے پکڑائے کہ پہلے ایک چادر پھر ایک قمیص اور پھر ایک اوڑھنی اور اس کے بعد ایک چادر اور پھر ایک بڑی چادر جس میں تمام جسم کو لپیٹ دیا گیا نبی کریمﷺ اس مکان کے دروازے پر تشریف فرما تھے آنجنابﷺ کے پاس یہ کپڑے تھے جو آپ نے ایک ایک کر کے ہمیں پکڑائے اور آنجناب کے ارشاد کے مطابق ان کو استعمال میں لایا گیا۔ اور اُمِ کُلثومؓ کی کفن پوشی کا کام سر انجام پایا۔
(قولۂ اُمِ عطیہؓ انصاریہ کے ذکر میں ایک تھوڑی سی تشریح کی ضرورت ہے کہ صاحبزادی سیدہ زینبؓ کے غسل کے موقع پر بھی اُمِ عطیہؓ انصاریہ کے متعلق منقول ہے کہ یہ سیدہ زینبؓ کے غسل دلانے میں شامل تھیں اور کفن کے کپڑوں کی تفصیلات ابھی انہوں نے ذکر کی ہیں (جیسا کہ سیدہ زینبؓ کے حالات میں بخاری شریف اور مسلم شریف کے حوالہ جات سے ذکر کیا گیا ہے)۔
تو اُمِ عطیہؓ انصاریہ کے متعلق علماء فرماتے ہیں کہ:
"ويمكن الجمع بان تكون حضرتهما جميعا "
(فتح الباری شرح بخاری صفحہ 99 جلد 30 باب غسل الميت دوضوئہ)
یعنی ہو سکتا ہے کہ اُمِ عطیہ انصاریہؓ سیدہ زینبؓ اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ دونوں کے انتقال کے بعد غسل میں شریک ہوئی ہوں اور یہ بھی علامہ ابنِ عبدالبر نے اُمِ عطیہ کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ :- "بانھا كانت غاسلة الميتات یعنی اُمِ عطیہ انصاریہ میتوں کے غسل دینے میں ہمیشہ شریک ہوتی تھیں"۔ لہٰذا اُمِ عطیہ کا متعدد غسلوں میں شریک ہونا کوئی قابل اشکال نہیں ہے۔)
[¹· شرح مواہب اللدنيه للزرقانی صفحہ 201 جلد 3 تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ۔
²· تہذیب الاسماء واللغات للنووى صفحہ 364 تحت امِ عطیہؓ۔
( حرف العين )]
ذیل مقامات میں یہ مضمون منقول ہے اہلِ علم رجوع فرما سکتے ہیں ہے۔
[¹· مسند احمد صفحہ 380 جلد 6 تحت حدیث لیلیٰ بنت قائف الثقفيہ۔
²· السنن الكبرىٕ للبيہقی صفحہ 7،6جلد 4 باب كفن المرأة
³· شرح السنة للبغوی صفحہ 313٫314 جلد خامس باب التكفين.
⁴· البدايته لابن کثیر صفحہ 39 جلد 5 تحت سن 9ہجری۔
⁵· اسد الغابہ صفحہ 612 جلد 5 تذکرہ اُمِ کُلثومؓ
⁶· ذخائر العقبىٌ للمحب الطبرى صفحہ 166٫167 تحت ذكر وفات اُمِ كُلثومؓ۔
ان روایات سے فقہاء کرام نے غسل اور کفن کے مسائل استنباط کر کے کتبِ فقہہ میں درج کئے ہیں ۔
سیدہ اُمِ کُلثوم رضی اللہ عنہا کا دفن
جب سیدہ اُمِ کلثومؓ کی نمازِ جنازہ ہو چکی تو اس کے بعد آپؓ کو دفن کرنے کے لئے جنت البقیع میں لایا گیا اور سردارِ دوعالمﷺ خود تشریف لائے اور جب قبر تیار ہو چکی تو اُمِ کُلثومؓ کو دفن کرنے کے لئے ابو طلحہ انصاریؓ قبر میں اترے اور بعض روایات میں ہے کہ سیدنا علیؓ اور الفضل بن عباسؓ اور اسامہ بن زیدؓ بھی ان کے ساتھ قبر میں اترے اور دفن کرنے میں معاونت کی۔
آنحضرتﷺ کا غم و اندوہ
خادمِ نبوی انسؓ ذکر کرتے ہیں کہ آنجنابﷺ کی صاحبزادی کے دفن کے موقع پر ہم حاضر تھے اور سرکار دو عالمﷺ قبر پر تشریف فرما تھے اور میں نے دیکھا کہ آنجنابﷺ کے آنسو مبارک (فرطِ غم کی وجہ سے) جاری تھے ۔
" عن انس رضی الله قال شهدنا بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم تدفن و رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس على القبر فرایت عینیه تدمعان "
[¹· مشکوة شریف صفحہ 149 تحت باب دفن الميت الفصل الثالث۔
²· شرح السنة للبغوى صفحہ 394 جلد5 باب نزول الرجل في قبر المرأة -
³· طبقات ابنِ سعد صفحہ 26 جلد8 تحت ذکر اُمِ کُلثومؓ۔
⁴· تفسير القرطبي 242٫243 جلد رابع عشر تحت أية قل لازواجک
(سورة الأحزاب)
مختصر یہ ہے کہ صاحبزادی اُمِ کُلثومؓ کے انتقال اور غسل و کفن و جنازه و دفن کے تمام مراحل میں سید دو عالمﷺ بذاتِ خود موجود تھے اور شریک حال اور نگران کار تھے اور یہ تمام امور جنابﷺ کے ارشادات کے تحت سرانجام پائے اُمِ کُلثومؓ کے حق میں یہ بہت بڑی عظمت کی چیز ہے ۔ رضی اللہ عنہا و عن اخواتها وعن امهاتها
اب اس کے بعد "ازالہ شبہات" تحریر کیا جاتا ہے جیسا کہ سابقہ عنوان سوانح کے آخر میں درج کیا جا رہا ہے۔
ازالہ شبہات
01: بعض لوگوں کی طرف سے یہ شبہ ذکر کیا جاتا ہے کہ سیدہ اُمِ كُلثومؓ، ام المؤمنین اُمِ سلمہؓ کی لڑکی تھیں اور ان کے سابق زوج ابوسلمہ کی اولاد میں سے تھیں اور نبی کریمﷺ کے گھر میں پرورش پانے کی بناء پر ان کو آنحضرتﷺ کی صاحبزادی کہا گیا ہے۔ یعنی امِ کُلثومؓ نبی اقدسﷺ کی لے پالک بیٹی ہیں جسے عربی زبان میں ربیبہ کہتے ہیں ۔
جواباً گذارش ہے کہ:
امِ سلمہؓ کی اولاد جو ابو سلمہ سے تھی اس میں بیشتر علماء نے تو اُمِ کُلثوم نامی کوئی لڑکی ذکر ہی نہیں کی۔ ابوسلمہ کی اولاد میں دو لڑکے سلمہ اور عمر اور دو لڑکیاں زینب اور درہ ذکر کی گئی ہیں البتہ بعض علماء نے ابو سلمہ کی ایک لڑکی "اُمِ کُلثوم" بھی ذکر کی ہے ۔ لیکن یہ قول شاذ ہے اگر اسے درست بھی تسلیم کر لیا جائے کہ ام سلمہؓ کی لڑکی اُمِ کُلثومؓ بھی تھی تو اس سے لازم نہیں آتا کہ یہی اُمِ کُلثوم سیدنا عثمانؓ کی زوجہ بنیں سیدہ اُمِ سلمہؓ کی لڑکی اگر ہے بھی تو وہ اُمِ کُلثوم دوسری ہے اس کی ماں کا نام اُمِ سلمہ ہے اور اس اُمِ کُلثوم کی والدہ کا نام سیدہ خدیجہؓ ہے۔ نبی اقدسﷺ کی صاحبزادی اُمِ کُلثومؓ یہ ایک دوسری شخصیت ہے سیدہ اُمِ سلمہؓ کی بیٹی نہیں ۔ جیسا کہ ہم نے سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کی اولاد کی تفصیلات کے تحت قبل ازیں مفصل ذکر کر دیا ہے۔
سو اس اعتراض کی بنیاد صرف تشابہ لفظی پر ہے کہ دونوں لڑکیوں کا نام اُمِ کُلثوم ہے محض مشابہت اسمی کی وجہ سے اعتراض پیدا کر لیا گیا ہے ورنہ اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ اتنی اہم تاریخی بات کا فیصلہ کرنے کے لئے محض اس قسم کے احتمالات اور لفظی شبہات کوئی وزن نہیں رکھتے۔
02: معترض دوستوں نے ایک یہ اعتراض بھی نشر کیا ہے۔ کہ نبی کریمﷺ کی ان تینوں صاحبزادیوں (سیدہ زینبؓ سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ) کی کوئی فضیلت کی چیز اسلامی کتب میں نہیں پائی جاتی، شیعہ و سنی علماء کی تصانیف کا ہر صفحہ ان کے ذکر فضیلت سے کورا نظر آیا اور نبی پاک اور ان بیٹیوں کے درمیان الفت و محبت کا مظاہرہ کہیں نظر نہیں آتا۔ وغیرہ وغیرہ۔
اس اعتراض کے جواب کے لئے اس چیز کی ضرورت ہے کہ ہر سہ صاحبزادیوں کے مذکورہ سوانح پر ایک نظر ڈال لی جائے اور ایک ایک عنوان کو سامنے رکھا جائے تو یہ مسئلہ صاف ہو جاتا ہے اور اس اعتراض کا بے بنیاد ہونا از خود واضح ہو جاتا ہے۔
ناطرین کرام کی توجہ کے لئے چند معروضات ذیل میں پیش کی جاتی ہیں۔ ان پر غور فرمائیں:
1: پہلی بات یہ ہے کہ ان تینوں صاحبزادیوں کے احوال و سوانح ہم نے قریباً اڑتیس عدد اپنی کتب سے اور ساتھ ہی کم و بیش چوبیس عدد شیعہ اکابر علماء کی کتب سے پیش کیے ہیں جن کے اسماء کی فہرست اس کتاب کے اول میں یا آخر میں شامل کر دی گئی ہے ۔ ان کتابوں کے ذخیرہ سے ہر سہ صاحبزادیوں کے احوال بقدر ضرورت ہم نے نقل کر دیئے ہیں اور بیشتر مقامات میں ان کی اصل عبارات بھی ذکر کر دی ہیں تاکہ ناظرین کرام! کے لئے پوری طرح تسلی کا سامان ہو جائے۔
اہلِ علم و دانش ان تفصیلات کے مطالعہ سے بخوبی معلوم کر سکتے ہیں کہ معترضین کا یہ دعویٰ کہ "سنی و شیعہ کتب ان کے ذکرِ فضیلت سے خالی ہیں "کہاں تک درست ہے؟؟ اور "بناتِ ثلاثہؓ" کے ذکرِ فضیلت کا کتبِ تاریخ و روایات میں نہ پائے جانے کا بلند بانگ دعویٰ کتنا قدر صحیح ہے ؟؟ اور اس میں کیا کچھ صداقت ہے؟؟
2: دوسری چیز یہ ہے کہ ان تینوں صاحبزادیوں کے احوال کا ایک مختصر خاکہ آپ مندرجہ ذیل صورت میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں مثلاً ان تینوں صاحبزادیوں (سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ اور سیدہ اُمِ کُلثومؓ کا) :
1: سید دو عالمﷺ کے "نسبِ مبارک" اور اولاد شریف میں سے ہونا۔
2: آنجنابﷺ کے خانہ مبارک میں پرورش پانا اور تربیت حاصل کی۔
3: اسلام لانا اور دین کی دولت سے مشرف ہونا ۔ اور بیعتِ نبویﷺ سے سرفراز ہونا ۔
4: سیدہ رقیہؓ کا دو ہجرتوں اور زینبؓ و اُمِ کُلثومؓ کا ایک ایک ہجرت کے مصائب اٹھانا اور مشرفِ ثواب حاصل کرنا اور مہاجرین کے فضائل سے بہرہ ور ہونا۔
5: آنجنابﷺ کا ان کے حق میں نکاح و تزویج کے سامان کرنا اور ان کےساتھ مہر و الفت کے شائستہ تعلقات قائم رکھنا ۔
5: پھر ان بیبیوں سے جو اولاد ہوئی اس کے ساتھ آنجنابﷺ کا محبت والفت کا سلوک کرنا۔
7: ان "بنات طیباتؓ" کے حق میں آنجنابﷺ کا "کلماتِ خیر" فرمانا۔
8: سیدہ رقیہؓ کے بغیر باقی دونوں صاحبزادیوں (سیدہ زینبؓ و سیدہ اُمِ کُلثومؓ) کی وفات کے موقع پر آنجنابﷺ کا موجود ہونا اور رنج و الم کے واقعات میں شرکت کرنا اور سیدہ رقیہؓ کی قبر پر تشریف لے جانا۔
9: ان پیاری صاحبزادیوں کے غسل و کفن کے انتظامات خود مکمل کرانا اور بعض دفعہ اپنی چادر مبارک ان کے کفن میں شامل کرنا ۔
10: ان کی نمازِ جنازہ خود پڑھانا اور ان کے حق میں مغفرت کی دعائیں فرمانا۔
11: اس کے بعد اپنی نگرانی میں ان کے دفن کے انتظامات کرنا اور قبر میں اتر کہ خصوصی دعائیں فرمانا ۔
12: سیدہ فاطمہؓ کا اپنی پیاری بہنوں کے ان اندوہناک مواقع میں غمگساری کے طور پر شریک و شامل ہونا وغیرہ وغیرہ۔
مذکورہ بالا امور اہلِ علم اور دیندار و منصف مزاج لوگوں کے نزدیک خیر و برکت کے شمار ہوتے ہیں اور فضیلت اور عظمت کے واقعات سمجھے جاتے ہیں۔
ان تمام احوال سے صرفِ نظر کر کے بعض لوگوں کا یہ کہہ دینا کہ ان محترم بیبیوں کے حق میں کوئی فضیلت کی چیز کتابوں میں دستیاب نہیں ہوتی اور یہ نبیﷺ کی زواجی بیٹیاں تھیں یہ نبیﷺ کی روایتی بیٹیاں تھیں ۔ نیز یہ کہنا کہ آنجنابﷺ کے ان بیٹیوں سے انس و محبت کے فطری تعلقات کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ یہ امر واقع کے بالکل برعکس ہے اور سیرتِ نبویﷺ کے واقعات کے من وعن بر خلاف ہے۔ اسلامی تاریخ کے بیانات کے ساتھ تضاد ہے۔
اور آنجنابﷺ کی اولاد شریف کے ساتھ سراسر ظلم اور ناانصافی ہے اور آنجنابﷺ کی مقدس نسل کے ساتھ خاص قلبی عداوت ہے اور سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ بظاہر دوستی کی شکل میں دشمنی ہے کہ ان کی حقیقی بہنوں کے نسب مبارک کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان بیبیوں کے فضائل و مکارم کی نفی کر کے خاندان نبویﷺ کے ساتھ ستم روا رکھا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اہلِ اسلام اور اہلِ ایمان کے قلوب مجروح ہوتے ہیں ۔ (فیا اسفاہ)