Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

واقعہ ھجرت: حضرت ابوبکر صدیق کی رفاقت اور قرآن کریم

  جعفر صادق

کسی صاحب نے عالم کبیر، مشہور محقق مناظر، فاتح اعظم شیعیت، حضرت مولانا اللہ یار خاں رحمہ اللہ کی خدمت میں عرض کیا کہ واقعہ ہجرت میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سفر کے بارے میں کچھ ارشاد فرما دیں۔ حضرت العلّام مولانا اللہ یار خاں رحمہ اللہ نے فرمایا
وہ آیت پڑھو۔

[ إِلَّا تَنْصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَى وَكَلِمَةُ اللهِ هِيَ العُلْيَا وَاللهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ] 

{التوبة:40}

ترجمہ:۔ اگر تم اُن (حضور اکرمﷺ) کی مدد نہ کرو گے تو یقیناً اللہ نے ان کی مدد فرمائی جب کافروں نے اُن کو جلا وطن کردیا تھا جب دو میں ایک آپ (ﷺ) تھے جس وقت کہ دونوں غار میں تھےجب وہ اپنے دوست (ساتھی) سے فرماتے تھے کہ (میرا) غم نہ کرو یقیناً اللہ ہمارے ساتھ ہیں سو اللہ نے آپ پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور ان لشکروں سے مدد فرمائی جو تم کو نظر نہ آتے تھے اور کافروں کی بات کو نیچا کر دیا (وہ ناکام رہے) اور اللہ ہی کا بول بالا رہااور اللہ زبردست حکمت والے ہیں۔

اس آیت سے اور تاریخ سے ثابت کہ جب کفار نے گھر سے نکالا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ‘ ساتھ تھے۔ فرق اتنا ہے کہ کفًار نے تو حضوراکرم ﷺنکالا مگر حضرت صدیق اکبرؓ نےان صعوبتوں کو اپنے سر خود لیا۔

شیعہ اعتراض نمبر1:۔

صدیق ساتھ نہیں تھے۔ بعد میں جا ملے ۔ حضور ﷺ نے واپس اس لئے نہ کیا کہ جا کے بتا دیں گے!!!

الجواب:ـ۔

(إِذْ أَخْرَجَهُ )۔ یعنی کس حالت میں نکالا؟

مفعول کی ضمیر ’’ ہ‘ ‘‘ کا مرجع ہے نبی کریم ﷺ کی ذات  اور ثانی اثنین حال ہے ۔

یعنی اس حالت میں نکالا کہ حضرت صدیق اکبر ؓ ساتھ تھے۔

اوّل کا لفظ حضور ﷺ کے لئے بولا گیا ہے قرآن نے حضور اکرم ﷺ کو اوّل المسلمین کا لقب فرمایا اور ثانی کا لقب صدیق ؓ کو۔

اور ثانی بھی ایسا کہ غار میں، بدر میں، خلافت میں، قبر میں۔ ترتیب رُتبی میں عدد مساوی کی نسبت مساوی سے کی جاتی ہے۔ یہاں یہی ترتیبِ رُتبی ہے۔

إِذْ هُمَا فِي الغَارِ ، یہ پہلے اذ کا بدل ہے ۔

إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ ، صاحب کی ــ’’لا‘‘ اضافت طرف حضور ﷺ کے یا اس ضمیر کے کہ جس کا مرجع نبی ﷺ کی ذات ہو تو صاحب اس کا ہم مذہب ہو گا۔ غیر نہیں ہو سکتا۔

 

شیعہ اعتراض نمبر.2

کہ’’ یصاحبی السجن‘‘ کی تردید کرتا ہے

الجواب:۔

یہاں صاحب کی اضافت ـ’سِجن‘ کی طرف ہے نبیؑ کی طرف نہیں۔
اس آیت سے صدیق ؓ اکبر کا صحابی ہونا نص صریح ہے ۔حضرت صدیقؓ کی صحابیت کا انکار نص صریح کا انکار ہے جو کُفر ہے۔

لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا

شیعہ اعتراض:۔3

خوف کا تعلق استقبال سے ہوتا ہے ’’حزن‘‘ کا ماضی سے۔ تو ابوبکرؓ نے کوئی منصوبہ بنایا تھا۔ اس کا غم تھا۔

 یہی جس معل پر وارد ہو اسکا ارتکاب حرام ہے۔  گویا صدیق حرام کے مرتکب ہوئے۔

الجواب:۔

اوّل تو حزن کا لفظ سارے قرآن میں انبیاء و صالحین کے لئے بولا گیا ہے۔ کافر کے لئے نہیں بولا گیا۔ پس صدیقؓ اکبر، صالحین کے سردار تھے۔ دوسری بات یہ ہے کہ حزن کا لفظ ہمیشہ اس غم کے لئے بولا جاتا ہے ۔ جو دوسروں کے لئے ہو، نہ کہ اپنی ذات کے لئے۔ تو منصوبہ ظاہر ہے کہ غم یہ تھا کہ جس ترکیب سے ہم نے ہجرت کی اس کا علم کسی کو نہیں تھا۔ پھر یہ کافر کیسے پہنچ گئے۔

ایک شیعہ عالم علامہ باذلؔ نے اس واقعہ کو یوں بیان کیا ہے۔
چنیں گفت راوی کہ سالار دیں
چو سالم بحفظ جہاں آفریں
نہ نزدیک آں قوم پروکررفت
بسوئے سرائے ابوبکر رفت
پئے ہجرت اونیز آمادہ بود
کہ سابق رسولش طہ دادہ بود
نبیؐ بر در خانہ اش چوں رسید
بگوشش صدائے سفر درکشید
چوں بو بکر زاں حال آگاہ شد
زخانہ بروں رفت و ہمراہ شد
پھر آگے جا لکھتا ہے۔۔۔
بدیدند غارے درآں تیر و شب
کہ خواندے عرب غار نورش لقب
گرفتند در جوف آں غار جا
ولے پیش بنہاد بو بکر پاء
بہر جا کہ سوراخ یا رفتہ دید
فنارا بدرید و آں رخنہ چید
بدیں گونہ تاشد عمام آں قبا
یکے رخنہ نگذشت مانداز قضا
براں رخنہ گوئند آں یار غار
کف پائے خود را نمود استوار

پس ثابت ہوا کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو حضور ﷺ کی ذات کا غم تھا۔ اپنا غم نہیں تھا۔

یہاں ایک بات اور سمجھ لیجئے کہ حضور اکرم ﷺ جب اپنی خواہش سے گفتگو بھی نہیں کرتے تھے تو ظاہر ہے کہ آپﷺ کے اعمال میں بھی خواہش کا دخل نہیں تھا۔ بلکہ ہر کام اللہ کے حکم سے کرتے تو ظاہر ہے کہ ہجرت کے سفر میں صدیق اکبرؓ کے گھر جا کر انہیں ساتھ لے جانا اللہ کے حکم کے تحت تھا۔ اور اللہ کریم کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ کو یہ بتا نا منظور تھا کہ دورانِ سفر اگر وحی آئے تو آپ کے نائب کو اس کا علم ہو۔ دوسرے لوگ تو اس سے سیکھ لیں گے۔

نادان یہاں حضرت صدیق اکبر ؓ اور حضرت علی ؓ کے درمیان مقابلہ شروع کر دیتے ہیں۔

حالانکہ ہر ایک کی اپنی شان ہے اپنا مقام ہے اور اپنا کام ہے۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی ذات وہ ذات ہے جسکی قربانی کا ذکر اللہ کریم نے اپنی کتاب میں کیا۔

قریش مکہ بھی حضرت ابو بکر صدیق ؓ کی اہمیت سے واقف تھے جبھی تو جہاں حضور اکرم ﷺ کے قتل کے لئے ایک سو ایک اونٹ انعام مقرر کیا وہاں حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے قتل کا بھی اتنا ہی انعام مقرر کیا۔

پھر حضرت سیدنا مولی علی ؓ تو بچّے تھے کسی سے دشمنی نہیں تھی اور قریش من حیث الجماعت صدیق ؓ کے دشمن تھے  اور ہجرت کا منظر یہ ہے کہ حضرت علی ؓ تو حضور اکرم ﷺ کی چارپائی پر ہیں اور حضور اکرم ﷺ صدیق ؓ کی گود میں آرام فرا رہے ہیں۔

یہ نصیب اللہ اکبر لُوٹنے کی جائے ہے

ان اللہ معنا:۔

جو معیت حضور اکرم ﷺ سے ہے ، وہی معیت حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ساتھ ہے اور یہ معیت ذاتی ہے کسی خاص وصف کی بناء پر نہیں۔

یعنی ابوبکرؓ جب تک ابو بکرؓ ہے اُسے اللہ کی وہی معیت حاصل ہے جو محمد الرسول اللہ ﷺ کی ذات کو حاصل ہے یہاں معیت کے لئے جمع متکلم کا صیغہ استعمال ہوا ہے حالانکہ حضرت موسیٰ ؑ کے قصے میں معیت باری کا ذکر ہوا مگر وہاں صیغہ واحد متکلم استعمال ہوا ہے۔

قال أصحاب موسى إنا لمدركون* قال كلا إن معي ربي سيهدين

چونکہ حضرت موسیٰ ؑ اور اصحاب موسیٰؑ ایک پایہ کے نہیں تھے اس لئے واحد متکلم کا صیغہ لایا گیا۔

اور یہاں جمع متکلم کیوں ہے اس لئےکہ اللہ کریم خالق ہے اس کی شان وراءالورا ہے  اور مخلوق میں سب سے اونچی شان محمد الرسول اللہ ﷺ کی ہے اور غیر انبیاء میں سب سے اونچی شان حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہے۔

فَأَنْزَلَ اللهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ:۔

علیہ ضمیر کا مرجع حضرت ابوبکر ؓ ہیں۔ راندش کلام یہی ہے کیونکہ غم صدیق ؓ کو تھا ۔ اور جسے غم تھا ۔ سُکَینہ کی ضرورت بھی اسی کو تھی۔

 

شیعہ اعتراض: 4

اس صورت میں انتشار ما بین الضمائر لازم آتا ہے۔

جواب:۔

قرینہ موجود ہو تو لازم نہیں آتا۔ اور یہاں قرینہ موجود ہے۔

اگر سُکَینہ حضور اکرم ﷺ پر اُتری تو یہ تحصیل حاصل ہے کیونکہ حضور اکرم ﷺ کو تو پہلے سکون حاصل تھا۔

وَأَيَّدَهُ :۔ اس تائید کا تعلق اس واقعہ سے بھی ہے اور بدر سے بھی ہے۔

ایک اصول یاد رکھئے

صحابہؓ کا زمانہ نزولِ قرآن کا زمانہ ہے ۔ اس لئے صحابہ ؓ پر طعن تاریخ سے نہیں قرآن سے پیش کرو۔

مؤرخین میں سب سے پہلا ابو مخنفؔ ہے جو پرلے درجے کا تقیہ باز اور زہریلا رافضی ہے۔

بھربھکیؔ، واقدیؔ، مسعودیؔ تینوں رافضی۔ اور ان بیچاروں کی مجبوری یہ ہے کہ جھوٹ ان کے نزدیک ۱۰؍ ۹ دین ہے  اور ان کے امام سے منسوب روایت کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ محبوب شے تقیہ یعنی جھوٹ ہے۔

اس لئے جہاں مسلمان تاریخ بناتے رہے یہ لوگ مسلمانوں کی تاریخ کو مسخ کرتے رہے۔

دُور کیوں جائیں اپنی تاریخ پر نگاہ کیجئے۔ اور تصوّر کیجئے کہ تاریخ اگر ایڈیٹر ’’اردُو ڈائجسٹ‘‘ لکھے اور ایڈیٹر ’’مساوات‘‘ لکھے تو کیا وہ ایک جیسی ہو گی؟۔

اس آیت کی شرح ختم ہوئی تو حضرت مولانا اللہ یار خان رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سفرِ ہجرت میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کی معیت کے علاوہ قرآن کریم نے ایک اور معیت کا ذکر بھی فرمایا ہے۔ اور وہاں بھی لوگوں نے ٹھوکریں کھائی ہیں اور ٹھوکریں ماری ہیں۔

ارشادِ ربّانی ہے:۔

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ وَالَّذِینَ مَعَہُ أَشِدَّآء ُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآء ُ بَیْنَہُمْ تَرَاہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللہ وَرِضْوَانًا سِیْمَاہُمْ فِی وُجُوہِہِمْ مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرَاۃِ وَمَثَلُہُمْ فِی الاِنْجِیلِ کَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَہُ فَآَزَرَہُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَی عَلَی سُوقِہِ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ وَعَدَ االلہ الَّذِینَ آَمَنُوا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَغْفِرَۃً وَأَجْرًا عَظِیمً (سورہ فتح ۲۹:۴۸)۔

ترجمہ:۔ محمد (ﷺ) اللہ کے پیغمبر ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں کے مقابلہ میں سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں ( اے مخاطب) ! تُو اُن کو دیکھے گا ( کبھی) رکوع کر رہے ہیں( کبھی) سجدہ کر رہے ہیں اللہ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں لگے ہیں( اور) ان کے آثار ان کے سجدوں کی وجہ سے ان کے چہروں پہ نمایاں ہیں۔ ان کے یہ اوصاف تورات میں ہیں اور انجیل میں ان کا یہ وصف ایسے ہےجیسے کھیتی کہ اس نے اپنی سوئی نکالی پھر اس نے اس کو مضبوط کیا پھر وہ موٹی ہو گئی پھر اپنے تنے پر سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کسانوں کو بھلی معلوم ہونے لگی تاکہ اس سے کافروں کا جی جلائے‘‘۔

مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ:۔

اسم ِمحمدﷺ کے ساتھ صرف ایک وصف بیان کیا۔۔۔۔۔رسول اللہ ۔ کیونکہ رسالت کے بعد کسی اور وصف کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مخلوق میں سب سے اعلیٰ وصف یہی ہے۔ اور دراصل وصف بحال متعلقہٖ مقصود تھا ۔ یعنی صحابہؓ کا وصف بیان کرنا مقصود تھا۔

 

شیعہ اعتراض:۔

معہ‘ میں مراد ہم مذہب لوگ ہیں اور شیخین وغیرہ حضور ﷺ کے ہم مذہب نہیں تھے۔

الجواب:۔

یہ سورۃ صلح حدیبیہ کی مرہم بن کر نازل ہوئی لہٰذا صلح حدیبیہ میں جو لوگ ساتھ تھے وہی مُراد ہیں۔ یہ وہی جماعت ہے ، جو بیعتِ رضوان میں تھے۔ جد بن قیس مُنافق خارج ہے۔ کیونکہ اس نے بیعت نہیں کی تھی۔

اَشِدَّاءُ عَلَی الکُفَّارِ رُحَمَاءُ بَیْنَہُمْ :۔

یہ صحابہؓ کے معاملات بیان کئے۔

تَراہُمْ رُکَّعًا سُجَّدًا :۔

یہ صحابہؓ کی عبادات کا بیان ہے۔ اور اسلوب ِ بیان ظاہر کرتا ہے کہ صحابہؓ کی پوری زندگی اور زندگی کا ہر عمل عبادت ہے اس لئےکوئی دیکھنے والا جب اُنہیں دیکھے گا اللہ کی اطاعت میں ہی دیکھے گا۔ اس لئے اطاعت کی انتہائی تذلل کی صورتیں رکوع اور سجود بیان کردیں۔

اس سے پہلے خلافت کا مسئلہ آرہا ہے اس لئے یہاں پر خلیفہ کے اوصاف بیان ہوئے ۔ جس خلیفے کا وصف رحماء بینہم کے تحت ہے وہ کسی پر ظلم نہیں کر سکتا۔ لہٰذا ’باغِ فدک‘ وغیرہ سب جعلی افسانے ہیں۔ عبادات کا پہلو ایسا شاندار ہے ۔ کہ اللہ کریم نے اُنکی عبادت کی فضیلت کی سند دیدی۔

انسان کا سرمایہ دو قوتیں ہیں ۔ شہوی اور غضبی ان کا اپنی حدود کے اندر رہنا معیار فضیلت ہے اور حد سے تجاوز کرنا پستی کی دلیل ہے۔

یہاں بتایا کہ حضور اکرم ﷺکی صحبت اور آپ ﷺ کی تربیت نے صحابہ کرامؓ میں وہ انقلاب پیدا کیا کہ پہلے وہ لوگ ان دو قوتوں کے غلام تھے۔ اب یہ دونوں قوتیں ان کی غلام بن گئی کہ انہیں اللہ کی مقرر کردہ حدود میں ہی محدود رکھتے ہیں۔ بال بھر بھی تجاوز نہیں کرتے۔

یَبْتَغُوْنَ فَضْلاً مِنَ اللّٰہِ وَرِضْواناً :۔

یعنی جو کچھ یہ کرتے ہیں کوئی ذاتی غرض کوئی مادی مفاد کوئی دنیوی لالچ مدّ نظر نہیں ہوتا بلکہ ان کا مقصود ہر حال میں محض رضائے الٰہی ہوتا ہے۔

ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ ج صلے ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ  

حضور اکرم ﷺ کے صحابہؓ اللہ کا وہ محبوب گروہ ہے کہ کُتب ِسابقہ میں جہاں حضورِ اکرم ﷺ کے اوصاف بیان ہوئے وہاں حضور ﷺ کے صحابہ ؓ کےبھی یہی اوصاف بیان ہوئے ۔

یہاں ایک نکتہ سمجھ لیجئے

کُتب سابقہ پر جو لوگ ایمان لائے اگر وہ اپنے وقت میں صحابہ ؓ کی عظمت کے قائل نہ ہوتے جو اُن کی کتاب میں درج تھی تو کیا وہ لوگ مومن شمار ہوتے؟

جواب ظاہر ہے کہ جب وہ کتاب الٰہی کے ایک جُزو کے منکر ہوئے تو پوری کتاب ہی کے منکر ہوئے لہٰذا ان کے کافر ہونے میں کوئی شبہ کرسکتا ہے۔

اب اس حقیقت پر غور کیجئے کہ صحابہؓ کی پیدائش سے پہلے اُن کی عظمت کو تسلیم نہ کرنے والا جب مسلمان نہیں ہو سکتا تو صحابہؓ کی پیدائش کے بعد جو اُن کی عظمت کا قائل نہ ہو۔ اُسے کیا کہیں گے؟ لفظ یا اصطلاح خود تلاش کر لیجئے۔

’’ازالۃُ الخفا عن خلافۃ الخلفاء‘‘ میں حضرت شاہ ولیؒ اللہ محدث دہلوی نے ذکر کیا ہے کہ جب بیت المقدس پر حملہ ہوا تو ایک پادری نے کہا تم اپنے رسول(ﷺ) کا دوسرا خلیفہ پیش کرو۔

ہمارے پاس اس کے جو اوصاف لکھے ہیں اگر وہی ہوا تو ہم اطاعت قبول کرلیں گے۔

چنانچہ حضرت عمر فاروقؓ آئے ، غلام اونٹ پر سوار تھا اور آپ نے مُہار پکڑی ہوئی تھی ۱۱؍ پیوند لگے ہوئے تھے۔

پادری ایک تحریر لے کر سامنے آیا۔

حضرت فاروقِ اعظمؓ نے فرمایا کہ اللہ اور مومنوں کا سال ہے وہ واپس چلا گیا ۔( آپ ؓکے)ساتھیوں نے پوچھا یہ کیا بات تھی۔

آپؓ نے فرمایا ۔ اسلام سے پہلے ہم یہاں آئے تھے اس پادری نے مجھے دیکھا تھا اور کہا تمہارے ہاں ایک نبی(ﷺ) پیدا ہو گا تم اس کےدوسرے خلیفہ ہو گے۔ تمہاری فوجیں یہاں آئیں گی اس وقت میرا گرِجا بچانا چنانچہ میں نے اُسے لکھ دیا۔ اب یہ پادری وہی تحریر لے کر میرے سامنے پیش کر رہا تھا ۔

تو میں نے وہ جواب دیا جو تم نے سُن لیاتھا۔

یہ ہے’’ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ ج ذٰلِکَ مَثَلُہُمْ فِی الْاِنْجِیْلِ‘‘۔
کزرع:۔ یہ کھیتی اسلام ہے ۔ یا صحابہ کرامؓ۔ ثابت ہوا کہ لا تعداد صحابہ کا ذکر ہے۔
أَخْرَجَ شَطْأَہُ:۔یہ مکی زندگی ہے۔
فَآَزَرَہُ :۔ قریب ہجرت۔
فَاسْتَغْلَظَ:۔ مدنی زندگی۔
فَاسْتَوَی :۔دَورِ صحابہؓ کیونکہ’’ یُعْجِبُ الزُّرَّاعَ‘‘ اور’’ لِیَغِیظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ ‘‘ کا تعلق اسی دور سے ہے اس مثال کو سمجھنے کے لئے چند مقدمات ہیں۔
پہلا مقدمہ:۔

ترقی ہو گی۔ علی الاتصال ہوگی۔ درمیان میں کٹے گی نہیں اور اللہ تک پہنچے گی۔

دوسرا مقدمہ:۔
ترقی کے تمام مدارج عہد نبویؐ میں پورے نہیں ہوئے۔ ’’لیغیظ بھم الکفار‘‘ کا نقشہ قیصر ؔو کسریٰ کی شکست نے پیش کیا اور یہ بعد میں ہوا۔ حدیبیہ کے بعد حضور اکرم ﷺ نے سلاطین کے نام خطوط پہنچے۔ رومی اور ایرانی حکومتوں کا ردّ عمل مختلف تھا۔ ایرانیوں کی فرعونیت کا یہ عالم تھا کہ بازانؔ کے نام حکم بھیجا کہ اس نبی کو گرفتار کرکے یہاں بھیجو۔ اس نے فیروؔز دیلمی کو بھیجا۔ اُس نے حضور اکرم ﷺ پر سامنے آکر کہا۔’’امدنی ربی ان احملک الیہ ‘‘ کہ میرے مالک نے مجھے حکم دیا کہ آپ کو اس کے پیش کروں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا صبح جواب دیا جائے گا۔صبح کو اسے بلا کر فرمایا کہ میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ تیرا رب قتل ہو گیا ہے۔ فیروز نے جواب سن کر وقت نوٹ کر لیا۔ جو بعد میں صحیح ثابت ہوا۔
علامہ باذلؔ نے ’’حملہ حیدری‘‘ میں اس کا نقشہ کچھ یوں پیش کیا ہے:۔
بگوئید اوّل جواب سلام !
رسانید آنگہ زمن ایں پیام
کہ از قدرتِ قادر ذوالجلال
شود پاک گیتی ز کفر و ضلال
ہمہ اہل ایران و اہل یمن !
بزودی در آئیندہ در دین من
معلوم ہوا کہ ایران او ر یمن کو کفر سے پاک کرنے والی جماعت صحابہ ؓ کی تھی۔ لہٰذا وہی جماعت دینداروں کی تھی۔ اور ان ممالک میں دین پھیلا اور یہ عہدِ فاروقیؓ میں ہوا گویا حضور اکرم ﷺ کی پیشگوئی صحابہ ؓ کے ہاتھوں عہدِ فاروقیؓ میں پوری ہوئی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ دینِ عمرؓ ہی دینِ محمدؐی تھا۔

تیسرا مقدمہ:۔

حضور اکرم ﷺ کے علی الاتصال ۲۴ سال خلافتِ اصحابِ ثلاثہ رہی اگر شیعوں کا دعویٰ خلیفہ بلا فصل تسلیم کیا جائے تو ظاہر ہے کہ ترقی علی الاتصال نہیں ہوئی۔ بلکہ بقول ان کے درمیان میں کفار کی حکومت آگئی اور ترقی انتہاء کو بھی نہ پہنچی۔

اعتراض:۔ صحابہ ؓ کے درمیان جنگیں جو ہوتی رہیں۔ رحماء بینہم کہاں رہ گیا؟

الجواب:۔

معترض کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے جو فرمایا وہ ٹھیک نہیں۔ کوئی ایماندار تو یہ اعتراض نہیں کر سکتا۔ جس کا قرآن پر ایمان ہو۔ وہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ مؤرخین نے جو واقعات بیان کئے ہیں وہ قرآن کے احکام کو رَد نہیں کر سکتے۔

اگر جھگڑے ہی رحماءبینہم کی تردید کرتے ہیں۔ تو جھگڑے کس کے درمیان ہوئے؟

اگر حضرت عائشہؓ اور حضرت امیر معاویہؓ ، رحماء بینہم کا مصداق نہیں تو حضرت علیؓ اور وہ جنہیں تُم اہل بیت کہتے ہو وہ رحماء بینہم کا مصداق کیسے رہ گئے؟

جب تمام صحابہؓ اور اہلِ بیت ،رحماء بینہم سے خارج ہیں تو اس کا مصداق بھی تو لکھیں۔۔۔ چلیں  تاریخ سے ہی دکھائیے۔

حضرت امیر معاویہؓ کا مطالبہ قصاصِ عثمانؓ کا تھا ۔ رافضی مؤرخین نے اسکو خلافت کا جھگڑا بنا ڈالا۔

اور بعد میں آنے والے تمام مؤرخین مکھی پر مکھی مارتے گئے۔

سورۃ الحجرات بین دلیل ہے کہ صحابہؓ کے جھگڑے عناد، لالچ یا کسی دنیوی غرض کے تحت نہیں تھے۔

اس لئے اس سورہ میں صحابہؓ کے اخلاق بتائے تاکہ رحماء بینہم کی صفت اُٹھ نہ جائے۔ مثلاً مومن یا تو نیک ہے یا بد۔رحماء بینہم تب رہیں گے جب نیک صورت قائم رہے۔اگر نیک ہے تو حاضر ہے یا غائب۔

حاضر ہے تو فرمایا ’’لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ‘‘یہ فتنہ پیدا کرنے والی صفات ہیں۔

غائب ہے تو فرمایا ــ’’ لَا یَغتب بعضکم بعضا۔۔۔۔۔۔الخ ۔غیبت سے فتنہ اٹھتا ہے لہٰذا رحماء بینہم کا وصف اُٹھ جائے گا۔

پس رحماء کی صفت کے مصداق صحابہؓ اور اہلِ بیت ہمیشہ رہے۔ اس اعتراض کے ساتھ اس حقیقت پر بھی غور کرو کہ اگر رحماء بینہم کا وصف نہ رہے۔ تو اشداء علی الکفار مان لیں تو بتاؤ اہلِ بیت کو کس کھاتے میں ڈالو گے۔

ہوئے تم دوست جس کے

دشمن اُسکا آسماں کیوں ہو