Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

واقعہ ہجرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی رفاقت اور قرآن کریم

  جعفر صادق

واقعہ ہجرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی رفاقت اور قرآن کریم

کسی صاحب نے عالم کبیر، مشہور محقق مناظر، فاتح اعظم شیعیت، حضرت مولانا اللہ یار خانؒ کی خدمت میں عرض کیا کہ واقعہ ہجرت میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے سفر کے بارے میں کچھ ارشاد فرما دیں۔
حضرت العلام مولانا اللہ یار خانؒ نے فرمایا وہ آیت پڑھو:
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ وَاَ يَّدَهٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا السُّفۡلٰى‌ وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡم۞
(سورة التوبة: آیت 40)
ترجمہ: اگر تم اُن (حضور اکرمﷺ) کی مدد نہ کرو گے تو یقیناً اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں نے اُن کو جلا وطن کردیا تھا جب دو میں ایک آپ (ﷺ) تھے جس وقت کہ دونوں غار میں تھےجب وہ اپنے دوست (ساتھی) سے فرماتے تھے کہ (میرا) غم نہ کرو یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہیں سو اللہ نے آپ پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور ان لشکروں سے مدد فرمائی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کی بات کو نیچا کر دیا (وہ ناکام رہے) اور اللہ ہی کا بول بالا رہا اور اللہ زبردست حکمت والے ہیں۔
اس آیت سے اور تاریخ سے ثابت کہ جب کفار نے گھر سے نکالا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ ساتھ تھے۔ فرق اتنا ہے کہ کفار نے تو حضور اکرمﷺ کو نکالا مگر سیدنا صدیقِ اکبرؓ نے ان صعوبتوں کو اپنے سر خود لیا۔
شیعہ اعتراض نمبر1:
سیدنا صدیقؓ ساتھ نہیں تھے۔ بعد میں جا ملے حضورﷺ نے واپس اس لئے نہ کیا کہ جا کے بتا دیں گے۔
الجواب: (إِذْ أَخْرَجَهُ) یعنی کس حالت میں نکالا؟
مفعول کی ضمیر "ہ" کا مرجع ہے نبی کریمﷺ کی ذات اور "ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ" حال ہے۔
یعنی اس حالت میں نکالا کہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ ساتھ تھے۔
اوّل کا لفظ حضورﷺ کے لئے بولا گیا ہے قرآن نے حضور اکرمﷺ کو اوّل المسلمین کا لقب فرمایا اور ثانی کا لقب سیدنا صدیقؓ کو۔
اور ثانی بھی ایسا کہ غار میں، بدر میں، خلافت میں، قبر میں۔ ترتیب رُتبی میں عددِ مساوی کی نسبت مساوی سے کی جاتی ہے۔ یہاں یہی ترتیبِ رُتبی ہے۔
إِذْ هُمَا فِی الغَارِ ، یہ پہلے اذ کا بدل ہے۔
إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ، صاحب کی ’’لا اضافت طرف حضورﷺ کے یا اس ضمیر کہ جس کا مرجع نبیﷺ کی ذات ہو تو صاحب اس کا ہم مذہب ہو گا۔ غیر نہیں ہو سکتا۔
شیعہ اعتراض نمبر 2:
کہ يٰصَاحِبَىِ السِّجۡنِ کی تردید کرتا ہے۔
الجواب:
یہاں صاحب کی اضافت سِجن کی طرف ہے نبیﷺ‎ کی طرف نہیں۔ اس آیت سے سیدنا صدیقِ اکبر کا صحابی ہونا نص صریح ہے سیدنا صدیقؓ کی صحابیت کا انکار نص صریح کا انکار ہے جو کُفر ہے لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا الخ۔
شیعہ اعتراض 3:
خوف کا تعلق استقبال سے ہوتا ہے ’’حزن‘‘ کا ماضی سے۔ تو سیدنا ابوبکرؓ نے کوئی منصوبہ بنایا تھا۔ اس کا غم تھا۔ یہی جس معل پر وارد ہو اسکا ارتکاب حرام ہے گویا صدیق حرام کے مرتکب ہوئے۔
الجواب:
اوّل تو حزن کا لفظ سارے قرآن میں انبیاء و صالحین کے لئے بولا گیا ہے۔ کافر کے لئے نہیں بولا گیا۔ پس سیدنا صدیقِ اکبرؓ، صالحین کے سردار تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حزن کا لفظ ہمیشہ اس غم کے لئے بولا جاتا ہے جو دوسروں کے لئے ہو، نہ کہ اپنی ذات کے لئے۔ تو منصوبہ ظاہر ہے کہ غم یہ تھا کہ جس ترکیب سے ہم نے ہجرت کی اس کا علم کسی کو نہیں تھا۔ پھر یہ کافر کیسے پہنچ گئے۔
ایک شیعہ عالم علامہ باذل نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔
چنیں گفت راوی کہ سالار دیں
چو سالم بحفظ جہاں آفریں
نہ نزدیک آں قوم پروکررفت
بسوئے سرائے ابوبکرؓ رفت
پئے ہجرت اونیز آمادہ بود
کہ سابق رسولش طہ دادہ بود
نبیﷺ‎ بر در خانہ اش چوں رسید
بگوشش صدائے سفر درکشید
چوں بو بکرؓ زاں حال آگاہ شد
زخانہ بروں رفت و ہمراہ شد
پھر آگے جا لکھتا ہے:
بدیدند غارے درآں تیر و شب
کہ خواندے عرب غار نورش لقب
گرفتند در جوف آں غار جا
ولے پیش بنہاد بو بکر پاء
بہر جا کہ سوراخ یا رفتہ دید
فنارا بدرید و آں رخنہ چید
بدیں گونہ تاشد عمام آں قبا
یکے رخنہ نگذشت مانداز قضا
براں رخنہ گوئند آں یار غار
کف پائے خود را نمود استوار
پس ثابت ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو حضورﷺ کی ذات کا غم تھا اپنا غم نہیں تھا۔
یہاں ایک بات اور سمجھ لیجئے کہ حضور اکرمﷺ جب اپنی خواہش سے گفتگو بھی نہیں کرتے تھے تو ظاہر ہے کہ آپﷺ کے اعمال میں بھی خواہش کا دخل نہیں تھا۔ بلکہ ہر کام اللہ کے حکم سے کرتے تو ظاہر ہے کہ ہجرت کے سفر میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے گھر جا کر انہیں ساتھ لے جانا اللہ کے حکم کے تحت تھا۔ اور اللہ کریم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو یہ بتا نا منظور تھا کہ دورانِ سفر اگر وحی آئے تو آپ کے نائب کو اس کا علم ہو۔ دوسرے لوگ تو اس سے سیکھ لیں گے۔
نادان یہاں سیدنا صدیقِ اکبرؓ اور سیدنا علیؓ کے درمیان مقابلہ شروع کر دیتے ہیں۔ حالانکہ ہر ایک کی اپنی شان ہے اپنا مقام ہے اور اپنا کام ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی ذات وہ ذات ہے جسکی قربانی کا ذکر اللہ کریم نے اپنی کتاب میں کیا۔
قریشِ مکہ بھی سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی اہمیت سے واقف تھے جبھی تو جہاں حضور اکرمﷺ کے قتل کے لئے ایک سو ایک اونٹ انعام مقرر کیا وہاں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے قتل کا بھی اتنا ہی انعام مقرر کیا۔
پھر سیدنا علیؓ تو بچّے تھے کسی سے دشمنی نہیں تھی اور قریش من حیث الجماعت صدیقؓ کے دشمن تھے اور ہجرت کا منظر یہ ہے کہ سیدنا علیؓ تو حضور اکرمﷺ کی چارپائی پر ہیں اور حضور اکرمﷺ سیدنا صدیقؓ کی گود میں آرام فرا رہے ہیں۔
یہ نصیب اللہ اکبر لُوٹنے کی جائے ہے
اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا‌
جو معیت حضور اکرمﷺ سے ہے، وہی معیت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے ساتھ ہے اور یہ معیت ذاتی ہے کسی خاص وصف کی بناء پر نہیں۔
یعنی سیدنا ابوبکرؓ جب تک سیدنا ابوبکرؓ ہے اُسے اللہ کی وہی معیت حاصل ہے جو محمد الرسول اللہﷺ کی ذات کو حاصل ہے یہاں معیت کے لئے جمع متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے قصے میں معیت باری کا ذکر ہوا مگر وہاں صیغہ واحد متکلم استعمال ہوا ہے۔
قَالَ اَصۡحٰبُ مُوۡسٰٓى اِنَّا لَمُدۡرَكُوۡنَ‌۞ قَالَ كَلَّا‌‌ اِنَّ مَعِىَ رَبِّىۡ سَيَهۡدِيۡنِ۞
(سورۃ الشعراء: آیت، 61، 62)
چونکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اصحابِ موسیٰ علیہ السلام ایک پایہ کے نہیں تھے اس لئے واحد متکلم کا صیغہ لایا گیا۔ اور یہاں جمع متکلم کیوں ہے اس لئےکہ اللہ کریم خالق ہے اس کی شان وراء الورا ہے اور مخلوق میں سب سے اونچی شان محمد الرسول اللہﷺ کی ہے اور غیر انبیاء میں سب سے اونچی شان سیدنا صدیق اکبرؓ کی ہے۔
فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ
علیہ ضمیر کا مرجع سیدنا ابوبکرؓ ہیں راندش کلام یہی ہے کیونکہ غمِ سیدنا صدیقؓ کو تھا اور جسے غم تھا سُکَینہ کی ضرورت بھی اسی کو تھی۔
شیعہ اعتراض 4:
اس صورت میں انتشار ما بین الضمائر لازم آتا ہے۔
جواب: قرینہ موجود ہو تو لازم نہیں آتا اور یہاں قرینہ موجود ہے۔
اگر سُکَینہ حضور اکرمﷺ پر اُتری تو یہ تحصیل حاصل ہے کیونکہ حضور اکرمﷺ کو تو پہلے سکون حاصل تھا۔
وَأَيَّدَهُاس تائید کا تعلق اس واقعہ سے بھی ہے اور بدر سے بھی ہے۔
ایک اصول یاد رکھیئے:
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا زمانہ نزولِ قرآن کا زمانہ ہے۔ اس لئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر طعن تاریخ سے نہیں قرآن سے پیش کرو۔
مؤرخین میں سب سے پہلا ابو مخنف ہے جو پرلے درجے کا تقیہ باز اور زہریلا رافضی ہے۔
بھربھکی، واقدی، مسعودی تینوں رافضی۔ اور ان بیچاروں کی مجبوری یہ ہے کہ جھوٹ ان کے نزدیک 9 10 دین ہے  اور ان کے امام سے منسوب روایت کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ محبوب شے تقیہ یعنی جھوٹ ہے۔
اس لئے جہاں مسلمان تاریخ بناتے رہے یہ لوگ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرتے رہے۔
دُور کیوں جائیں اپنی تاریخ پر نگاہ کیجئے۔ اور تصوّر کیجئے کہ تاریخ اگر ایڈیٹر ’’اردُو ڈائجسٹ‘‘ لکھے اور ایڈیٹر ’’مساوات‘‘ لکھے تو کیا وہ ایک جیسی ہو گی؟
اس آیت کی شرح ختم ہوئی تو حضرت مولانا اللہ یار خانؒ نے فرمایا کہ سفرِ ہجرت میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی معیت کے علاوہ قرآنِ کریم نے ایک اور معیت کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ اور وہاں بھی لوگوں نے ٹھوکریں کھائی ہیں اور ٹھوکریں ماری ہیں۔
ارشادِ ربّانی ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ذٰلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا۞
(سورہ فتح: آیت، 29)
ترجمہ: محمد (ﷺ) اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں (اے مخاطب) تُو اُن کو دیکھے گا (کبھی) رکوع کر رہے ہیں (کبھی) سجدہ کر رہے ہیں اللہ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہیں (اور) ان کے آثار ان کے سجدوں کی وجہ سے ان کے چہروں پہ نمایاں ہیں ان کے یہ اوصاف تورات میں ہیں اور انجیل میں ان کا یہ وصف ایسے ہے جیسے کھیتی کہ اس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کو مضبوط کیا پھر وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی تاکہ اس سے کافروں کا جی جلائے۔
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
اسم ِمحمدﷺ کے ساتھ صرف ایک وصف بیان کیا رسول اللہﷺ‎ کیونکہ رسالت کے بعد کسی اور وصف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مخلوق میں سب سے اعلیٰ وصف یہی ہے۔ اور دراصل وصف بحال متعلقہٖ مقصود تھا یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا وصف بیان کرنا مقصود تھا۔
شیعہ اعتراض: معہ میں مراد ہم مذہب لوگ ہیں اور شیخین وغیرہ حضورﷺ کے ہم مذہب نہیں تھے۔
الجواب: یہ سورۃ صلح حدیبیہ کی مرہم بن کر نازل ہوئی لہٰذا صلح حدیبیہ میں جو لوگ ساتھ تھے وہی مُراد ہیں۔ یہ وہی جماعت ہے، جو بیعتِ رضوان میں تھے۔ جد بن قیس مُنافق خارج ہے کیونکہ اس نے بیعت نہیں کی تھی۔
اَشِدَّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے معاملات بیان کئے۔
تَراہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عبادات کا بیان ہے۔ اور اسلوب ِ بیان ظاہر کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی پوری زندگی اور زندگی کا ہر عمل عبادت ہے اس لئےکوئی دیکھنے والا جب اُنہیں دیکھے گا اللہ کی اطاعت میں ہی دیکھے گا۔ اس لئے اطاعت کی انتہائی تذلل کی صورتیں رکوع اور سجود بیان کردیں۔
اس سے پہلے خلافت کا مسئلہ آرہا ہے اس لئے یہاں پر خلیفہ کے اوصاف بیان ہوئے جس خلیفے کا وصف رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کے تحت ہے وہ کسی پر ظلم نہیں کر سکتا لہٰذا باغِ فدک وغیرہ سب جعلی افسانے ہیں۔ عبادات کا پہلو ایسا شاندار ہے کہ اللہ کریم نے اُن کی عبادت کی فضیلت کی سند دیدی۔
انسان کا سرمایہ دو قوتیں ہیں شہوی اور غضبی ان کا اپنی حدود کے اندر رہنا معیار فضیلت ہے اور حد سے تجاوز کرنا پستی کی دلیل ہے۔
یہاں بتایا کہ حضور اکرمﷺ کی صحبت اور آپﷺ کی تربیت نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں وہ انقلاب پیدا کیا کہ پہلے وہ لوگ ان دو قوتوں کے غلام تھے۔ اب یہ دونوں قوتیں ان کی غلام بن گئی کہ انہیں اللہ کی مقرر کردہ حدود میں ہی محدود رکھتے ہیں۔ بال بھر بھی تجاوز نہیں کرتے۔
یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِنَ اللّٰہِ وَرِضْواناً یعنی جو کچھ یہ کرتے ہیں کوئی ذاتی غرض کوئی مادی مفاد کوئی دنیوی لالچ مدّ نظر نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصود ہر حال میں محض رضائے الہیٰ ہوتا ہے۔
ذٰلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ الخ۔ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ الخ۔
حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اللہ کا وہ محبوب گروہ ہے کہ کُتبِ سابقہ میں جہاں حضورِ اکرمﷺ کے اوصاف بیان ہوئے وہاں حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کےبھی یہی اوصاف بیان ہوئے۔
یہاں ایک نکتہ سمجھ لیجیئے:
کُتبِ سابقہ پر جو لوگ ایمان لائے اگر وہ اپنے وقت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عظمت کے قائل نہ ہوتے جو اُن کی کتاب میں درج تھی تو کیا وہ لوگ مومن شمار ہوتے؟
جواب ظاہر ہے کہ جب وہ کتاب الہٰی کے ایک جُزو کے منکر ہوئے تو پوری کتاب ہی کے منکر ہوئے لہٰذا ان کے کافر ہونے میں کوئی شبہ کرسکتا ہے۔
اب اس حقیقت پر غور کیجئے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیدائش سے پہلے اُن کی عظمت کو تسلیم نہ کرنے والا جب مسلمان نہیں ہو سکتا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے کی پیدائش کے بعد جو اُن کی عظمت کا قائل نہ ہو۔ اُسے کیا کہیں گے؟ لفظ یا اصطلاح خود تلاش کر لیجئے۔
"ازالۃُ الخفا عن خلافۃ الخلفاء" میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے ذکر کیا ہے کہ جب بیتُ المقدس پر حملہ ہوا تو ایک پادری نے کہا تم اپنے رسول(ﷺ) کا دوسرا خلیفہ پیش کرو۔
ہمارے پاس اس کے جو اوصاف لکھے ہیں اگر وہی ہوا تو ہم اطاعت قبول کرلیں گے۔
چنانچہ سیدنا عمر فاروقؓ آئے، غلام اونٹ پر سوار تھا اور آپ نے مُہار پکڑی ہوئی تھی 11 پیوند لگے ہوئے تھے۔
پادری ایک تحریر لے کر سامنے آیا:
سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا کہ اللہ اور مومنوں کا سال ہے وہ واپس چلا گیا۔ ( آپؓ کے)ساتھیوں نے پوچھا یہ کیا بات تھی۔
آپؓ نے فرمایا اسلام سے پہلے ہم یہاں آئے تھے اس پادری نے مجھے دیکھا تھا اور کہا تمہارے ہاں ایک نبی (ﷺ) پیدا ہو گا تم اس کےدوسرے خلیفہ ہو گے۔ تمہاری فوجیں یہاں آئیں گی اس وقت میرا گرِجا بچانا چنانچہ میں نے اُسے لکھ دیا۔ اب یہ پادری وہی تحریر لے کر میرے سامنے پیش کر رہا تھا۔
تو میں نے وہ جواب دیا جو تم نے سُن لیا تھا۔
یہ ہے ذٰلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ الخ۔
كَزَرۡعٍ: یہ کھیتی اسلام ہے یا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ثابت ہوا کہ لا تعداد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکر ہے۔
أَخْرَجَ شَطْأَہُ: یہ مکی زندگی ہے۔
فَآَزَرَہُ: قریب ہجرت۔
فَاسْتَغْلَظَ: مدنی زندگی۔
فَاسْتَوَی: دَورِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کیونکہ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ اور لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ کا تعلق اسی دور سے ہے اس مثال کو سمجھنے کے لئے چند مقدمات ہیں۔
پہلا مقدمہ: ترقی ہوگی علی الاتصال ہوگی۔ درمیان میں کٹے گی نہیں اور اللہ تک پہنچے گی۔
دوسرا مقدمہ: ترقی کے تمام مدارج عہد نبیﷺ میں پورے نہیں ہوئے۔ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ کا نقشہ قیصر ؔو کسریٰ کی شکست نے پیش کیا اور یہ بعد میں ہوا۔ حدیبیہ کے بعد حضور اکرمﷺ نے سلاطین کے نام خطوط پہنچے۔ رومی اور ایرانی حکومتوں کا ردّ عمل مختلف تھا۔ ایرانیوں کی فرعونیت کا یہ عالم تھا کہ بازانؔ کے نام حکم بھیجا کہ اس نبی کو گرفتار کرکے یہاں بھیجو۔ اس نے فیروؔز دیلمی کو بھیجا۔ اُس نے حضور اکرمﷺ پر سامنے آ کر کہا۔ امدنی ربی ان احملک الیہ کہ میرے مالک نے مجھے حکم دیا کہ آپ کو اس کے پیش کروں۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایا صبح جواب دیا جائے گا۔صبح کو اسے بلا کر فرمایا کہ میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ تیرا رب قتل ہو گیا ہے۔ فیروز نے جواب سن کر وقت نوٹ کر لیا۔ جو بعد میں صحیح ثابت ہوا۔
علامہ باذل نے حملہ حیدری میں اس کا نقشہ کچھ یوں پیش کیا ہے:
بگوئید اوّل جواب سلام
رسانید آنگہ زمن ایں پیام
کہ از قدرتِ قادر ذوالجلال
شود پاک گیتی ز کفر و ضلال
ہمہ اہل ایران و اہل یمن
بزودی در آئیندہ در دین من
معلوم ہوا کہ ایران اور یمن کو کفر سے پاک کرنے والی جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تھی۔ لہٰذا وہی جماعت دینداروں کی تھی۔ اور ان ممالک میں دین پھیلا اور یہ عہدِ فاروقیؓ میں ہوا گویا حضور اکرمﷺ کی پیشگوئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہاتھوں عہدِ فاروقیؓ میں پوری ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دینِ عمرؓ ہی دینِ محمدیﷺ تھا۔
تیسرا مقدمہ: حضور اکرمﷺ کے علی الاتصال 24 سال خلافتِ اصحابِ ثلاثہؓ رہی اگر شیعوں کا دعویٰ خلیفہ بلا فصل تسلیم کیا جائے تو ظاہر ہے کہ ترقی علی الاتصال نہیں ہوئی۔ بلکہ بقول ان کے درمیان میں کفار کی حکومت آگئی اور ترقی انتہاء کو بھی نہ پہنچی۔
اعتراض: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان جنگیں جو ہوتی رہیں رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کہاں رہ گیا؟
الجواب: معترض کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو فرمایا وہ ٹھیک نہیں۔ کوئی ایماندار تو یہ اعتراض نہیں کر سکتا۔ جس کا قرآن پر ایمان ہو۔ وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ مؤرخین نے جو واقعات بیان کئے ہیں وہ قرآن کے احکام کو رَد نہیں کر سکتے۔
اگر جھگڑے ہی رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کی تردید کرتے ہیں۔ تو جھگڑے کس کے درمیان ہوئے؟
اگر سیدہ عائشہؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ، رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کا مصداق نہیں تو سیدنا علیؓ اور وہ جنہیں تُم اہلِ بیت کہتے ہو وہ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کا مصداق کیسے رہ گئے؟
جب تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اور اہلِ بیت رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ سے خارج ہیں تو اس کا مصداق بھی تو لکھیں چلیں تاریخ سے ہی دکھائیے۔
سیدنا امیرِ معاویہؓ کا مطالبہ قصاصِ عثمانؓ کا تھا۔ رافضی مؤرخین نے اسکو خلافت کا جھگڑا بنا ڈالا۔
اور بعد میں آنے والے تمام مؤرخین مکھی پر مکھی مارتے گئے۔
سورۃ الحجرات میں دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جھگڑے عناد، لالچ یا کسی دنیوی غرض کے تحت نہیں تھے۔
اس لیے اس سورہ میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اخلاق بتائے تاکہ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کی صفت اُٹھ نہ جائے۔ مثلاً مومن یا تو نیک ہے یا بد۔ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ تب رہیں گے جب نیک صورت قائم رہے۔ اگر نیک ہے تو حاضر ہے یا غائب۔
حاضر ہے تو فرمایا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ الخ۔
یہ فتنہ پیدا کرنے والی صفات ہیں۔
غائب ہے تو فرمایا وَلَا يَغۡتَبْ بَّعۡضُكُمۡ بَعۡضًا‌ الخ۔
غیبت سے فتنہ اٹھتا ہے لہٰذا رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کا وصف اُٹھ جائے گا۔ پس رُحَمَآءُ کی صفت کے مصداق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہلِ بیت ہمیشہ رہے۔ اس اعتراض کے ساتھ اس حقیقت پر بھی غور کرو کہ اگر رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ کا وصف نہ رہے۔ تو مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ مان لیں تو بتاؤ اہلِ بیت کو کس کھاتے میں ڈالو گے۔
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اُسکا آسماں کیوں ہو