اہل تشیع اور تحریف القران
توقیر احمداہل تشیع اور تحریف القران
بنام مفتی عبدالعزیز عزیزی صاحب دامت برکات
فہرست ۔۔۔
مقدمہ۔
غرض وغایت
معنوی تحریفات اہل تشیع
لفظی تحریفات اہل تشیع
متاول مصحف کی موجودگی
مصحف علی ؓ
مصحف فاطمہؓ
شیعہ کاعقیدہ کہ قرآن مجید صرف ایک نگران کے ساتھ ہی قابل حجت ہے
صرف آئمہ ہی معرفتِ قرآن کا ملکہ رکھتے ہیں
علیؓ ہی مفسر القران
امام العجل کا اصلی قران کو لانا
ابتداء نظریہ تحریف القران
خلاصہ۔
نتیجہ
مقدمہ۔۔۔۔
ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
غرض وغایت۔۔۔۔
آج کل سوشل میڈیا پر شیعت نے کہرام برپا کیا ہوا ہے شیعت اپنے عقائد باطلہ کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور اپنے عقائد کو ثابت کرنےکے لیےاور ان کو اسلام ثابت کرنے کے لیے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار ہے اور شیعت مذہب کا محور نظریہ امامت ہے اب نظریہ امامت کو ثابت کرنے کے لیےکبھی کہاجاتاہےہ قرآن میں لفظی و معنوی تحریف ہوئی ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ حضرت علیؓ کا مصحف الگ ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے حضرت فاطمہؓ کا مصحف الگ ہے۔ کبھی کہا جاتا ہے اصلی قران امام عجل کے پاس ہےکبھی کہاجاتا ہےقران کی تفسیرصرف حضرت علیؓ ہی کر سکتےہیں کبھی کہا جاتا ہے قران صرف آئمہ ہی کے ساتھ حجت ہے۔ کبھی کہاجاتا ہے شیعہ ناسخ ومنسوخ کے قائل نہیں اور پھر عقیدہ بداء کی تاویل ناسخ ومنسوخ سے کردی جاتی ہے۔ جب کہ ان سب اقوال کی ابتداء عبداللہ ابن سباء یہودی سے ہوئی، اس کا کہنا کہ
ان القران جزء من تسعةاجزاءوعلمہ عندہ علی(رضی اللہ عنہ)
یہ قرآن ان نو اجزاء میں سے ایک جز ہے اور اس کا علم علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس ہے
احوال الرجال صفحہ 38
اہل تشیع کی قرآن میں معنوی تحریف
(معنوی تحریف)
شیعہ کے ہاں یہ نظریہ قرآن کےباطنی معنی کے طور پر مشہور ہےاور اس نظریہ کے نتیجے میں شیعہ کے ہاں کتاب اللہ ایسی شکل اختیار کر چکی ہے جو موجودہ قرآن سے بالکل مختلف ہے شیعہ حضرات معنوی طور پر قرآن میں موجود ارکان دین کی تفسیر مندرجہ ذیل معنی میں کرتے ہیںں
ارکان دین کی تفسیر ائمہ شیعہ سے کرتے ہیں
کفر و شرک والی آیات کی تفسیر علی رضی اللہ تعالی عنہ کی امامت و ولایت میں شرک سے کرتے ہیں
حلال و حرام کی آیات کی تفسیر ائمہ شیعہ اور ان کے دشمنوں سے کرتے ہیں
ان معنوی تحریف شدہ تفسیروں کو پڑھنے والا
اخرکار قیاس باطلہ تاویل باطلہ کو ہی اصل معنی شمار کر لیتا ہےاوراہلبیت کے نام پر گمراہ ہو جاتاہے اور اس کو اسلام شریعت اہلبیت واصحاب رسول ورسول ﷺ کے مراتب میں کوئی فرق نظر نہیں آتا اور
نتیجتا۔ صرف بارہ آئمہ کو ماننے اور اصحاب رسول و باقی اہلبیت کو کافر زندیق مرتد کہنے لگتا ہے
معنوی تحریف کی روایات
محمد بن منصور بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک بندے سے اللہ تعالی کے اس فرمان
قل انماحرم ربی الفواحش۔ ۔۔۔۔اعراف33۔۔۔۔
کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا یقینا قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے قرآن میں اللہ تعالی کی حرام کردہ تمام چیزیں ظاہر ہیں اور اس حرام کا باطنی معنی آئمہ استبداد ہیں اسی طرح قرآن میں اللہ تعالی کے حلال کردہ تمام چیزیں ظاہر ہے اوراس حلال کا باطنی معنی آئمہ حق ہیں
الکافی جلد 1 صفحہ 373
الغیبۃ صفحہ 83
تفسیر العیاشی جلد 2 صفحہ 16
بحارالانوار کےمؤلف نے ایک باب ھی اسی عنوان سے قائم کیا ہے
باب ان للقران ظھرا مؤلف بحارالانوار
اس باب میں 84 روایات ذکر کی گئی ہیں اس کے علاوہ بہت زیادہ کثیر تعداد میں روایات کتاب الامامة کے مختلف ابواب میں ذکر کی ہیں
بحارالانوار جلد 92 ص 78۔ ۔۔ 106
تفسیرالبرھان کے مؤلف نے بھی اسی نام سے ایک باب قائم کیا ہے
باب ان القران لہ ظہر وبطن تفسیر برہان
اس کے مقدمہ میں اس مسئلے پر تفصیلی بات کی گئی ہے مقدمہ میں پانچ فصلیں قائم کی ہیں جن میں اس مسئلہ کے بارے میں اپنے ائمہ کی روایت ذکر کی ہے
مراةالانوار صفحہ 4 تا 19
تفسیر القمی جلد 1 صفحہ ۔14 ۔16
تفسیر عیاشی جلد 1 صفحہ 11
تفسیر الصافی جلد1 صفحہ 29
ان تمام تفسیروں میں معنوی تحریف پر کلام کیا گیا ہے
روایت
ان القران ظھرا وبطنا وببطنہ بطن الی سبعة ابطن
ترجمہ۔۔۔۔یقینا قرآن کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے اور اس کے باطن کے ایک سے لے کر سات تک باطن ہیں
تفسیر الصافی جلد 13/1
روایت۔۔۔۔یقینا آیت کا پہلا حصہ کسی شے کے بارے میں ہوتا ہے اور دوسرا حصہ کسی اور شے کے بارے میں ہوتا ہے یہ باہم ملا ہوا کلام ہے جو کتنے پہلو پر پھرتا ہے
تفسیر العیاشی جلد1 صفحہ 11
المحاسن للبرقی صفحہ 300
البرھان جلد 1 صفحہ 21 20
الصافی جلد 1 صفحہ 29
بحارالانوار جلد 92 صفحہ 95
وسائل الشیعہ جلد 18 صفحہ 146
روایت۔۔۔۔کلام الہی کی ہر آیت کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے بلکہ مشہور روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہر آیت کے سات بطون اور ستر باطن ہیں
مراۃ الانوار صفحہ 3
اہل تشیع کا دعوی ہے کہ بیشتر قرآن مجید شیعہ کے دشمنوں کے بارے میں نازل ہوا ہے
تفسیر صافی جلد 1 صفحہ 24
شیعہ عالم بحرانی کا دعوی ہے کے تنہا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا قرآن مجید میں 1154 مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اور اس نے اس کے بارے میں مستقل ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام
اللوامع النورانیة فی اسماءعلی واھل بیتہ القران
تعرف کتاب یہ شخص اس کتاب میں عربی لغت کے ہر قاعدے قانون کو توڑتا عقل و منطق کے ہر اصول سے تجاوز کرتا اور اس کتاب میں رقم کردہ تحریفات کے ذریعے اپنی قوم کو رسوا کرتا ہےیہ تاویلات اور تحریفات اس سے قبل مختلف مقامات پر بکھری ہوئی اور غیر معروف تھی لیکن اس نے انہیں شیعہ کے مختلف۔ ۔ مصادر سے نقل کرکے ایک جگہ جمع کر دیا ہے
روایت۔۔۔۔قرآن چار حصوں میں نازل ہوا ہے ایک حصہ ہمارے متعلق ہے دوسرا حصہ ہمارے دشمنوں کے بارے میں ہے تیسرا حصہ سنن وامثال ہیں اور چوتھا فرائض واحکام کے بارے میں ہے
الکافی جلد 2 صفحہ 627
البرھان جلد 1 صفحہ 21
روایت۔۔۔۔۔
ولناکرائم القران
یعنی قرآن کے عمدہ اور بہترین مقامات ہمارے لئے ہیں
تفسیر عیاشی جلد 1 صفحہ 19
تفسیر الفرات صفحہ 1 اور 2
بحار الانوار جلد جلد 24 صفحہ 305
کنز الفوائد صفحہ 2
تفسیرالبرھان جلد1 صفحہ 21
اللوامع النورانیہ صفحہ 7
الوافی کا مولف شیعہ عالم فیض الکاشانی کہتا ہے اہلبیت سے بکثرت ایسی روایات مروی ہیں جن میں انہوں نے قرآنی آیات کی اپنے اور اپنے اولیاء اور اپنے مخالفین کے ساتھ تفسیر بیان کی ہے حتی کہ ہمارے اسلاف نےبے حساب کتب تالیف کی ہیں جن میں انہوں نے قرآن کی تاویل میں اہل بیت سے جو کچھ مروی ہے اسے ترتیب قرآن کے مطابق ایک ایک آیت کر کے جمع کیا ہے جوان ائمہ شیعہ کے اور ان کے متبعین کے بارے میں ہے یا ان کے دشمن سے متعلق ہے میں نے ان میں سے ایک کتاب دیکھی ہے جو تقریبا بیس ہزار اشعار پر مشتمل ہے اسی طرح اصول کافی تفسیرعیاشی تفسیر قمی اور ابو محمد زکی سے سماعت شدہ تفسیر میں اس قسم کی بہت زیادہ روایات ہیں
تفسیر الصافی جلد 1 صفحہ 24 25
الکافی میں اس بارے میں بہت سی روایات مروی ہیں جس کا اگر آپ مطالعہ کریں
باب فیہ نکت ونتف من التنزیل فی الولایة
اس باب میں قرآن مجید سے ولایت کے متعلق نکات اور معارف کا بیان اسباب میں ننانویں 99 روایات جمع کردی ہیں آپ اسی باب میں طرح طرح کی معنوی تحریفات ملاحظہ فرماسکتےہیں
الکافی جلد 1 صفحہ 412
اس کے علاوہ اور بہت سارے ابواب مذکور ہیں
باب ان الآئمة العلامات التی ذکرھا اللہ عزوجل فی کتابہ
ان الایات التی ذکرھافی کتابہ ھم الائمة
ان اہل الذکر الذین امر اللہ الخلق بسوالھم ھم الائمة
ملا باقر مجلسی نے کتاب بحارالانوار کی جلد 23 اور 24 میں معنوی تحریفات کےبہت سارے باب قائم کیے ہیں
باب تاویل المومنین ولایمان والمسلمین والاسلام بھم وبولایتھم الکفار والمشرکین والکفر والشرک الجبت والطاغوت واللات والعزی والاصنام باعدائھم ومخالفتھم
یعنی اس باب میں یہ بیان ہوگا کہ قرآن مجید میں ایمان اور مومنین اور اسلام اور مسلمین سے مراد آئمہ اور ان کی ولایت ہے جبکہ کفار مشرکین کفر شرک جب طاغوت لات عزی اور اس نام سے مراد آئمہ شیعہ کے دشمن اور ان کے مخالفین مقصود ہیں پھر مؤلف نے اس باب کے تحت سو 100احادیث ذکر کی ہیں
یعنی اس باب میں یہ بیان ہوگا کہ قرآن مجید میں ابرار متقی اور صابر مقربین سے ائمہ شیعہ اور اصحاب الیامین سے ان کے پیروکار مراد ہیں جبکہ ان کے دشمن فجار اور اشرار اور اصحاب الشمال ہیں مولف نے اس باب میں پچیس شیعی روایات ذکر کی ہیں
جلد 23تا 24ملاحظہ فرمائیں
شیعہ عالم حرالعاملی نے
فصول المھمة فی اصول الائمة
میں متقدمین کی طرح ابواب قائم کیے ہیں
الفصول المھمة۔ ص 256
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں …….
تبصرہ۔۔۔۔
شیعہ مذہب کا دارومدار صرف امامت ۔آئمہ۔اور تبراہ کے گرد گھومتا ہے۔ لیکن قرآن مجید یقینی طور پر شیعہ کے بارہ اماموں کے ذکر اور ان کے دشمنوں کے خلاف کسی واضح دلیل سے خالی ہے اسی امر نےشیعہ لوگوں کا سکون و اطمینان خراب اور ان کا معاملہ تباہ و برباد کر دیا ان لوگوں نے خود بھی یہ صراحت کی ہے کہ قرآن مجید آئمہ کے ذکر سے خالی ہے وہ کہتے ہیں اگر قرآن کو ویسے پڑھا گیا ہوتا جیسے یہ اتارا گیا تھا تو اس میں ہمارا نام بنام ذکر ہوتا
تفسیر عیاشی جلد 1 صفحہ 13
بحارالانوار جلد 19 صفحہ 30
البرھان جلد 1 صفحہ22
تو جب ان کے مذہب کی بنیاد امامت اورائمہ کا قرآن مجید میں کوئی ذکر ہی نہیں تھا تو ان لوگوں نے اپنے فریب خوروں کومطمئن کرنے اور سیدھا سادہ لوگوں اور جاہلوں کے درمیان اپنا مذہب رائج کرنے کے لیے اس رائے کو اختیار کیا ہےاس رائے کو مقبولیت دینے کے لیے حسب عادت اسے بعض اہل بیت کی طرف منسوب کر دیا یہ مسئلہ یقینا آیات قرآن کا ایک باطن ہے جو ان کے ظاہر کے مخالف ہیں کتب شیعہ میں اتنا پھیلا حتی کہ ان کے مذہب کا بنیادی اصول قرار پایا جیساکہ ماقبل میں ہم ان کی کتابوں کے حوالے اورچندروایات نقل کرچکےہیں
نتیجہ۔۔۔۔۔ یقینا قرآن عظیم میں اسرار توجیہات اشارات اور کنایات موجود ہیں یہ ایسا سمندر ہے جس کے خزانے اور عجائب کم ہوتے ہیں نہ اس کے اعجاز ہی کی کوئی انتہا ہے بہرحال ان تمام اشیاء کے لئے الفاظ میں گنجائش ہوتی ہے اور یہ عام معنی کی حدود سے باہر نہیں ہوتی لیکن ان باطینیوں کا دعوی اس مقصد سے نہ آشنا ہے درحقیقت یہ اجنبی تاویلات جیسا کہ آگے ہم نے چند آیات نقل کی ہیں قرآنی الفاظ کے مدلولات ۔ مفہوم اور سیاق سے کوئی میل نہیں کھاتی بلکہ یہ مکمل طور پر قرآنی آیات کی مخالفت کرتی ہیں جن کا ہدف محض قرآن میں ایسی دلیل کو تلاش کرنا ہے جو انکے شذوذ کی تائید کرے اور اس کی غرض و غایت صرف کتاب اللہ اور دین الہی سے روکنا ہے نیز نصوص شریعت کی تاویل میں اس باطنی نقطہ نظر کا نتیجہ مکمل طور پر دین سے باہر ہونا ہے
فتح الباری لابن حجر جلد 1 صفحہ 216
شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں جس نے باطنی معنی کو جان لینے کا دعوی کیا جو ظاہر علم کے خلاف ہوتا ہے تو وہ خطاکار ہے جو ملحد زندیق ہے یا ضلالت کا شکار ایک جاھل ہے باطن جو ظاہری طور پر معلوم ہونے والی بات کے مخالف ہوتا ہے اس کی مثال اسماعیلیہ اور نصیریہ جیسے فرقوں میں سے باطنیہ قرامطہ کےدعوی جات ہیں
پھر فرماتے ہیں وکل شئ احصیناہ فی امام مبین کی تفسیر میں علی رضی اللہ عنہ مراد لیتے ہیں فقاتلوا ائمۃ الکفر سے طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہ مراد لیتے ہیں الشجرۃ الملعونۃ فی القران سے بنو امیہ مراد لیتے ہیں
مجموع الفتاوی جلد 13 صفحہ 236 237
پہلی آیت۔۔۔۔
إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍۢ ۚ
(القصص - 85)
ترجمہ۔۔۔۔۔بے شک جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے وہ ضرور تمہیں ایک لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لانے والا ہے
اس آیت سے سب سے پہلے استدلال کرنے والا عبداللہ ابن سبا یہودی تھا جس نے نظریہ رجعت کو ایجاد کیا اور سب سے پہلے اس آیت سےتاویل کے ذریعے استدلال کرنے کی کوشش کی جیسا کہ وہ کہتا تھا اس شخص پر بڑا تعجب ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عیسی علیہ الصلوۃ والسلام دوبارہ دنیا میں لوٹیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ لوٹنے کا انکار کرتا ہے حالانکہ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا ہے ماقبل آیة۔
إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍۢ ۚ
(القصص - 85)
المقالات والفرق صفحہ-20
اکمال الدین صفحہ 425 435
فرق الشیعۃ صفحہ 22 23
رجال الکشی صفحہ 106 ۔108 ۔305
الروایات۔ 170۔ 171۔ 172۔ 173 174۔
رجال کشی صفحه 108
عبداللہ ابن سبا کے بارے میں تفصیل ہم ابتداء شیعت اور شیعہ کا چوتھا اصول دین امامت ۔شیعت قدیم فلسفوں کی آماجگاہ وغیرہ میں لکھ چکے ہیں
رجعت دیگر ادیان میں
عہد عتیق میں رجعت کے موضوع کی طرف اشارہ ہوا ہے منجملہ حزقیال نے بنی اسرائیل کے زندہ ہوجانے اور آخر الزمان میں داؤد(ع) کی حکومت کی طرف اشارہ کئے ہیں
عهد عتیق 37: 21-27
امو دانیال نے بھی کہا ہے: آخر الزمان میں ـ وہ جو مٹی میں سو چکے ہیں ـ جاگ اٹھیں گے
عهد عتیق 12: 1-3
عہد جدید میں بھی قیامت ثانیہ سے پہلے، مسیح کی حکومت اور ان کے آباء و اجداد کے زندہ ہوجانے کی طرف اشارے ہوئے ہیں۔
مکاشفه یوحنا 20: 4-6
اللہ نے آئمہ کو خلیفہ بنانے کا جو وعدہ کیا ہے وہ رجعت کے بعد کا ہے نبوت کے بعد بلافصل نہیں ہے
خلاصہ ۔۔۔۔قرآن کی آیت سے تاویل باطلہ کے ذریعے سب سے پہلا شخص عبداللہ ابن سباء تھا جس نے اس آیت تاویل پیش کی اور اس سے عقیدہ رجعت استدلال کیا
Surat No 28 : Ayat No 85
اِنَّ الَّذِیۡ فَرَضَ عَلَیۡکَ الۡقُرۡاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ ؕ قُلۡ رَّبِّیۡۤ اَعۡلَمُ مَنۡ جَآءَ بِالۡہُدٰی وَ مَنۡ ہُوَ فِیۡ ضَلٰلٍ مُّبِیۡنٍ ﴿۸۵﴾
جس اللہ نے آپ پر قرآن نازل فرمایا ہے وہ آپ کو دوبارہ پہلی جگہ لانے والا ہے کہہ دیجئے کہ میرا رب اسے بھی بخوبی جانتا ہے جو ہدایت لایا ہے اور ا سے بھی جو کھلی گمراہی میں ہے ۔
بہت ساری احادیث میں منقول ہے کہ مراد رجعت حضرت رسول است بسوے دنیا
اس آیت سے مراد حضرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا کی طرف رجعت کرنا یعنی واپس آنا ہے
حق الیقین فارسی صفحہ 337
ترجمہ مقبول صفہ 788
تفسیر قمی صفحہ 505
تفسیر صافی جلد 2 صفحہ 280
تفسیر نور ثقلین جلد 4 صفحہ 144
تفسیر المتقین صفحہ 513
ان تمام تفاسیر میں شیعہ مفسرین نے اپنے ائمہ معصومین کی طرف روایات منسوب کرکے اس بات پر زور دیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رجعت کرکے یعنی دنیا میں واپس آئیں گے
تبصرہ۔ ۔
شیعہ مصنفین قرآن مجید کی اس آیت کریمہ سے رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی رجعت اپنے اماموں کے اقوال کے ذریعہ سے ثابت کرتے ہیں پھر اس رجعت میں اپنے اماموں سے یہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے بارہویں امام کی بیعت کریں گے
جیسا کہ ملاباقرمجلسی نے امام محمد باقر رحمہ اللہ کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے کہ جب قائم آل محمد غار سے باہر آئیں گے تو خدا اس کی ملائکہ سے مدد کرے گا اور سب سے اول محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم اس کی بیعت کریں گے اور اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ لیکن باوجود اس کے جھوٹ کو کتنا ہی مزین کرکے پیش کیا جائے پھر بھی جھوٹ سچ نہیں ہو سکتا
خود شیعہ مصنفین نے انکشاف کیا ہے کہ یہ عقیدہ بھی عبداللہ بن سبا یہودی کا گھڑا ہوا ہے اس نے اسلام قبول کیا اور علی سے محبت کا اظہار کیا جب وہ یہودی تھا یوشع بن نون سے متعلق یہی کہتا تھا کہ وہ موسی علیہ السلام کے وصی ہیں پھر وفات نبوی کے بعد اسلام قبول کرکے یہی بات علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں اس شخص نے سب سے پہلے علی بن ابی طالب کی امامت کے لزوم کا قول ذکر کیا اور ان کے دشمنوں سے براة ظاہر کی اور انہیں کافر قرار دیااور حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد ان کی رجعت کا سب سے پہلا قائل ہوا اسی بنیاد پر شیعہ کے مخالفین نے کہا ہے کہ رافضی مذہب دراصل یہودیت سے ماخوذ ہے
المقالات والفرق صفحہ-20
اہلسنت تفاسیر
امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر میں اس آیت کے شان نزول کے متعلق لکھا ہے ۔
انہ علیہ السلام خرج من الغار۔۔۔
ترجمہ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کے وقت غار سے نکل کر مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام جحفہ۔ پرائے اور مکہ کی طرف جانے والے راستے کو پہچان لیا تو مکہ کی محبت کا جوش و بھر آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور اپنے والد گرامی کی جائے پیدائش کا محبت سے تذکرہ کیا تو جبرائیل علیہ السلام حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے شہر اور اپنی جائے پیدائش کے اتنے ہی مشتاق ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں اتنی ہی محبت ہے تو جبرائیل علیہ السلام نے کہا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ان الذی فرض ۔۔۔۔ایة یعنی جزات نے قرآن کو پہنچانا آپ پر فرض کیا ہے جس کی وجہ سے آپ مکہ چھوڑنے پر مجبور کئے گئے وہ ذات ضروربالضرور آپ کو اس معاد یعنی مکہ کی طرف لوٹ آئے گی وہ بھی اس حال میں کہ آپ ان پر غالب ہوں گے اسلام کی عزت کا اظہار ہوگا اور کافروں کی ذلت ہوگی اور یقینا ہوابھی اسی طرح اگرچہ معادسے مرادبعض نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور بعض نے جنت اور بعض نے مقام محمود لیا ہے لیکن سب سے زیادہ آیت کے ظاہری معنیٰ کے اعتبار سے یہی زیادہ موافق ہے کہ اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کی خوشخبری دی گئی ہے
تفسیر کبیر جلد 25 صفحہ 21
تفسیر البدیع جلد 2 صفحہ 94
تفسیر ابن کثیر جلد 3 صفحہ 534
تفسیر ابن عباس صفحہ 434
صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 703
اہل تشیع تفاسیر
تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ میں معادسے مراد مکہ کی طرف لوٹنا ہے
وقیل الی معاد الی الموت۔ وقیل الی المرجع یوم القیامة۔
۔ ترجمہ۔ بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ معاد سے مراد موت کی طرف لوٹنا ہے اور بعض نے کہا کہ قیامت کے دن کو مرجع کہا گیا ہے یعنی موت کے بعد آپ کو وہاں لوٹآئے گا جہاں سے آپ آئے ہو اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنت کے طرف لوٹانا مراد ہے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ وہ آپ کو وفات دے گا اور وہ آپ کے جنت میں داخل ہونے کا باعث ہوگی لیکن آیت کا ظاہر تقاضہ یہ ہے کہ آپ کو مکہ کی طرف لوٹائے گا
تفسیر مجمع البیان جلد 7 صفحہ 259
تفسیر نمونہ جلد 9 صفحہ 161
تفسیر المیزان جلد 16 صفحہ 88 صفحہ 141
تفسیر التبیان جلد 8 صفحہ 162
تفسیر منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 134
تفسیر فرمان علی صفحہ 631
نتیجہ۔۔۔۔۔ان تمام تفاسیر میں مختلف اقوال ذکر کیے ہیں معاد سے مراد موت قیامت جنت مقام محمود مکہ کی طرف لوٹنا لیکن تمام مفسرین خواہ وہ مسلمان ہوں یا شیعہ مفسر آخر میں سب نے اقتضاءالنص سے مکہ کی طرف لوٹنے کو ترجیح دی ہے اور اس آیت کریمہ کو رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی رسالت پر دلیل کے طور پر ذکر کیا ہے کہ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھ کر سنائیں ٹھیک اسی طرح کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی طرف لوٹے اور ہوا بھی اسی طرح کہ آپ شان و شوکت سے مکہ کی طرف لوٹ آئے اور بغیر کسی لڑائی کے فتح مکہ ہوا اسلام کی عزت ظاہر ہوئی اور کفر ذلیل ہوا یہی ہے اس آیت کی حقیقت جس میں رسول اللہ صلی اللہ وسلم کا وفات کے بعد دنیا میں واپس آنے کا اشارہ تک نہیں ہے لیکن شیعہ مفسرین کی کوشش یہ ہے کہ اس آیت کریمہ کی اصل حقیقت کو بگاڑ کر سینہ زوری سے اپنا مصنوعی عقیدہ رجعت ثابت کریں لیکن آئی تک یہ حقیقت کھل کر سامنے آئیں اور شیعوں کا مصنوعی عقیدہ رجعت ثابت نہ ہوسکا
دوسری آیت۔۔۔۔۔۔
Surat No 27 : Ayat No 82
وَ اِذَا وَقَعَ الۡقَوۡلُ عَلَیۡہِمۡ اَخۡرَجۡنَا لَہُمۡ دَآبَّۃً مِّنَ الۡاَرۡضِ تُکَلِّمُہُمۡ ۙ اَنَّ النَّاسَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿٪۸۲﴾
جب ان کے اوپر عذاب کا وعدہ ثابت ہو جائے گا ، ہم زمین سے ان کے لئے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہوگا کہ لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے ۔
بہت ساری احادیث میں مذکور ہے کہ یہ دابہ جانور علی علیہ السلام ہے
جو قیامت کے قریب ظاہر ہوگا
حق الیقین فارسی صفحہ 336
تفسیر قمی
ترجمہ مقبول
تفسیر مجمع البیان
ترجمہ فرمان علی
تفسیر عیاشی
ان تمام تفاسیر میں یہی بات لکھی ہوئی ہے اس آیت کی تفسیر میں دابہ یعنی جانور سے مراد حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام ہے جو زمین سے نکلے گا اور اس کے ہاتھ میں عصا موسی اور انگشتری سلیمان ہوگی۔
تبصرہ۔
ملاباقرمجلسی نے سورہ نمل کی آیت نمبر 82 اور 83 سے اپنے مصنوعی عقیدہ رجعت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے صرف باقرمجلسی ہی نہیں بلکہ شیعوں کے بہت سارے مفسرین نے ان آیات کو رجعت پر چسپاں کر کے اپنے ائمہ معصومین کی طرف منسوب کرکے لکھا ہے کہ ان آیات میں رجعت کا ثبوت ہے جبکہ ہردوایات میں سے کسی ایک میں بھی رجعت کا ذکر نہیں ہے آیت نمبر 83 میں ہے کہ جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلایا کرتے تھے ان میں سے ہر گروہ سے ایک ایک کو جدا کرکے ان کی علیحدہ ٹولیاں کرکے ان کو جمع کیا جائے گا اس سے آگے ہے کہ حتی اذا جاوء۔ ۔۔۔۔حتیٰ کہ جب وہ سارے آئیں گے تو اللہ تعالی انکو فرمائے گا اکذبتم بایاتی کیا تم ہی تھے جو میری آیات کو جھٹلاتے تھے ؟؟
اور جب ان پر عذاب کا قول ثابت ہوگا اپنے ظلم کی وجہ سے فھم لا ینطقون ۔تو وہ کچھ بول بھی نہیں سکیں گے
النمل آیت 83 84 85
اس آیت کریمہ کی تفسیر قرآن کی دوسری آیات سے واضح ہوتی ہے
کماقال اللہ فوربک لنحشرنھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الایة
اے رسول تیرے رب کی قسم ہے ہم ان کو اور شیاطین کو اکھٹا کریں گے پھر سب کو جہنم کے گرداگرد گھٹنوں کے بل حاضر کریں گے
ثم لننزعن من کل شیعة ایھم اشد علی الرحمان عتیا۔ ۔
پھر ہر گروہ میں سے ایسے لوگوں کو علیحدہ کریں گے جو دنیا میں بنسبت دوسروں کے اللہ کے زیادہ نافرمان تھے پھر ان لوگوں میں سے جو زیادہ سزا کے لائق ہیں ہم ان کو بخوبی جانتے ہیں اس لئے انکی جدا ٹولیاں بنا کر جدا سزائیں دیں گے
مریم آیت نمبر 68۔69۔70
اس حقیقت کے ظاہر ہونے کے بعد شیعوں کا مصنوعی عقیدہ رجعت ثابت نہیں ہوتا۔
اور مجلسی کی پیش کی ہوئی دوسری آیت یعنی سورہ نمل کی آیت نمبر 82 میں زمین سے ایک جاندار کے نکلنے کا ذکر ہے جو اللہ تعالی کی قدرت سے فصیح عربی زبان میں کلام کرے گا لیکن شیعہ مصنفین نے اس جاندار حیوان کو حضرت علی رضی اللہ عنہٗ بناکر اپنے مصنوعی عقیدہ رجعت کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے
درحقیقت علی رضی اللہ عنہ کو دابۃالارض کہنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بڑی گستاخی ہے لہٰذا ہم اس آیت کریمہ کے متعلق مفسرین حضرات کے اقوال نقل کرکے دابۃ الارض کو واضح کرتے ہیں
شیعہ مفسرین اور مسلمان مفسرین دونوں کے اقوال نقل کریں گے
دابۃ الارض کی تحقیق
مسلمان مفسرین کے اقوال
تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ھی دابة ذات نرغب لھا اربع قواعم۔ ۔۔۔۔۔ترجمہ۔ ۔۔دابہ چار پاؤں والا جانور ہے اس کے جسم پر بہت سارے بال ہوں گے اور ابن زبیر نے اس دابہ کے اوصاف اس طرح بیان فرمائے ہیں۔کہ اس کا سر بیل کی طرح آنکھیں خنزیرکی طرح کان ہاتھی کی طرح سینہ شیر کی طرح گردن نعام پرندے کی طرح اور ٹانگیں اونٹ کی طرح ہیں اس کے ہر ایک جوڑ کے درمیان 12 ہاتھ کا فاصلہ ہوگا اس کے ساتھ حضرت موسی علیہ السلام کا عصا اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی ہوگی وہ لوگوں سے کلام بھی کرے گا اور ان پر نشان بھی لگائے گا۔
اس نشان سے مومنین کے چہرے سے نور چمکے گا اور ان پر لکھا جائے گا ھٰذا مومن حقا اور کافروں کے چہرے پر لکھ دیا جائے گا ھذا کافر حقا
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے کہ وہ دابہ ایسا ہے کہ اس کے بال ہیں پر ہیں اور داڑھی ہے لیکن دم نہیں
تفسیر ابن کثیر جلد 3 ص 499
معمولی الفاظ کی تبدیلی سے تفسیر مواہب الرحمٰن جلد 6۔ سورہ نمل کی آیت نمبر 82 کی تفسیر میں
تفسیر کوثر اسی آیت کی تفسیر میں
۔اور تفسیر روح البیان میں ہے کہ اس دابہ کا نام جصاصہ ہے۔اور یہ پیدا ہوچکا ہے اور بعض صحابہ رضی اللہ عنھم نے اسے دیکھا بھی تھا کہ وہ قید ہے اس لیے اخراجنا فرمایا گیا یعنی قید سے آزاد کر کے اس کو نکالیں گے
تفسیر روح البیان مذکورہ آیت کی تفسیر میں بحوالہ نورالعرفان از مفتی احمد یار خان نعیمی
اور تفسیر روح المعانی میں ہے کہ ابن ابی حاتم نے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ لوگوں کا گمان ہے کہ دابۃ الارض آپ ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا
واللہ ان دابۃ الارض۔۔۔
ترجمہ۔ ۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کی قسم اس دابۃالارض کو پر ہونگے اور جسم پر بہت سے بال ہوں گے اور نہ میرے پر ہیں اور نہ میرے جسم پر اس کی طرح بال ہے اور دوسری بات یہ کہ اس کے کھرے ہونگے مجھے اس کی طرح کھر نہیں
تفسیر روح المعانی جلد 11 صفحہ 22
حضرت مولانا صوفی عبدالحمید سواتی نے لکھا ہے کہ بخاری و مسلم اور احادیث کی دیگر کتابوں نے قرب قیامت کی نشانیوں میں سے سورج کا مغرب سے طلوع ہونا دجال کا خروج مسیح علیہ السلام کا نزول زمین میں خسف کا واقع ہونا آگ کا نکلنا اور دابۃ الارض کا خروج شامل ہے ۔اور صحیح بات یہ ہے کہ یہ عجیب و غریب قسم کا جانور ہوگا جو لوگوں سے بات چیت کرے گا اور واضح طور پر بتائے گا کہ فلاں سچا مومن ہے اور فلاں منافق اور کافر ہے
خلاصہ۔
دابۃ الارض کے جسم پر بہت سارے بال چار پاؤں والا جانور اور اس کے پر ہوں گے بیل کی طرح سر خنزیر کی طرح آنکھیں ہاتھی کی طرح کان شیر کی طرح سینہ پرندے کی طرح گردن اونٹ کی طرح ٹانگیں جوڑوں کے درمیان بارہ ہاتھ کا فاصلہ اور اس کے کھر اور اس کی داڑھی بھی ہوگی
وہ پیدا کیا جا چکا ہے اس لیے اخرجنا فرمایا وہ عجیب جانور ہے جو باتیں کرے گا ۔موسی علیہ السلام کا عصا اور سلیمان علیہ السلام کی انگوٹھی سے نشان لگائے گا تو مومن کے چہرے پر سچا مومن اور کافرین کے چہروں پر پکا کافر خود بخود لکھ دیا جائے گا
شیعہ تفاسیر میں دابہ کی تفصیل
۔تفسیر التبیان میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا
دابة الارض دواب اللہ لھا زغب وریش لھا اربعة قوائم ۔
ترجمہ۔ یعنی وہ دابا اللہ کے جانوروں میں سے ایک ایسا جانور ہے کہ جس کے جسم پر بہت بال ہیں اور اس کے پر بھی ہیں اور اس کے چار پاؤں ہیں
تفسیر التبیان جلد 8 صفحہ 106
مذکورہ آیت کی تفسیر
یہی روایت تفسیر مجمع البیان جلد 7 صفحہ 234 پر مذکورہ آیت کی تفسیر میں لکھی ہے
تفسیر کبیر یعنی تفسیر منہج الصادقین میں حضرت ابن عباس سے نقل کیا گیا ہے کہ قیامت کی نشانیوں میں سے ہے سماویہ نشانی مغرب سے طلوع شمس ہوگا۔اور عرض نشانیوں میں سےدابہ کا خروج ہو گی جس کا طول ساٹھ گز ہوگا اس کے چار پاؤں ہوں گے اور اس کے جسم پر زرد ان کے بال ہوں گے اور اس کے دو پر ہونگے
تفسیر منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 57 مذکورہ آیت کی تفسیر
عین المغانی میں مذکورہ مفسر نے لکھا ہے کہ اس دابہ کی آنکھیں خنزیر کی طرح اور کان ہاتھی کی طرح سینگ پہاڑی گائے کی طرح اور گردن شتر مرغ کی طرح۔اور سینہ شیر کے طرح ہوگا اور اس کے پاؤں اونٹ کی طرح ہوں گے اور اس کے دو قدموں کے درمیان بارہ گز کا فاصلہ ہوگا
تفسیر منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 57
حضرت امیر المومنین علیہ السلام سے مروی ہے کہ وہ دابہ تین روز تک باہر نکلتا رہے گا لیکن اتنا لمبا ہوگا کہ تین روز تک اس کا تیسرا حصہ بھی باہر نہ نکل پائے گا اور مشہور قول یہ ہے کہ تین دن میں پورا باہر آجائے گا
تفسیر منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 58
تفسیر نور ثقلین جلد 6 صفحہ نے مذکورہ آیت کی تفسیر
رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے فرمایا کہ وہ دابہ تین بار نکلے گا ایک بار مدینہ کے قریب ۔۔۔۔ دوسری بار مکہ مکرمہ کے قریب ۔۔تیسری بار خود مسجدالحرام سے نکلے گا
منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 58
تفسیر نورالثقلین جلد 6 صفحہ 99 میں مذکور آیت
۔حضرت حسن علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی سے درخواست کی کہ وہ دابہ دکھا دیں تو تین راتیں وہ دابہ باہر آکر پھر چلا جاتا تھا حضرت موسی علیہ السلام اس کی عجیب خلقت اور ڈراؤنے منظر کو دیکھ کر ایسے خائف ہوئے کہ اللہ تعالی سے عرض کیا کہ اس کو حکم کریں کہ وہ اپنی جگہ واپس چلا جائے ۔
تفسیر منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 59
خلاصہ روایات
دابۃ الارض کے جسم پر بہت سارے بال اور اس کے دو پر اور چار پاؤں ہیں
ایک روایت میں اس کا طول ساٹھ گز ہے
ایک روایت میں ہے کہ وہ اتنا لمبا ہے کہ وہ تین دن تک نکلتا رہے گا
دابہ کی خنزیر جیسی آنکھیں ہاتھی جیسے کان پہاڑی گائے جیسے سینگ شترمرغ جیسی گردن شیر جیسا سینہ اور اونٹ جیسی ٹانگیں اور اس کے کھر ہیں
وہ دابۃالارض تین بار نکلے گا
موسی علیہ السلام کو ہدایت دکھایا گیا تو اس کی ایسی ڈراونی صورت تھی کہ دوبارہ دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔
اس دابہ کے دو قدموں کے درمیان 12 گز کا فاصلہ ہوگا
تبصرہ۔ ۔۔
کیا شیعہ مفسرین نے جو کیفیت جسامت قدامت اور صورت دابۃ الارض کی ذکر کی ہے اس حقیقت کے کھلنے کے بعد کوئی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور عقیدت رکھنے والا حضرت علی کو وہ دابہ تصور کرسکتا ہے ۔ہرگز نہیں
لیکن باوجود اس کے شیعہ مفسرین نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رجعت کو ثابت کرنے کے لئے اس پر انتہائی زور دیا ہے کہ وہ دابہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں مثلا۔ شیعہ مفسر علی بن ابراہیم قمی جو شیعوں کے نزدیک امام حسن عسکری کا شاگرد ہے اس نے لکھا ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امیرالمومنین علیہ السلام کے پاس اس حالت میں آئے گے مسجد میں سو رہے تھے اور ریت کا ایک ڈھیر کر کے سر مبارک اس پر رکھے ہوئے تھے پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پائے مبارک سے حرکت دے کر فرمایااے دابۃالارض اٹھ تو اصحاب میں سے کسی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بھی آپس میں اس نام سے ایک دوسرے کو پکارا کریں فرمایا نہیں واللہ یہ نام خاص طور پر علی ہی کے لیے ہے
اور علی ہی وہ دابہ ہے جس کا خدا تعالی اپنی کتاب میں یہ ذکر فرماتا ہے
وإذا وقع القول۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر فرمایا اے علی جب آخری زمانہ آئے گا تو خدا تعالی تم کو نہایت ہی حسین صورت میں (جوشیعہ مفسرین نے لکھی ہے )ظاہر کرے گا اور تمہارے پاس نشان لگانے کا ایک آلہ ہوگا جس سے تم اپنے دشمنوں کو نشان دار کرو گے
ترجمہ مقبول مذکورہ آیت کی تفسیر میں باحوالہ تفسیر قمی اور تفسیر صافی و تفسیر عیاشی
تفسیر صافی اور تفسیر عیاشی میں یہی قصہ حضرت ابوذر سے نقل کیا گیا ہے
تفسیر المتقین اور ترجمہ فرمان علی اور تفسیر نمونہ اور البرہان فی تفسیر القرآن اور تفسیر نور ثقلین میں یہی بات موجود ہے
ان تمام تفاسیر میں انتہائی زور دیا گیا ہے کہ دابۃ الارض حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں تاکہ حضرت علی کا دوبارہ آنا قرآن سے ثابت کیا جائے
اور عقیدہ رجعت کو قرآن سے ثابت کرکے پختہ بنایا جائے ۔
لیکن باوجود اس کے بعض شیعہ محققین و مفسرین نے بجائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام مہدی کو دابۃالارض لکھا ہے
ابوالفتوح رازی اپنی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ان روایات کی رو سے جو ہمارے علماء کے ذریعے ہم تک پہنچی ہیں کہ دابۃ الارض حضرت امام مہدی علیہ السلام کے لیے کنایہ ہے
تفسیر روح الجنان از ابوالفتوح رازی جلد نمبر 8 صفحہ 423
تفسیر نمونہ جلد 8 صفحہ 724
تفسیر منہاج الصادقین جلد 7 صفحہ 58
یاد رہے تفسیرنمونہ شیعہ کی وہ معتبر ترین تفسیر ہے جو ان کے دس محققین آقاؤں نے ملکر اپنی جدید تحقیق کے مطابق تحریر کی ہے اصل میں یہ تفسیر فارسی زبان میں 27 جلدوں پر مشتمل ہے جو مکتبہ حوزہ علمیہ قم ایران سے شائع ہوئی ہے
اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ محققین کی جدید تحقیق یہ ہے کہ دابۃ الارض حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں بلکہ شیعوں کا بارہواں امام جو کسی غار میں چھپا ہوا ہے وہ ظاہر ہوگا ۔اس تحقیق کے مطابق کسی مرنے والے کی رجعت نہیں ہوگی بلکہ ایک غائب حاضر ہوگا اور اس کے علاوہ شیعہ محققین رجعت نے ایک اور تاویل بھی کی ہے کے شیعہ امامیہ کی ایک جماعت کا یہ بھی کہنا ہے کہ رجعت کے متعلق جتنی روایات ہیں ان کی تاویل یہ ہے
رجوع الدولة۔ ۔۔۔۔والامر والنھی دون رجوع الاستخاص والأحياء والأموات
یعنی رجعت کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی حکومت امر ونہی کا رجوع ہوگا نہ کہ کسی شخص کا لوٹانا اور نہ ہی مردوں کا زندہ ہونا
تفسیر نورالثقلین جزو رابع صفحہ 111
تفسیر مجمع البیان جلد 7 صفحہ 234
اگرچہ انہیں مفسرین نے ایسی تاویل کو غلط کہا ہے لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوا کہ شیعہ امامیہ کی ایک جماعت مردوں کے زندہ ہونے والی رجعت کا انکار کرتی ہے
یا مفسرین نے بالآخر یہ بھی لکھا کہ مذکورہ بالا جماعت کا مردوں کے زندہ ہونے کا انکار اس وجہ سے ہے کہ
لان الرجعت لم تثبت بظواہر الاخبارالمنقولة۔
یعنی عقیدہ رجعت صریح طور پر بظاہر منقولا احادیث سے ثابت نہیں ہے اس کو تاویل سے ثابت کیا جاتا ہے اور اس تاویل پر شیعہ علماء کا اجماع ہے
تفسیر مجمع البیان جلد 7 صفحہ 235
یہی وجہ ہے کہ بلآخر شیعہ محققین نے مجبورا لکھا کہ عقیدہ رجعت اسلام کی بنیادی شرائط میں سے نہیں ہے جیسا کہ تفسیر نمونہ میں شیعہ محققین نتیجے کے طور پر لکھا ہے کہ اس سلسلےکی آخری بات کے طور پر اپنا یہ عقیدہ مکتبہ اہل بیت اور ائمہ اطہار سے لیا ہے لیکن وہ رجعت کے منکرین کو کافر نہیں سمجھتے کیوں کہ حرج شیعہ ہونے کے لحاظ سے ضروری ہے لیکن مسلمان ہونے کے لئے ضروری شرائط میں سے نہیں اسی بنا پر اس عقیدے کی وجہ سے مسلمانوں کا اسلامی رشتہ اخوت آپس میں نہیں ٹوٹتا البتہ شیعہ حضرات منطقی طریقہ سے اپنے اس عقیدے کا دفاع ضرور کرتے ہیں
تفسیر نمونہ جلد 8 صفحہ 730
شیعہ مفسرین نے یہ بھی قرار کیا ہے کہ ایمان والوں کے رجعت قرآن سے ثابت نہیں صرف خبر سے ثابت ہے اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ ہمارے علما رجعت کو اصول دین میں شامل نہیں کرتے۔
تفسیر منہاج الصادقین جلد 7 صفحہ 59
کیا شیعہ مصنفین کی متضاد بیانیوں کے بعد کوئی صاحب عقل و دانش عقیدہ رجعت کو تسلیم کر سکتا ہے
ہرگز نہیں
جبکہ شیعہ مصنفین نے خود ہی اقرار کیا ہے کہ عقیدہ رجعت نہ اصول دین میں سے ہے اور نہ ہی اسلام کے بنیادی شرائط میں سے ہے اور نہ ہی مسلمان ہونے کے لئے کوئی ضروری شرط ہے تو اس سے ظاہر ہے کہ دین اسلام کو ماننے والوں کا اس عقیدے سے کوئی تعلق نہیں اور دوسری بات یہ کہ دابۃ الارض کے بارے میں خود شیعوں کے علامہ شعرانی نے تفسیرمنھج الصادقین پر حاشیہ لگا کر لکھا ہے کہ دابۃ الارض کا خروج صحیح ہے باقی اس کی تفصیل میں روایات اور مفسرین کے اقوال میں بہت بڑا اختلاف ہے
اس لئے اس کی تحقیق ہم پر واجب نہیں صرف اجمالی ایمان رکھنا کافی ہے
تفسیر منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 56
اس سے معلوم ہوا کہ ایک طرف تو شیعہ مصنفین نے مذکورہ آیت سے عقیدہ رجعت کو سینہ زوری سے ثابت کرنے کی کوشش کی اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے رجعت کو ثابت کرنے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دابہ بنالیا لیکن دوسری طرف خود ہی بتا دیا کہ ایمان والوں کے رجعت قرآن سے نہیں
صرف خبر سے ثابت ہے لیکن خبر سری سے بھی نہیں بلکہ تاویل سے ثابت کرتے ہیں اس میں بھی اختلاف کی وجہ سے اس کو نہ اصول دین میں رکھ سکے اور نہ ہی اسلام کی بنیادی شرائط میں اور اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دابۃالارض کہنے سے بھی ہاتھ اٹھا دیا بلکہ صرف اجمالی ایمان رکھنا کافی سمجھا
نتیجہ۔۔۔۔۔یہ انتہائی فحش معنوی تحریف کی گئی ہیے اور یہ تک خیال نہیں رکھا گیا کہ حضرت علیؓ کودابةالارض کہنےسے ان کی شان میں کتنی بڑی گستاخی ہوسکتی ہے کے طور پر نہ عقیدہ رجعت ثابت کرسکے اور نہ ہی دابۃالارض کو حضرت علی پر چسپاں کر سکے
تیسری آیت معنوی تحریف میں
Surat No 27 : Ayat No 83
وَ یَوۡمَ نَحۡشُرُ مِنۡ کُلِّ اُمَّۃٍ فَوۡجًا مِّمَّنۡ یُّکَذِّبُ بِاٰیٰتِنَا فَہُمۡ یُوۡزَعُوۡنَ ﴿۸۳﴾
اور جس دن ہم ہر امت میں سے ان لوگوں کے گروہ کو جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے گھیر گھار کر لائیں گے پھر وہ سب کے سب الگ کر دیئے جائیں گے ۔
بہت ساری احادیث میں امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ
این ایت دررجعت است ۔۔۔۔۔کہ یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے کہ حق تعالیٰ ہر امت میں سے ایک گروہ کو زندہ کرے گا اور قیامت کے بارے میں یہ آیت ہے
Surat No 18 : Ayat No 47
وَ یَوۡمَ نُسَیِّرُ الۡجِبَالَ وَ تَرَی الۡاَرۡضَ بَارِزَۃً ۙ وَّ حَشَرۡنٰہُمۡ فَلَمۡ نُغَادِرۡ مِنۡہُمۡ اَحَدًا ﴿ۚ۴۷﴾
اور جس دن ہم پہاڑوں کو چلائیں گے اور زمین کو تو صاف کھلی ہوئی دیکھے گا اور تمام لوگوں کو ہم اکٹھا کریں گے ان میں سے ایک کو بھی باقی نہ چھوڑیں گے ۔
اور فرمایا کہ آیات سے مراد امیرالمومنین اور آئمہ ہیں
حق الیقین فارسی صفحہ 336
اور یہی بات شیعوں کے فاضل جلیل حجةالاسلام سید فرمان علی نے اپنے ترجمہ و تفسیر کے صفحہ نمبر 612 پر اسی آیت کی تفسیر میں لکھی ہے
سوائے اس کے کہ آیت سے مراد امیرالمومنین اور ائمہ معصومین میں یہ نہیں لکھا
اور یہی روایت تفسیرقمی میں موجود ہے اس آیت کی تفسیر میں
اور ترجمہ مقبول میں ہے کہ حضرت امام جعفر صادق سے منقول ہے کہ مومنین میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے کہ وہ شہید کیا گیا اور وہ موت کا ذائقہ چکھنے کے لئے رجعت نہ کریں اور جس جس کو رجعت ہوگی وہ یا تو ایمان میں خالص ہوگا یا کفر میں
ترجمہ مقبول صفحہ 764
تفسیر نمونہ جلد 8 صفحہ 720
تفسیر صافی جلد 2 صفحہ 247
تفسیر قمی جلد 2 صفحہ 131
تفسیر منہج الصادقین جلد 7 صفحہ 59
تفسیر نور الثقلین جلد 4 صفحہ
تفسیر المیزان جلد 15 صفحہ 582
ان تمام تفاسیر میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ آیت کریمہ سے عقیدہ رجعت ثابت ہوتا ہے حالانکہ اس میں قیامت سے پہلے کسی کو زندہ کرکے جمع کرنے کا ذکر تک نہیں ہے
بلکہ اس آیت کریمہ اور اس کے بعد والی دو آیات میں قیامت کے دن اٹھانے کا ذکر ہے مثلا فرمایا گیا ہے کہ ہر امت میں سے ہماری آیات کو جھٹلانے والوں میں سے ایک سرکش گروہ کو ہم جدا کرکے کھڑا کریں گے حتیٰ کہ جب وہ آئیں گے تو اللہ تعالی انکو فرمائے گا اکذبتم بایاتی۔ کیا تم میری آیات کو جھٹلاتے تھے ؟حالانکہ تمہیں کسی علم کا کوئی احاطہ نہیں تھا اور جو کچھ تم کرتے تھے ہمیں معلوم ہے ان کے ظلم نافرمانی کی وجہ سے ان پر ہمارے عذاب کا قول ثابت ہو جائے گا پس وہ بول ہی نہ سکیں گے
سورہ نمل آیت نمبر 83 84 85
ان آیات کو پڑھنے کے بعد واضح ہوجاتا ہے کہ یوم نحشر میں قیامت کے دن کا ذکر ہے جیسا کہ دوسری آیات سے اس کی اور بھی وضاحت ہوتی ہے
Surat No 37 : Ayat No 22
اُحۡشُرُوا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا وَ اَزۡوَاجَہُمۡ وَ مَا کَانُوۡا یَعۡبُدُوۡنَ ﴿ۙ۲۲﴾
ظالموں کو اور ان کے ہمراہیوں کو اور ( جن ) جن کی وہ اللہ کے علاوہ پرستش کرتے تھے ۔
Surat No 37 : Ayat No 23
مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَاہۡدُوۡہُمۡ اِلٰی صِرَاطِ الۡجَحِیۡمِ ﴿ٙ۲۳﴾ ٙ
( ان سب کو ) جمع کرکے انہیں دوزخ کی راہ دکھا دو ۔
Surat No 37 : Ayat No 24
وَ قِفُوۡہُمۡ اِنَّہُمۡ مَّسۡئُوۡلُوۡنَ ﴿ۙ۲۴﴾
اور انہیں ٹھہرا لو ( اس لئے ) کہ ان سے ( ضروری ) سوال کیئے جانے والے ہیں ۔
اور جیسا کہ ظاہر ہے کہ ان سے یہی سوال پوچھا جائےگا کہ اکذبتم بآیاتی۔کیا تم ہو جو میری آیات کو جھٹلاتے تھے؟
جیساکہ دوسری آیات میں ہے کہ قیامت کے دن بڑے بڑے سرکشوں کو الگ کرکے سخت سزا دی جائے گی
Surat No 19 : Ayat No 68
فَوَ رَبِّکَ لَنَحۡشُرَنَّہُمۡ وَ الشَّیٰطِیۡنَ ثُمَّ لَنُحۡضِرَنَّہُمۡ حَوۡلَ جَہَنَّمَ جِثِیًّا ﴿ۚ۶۸﴾
تیرے پروردگار کی قسم! ہم انہیں اور شیطانوں کو جمع کر کے ضرور ضرور جہنم کے ارد گرد گھٹنوں کے بل گرے ہوئے حاضر کر دیں گے ۔
Surat No 19 : Ayat No 69
ثُمَّ لَنَنۡزِعَنَّ مِنۡ کُلِّ شِیۡعَۃٍ اَیُّہُمۡ اَشَدُّ عَلَی الرَّحۡمٰنِ عِتِیًّا ﴿ۚ۶۹﴾
ہم پھر ہر ہر گروہ سے انہیں الگ نکال کھڑا کریں گے جو اللہ رحمٰن سے بہت اکڑے اکڑے پھرتے تھے ۔
Surat No 19 : Ayat No 70
ثُمَّ لَنَحۡنُ اَعۡلَمُ بِالَّذِیۡنَ ہُمۡ اَوۡلٰی بِہَا صِلِیًّا ﴿۷۰﴾
پھر ہم انہیں بھی خوب جانتے ہیں جو جہنم کے داخلے کے زیادہ سزاوار ہیں ۔
ان آیات کی تفسیر میں شیعہ مفسر بھی یہی تفسیر کرتے ہیں مثلا تفسیر صافی جلد 2 صفحہ 51 میں ہے
من کل الشیعة
سے مراد
من کل امة
اور تفسیرمیزان جلد نمبر 4 صفحہ 120 پر ہے کہ
روساء وامامان ضلالت را بیرون می آوریم
ہر جماعت میں سے گمراہ کرنے والوں روسا اور اماموں کو جدا کریں گے
ترجمہ۔ یعنی سب سے پہلے اس جماعت کو جو کفر اور نافرمانی میں دوسروں سے زیادہ ہوتی تھی جدا کر کے جہنم میں ڈالیں گے اور اس کے بعد وہ لوگ جو کفر اور سرکشی میں ان سے کمتر تھے ان کو جہنم میں ڈالیں گے
تبصرہ۔ ۔۔
ان آیات کی تفاسیر نے مذکورہ آیت۔یوم نحشرمن کل امة۔ ۔۔۔۔۔
کی حقیقت کو واضح کر دیا کہ یہ آیت کریمہ اس منظر کو بیان کر رہی ہے جس وقت محشر کے میدان میں سرکش کافروں کو یعنی کافروں کے پیشواؤں کو جدا کرکے ایک جگہ جمع کرکے ان سے سختی سے حساب لیا جائے گا اور ان کو کہا جائے گا اکذبتم بآیاتی ۔کیا تم ہماری آیات کو جھٹلایا کرتے تھے پھر ان کو سخت سزا دی جائے گی اس طرح کا مفہوم قرآن مجید کی اکثر آیات میں بیان کیا گیا ہے لیکن شیعہ مفسرین جن کا مقصد ہی قرآن مجید کی اصل حقیقت کو بگاڑنا ہے وہ قرآن کی تفسیر آیات کے مقاصد کو واضح کرنے کے لیے نہیں بلکہ بگاڑنے کے لیے کرتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے ائمہ حضرات کی طرف منسوب کرکے اس آیت کریمہ سے بھی قیامت کے مقصد کو بگاڑ کر اپنا مصنوعی عقیدہ رجعت ثابت کرنے کی فضول کوشش کی ہے لیکن اس آیت کریمہ اور قران مجید کی کسی بھی آیت میں عقیدہ رجعت کا کوئی اشارہ تک نہیں ہے
نتیجہ۔۔۔۔۔۔
شیعہ مفسرین نے اس آیت کی بھی انتہائی فحش معنوی تحریف کر کے اپنے من گھڑت عقیدے کے لیے باطل تاویل کے زریعے استدلال کرنے کی کوشش کی ہے
چوتھی آیت معنوی تحریف میں
Surat No 3 : Ayat No 157
وَ لَئِنۡ قُتِلۡتُمۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَوۡ مُتُّمۡ لَمَغۡفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَحۡمَۃٌ خَیۡرٌ مِّمَّا یَجۡمَعُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾
Surat No 3 : Ayat No 158
وَ لَئِنۡ مُّتُّمۡ اَوۡ قُتِلۡتُمۡ لَاِالَی اللّٰہِ تُحۡشَرُوۡنَ ﴿۱۵۸﴾
ترجمہ۔اگر تم خدا کی راہ میں مارے جاؤ یا اپنی موت سے مرے ہو تو بے شک خدا کی بخشش اور رحمت اس مال و دولت سے جس کو تم جمع کرتے ہو ضرور بہتر ہے اور اگر تم اپنی موت سےہی مارےجاؤ آخر کار خدا ہی کی طرف قبروں سے اٹھائے جاؤ گے
ترجمہ فرمان علی شیعہ
قرآن کی ان دو آیات کا ترجمہ جو شیعہ عالم نے کیا ہے اس ترجمے سے ہی حقیقت کو سمجھنا آسان ہے کہ دنیا میں ہمیشہ رہنا نہیں اپنی موت سے مرنا یا قتل ہو کر بھی مرنا ضرور ہے وہاں دنیا کی زندگانی کا جمع کیا ہوا مال کام نہیں آئے گا اور خصوصا فی سبیل اللہ قتل ہونا یا اللہ کی سبیل میں زندگی گزارتے ہوئے خود بخود مر جانے پر جو اللہ کی مغفرت اور رحمت ہے وہ دنیا کے جمع کیے ہوئے مال سے کئی گناہ بہتر ہے اور جس طرح مرنا یقینی ہے تو مرنے کے بعد اللہ کی طرف یعنی قیامت میں جمع ہونا بھی یقینی ہے
لیکن شیعہ مصنف نے ہر دو آیات کو بگاڑ کر ایک آیت بنائیں اور تفسیر کو بگاڑ کر عقیدہ رجعت کو ثابت کرنے کی کوشش کی
روایت۔ ملاباقرمجلسی نےدو آیات کو ملا کرایک آیت بنائیں ولئن قتلتم فی ۔۔۔۔۔۔۔تحشرون۔ اور اس کی تفسیر میں لکھا ہے کہ بہت سارے طریقوں سے منقول ہے کہ ایں آیت در رجعت است۔۔۔۔۔۔۔یعنی یہ آیت رجعت کے بارے میں ہے اور سبیل اللہ علی کی ولایت اور اس کی زریت کی راہ ہے۔جو کوئی اس آیت پر ایمان رکھے گا اس کو قتل ہونا اور مرنا ہے یعنی اگر دنیا کی زندگی میں قتل کیا گیا اس راہ میں تو رجعت میں ان کو لوٹایا جائے گا تاکہ وہ مریں اور اگرپہلے وہ مرے ہیں تو رجعت میں ان کو لوٹایا جائے گا تاکہ وہ ان اماموں کی راہ میں قتل ہو
اور یہی فرمان کل نفس ذائقۃ الموت کی تفسیر میں ہے یعنی جو قتل ہوئے ہیں انہوں نے موت کا ذائقہ نہیں چکا ہے البتہ رجعت میں ان کو دنیا میں لوٹایا جائے گا تاکہ وہ موت کا ذائقہ چکیں ہیں
حق الیقین فارسی صفحہ 337
روایت
امام ابو جعفرسے رجعت کے متعلق ایک لطیف انداز سے سوال کیا میں نے کہا جو قتل ہوتا ہے کیا وہ مرتا ہے
قال لا۔ الموت موت القتل قتل
امام نے کہا کہ قتل ہونے والا مرا نہیں موت ہے اور قتل قتل ہے
مااحد یقتل الا وقد مات
یعنی جو بھی قتل ہوتا ہے وہی یقینا مرتا ہے تو امام نے فرمایا اس طرح نہیں بلکہ موت ہے اور قتل ہے میں نے عرض کیا کہ اللہ کا فرمان ہے کل نفس ذائقۃ الموت جو قتل ہوتا ہے وہ موت کا ذائقہ نہیں چکھ سکتا پھر فرمایا ضروری ہے کہ وہ لوٹ کر آئے اور موت کا ذائقہ چکھے۔
اور یہیں سے مسئلہ رجعت ثابت ہے کہ جس شخص نے موت کا ذائقہ نہیں چکھا یعنی قتل ہوا ضروری ہے کہ وہ دنیا میں رجعت کرے اور موت کا ذائقہ چکھنا ہے
ترجمہ مقبول صفحہ 133
تفسیر عیاشی جلد 1 صفحہ 202
تفسیر المتقین صفحہ 87
تفسیر نور الثقلین جلد 1 صفحہ 403
تفسیر صافی جلد 1 صفحہ 302
تبصرہ
ان تمام تفاسیر میں عقیدہ رجعت کو ثابت کرنے کی فضول کوشش کی گئی ہے حالانکہ موت کا مزہ چکھنے کے دو طریقے بتائے گئے ہیں یا تو اپنی موت خود مرا یا کسی کے قتل کرنے سے مرجائے دونوں میں سے کسی طریقے سے بھی مرنے والے کو کفن دیا جاتا ہے جنازہ پڑھا جاتا ہے دفن کیا جاتا ہے وراثت تقسیم کی جاتی ہے ازواج کو عدت میں بٹھایا جاتا ہے عدت کے بعد ان کا شادی کرنا جائز ہے لیکن شیعہ مصنفین نے اپنے مصنوعی عقیدہ رجعت کو ثابت کرنے کے لئے مقتولین کے لئے موت کا ذائقہ چکھنے کا ہی انکار کر دیا کیا یہ قرآن کی تفسیر کرنا ہے یا آیات کے صحیح مفہوم کو بگاڑنے کی کوشش کرنا
اور میت کے احکام میں جو آیات نازل ہوئی ہیں وراثت عدت نکاح کفن دفن وغیرہ کی ان میں تعارض پیدا کرنا ہے
مسلمان مفسرین کی تفسیر
لوکانواعندناماماتوا۔ ۔۔۔۔۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اگر وہ ہمارے پاس ہوتے یعنی لڑائی پر نہ جاتے تو نہ مرتے یعنی نہ قتل ہوتےتو اللہ تعالی نے جواب دیا ۔ یحیی ویمیت۔ ۔۔۔اللہ زندہ رکھتا ہے اور مارتا ہے منافقین کا قول اور اللہ کی طرف سے جواب ال العمران کی ہی آیت 156 میں مذکور ہے
اور دوسرے جواب آیت نمبر 157 اور 158 میں یوں دیا گیا ہے کہ اگر تم فی سبیل اللہ قتل کئے گئے یا جہاد کے راستے میں چلتے ہوئے اپنی موت مرتے تو البتہ اللہ کی رحمت اور مغفرت لوگوں کے مال جمع کرنے سے کئی گناہ بہتر ہے اور اگر تم اپنی موت مرے یا قتل کئے گئے تو البتہ تم اللہ کی طرف جمع کیے جاؤ گے
تفسیر الکبیر جلد 5 صفحہ 53
اسی سے ملتا جلتا مضمون تفسیر بن کثیر جلد 1 صفحہ 556 میں آل عمران کی آیت نمبر 156 تا 158 کی تفسیر میں
شیعہ تفاسیر میں
شیعوں کے شیخ طوسی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالی نے مومنین سے خطاب فرمایا اے ایمان والو تم ان کافروں مثلا عبداللہ بن سلول اور ان کے ساتھیوں کی طرح نہ بنوجنہوں نے اپنے بھائیوں کے لیے کہا تھا کہ اگر وہ ہمارے پاس ہوتے تو لڑائی میں قتل نہ ہوتے اور سفر میں فوت نہ ہوتے اللہ تعالی نے ان کا رد کرتے ہوئے فرمایا واللہ یحیی ویمیت یعنی موت اور زندگی کا مالک اللہ ہی ہے کسی کا موت سے بھاگنا اور زندگی طلب کرنا کوئی نفع نہیں دے گا اور اللہ ان کے اعمال کو دیکھ رہا ہےاور اگلی آیت میں فرمایا کہ یقینا لوگ جو دنیا کی زندگی کو آخرت پر ترجیح دیتے ہیں یہاں تک کہ اللہ کی راہ کو چھوڑ کر دنیا کی محبت اور کثرت کی سوچ و فکر میں مال جمع کرتے ہیں اے ایمان والو تمہارا فی سبیل اللہ قتل ہونا یا اس راستے میں فوت ہونا جس کا نتیجہ اللہ کی بخشش و مغفرت ہے ان کے مال جمع کرنے سے بہتر ہے اور اگر تم اپنے موت مرو یا قتل کیے جاؤ ہر حال میں اللہ کی طرف ہی لوٹنا ہے نہ کہ دنیا کی طرف واپس آنا
ان خیرا فخیرا وان شرا فشرا
یعنی اچھائی کا بدلہ اچھا اور برائی کا بدلہ براہے
تفسیر التبیان جلد 3 صفحہ 28 29
اسی سے ملتا جلتا بیان تفسیر مجمع البیان جلد 1 صفحہ 526 پر ہے
تفسیر نمونہ جلد 2 صفحہ 281 پر
ان تمام تفاسیر میں موت کا ذائقہ چکھنے کی دو صورتیں بتائی گئی ہیں کسی کے قتل کرنے سے موت کا ذائقہ چکھنا یا بغیر قتل کے مر کر موت کا ذائقہ چکھنا اور اس کے بعد اللہ کے پاس جمع ہونا اور اللہ ہی سے اپنے اعمال کا بدلہ ملنا ذکر کیا گیا ہے اور آیات کا سیاق و سباق بھی اسی پر دال ہے باوجود اس کے غالی شیعوں نے آیات کے سیاق و سباق کی پرواہ کیے بغیر اپنا مصنوی عقیدہ رجعت کو اماموں کی طرف جھوٹی روایات منسوب کرکے لکھ دیا کہ قتل ہونے والا موت کاذائقہ نہیں جاسکتا اس لئے ان تمام کی رجعت ہوگی جو قتل کئے جاتے ہیں وہ اپنی موت مریں گے اور جو اپنی موت مرے ہیں وہ رجعت کے بعد قتل کیے جائیں گے یعنی تمام انسان رجوع کریں گے
نتیجہ ۔۔۔
نتیجہ یہ ہوا کہ اب عقیدہ رجعت شیعہ مذہب کی ضروریات میں سے ہوگیا حالانکہ ان آیات میں شیعہ کے مصنوعی عقیدہ رجعت کا اشارہ تک نہیں ہے اور شیعہ نے انتہائی فحش معنوی تحریف کی ہے
آیت نمبر پانچ معنوی تحریف میں
Surat No 40 : Ayat No 11
قَالُوۡا رَبَّنَاۤ اَمَتَّنَا اثۡنَتَیۡنِ وَ اَحۡیَیۡتَنَا اثۡنَتَیۡنِ فَاعۡتَرَفۡنَا بِذُنُوۡبِنَا فَہَلۡ اِلٰی خُرُوۡجٍ مِّنۡ سَبِیۡلٍ ﴿۱۱﴾
وہ کہیں گے اے ہمارے پروردگار! تو نے ہمیں دوبارہ مارا اور دو بارہ ہی جلایا اب ہم اپنے گناہوں کے اقراری ہیں تو کیا اب کوئی راہ نکلنے کی بھی ہے؟
دراحادیث واردشدہ است کہ یک زندہ گردانیدن در رجعت است ودیگری درقیامت ویک زندہ گردانیدن دررجعت است ودیگرے درقیامت ۔
احادیث میں وارد ہے کہ ایک بار زندہ کرنا رجعت میں اور دوسری بار قیامت میں ہے اور ایک بار مارنا دنیا میں ہے اور دوسری بار رجعت میں
حق الیقین فارسی صفحہ 340
شیعہ مفسر امداد حسین کاظمی نے لکھا ہے کہ تفسیر صافی صفحہ 443 پر باحوالہ تفسیر قمی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ ان لوگوں کا یہ قول زمانہ رجعت میں ہوگا
تفسیر المتقین صفحہ 606
ترجمہ و تفسیر مقبول صفحہ 746
ترجمہ و تفسیر فرمان علی صفحہ 746
۔وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ ۖ فَمِنْهُم مَّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُم مَّنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَالَةُ ۚ فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (36)
۔اللہ تعالی نے جب بھی کوئی نبی مبعوث کیا تو اسے ہماری ولایت اور احمد براءت کا حکم ضرور دیا ہے
تفسیر عیاشی جلد 2 صفہ 261
البرھان جلد 2 صفحہ 373 تفسیر صافی جلد 3 صفحہ 143
تفسیر نور الثقلین جلد 3 صفحہ 60
وَقَالَ اللَّهُ لَا تَتَّخِذُوا إِلَٰهَيْنِ اثْنَيْنِ ۖ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ (51)
خلاصہ۔۔۔۔۔شیعہ مفسرین نے انتہائی غلو اور تاویلات باطلہ کے ساتھ قران میں موجود لفظ الہ سے آئمہ کو مراد لیا یے
لفظ رب سے بھی آئمہ مرادلیا ہے لفظ البحر اورالبحار سے حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہؓ مرادلیا ہے لفظ اللوءوالمرجان
سے حسن وحسین رضی اللہ عنہما مرادلیاہے اسماءالحسنی سے مراد بھی آئمہ لیا ہے اسی طرح لفظ شیطان سے مراد حضرت عمرؓمرادلیاہے
شیعہ مفسرین کی طرف سے بہت زیادہ کثیر تعداد میں قرانی آیات کی معنوی تحریفات کی گئی ہیں جن کو ہم نے شیعہ کے اصول دین میں بھی زکر کیا ہے
تفسیر عیاشی جلد 2 صفحہ
227
تفسیر الصافی جلد 3
صفحہ 83
البرھان جلد2ص 309
بحار الانوار جلد 3 صفحہ 371
تفسیر عیاشی جلد 2 صفحہ 261
نور ثقلین جلد 360
تفسیر قمی جلد 2 صفحہ 115
اصول کافی جلد 1 صفحہ 257
فاستبقواالخیرات
الخیرات سے مراد ولایت ہے
البرھان جلد 1 صفحہ 163
تفسیر صافی جلد1 صفحہ 200
علامات وبالنجم ھم یھتدون۔
علامات سے مراد آئمہ ہیں
تفسیر القمی جلد 1 صفحہ 383
تفسیر عیاشی جلد 2 صفحہ 255
الکافی جلد 1 صفحہ 206
البرھان جلد 2 صفحہ ٣٦٢
تفسیر الصافی جلد 3 صفحہ 129
تفسیر فرات صفحہ 83
مجمع البیان جلد 4 صفحہ 62
ان اللہ اصطفی لکم الدین
دین سےمراد ولایت علی ہے
فلاتموتن الاوانتم مسلمون
تمہیں موت آئے تو تم ولایت علی پر اسلام لانے والے ہو
البرھان جلد 1 صفحہ 156
مراۃ الانوار صفحہ 148
تفسیرالقمی میں اس آیت
ان اقیمواالدین
دین سے مراد امام ہے
ولا تتفقروفیہ
یہ امیرالمومنین علی سے کنایا ہے
کبرعلی المشرکین ماتفعوھم الیہ۔
اس سے مراد ولایت علی کا مسئلہ ہے
اللہ یجتبی الیہ من یشاء
یہ علی سے کنایہ ہے
تفسیر قمی جلد 2 صفحہ 273
البرھان جلد 4 صفحہ 120
تفسیر صافی جلد 4 صفحہ 368
بحارالانوار جلد 36 صفحہ 84
بل کذبوابالساعة
سے مراد ولایت علی کی تکذیب ہے
الغیبۃ صفحہ 54
البرھان جلد 3 صفحہ 157
مراۃ الانوار صفحہ 182
انالننصررسلنا۔ ۔۔۔۔حیات دنیا سے مراد رجعت ہے
تفسیر القمی جلد 2 صفحہ 258
تفسیر الصافی جلد 4 صفحہ 325
البرھان جلد 4 صفحہ 600
باب انھم جنب اللہ ووجہ اللہ۔ویداللہ وامثالھا
اس باب میں اللہ کی ذات کے بارےمیں تاویلات ملاحظہ فرمائیں
۔۔۔بحارالانوار جلد 24 صفحہ 191 تا203
الفحشاء ۔المنکر۔البغی ۔المیسر۔ الخمر۔ الانصاب۔الازلام
۔الاصنام ۔الاوثان ۔الجبت۔ الطاغوت ۔المیتة ۔الدم ۔لحم الخنزیر۔
ان تمام الفاظ سے مراد ہمارے دشمن ہیں
۔بحارالانوار جلد 24 صفحہ
303
روایت۔ ۔۔ہماری حدیث سے دل نفوذ ہوتے ہیں پس جو کوئی اسے گوارا کرلے اس کے سامنے ہماری حدیث اور زبان بیان کرو اور جو اسے ناپسند کرے تو اسے چھوڑ دو اور نہ سناؤ یقینا
بحارالنوار جلد 2 صفحہ 192
روایت۔ ۔۔۔سفیان سے مروی ہے کہ میں نے ابو عبداللہ سے کہا میں آپ پر قربان جاؤں یقینا آپ کی طرف سے ہمارے پاس ایک شخص آتا ہے جو جھوٹ بولنے میں مشہور ہے وہ ہمیں ایسی حدیث سناتا ہے کہ ہم اسے بہت برا سمجھتے ہیں ابو عبداللہ نے فرمایا کیا وہ تمہیں یہ کہتا ہے کہ میں نے رات کو دن کہا یا دن کو رات کہا ہے تو اگر وہ تمہیں یہ کہے کہ میں نے ایسا کہا ہے تو اسے مت جھٹلاو وگرنہ تم مجھے جھٹلاؤ گے
بحارالانوار جلد 2 صفحہ 211
اللوامع النورانیة صفا 549 550
رجال کشی صفحہ 194
باب فی ماجاءان حدیثھم صعب مستصعف۔
اس باب میں پانچ روایات ذکر ہوئی ہیں
الکافی۔ جلد 1 صفحہ 401 402
اسی عنوان کے تحت بحار الانوار کہ مؤلف نے باب قائم کیا ہے اور اس میں 116 روایات کر کی ہیں
نتیجہ۔۔۔۔۔
یہ امر توجہ طلب ہے کہ یہ تاویلات شیعہ کے ہاں صرف تاویل قرآن کے بارے میں اجتہادی آراء کا درجہ نہیں رکھتی جو رد و قبول بحث اور اصلاح کے قابل ہوتی ہیں بلکہ یہ تشریحات شیعہ اصول کے مطابق ان کے لیے شرعی نصوص ہیں جو وحی کا مقام اور اسی اہمیت کی حامل ہیں اور انہیں فرمان نبوی جیسا تقدس اور شرعی حیثیت حاصل ہےشیعہ کے ہاں ایسی روایات بکثرت مروی ہیں جو اس طرح کی عقل فطرت اور لغت و منطق کے ساتھ کسی طرح بھی میل نہ کھانے والی روایات کو رد کرنے سے ڈراتی اور باور کراتی ہیں کہ اپنی عقل کا چراغ گل کر دو اور اندھادھند ایمان لے آؤ کے مصداق تسلیم کرنا اور احتراز سے گریز کرنا لازمی ہے ان لوگوں نے اپنے پیروکاروں کو اس طرح کی نصوص کو قبول کرنے کا عادی بنانے کے لئے بڑی کوششیں کیں اور زور لگایا ہے مثال کےلیے ہم نے ماقبل میں دو روایات پیش کی ہیں
معلوم ہوتا ہے کہ شیعہ کے لئے پاوں جمانا اور کتاب اللہ کی کسی دلیل سے احتجاج کرنا صرف اسی وقت ممکن ہے جب وہ فحش اورمعنوی تاویل کے زریعے استدلال کریں۔اہل تشیع اس قدر معنوی تحریفات کی ہیں کہ بحارالانوار کے مؤلف نے قرآن کی 174 آیات سے عقیدہ رجعت کو استدلال کرنے کی کوشش کی ہے تو یہ چند مثالیں تھیں شیعہ کی طرف سے معنوی تحریف القرآن کی جو ہم نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہیں
قرآن میں لفظی تحریف کی مثالیں اور تحریف
قران کے جابجا الفاظ بدل دیے گئے ہیں قرآن مجید کے ترتیب خراب کردی ہے۔یعنی اس کی سورتوں کی ترتیب اور سورتوں کے اندر جو آیتیں ہیں ان کی ترتیب اور آیتوں کے اندر جو کلمات ہیں ان کی ترتیب اور کلمات کے اندر جو حروف ہیں ان کی ترتیب خراب کردی گئی ہے
روایات اہل تشیع
عبارات اہل تشیع
روایت۔۔۔۔ابن سباء یہودی کا قول۔۔۔۔
ان القران جزء من تسعة اجزاءوعلمہ عند علیؓ ۔
یہ قرآن ان نو اجزاء میں سے ایک جز ہے اور اس کا علم علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس ہے
احوال الرجال صفحہ 38
حسن بن محمد بن حنفیہ المتوفی 95ھ کے اس خط سے مزید اس کی وضاحت ہوتی ہے
۔۔۔۔اس کی لڑائی میں ایک یہ بات بھی ہے جس کو ہم نے پایا ہے کہ یہ کہتے ہیں ہمیں ایسی وحی کی رہنمائی کی گئی ہے جس سے لوگ گمراہ اور ناواقف رہے ہیں اور ہمیں مخفی علم دیا گیا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبی نے قرآن کے نوحصے چھپا لیے اگر اللہ کے نبی نے اس سے کوئی چیز چھپائی ہوتی جو اللہ نے آپ پر نازل کیا تھا تو آپ زید کی بیوی کے متعلق یہ آیت
واذتقول للذی انعم اللہ علیہ
آیت کو چھپا لیتے
کتاب الایمان لمحمد بن ابی عمر المکہ العدنی صفحہ249 250
١۔۔۔علي عليه السلام يجمع القرآن ويعرضه على الناس
فلما رآى غدرهم وقلة وفائهم له لزم بيته وأقبل على القرآن يؤلفه ويجمعه، فلم يخرج
من بيته حتى جمعه وكان في الصحف والشظاظ والأسيار والرقاع.
فلما جمعه كله وكتبه بيده على تنزيله وتأويله والناسخ منه والمنسوخ، بعث إليه
أبو بكر أن اخرج فبايع. فبعث إليه علي عليه السلام: (إني لمشغول وقد آليت نفسي يمينا
أن لا أرتدي رداء إلا للصلاة حتى أؤلف القرآن وأجمعه).
فسكتوا عنه أياما فجمعه في ثوب واحد وختمه، ثم خرج إلى الناس وهم
مجتمعون مع أبي بكر في مسجد رسول الله. فنادى علي عليه السلام بأعلى صوته:
کتاب سلیم بن قیس صفحہ 146
ترجمہ و تشریح۔۔۔۔۔
حضرت علی اپنے گھر میں بیٹھے رہتے انہوں نے اسے جمع کیا یہ صحیفوں اور کپڑوں کے ٹکڑوں میں تھا انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بیعت جلدی نہ کرنے پر یہ عذر پیش کیا کہ وہ قرآن جمع کرنے میں مصروف تھے اور کہا میں نے قسم کھا رکھی تھی کہ میں جب تک قرآن جمع نہ کر لو تب تک نماز کے سوا اپنی چادر نہیں اوڈھوں گا حضرت علی رضی اللہ نے صرف قرآن جمع نہیں کیا تھا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اس کی تعبیر اور ناسخ و منسوخ کو بھی جمع کیا تھا
شیخ مفید جو ان کے ہاں رکن اسلام اور آیت اللہ الملک العلام کے نام سے ملقب ہےکہتا ہے
روایت۔۔۔۔ان یعنی امامیہ کا اتفاق ہے کے آئمہ ضلال( خلفاءثلاثہ مرادلیتےہیں) نے قرآن کریم کی تالیف میں بہت زیادہ اختلاف کیا ہے اور انہوں نے اس میں قرآن کے تقاضے اور نبی کی سنت سے اعراض کیا ہے
اوائل المقالات صفحہ-13
سنہ3ہجری میں کلینی کے استاد شیعہ عالم علی بن ابراہیم قمی تحریف قرآن کے افسانے کو اپنی تفسیر میں بھرتے اور اپنی تفسیر کے مقدمے میں اس کی صراحت بھی کرتے ہیں
تفسیر القمی جلد1 صفحہ10 48 100 110 118 122 123 142 159
جلد 2 صفحہ 21 صفحہ 111 صفحہ 175
ان زندیقیت سے بھری ہوئی روایات کی توثیق شیعہ کا ایک بڑا عالم خوئی اپنی کتاب میں کرتا ہے
معجم رجال الحدیث للخوئی جلد 1 صفحہ 63
قمی کے بعد اس کا شاگرد کلینی جو ثقةالاسلام کے لقب سے ملقب ہے اصول الاربع میں سے ایک کتاب اصول الکافی کا مولف وہ بھی تحریف القرآن کے افسانے پربہت زیادہ روایات نقل کرتا ہے
اصول الکافی باب فیہ نکت ونتف من التنزیل فی الولایة من
جلد 1 صفحہ 413
باب ان القران یرفع کماانزل
جلد 2 صفحہ 619
باب النوادر جلد 2 صفحہ 628
اور شیعہ مصنفین نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ الکلینی تحریف القرآن کا عقیدہ رکھتا تھا کیونکہ اس نے اپنی کتاب کافی میں اس مفہوم کی روایت ذکر کی ہیں لیکن کسی ایک نے بھی جراح اور تنقید نہیں کی حالانکہ اس نے اپنی کتاب کے شروع میں ذکر کیا ہے وہ جوبھی روایت نقل کرے گا اس کی توثیق بھی کرے گا
تفسیر صافی مقدمہ سات 7 صفحہ 52
مقدمہ الکافی صفحہ 9
مجلسی نے مراۃ العقول کافی کے بعض روایت پر ضعف کا حکم لگایا ہے لیکن تحریف قرآن کی روایات پر صحت کا حکم لگایا ہے
مرآۃ العقول جلد2 536
اصول کافی کی شرح الشافی میں بھی صحت کا حکم لگایا گیا ہے تحریف قرآن کی روایات پر
الشافی جلد 7 صفحہ 227
تحریف القرآن کے اس افسانے کا ذکرتفسیر العیاشی کے مصنف نے بھی کیا ہے جو کہ الکلینی کا ہم عصر تھا
تفسیر العیاشی جلد 1 صفحہ 13 128 129 206 وغیرہ
تفسیر عیاشی کے بارے میں عالم محمد حسین طباطبائی کہتے ہیں یہ اپنے موضوع پر بہترین قدیم تالیف ہے
مقدمہ حول الکتاب مؤلفہ صفحہ
طوسی الفہرست صفحہ163 165
تیسری اور چوتھی صدی میں فرات بن ابراہیم کوفی ہوا ہے جس کی فرات کے نام سے ایک تفسیر ہے اس نے بھی تحریف القرآن کے افسانے کو نقل کیا ہے
تفسیر فرات صفحہ 18 صفحہ 58 وغیرہ
ملا باقر مجلسی نے فرات کوفی کو معتبر قرار دیا ہے
بحارالانوار جلد 1 صفحہ 37
محمد ابراہیم نعمان بھی سنہ 300 ھ کے زمانے میں ہوا اس نے اپنی کتاب الغیبہ میں تحریف القرآن کے الزام کی روایت ذکر کی ہیں
الغیبة صفحہ 217
مجلسی کہتا ہے کہ یہ کتاب جلیل القدر اور صحیح ہے
بحارالانوار جلد 1 صفحہ 30
ابوالقاسم کوفی کے اپنی کتاب الاستغاثہ میں تحریف القرآن کی کہانی کا ذکر کرتا ہے
الاستغاثہ صفحہ25
نجاشی نے اس کی طرف التبدیل والتحریف نامی ایک کتاب منسوب کی ہے
النجاشی صفحہ 203
یہ تحریف کی بعض روایات کو براہ راست قمی سے روایت کرتا ہے
الاستغاثہ صفحہ-29
شیعہ عالم مفید اپنی کتاب اوائل المقالات میں اپنے گروہ کا اس منکریعنی تحریف القران پر اجماع تحریر کیا ہے
اوائل المقالات صفحہ 51
مفیدکتاب الارشاد میں بعض روایات کو نقل کرتا ہے
الارشاد صفحہ 365
مجلسی نے کتاب کی توثیق کی ہے
بحارالانوار جلد 1 صفحہ 27
طبرسی نے تحریف القرآن کے افسانے کو الاحتجاج میں ذکر کیا ہےاور بہت ساری روایات ذکر کی ہیں
الاحتجاج صفحہ-14
شیعہ عالم نعمت اللہ جزائری کے اعتراف کے مطابق اس کے لیے دو ہزار سے زائد روایت گھڑی گئی ہیں
فصل الخطاب صفحہ 125
مجلسی نے بحارالانوار کتاب القران باب ان القران لم یجمعہ کماانزل الاآئمة
جلد 92 صفحہ 66
الکاشانی نے تفسیر صافی
مقدمہ سادسہ صفحہ 40 55 136 163 399 460
البرھان باب ان القران لم یجمعہ کما انزل الاآئمة صفحہ 34 70 106 140 170 277 294 295 308
نعمت اللہ جزائری نے انوارالنعمانیہ جلد 2 صفحہ 358 357
ابوالحسن شریف نے مراۃالانوار مقدمہ ثانی صفحہ 36 اور 49
مازندرانی نے شرح الکافی میں شرح الجامع الکافئ جلد 11 صفحہ 66
نتیجہ۔۔۔۔۔۔
ہم نے لفظی تحریف القران کی روایات کو مختصرا پیش کیاتاکہ عوام الناس کو اندازہ ہو کہ اس نظریہ کی ابتداءابن سباء سے ہوئی اور پڑھتے ہوے اس نہج پر پنہچا کہ اب ہر شیعہ موقف اختیار کرتا ہے کہ وہ تحریف القران کے قائل نہیں لیکن معاملہ اس کے برعکس نکلتاہےکیوںکہ اس قدر متواتراور کثیر روایات کا جھٹلانا ممکن نہیں ہے پھر فن الرجال کے ماہرین نے بھی تصدیق کی ہے جیسا کہ مختصرا ہم زکر کر آئے ہیں اب چلتے ہیں قران میں لفظی تحریفات کی مثالوں کی طرف
قران میں لفظی تحریف کی مثالیں
سب سے پہلے تحریف قرآن کے افسانے کو عملی جامہ پہنانے والے قمی اور کلینی ہیں انہوں نے ہر اس آیت کےبعد جس میں انزل اللہ علیک یا انزلنا الیک کے الفاظ تھےان کے بعد فی علی کے لفظ کو داخل کردیا اور لفظ ظلموا کے بعد آل محمد حقھم کو ٹھونس دیا لفظ اشرکواکے بعد فی ولایة علی کا اضافہ کر دیا اور قرآن میں جہاں جہاں امة کا لفظ آتا ہے اس کو آئمہ میں بدل دیا
بئسما اشتروا به انفسهم ان يكفروا بما انزل الله (في علي )بغيا
الکافی جلد 1 صفحہ 417
وان کنتم فی ریب مما نزلنا (فی علی) فاتو١ بسورۃ من مثلہ
الکافی جلد 1 صفحہ 417
يا ايها الذين اوتوا الكتاب امنوا بما نزلنا (في علی) نورا مبينا
الکافی جلد 1 صفحہ 417
قمی لکھتا ہے جو تحریف شدہ آیات ہیں ان میں یہ فرمان باری تعالی بھی ہے
لکن الله يشهد بما انزل اليك (في علي) انزله بعلمه والملائكه يشهدون
یاایھاالرسول بلغ ما انزل الیک من ربک (فی علی) وا لم تفعل فما بلغت رسالتہ
ان الذين كفروا وظلموا( آل محمد حقهم) لم يكن اللہ لیغفرلھم
وسيعلم الذين ظلموا( ال محمد حقهم )في غمرات الموت
تفسیر القمی جلد 1 صفحہ 160
تفسیر القمی جلد 1 صفحہ 48 100 110 122 126
قمی کہتا ہے کہ اس کی بہت زیادہ مثالیں ہیں قرآن مجید میں
تفسیر القمی جلد1۔ص 10 11
كنتم خير امة اخرجت للناس
اس آیت کے بارے میں لکھتاہے کہ یہ اس طرح نازل ہوئی تھی
كنتم خير آئمة اخرجت للناس
تفسیر القمی جلد 1 صفحہ110
کلینی رضا سے اس آیت کبرعلی المشرکین کے بارے میں روایت کرتا ہے کہ وہ اس کے بعد ولایة علی کا اضافہ کرتے ہیں اور ماتدعوھم الیہ کے بعد یامحمد من ولایة علی کا اضافہ کرتے ہیں کتاب اللہ میں ایسا ہی لکھا ہے
الکافی جلد 1 صفحہ 418
آیت۔ فستعلمون من هو في ضلال مبين
میں یہ
يا معاشر المكذبين حيث رسالة ابي في ولايه علي عليه السلام والائمه من بعده من هو في ضلال مبين
جھٹلانے والوں کا اضافہ کرتے ہیں پھر وہ اس بات کے ساتھ اس کفر اور تحریف کی توثیق و تاکید کرتے ہیں کہ یہ ایسے ہی نازل ہوئی تھی
الکافی جلد 1 صفحہ 421
اللہ تعالی کے اس فرمان
فلنذیقن الذين كفروا
میں
بترکہم ولایت امیرالمؤمنین علیہ السلام عذابا شدیدا فی الدنیا ولنجزینھم اسواء والدین کانوایعملون۔
کا اضافہ کرتے ہیں
الکافی جلد 1 صفحہ 321
خلاصہ۔۔۔۔۔۔اس گروہ کی ایک جماعت صدیوں سے مسلسل اللہ تعالی کے کلام میں انسانی کلام داخل کرنے کی احمقانہ کوشش کرتی رہی ہے اس نے امکانی حد تک بہت بڑی تعداد تیار کرنے کے لیے پورا زور لگایا ان کوششوں کی مثالوں کے علاوہ جو ہم نے ذکر کی ہیں اور بھی بہت ساری مثالیں ہیں جیسا کہ فصل الخطاب کے مؤلف نے 1000 پیش کردہ مثالوں سےتحریف القرآن کے افسانے کو ظاہر کیا
فصل الخطاب صفحہ 253
اسی طرح مجلسی نےباب باندھا ہے باب التحریف في الايات التي هي خلاف ما انزل الله مما رواہ مشائخنا
بحارالانوار جلد 92 صفحہ 60 کے عنوان کے تحت قائم کردہ ابواب میں ذکر کیا ہے ایسے ہی ان کی تفسیر کی کتابیں بھی اس تلچھٹ سے بھری پڑی ہےان تمام روایت کو فصل الخطاب کے مؤلف نے جمع کیا ہے فصل الخطاب صفحہ 253 رافضہ نے ان تراشیدہ روایت کو کتاب اللہ سے ساقط ہونے والی آیات کا ایک حصہ شمار کیا ہے کلینی کافی میں روایت کرتا ہے ان القرآن الذی جاء بہ جبریل علیہ السلام الی محمد سبعۃ عشر الف ایۃ،
وہ قرآن جو جبرائیل محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر آئے اس کی 17000 آیات تھیں
اصول الکافی کتاب فضل القرآن باب نوادر جلد 2 صفحہ 134 ۔جب کہ قرآنی آیات جس طرح مشہور ہے کہ چھے ہزار سے کچھ زائد ہیں اس روایت کا تقاضا یہ ہے کہ تقریبا دو تہائی حصہ ساقط ہے اور یہ کتنا بڑا افترا ہے۔یہ روایت کافی میں ہے جو ان کی سب سے صحیح کتاب ہےلیکن کچھ شیعہ کا کہنا ہے کہ کافی میں ساری روایت صحیح نہیں ہے کتاب دعوۃ التقریب صفحہ 383 شیعہ بین الحقائق والاوہام صفحہ 419 اور ۔420 ۔اگر ہم اس جیسے قول کو حقیقت پر محمول کریں تقیہ پر نہیں جو ان کے ہاں حسن اور صحیح اور ضعیف کے اصول و ضوابط پر تحفظات اور اس سلسلے میں ان کے اختلافات اور اضطراب اگر ہم اس سے بھی تجاوز کریں کیونکہ ان کے نزدیک ضعیف کا حکم کبھی صرف سند پر ہو سکتا ہے ان کا کہنا ہے
الکافی کی اکثر احادیث کی اسناد صحیح نہیں لیکن وہ متون کے لحاظ سے اور عقائد حقہ کی معرفت کے اعتبار سے معتبر ہیں ان جیسی روایت میں سند کو نہیں دیکھا جاتا
مقدمہ شرح جامع الشعرانی
اگر ہم ان تمام باتوں سے صرف نظر کریں اور ان کے علماء سے اس روایت کی صحت کے بارے میں جواب چاہیے تاکہ ہم اپنے اس عمل میں انکی کتب الرجال کی روشنی میں اسناد پر غور کرکے زیادہ سے زیادہ غیر جانبدار رہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ مجلسی سابقہ روایت کے متعلق کہتا ہے
فالخبر صحیح ولا یخفی ان ھذا الخبر و کثیرا من الاخبار الصحیحۃ صریحۃ فی نقص القرآن و تغیرہ و عندی ان الاخبار فی ھذا الباب متواترۃ معنی و طرح جمیعھا یوجب رفع الاعتماد عن الاخبار راسا بل ظنی ان الاخبار فی ھذا الباب لا یقصر عن اخبار الامامۃ فکیف یثبتونھا بالخبر،
لہذا یہ خبر صحیح ہے
مخفی نہ رہے کہ یہ خبر اور دیگر بہت ساری صحیح روایات صراحتاً قرآن پاک میں کمی اور تبدیلی پر دلالت کرتی ہیں اور میرے نزدیک تحریف قرآن کے مسئلہ میں روایات ماننامتواتر ہیں اور ان سب روایات کو ترک کرنا تمام ذخیرہ حدیث سے اعتماد کو اٹھانا ہے، بلکہ میرا خیال ہے کہ تحریف قرآن کی روایات مسئلہ امامت کی روایات سے کم نہیں، اگر ان روایات کا اعتبار نہ ہوا تو مسئلہ امامت روایات سے کیسے ثابت کریں گے؟،
مرآۃ العقول جلد 2 صفہ 536 مجلسی کی یہ گواہی ان کے نزدیک انتہائی زیادہ قابل اعتبار ہے کیونکہ وہ کافی کا محقق شارح ہے جس نے اس میں صحیح اور ضعیف کو بیان کیا ہے مرآۃ العقول اور محمد جواد مغنیہ کی کتاب العمل بالحدیث وشروطہ وعندالامامیة ضمن کتاب دعوۃ التقریب صفحہ 383
معاصر علماء سے اس روایت کی صحت کے متعلق آگاہی چاہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کا عالم عبدالحسین مظفر کہتا ہے یہ صحیح طرح موثق ہے الشافی شرح اصول الکافی جلد 7 صفحہ 227 یہ بحث تھی اس روایت کے صحیح ہونے پر اب اس روایت کے معنی کیا ہیں تو اس کی وضاحت کافی کا شارح محمد صالح بن احمد مازندانی
یوں کرتا ہے قرآن کی آیات 6500 ہیں اور اس سے جو زائد حصہ ہے وہ تحریف کی وجہ سے ساقط ہو چکا ہے شرح جامع الکافی جلد 11 صفحہ 76
مجلسی کہتا ہے یہ روایت اور بہت ساری دیگر صحیح روایات قرآن میں کمی اور تحریف کے حوالے سے صریح ہیں
مرآۃ العقول جلد 2 صفحہ 536 ابن بابویہ شروعات کا بارے میں الاعتقادات میں جو ان کے معاصر علماء کی تحقیق کے مطابق معتبر کتاب ہے الذریعہ جلد 13 صفحہ 101 وہ کہتا ہے یقینا قرآن کے علاوہ اتنی وحی نازل ہوئی ہے کہ اگر اسے قرآن کے ساتھ جمع کرلیا جاتا تو وہ ستر ہزار آیت کی مقدار کے برابر ہوتی یہ جبرائیل کے اس قول کی طرح ہے عش ماشئت فانك ميت واحبب ما شئت فانك مفارقه واعمل ما شئت فانك ملاقيه الاعتقادات صفحہ 102اس کے بعد اس نے اس جیسی کئی مثالیں پیش کی ہیں
تباین۔۔۔۔۔۔۔
ابن بابویہ کہتا ہے
نزل من الوحی الذي ليس بقران
قرآن کے علاوہ نازل ہونے والی وحی
جبکہ کلینی کہتا ہے ان القرآن الذی جاء بھ جبرائیل وہ قرآن جس کو جبرائیل لے کر آئے ابن بابویہ کہتا ہے کہ کمی غیر قرآن میں ہےجبکہ کلینی کہتا ہے کمی قرآن میں ہے اسی لئے مجلسی اور مازندرانی نے اس روایت کی ایسی شرح کی ہے جو اس ملحدانہ سوچ کے ظاہری مفہوم کے مطابق ہے جب کہ ہم ابن بابویہ کو دیکھتے ہیں کہ وہ روایت میں مذکور قرآن کریم کی آیات کی تعداد سے زیادہ تعداد کو قدسی احادیث پر ماحمول کرتا ہے وافی کا مصنف لفظی تحریف کی کفریہ تاویلات کرتے ہوے قرآن کی آیات سے زائد تعداد ہوسکتا ہے ان آیات کی ہو جن کی تلاوت منسوخ ہوچکی ہے الوافی مجلد ثانی جلد 1 صفحہ 273
شیعہ کا آج کا سب سے بڑا عالم اور مرجع خوئی جو ظاہرا قرآن کا دفاع کرتا ہےلیکن موقف اختیار کرتا ہے کہ تلاوت منسوخ ہونے کا قول تحریف کا قول ہے
البیان صفحہ 201 گویا اس نے چاہا کہ یہ دروازہ ہی بند کردے اور ثابت شدہ قاعدے کو رد کردیں تاکہ مبہم اور غیر واضح انداز میں اپنے دل میں چھپائے ہوئے عقیدے کو ثابت کر سکے نسخ اور تحریف کے درمیان فرق بالکل واضح ہے تحریف بشر کا فعل ہے اور اللہ تعالی نے اس کے فاعل کی مذمت کی ہے اور نسخ اللہ تعالی کی طرف سے ہوتا ہے اللہ تعالی فرماتے ہیں
ما ننسخ من ايه او ننسها نات بخير منها او مثلها
نتیجہ۔۔۔
جیساکہ کلینی کہتا ہے کہ دو تہائی قرآن ساقط ہوچکا ہےاور قرآن تین حصوں میں نازل ہوا تھا ایک حصہ ہمارے دشمنوں کے بارے میں ایک سنن اور امثال ہیں اور ایک تہائی فرائض اور احکام اللہ کے کہا جاتا ہے کہ اگر یہ قرآن جس طرح نازل ہوا تھا پڑھا جاتا تو اس میں ہمارا نام بنام ذکر ہوتا اور یہی ان تمام کوششوں کا محور اور ظاہری ہدف ہے اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ امت ان تمام طویل صدیوں میں گم ہی رہی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر اس کے پاس کتاب کا صرف تیسرا حصہ ہی رہا ہے اور آئمہ جن کے پاس ان کے دعوے کے مطابق مکمل قرآن ہے کھڑے تماشہ دیکھتے رہے ہیں انہوں نے امت کو وہ نہیں پہنچایا تاکہ وہ گمراہی کے اسیر رہیں اور ان کو دوست اور دشمن کی تمیز نہ رہے وہ لوگوں کو مہدی کے ہاتھ ظاہر ہونے کا جھانسہ دیتے رہےنہ ہی امام غائب واپس لوٹ رہا ہے نہ ہی مصحف ظاہر ہو رہا ہے اگر امت اس کے بغیر ہدایت پر گامزن رہ سکتی ہے تو اس کے منتظر کے ساتھ ظاہر ہونے کا کیا فائدہ ہے اگر یہ امت کی ہدایت کے لئے اساس ہے تو ائمہ شیعہ اسکے اور امت کے درمیان حائل کیوں ہیں صرف اسی لیے کہ ان کی نگاہ میں امت حیران و سر گردان اورگمراہ ہی رہے کیا اللہ تعالی نے اپنی کتاب کو اس لیے نازل کیا تھا کہ وہ منتظرکی اسیر رہے اللہ تعالی نے قرآن کو اس لئے نازل کیا تھا کہ امت کے پاس حرام حلال کے پہچان کے حصول کا کوئی ذریعہ نہ رہے شیعہ روایات کہتی ہیں کہ حضرت علی تحریف کے خوف سے اپنے مصحف کو نہ نکال سکےتو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ امت جو امت خیر ہے اس کے نصیب میں بدبختی اور گمراہی لکھ دی گئی ہے جس سے صرف منتظر کے اصحاب مستثنی ہیں کیونکہ وہ اپنے مصدر ہدایت اور سعادت کی اساس سے ہمیشہ دور رہے گی جبکہ ان کے نزدیک ائمہ ان وسائل تبلیغ کے مالک ہیں جو انبیاء کی دسترس میں بھی نہیں چنانچہ حضرت علی اور آئمہ ان کے گمان کے مطابق مافوق الفطرت قوتوں کے مالک ہیں ان طاقتوں کے ہوتے ہوئے ان کے لیے مکمل قرآن نشر کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا جیسا کہ مجلسی نے باب جوامع میں المعجزات کے عنوان کے تحت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک شخص کے پاس سے گزرنا ذکر کیا ہے جوہوہو کی رٹ لگا رہا تھا علی نے اس کو اپنے قریب کیا اور کوئی خفیہ کلام اس کے کان میں پھونکا جس سے اس کے دل میں سارے قرآن کی صورت گری ہوئی اور سارا قرآن حفظ ہو گیا بحارالانوار جلد 42 صفحہ 17 اس کے علاوہ الکافی نے سو کے قریب ابواب ائمہ کےاوصاف میں باندھے ہیں مجلسی اور دوسرے محدیثین نے ہزاروں احادیث ائمہ کے مافوق الفطرت طاقتوں کے بارے میں نقل کی ہیں جیسا کہ ماکان مایکون کا علم رکھنا اپنی مرضی سے مرنا اپنی موت کی خبر ہونا الکافی جلد 1 صفحہ 260 الکافی جلد 1 صفحہ 258 ان تمام اوصاف کے ہوتے ہوئے شیعیت کا الزام لگانا کے قرآن کو تبدیل کردیا گیا
خلافت کو غضب کردیا گیا
باغ فدک کو غصب کر دیا گیا
آئمہ کو تکلیف دی گئی
آئمہ کو شہید کیا گیا
حضرت فاطمہ کو شہید کیا گیا
اب ان تمام مافوق الفطرت طاقتوں کےآئمہ میں ہونے کے باوجودکیا یہ ممکن تھا
کیا کیا سنو گے کیا کیا سنائیں
کہاں تک سنو گے کہاں تک سنائیں
متداول مصحف کی موجودگی کا دعوی
ہم ماقبل آپ کے سامنےشیعہ کی معنوی اور لفظی تحریف کی روایات اور کثیر مثالیں پیش کر چکے ہیں اب ہم یہ دعوی کہ شیعہ کے پاس متداول مصحف موجودہے جس میں کئی قسم کی تحریفات اور اضافے شامل ہیں بلکہ کچھ مکمل سورہ بھی اس میں داخل کی گئی ہیں مصحف کی موجودگی کو ثابت کرتے ہیں
سورہٴ نورین
سورہٴ ولایت کیا ہے؟
یہ دوسورہ ہیں کہ اس کے جاعلین نے ناسیئانہ طور پر سست وغلط عبارت سےحضرت علیؓ کے مناقب و وصایت میں جعل کیا ہے ان دو سورہ کا گیارہویں صدی سے پہلے کوئی منبع اور مدرک کے ساتھ زکر نہیں ہے اورکوئی نام ومتن کا اثر نہیں تھا جن افراد نے اس کو نقل یا انتقاد کیا ہے نے بھی کوئی منبع(معتبر وغیر معتبر ) اس صدی سے پہلےذکر نہیں کیا مدارک اور شواہد کے بنا پر یہ دو سورہ ہندوستان میں نا معلوم افراد کے ہاتھ جعل ہوئی ہیں اور اس کے بعد اسلام اور قرآن کے دشمنوں کے ذریعہ نشر ہوئی ہے اولاً:ان کو دبستان المزاہب میں زکر کیا گیا ہے دبستان المذاہب کے موٴلف کا نام ہی تحریرنہیں ہے لہٰذا علماء نے اس کے موٴلف کے سلسلہ میں اختلاف کیا ہے بعض لوگوں نے اس کو میر ذوالفقار علی حسین اردستانی سے نسبت دی ہے اور بعض لوگوں نے کیخسرو بن اسفندیار سے نسبت دی ہے جو ہندوستان میں مجوسیوں کا بڑا عالم تھا۔
بعض لوگ کہتے ہیں اس کتاب کے موٴلف نے اس وجہ سے اس کتاب کولکھا تاکہ دین
زر دشت کی تبلیغ کر کے دوسرے ادیان کو سست اور کمرنگ کردے۔ رضا زادہ ملک (کتاب دبستان مذاہب کے توانا محقق)نے جو متن کتاب سے اندازہ لگایا ہے وہ یہ ہے کہ اس کتاب کا موٴلف 1025 ء میں پیدا ہوا اور 1069 ء تک زندہ تھا اس محقق نے کتاب دبستان مذاہب کےارتباط دلیلوں اور شواہد کی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ سارے شواہد وقرائن اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ اس کتاب کا موٴلف حقیقتا آذرکیوان اور دین دساتریری کا ایک پکا پیرو ہے اوروہ بھی اس مذہب کے معتقد افراد کا مورد احترام شخص ہے اور یہ شخص موّبد کیخسرو اسفندیار یعنی آذرکیوان کے لڑکے کے علاوہ اورکوئی نہیں ہے
اس نے بحث میں کتاب۔دبستان مذاہب کے لکھنے کی دلیل میں لکھا ہے ” دبستان مذاہب کا موٴلف خود جعلی دین کا رہبر تھا اور اس کی اساسی غرض ۔اگرچہ اس نے اس کا اظہار نہیں کیا ہے ۔دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا اعتقاد سست کرنا اور ان سب کو اپنے دین میں لانا تھا اسی لئے اس نے سست اورغیر معتبر اسناد کو غیر مہذب لوگوں سے نقل کیا ہے
برطانوی سامراج نے بھی
دبستان مذاہب کے موٴلف کی غرض کو اجراء کرنے کے لئے اسے دیاکیونکہ کتاب دبستان مذاہب پہلی بار انگریزوں کے ذریعہ پرچار ہوئی جیسا کہ اس کتاب کے پہلے فارسی اڈیشن میں ”ویلیام بیلی“ہندوستان میں انگریز سفیر کے ذریعہ اس کتاب کی رونمائی ہوئی اس وقت جبکہ اس خطہ میں ان کی ایسٹ انڈیا کمپنی تھی ان لوگوں نے ان مجلوں میں جو ایشیا اور جہان اسلام پرچھائے ہوئے تھے ان سوروں کو شیعی سوروں کے عنوان سے منتشر کیا یہ سب استعمار گروں کی غرض اور” لڑاؤ اور حکومت کرو “ کی پالیسی کار فرما تھی۔
سورہٴ ولایت “صرف ایک مجہول اور خطی قرآن کے آخر میں17 ویں صدی میں ہندوستان میں لکھی گئی ہے اور اس کا کوئی اثر شیعہ اور غیر شیعہ منابع میں موجود نہیں ہے اس کا تنہا ایڈرس یہ ہے کہ یہ نسخہ جون 1912ءمیں ہندوستان کے بانکی پور کے کتا ب خانہ میں پایا گیا اور اس کے مدیر نے کہا ہے کہ اس نسخہ کو نواب کےکوساس نےبیس سال پہلےلکھنوٴسےخریدہ ہے یہ نسخہ کی چھپائی 200سے 300سال کے درمیان کی ہے
بہر حال کوئی بھی قرآن کی سلامت کی دلیلوں پر غور کرنے اور یہ دو سورہ کی پرسان حال عبارت دیکھ کر اس کے جالی ہونے کا حکم لگا سکتا ہے التبہ یہ بات فقط یہ دو سورہ کے لئے نہیں ہے بلکہ قرآن کے نزول کے بعد کسی نے بھی کوشش کی ہے قرآن کی طرح آیت اور سورہ لائے اس کا انجام رسوائی اور استہزاء تھا کیونکہ قرآن بے نظیر ہے اور اس کا زیبا متن اور عمیق مضمون کسی متن سے قابل قیاس نہیں ہے ۔
کیخسرو اسفندیار، دبستان المذاهب، باتحقیق رحیم رضازاده ملک، تهران، 1362 ش
ایک مستشرق برائن وہ اپنے پاس ایک ایرانی مصحف کا دعوی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ کتاب اللہ میں کئی اضافے ہیں
جس میں سورہ ولایہ کا بھی زکرکرتا ہیے
الخطوط العریضة ص 11
شیخ محب الدین میں بھی تحفہ اثناعشری سورہ ولایة کا اسکین لگایا ہے
تحفہ اثناعشری صفحہ 31
مجلة الفتح عدد842 ص 9
شیعہ احمد کسروی الشیعة والتشیع
فصل الخطاب ص 180
خلاصہ۔ ۔۔جس طرح مسلمہ کذاب نے قرانی آیات میں الفاظ کی ملاوٹ کی تھی اسی طرح شیعہ قوم بھی کوشش کرتی رہی ہے اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے باقاعدہ روایات گھڑی گئی ہیں اب روایات ملاحظہ فرمائیں
علي بن محمد، عن بعض أصحابه، عن أحمد بن محمد بن أبي نصر قال: دفع إلي أبو الحسن (عليه السلام) مصحفا وقال: لا تنظر فيه، ففتحته وقرأت فيه: " لم يكن الذين كفروا " فوجدت فيها اسم سبعين رجلا من قريش بأسمائهم وأسماء آبائهم قال: فبعثإلي: ابعث إلي بالمصحف
محمد ابن محمد ابن ابو نصر سے مروی ہے کہ ابو الحسن نے مجھے ایک مصحف دیا اور کہااس کو نہ دیکھنا میں نے اس کو کھولا اور اس میں
لم یکن الذین کفروا۔۔۔۔۔
سے پڑھا تو اس میں میں نے ستر قریشیوں کے ان کے باپوں کے ناموں کے ساتھ نام پائے وہ کہتا ہے پھر انہوں نے یعنی علی رضی اللہ انہوں نے مجھے پیغام بھجوایا کہ یہ مصحف مجھے بھیج دو
الکافی جلد 231
اس سے ملتی جلتی روایت بصائرالدرجات میں موجود ہیں
بصائر الدرجات صفحہ 246
بحارالانوار جلد 92 صفحہ 51
رجال کشی میں بھی اس سے ملتی جلتی روایت موجود ہے
صفحہ 588
اسی معنی کی روایت کتاب الغیبہ
صفحہ 181 اور 182
بحارالانوار جلد 92 صفحہ 60
الغیبہ صفحہ 194
بحار الانوار جلد 52 صفحہ 364
نتیجہ۔۔۔متداول مصحف کے دعوے کے بارےمیں ہم نے یہ چندمثالیں پیش کی ہیں جو کہ شیعہ کے تحریف القران کے افسانہ کی مختصر مثالیں ہیں
مصحف فاطمہؓ مصحف علیؓ اور مصحف امام العج۔
اہل تشیع کا ایک اور افسانہ
مصحف فاطمہ مصحف علی و آئمہ اور امام العجل کے پاس اصلی مصحف کا ہونا
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن عمر بن عبد العزيز، عن حماد بنعثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: تظهر الزنادقة في سنة ثمان وعشرين ومائة وذلك أني نظرت في مصحف فاطمة عليها السلام، قال: قلت: وما مصحف فاطمة؟ قال:إن الله تعالى لما قبض نبيه صلى الله عليه وآله دخل على فاطمة عليها السلام من وفاته من الحزن ما لايعلمه إلا الله عز وجل فأرسل الله إليها ملكا يسلي غمها ويحدثها، فشكت ذلك (١)إلى أمير المؤمنين عليه السلام فقال: إذا أحسست بذلك وسمعت الصوت قولي لي فأعلمته بذلكفجعل أمير المؤمنين عليه السلام يكتب كلما سمع حتى أثبت من ذلك مصحفا قال: ثم قال:أما إنه ليس فيه شئ من الحلال والحرام ولكن فيه علم ما يكون.
ترجمہ۔۔۔۔۔۔۔راوی کہتا ہے میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو فرماتے سنا کہ 128 ہجری میں فلاسفہ عہد بنی عباس ظاہر ہوں گے جو منکر اسلام و توحید ہوں گےیہ میں نے مصحف فاطمہ میں دیکھا ہے میں نے پوچھا مصحف فاطمہ کیا ہے فرمایا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا تو جناب فاطمہ پر ہجوم غم واندوہ ہوا ایسا کہ جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا خدا نے ان کے پاس غم میں تسلی دینے کے لیے ایک فرشتہ بھیجا جس نے ان سے کلام کیا حضرت فاطمہ نے یہ واقعہ امیرالمومنین علیہ السلام سے بیان کیا حضرت نے فرمایا اب جب یہ فرشتہ آئے اور تم اس کی آواز سنو تو مجھے بتانا چناچہ جب فرشتہ آیا تو حضرت فاطمہ نے آگاہ کیا امیرالمومنین علیہ السّلام فرشتے کی تمام باتوں کو لکھتے جاتے تھے یہاں تک کہ وہ باتیں اس مصحف میں لکھی گئی پھر فرمایا اس میں حلال و حرام کا ذکر نہیں بلکہ آئندہ ہونے والے واقعات کا ذکر ہے
الکافی کتاب الحجۃ جلد 1 صفحہ 348
عدة من أصحابنا، عن أحمد بن محمد، عن علي بن الحكم، عن الحسينابن أبي العلاء قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: إن عندي الجفر الأبيض، قال:قلت: فأي شئ فيه؟ قال: زبور داود، وتوراة موسى، وإنجيل عيسى، وصحفإبراهيم عليهم السلام والحلال والحرام، ومصحف فاطمة، ما أزعم أن فيه قرآنا، وفيه مايحتاج الناس إلينا ولا نحتاج إلى أحد حتى فيه الجلدة، ونصف الجلدة، وربع الجلدةوأرش الخدش.وعندي الجفر الأحمر، قال: قلت: وأي شئ في الجفر الأحمر؟ قال: السلاحوذلك إنما يفتح للدم يفتحه صاحب السيف للقتل، فقال له عبد الله ابن أبي يعفور:أصلحك الله أيعرف هذا بنو الحسن؟ فقال: إي والله كما يعرفون الليل أنه ليل والنهار أنه نهار ولكنهم يحملهم الحسد وطلب الدنيا على الجحود والانكار، ولو طلبوا الحق بالحق لكان خيرا لهم.
الکافی کتاب الحجۃ جلد 1 صفحہ 349
ترجمہ۔۔۔۔۔۔۔راوی کہتا ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا میرے پاس صندوق سفید ہے میں نے پوچھا اس میں کیا ہے فرمایا زبور داود توریت موسی انجیل عیسی صحف ابراہیم حلال و حرام اور مصحف فاطمہ ہے نہیں گمان کرتا میں کہ اس میں قرآن ہے اس میں ہر وہ چیز ہے کہ جس سے لوگ ہماری طرف محتاج ہوں ہم کسی کی طرف محتاج نہیں اس میں سزا کے لیے ایک کوڑے نصف کوڑے اورربع کوڑے تک کا ذکر ہے اور خراش تک کے لیے بھی دیت کا اور میرے پاس صندوق سرخ بھی ہے میں نے کہا وہ کیا ہے فرمایا اس میں ہتھیار ہیں وہ خونریزی کے لیے کھولا جائے گا کھولے گا اس کو صاحب ذولفقار مراد قائم آل محمد عبداللہ ابن یعفور نے کہا اللہ آپ کی نگرانی کرےاولاد امام حسن اس کو جانتی ہے فرمایا اس طرح جیسے رات کو جانتے ہیں کہ وہ رات ہے اور دن کو جانتے ہیں کہ وہ دن ہے لیکن حسد ان پر سوار ہے اور طلب دنیا نے انکو انکار پر آمادہ کردیا ہے اگر حق کو سچائی کے ساتھ طلب کرتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا
(باب)انه لم يجمع القرآن كله الا الأئمة عليهم السلام وانهم
الکافی کتاب الحجۃ جلد 1 صفحہ 328
علي بن محمد، عن بعض أصحابه، عن أحمد بن محمد بن أبي نصر قال: دفع إلي أبو الحسن (عليه السلام) مصحفا وقال: لا تنظر فيه، ففتحته وقرأت فيه: " لم يكن الذين كفروا " فوجدت فيها اسم سبعين رجلا من قريش بأسمائهم وأسماء آبائهم قال: فبعث إلي: ابعث إلي بالمصحف
محمد ابن محمد ابن ابو نصر سے مروی ہے کہ ابو الحسن نے مجھے ایک مصحف دیا اور کہااس کو نہ دیکھنا میں نے اس کو کھولا اور اس میں لم یکن الذین کفروا۔۔۔۔۔سے پڑھا تو اس میں میں نے ستر قریشیوں کے ان کے باپوں کے ناموں کے ساتھ نام پائے وہ کہتا ہے پھر انہوں نے یعنی علی رضی اللہ انہوں نے مجھے پیغام بھجوایا کہ یہ مصحف مجھے بھیج دو
الکافی جلد 231
اس سے ملتی جلتی روایت بصائرالدرجات میں موجود ہیں
بصائر الدرجات صفحہ 246
بحارالانوار جلد 92 صفحہ 51
رجال کشی میں بھی اس سے ملتی جلتی روایت موجود ہے
صفحہ 588
اسی معنی کی روایت کتاب الغیبہ
صفحہ 181 اور 182
بحارالانوار جلد 92 صفحہ 60
الغیبہ صفحہ 194
بحار الانوار جلد 52 صفحہ 364
یہ مشہور روایت ہے کہ قرآن جس طرح نازل ہوا اس کو امیرالمومنین کے سوا کسی نے تالیف نہیں کیا اور وہ اب ہمارے آقا محمد مہدی کے پاس آسمانی کتابوں اور انبیاء کی وراثت کے ساتھ موجود ہے
انوار نعمانیہ جلد 2 صفحہ 360 تا 362
ابن ندیم جو شیعہ ہے ذکر کرتا ہے کہ اس نے حضرت علی کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک قرآن دیکھا جو حسن کی طرف منسوب گھروں میں سے ایک گھر کے پاس وراثتاپہنچا ہے
الفہرست صفحہ-28
ابن عنبہ جو علوی النسب ہونے کا دعویدار ہےحضرت علی کے ہاتھ کے لکھے ہوئے دو مصاحف کا ذکر کرتا ہے ایک تین جلدوں میں ہے اور دوسرا ایک جلد میں جس کو اس نے خود دیکھا تھا لیکن وہ دونوں جب مشہد میں آگ لگی تو جل گئے
عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب صفحہ 130 تا 131
ابوعبداللہ زنجانی کہتا ہے میں نے نجف میں دارالکتب العلویہ میں 1353 ہجری میں ایک مصحف دیکھا جس کے آخر میں لکھا ہوا تھا اس کو علی ابن ابی طالب نے 40 ہجری کو لکھا
تاریخ القرآن صفحہ 67 68
مرزا مخدوم شیرازی جو شیعہ کے درمیان رہے اور ان کی بہت ساری کتابوں کا مطالعہ کیا ذکر کرتا ہے طرفہ تماشا یہ ہے کہ وہ ایک طرف تو تحریف قرآن کا دعوی کرتے ہیں اور دوسری طرف بہت سارے مصاحف کے بارے میں یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ وہ حضرت علی اور ان کے بعد ان کی اولاد میں سے ائمہ کے ہاتھوں کے لکھے ہوئے ہیں اور ان میں وہی ہے جو سارے متواتر مصاحف میں مذکور ہے جو ناقابل شمار ہیں
النوافض الورقة 104
جب امیر المومنین سریر آرائے خلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو اس قرآن کو ظاہر کرنے اور اس قران کو ختم کرنے پر قادر نہ ہوئےکیونکہ اس سے اپنے سے پہلو پر مذمت و شناعت کا اظہار ہوتا تھا
انوار النعمانیہ جلد 2 صفحہ 362
نتیجہ ۔۔۔۔۔ہم نے یہ چند روایات نقل کی ہیں جو شیعت کے افسانہ تحریف القران کے اثبات میں ہیں وگرنہ تو الکافی اور دوسرے محدثین نےابواب باندھ کر دعوے کیے ہیں آئمہ کے مصاحف کے بارے میں اور پھر عقیدہ رجعت کے بارے میں لکھی جانے والی کتابوں میں کثیر روایات اس مصحف کادعوی کرتی نظر آتی ہیں جس کو امام العجل لائے گا
تحریف القران کے نظریے کی ابتداء
جب ہم تحریف القران کےافسانے کی ابتداء کو دیکھتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلا شخص جو لفظی اور معنوی تحریف کا قائل ملتا ہے وہ ابن سباء یہودی تھا
روایت۔۔۔۔ابن سباء یہودی کا قول۔۔۔۔
ان القران جزء من تسعةاجزاءوعلمہ عندہ علی(رضی اللہ عنہ)
یہ قرآن ان نو اجزاء میں سے ایک جز ہے اور اس کا علم علی (رضی اللہ عنہ) کے پاس ہے
احوال الرجال صفحہ 38
حسن بن محمد بن حنفیہ المتوفی 95ھ کے اس خط سے مزید اس کی وضاحت ہوتی ہے
۔۔۔۔اس کی لڑائی میں ایک یہ بات بھی ہے جس کو ہم نے پایا ہے کہ یہ کہتے ہیں ہمیں ایسی وحی کی رہنمائی کی گئی ہے جس سے لوگ گمراہ اور ناواقف رہے ہیں اور ہمیں مخفی علم دیا گیا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ اللہ کے نبی نے قرآن کے نوحصے چھپا لیے اگر اللہ کے نبی نے اس سے کوئی چیز چھپائی ہوتی جو اللہ نے آپ پر نازل کیا تھا تو آپ زید کی بیوی کے متعلق یہ آیت واذتقول للذی انعم اللہ علیہ
آیت کو چھپا لیتے
کتاب الایمان لمحمد بن ابی عمر المکی العدنی صفحہ249 250
إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍۢ ۚ
(القصص - 85)
ترجمہ۔۔۔۔۔بے شک جس نے تجھ پر یہ قرآن فرض کیا ہے وہ ضرور تمہیں ایک لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لانے والا ہے
اس آیت سے سب سے پہلے استدلال کرنے والا عبداللہ ابن سبا یہودی تھا جس نے نظریہ رجعت کو ایجاد کیا اور سب سے پہلے اس آیت سےتاویل کے ذریعے استدلال کرنے کی کوشش کی جیسا کہ وہ کہتا تھا اس شخص پر بڑا تعجب ہے جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ عیسی علیہ الصلوۃ والسلام دوبارہ دنیا میں لوٹیں گے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دوبارہ لوٹنے کا انکار کرتا ہے حالانکہ اللہ جل شانہٗ نے فرمایا ہے
إِنَّ ٱلَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ ٱلْقُرْءَانَ لَرَآدُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍۢ ۚ
(القصص - 85)
المقالات والفرق صفحہ-20
اکمال الدین صفحہ 425 435
فرق الشیعۃ صفحہ 22 23
رجال الکشی صفحہ 106 ۔108 ۔305
الروایات۔ 170۔ 171۔ 172۔ 173 174۔
رجال کشی صفحه 108
عبداللہ ابن سبا کے بارے تفصیل ابتداء شیعت لکھ کر تلاش کریں۔
اور دوسرا شخص جو تحریف القرآن کے افسانے کو پھیلاتا ہےوہ ہشام بن حکم ہے کیونکہ اس نے دعوی کیا تھا کہ یہ قرآن جو لوگوں کے ہاتھ میں ہے عثمان کے زمانے میں بنایا گیا تھا جبکہ اصل قرآن صحابہ کرام کے مرتد ہونے کے سبب آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا
التنبیہ الرد صفحہ-25
ہشام بن حکم کے احوال ہم نظریہ امامت شیعہ کااصول امامت میں لکھ چکے ہیں
سلیم بن قیس حلالی جو تحریف القران کے بارے دو روایت پیش کرتا ہے سن 90 ہجری میں فوت ہوا
شیخ مفید جو ان کے ہاں رکن اسلام اور آیت اللہ الملک العلام کے نام سے ملقب ہےکہتا ہے
روایت۔۔۔۔ان یعنی امامیہ کا اتفاق ہے کے آئمہ ضلال( خلفاءثلاثہ مرادلیتےہیں) نے قرآن کریم کی تالیف میں بہت زیادہ اختلاف کیا ہے اور انہوں نے اس میں قرآن کے تقاضے اور نبی کی سنت سے اعراض کیا ہے
اوائل المقالات صفحہ-13
سنہ3ہجری میں کلینی کے استاد شیعہ عالم علی بن ابراہیم قمی تحریف قرآن کے افسانے کو اپنی تفسیر میں بھرتے اور اپنی تفسیر کے مقدمے میں اس کی صراحت بھی کرتے ہیں
تفسیر القمی جلد1 صفحہ10 48 100 110 118 122 123 142 159
جلد 2 صفحہ 21 صفحہ 111 صفحہ 175
ان زندیقیت سے بھری ہوئی روایات کی توثیق شیعہ کا ایک بڑا عالم خوئی اپنی کتاب میں کرتا ہے
معجم رجال الحدیث للخوئی جلد 1 صفحہ 63
قمی کے بعد اس کا شاگرد کلینی جو ثقةالاسلام کے لقب سے ملقب ہے اصول الاربع میں سے ایک کتاب اصول الکافی کا مولف وہ بھی تحریف القرآن کے افسانے پربہت زیادہ روایات نقل کرتا ہے
اصول الکافی باب فیہ نکت ونتف من التنزیل فی الولایة من
جلد 1 صفحہ 413
باب ان القران یرفع کماانزل
جلد 2 صفحہ 619
باب النوادر جلد 2 صفحہ 628
اور شیعہ مصنفین نے اس کے بارے میں لکھا ہے کہ الکلینی تحریف القرآن کا عقیدہ رکھتا تھا کیونکہ اس نے اپنی کتاب کافی میں اس مفہوم کی روایت ذکر کی ہیں لیکن کسی ایک نے بھی جراح اور تنقید نہیں کی حالانکہ اس نے اپنی کتاب کے شروع میں ذکر کیا ہے وہ جوبھی روایت نقل کرے گا اس کی توثیق بھی کرے گا
تفسیر صافی مقدمہ سات 7 صفحہ 52
مقدمہ الکافی صفحہ 9
مجلسی نے مراۃ العقول کافی کے بعض روایت پر ضعف کا حکم لگایا ہے لیکن تحریف قرآن کی روایات پر صحت کا حکم لگایا ہے
مرآۃ العقول جلد2 536
اصول کافی کی شرح الشافی میں بھی صحت کا حکم لگایا گیا ہے تحریف قرآن کی روایات پر
الشافی جلد 7 صفحہ 227
تحریف القرآن کے اس افسانے کا ذکرتفسیر العیاشی کے مصنف نے بھی کیا ہے جو کہ الکلینی کا ہم عصر تھا
تفسیر العیاشی جلد 1 صفحہ 13 128 129 206 وغیرہ
تفسیر عیاشی کے بارے میں عالم محمد حسین طباطبائی کہتے ہیں یہ اپنے موضوع پر بہترین قدیم تالیف ہے
مقدمہ حول الکتاب مؤلفہ صفحہ
طوسی الفہرست صفحہ163 165
تیسری اور چوتھی صدی میں فرات بن ابراہیم کوفی ہوا ہے جس کی فرات کے نام سے ایک تفسیر ہے اس نے بھی تحریف القرآن کے افسانے کو نقل کیا ہے
تفسیر فرات صفحہ 18 صفحہ 58 وغیرہ
ملاباقرمجلسی نے فرات کوفی کو معتبر قرار دیا ہے
بحارالانوار جلد 1 صفحہ 37
محمد ابراہیم نعمان بھی سنہ 300 ھ کے زمانے میں ہوا اس نے اپنی کتاب الغیبہ میں تحریف القرآن کے الزام کی روایت ذکر کی ہیں
الغیبة صفحہ 217
مجلسی کہتا ہے کہ یہ کتاب جلیل القدر اور صحیح ہے
بحارالانوار جلد 1 صفحہ 30
ابوالقاسم کوفی کے اپنی کتاب الاستغاثہ میں تحریف القرآن کی کہانی کا ذکر کرتا ہے
الاستغاثہ صفحہ25
نجاشی نے اس کی طرف التبدیل والتحریف نامی ایک کتاب منسوب کی ہے
النجاشی صفحہ 203
یہ تحریف کی بعض روایات کو براہ راست قمی سے روایت کرتا ہے
الاستغاثہ صفحہ-29
شیعہ عالم مفید اپنی کتاب اوائل المقالات میں اپنے گروہ کا اس منکریعنی تحریف القران پر اجماع تحریر کرتا ہے
اوائل المقالات صفحہ 51
مفیدکتاب الارشاد میں بعض روایات کو نقل کرتا ہے
الارشاد صفحہ 365
مجلسی نے کتاب کی توثیق کی ہے
بحارالانوار جلد 1 صفحہ 27
طبرسی نے تحریف القرآن کے افسانے کو الاحتجاج میں ذکر کیا ہےاور بہت ساری روایات ذکر کی ہیں
الاحتجاج صفحہ-14
شیعہ عالم نعمت اللہ جزائری کے اعتراف کے مطابق اس کے لیے دو ہزار سے زائد روایت گھڑی گئی ہیں
فصل الخطاب صفحہ 125
مجلسی نے بحارالانوار کتاب القران باب ان القران لم یجمعہ کماانزل الاآئمة
جلد 92 صفحہ 66
الکاشانی نے تفسیر صافی
مقدمہ سادسہ صفحہ 40 55 136 163 399 460
البرھان باب ان القران لم یجمعہ کما انزل الاآئمة صفحہ 34 70 106 140 170 277 294 295 308
نعمت اللہ جزائری نے انوارالنعمانیہ جلد 2 صفحہ 358 357
ابوالحسن شریف نے مراۃالانوار مقدمہ ثانی صفحہ 36 اور 49
مازندرانی نے شرح الکافی میں شرح الجامع الکافئ جلد 11 صفحہ 66
اب ہم چند نام زکر کرتے جو شیعہ کے سرخیل اور بڑے علماء محققین میں شمار ہوتے ہیں جو نظریہ تحریف القران کے قائل تھے
جید علما کے نام جو تحریف قرآن کے قائل تھے اور ان کتب کے نام جن میں عقیدہ تحریف قرآن کھل کے بیان ہوا
80 رافضی مجتھدین اور انکی ان کتب کے نام جسمیں انہوں نے عقیدۂ تحریف قرآن کھل کے بیان کیا ہے
1۔۔اثبات الھدی للحر العاملی
2 ۔۔۔الاحتجاج للطبرسی
3۔۔۔ احسن الودیعة ، للاصفہانی
4۔۔۔۔ اسعاف المامول ، لعلی بن النقی
5۔۔۔ اصل الشیعہ واصولھا ، لمحمد حسین آل کاشف الغطاء
6۔۔۔الاصول من الکافی، للکلینی
7۔۔۔ الاعتقادات لابن بابویہ القمی
8۔۔۔۔اعلام الشیعہ ، لآغا بزرگ الطھرانی
9۔۔۔اعیان الشیعہ ، لمحسن امین
10۔۔۔ الانوار النعمانیہ ، لنعمت اللہ الجزائری
11۔۔۔ البحار ، للمجلسی
12۔۔۔۔ البرھان ، لھاشم البحرانی
13۔۔۔ بصائر الدرجات ، للصفار
14۔۔۔التبیان ، للطوسی
15۔۔۔ تذکرة الائمہ ، للمجلسی
16۔۔۔ تذبیل فی الرد علی ھاشم الشامی
17۔۔۔۔تصحیف کاتبین
18۔۔۔۔ تفسیر الصافی للفیض الکاشانی
19۔۔۔۔۔ تفسیر العیاشی
20۔۔۔ تفسیر الفرات الکوفی
21۔۔۔۔تفسیر القمی
22۔۔۔حیاة القلوب ، للمجلسی
23۔۔۔۔ الذریعة الی تصانیف الشیعة لآغابزرگ الطھرانی
24۔۔۔۔ رجال النجاشی
25۔۔۔ روضات الجنات ، للخوانساری
26۔۔۔ صوت الحق ودعوة الصدق ، للطف اللہ صافی
27۔۔۔ عقائد الشیعہ فارسی
28۔۔۔ فرج الھموم
29۔۔۔فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب ، للطبرسی
30۔۔۔الفوائد الرضویه ، للعباس قمی
31۔۔۔۔ کتاب الخصال لابن بابویہ قمی
32۔۔۔۔ کتاب الشیعہ والسنہ فی المیزان
33۔۔۔ کتاب الشیعہ وفنون الاسلام
34۔۔۔۔کشف المحجہ
35۔۔۔ الکنی والالقاب ، للعباس القمی
36۔۔۔۔ مجمع البیان ، لابی علی طبرسی
37۔۔۔مرآة العقول ، لتاج العلماء دلدار علی نصیر آبادی
38۔۔۔ مستدرک الوسائل ، للطبرسی
39۔۔۔معانی الاخبار ، لابن بابویہ قمی
40۔۔۔ مع الخطیب فی الخطوط العریضہ ، للطف اللہ الصافی
41۔۔۔۔مقدمہ تفسیر القمی للسید طیب موسوی الجزائری
42۔۔۔۔ مقدمه لمحمد حسین الطباطبائی
43۔۔۔ مقدمہ الکافی ، للکلینی
44۔۔۔ من لا یحظرہ الفقیه ، لابن بابویہ قمی
45۔۔۔ الوافی
46۔۔۔ھدایة الطالبین ، لمحمد تقی الکاشانی
47۔۔۔ ضربة حیدریة ، لعالم ھندی شیعی
48۔۔۔ منبع الحیاة ، للسید الجزائری
49۔۔۔۔ عقائد الشیعہ ، للبروجردی
50۔۔۔کتاب القراءآت للسیاری
51۔۔۔ وسائل الشیعہ ، للحر العاملی
52۔۔۔۔ کتاب المناقب لابن شھر آشوب
53۔۔۔۔ قرب الاسناد ، للحمیری
54۔۔۔۔ کتاب المحاسن ، للبرقی
55۔۔۔۔ تفسیر العسکری
56۔۔۔۔ تفسیر نور الثقلین ، للحویزی
57۔۔۔۔ تفسیر منھج الصادقین ، لفتح اللہ الکاشانی
58۔۔۔۔ مجالس المؤمنین ، للشوستری
59۔۔۔۔ رجال الکشی
60۔۔۔۔۔ رجال النجاشی
61۔۔۔۔ کتاب صفین ، لابن مزاحم
62۔۔۔۔ شرائع الاسلام ، للحلی
63۔۔۔۔ الفصول المھمه ، للحر العاملی
64۔۔۔ رجال ابی داؤد
65۔۔۔ مرآة العقول ، للمجلسی
66۔۔۔۔ الشافی ، للمرتضی
67۔۔۔متشابه القرآن ومختلفه ، لابن شھر آشوب
68۔۔۔التنزیل و التحریف لی حسن بن سلمان الحلی
69۔۔۔۔شرح نھج البلاغہ ، لابن ابی الحدید
70۔۔۔ الاشعثیات ، لاشعت الکوفی
71۔۔۔ الآمالی لابن بابویہ القمی
72۔۔۔۔ عیون اخبار الرضا ، لابن بابویہ قمی
73۔۔۔۔معجم المؤلفین ، للکحالہ
74۔۔۔۔ تنقیح المقال ، للمامقانی
75۔۔۔۔دعائم الاسلام ، لدلدار علی
76۔۔۔۔ الاستبصار ، للطوسی
77۔۔۔ التھذیب للطوسی
78۔۔۔ مسالک الافھام ، للعاملی
79۔۔۔۔ ترجمۂ فرمان علی
80۔۔۔ترجمۂ مقبول علی
81 ۔۔۔۔کتاب التحریف لی احمد بن خالد البرقی
82۔۔۔۔کتاب التنزیل من القرآن و التحریف لی محمد بن خالد البرقی
83۔۔۔۔۔کتاب التحریف و التبدیل لی محمد بن حسن الصیرنی
84۔۔۔۔التنزیل و التحریف لی حسن بن سلیمان حلی
85۔۔۔کتاب قراۃ امیر المومنین و قراۃ اہل البیت لی محمد بن علی المآھیار
86۔۔۔۔فصل الخطاب فی اثبات تحریف کتاب رب الارباب لی محمد تقی نوری طبرسی
87۔۔۔۔۔رد بعض الشبھات عن فصل الخطاب لی محمد تقی نوری طبرسی
88۔۔۔۔تصحیف کاتبین و نقص آیات کتاب مبین
89۔۔۔۔کتاب قراۃ امیر المومنین لی ابو طاہر عبدالواحد قمی
90۔۔۔۔۔شرح الوافیہ لی محمد کاظمی
91۔۔۔۔۔مصابیح الانوار فی حل المشکلات الاخبار
92۔۔۔۔مرآۃ الانوار المقدمہ ثانیہ
93۔۔۔۔العقائد للمجلسی الفصل الاول فیما یتعلق باصول العقائد
94۔۔۔۔مذہب الاحکام فی بیان حلال و الحرام
95۔۔۔۔الارشاد فی ذکر قیام القائم
96۔۔۔۔الغیبہ
97۔۔۔۔اوائل المقالات القول فی الرجعہ والبدا
98۔۔۔۔استغاثہ فی بدع الثلاثہ
99۔۔۔۔۔مستدرک السفینہ بحار
100۔۔۔۔النسخۃ المخطوطہ
101۔۔۔۔۔ثواب الاعمال