Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

اعتراض غزوہ بدر اور صحابہ کا خوف خیر طلب کے اعتراضات کا رد

  مولانا علی معاویہ

جنگ بدر اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین

السلام علیکم دوستو!

جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ چند دن پہلے وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کی طرف سے ایک متنازعہ بیان آیا جس میں جنگ بدر اور جنگ احد میں شامل صحابہ کرام ؓ پر تنقید کی گئی تھی، جس کے رد عمل میں اھل السنت کی طرف سے ان پر تنقید بھی ہوئی تھی۔

لیکن دوسری طرف بغض صحابہ کے مریضوں کو اپنا بغض ظاہر کرنے کا موقعہ مل گیا اور انہوں نے اپنے اندر کا بغض ظاہر کیا۔

ایک دوست نے شیعوں کے محقق اور مناظر خیر طلب صاحب کی پوسٹ کے طرف دھیان مبذول کروایا، اور اس کا رد کرنے کا کہا، اس پوسٹ میں عمران خان صاحب کے بیان کی تائید میں کتب اھل السنت سے حوالاجات پیش کئے گئے ہیں۔

اب آتے ہیں خیر طلب صاحب کے پوسٹ کی طرف۔

خیر طلب صاحب نے سورہ انفال کی چند آیات نقل کی، جن کا ترجمہ خیر طلب سے ہی نقل کررہا ہوں۔۔۔

جیسا کہ آپ کے رب نے آپ کے گھر سے حق کے ساتھ آپ کو روانہ کیا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس کو گراں سمجھتی تھی (5) وه اس حق کے بارے میں، اس کے بعد کہ اس کا ﻇہور ہوگیا تھا آپ سے اس طرح جھگڑ رہے تھے کہ گویا کوئی ان کو موت کی طرف ہانکے لیے جاتا ہے اور وه دیکھ رہے ہیں (6) اور تم لوگ اس وقت کو یاد کرو! جب کہ اللہ تم سے ان دو جماعتوں میں سے ایک کا وعده کرتا تھا کہ وه تمہارے ہاتھ آجائے گی اور تم اس تمنا میں تھے کہ غیر مسلح جماعت تمہارے ہاتھ آجائے اور اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ اپنے احکام سے حق کا حق ہونا ثابت کردے اور ان کافروں کی جڑ کاٹ دے (7) تاکہ حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا ثابت کردے گو یہ مجرم لوگ ناپسند ہی کریں (8)ترجمہ کرنے کے بعد خیر طلب نے لکھا ہے کہ۔۔۔

ناظرین اب ہم کیا قرآنی آیات کا انکار اس مزعوم مقدس مآب عقیدے سارے صحابہ جنتی اور سارے صحابہ نیک کو بچانے میں چھوڑ دیں؟

ناظرین ان میں سے بعض اصحاب کے ڈرنے پر کچھ شواہد عرض خدمت ہیں

اس کے بعد خیر طلب صاحب نے کتب سیر اور تفاسیر کی حوالاجات دے کر یہ چابت کرنے کہ کوشش کی ہے کہ بعض صحابہ کو جنگ کرنا نہیں چاھتے تھے، ان کو خوف تھا وغیرہ۔۔

الجواب

۱، دوستو جو غلطی عمران خان صاحب نے کی تھے وہی غلطی خیر طلب نے بھی کی ہے،یعنی دونوں نے آدھی بات کردی ہے لیکن آدھی بات چھوڑ دی ہے، عمران خان صاحب کو تو دین کا نہیں پتا لیکن خیر طلب صاحب نے یہ حرکت جان بوجھ کر کی ہے تاکہ صحابہؓ سے اپنے اندر کے بغض کا اظہار کرسکیں۔

قارئین اب میں آپ کے سامنے سورہ انفال کی آگے والی آیات یہاں نقل کرتا ہوں۔

إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ (9) وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَى وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (10) إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِنْهُ وَيُنَزِّلُ عَلَيْكُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً لِيُطَهِّرَكُمْ بِهِ وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ وَلِيَرْبِطَ عَلَى قُلُوبِكُمْ وَيُثَبِّتَ بِهِ الْأَقْدَامَ (11)

ترجمہ۔۔۔جب تم لوگ اپنے رب سے مدد طلب کررہے تھے تو اس نے تمہاری دعا قبول کی ( اورفرمایا کہ) میں ہزار فرشتوں سے تمہاری مدد کرنے والا ہوں جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے(9)۔ اور اس مدد کو اللہ نے محض بشارت بنایا تھا تاکہ اس سے تمہارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے اور بیشک وہ غالب ہے حکمت والا ہے(10)۔ جب اللہ نے اپنی طرف سے تم پر نیند طاری کردی تاکہ تم کو سکون ملے اور تم پر آسمان سے پانی برسایا تاکہ تم کو پاک کردے اور تم سے شیطان کی گندگی کو دور کردے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کردے تمہاری پاؤں جما دے (11)۔

قارئین یہ آیات واضح طور پر بتا رہی ہیں کہ اللہ نےبدر میں شریک صحابہؓ کی مدد کے لئے فرشتے بھیجے، اللہ نے بارش برسا کر صحابہ کے دلوں کو اطمینان بخشا، اللہ نے صحابہؓ پر نیند طاری کرکے ان کو سکون پہنچایا اور ان سے شیطان کے وسوسوں کو دور کیا اور ان کے دلوں کو مضبوط کیا۔

تو ثابت ہوا کہ صحابہؓ کا خوف اور جنگ سے کنارہ کشی صرف وقتی تھا، اس کے بعد اللہ کی مدد اور عنایت صحابہ کے ساتھ تھی۔

۲، اس کے علاوہ علامہ ابن کثیر تفسير ابن كثير جلد 4 صفحہ 18 پر روایت نقل کرتے ہیں کہ

قَالَ الْإِمَامُ أَحْمَدُ حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ حَدَّثَنَا سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنِي ابْنُ عَبَّاسٍ حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ، نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَصْحَابِهِ وَهُمْ ثَلَاثُمِائَةٍ وَنَيِّفٍ، وَنَظَرَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ فَإِذَا هُمْ أَلْفٌ وَزِيَادَةٌ، فَاسْتَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ القبلة وعليه رداؤه وإزاره، ثم قال «اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ فَلَا تُعْبَدْ فِي الْأَرْضِ أَبَدً قَالَ فَمَا زَالَ يستغيث ربه ويدعوه حتى سقط رداؤه عن منكبيه فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَرَدَّاهُ ثُمَّ التزمه من ورائه ثم قال: يا نبي اللَّهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتُكَ رَبَّكَ فَإِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ.

فلما كان يومئذ التقوا، فَهَزَمَ اللَّهُ الْمُشْرِكِينَ فَقُتِلَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا وَأُسِرَ مِنْهُمْ سَبْعُونَ رَجُلًا، وَاسْتَشَارَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بكر وعمر وعليا فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ هَؤُلَاءِ بَنُو الْعَمِّ وَالْعَشِيرَةُ وَالْإِخْوَانُ وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُمُ الْفِدْيَةَ فَيَكُونَ مَا أَخَذْنَاهُ مِنْهُمْ قُوَّةً لَنَا عَلَى الْكُفَّارِ وَعَسَى أَنْ يَهْدِيَهُمُ اللَّهُ فَيَكُونُوا لَنَا عَضُدًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «مَا تَرَى يَا ابْنَ الْخَطَّابِ؟» قَالَ:قُلْتُ وَاللَّهِ مَا أَرَى مَا رَأَى أَبُو بَكْرٍ وَلَكِنِّي أَرَى أَنْ تمكني مِنْ فُلَانٍ قَرِيبٍ لِعُمَرَ فَأَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ عَلِيًّا مِنْ عَقِيلٍ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ وَتُمَكِّنَ حَمْزَةَ مِنْ فُلَانٍ أَخِيهِ فَيَضْرِبَ عُنُقَهُ حَتَّى يَعْلَمَ اللَّهُ أَنْ لَيْسَ فِي قُلُوبِنَا هَوَادَةٌ لِلْمُشْرِكِينَ، هَؤُلَاءِ صَنَادِيدُهُمْ وَأَئِمَّتُهُمْ وَقَادَتُهُمْ

(خلاصہ یہ ہے کہ) سیدنا عمرؓ فرماتے ہیں کہ بدر کے دن نبی ﷺ نے اپنے صحابہ کی تعداد اور مشرکین کی تعداد دیکھی تو آپ ﷺ نے قبلے کی طرف چہرہ مبارک فرما کر دونوں ہاتہوں کو پہیلایا اور فرمایا کہ ’’اے اللہ جو تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما، اے اللہ اگر تم نے مسلمانوں کی اس جماعت کو ھلاک کردیا تو زمین میں کبھی بھی تمہاری عبادت نہ کی جائے گی‘‘۔۔ آپ ﷺ دعا کرتے رھے یہاں تک کہ آپ ﷺ کی چادر مبارک گر گئی۔ اس کے بعد ابوبکرؓ آپ ﷺ کے پاس آئے اور چادر مبارک اٹھا کر آپﷺ کے اوپر ڈال دی اور گلے لگا کر فرمایا کہ یا رسول اللہ آپ کا اللہ کو پکارنا کافی ہے، اللہ نے آپ سے جو وعدہ کیا ہے وہ ضرور پورا کرے گا۔ تو اللہ نے یہ آیت نازل کی کہ جب تم اللہ سے دعا کررہے تھے۔۔ (آیت 9)۔ جنگ بدر ک دن مشرکین کے ستر لوگ مرے اور ستر گرفتار ہوئے، ان کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے ابوبکرؓ، علیؓ اور عمرؓ سے مشورہ طلب کیا، ابو بکرؓ نے کہا کہ اللہ کے رسول یہ ھمارے رشتہ دار ہیں ان کو فدیہ کے بدلے آزاد کردیا جائے، یہ فدیہ کفار کے مقابلے میں ھم کو کام آئے گا اور اللہ ان کو ھدایت دے گا اور یہ ھمارے ساتھی بن جائیں گے۔ عمرؓ نے کہا کہ یا رسول اللہ میرا فلاں رشتہ دار میرے حوالے کریں، علیؓ کا بھائی عقیل ان کے حوالے کریں اور حمزہب کا فلاں رشتہ دار ان کے حوالے کرین ھم ان کی گردنیں اڑا دیں تاکہ اللہ ظاہر کردے کہ ھماری دلوں میں ان مشرکین کے لئے کوئی نرمی نہیں۔۔۔

یہ روایت بھی واضح ہے کہ رسول اللہﷺ ان صحابہؓ کے لئے دعا کررہے ہیں جن کو ڈرپوک کہا جارہا ھے، اور ان سے مشورہ لے رہے ہیں۔

ثابت ہوا کہ اللہ اور رسول اللہﷺ ان صحابہؓ سے راضی تھی۔

۳، جن صحابہؓ کو خوف زدہ کہہ کر عمران خان صاحب اور خیر طلب صاحب ان پر تنقید کررہے ہیں انھی کے ذریعے سے اللہ نے ان مشرکین کو شکست دی، تو ان پر تنقید کرنا گویا اللہ کے فیصلے سےراضی نہ ہونا ھے ۔

اب آتے ہیں شیعہ کتب کی طرف، اگر شیعوں کو کسی کی خوف زدہ ھونے پر تنقید کرنے کا شوق ہے تو زرا یہاں بھی خیر طلب صاحب تنقید کریں۔

۱، شیعہ تفسیر البیان، جو ان کے علامہ محمد حسین طباطبائی کے لکھی ہوئی ہے، اس میں سورہ مائدہ کی آیت 6 وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا)، کی تفسیر میں ہے کہ

یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہﷺ وحی میں سے کچھ چیزوں کی تبلیغ کرنے سے ڈرتے تھے اور لوگوں کے خوف کی وجہ سے چھپاتے تھے، اور وہ خوف مشرکین یا کفار سے نہیں بلکہ مسلمانوں سے تھا۔

(عربی عبارت اسکین میں دیکھی جاسکتی ہے، یہاں طوالت سے بچنے کے لئے اس کا خلاصہ لکھا گیا ہے۔)

تو شیعوں کے نزدیک گویا رسول اللہﷺ مسلمانوں سے بھی خوف کی وجہ سے احکامات چھپاتے تھے، اور اس آیت کے بارے میں شیعہ کھتے ہیں کہ یہ علیؓ کے خلافت کے اعلان کے لئے تھی جس کے اعلان سے آپ ﷺ ڈرتے تھے ۔

۲، نھج البلاغہ خطبہ 67 میں سیدنا علی ؓ اپنے شیعوں کی بزدلی پر ٹوکتے ہیں، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ

’’تم شامیوں کے ڈر سے اپنے گھروں کے دروازے بند کرکے چھپ جاتے ہو جس طرح گوہ اپنے سوراخ میں اور بچھو اپنے بھٹ میں چھپ جاتا ھے، جس کے تمہارے جیسے مددگار ہوں اسے تو ذلیل ہی ہونا ہے‘‘۔۔

یہ حال یہ سیدنا علیؓ کے صحابیوں کا جو خود کو شیعان علی کہلاتے تھے۔

۳، شیعہ محدث اور مجتھد ابو جعفر طوسی اپنی ’’کتاب الغیبہ‘‘ میں اپنے امام غائب کے بارے میں لکھتا ھے کہ

لا علۃ تمنع من ظہورہ الا خوفہ علی نفسہ من القتل۔

یعنی امام غائب اس لیے ظاہر نہیں ہوتے کہ ان کو اپنے قتل ہونے کاخوف ہے۔

ان پر بھی کوئی شیعہ خصوصا خیر طلب صاحب پوسٹ بنا کر کچھ تنقید کریں تاکہ پتا چلے کہ یہ اسلام کے ساتھ کتنے سچے ہیں۔

اللہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔