سوانح سيدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بنتِ رسول اللہﷺ
مولانا محمد نافعسوانح سيدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
ماقبل میں نبی اقدسﷺ کی ہرسہ صاحبزادیوں (سیدہ زینبؓ، سیدہ رقیہؓ و سیدہ اُمِ کُلثومؓ) کے احوال اور سوانح بقدر ضرورت ذکر کیئے ہیں۔ اس سے ان طیبات، طاہرات کی عظمت اور منرلت پورے طور پر نمایاں ہوتی ہے۔ اس کے بعد آنجنابﷺ کی چہارم صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کے احوال زندگی ذکر کیئے جاتے ہیں۔ سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کی اولاد کی تفصیلات کے تحت گذشتہ اوراق میں ان کے اجمالی ذکر و اذکار آ گئے تھے۔ لیکن یہاں ان کے مستقل سوانح حسبِ ترتیب درج کرنا مطلوب ہیں اب وہ تحریر کئے جاتے ہیں۔ فضائل و مناقب (جو عند الجمہور صحیح ہوں) وہ بھی ذکر کیئے جائیں گے اور خاص طور پر اخلاق و کردار اور عملی و معاشرتی زندگی کے پہلو زیادہ واضح کرنے کا ارادہ ہے۔ (بعونہ تعالیٰ)
ولادت با سعادت
سیرت نگاروں کے نزدیک سیدہ فاطمہؓ بنتِ رسول اللہﷺ کی سن ولادت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض حضرات لکھتے ہیں کہ جس زمانہ میں قریشِ مکہ کعبہ شریف کی بنا رہے تھے اس زمانہ میں سیدہ فاطمہؓ کی ولادت با سعادت سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کے بطن مبارک سے ہوئی اور اس وقت آنجنابﷺ کی عمر مبارک پینتیس سال کو پہنچ چکی تھی اور یہ واقعۂ نبوت سے قریباً پانچ برس پہلے کا ہے۔
¹· طبقات ابن سعد صفحہ 11 [جلد 8 تحت ذکر فاطمہؓ- طبع لیڈن
²· الاصابه لابن حجر صفحہ 265 جلر 4 تحت ذکر فاطمہؓ۔
³· تفسير القرطبی صفحہ 241 جلد 14 تحت آیت قل لا زواجك وبناتك.... الخ سورۃ الأحزاب]
اور بعض علماء کے نزدیک ان کی ولادت بعثتِ نبویﷺ کے قریب ہوئی اور آنجنابﷺ کی عمر مبارک اس وقت اکتالیس سال تھی۔ اسی طرح مزید اقوال بھی اس مقام میں منقول ہیں۔
[¹· الاصابة في تمييز الصحابه لابن حجر جلد 4 صفحہ 365 تحت تذكره فاطمه الزهراؓ]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا اسمِ گرامی اور القاب
آنجنابﷺ کی صاحبزادیوں میں مشہور قول کے مطابق سیدہ فاطمہؓ سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔ ان کا اسم گرامی "فاطمہ" ہے اور ان القابات میں "زھرا" اور "بتول" مشہور لقب ہیں ۔ یہ چاروں صاحبزادیوں (سیدہ زینب ، رقیہ، اُمِ کُلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ عنہن ، سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کی اولاد شریف ہیں اور باہمی حقیقی بہنیں ہیں ۔
ان کی پرورش اور تربیت خانہ رسول خداﷺ کے مبارک ماحول میں ہوئی۔ اور اپنی والدہ محترمہؓ کی نگرانی میں سن شعور کو پہنچیں اور اپنے والدین شریفین کے نفوس طیبہ سے مستفید ہوتی رہیں ۔
شمائل و خصائل
حدیث شریف کی کتابوں میں حضرت فاطمہؓ کے متعلق ان کی سیرت اور طرزِ طریق کو محدثین اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ:
نا قبلت فاطمة تمشى- ما تخطئى مشيئة الرسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا
یعنی سیدہ فاطمہؓ جس وقت چلتی تھیں تو آپ کی چال ڈھال اپنے والد شریفﷺ کے بالکل مشابہ ہوتی تھی۔
[¹· مسلم شریف جلد ثانی صفحہ 290 باب فضائل سیدہ فاطمہؓ۔
²· الاستيعاب صفحہ 363،364 جلد چہارم تحت تذکره سیدہ فاطمہؓ۔
³· حلیۃ الاولیا۔ لابی نعیم الاصفہانی صفحہ 39 جلد ثانی تحت تذکرہ حضرت فاطمہؓ۔]
ترمذی شریف میں یہی مضمون سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ
"عن عائشة قالت ما رأيت احدا اشبه سمتًا ودلا و هديا برسول الله صلى الله عليه وسلم"
یعنی نبی کریمﷺ کے ساتھ قیام و قعود، نشست و برخاست کے عادات واطوار میں سیدہ فاطمہؓ سے زیادہ مشابہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔
حاصل یہ ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کا طرز و طریق اخلاق شمائل میں نبی کریمﷺ کے زیادہ موافق تھا۔ "الولد سر لابیه" کے صحیح مصداق تھیں۔ اور آپ کی گفتار رفتار اور لب و لہجہ اپنے والد شریف کے بہت مطابق تھا۔
بچپن کا ایک واقعہ
قریشِ مکہ کی اسلام سے عداوت ابتداء سے ہی قائم تھی اور وہ ہمیشہ مسلمانوں کی تذلیل و تحقیر کے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے۔
حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ذکر کرتے ہیں کہ ایک بار نبی اقدسﷺ کعبہ شریف کے پاس حرم میں نماز پڑھ رہے تھے۔ قریش کے چند اشرار نے شرارت کی، شتر کا اُوجھ لا کر آنجنابﷺ کے اوپر رکھ دیا۔ آنجنابﷺ سربسجود تھے قریش اس حرکت پر آپس میں بڑے مسرور ہوئے۔ کسی نے جا کر سیدہ فاطمہؓ کو اسکی اطلاع دی (آپ کا بچپن تھا، جلدی پہنچ کر آنجناب سے اس اوجھ کو اتارا۔ اور کافروں سے ناراضگی کا اظہار فرمایا جب آنجنابﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو بدعا فرمائی وہ قبول ہوئی۔ اور ان میں سے بیشتر غزوۂ بدر میں مارے گئے۔
وعن عبد الله بن مسعود قال. فانطلق منطلق الى فاطمه وهي جويرية فاقبلت تسعٰى و ثبت النبي صلى الله عليه و سلم ساجدًا حتٰى القته عنه واقبلت عليهم تسبهم فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلٰوة قال اللّٰهم عليك بقريش- اللهم عليك بقريش به .... الخ
[¹· بخاری شریف جلد 1 صفحہ 74 باب المروة تطرح عن المصلى شيئا من الارى]
ہجرتِ مدینہ طیّبہ
اسلام میں جو مشہور ہجرت ہوئی تھی اس کا تفصیلی واقعہ سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں مفصل موجود ہے۔ نبی اقدسﷺ نے سیدنا ابوبکرؓ سمیت اپنے اہل و عیال سے پہلے مدینہ شریف کی طرف ہجرت فرمائی تھی۔
کچھ مدت گزرنے کے بعد آنجنابﷺ نے اپنے اہل و عیال اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے اہل و عیال کو مکہ شریف سے بلانے کا انتظام فرمایا۔ اس سے پہلے سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے حالات ہجرت میں اس کا ذکر آچکا ہے۔ یہاں سیدہ فاطمہؓ کے حالات کے سلسلہ میں ان کی ہجرتِ مدینہ کا واقعہ بقدر ضرورت درج کیا جاتا ہے۔
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ جب نبی اقدسﷺ نے مدینہ شریف کی طرف ہجرت فرمائی تو ہم کو اور اپنی بیٹیوں سیدہ فاطمہؓ و سیدہ اُمِ کُلثومؓ کو مکہ شریف میں چھوڑ گئے تھے۔
جب آپﷺ مدینہ میں مقیم ہو گئے تو آنجنابﷺ نے ہمارے منگوانے کے لئے انتظام فرمایا۔ چنانچہ زید بن حارثہؓ اور ابو رافعؓ کو اس کام کے لئے متعین فرمایا اور ان کو دو اونٹ اور پانچ سو درہم عنایت فرمائے تاکہ اس رقم سے مزید سواری خرید سکیں اور دیگر مصارف میں بھی انہیں صرف کر سکیں یہ دراہم آنجنابﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے حاصل کیئے تھے۔
سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے بھی اپنے اہل و عیال کو منگوانے کے لئے عبد اللہ بن اریقط لیثیٰؓ کو سواریاں دے کر زید ابنِ حارثہؓ اور ابو رافعؓ کے ساتھ روانہ کیا اور اپنے بیٹے عبداللہ کی طرف لکھا کہ وہ اپنی والدہ اُمِ رومانؓ) اور اپنی بہنوں (سیدہ عائشہؓ اور اسماءؓ) کو ساتھ لائیں۔ پس جب یہ حضرات مدینہ شریف سے روانہ ہو کر "قدید" کے مقام پر پہنچے تو انہوں نے ضرورت کے مطابق سواریاں خریدیں اور پھر مکہ شریف میں داخل ہوئے اور حضرت طلحہؓ کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ وہ بھی ہجرتِ مدینہ کے لئے آمادہ تھے۔ پس یہ تمام احباب (حضرت زیدؓ ابو رافعؓ٫ سیدہ فاطمہؓ و اُمِ كُلثومؓ، اُم المؤمنین حضرت سودهؓ، اسامہ بن زیدؓ اور امِ ایمنؓ) مکہ شریف سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے اہل و عیال جو اوپر مذکور ہوئے وہ بھی ہمراہ تھے اور تمام قافلہ ایک سفر میں ہجرت کر کے مدینہ طیبہ پہنچا۔
علامہ ذہبیؒ نے سیر اعلام البنلا جلد دوم میں یہ واقعہ بعبارت ذیل درج کیا ہے :-
" عن عائشة قالت لما هاجر رسول الله صلى الله عليه وسلم الى المدينة خلّفنا وخلف بناتهٗ - فلما قدم المدينة بعث الينا زيد بن حارثه و ابا رافع واعطاهم بعيرين وخمسائة دراهم اتحبها من ابي بكر ليشتريان بها ما تحتاج اليه من الظهر- وبعث ابو بكر معهما عبد الله بن اريقط الليغی ببعيرين اوثلاثة وكتب الى ابنه عبد الله يا مره أن يحمل أهله - ام رومان و انا واختى اسماء نخرجوا فلما انتهوا إلى قدير اشترى بتلك الدراھم ثلاثة ابعدةٍ ثم دخلوا مكة وصادفوا طلحة يريد الهجرة باك أبي بكرؓ فخرجنا جميعًا وخرج زيد و ابو رافع بفاطمة وأم كلثوم و سودة وامر ايمن واسامة فاصطجنا جميعًا
[¹· سير اعلام النبلاء للذهبی جلد 2 صفحہ 109 تحت عائشة أم المؤمنينؓ۔
²· البداية لابن كثير جلد 3 صفحہ 202 فصل في دخوله عليه السلام المدينة وابن استقر منزله ...... الخ
³· دلائل النبوة للبيہقي صفحہ 430،431 جلد ثاني تحت باب ما جاء فی تزويج فاطمة بنتِ رسول اللّٰہﷺ
⁴· البداية صفحہ 346 جلد 3 تحت فصل في دخول على ابن ابي طالب على زوجته فاطمةؓ۔
⁵· البداية صفحہ 332، جلد 6 ذكر من توفي في هذهٖ السنة سن11ہجری۔
⁶· السنن للنسائى صفحہ 77 جلد 2 باب جهاز الرجل ابنته۔]
تنبیہ
باقی صاحزادیوں سیدہ زینبؓ اور سیدہ رقیہؓ کی ہجرت کے احوال سابقاً ان کے تذکروں میں درج ہو چکے ہیں۔ چاروں صاحبزادیاں شرفِ ہجرت سے مشرف تھیں اور مہاجرین کی فضیلتوں سے بہرہ یاب تھیں۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی تزویج
مدینہ طیبہ میں اقامت پذیر ہونے کے بعد سن2ہجری میں نبی اقدسﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کی تزویج کی طرف توجہ فرمائی۔ بعض روایات کی رو سے سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کے متعلق "خطبہ" عرض کیا بطور منگنی کے درخواست پیش کی تو آنجنابﷺ نے فرمایا آپ کے پاس مہر کے لئے کوئی چیز ہے؟ تو سیدنا علیؓ نے عرض کیا اور تو کوئی چیز نہیں مگر ایک سواری اور زرہ ہے اس روایت میں ہے سیدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کو چار سو درہم میں بیچ ڈالا۔ اس موقعہ پر آنجنابﷺ نے فرمایا کہ اس میں سے سیدہ فاطمہؓ کے لئے خوشبو بھی خریدی جائے کیونکہ فاطمہؓ بھی خواتین میں سے ہیں اور ان کے لئے خوشبو درکار ہوتی ہے۔
عن جعفر بن سعد عن أبيه ان عليا قال لما خطبت فاطمة۔ قال النبي صلى الله عليه وسلم هل لك من مهر، قلت عندى راحلتى و درعي۔ فبعتهما بأربعمائة وقال أكثروا من الطيب لفاطمة فأنها امرأة من النساء
[¹· التاريخ الكبير لامام بخاريؒ صفحہ 61 جلد 2 القسم الثاني تحت باب العين]
روایت بالا کے قریب سنن سعید بن منصور میں بھی اس مضمون کو ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
[²· كتاب السنن السعيد بن منصور قسم اوّل صفحہ 154 جلد ثالث تحت باب ما جاء في الصداق طبع مجلس علمی]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مکان کی تیاری
نبی اقدسﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کے مکان کے لئے سیدہ عائشہؓ اُم المؤمنینؓ کو فرمایا کہ فاطمہؓ کی رخصتی کے لئے مکان کی تیاری کی جائے اس موقعہ پر اس کام میں اُمِ سلمہؓ بھی ان کے ساتھ معاون تھیں۔
سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آنحضرتﷺ کے فرمان کے مطابق ہم نے اس کام کی تیاری شروع کی اور وادی بطحا سے اچھی قسم کی مٹی منگوائی۔ اس مکان کو لیپا دھو کر پونچا اور صاف کیا۔ پھر ہم نے اپنے ہاتھوں سے کھجور کی چھال درست کر کے دو گدے تیار کیئے اور خرما اور منقی سے خوراک تیار کی اور پینے کے لئے شیریں پانی مہیا کیا پھر اس مکان کے ایک کونے میں لکڑی گاڑ دی تاکہ اس پر کپڑے اور مشکیزہ لگایا جا سکے۔ جب مذکورہ بالا انتظامات مکمل ہو چکے تو سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں۔
فما رأينا عرساً احسن من عرس فاطمة :
یعنی فاطمہؓ کی شادی سے بہتر ہم نے کوئی شادی نہیں دیکھی"۔
[¹· السنن ابنِ ماجہ صفحہ 139 كتاب النكاح باب الوليمة مطبوعه مطبع نظامی - دهلی
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا جہیز
سیدہ فاطمہؓ کی شادی کے سلسلہ میں نبی اقدسﷺ کی طرف سے جو تیاری کے لیے سامان دیئے گئے ان میں سے جہیز فاطمہؓ کا ایک مستقل عنوان کتابوں میں پایا جاتا ہے چنانچہ اس مقام میں میں سیدہ علیؓ سے جو روایت مروی ہے اس کو ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔
عن على رضى الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما زوجه فاطمة بعث معهما بخميلة ووسادة من ادم حشوها لیف ور حين وسقاءً و جرتين۔
[¹· مسند احمد صفحہ 104 جلد اول تحت مسندات علی کرم اللہ وجہہ۔
²· الفتح الربانی صفحہ 44،45 جلد - 21 ( ترتیب مسند احمد )
³· مسند ابی یعلٰی الموصلی صفحہ 202 جلد اول تحت مسندات علوی طبع جدید ۔ بیروت]
اس کا مطلب یہ ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ فرماتے ہیں جب میرے ساتھ سیدہ فاطمہؓ کی تزویج کر دی تو آنجنابﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کے جہیز میں درج ذیل چیزیں ارسال فرمائیں ۔
ایک بڑی چادر ۔ ایک چمڑے کا تکیہ جو کھجور کی چھال یا اذخر (خوشبودار گھاس) سے بھرا ہوا تھا۔ ایک چکی (آٹا پیسنے کے لئے)۔ ایک مشکیزہ اور دو گھڑے تھے ۔ نبی کریمﷺ کی پیاری صاحبزادی کے لئے یہ مختصر سا جہیز عنائت فرمایا گیا۔ ان کی ازدواجی زندگی کی ضروریات پورا کرنے کے لئے کل سامانِ معیشت یہی کچھ تھا۔
یہاں سے ان حضرات کی خانگی معیشت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہاں کسی قسم سے تکلفات اور زیب و زینت کی مکلف چیزیں نظر نہیں آتیں گویا اُمت کے لیے یہ سادہ اور مختصر سامان سبق آموزی کے لئے ایک نمونہ ہے۔ اور اس بے سرو سامانی کے احوال میں ان حضرات کا گزر بسر کرنا عملاً بتلا رہا ہے کہ مسلمان کے لئے اصل چیز فکر آخرت ہے اور یہ زندگی عارضی ہے اس کے لئے کسی بڑی کدوکاوش کی ضرورت نہیں۔
انتقاد نکاح اور زوجین کی عمر
سیدہ فاطمہؓ کی تزویج اور شادی کے سلسلہ میں جب ابتدائی مراحل طے ہو چکے اور مکان اور جہیز وغیرہ کی تیاری ہو چکی تو آنجنابﷺ نے بامر خداوندی مجلس نکاح قائم کر کے سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا علی المرتضیٰؓ سے کر دیا۔ اور عام روایات کے اعتبار سے مہر چار سو مثقال مقرر کیا گیا۔ فاضل زرقانی وغیرہم کے بیان کے موافق مجلسِ نکاح میں اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (سیدنا ابوبکر صدیقؓ و عمر فاروقؓ و عثمان غنیؓ وغیرہم) مدعو تھے اور یہ حضرات اس واقعہ کے گواہ تھے۔ نکاح کی یہ تقریب بالکل سادہ تھی اس میں کسی قسم کے تکلفات نہ برتے گئے اور نہ زمانے کی کوئی رسومات ادا کی گئیں۔
نکاح کے بعد علماء کرامؒ فرماتے ہیں کہ آنجنابﷺ نے اپنی دختر کو بی بی اُمِ ایمنؓ کے ساتھ سیدنا علیؓ کے خانہ مبارک میں روانہ فرمایا اور اُمِ ایمن رضی اللہ عنہا کی معیت میں سیدہ فاطمہؓ پیدل چل کر تشریف لے گئیں اور کوئی ڈولی اور سواری وغیرہ تجویز نہ کی گئی تھی۔ تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ جنگِ بدر کے بعد رمضان شریف سن2ہجری میں سیدنا علیؓ کا تزوج ہوا اور اس کے چند ماہ بعد یعنی ذوالحجہ سن 2ہجری میں رخصتی عمل میں آ گئی۔ اس وقت سیدہ فاطمہؓ کی عمر بعض سیرت نگاروں کے مطابق پندرہ سال اور پانچ ماہ تھی اور بعض کے نزدیک اٹھارہ سال تھی۔ اس مقام میں کئی دیگر اقوال بھی منقول ہیں۔ اور سیدنا علیؓ کی عمر مشہور قول کے مطابق اس وقت اکیس برس کی تھی۔
واللہ اعلم بالصواب۔
[¹· تفسير القرطبی صفحہ 241 جلد 14 تحت آيت قل لا زواجك وبناتك ..... الخ
²· الاكمال فى اسماء الرجال لصاحب المشكوة تحت ذكر فاطمة الزهراءؓ۔
³· تہذيب الاسماء واللغات للنووى تحت ذكر فاطمة الزهراءؓ۔
⁴· شرح مواهب الدنيه للزرقاني صفحہ 203 جلد 2 تحت ذكر تزويج على بفاطمہؓ۔]
انتباه
سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی شادی اور بیاہ کے سلسلہ میں ہم نے صرف تین چار عنوان مختصراً ذکر کیئے ہیں اور بقدر ضرورت احوال درج کیئے ہیں۔ مصنفین حضرات نے اس موقعہ پر بے شمار طول طوال اور رطب دیا بس روایات تحریر کی ہیں ان کی صحت واقعہ اور عدم صحت کا کوئی لحاظ نہیں رکھا۔ ان بے اصل چیزوں اور بے سروپا روایات پر نظر کرتے ہوئے علماء نے اس مقام میں ان سے پہلو تہی کا اشارہ کیا ہے:
"وقد وردت احادیث موضوعة في تزويج علىٍؓ بفاطمةؓ لم تذكر رغبة عنها"
[¹· البداية والنہاية صفحہ 332 جلد 6 لابن كثير من تحت واقعات سن ہذا۔]
ابنِ کثیرؒ کہتے ہیں یعنی سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی تزویج میں بہت سی روایات جعلی وارد ہوئی ہیں ہم ان سے روگردانی کرتے ہوئے ان کو ذکر نہیں کرتے۔
"فراش شبینه"
جب ان دونوں(سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ) کی تزویج ہو چکی تو اس کے بعد ان کی ازدواجی زندگی اور خانگی معیشت کا دور شروع ہوا۔ اس میں کئی واقعات اس نوعیت کے دستیاب ہیں کہ ان کے پاس بچھانے کے لئے کوئی عمدہ قسم کا بستر نہیں تھا اور زوجین کے لئے سونے کے الگ الگ کپڑے موجود نہ تھے چنانچہ سیدنا علیؓ سے مندرجہ ذیل روایت مذکور ہے۔
عن مجالد بن شعبة قال انا من سمع عليا رضى الله عنه يقول على المنبر نكحت ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم وما لنا فراش ننام عليه الاجلدة شاة ننام عليه باليل و تعلف عليه الناضح بالنهار
[¹· كتاب السنن السعيد بن منصور قسم صفحہ 154 جلد 3 قسم اوّل مطبوعہ مجلس علمی تحت ما جاء في الصداق
²· الطبقات ابنِ سعد صفحہ 13 جلد 8 تحت ذكر فاطمهؓ۔]
یعنی ایک دفعہ سیدنا علیؓ نے (اپنی دیرینہ سرگذشت)بیان کرتے فرمایا کہ رسول خداﷺ کی صاحبزادی کے ساتھ میرا نکاح ہوا تو بعض دفعہ یہ حالت تھی کہ ہمارے پاس رات کو سونے کے لئے ایک بکری کی کھال تھی رات کو یہ ہماری خوابگاہ ہوتی اور دن کو اسی پر ہم اپنے شتر کو چارہ ڈالتے تھے۔
خانگی اُمور میں تقسیم کار
ازدواجی زندگی میں خانگی کام کاج ایک ضروری امر ہے جب تک سلیقہ سے سرانجام نہ پائے تب تک گھریلوں نظام کار درست نہیں رہتا۔ اس سلسلہ میں جناب نبیﷺ نے سیدنا علیؓ کے گھر کے بارے میں خانگی معاملہ اس طرح متعین فرما دیا تھا کہ
فاطمہؓ اندرونِ خانک سارا کام کاج سرانجام دیں گی اور علی المرتضیٰؓ بیرونِ خانہ کے فرائض بجا لائیں گے۔
قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم على ابنته فاطمة بخدمة البيت وقضٰى على علىٍ (رضي الله عنه) بما كان خارجاً من البيت من خدمة۔
[¹· حلية الاولياء للحافظ ابي نعیم اصفہانی صفحہ 104 جلد 6 تحت صفحہ 340 (ضمرة بن حبيب]
اور ایک دوسری روایت میں جو سیدنا علیؓ سے منقول ہے۔ سیدنا علی المرتضیٰ اپنی والدہ فاطمہؓ بنتِ اسد کی خدمت میں ذکر کرتے ہیں کہ فاطمہؓ کے لئے بیرونِ خانہ کام کاج کی ضروریات میں پوری کروں گا۔ اور گھر کے اندر کے کام میں فاطمہؓ تمہارے لئے کفایت کریں گی ۔ آٹا پیسنا۔ آٹا گوندھنا۔ اور روٹی پکانا وغیرہ ۔
[¹· سيرا علام النبلاء للذہبي صفحہ 91 جلد ثانی تحت فاطمهؓ بنت رسول اللہﷺ۔
²· الاصابه ابنِ حجر صفحہ 398،399 جلد رابع تحت فاطمه بنتِ اسد ( والدہ محترمہ سیدنا علیؓ۔]
عنوان بالا کے تحت سیدنا علیؓ اور سیدنا فاطمہؓ کے حق میں شیعہ علماء نے بھی اسی طرح ذکر کیا ہے کہ اندرونِ خانہ کام کاج سیدہ فاطمہؓ سر انجام دیتی تھی اور باہر کے کام سیدنا علیؓ سرانجام دیتے تھے۔
[¹· كتاب الامالي للشيخ الطوسى صفحہ 264 جلد ثانی تحت مجلس يوم الجمعة الثالث والعشرين من رحب]
خانگی امور کے لئے ایک خادم کا مطالبہ
جب سیدہ فاطمہؓ اپنے زوج محترم کے ساتھ الگ رہنے لگیں تو خانگی کام کاج خود سرانجام دیتی تھیں۔ جیسا کہ گذشتہ سطور میں ذکر ہو چکا۔ اسلام کا ابتدائی دور تھا بعض دفعہ غلام اور لونڈیاں فتوحات میں آتی تھیں اور مسلمانوں میں تقسیم ہوتی تھیں۔ ایک دفعہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں کچھ غلام آئے تو اس موقعہ پر سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدہ فاطمہؓ سے بطور مشورہ کہا کہ آپ نبی کریمﷺ کی خدمت میں جا کر ایک خادم کا مطالبہ کریں جو خانگی کام کاج میں آپ کا کفیل ہو سکے اور آپ اس زحمت سے بچ جائیں۔
اس بناء پر سیدہ فاطمہؓ نبی اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن کچھ اور لوگ بیٹھے ہوئے تھے جن سے آپﷺ مصروف گفتگو تھے۔ تو سیدہ فاطمہؓ وہاں سے واپس لوٹ آئیں اور اس وقت کچھ عرض نہ کر سکیں۔ اس کے بعد نبی کریمﷺ ایک دوسرے وقت میں سیدہ فاطمہؓ کے گھر خود تشریف لائے ۔ سیدنا علیؓ بھی موجود تھے تو آنجنابﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے فاطمہؓ! آپ میرے پاس آئی تھیں۔ آپ اس وقت کیا کہنا چاہتی تھیں؟ تو سیدہ فاطمہؓ حیاء کی بنا پر خاموش رہیں۔ سیدنا علیؓ عرض کرنے لگے یا رسول اللہﷺ میں عرض کرتا ہوں : فاطمہؓ گھر کا کام کاج خود کرتی ہیں چکی پیستی ہیں تو ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ہیں، پانی لانے لانے کے لئے مشکیزہ خود اٹھاتی ہیں جس کی وجہ سے جسم پر نشان پڑ گئے ہیں۔ آنجنابﷺ کی خدمت میں کچھ خادم آئے تو میں نے ان سے کہا تھا کہ جنابﷺ کی خدمت سے ایک خادم طلب کریں تا کہ آپؓ مشقت اٹھانے سے بچ جائیں۔ نبی کریمﷺ نے جواب میں فرمایا کہ اے بیٹی! تجھے اپنے فرائض خود ادا کرنے چاہئیں اور اپنے خانگی کام خود سرانجام دینے چاہئیں میں تمہیں وظیفہ بتلاتا ہوں جس وقت رات کو آپ آرام کرنے لگیں تو اسے پڑھ لیا کریں 33 بار سبحان اللہ، 33 بار الحمد لله اور 34 بار اللہ اکبر یہ سو عدد کلمات ہیں۔ یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہیں تو سیدہ فاطمہؓ نے عرض کیا کہ میں اللہ اور اس کے رسولﷺ سے راضی ہوں۔
روایت ہذا کا مضمون اپنی اپنی عبارات میں متعدد علماء نے ذکر کیا ہے، مقاماتِ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں:
[¹· ابو داؤد شریف صفحہ 64 جلد 2 کتاب الخراج باب بیان مواضع قسم الخمس وسھم ذو القربیٰ ، طبع دہلی۔
²· بخاری شریف صفحہ 439 جلد اول باب الدليل على ان الخمس للتوئب -
³· بخاری شریف صفحہ 807 ، 808 جلد ثانی باب عمل المرأة في بيت زوجها
⁴· مسند ابوداؤد الطيالسی صفحہ 16 جلد اول احادیث علی ابنِ ابی طالب
⁵· مسند احمد صفحہ 146،147، 153 جلد اول تحت مسندات علىؓ]
خاتُونِ جنت کی درویشانہ زندگی اور کوتاه لباس
اسی طرح آپؓ کی زاہدانہ ندگی کے احوال مصنفین نے اپنی تصانیف میں ذکر کیئے ہیں ۔
سیدہ فاطمہؓ کے لباس کے متعلق ایک واقعہ حضرت انسؓ نے ذکر کیا ہے کہ:
نبی کریمﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو ایک غلام عنایت فرمایا۔ غلام ساتھ تھا۔ سیدہ فاطمہؓ کے گھر میں آنجنابﷺ تشریف لائے، اتفاق سے سیدہ فاطمہؓ ایک مختصر سا دوپٹہ زیب تن کیئے ہوئے تھیں وہ اتنا کوتاہ اور مختصر تھا کہ اگر اس سے سر مبارک کو پوشیدہ کرتیں تو پاؤں نہیں چھپتے تھے اور اگر پاؤں ڈھانپتیں تو سر کھلا رہ جاتا تھا۔ یہ حالت ملاحظہ فرما کر آنجنابﷺ نے فاطمہؓ کو ارشاد فرمایا کہ کوئی حرج نہیں ہے (یعنی زیادہ تشر کی حاجت نہیں) ایک تیرے والد ہیں اور ایک تیرا غلام ہے۔
واقعہ ہذا سنن ابی داؤد میں بعبارت ذیل موجود ہے۔
عن انس ان النبي صلى الله عليه وسلم اتى فاطمة بعید قد وهبه لها قال وعلى فاطمة ثوب اذا قنعت به رأسها لم يبلغ رجليها واذا غطت به رجليها لم يبلغ رأسها - فلما رأى النبي صلى الله عليه وسلم ما تلقى قال انه ليس عليك بأس انما هو ابوك وغلامك
[¹· السنن ابی داؤد صفحہ 213 جلد 2 مطبع مجتبائی دھلی تحت باب فى العبد ينظر الى شعر مولاته (کتاب اللباس)]
یہاں سے واضح ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کا لباس گھر میں بقدر ضرورت میسر تھا۔ لباس میں کوئی تکلف نہ تھا۔ جو میسر ہوتا وہی زیب تن کر لیا کرتی تھیں ۔ دوسرا معلوم ہوا محارم کے سامنے مختصر سے لباس کے ساتھ اگر عورت آجائے تو جائز ہے اور اندرونِ خانہ اس طرح کی صورت پیش آئے تو کوئی حرج نہیں۔ یہاں یہ ذکر کر دینا نیز مناسب ہے کہ سیدہ فاطمہؓ کے مطالبہ پر پہلے آنجنابﷺ نے خادم عطا فرمانے کی نفی کر دی تھی وہ بالکل ابتدائی دورِ اسلام تھا بعد میں کچھ بہتر حالات ہونے پر سیدہ فاطمہؓ کو آنجنابﷺ نے ایک غلام عطا فرما دیا تھا۔ اس بنا پر روایت میں تفاوت و تعارض نہیں۔ اور نہ ہی ان دونوں واقعات میں کوئی اشکال ہے۔
غزوۂ اُحد میں خدمات
غزوۂ اُحد اسلام کے مشہور غزوات میں سے ایک ہے۔ کفار کی طرف سے اہلِ اسلام پر ایک زبردست حملہ تھا۔ جس میں مسلمان مجاہدین نے بڑے مجاہدانہ کارنامے سرانجام دیئے اور اس کے سخت ترین مراحل میں مسلمان خواتین نے بھی بڑی خدمات سرانجام دیں، چنانچہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور اِم سلیطؓ و دیگر خواتینِ اسلام نے مجاہدین کو مدد پہنچانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ اس غزوۂ میں جب نبی اقدسﷺ کے دندان مبارک کو زخم پہنچے تو سیدنا علیؓ پانی لائے اور سیدہ فاطمہؓ آنجنابﷺ کے زخموں کو صاف کرنے لگیں ۔ جب خون نہیں رکا تو سیدہ فاطمہؓ نے ایک چٹائی کے ٹکڑے کو جلا کر اس کی راکھ زخم پر ڈال دی تو خون رک گیا ...... الخ
كانت فاطمة بنتِ رسول الله صلى الله عليه وسلم تغسله وعلى يسكب الماء بالمجن - فلما رأت فاطمة ان الماء لا يزيد الدم الاكثرة - اخذت قطعة من حصير فاحرقتها والصفتها فاستمسك الدم الخ
[بخاری شریف صفحہ 584 جلد ثانی کتاب المغازی تحت متعلقات غزوة احد]
میت والوں کی تعزیت کرنا
عبداللہ ابنِ عمرو ابنِ العاصؓ آنجنابﷺ کے صحابی ہیں یہ ذکر کرتے ہیں کہ ایک بار نبی کریمﷺ کی میت میں ہم ایک معیت میں ہم ایک میت کو دفن کرنے کے لئے گئے جب ہم دفن سے فارغ ہوئے اور آنجنابﷺ واپس ہوئے تو ہم آپﷺ کے ساتھ تھے۔ جب آپﷺ گھر کے قریب پہنچے تو سامنے سے ایک عورت آرہی تھی وہ آپﷺ کی صاحبزادی فاطمہؓ تھیں آنجناب ﷺ نے ان سے پوچھا کہ آپ اپنے گھر سے باہر کسی کام کے لئے گئی تھیں؟ اُنہوں نے عرض کیا کہ فلاں گھر والوں کی ایک فوتیدگی ہوگئی ہے اس کی تعزیت کے لئے میں ان کے ہاں گئی تھی اور تعریت کی ہے اور ان کے میت کے حق میں کلمات ترحم ادا کیئے ہیں۔
فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ما اخرجك يا فاطمة من بيتك؟ قالت اتيت يا رسول الله اهل هٰذا البيت فرحمت اليهم ميتهم أو عزيتهم به ... الخ
[السنن ابی داؤد صفحہ 89 جلد2 مطبع مجتبائی دہلی تحت باب التعزية (كتاب الجنائز)]
معلوم ہوا کہ اہلِ میت کے ہاں جاکر تعزیت کرنا اور میت کے لئے دعائیہ کلمات کہنا جائز ہے۔ اس طریقہ سے میت والوں کی خاطر داری ہو جاتی ہے اور تسکین خاطر کی صورت پیدا ہوتی ہے۔ اور معاشرہ میں باہمی تعلقات بہتر رہتے ہیں جو اجر و ثواب کے حصول کا باعث بنتے ہیں۔
قربانی کے موقع پر حاضری
ابوسعید الخدریؓ ایک صحابی ہیں ان سے مروی ہے کہ قربانی کرنے کا موقعہ تھا اس موقع پر نبی کریمﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کو فرمایا ک تم اپنی قربانی کے ذبیح کے وقت اس کے پاس کھڑی رہو اور اس کو دیکھو ساتھ ہی فرمایا کہ قربانی کے خون کے ہر قطرہ کے بدلے تمہارے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ تو اس وقت سیدہ فاطمہؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! کیا یہ مسئلہ صرف ہمارے لئے خاص ہے؟ یا ہمارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے؟ تو آنجنابﷺ نے فرمایا بلکہ ہمارے لئے اور تمام مسلمانوں کے لئے ہے۔
عن ابی سعيدؓ قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يا فاطمة قومى الى اضحيتك فأشهديها فأن لك بكل قطرة تقطر من دمها ان يغفر لك م ما سلف من ذنوبك ، قالت يا رسول الله ؟ خاصة اهل البيت؟ اولنا وللمسلمين ؟ قال بل لنا وللمسلمين
[الفتح الرباني (ترتیب مسند احمد) صفحہ 59 جلد 13 تحت باب ما جاء في الاصحية والحث عليها .... الخ]
قربانی کے موقعہ پر موجود ہونا ایک مستقل ثواب کی چیز ہے جذبۂ اخلاص کے ساتھ یہ منظر دیکھنا مؤجبِ اجر و ثواب ہے اور مسلمان کے گناہوں کے معاف ہونے کا ذریعہ ہے ۔ یہ چیزیں روایت ہذا سے ثابت ہوتی ہیں۔
آنجنابﷺ کے غسل کے وقت پردہ کرنا
سیرت اور حدیث کی کتابوں میں لکھا ہے کہ جس روز مکہ فتح ہوا (یعنی 8ہجری میں) اُمِ ہانیؓ بنتِ ابی طالب نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں آنجنابﷺ اس وقت غسل فرما رہے تھے چاشت کا وقت تھا اور آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ ایک کپڑے کے ساتھ آنجناب کے لئے پردہ بنائے ہوئے تھیں۔ میں نے جا کر سلام عرض کیا تو آنجنابﷺ نے دریافت فرمایا؟ یہ کون آئی ہے؟ اُمِ ہانیؓ نے کہا کہ میں اُمِ ہانی حاضر ہوئی ہوں اس کے بعد جب آپﷺ غسل سے فارغ ہوئے تو آپﷺ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی ........ الخ
ام هانى بنت ابی طالب تحدث انها ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فوجدته يغتسل و فاطمة بنته تستره بثوب قالت فسلمت عليه وذالك ضحي قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من هذه فقلت انا ام هانى قالت فلما فرغ من غسله قام فصلى ثمان ركعات ....... الخ
[¹· السنن للدارهی صفحہ 177 مطبع نظامی کان پور باب الصلاة الضحىٰ۔
²· السيرة النبوية لابن هشام صفحہ 411 جلد - 2 تحت ذكر الاسباب الموجبة المسير إلى مكة و ذكر فتح مكة۔
³· مشكٰوة شريف صفحہ 347 طبع دہلی۔
باب الامان الفصل الاول بحواله بخاري ومسلم شريف -
⁴· البداية لابن كثير صفحہ 300 جلد رابع تحت حالات دخوله عليهٖ السلام (فتح مکه)]
قربانی کے گوشت کی اباحت
اُمِ سلیمانؓ کہتی ہیں کہ میں ایک دفعہ اُم المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے پاس حاضر ہوئی قربانی کے گوشت کے متعلق میں نے ایک مسئلہ دریافت کیا تو سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا کہ نبی کریمﷺ نے پہلے قربانی کا گوشت بچا رکھنے سے منع فرمایا تھا مگر بعد میں اس کے بچا رکھنے کی اجازت دے دی۔ واقعۂ اس طرح پیش آیا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کسی سفر سے گھر تشریف لائے سیدہ فاطمہ نہ نے قربانی کا پکا ہوا گوشت پیش کیا تو سیدنا علیؓ کہنے لگے کہ اس کے کھانے سے کیا نبی کریمﷺ نے منع نہیں فرمایا تھا؟ اس کے بعد سیدنا علیؓ نے یہی مسئلہ نبی کریمﷺ سے خود دریافت کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ قربانی کا گوشت سال بھر کھایا جا سکتا ہے۔
[مسند احمد صفحہ 282 جلد 6 تحت احادیث فاطمہؓ بنتِ رسولﷺ]
یہ روایت قبل ازیں کتاب "رحماء بينهم" حصہ صدیقی صفحہ 71 میں ذکر کی جا چکی ہے وہاں سیدہ عائشہؓ اور سیدہ فاطمہؓ کے باہمی اعتماد و اعتبار بتلانے کے لئے پیش کی گئی ہے۔
مسجد میں دخول اور خروج کے وقت درود اور دعا پڑھنے کی سنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے
سیدہ فاطمہؓ سے منقول ہے آپ فرماتی ہیں۔ جب نبی کریمﷺ مسجد میں داخل ہوتے تو یہ کلمات پڑھتے:
"صلی علی محمد و سلم و قال اللهم اغفر لي ذنوبی وافتح لى ابواب رحمتك "
یعنی"نبی کریمﷺ پر درود اور سلام ہو ۔ اے اللہ! میرے گناہ معاف فرما دے اور اپنی رحمت کے دروازے میرے لئے کھول دے"
اور جب آنجنابﷺ مسجد سے باہر تشریف لاتے تو یہ کلمات فرماتے:
"صلی علی محمد وسلم ثم قال اللهم اغفر لي ذنوبی وافتح لى أبواب فضلك"
یعنی" نبی کریمﷺ پر درود اور سلام ہو۔ اے اللہ! میرے گناہ معاف فرما دے اور اپنے فضل کے دروازے میرے لئے کھول دے کے"
[مسند احمد صفحہ 286 جلد6 تخت مستنداتِ فاطمهؓ]
اس روایت سے مسجد میں داخل ہوتے وقت اور اس سے نکلتے وقت درود پڑھنا اور کلمات دعائیہ سے دخولِ مسجد اور خروجِ مسجد کے آداب اور اس وقت کا درود کہنا ثابت ہوا۔ نبی کریمﷺ کا اپنی ذاتِ اقدس پر خود درود بھیجنا بھی یہاں اس روایت سے ثابت ہوتا ہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پر شفقت فرمانا
سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے کہ سیدہ فاطمہؓ جب نبی اقدسﷺ کے پاس تشریف لاتیں تو آنجنابﷺ (ان کی رعایت خاطر کے لیے) کھڑے ہو جاتے تھے اور پیار کرنے کے لئے ہاتھ پکڑ لیتے اور بوسہ دیتے اور اپنے بیٹھنے کے مقام پر بٹھا لیتے تھے۔
اور جب نبی کریمﷺ سیدہ فاطمہؓ کے ہاں تشریف لے جاتے تو احتراماً سیدہ فاطمہؓ کھڑی ہو جاتیں آپﷺ کے دستِ مبارک کو چوم لیتیں اور اپنی نشست پر بٹھا لیتی تھیں۔
[مشكٰوة شریف صفحہ 402 بحوالہ ابو داؤد باب المصافحہ والمعانقة]
روایت مندرجہ بالا سے واضح ہوتا ہے کہ آنجنابﷺ اپنی صاحبزادیوں پر نہایت شفقت فرماتے تھے اور ان سے بہت محبت کرتے تھے اور ان کی دلداری اور پاس خاطر کے لئے ان کے ساتھ بہت مہربانی فرماتے۔
نقش و نگار سے اجتناب
دنیا کی زیب و زینت نبی اقدسﷺ پسند نہیں فرماتے تھے اور آنجنابﷺ کے گھروں میں کسی قسم کے ٹھاٹھ باٹھ کی چیزیں نہیں ہوتی تھیں اور آنجنابﷺ اپنی اولاد شریف کے متعلق بھی دنیاوی زیب و زینت کو پسند نہ فرماتے تھے۔ ایک روایت میں ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے آنجنابﷺ کو طعام کی دعوت دی اور آپﷺ تشریف لائے سیدہ فاطمہؓ نے گھر میں ایک منقش پردہ لٹکا رکھا تھا جس پر کسی قسم کی تصویریں اور نقوش وغیرہ بنے ہوئے تھے۔ آپﷺ دروازے پر کھڑے ہو گئے اور اندر تشریف نہیں لائے اور یہ منظر دیکھ کر آنجنابﷺ واپس ہوئے۔ سیدہ فاطمہؓ کہتی ہیں کہ میں آنجنابﷺ کے پیچھے پیچھے چل پڑی اور عرض کی یا رسول اللهﷺ؟ آپ کس وجہ سے واپس تشریف لے جارہے ہیں تو آنجنابﷺ نے فرمایا کہ پیغمبر کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ایسے مکان میں داخل ہو جو مزین اور منقش بنایا گیا ہو ۔
عن سفينة أن رجلاضاف علی ابن ابی طالب فصنع له طعاماً فقالت فاطمةؓ لو دعونا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذاكل معنا فدعوه فجاء فوضع يديه على عضادق الباب فراى القرام قد ضرب ناحية البيت فرجع قالت فاطمةؓ فتبعته فقلت يا رسول الله ما ردك قال انه ليس لي اولنبي ان يدخل بيتًا مزوقًا - رواه أحمد وابن ماجة
[مشكٌوة شريف صفحہ 278 الفصل الثانی باب الوليمة]
واقعہ ہذا سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنجنابﷺ کے ہاں دنیاوی زینت کی کوئی وقعت نہیں بلکہ اس سے نفرت تھی نیز یہ معلوم ہوا کہ جس مقام میں کوئی غیر شرعی امر پایا جائے وہاں کی دعوت میں شامل ہونا ٹھیک نہیں ہے۔
سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے محبت رکھنے کی ترغیب
ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ دیگر ازواجِ مطہراتؓ نے سیدہ فاطمہؓ کو ایک کام کے لیے آنجنابﷺ کی خدمت اقدس میں بھیجا۔ آنجنابﷺ سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے گھر میں تشریف فرما تھے تو اس کام کے متعلق گفتگو ہوئی۔ نبی اقدسﷺ نے سیدہ فاطمہؓ سے فرمایا:
الى بنية الست تحبين ما احب قالت بلٰى قال فأحبى هٰذہٖ
یعنی اے میری بیٹی! جس کو میں محبوب رکھتا ہوں کیا تو اسے محبوب نہیں رکھتی؟ تو سیدہ فاطمہؓ نے عرض کیا کیوں نہیں! میں محبوب رکھتی ہوں ۔ تو آنجنابﷺ نے فرمایا کہ عائشہؓ کے ساتھ محبت رکھنا۔
[¹· مسلم شریف صفحہ 285 جلد 2 باب فضائل عائشہؓ
²· السنن للنسائي صفحہ 78 جلد 2 كتاب عشرة النساء
³· مسند ابی یعلی الموصلی صفحہ 471 جلد رابع روایت 4934 تحت مسنداتِ عائشہ صدیقہؓ طبع جدید]
یہاں سے معلوم ہوتا ہے سیدہ فاطمہؓ سیدہ عائشہؓ کا احترام ام المؤمنین ہونے کی بنا پر لازماً کرتی تھیں اور اس کی آنحضرتﷺ نے انہیں تاکید کر رکھی تھی۔
ارشاد نبوی ہوا کہ عائشہؓ کے ساتھ محبت اور عمدہ سلوک قائم رکھنا۔ نبی کریمﷺ جس کو محبوب جانیں اس کو محبوب ہی رکھنا چاہیئے۔
یہ روایت اپنی تفصیل کے ساتھ "رحماء بينهم" حصہ صدیقی صفحہ 67،69 میں بھی آ چکی ہے۔
شکر رنجی کا ایک واقعہ
فتح مکہ کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ابو جہل کی لڑکی (جویریہ) کے ساتھ نکاح کا ارادہ کیا اس بات کی اطلاع سیدہ فاطمہؓ کو بھی ہو گئی آپؓ نے سخت رنجیدہ خاطر اور ناراض ہو کر اپنے والد شریف نبی اقدسﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور تمام ماجرا عرض کیا۔ یہ واقعہ سن کر نبی کریمﷺ نے لوگوں میں ایک مستقل خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے ان کو ایذاء پہنچانا گویا مجھے ایذاء پہنچانا ہے اور فرمایا کہ مجھے خوف ہے کہ فاطمہؓ (غیرت کی وجہ سے) اپنے دین کے معاملہ میں فتنہ میں مبتلا نہ ہو۔ اور جو چیز فاطمہؓ کو بری لگے وہ ناپسند ہے۔ اور پھر بنی عبد شمس میں سے اپنے داماد ابو العاصؓ کا ذکر فرمایا کہ میں نے ان کو اپنی دختر نکاح کر کے دی تھی۔ اس نے میرے ساتھ جو بات کی وہ سچی کر دکھائی اور جو وعدہ کیا اسے پورا کیا۔ اور فرمایا کہ میں اپنی طرف سے حلال کو حرام نہیں کرتا اور نہ کسی حرام کو حلال کرتا ہوں لیکن اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ کے رسولﷺ کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک شخص کے نکاح میں جمع نہ ہوں گی۔ یہ روایت کرنے والے مسور بن مخرمۃ ذکر کرتے ہیں کہ جب ناراضگی کی یہ صورت پیدا ہو گئی تو سیدنا علیؓ نے ابو جہل کی بیٹی (جویریہ) سے نکاح کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
ان على بن أبي طالب خطب بنت أبي جهل على فاطمة فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس في ذلك على منبره - هذا وانا (مسور بن مخرمة) يومئذٍ محتمل فقال ان فاطمة منى وانا اتخوف ان تفتن في دينها ثم ذكر صهرً اله من بني عبد شمس فأثنٌى عليه في مصاهرتهٖ اياه قال حدثني فصدقني وعدنی فوقی لى واني لست احرم حلالاً ولا أحل حراماً ولكن الله لا تجمع بنتِ رسول الله وبنتِ عدو الله ابداً.
ان الفاظ کے بعد ایک دوسری روایت میں مزید الفاظ یہ ہیں کہ:
"عند رجل واحد فترك على خطبة"
[¹· بخاری شریف صفحہ 438 جلد اول تحت باب ما ذكر من درع النبيﷺ وعصاہ وسیفه.... الخ
²· بخاری شریف صفحہ 528 جلد اول تحت باب ذكرا مهار النبيﷺ منهم أبو العاص بن الربيع]
واقعہ ہذا بخاری شریف کے کئی دیگر مقامات میں بھی مذکور ہے مثلاً صفحہ 787 جلد ثانی ذب الرجل عن ابنتهٖ في الغيرة والانصاف میں مذکور ہے۔
آنجنابﷺ نے فرمایا کہ بنی ہشام بن مغیرہ نے اس چیز کی مجھ سے اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی لڑکی علیؓ بن ابی طالب کو نکاح کر دیں تو میں نے بالکل اجازت نہیں دی۔ یہ الفاظ بار بار فرماتے ہیں سیدہ فاطمہؓ اور آنجنابﷺ کی ناراضگی کے اندیشہ سے سیدنا علیؓ اس اقدام سے رک گئے۔ آپس میں صلح و مصالحت ہوئی اور معاملہ فرو ہو گیا۔
اس مقام میں ایک بات قابلِ وضاحت ہے اس کو ان شاءاللہ تعالیٰ ازالہ شہبات میں ذکر کیا جائے گا۔ ملحوظ رہے کہ زوجین (سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ ) کے درمیان متعدد دفعہ کشیدگی کی نوبت آتی رہی۔ بعض دفعہ سردارِ دو عالمﷺ تشریف لاتے اور زوجین کے درمیان صلح و آشتی کی صورت پیدا فرما دیتے تھے۔
اس نوع کے واقعات فریقین (سنی و شیعہ) کی کتابوں میں دستیاب ہیں۔ اور یہ ازدواجی زندگی کا لازمہ ہے کہ اس طرح کے معاملات آپس میں پیش آتے رہتے ہیں۔ ایک اور دفعہ بھی اسی طرح باہم رنجیدگی ہوئی سیدنا علیؓ نے کچھ قدرے سختی کی اور سیدہ فاطمہؓ شکوہ لے کر جناب نبی کریمﷺ کی خدمت میں آئیں تو آنجنابﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے بیٹی! تم کو اپنے خاوند کی اطاعت و فرمانبرداری کرنی چاہیئے اور یہ سمجھ لے کہ ایسی کونسی عورت ہے کہ جس کے پاس اپنا شوہر خاموشی سے چلا آئے؟؟ یعنی اس کو تنبیہ وغیرہ کا حق ہوتا ہے۔
[¹· طبقات ابنِ سعد صفحہ 16 جلد 8 تذکرہ فاطمہؓ
²· الاصابه صفحہ 398 جلد 4 تذکره فاطمہؓ]
عملِ صالح کی تاکید
نبی اقدسﷺ کے مرض الوفات میں آنجنابﷺ نے متعدد وصایا اور فرامین ذکر فرمائے اور ان پر عمل کرنے کی امت کو بڑی تاکید فرمائی تھی۔ ان ہدایات کو وصایا نبویﷺ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ محدثین اور اہلِ سیرت نے ان کو اپنے اپنے مقام میں ذکر کیا ہے یہاں ماقبل کے مضمون کی مناسبت سے اس مقام میں صرف سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ صفیہؓ بنتِ عبدالمطلب کو جو وصیت فرمائی تھی اسے بیان کیا جاتا ہے۔ آنجنابﷺ نے دیگر چیزوں کے ساتھ ان دونوں (سیدہ فاطمہؓ اور صفیہؓ) کو عملِ صالح کی تاکید فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
يا فاطمة بنتِ رسول الله يا صفية عمة رسول الله! اعملا - لما عند الله اني لا اغنى عنكما من الله شيئا ... الخ
یعنی اے فاطمہؓ اور اے صفیہؓ! اللہ تعالیٰ کے ہاں جو محاسبہ ہو گا۔ اس کی خاطر تم دونوں عمل کی تیاری کریں۔ میں تم کو اللہ تعالیٰ کے ہاں حساب میں نفع نہیں دوں گا۔
[طبقات ابنِ سعد صفحہ 46 جلد 2 قسم ثانی ذکر ما اوصاء بهٖ رسول اللہﷺ في مرضه الذي مات فيه]
اس وصیت کا ہر ایک کی عملی زندگی کے ساتھ خصوصی تعلق ہے آنحضر ﷺ بتلا رہے ہیں کہ:
1- محاسبۂ شرعی ہر ایک سے ہوگا۔
2- ہر مومن مرد اور ہر مومن عورت کے لیے (ایمان کے بعد ) عمل کی تیاری لازم ہے۔
3- حسب و نسب پر اعتماد کر کے اعمالِ صالحہ میں کوتاہی کرنا جائز نہیں ہے۔
باقی قیامت میں شفاعت کا مسئلہ وہ مستقل چیز ہے اور وہ اپنے مقام پر صحیح ہے وہ باِذن اللہ ہوگی۔ اس فرمان سے شفاعت کی نفی ہرگز مقصد نہیں ہے۔
راز دارانہ گفتگو
نبی اقدسﷺ کے آخری ایام میں ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ جس کو سیدہ عائشہ صدیقہؓ نے ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ سردار دو عالمﷺ گھر میں تشریف فرما تھے اور ہم آپ کے پاس موجود تھیں۔ سیدہ فاطمہؓ تشریف لائیں اور اس وقت نبی اقدسﷺ کی اولاد میں سے صرف ایک سیدہ فاطمہؓ ہی زندہ موجود تھیں، ان کی باقی تمام اولاد قبل از میں فوت ہو چکی تھی۔
سیدہ فاطمہؓ کا انداز رفتار اپنے والد شریفﷺ کی رفتار کے موافق تھا جس وقت آنجنابﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو دیکھا تو مرحبا فرمایا اور انہیں اپنے پاس بٹھا لیا۔ پھر ان کے ساتھ آنجنابﷺ نے سرگوشی فرمائی تو آپؓ بے ساختہ رونے لگیں جب آنحضرتﷺ نے ان کی غمگینی دیکھی تو دوبارہ سرگوشی فرمائی۔ اس دفعہ سیدہ فاطمہؓ ہنسنے لگیں۔
جب نبی اقدسﷺ اس مجلس سے تشریف لے گئے تو سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے سیدہ فاطمہؓ سے وہ بات دریافت کی جس کے متعلق سرگوشی ہوئی تھی۔ تو سیدہ فاطمہؓ کہنے لگیں کہ نبی اکرمﷺ کی رازدارانہ بات کو میں افشار اور اظہار کرنا نہیں چاہتی۔
اس کے بعد جب آنحضرتﷺ کا انتقال ہو گیا تو میں نے سیدہ فاطمہؓ کو اس حق کی قسم دلا کر بات کی جو میرا ان پر ہے کہ آپؓ مجھے ضرور خبر دیں تو اس وقت سیدہ فاطمہؓ نے کہا کہ آنجنابﷺ نے پہلی مرتبہ میرے ساتھ سرگوشی فرمائی تو آنجنابﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل علیہ السلام ہر سال ایک دفعہ آکر قرآن مجید میں معارضہ کرتے یعنی مجھے قرآن مجید سناتے اور مجھ سے سنتے اور اس سال دو بار مجھے انہوں نے قرآن مجید سنا اور سنایا ہے۔ میں اس سے یہی خیال کرتا ہوں کہ میری وفات قریب آ گئی ہے۔ اے فاطمہؓ ! اللہ سے خوف کھانا اور صبر اختیار کرنا۔ میں تیرے لئے بہترین پیش رہوں گا۔ پس میں یہ سن کر رونے لگی ۔ جب آنجنابﷺ نے میری گبھراہٹ اور پریشانی دیکھی تو آنجنابﷺ نے دوبارہ سرگوشی فرما کر مجھے فرمایا کہ اے فاطمہؓ! تم اس بات کو پسند نہیں کرتی کہ تم اہلِ جنت کی عورتوں کی سردار ہو یا مؤمنوں کی عورتوں کی سردار ہو۔ اور بعض روایات میں آتا ہے کہ آنجنابﷺ نے مجھے خبر دی کہ اسی مرض میں اللہ تعالیٰ کی طرف رحلت کر جاؤں گا پس میں گریہ کرنے لگی پھر آپ ﷺ نے سرگوشی فرمائی اور فرمایا کہ اے فاطمہؓ! تم میرے اہلِ بیتؓ میں سے پہلی شخصیت ہو جو میرے پیچھے آئے گی۔ یہ سن کر میں خنداں ہوئی۔ (متفق علیہ)
[مشکٰوة شريف صفحہ 568 طبع نور محمدی دہلی - باب مناقب اہلِ البيت الفصل الاول]
ناظرین کرام کو معلوم ہونا چاہیے کہ :۔
یہ واقعہ آخری ایامِ نبویﷺ کا ہے۔ اس کے بعد جلد ہی آنجنابﷺ کا وصال ہو گیا تھا۔ سیدہ فاطمہؓ کی فضیلت و بزرگی جس روایت سے ثابت ہوتی ہے وہ سیدہ عائشہ صدیقہ اُم المؤمنینؓ سے مروی ہے اور آپؓ کے ذریعے ہی امت کو معلوم ہوئی ہے سیدہ ام المؤمنینؓ اسے پوری کوشش کے ساتھ سیدہ فاطمہؓ سے دریافت کر کے اس بات کو منظرِ عام پر لائی ہیں۔
نیز ان پاک دامن طیبات مخدراتؓ کے باہم تعلقات اور ایک دوسرے کے ساتھ روابط آخری ایام تک عمدہ طریق سے قائم تھے۔ ان کی باہمی آمد و رفت ہوتی تھی۔ ایک دوسرے کا لحاظ اور احترام ان میں موجود تھا۔
میراثِ فدک وغیرہ کے مسائل نے ان حضرات کے درمیان کوئی انقباض نہیں پیدا کیا اور نہ ہی ان کے قلوبِ صافیہ اس وجہ سے مکدر ہوئے۔
انتقالِ نبویﷺ پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ کا اظہارِ غم
گذشتہ واقعہ میں یہ بات ذکر کر دی گئی تھی کہ آنجنابﷺ کی بیماری کی حالت میں مذکورہ کلام سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ ہوئی تھی یہ آخری ایام تھے۔ نبی کریمﷺ پر بیماری کا غلبہ تھا۔ جب مرض شدت اختیار کر گیا تو سیدہ فاطمہؓ پریشانی کے عالم میں کہنے لگیں کہ "واکرب اباه" (افسوس! ہمارے والد صاحب کی تکلیف) اس وقت آنجنابﷺ نے فرمایا کہ "آج کے بعد تیرے والد پر کوئی تکلیف نہیں۔"
پھر آنجنابﷺ کا ارتحال ہو گیا اور آپﷺ دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف انتقال فرما گئے ۔ (اللهم صلی علی محمد و على آل محمد و بارك وسلم)
آنجنابﷺ کا وصال امت کے لئے مصیبت عظمیٰ تھی اور اس چیز کا رنج و الم تمام اہلِ اسلام کے لئے نا قابل برداشت صدمہ تھا۔ آنجنابﷺ کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن تمام اقرباء اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر دہشت اور پریشانی کی کیفیت طاری تھی جس کی تفصیلات حدیث اور سیرت کی کتابوں میں بڑی وضاحت سے درج ہیں ۔
ہم اس مقام میں صرف سیدہ فاطمہؓ کے متعلق، ذکر کر رہے ہیں۔ اس بنا پر باقی حضرات کے ہم وغم کی کیفیاتِ شدیدہ یہاں ذکر نہیں کی گئیں۔
آنجنابﷺ کے وصال ہو جانے کے بعد اظہارِ تاسف کے طور پر سیدہ فاطمہؓ فرماتی تھیں کہ:
"اے باپ! آپ نے اپنے رب کی دعوت قبول کی۔ اے باپ! جنت الفردوس آپﷺ کا ٹھکانہ ہوگا۔ اے باپ ! ہم جبرائیل علیہ السلام کو آپ کے انتقال کی خبر دیتے ہیں۔"
اس کے بعد آنجنابﷺ کے کفن دفن اور جنازہ کے مراحل گزرے اور سیدہ عائشہ صدیقہؓ کے حجرہ مبارکہ میں آنجنابﷺ دفن ہوئے آپﷺ کے دفن کے بعد حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم واپس ہوئے خادمِ نبی انس بن مالکؓ سے سیدہ فاطمہؓ دریافت فرمانے لگیں اور ازراہِ تحسر و افسوس سوال کیا کہ :
یا انس ! اطابت انفسكم أن تحثوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم التراب : (رواه البخاري)
یعنی اے انسؓ! آنجنابﷺ کے جسم مبارک پر مٹی ڈالنا تم لوگوں کو کس طرح اچھا معلوم ہوا؟ اور کس طرح تم نے آنجناب پر مٹی ڈالنا گوارہ کرلیا ہے" (انا الله وانا اليه راجعون)
[¹· مشكٰوة شريف صفحہ 547 الفصل الأول عن انس باب وفات النبیﷺ طبع نور محمدی دہلی
²· السنن للدارمی صفحہ 23 مطبع نظامی کانپوری باب وفات النبيﷺ]
حضورﷺ کی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وصیت
جناب نبی کریمﷺ نے آخری اوقات میں سیدہ فاطمہؓ کو متعدد وصایات فرمائی تھیں۔ ان میں سے ایک خصوصی وصیت "ماتم" سے منع کرنے کے متعلق تھی کہ میرے وصال پر کسی قسم کا مروجہ ماتم نہ کیا جائے۔
چنانچہ اس وصیت نبویﷺ کو شیعہ کے متعدد اکابر علماء نے اپنی اپنی سند کے ساتھ اپنے ائمہ کرام سے نقل کیا ہے۔ سطور ذیل میں اس پر چند حوالہ جات ان کی معتبر تصانیف سے درج کیئے جاتے ہیں۔ بغور ملاحظہ فرمائیں۔
1_ محمد ابنِ یعقوب کلینی رازی نے سیدنا محمد باقرؒ سے فرمانِ نبویﷺ نقل کیا ہے کہ
ان رسول الله صلى الله عليه والهٖ قال فاطمة عليها السلام اذا انا مت فلا تخمشي على وجها ولا ترخى على شعرًا ولا ولا تنادي بالويل ولا تقيمي على نائحة۔
[ فروغ کافی صفحہ 228 جلد 2 كتاب النكاح باب صفة مبايعة النبيﷺ النساء - طبع نول کشور لکھنؤ۔]
2- اور مشہور فاضل شیخ صدوق نے اپنی تصنیف "معانی الاخبار" میں یہی فرمانِ نبویﷺ سیدنا محمد باقرؒ سے نقل کیا ہے:
قال ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لفاطمة اذا انا مت فلا تخمشى على وجهًا ولا ترخى على شعرا ولا تنادي بالويل ولا تقيمى على نائحة
[کتاب معانی الاخبار للشيخ الصدوق صفحہ 111 باب 245 طبع قدیم، ایران]
وصیت ہذا کا مفہوم مثلاً باقر مجلسی نے اپنی مشہور تصنیف "حیات القلوب" میں بعبارت ذیل تحریر کیا ہے۔
3- ابنِ بابویہ القمی بسند متبر انه امام محمد باقرؒ روایت کرده است که حضرت رسول در هنگام وفات خود بحضرت فاطمه گفت که اے فاطمہ! چوں بمیرم روئے خود را برائے من مخراش و گیسوئے خو را پریشان مکن و واویلا مگو و بر من نوحہ مکن ونوحہ گراں را مطلب
[حیات القلوب از ملا باقر مجلسی صفحہ 852 جلد 2 باب شصت و سوئم در وصیت حضرت رسول علیہ السلام طبع نول کشور لکھنؤ۔]
مندرجہ بالا روایات کا مفہوم یہ ہے کہ :
سیدنا محمد باقرؒ فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے اپنی وفات کے وقت میں سیدہ فاطمہؓ کو بطور وصیت فرمایا کہ اے فاطمہؓ! جب میرا انتقال ہو جائے تو میری وجہ سے (میرے غم میں) اپنے چہرے کو نہ نوچنا اور اپنے بالوں کو پریشان نہ کرنا اور واویلا نہ کرنا اور مجھ پر نوحہ اور بین نہ کرنا ور نہ ہی نوحہ کرنے والیوں کو بلانا۔
فائدہ
اس وصیت میں سردارِ دو جہاںﷺ نے مروجہ ماتم کے جمیع اقسام (چہرہ نوچنا اور پیٹنا، بال کھولنا، واویلا کرنا، بین کرنا اور نوحہ خوانی کرنا وغیرہ) سے تاکیداً منع فرمایا ہے۔ گویا سیدہ فاطمہؓ کی وصیت سے تمام امت کو یہ وصیت فرما دی گئی ہے کہ جتنے بھی اہم مصائب مومن کو پیش آئیں ان میں صبر اور استقامت پر رہے۔ اور بے صبری کی ہمہ اقسام سے اجتناب کریں۔
اور اس وصیتِ نبویﷺ کے موافق سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللّٰہ عنہ سے مصائب پر صبر کرنے کی وصیت اور جمیع اقسام ماتم سے اجتناب کرنے کی نصیحت منقول ہے۔
نیز سیدنا حضرت حسینؓ سے میدانِ کربلا میں اپنی گرامی قدر خواہر زینب رضی اللہ عنہا کو صبر کرنے کی تلقین اور ہر طرح کے ماتم سے منع مروی ہے۔ جناب سیدنا زین العابدینؒ اور باقی ائمہ معصومین سے بھی مروجہ ماتم کی نفی شیعہ کتب میں موجود ہے۔
مؤمنین کرام کو ان وصایات اور ائمہ کے فرامین کو نہیں بھولنا چاہیئے۔ اگر اس چیز کی تسلی مطلوب ہو تو اپنی کتب کی طرف رجوع فرما لیں ہم نے اس مسئلہ کو حوالہ جات دیکھ لینے کے بعد درج کیا ہے۔
وصالِ نبویﷺ کے بعد کا دور
جب سردارِ دو عالمﷺ کا وصال ہوا تو یہ سیدہ فاطمہؓ کے لئے طبعی طور پر ایک مشکل دور تھا۔ سیدہ فاطمہؓ کی والدہ ماجدہ سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ ان کی نو عمری میں ہی فوت ہو چکی تھیں اور بہنیں بھی آنجنابﷺ کے عہد مبارک میں فوت ہو گئیں۔ اس کے بعد خود آنجنابﷺ کا وصال ان کے لئے ایک عظیم صدمہ تھا۔ اس میں سیدہ فاطمہؓ نے بڑے صبر و استقلال سے کام لیا۔ اور آنجنابﷺ کے بعد چند ماہ ہی زندہ رہیں جس کی تفصیل آئندہ اوراق میں ذکر ہو گی۔
اس مختصر دور میں چند ایک چیزیں جو سیدہ فاطمہ ؓ کو پیش آئیں ان کو ایک ترتیب سے پیش کیا جاتا ہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا مالی مطالبہ
نبی اقدسﷺ کے وصال کے بعد آنجنابﷺ کے بلا فصل خلیفہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ منتخب ہوئے ۔ آپؓ کے خلیفہ منتخب ہونے پر اکابر بنی ہاشم سمیت جمہور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اتفاق کیا اور آپؓ خلافت کے فرائض سرانجام دینے لگے ۔ خلیفۂ وقت ہی پنجگانہ نماز مسجدِ نبویﷺ میں پڑھایا کرتے اور مدینہ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بنی ہاشم سمیت ان کی اقتدار میں نماز پڑھتے۔ جمعہ اور دیگر اجتماعات بھی ان کے انتظام کے تحت منعقد ہوتے تھے اور امت کے مسائل اور تنازعات کے فیصلے بھی خلیفۂ رسولﷺ کے فرمان کے مطابق ہوتے تھے۔
ان ایام میں سیدہ فاطمہؓ کی طرف سے مالِ فئے کے متعلق ایک مالی حقوق کا مطالبہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی خدمت میں پیش ہوا۔ فدک کی آمدنی اسی مال فئے میں سے تھی۔ اس مطالبہ میں سیدہ فاطمہؓ کا موقف یہ تھا کہ مالِ فئے سے جس طرح ہمیں عہدِ نبویﷺ میں حصہ ملتا رہا ہے وہ مال اب ہمیں بطورِ میراث ملنا چاہیئے۔
اس کے جواب میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ان کو نبی کریمﷺ کے اس فرمان کی طرف توجہ دلائی جس میں نبی اقدسﷺ نے فرمایا ۔
نحن معاشر الانبياء لا نورث ما تركنا فهو صدقة
یعنی نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ہم انبیاء کی جماعت ہیں۔ ہماری وراثت نہیں چلتی بلکہ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ (اور اللہ کی راہ میں مسلمانوں کے لیے وقف ہوتا ہے) البتہ مالِ فئے سے جو حصہ نبی کریمﷺ کے عہد میں آپ حضرات کو دیا جاتا تھا وہ بدستور جاری رہے گا۔
اس مطالبۂ میراث کے تسلی بخش جواب حاصل ہونے پر سیدہ فاطمہؓ خاموش ہو گئیں اور پھر پوری زندگی آپؓ نے کوئی مطالبہ نہیں پیش کیا۔
مسئلہ ہذا کے متعلق آئندہ اوراق میں کچھ مزید وضاحت درج کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ ، تھوڑی سی انتظار فرمائیں۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں ایک بشارت کی خبر دینا
سیدہ فاطمہؓ کا تعلق خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ نہایت خوشگوار تھا۔ اور ان حضرات کی باہمی کشیدگی نہیں تھی۔
مذکورہ بالا مطالبہ (مالی میراث) کے بعد سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ کچھ ملال نہیں رکھتی تھیں اس کی تائید میں مندرجہ ذیل واقعہ درج کیا جاتا ہے۔
چنانچہ ایک بار سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ہاں تشریف لے گئیں ۔ وہاں ان دونوں حضرات کی گفتگو ہوئی اسی دوران سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کو نبی کریمﷺ کی خاص بشارت سنائی وہ یہ تھی کہ سیدہ فاطمہؓ فرماتی ہیں کہ۔
"نبی اقدسﷺ نے میرے حق میں یہ بشارت فرمائی تھی کہ آنجنابﷺ کے بعد آپ کے اہلِ بیتؓ میں پہلی شخصیت ہوں گی جو آپ کے ساتھ لاحق ہوں گی۔"
قال دخلت فاطمة على أبي بكر فقالت اخبرني رسول الله صلى الله وسلم انى اول اهله لحوقاً به
[مسند أحمد صفحہ 283 جلد 6 تحت مسنداتِ فاطمه بنت رسول اللهﷺ ]
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی امامہ رضی اللہ عنہا کے حق میں وصیت
امامة بنت ابی العاصؓ سیدہ زینبؓ کی صاحبزادی اور سیدہ فاطمہؓ کی سگی بھانجی تھیں ۔ سیدہ زینبؓ کے حالات میں اس پر مختصراً لکھا جا چکا ہے۔
فاطمہؓ نے اپنے آخری ایام میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کو امامہؓ کے متعلق وصیت فرمائی کہ میرے بعد آپؓ شادی کرنا چاہیں تو میری بھانجی امامہؓ کو نکاح میں لے لینا۔ یہ وصیت متعدد علماء نے ذکر کی ہے ۔ ہم یہاں سے "اسد الغابہ" سے نقل کر رہے ہیں۔ چنانچہ ابن اثیر جزریؒ لکھتے ہیں کہ
ولما كبرت امامة تزوجها على بن أبی طالب رضی الله عنه بعد موت فاطمة عليها السلام وكانت وصت علياً ان يتزوجها فلما توفيت فاطمة تزوجها
[اسد الغابة في معرفة الصحابه صفحہ 400 جلد 5تحت امامة بنت أبی العاصؓ بن الربيع]
یعنی جب امامہؓ جوان ہو گئیں تو ان سے علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی وفات کے بعد شادی کی۔ سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا علیؓ کو وصیت کی تھی کہ آپ ان کے ساتھ شادی کر لینا۔ جب سیدہ فاطمہؓ کا انتقال ہو گیا تو سیدنا علیؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی وصیت کے مطابق ان سے شادی کی
"شیعہ کی جانب سے تائید"
مذکورہ وصیت اور اس پر عمل درآمد کے متعلق شیعہ علماء نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ اور با سند کتابوں میں اس وصیت کا اندراج کیا چنانچہ فروع کافی میں مذکور ہے :
عن أبي جعفر علیه السلام قال أوصت فاطمة إلى على عليه السلام ان يتزوج ابنة اختها ا من من بعدها بعدها ففعل
[فروع کافی صفحہ 243 جلد 2 مطبع نول کشور لکھنؤ باب النوادر]
یعنی سیدنا محمد باقرؒ سے منقول ہے وہ فرماتے ہیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو سیدنا فاطمہؓ نے وصیت کی تھی کہ میری بہن کی بیٹی سے میرے بعد آپ شادی کر لینا۔ پس سیدنا علیؓ نے وصیت پر عمل کرتے ہوئے (امامہؓ بنت ابی العاص بن ربیعؓ سے) شادی کی۔
قبل ازیں شیعہ کتب سے اس مسئلہ پر متعدد حوالے امامہؓ کے حق میں سیدہ فاطمہؓ کی وصیت کے عنوان کے تحت سیدہ زینبؓ کے حالات میں بھی درج کیئے جاچکے ہیں ۔ وصیت ہذا کا یہاں مختصراً ذکر کر دیا ہے۔
تفصیل مطلوب ہو تو اسی کتاب میں سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کے حالات کے تحت اس کو ملاحظہ فرمائیں۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی مرض الوفات اور ان کی تیمارداری
پہلے بھی یہ بات ذکر ہو چکی ہے کہ سردارِ دو عالمﷺ کے وصال کے بعد سیدہ فاطمہؓ نہایت مغموم رہتی تھیں اور یہ ایام انہوں نے صبر و سکون کے ساتھ پورے کیے۔ علماء لکھتے ہیں ان کی عمر مبارک اٹھائیس یا انتیس برس کی تھی آپؓ کی اولاد شریف بیٹے اور بیٹیاں صغیر السن تھے آپؓ کی تیمارداری کے لیے اسماء بنتِ عمیسؓ جو خلیفۂ اول صدیقِ اکبرؓ کی زوجہ محترمہ تھیں تشریف لاتیں اور خدمات سرانجام دیتی تھیں۔
اسماء بنت عمیسؓ وہ خوش بخت خاتون ہیں جو قبل ازیں سیدنا جعفر طیارؓ کے نکاح میں رہیں ان سے ان کی اولاد بھی ہوئی تھی مگر جب جعفر طیارؓ غزوۂ موتہ میں شہید ہو گئے تو ان کے بعد ان کا نکاح سیدنا صدیق اکبرؓ سے ہوا۔ وصالِ نبویﷺ کے بعد سیدہ فاطمہؓ بیمار ہوئیں تو ان کی تیمارداری میں سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کا خصوصی حصہ تھا۔ اسماءؓ اس وقت سیدنا ابوبکر صدیقؓ خلیفۂ اول کے نکاح میں تھیں آپؓ کی وفات کے بعد سیدہ اسماءؓ نے سیدنا علیؓ سے نکاح کیا۔
"شیعہ کی طرف سے تائید"
ہمارے علماء نے سیدہ فاطمہؓ کی بیماری اور اسماء بنتِ عمیسؓ کی تیمار داری کا تذکرہ اس مقام میں ذکر کیا ہے ۔ لیکن اس مسئلہ کو شیعہ علماء بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی زوجہ محترمہ اسماء بنتِ عمیسؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی آخری ایام میں تیمارداری کی خدمات سرانجام دیں ۔ شیخ طوسی نے اپنی تصنیف، الامالی میں تصریح کر دی ہے سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدہ فاطمہؓ کی تیمار داری کرتے تھے اور وتعينه على ذالك اسماء بنت عميس رحمهما الله على استمرار بذلك.... الخ
یعنی اسماء بنتِ عمیسؓ سیدہ فاطمہؓ کی تیمار داری کے معاملہ میں سیدنا علی المرتضیٰؓ کی معاونت اور امداد کرتی تھیں اور یہ کام اسماءؓ نے آخری اوقات تک سر انجام دیا۔
[كتاب الامالي "للشيخ محمد بن حسن الطوسي صفحہ 107 جلد اول تحت الجزاء الرابع]
شیخین کی طرف سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیمار پُرسی
شیعہ کے متقدمین علماء میں سے مشہور و معروف عالم سلیم ابنِ قیس نے اپنی تصنیف میں ذکر کیا ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ مسجد نبویﷺ میں پانچوں نمازیں (با جماعت) ادا فرمایا کرتے تھے (یہ خلافتِ ابوبکر صدیقؓ کا دور ہے)
ایک روز جب آپؓ نماز پڑھ چکے تو سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ نے سیدنا على المرتضیٰؓ سے کہا کہ نبی کریمﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا کیا حال ہے؟ اور مزاج کی کیا کیفیت ہے؟ ......... الخ
وكان يصلى في المسجد الصلوات الخمس فلما صلى قال له ابو بكر وعمر كيف بنتّ رسول الله (صلى الله عليه وسلم إلى أن ثقلت فسألا عنها.
[کتاب سلیم بن قیس صفحہ 224، 225 مطبوعہ حیدریہ
(نجف اشرف)]
روایت مذکورہ بالا سے واضح ہوا کہ:
1- سیدنا علی المرتضیٰؓ روز پنجگانہ نمازیں مسجد نبوی میں باقی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے ساتھ مل کر سیدنا ابو بکر صدیقؓ کی اقتداء میں ادا فرماتے تھے۔
2- سیدہ فاطمہ کی بیماری کا سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمرؓ کو علم تھا اس لئے وہ ان کی عیادت اور بیمار پُرسی کیا کرتے تھے۔
3- حضراتِ شیخین رضی اللہ عنہما اور سیدنا علیؓ کا باہم کلام کرنا۔ حال احوال معلوم کرنا خانگی خیر خیریت دریافت کرنا جاری رہتا تھا اور کسی قسم کا مقاطعہ یا باہمی بائیکاٹ وغیرہ نہ تھا۔
یہ چیز قبل ازیں اپنی کتاب "رحماء بينهم" حصہ اول ہی میں ہم نے ذکر کر دی ہے۔ تفصیلات وہاں ملاحظہ فرمائی جاسکتی ہیں۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال
نبی کریمﷺ کے وصال کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہؓ بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہیں۔ پھر تین رمضان المبارک 11ہجری میں منگل کی شب ان کا انتقال ہوا۔ اس وقت ان کی عمر مبارک علماء نے اٹھائیس یا انتیس برس ذکر کی ہے۔ سیدہ فاطمہؓ کے سن وفات اور ان کی عمر کے تعین میں سیرت نگاروں نے متعدد اقوال لکھے ہیں ہم نے یہاں مشہور قول کے مطابق تاریخ انتقال اور مدت عمر درج کی ہے۔
[¹·البداية والنهاية صفحہ 334 جلد 6 تحت حالات سن11ہجری
²· وفاء الوفاء للسمهودی صفحہ 905 جلد 3 تحت عنوان قبر فاطمه بنت رسول اللهﷺ ]
سیدہ فاطمہؓ نبی کریمﷺ کی بلا واسطہ آخری اولاد تھیں جن کا انتقال اب ہوا ۔ ان کے بعد آنجنابﷺ کی کوئی بلا واسطہ اولاد باقی نہ رہی اور سردارِ دو جہاںﷺ کی جو ایک نشانی باقی رہ گئی تھی وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں پہنچ گئی۔
سیدہ فاطمہؓ کا انتقال اور ارتحال خصوصاً اس وقت کے اہلِ اسلام کے لئے ایک عظیم صدمہ تھا۔ جو مدینہ منورہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین موجود تھے ان کے غم و الم کی انتہا نہ رہی اور ان کی پریشانی حد سے متجاوز ہو گئی۔ تمام اہلِ مدینہ اس صدمہ سے متاثر تھے خصوصاً مدینہ طیبہ میں موجود صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس صدمہ کبریٰ کی وجہ سے نہایت غم گین تھے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا غم گین ہونا اس وجہ سے بھی نہایت اہم تھا کہ ان کے محبوب کریمﷺ کی بلا واسطہ اولاد کی نسبی نشانی اختتام پذیر ہو گئی تھی۔ اب صرف آپﷺ کے ازواجِ مطہرات و امہات المؤمنینؓ آنجنابﷺ کی نشانی باقی رہ گئے تھے۔ ان حالات میں سب حضرات کی خواہش تھی کہ ہم اپنے نبی اقدسﷺ کی پیاری صاحبزادی کے جنازہ میں شامل ہوں اور اس سعادت عظمیٰ سے بہرہ اندوز ہوں۔ سیدہ فاطمہؓ کا بعد از مغرب اور قبل العشاء انتقال ہونا علماء نے ذکر کیا ہے ۔ اس مختصر وقت میں جو حضرات موجود تھے وہ سب جمع ہوئے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا غسل اور اسماء بنتِ عمیس رضی اللہ عنہا کی خدمات
سیدہ فاطمہؓ نے قبل از وفات سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی زوجہ محترمہ اسماء بنتِ عمیسؓ کو یہ وصیت کی تھی کہ آپؓ مجھے بعد از وفات غسل دیں اور سیدنا علیؓ ان کے ساتھ معاون ہوں۔
چنانچہ حسبِ وصیت اسماء بنتِ عمیسؓ نے آپؓ کے غسل کا انتظام کیا ان کے ساتھ غسل کی معاونت میں بعض اور بیبیاں بھی شامل تھیں مثلاً آنحضرتﷺ کے غلام ابو رافعؓ کی بیوی سلمیٰؓ اور امِ ایمنؓ وغیرہ۔ سیدنا علی المرتضیٰؓ اس سارے انتظام کی نگرانی کرنے والے تھے۔
[¹· اسد الغابه صفحہ478 جلد 5 تحت سلمىٰ امراة ابی رافعؓ
²· البداية والنهاية صفحہ 333 جلد 6 تحت حالات 11ہجری
³· حلية الاوليا لا بي نعيم الاصفہانہ صفحہ 43 جلد 2 تحت تذکرہ فاطمہؓ]
سیدہ فاطمہؓ کے بعض وصایا جو غسل واغتسال کے متعلق پائے جاتے ہیں ان میں بعض چیزیں بالکل قابلِ اعتبار نہیں ہیں۔
چنانچہ علماء نے اس موقعہ پر فرمایا ہے کہ :۔
وما روى من انها اغتسلت قبل وفاتها و اوصت ان لا تغسل بعد ذالك فضعيف لا يعول عليه- والله اعلم
[البداية والنہا ية صفحہ 333 جلد 6 تحت ذكر من توفی هذه السنة (سن 11ہجری) ]
مطلب یہ ہے کہ بعض روایات میں جو آیا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے اپنے انتقال سے قبل غسل کر لیا تھا اور وصیت فرمائی تھی کہ مجھے اس کے بعد غسل نہ دیا جائے یہ ضعیف ہے اس قسم کی باتوں پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا (اس کی وجہ ضعف ابنِ اسحاق کا تفرد ہے)
غسل کے متعلق وہی چیز صحیح ہیں جو اوپر ذکر کر دی گئی ہیں یعنی اسماء رضی اللہ عنہا اور دیگر خواتین نے مل کر حسبِ قاعدہ شرعی بعد از وفات غسل سر انجام دیا تھا۔ اس لئے کہ میت کے لئے اسلام کا قاعدہ شرعی یہی ہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی نمازِ جنازہ اور شیخین رضی اللہ عنہما کی شمولیت
غسل اور تجہیز و تکفین کے مراحل کے بعد سیدہ فاطمہؓ کے جنازہ کا مرحلہ پیش آیا تو آنمحترمہؓ کے جنازہ پر خلیفۂ اول سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر ؓ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو اس موقعہ پر موجود تھے، تشریف لائے سیدنا علی المرتضیٰؓ کو صدیقِ اکبرؓ نے فرمایا کہ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں۔ جواب میں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے ذکر کیا کہ آنجناب خلیفۂ رسول اللہﷺ ہیں آپؓ کی موجودگی میں جنازہ پڑھانے کے لیے پیش قدمی نہیں کر سکتا۔ نمازِ جنازہ پڑھانا آپؓ ہی کا حق ہے آپؓ تشریف لائیں اور جنازہ پڑھائیں اس کے بعد سیدنا صدیقِ اکبرؓ آگے تشریف لائے اور سیدہ فاطمہؓ کا چار تکبیر کے ساتھ جنازہ پڑھایا۔ باقی تمام حضرات نے ان کی اقتداء میں نمازِ جنازہ ادا کی ۔
یہ چیز متعدد مصنفین نے اپنی اپنی تصانیف میں باحوالہ ذکر کی ہیں چنانچہ چند ایک عبارتیں اہلِ علم کی تسلی خاطر کے لیے بعینہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں:-
عن حماد عن ابراهيم قال صلى ابوبكر الصديق على فاطمة بنتِ رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر عليها أربعاً
[طبقات ابنِ سعد صفحہ 19 جلد 8 تحت تذکرہ فاطمہؓ طبع لیڈن]
یعنی ابراہیم (النخعی) فرماتے ہیں کہ ابوبکر صدیقؓ نے فاطمہؓ بنتِ رسول اللہﷺ کا جنازہ پڑھایا اور اس پر چار تکبیریں کہیں۔
عن جعفر ابن محمد عن ابيه قال ماتت فاطمة بنت النبي صلى الله عليه وسلم فجاء ابو بكر وعمر ليصلوا فقال ابوبكر لعلی ابنِ ابی طالب تقدم فقال ما كنت لا تقدم وانت خليفة رسول الله صلى الله عليه وسلم فتقدم ابو بكر وصلى عليها الله
[كنز العمال صفحہ 318 جلد 6 حظ في رواة مالك طبع اول حیدر آباد دکن تحت فضل الصديقؓ المسندات علىؓ باب فضائل الصحابةؓ]
یعنی سیدنا جعفر صادقؒ اپنے والد سیدنا محمد باقرؒ سے ذکر فرماتے ہیں کہ محمد باقرؒ نے کہ نبی کریمﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ فوت ہوئیں تو ابوبکرؓ اور عمرؓ دونوں تشریف لائے تاکہ جنازہ کی نماز پڑھیں تو ابوبکرؓ نے علی المرتضیٰؓ کو فرمایا کہ آپ آگے ہو کر نماز پڑھائیے تو سیدنا علیؓ نے کہا کہ آپ خلیفۂ رسول اللہﷺ کے ہوتے ہوئے میں آگے نہیں ہوتا پس ابوبکر رضی اللہ عنہ آگے تشریف لائے اور سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ پڑھایا۔
3: اس مقام میں ایک تیسری روایت بھی درج کرنا مناسب ہے جو محب الطبری نے اپنی کتاب "ریاض النضرة “ میں ذکر کی ہے :-
عن مالك عن جعفر بن محمد عن ابيه عن جده على بن حسين قال ماتت فاطمة بين المغرب والعشاء محضرها أبو بكر وعمر وعثمان والزبير وعبد الرحمان بن عوف فلما وضعت ليصلى عليها قال على تقدم يا ابا بكر قال و انت شاهد يا ابا الحسن ؛ قال نعم ! تقدم فوالله لا يصلى -عليها غيرك فيصلى عليها أبو بكر رضى الله عنهم اجمعين و دفنت ليلا خرجه البصرى وخرجه ابن السمان في الموافقة
[رياض النضرة المحب الطبرى صفحہ 156 جلد اول تحت باب وفات الفاطمةؓ]
یعنی جعفر صادقؒ اپنے والد محمد باقرؒ سے اور وہ اپنے والد زین العابدینؒ سے روایت کرتے ہیں کہ مغرب اور عشاء کے درمیان فاطمہؓ کی وفات ہوئی ( ان کی وفات پر ) سیدنا ابوبکرؓ، عمرؓ، عثمانؓ، زبیرؓ اور عبدالرحمٰن بن عوفؓ تشریف لائے۔ جب نمازِ جنازہ کے لئے جنازہ سامنے رکھا گیا تو علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کہا کہ نماز پڑھانے کے لئے آگے تشریف لائیے تو صدیقِ اکبرؓ نے جواب دیا کہ اے ابوالحسنؓ کیا آپ کی موجودگی میں؟ حضرت علیؓ نے کہا کہ آپؓ آگے تشریف لائیے اللہ کی قسم آپؓ کے بغیر کوئی دوسرا شخص فاطمہؓ پر جنازہ نہیں پڑھائے گا ۔ پس ابوبکر صدیقؓ نے فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔ اور رات کو ہی سیدہ فاطمہؓ کو دفن کر دیا گیا ۔
4- طبقات ابنِ سعد میں ہے :
عن مجالد عن الشعبى قال صلى عليها ابو بكر رضى الله عنه وعنها
یعنی شعبی کہتے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ پر سیدنا ابوبکرؓ نے نمازِ جنازہ پڑھی ۔
[طبقات ابن سعد صفحہ 19 جلد 8 تحت تذکره فاطمهؓ - طبع قدیم لیڈن - ]
دفن سیده فاطمہ رضی اللہ عنہا
صلوٰۃِ جنازہ کے بعد سیدہ فاطمہؓ کو عام روایات کے مطابق رات کو ہی جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا۔
اور دفن کے لئے قبر میں سیدنا علیؓ سیدنا عباسؓ عم نبوی اور فضل بن عباسؓ اُترے دفن و قبر کے متعلق متعدد روایات مختلف قسم کی پائی جاتی عام مرویات کے پیش نظر ہم نے یہ تحریر کیا ہے۔
[الاصابه صفحہ 389 جلد 4 تذكره فاطمهؓ]
حاصل کلام یہ ہے کہ:
یہ چند روایات سیدہ فاطمہؓ کے جنازہ کے متعلق ہم نے یہاں ذکر کی ہیں قبل ازیں کتاب "رحماء بينهم" حصہ اول صدیقی میں "سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ کا مسئلہ" کے عنوان کے تحت صفحہ 170 تا صفحہ 176 میں تفصیلاً یہ روایات درج کی گئی ہیں مزید تفصیل کی ضرورت محسوس ہو تو وہاں رجوع فرما لیں۔ یہاں بطور اختصار کے مذکورہ روایات کے چند فوائد تحریر کیئے جاتے ہیں:۔
1_ سیدہ فاطمہؓ کی وفات کی اطلاع اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یقیناً ہو گئی تھی۔ خصوصاً صدیقِ اکبرؓ اپنی زوجہ محترمہ اسماء بنتِ عمیسؓ کے ذریعے سیدہ فاطمہؓ کے ان تمام احوال سے یقیناً با خبر تھے۔
2_ نمازِ جنازہ کے لئے حضرات شیخین صدیق اکبر و عمر فاروق رضی اللہ عنہم بمع دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تشریف لائے تھے اور اس میں شریک وہ شامل ہوئے۔
3_ سیدہ فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ چار تکبیر کے ساتھ ابوبکر صدیقؓ نے پڑھائی تھی۔
4_ سیدہ فاطمہؓ کی نعش مبارک کو رات کو ہی دفن کر دیا گیا یہ ازراهِ تستّر اور پردہ داری کے طور پر تھا۔ اور اس میں شرعی مسئلہ "تعمیلِ دفن" بھی ملحوظ خاطر تھا۔
5_حضرات شیخین رضی اللہ عنہما اور سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ علیؓ کے درمیان کسی قسم کی باہمی مخاصمت اور ناچاکی نہیں تھی ۔ مندرجہ بالا واقعات اس کی بیّن دلیل ہیں اور واضح شواہد ہیں۔
اور بعض روایات میں جو چیزیں مذکور ہیں کہ:
سیدہ فاطمہؓ سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے ناراض تھیں اس وجہ سے ان کو سیدہ فاطمہؓ کی بیماری پھر وفات اور جنازہ اور دفن کی اطلاع تک نہیں کی گئی تھی۔
یہ چیزیں واقع میں درست نہیں ہیں بلکہ یہ تمام چیزیں ظنِ راوی ہیں اور راویوں کا اپنا گمان ہیں جو انہوں نے صحیح واقعات میں ملا کر نشر کر دیا ہے اور اصل واقعات میں مخلوط شدہ چیزوں کو پھیلا دیا ہے۔
اولادِ سیده فاطمہ رضی اللّٰہ عنہا
سیدنا علی المرتضیٰؓ کی پہلی زوجہ محترمہ سیدہ فاطمہؓ تھیں۔ سیدہ فاطمہؓ کی حیات تک سیدنا علیؓ نے کوئی دوسری شادی نہیں کی۔ یہ محض سرورِ دو عالمﷺ کی صاحبزادیوں کے احترام کی بنا پر تھا۔ اسی طرح آنجنابﷺ کی دیگر صاحبزادیوں کے داماد حضرات یعنی ابو العاصؓ و عثمانؓ نے بھی یہی احترام ملحوظ رکھا تھا جیسا کہ سابقہ ذکر کیا گیا۔ علماء نے سیدہ فاطمہؓ سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی اولاد مندرجہ ذیل ذکر کی ہے :۔
"ایک صاحبزادہ سیدنا حسنؓ دوسرا صاحبزاده سیدنا حسینؓ اور تیسرا صاحبزادہ سیدنا حضرت محسنؓ تھے اور محسن صغیر سنی میں ہی فوت ہو گئے۔ "نسبِ قریش" میں لکھا ہے کہ سیدنا حسنؓ کی ولادت نصف رمضان المبارک سن 3 ہجری میں اور سیدنا حسینؓ کی ولادت پانچ شعبان المعظم 4ہجری میں ہوئی تھی ۔
[نسب قریش صفحہ 24،25 تحت اولاد فاطمہؓ]
سیدہ فاطمہؓ سے دو صاحبزادیاں ہوئی ہیں۔ ایک سیدہ زینب بنتِ علی اور دوسری امِ کُلثوم بنت علیؓ۔
بعض علماء نے ایک تیسری صاحبزادی رقیہؓ کا بھی ذکر کیا ہے مگر مشہور روایات کے اعتبار سے آپؓ کی صرف دو صاحبزادیاں ہی تھیں۔ اور سیدہ فاطمہؓ نے اپنی صاحبزادیوں کے نام اپنی خواہران کے اسماء کے موافق منتخب فرمائے تا کہ اپنی خواہران کی یاد اپنے گھر میں تازہ رہے "
سیدہ امِ کُلثوم بنتِ علیؓ کا نکاح سیدنا حضرت عمرؓ بن خطاب سے 17ہجری میں ہوا تھا اور سیدہ زینب بنتِ علیؓ کا نکاح عبد اللہ بن جعفر طیارؓ سے ہوا تھا
[نسبِ قریش صفحہ 25 تحت اولاد فاطمہؓ]