Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہل تشیع کا چوتھا اصول دین امامت

  توقیر احمد

 اہل تشیع کا چوتھا اصول دین امامت 

بنام مفتی عبدالعزیز عزیزی دامت برکاتھم 

فہرست

امام کا لغوی معنی

امام الہدیٰ 

دوسری قسم امامت

امامت عندالشیعہ

شیعہ کےنزدیک اہمیت امامت و فضائل   

شیعہ محقیقین کا اقرار

شیعہ کتب کی روشنی میں عبداللہ بن سباءکے  عقائد

راجح قول 

نظریہ امامت ایک راز تھا

آئمہ کو متعین تعدادمیں محصور کرنا

آئمہ کو سب سے پہلے کس نے متعین تعداد میں محصور کیا

متعین تعدارِ آئمہ کے نظریے  کا بانی

تعرفِ شیطان الطاق

متعلقہ نظریےکی روایات

ائمہ کو متعین تعداد میں محصور کرنے پر نقد وتبصرہ

نیابت مجتہد کی ضرورت

اھلسنت کی روایت سے استدلال  

نظریہ امامت میں شیعہ استدلات

آئمہ کے اسماء گرامی

معیار امامت

پہلی آیت سے استدلال 

دوسری آیت سے استدلال 

خلاصه استدلال

شیعہ کا سنت سے استدلال کرنا۔

عصمت آئمہ

عصمت کا لغوی معنی

اصطلاحی تعریف

عقیدہ عصمت کا آغاز

عقیدہ عصمت کے تدریجی مراحل 

تبصرہ و نقد

استدلات اہل تشیع

پہلی آیت سے استدلال

ترکیب و اعراب 

سیاق وسباق

اقوال المفسرین

روایت سے استدلال

دوسری آیت سے استدلال

روایت سے استدلال

تیسری آیت سے استدلال 

جوابات و تضادات

 نتیجہ

حرف آغاز

‌صحيح البخاري - حدیث 4606

كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ بَابُ قَوْلِهِ: {اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ صحيح حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا سفيان، عن قيس، عن طارق بن شهاب، قالت اليهود لعمر إنكم تقرؤون آية لو نزلت فينا لاتخذناها عيدا‏.‏ فقال عمر إني لأعلم حيث أنزلت، وأين أنزلت، وأين رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أنزلت يوم عرفة، وإنا والله بعرفة ـ قال سفيان وأشك كان يوم الجمعة أم لا – ‏{‏اليوم أكملت لكم دينكم‏}‏

ترجمہ صحیح بخاری - حدیث 4606

کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں باب: آیت (( الیوم اکملت لکم دینکم )) الخ کی تفسیر مجھ سے محمد بن بشار نے بیان کیا ، کہا ہم سے عبدالرحمن بن مہدی نے بیان کیا ، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ، ان سے قیس بن اسلم نے اور ان سے طارق بن شہاب نے کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ لوگ ایک ایسی آیت کی تلاوت کرتے ہیں کہ اگر ہمارے یہاں وہ نازل ہوئی ہوتی تو ہم ( جس دن وہ نازل ہوئی ہوتی ) اس دن عید منایا کرتے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا ، میں خوب اچھی طرح جانتا ہوں کہ یہ آیت الیوم اکملت لکم دینکم کہاں اور کب نازل ہوئی تھی اور جب عرفات کے دن نازل ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کہاں تشریف رکھتے تھے ۔ اللہ کی قسم ! ہم اس وقت میدان عرفات میں تھے ۔ سفیان ثوری نے کہا کہ مجھے شک ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا یا اور کوئی دوسرا دن ۔ قیس بن مسلم کی دوسری روایت میں بالیقین مذکور ہے کہ وہ جمعہ کا دن تھا۔ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقع پر نازل ہوئی تھی جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری حج تھا جس کے تین ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت عرفہ کی شام کوجمعہ کے روز اتری تھی۔ اس کے بعد حلال حرام کا کوئی حکم نہیں اترا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے نو رات پہلے آخری واتقوا یوما ترجعون فیہ الی اللہ نازل ہوئی جس دن یہ آیت اتری اس دن پانچ عیدیں جمع تھیں۔ جمعہ کا دن ، عرفہ کا دن، یہود کی عید، نصاریٰ کی عید، مجوس کی عید۔ اس آیت سے ان لوگوں کو سبق لینا چاہیئے جورائے اور قیاس پر چلتے ہیں اور نص کو چھوڑ تے ہیں گویا ان کے نزدیک دین کامل نہیں ہوا۔ نعوذ باللہ۔

تمہید۔۔۔

اہل تشیع کا نظریہ ہے کہ امام نبی سے افضل ہے اور امام پروحی کانزول ہوتاہے امام معصوم ہوتااورامام کومافوق الفطرت ہونابیان کرتےہیں اوران سب عقائد کےثبوت کےطورقرآن مجید کوپیش کرتےہیں تو ہم اہل تشیع کےان دلائل پر بحث کریں گے اور دیکھتے ہیں کہ امام واقعی مافوق الفطرت طاقت رکھتےہیں 

عرضِداشت۔۔۔

اگرامامت منصوص من اللہ ہے تو چھینی کیسے جاسکتی ہے ؟؟؟؟

کیا کسی نبی سے نبوت چھینی گئی ؟؟؟؟

اگر امام کو خلافت ناملی ہو تو کیااس کی امامت کامل ہے ؟؟؟

جناب یہ چندسوالات اہل تشیع کی گلےکی ہڈی ہیں اس کے علاوہ اوربہت سارے تعرضات اہلتشیع کے نظریہ امامت میں پائے جاتے ہیں 

امام کا لغوی معنی

پیشوا۔ قائد۔ رہبر ۔متبوع یعنی جس کی اتباع کی جائے۔اسی بنا پر حاکم اولامر کو بھی امام کہا جاتا ہے اور اسی طرح ماہر فن کو بھی امام کہتے ہیں مثلا۔ حدیث کےماہر کو امام المحدثین 

علم نحو کے ماہر کو امام النحو اور تکلم کےماہر کو امام المتکلمین وغیرہ کہا جاتا ہے

 اس بات کو سمجھنے کے بعد یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ امام دو طرح کے ہوتے ہیں 

 امام الہدیٰ ۔

 یعنی اگر کسی نے ہدایت اور تقوی میں کسی کے رہنمائی کی تو اس کو امام الہدیٰ اور امام المتقین کہا جاتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا یعنی ہر دور میں ہر علاقے میں ایسے عالم اور ایسے مومن متقی و پرہیزگار ہوتے رہے ہیں او روتے رہیں گے جو مسلمانوں کی دینی معاملات میں رہنمائی کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے جو لوگ ان کی شرعی معاملات میں اتباع کرتے تھے وہ ان کے تابع تھے اور جو حضرات متبوع تھے وہ امام تھے۔کسی لحاظ سے تمام انبیاء و مرسلین امام الہدیٰ اور امام المتقین تھے اور مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبییین المعصومین کے بعد قیامت تک کوئی نبی و رسول آنے والا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آج تک اس امت میں علماء و صلحاء آج تک اس امت کی رہنمائی و رہبری کرتے آئے ہیں وہ سارے کے سارے اپنے اپنے لحاظ سے باقی امت کے امام تھے اور اس قسم کی امامت ایک بڑا اعزاز ہے جس کے لیے علماء صالحین بڑی کوشش کرتے ہوئے اللہ تعالی سے امام المتقین ہونے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں اور اللہ تعالی کو بھی ایسے بندے انتہائی محبوب ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کی ایسی کاوش کو قرآن مجید میں خود بیان فرمایا ہے 

 Surat No 25 : Ayat No 74 

وَ الَّذِیۡنَ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَ ذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّ اجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا ﴿۷۴﴾

 اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔  

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے صالحین کی جماعت کی دعا نقل کرکے قیامت تک آنے والے مومنین کے لیے اس طرح دعا مانگنے کی ایک راہ ہموار کر دی تاکہ وہ بھی انہی کی طرح دعا مانگتے رہیں ۔اس سے معلوم ہوا کہ امام المتّقین بننے کی دعا کرنا صرف جائز نہیں بلکہ اللہ تعالی کو پسندیدہ بھی ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ قیامت تک امام المتقین ہوتے رہیں گے اور امامت کا سلسلہ جاری رہے گا جیسا کہ شیعہ مذہب میں ہے امامت کا مرتبہ نبوت کے مرتبے سے بالاتر ہے 

 حیات القلوب اردو جلد 3 صفحہ 10 

تو جس طرح نبوت مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہے اسی طرح امامت ان کے بارہ اماموں پر ختم ہے اور جس طرح کسی کو بھی دعا مانگنے سے نبوت نہیں مل سکتی اسی طرح دعا مانگنے سے کوئی امام المتقین نہیں بن سکتا اور جس طرح نبوت کے لئے دعا مانگنا حرام ہے اسی طرح امامت کے لئے بھی دعا مانگنا عندالشیعہ حرام ہے۔

 دوسری قسم امامت

جس طرح ہدایت کے مقابلے میں گمراہی ہے اسی طرح گمراہی پھیلانے میں یعنی کفریہ اور شرکیہ نظریات کو عام کرنے میں جو لوگ قائد اور پیشوا ہوں گے وہ اپنے تابعداروں کے امام ہوں گے اور اس قسم کی امامت بھی پہلے سے ہی چلی آرہی ہے اور قیامت تک چلتی رہے گی مثلا فرعون اور ان کے خاص درباریوں کے بارے میں اللہ تعالی نے فرمایا۔ 

Surat No 28 : Ayat No 41 

وَ جَعَلۡنٰہُمۡ  اَئِمَّۃً  یَّدۡعُوۡنَ  اِلَی النَّارِ ۚ وَ  یَوۡمَ  الۡقِیٰمَۃِ  لَا  یُنۡصَرُوۡنَ ﴿۴۱﴾

اور ہم نے انہیں ایسے امام بنا دیئے کہ لوگوں کو جہنم کی طرف بلائیں  اور روز قیامت مطلق مدد نہ کئے جائیں ۔  

اس سے معلوم ہوا کہ فرعون اور اس کے خاص ساتھی اپنے تابعداروں کے امام اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ان کو امام بھی اللہ تعالی نے بنایا تھا اس پر وہ لوگ غور کریں جو کہتے ہیں کہ امام معصوم ہوتا ہے اور مرتبہ امامت مرتبہ نبوت سے بالاتر ہے 

 Surat No 9 : Ayat No 12 

وَ  اِنۡ نَّکَثُوۡۤا اَیۡمَانَہُمۡ  مِّنۡۢ بَعۡدِ عَہۡدِہِمۡ وَ طَعَنُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ  فَقَاتِلُوۡۤا اَئِمَّۃَ الۡکُفۡرِ ۙ اِنَّہُمۡ لَاۤ اَیۡمَانَ لَہُمۡ لَعَلَّہُمۡ  یَنۡتَہُوۡنَ ﴿۱۲﴾

 اگر یہ لوگ عہد و پیمان کے بعد بھی اپنی قسموں کو توڑ دیں اور تمہارے دین میں طعنہ زنی کریں تو تم بھی ان سرداران کفر سے بھڑ جاؤ ۔  ان کی قسمیں  کوئی چیز نہیں ممکن ہے کہ اس طرح وہ بھی باز آجائیں ۔  

اس سے معلوم ہوا کہ کافروں کی پیشوائی کرنے والے ان کے امام ہیں اور اس طرح گمراہی اور کفر کے پیشوا قیامت تک رہیں گے( یعنی اس قسم کی امامت بھی قیامت تک رہے گی) اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں جس امامت کا ذکر ہے اس میں  منصوص من اللہ معصوم عن الخطاء اورمفترض الطاعة ہونے کی کوئی شرط نہیں ہے بلکہ کافر اور گمراہ کو بھی امام کہا گیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اہلسنت کے ہاں بنظریہ قران امامت عام ہے ناکہ خاص 

اسلام میں امامت کا مفہوم سمجھنے کے بعد اب ہم شیعہ مذہب میں جو نظریہ امامت ہے اس کو نقل کرتے ہیں 

 امامت عندالشیعہ

 شیعہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ہر نبی کا کوئی وصی نامزد ہوتا ہے جس کو وہ اللہ تعالی کے حکم سے وصیت کرتا ہے الصدوق ذکر کرتا ہے کہ اوصیاءکی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار۔

 عقائد الصدوق صفحہ 106 

 مجلسی اپنے اخبار و روایات میں ذکر کرتا ہے علیؓ آخری وصی ہیں 

 بحارالانوار جلد 39 صفحه 324 

 الکافی۔ان الإمامة عهد من الله عز وجل معهود من واحد إلى واحد عليهم السلام

 ۔یہ باب کہ امامت اللہ کی طرف سے عہد ہے جو یکے بعد دیگرے ہر ایک امام کیلئے صادر ہوا ہے

 الکافی جلد 1 صفحه 188  

  الکافی۔ان الإمامة عهد من الله عز وجل معهود من واحد إلى واحد عليهم السلام

یہ باب کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول نے ایک ایک کرکے ترتیب کے ساتھ آئمہ کی وصیت کی ہے 

 الکافی1۔286

 شیعہ عالم مقداد حلی لکھتا ہے ۔شیعہ کے نزدیک امامت کے مستحق شخص کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے معہود یعنی جس کے ساتھ وعدہ کیا گیا ہے ہونا ضروری ہے نہ کہ ہر وہ شخص جس پر اتفاق ہو جائے 

 النافع یوم الحشر صفحہ 47

 خلاصه روایات

 ایک لاکھ چوبیس ہزار وصی ہوے ہیں 

 حضرت علیؓ آخری وصی ہیں 

 وصی رسول اللہ ؐ کی وصیت سے بنتا ہے ناکہ لوگوں کے اتفاق سے

 اللہ نے یہ عہدہ ایک ایک امام کو سونپا ہے 

نتیجہ۔۔۔

امامت کے موضوع پر اہلتشیع حضرات نے تقریبا(2000)روایات گھڑی ہیں اہلتشیع کی ان روایات کاجیسے جیسے جائزہ لیاجاے گاویسےویسے تعرضات سامنے آتے جائیں جیسے کہ ماقبل پیش کی جانے والی چند روایات میں منصوص من اللہ اور منصوص من الرسول اللہ وصی ہونے کا تعرض پیش آیا ہے  

 شیعہ کے نزدیک اہمیت امامت  

 ولكن الشيعة الإمامية زادوا (ركناً خامساً) وهو: الإعتقاد بالإمامة. يعني أن يعتقد: أن الإمامة منصب إلهي كالنبوة، فكما أن الله سبحانه يختار من يشاء من عباده للنبوة والرسالة، ويؤيده بالمعجزة التي هي كنص من الله عليه (وربك يخلق ما يشاء ويختار ما كان لهم الخيرةفكذلك يختار للإمامة من يشاء، ويأمر نبيه بالنص عليه، وأن ينصبه إماماً للناس من بعده للقيام بالوظائف التي كان على النبي أن يقوم بها، سوى أن الإمام لا يوحى إليه كالنبي وإنما يتلقى الأحكام منه مع تسديد إلهي. فالنبي مبلغ عن الله والإمام مبلغ عن النبي.والإمامة متسلسلة في اثني عشر، كل سابق ينص على اللاحق. ويشترطون أن يكون معصوماً كالنبي عن الخطأ والخطيئة، والإ لزالت الثقة به، وكريمة قوله تعالى: (إني جاعلك للناس إماماً قال ومن ذريتي قال لا ينال عهدي الظالمين) صريحة في لزوم العصمة في الإمام لمن تدبرها جيداً.وأن يكون أفضل أهل زمانه في كل فضيلة، وأعلمهم بكل علم، لأن الغرض منه تكميل البشر، وتزكية النفوس وتهذيبها بالعلم والعمل الصالح فمن اعتقد بالإمامة بالمعنى الذي ذكرناه فهو عندهم مؤمن بالمعنى الأخص،والغرض: إن أهم ما امتازت به الشيعة عن سائر فرق المسلمين هو: القول بإمامة الأئمة الأثني عشر، وبه سميت هذه الطائفة (إمامية) فقد تتجاوز طوائف الشيعة المائة أو أكثر، ببعض الاعتبارات والفوارق، ولكن يختص اسم الشيعة اليوم ـ على إطلاقه ـ بالإمامية التي تمثل أكبر طائفة في المسلمين بعد طائفة السنة.

 اصل الشیعة واصولھا ص62۔63۔64۔65

 ترجمہ۔ ۔لیکن شیعہ امامیہ نے ایک رکن بڑھا کر پانچ رکن بنا دیے اور وہ عقیدہ امامت ہے یعنی شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امامت نبوت کی طرح منصب الٰہی ہے جس طرح اللہ تعالی نبوت اور رسالت کے لیے کسی کو منتخب کرکے اس کی معجزات    سے تائید کرتا ہے اسی طرح امامت کے لئے کسی کو منتخب کرکے نبی کو حکم کرتا ہے کہ وہ لوگوں پر اس کو امام مقرر کریں 

فرق صرف یہ ہے کہ نبی اللہ کی طرف سے مبلغ ہوتا ہے اور امام نبی کی طرف سے مبلغ ہوتا ہے (پیغام پہنچاتا ہے )

اور شیعوں نے امام کے لیے یہ بھی شرط لگائی ہے کہ وہ نبی کی طرح معصوم عن الخطا ہو ۔۔بس جو شخص اس طرح امامت کا عقیدہ رکھے جس طرح ہم نے ذکر کیا (امام منصوص من اللہ اور معصوم عن الخطا ہو )تو وہ شیعوں کے نزدیک خاص مومن ہے

الغرض عام مسلمانوں میں شیعوں کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ اس وجہ سے کہ وہ ائمہ اثنا عشریہ کی امامت کے معتقد ہیں اور اسی بنا پر اس فرقہ کو امامیہ کہتے ہیں خیال رہے کہ تمام شیعہ امامیہ نہیں ہیں کیونکہ لفظ شیعہ کا اطلاق زیدیہ و اسماعیلیہ وغیرہ پر بھی ہوتا ہے اس طرح ایک 100بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ شیعہ فرقوں کی فہرست تیار ہو جائے گی لیکن موجودہ زمانے میں شیعہ کا نام امامیہ فرقہ کے ساتھ مختص ہو چکا ہے جو سنیوں کے بعد سب سے بڑی تنظیم ہے 

 اصل الشیعہ واصولھا ۔57۔58

اصل و اصول شیعہ اردو ص62۔63۔64۔65۔

فضائل آئمہ۔۔۔ 

 ہمارے اللہ کے ساتھ مختلف حالات ہوتے ہیں کبھی ہم اللہ بن جاتے ہیں اور کبھی وہ اللہ اور ہم مخلوق بن جاتے ہیں 

 جلاءالعیون اور مقدمہ ثانی جلد2 صفحہ 67 

 محمد وآل محمد اسباب کے محتاج نہیں بلکہ  اسباب ان کے محتاج ہیں

 جلاءالعیون مقدمہ ثانی جلد 2 صفحہ 68

 محمد وآل محمد پر نیند طاری ہو سکتی ہے نہ اونگھ 

 جلاءالعیون مقدمہ ثانی جلد 2 صفحہ 69

 محمد وآل محمد ہر لمحہ ہر گھڑی تمام مخلوق کی آواز کو سنتے ہیں اور ہر ایک کی آواز پہچان کر اس کی مشکل کشائی کرتے ہیں 

 جلاءالعیون مقدمہ جلد 2 صفحہ 69

 محمد و آل محمد عالم الغیب حاجت روا مشکل کشا حاضر ناظر اور اللہ کی حکومت کے وزیراعظم ہے اب جووہ چاہتے ہیں اللہ بھی وہی چاہتا ہے اور ان کا قول اللہ کا قول ہے

 جلاء العیون مقدمہ ثانی جلد 2صفحہ 81 80

 تمام انبیاء نے مصائب و مشکلات میں جس رب کو پکارا وہ علی علیہ السلام ہیں   

 جلاء العیون جلد 2 صفحہ 66 مقدمہ ثانی 

 ان حضرات پر ارضی و سماوی حالات اس طرح ظاہر ہیں جس طرح ہاتھ کی ہتھیلی

 کلید مناظرہ صفحہ-16 15 

 دنیا کو نعمتوں کو تقسیم کرنے والے اور آخرت میں بہشت و دوزخ بانٹنے والے یہی حضرات ہیں 

 کلید مناظرہ صفحہ-16 15 

 یہ حضرات ماں کے پیٹ میں ہی اتنے ہی عالم و عارف تھے جتنے بلوغت کے بعد 

 کلید مناظرہ صفحہ-16 15 

 یہ حضرات خالق کائنات کی طرح بے مثل و بے نظیر ہیں 

 چودہ ستارے صفحہ 2 

 یہ حضرات اللہ تعالی کے سوا ہر چیز پر متصرف غالب وحاکم ہیں 

 جلاءالعیون مقدمہ اول جلد 2 صفحہ 29 

 جناب علی کے نورانی قطرات سے انبیاءوملائکہ پیدا کیے گئے ہیں اس لئے علی ان کا رب ہے  

 جلاء العیون جلد 2 صفحہ 26 27 

 آئمہ حضرات جمیع انبیاء و رسل وملائکہ سے افضل ہیں اور انبیاء و ملائکہ کے رب ہیں 

 جلاءالعیون مقدمہ اول جلد 2 صفحہ 24 

 محمد و آل محمد کو موت نہیں فنا نہیں اب ایمان والوں کے یہی مددگار ہیں اب اللہ بھی نگہبان نہیں ہے 

 جلاءالعیون مقدمہ آسان جلد 2 صفحہ 87 86 

 تمام روئے زمین کے مالک امام ہیں 

 اصول کافی جلد 1 صفحه 503 باب 104 

 آئمہ وہ تمام علوم جانتے ہیں جو ملائکہ انبیاء و مرسلین کو ملے ہیں 

 اصول کافی جلد 1 صفحه 292 باب 42 کتاب الحجۃ 

 یہ چودہ انوار نورانیت کے لحاظ سے آپس میں ذرہ برابر کمی و بیشی نہیں رکھتے ہیں جو جو معجزات تمام انبیاء میں بحالت انفرادی موجود تھے ان میں سے ہر ایک میں مجموعی حالت میں موجود ہیں۔ 

 ان سے بحالت بیداری بحالت خواب بھول چوک کا سرزد ہونا ناممکن ہے 

 کلید مناظرہ صفحہ 13 14

 أولنا محمد وآخرنا محمد وأوسطنا محمد کلنا محمد 

 ہم سب کے سب محمد ہیں 

 جلاء العیون جلد 2 صفحہ 69

 یہ ہمارے مذہب کی ضروریات میں سے ہے دنیا کا کوئی بھی فرد ائمہ کے مقامات روحانی و معنوی تک نہیں پہنچ سکتا ہے یہاں تک کہ ملک مقرب و نبی مرسل بھی نہیں پہنچ سکتے 

 حکومت اسلامی از امام خمینی اردو صفحہ 55 

 ترجمہ مقبول سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 71 کی تفسیر میں 

 علی کی ولایت کا حکم نازل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر آگئے تنگدل ہوئے اور روروکر جبریل سے کہنے لگے کہ میں نے بہت ساری تکلیف برداشت کی ہیں قریش علی کی ولایت کو قبول نہیں کریں گے 

 ترجمہ مقبول سورہ ہود کی آیت 12 کی تفسیر میں بحوالہ تفسیر عیاشی 

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج پر علی کی فضیلت میں شک ہوا 

 ترجمہ مقبول سورہ یونس کی آیت نمبر 95 94 کی تفسیر میں 

 امام انبیاء اور اوصیاء کے سردار ہیں کلید مناظرہ 77 

 رسول اللہ صلی اللہ وسلم شیعوں کے بارہویں امام کی بیعت کریں گے 

 حق الیقین صفحه 347 در اثبات رجعت

 جو چار بار متعہ کرےاس کا درجہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے درجے کی طرح ہے 

 تفسیر منہج الصادقین جلد 2 صفحہ 493 سورہ نساء کی آیت نمبر 24 کی تفسیر میں ۔برہان متعہ ۔تجلیات صداقت 

 امام بھی نبی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ فرشتے کو ظاہر نہیں دیکھتا 

 الکافی کتاب الحجه باب نمبر 2 

 امام کو رسول اللہ کی ختم نبوت کی تعظیم کی وجہ سے نبی کہنے سے منع کیا گیا ہے 

 حیات القلوب فارسی جلد 3 صفحه 3 

 اس قسم کی امامت کا انکار کرنے والا کافر ہے 

 الکافی کتاب الحجه باب 8 

 شیعہ کے عالم نعمت اللہ جزائری کا کہنا ہے کہ امامت عامہ وہ ہے جو نبوت و رسالت کے درجے سے بھی بلند ہے 

 زہر الربیع صفحہ 12 

 عصرحاضرکے شیعہ کے مرجع تقلید اور آیت اللہ ہادی طہرانی نے کہا ہے۔امامت نبوت سے بھی عظیم تر ہے یہ تیسرا مرتبہ ہے جس کے ساتھ اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو نبوت اور خلت کے بعد سرفراز کیا  

 ودایع النبوہ صفحہ114 

 اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے جن میں نمازروزہ حج زکواة اور ولایت شامل ہیں جس طرح ولایت کی منادی کرائی گئی ہے اس طرح کسی چیز کی منادی نہیں کرائی گئی لوگوں نے چار کو تو اپنا لیا اور اس کو یعنی امامت کو چھوڑ دیا 

 الکافی جلد 2 صفحہ 18 کتاب الایمان و الکفر 

 جس طرح امامت کی منادی کی گئی اس طرح کسی چیز کی منادی نہیں کی گئی ان کی ایک دوسری حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے اس میں صاف طور پریہ بات بھی مذکور ہے اور یہ اضافہ بھی ہے راوی کہتا ہے میں نے کہ دیا ولایت افضل ہے 

 الکافی جلد 2 صفحہ 18 

 الشافی جلد 5 صفحہ 59 

 تفسیر عیاشی جلد 1 صفحه 191 

 البرھان جلد 1 صفحہ 303 

 بحارالانوار جلد 1 صفحه 354 

 ایک تیسری روایت بھی پہلی روایت ہی کی طرح ہے جس میں یہ اضافہ ہے اس نے ان کو چار فرائض میں سے کچھ اشیاء کی رخصت دی لیکن کسی مسلمان کو ہماری ولا یت ترک کرنے کی رخصت نادی۔خدا کی قسم اس میں کوئی رخصت نہیں 

 الکافی جلد 2 صفحہ 22 

 مرآۃ العقول جلد 4 صفحہ 369 

 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان کی طرف 120 مرتبہ لے جایا گیا ہر مرتبہ اللہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ولایت علی اور ان کے بعد والے آئمہ کی ولایت کی وصیت فرائض کی وصیت سے زیادہ کی اس نے بندوں پر امامت کے اقرار سے بڑھ کر کسی چیز کی تاکید نہیں کی لیکن بندوں نے بھی سب سے زیادہ اسی کا انکار کیا ہے 

 الخصال صفحہ 600۔601

 بحار الانوار جلد 23 صفحہ 69 

 قرب الاسناد صفحہ 123

خلاصہ۔۔۔  

اہلتشیع محقیقین نے آئمہ اہلبیت کے فضائل اور اہمیت ثابت کرنے کے لیے سکڑوں روایات گھڑی ہیں اور صرف الکافی ہی میں آئمہ کی فضیلت واہمیت میں (90)ابواب باندھے ہیں  

 نتیجہ ۔۔

شیعہ محقیقین نے اپنے ائمہ کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملانے کی کوشش کی ہے اور تقریبا الکافی میں ہی امامت کی اہمیت اور امامت کا مفہوم اور فضائل بیان کرنے میں سو کے قریب باب باندھے ہیں جبکہ شیعہ کے ہر بڑے محدث ومفسر ومحقق وفقیہ نے حتی الامکان کوشش کی ہے اور اپنے اس عقیدے کو اسلامی عقیدہ ثابت کرنے کے لیے باطل استدلات باطل تاویلات کی ہیں لیکن سچ سچ ہی ہوتا ہے چھپائے نہیں چھپتا۔ 

آخر نظریہ امامت منصوص من اللہ  عصمت آئمہ کا نظریہ آیا کہاں سے تو اس کو بھی ہم شیعہ کتب سے تلاش کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلا کہ شیعہ کا نظریہ امامت آیا کہاں سے اس کو ایجاد کس نے کیا اس میں تاویلات کیا ہوئیں

  شیعہ محققین کے اقرارکے مطابق انہوں نے اصولِ امامت خود بڑھایا ہے 

  ولكن الشيعة الإمامية زادوا (ركناً خامساً) وهو: الإعتقاد بالإمامة. يعني أن يعتقد: أن الإمامة منصب إلهي كالنبوة،

 ترجمہ۔ ۔لیکن شیعہ امامیہ نے ایک رکن بڑھا کر پانچ رکن بنا دیے اور وہ عقیدہ امامت ہے یعنی شیعوں کا عقیدہ ہے

 اصل الشیعة و اصولها

 معروف شیعی عالم خمینی صاحب نے اپنی کتاب ”کشف الاسرار“ میں امامت پر گفتگو کی ہے اور اس پر دلائل دینے کی کوشش کی ہے۔ قبل اس سے کہ اس کے دلائل کا جائزہ لیا جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خمینی صاحب کی اس توجیہ کا بھی جائزہ لیا جائے جو انہوں نے ایک سوال کے جواب میں پیش کی ہے۔ اسی کتاب کے ص105 پر ایک سوال اٹھایا کہ:

 چرا خدا چنیں اصلا مهم را یک بار هم در قرآن صریح نہ گفت کہ ایں ہمہ نزاع و خونریزی بر سر ایں کار پیدا نشود.

 ترجمہ: کیوں اللہ تعالیٰ نے اس اہم اصل (بنیاد) کو قرآن میں صراحتاً ایک بار بھی بیان نہ فرمایا تاکہ اس سلسلہ میں جو اختلاف اور خونریزی ہوئی وہ پیدا ہی نہ ہوتی؟

اس سوال کے کئی جوابات جو خمینی صاحب نے دیے، ان میں سے ایک یہ ہے:

 در صورتیکہ امام را در قرآن ثبت می کردند آنہائیکہ جز برائے دنیا و ریاست با اسلام وقرآن سروکار نداشتد و قرآن را وسیلہ اجراء نیات فاسدہ خود کردہ بودند آں آیات را از قرآن بر دارند و کتاب آسمانی را تحریف کنند.

(کشف الاسرار ص 114)

 ترجمہ: اس صورت میں کہ امام کا قرآن میں ذکر کردیا جاتا تو وہی لوگ جو دنیا طلبی کے سوا اسلام اور قرآن سے کوئی تعلق نہیں رکھتے تھے اور قرآن کو اپنی فاسد نیتوں کا ذریعہ بنا رکھا تھا، ان آیات کو جن میں امام کا ذکر ہوتا قرآن سے نکال دیتے اور آسمانی کتاب میں تحریف کردیتے۔

خلاصہ۔۔۔

اہلتشیع محققین خود اقرار کنندہ ہیں کہ نظریہ امامت کو اہلتشیع نے خود اصول الدین میں زیادہ کیا ہے جب کہ ہم تعرف ایمانیات میں بیان کر چکے ہیں کہ قرآن کےبیان کردہ اصول الدین کیا ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ اصول الدین کیا ہیں اورامت مسلمہ کے بیان کردہ اصول الدین کیاہیں جبکہ اہلتشیع اصول کے مطابق جب ہم اہلتشیع سے سوال کرتے ہیں کہ اپنے اصول الدین کےبیان میں کوئی ایک روایت رسول اللہ کی بیان کردہ پیش کردیں تو وہ عاجز ہوجاتےہیں اور یہی وہ وجہ ہے کہ شیعہ فرقوں کی تعداد 300الخطط المقریزی اصل الشیعہ نے 100مسعودی نے 70 یعقوبی نے 80لکھی ہے اوروجہ افتراق یہی ہے کہ امامت فی نفسہ کے بارے میں قران میں کچھ بھی نازل نہیں ہوا ہے۔توتحقیق کرنے کا پہلویہ ہے کہ نظریہ امامت آیا کہاں ہے ؟؟؟

 اس نظریےامامت کا سب سے پہلا بانی ایک یہودی النسل عبداللہ بن سباء تھا اس کوبھی ہم شیعہ کتب سے کھوجتے ہیں 

   شیعہ کتب کی روشنی میں عبداللہ بن سباء کے  عقائد 

شیعہ مذہب کا نامور عالم اور فقیہ سعد بن عبداللہ القمی  ابن سبا کے وجود کا اعتراف اور اس کے چند ساتھیوں کا نام تک ذکر کرتا ہے جو اس کے ساتھ مل کر سازشیں کرتے تھے پھر اسکے فرقہ کو سبائیہ نام سے ملقب کرتا اور کہتا ہے کہ دین اسلام میں سب سے پہلے غلو کا اظہار کرنے والا یہی فرقہ تھا اور بعدازاں ابن سبا کو وہ پہلا شخص قرار دیتا ہے جس نے ابو بکر عمر عثمان اور صحابہ رضی اللہ عنہم پر اعلانیہ طعن وتشنیع کا اظہار کیا اور ان سے برات ظاہر کی اور دعوی کیا کہ علی رضی اللہ عنہ  نے اسے اس کام کاحکم دیا ہے پھر سعد قمی ذکر کرتا ہے کہ جب علی رضی اللہ عنہ کو اس کے عقائد کی خبر ہوئی تو انہوں نے اسے قتل کرنے کا حکم دیا لیکن پھر چھوڑ دیا اور صرف اسے مدائن کی طرف جلاوطن کرنے پر اکتفا کیا جس طرح اہل علم کی ایک جماعت سے منقول ہے 

 المقالات والفرق ص20

 عبداللہ ابن سبا یہودی تھا پھر اس نے اسلام قبول کیا اور علی سے محبت کا اظہار کیا جب وہ یہودی تھا یوشع بن نون سے متعلق یہی کہتا تھا کہ وہ موسی علیہ السلام کے وصی ہیں پھر وفات نبوی کے بعد اسلام قبول کرکے یہی بات علی رضی اللہ عنہ کے حق میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں اس شخص نے سب سے پہلے علی بن ابی طالب کی امامت وعصمت کے لزوم کا قول ذکر کیا اور ان کے دشمنوں سے برآة ظاہر کی اور انہیں کافر قرار دیااور حضرت علیؓ کی شہادت کے بعد ان کی رجعت کا سب سے پہلا قائل ہوا اسی بنیاد پر شیعہ کے مخالفین نے کہا ہے کہ رافضی مذہب دراصل یہودیت سے ماخوذ ہے 

 المقالات والفرق صفحہ-20 

  قمی ذکر کرتا ہے کہ جب ابن سبا کو علی رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع ملی تو اس نے دعوی کیا کہ وہ فوت نہیں ہوئے بلکہ دوبارہ دنیا میں واپس آکر اپنے دشمنوں سے لڑیں گےپھر وہ اس عقیدہ و نظریہ میں غلو کرنے لگا 

 المقالات والفرق صفحہ-21 

 یہ۔ہےوہ حقیقت جووہ ابن سبا سے متعلق بیان کرتا ہے یہ قمی شیعہ کے نزدیک ثقہ اور معرفت روایات میں وسیع النظر ہے 

 الفہرست صفحہ 105 

جامع روایات جلد 1 صفحه 352 

 ان کے نزدیک اس کی معلومات نہایت اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ ایک تو وہ زمانے کے اعتبار سے متقدم ہے اور دوسرا  جیسا کہ شیعہ المصدوق بیان کرتا ہے کہ یہ شیعہ کے امام معصوم حسن عسکری سے ملا اور اس نے اس سے سماع کیا ہے 

 اکمال الدین صفحہ 425 435 

 اسی طرح ایک اور شیعہ عالم نوبختی ابن سبا سے متعلق گفتگو کرتا ہے اور اس کے بارے میں قمی کے الفاظ سے حرف بحرف اتفاق کرتا ہے

 فرق الشیعۃ صفحہ 22 23 

 نوبختی بھی شیعہ کے نزدیک ثقہ اور معتبر عالم ہے  

 الفہرست صفحہ 75 

 جامع روایات جلد 1 صفحه 228 

 الکنی و الالقاب جلد 1 صفحه 141 

 مقتبس الأثر جلد 16 صفحہ 125 

 ایک تیسرا علم شیعہ الکشی اپنی معروف کتاب رجال الکشی میں جوشیعہ کی قدیم ترین اور علم رجال میں مواقع المدد کتاب ہے ابن سباءکے ذکر میں چھ روایات نقل کرتا ہے 

 رجال الکشی صفحہ 106 ۔108 ۔305

الروایات۔ 170۔ 171۔ 172۔ 173 174۔ 

 یہ شیعہ کے نزدیک ثقہ اور اخبار و رجال شیعہ پر بہترین نظر رکھنے والا عالم ہے 

 الفرق صفحہ 171 

 یہ روایات بیان کرتے ہیں کہ ابن سبا نے نبوت کا دعوی کیا اور یہ نظریہ اپنایا کہ امیر المؤمنین علی رضی اللہ عنہ ہی خدا ہیں نیز ان روایات میں منقول ہے کہ علی رضی اللہ  نے ابن سبا کو ان عقائد سے توبہ کرنے کا حکم دیا لیکن وہ تائب نہ ہوا تو انہوں نے اس کو آگ میں جلا دیا اسی طرح الکشی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ وہ ائمہ و خلفاء پر لعنت کرتا اور علی رضی اللہ عنہ  پر جھوٹ بولا کرتا تھا 

جیسے علی بن حسین فرماتے ہیں ہم پر جھوٹ گھڑنے والے پر اللہ کی لعنت ہو جب مجھے عبداللہ ابن سبا کا خیال آیا تو میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کیونکہ اس نے بہت خطرناک دعویٰ کیا ہے نہ جانے کیوں اس نے ایسا کہا ہے اس پر اللہ کی لعنت اللہ کی قسم علی رضی اللہ عنہٗ تو محض ایک اللہ کے نیک بندے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے انہیں اللہ تعالی کی طرف سے جتنی بھی عزت و کرامت ملی ہے وہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت گزاری کی  بدولت نصیب ہوئی ہے 

 رجال کشی صفحه 108 

 پھر الکشی ان روایات کو ذکر کرنے کے بعد کہتا ہے 

اہل علم نے ذکر کیاہے کہ عبداللہ بن سبا یہودی تھا پھر مسلمان ہوا اور علی رضی اللہ عنہ سے محبت کا اظہار کرنے لگا جب وہ یہودی تھا تو یوشع بن نون کے حق میں غلو کرتے ہوئے کہتا تھا کہ موسی علیہ الصلاۃ والسلام کے وصی ہیں پھر وفات نبوی کے بعد مسلمان ہوکر علی رضی اللہ عنہ کے متعلق یہی بات کہنے لگا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں اسی نے سب سے پہلے علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے لزوم کی بات کی ان کے دشمنوں سے برآة کااظہار کیا ان کے مخالفین سے دشمنی کا اظہار کیااور انہیں کافر کہا اسی بنا پر شیعہ کے مخالفین نے کہا ہے کہ رفض و تشیع دراصل یہودیت سے ماخوذ ہے

 رجال کشی صفحه 108

 رجال الکشی کی تصحیح وتشریح طوسی نےکی ہے جو شیعہ کے نزدیک صحاح اربع میں سے دو کتابوں کا مصنف ہے اور ایسے ہی شیعہ کی کتب رجال میں ںسے بھی دو کتابوں کا مولف ہے  

 مقدمہ رجال الکشی صفحہ 18 صفحہ 17 

 لوءلوء البحرین صفحہ 403 

اس کے علاوہ اور شیعہ کتب رجال کی کتابوں میں عبداللہ بن سبا کا ذکر موجود ہے 

 مسائل الإمامة صفحہ22 ۔23

 وفیات الاعیان ص 91۔92

 انباءالرواة 2/128/129

 منتھی المقال 

 منہج المقال فی تحقیق احوال الرجال

 جامع الرواة 1/476

 الحلي ۔الرجال ص 2/71

 قاموس الرجال ص 5/461

 رجال الطوسی ص 51

 من لایحضرالفقیہ 1/213

 الخصال ص 628

 تهذیب الاحکام 2/322

 بحار الأنوار 25/286

 تنقيح المقال 2/183

 مقتبس الأثر 21/230

 الشیعة فی التاریخ ص 213

 اهل سنت واهل تشیع کااجماعی قول ابن سباء بارے 

ماقبل ہم نے شیعہ مذہب کے آغاز کے متعلق اہم آراء ذکر کی ہیں اور ان پر حسب ضرورت نقد و تبصرہ بھی کیا ہے شیعہ مذہب ایک نظریہ اور عقیدہ بن کر اچانک ہی نمودار نہیں ہوا بلکہ یہ کئی وقتی تبدیلیوں سے دوچار ہوا اور مختلف مراحل سے گزرا ہے البتہ شیعہ مذہب کے ابتدائی افعال اور اس کے بنیادی اصول فرقہ سبائیہ کے ہاتھ پر ظہور پذیر ہوئے تھےجیسا کہ کتب شیعہ بھی اس حقیقت کا اعتراف و اقرار کرتی ہیں کہ عبداللہ ابن سباءنے سب سے پہلے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت ضروری ہےاور یہ کہ علی رضی اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی ہیں جیساکہ گزرچکا ہے بعینہ یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی منصوص من اللہ  امامت کا عقیدہ ہے جو شیعہ مذہب کی اساس ہے جیسا کہ شیعہ مذہب کی تعریف کے زمن میں ہم شیعہ عالم کا نظریہ ذکر کر چکے ہیں پھرسب کو یہ بھی معلوم ہوچکا کہ ابن سبا اور اس کی جماعت نے سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور سسر نسبی رشتے دار خلفاء اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے قریبی ساتھیوں ابوبکر و عمر عثمان اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبان طعن دراز کی تھی اور شیعہ بھی صحابہ کرام کے بارے میں یہی عقیدہ رکھتے ہیں جیسا کہ ان کی کتب میں مرقوم ہے نیز ابن سباء ہی سب سے پہلے رجعت علی رضی اللہ عنہ کا قائل تھا اور اب یہی رجعت شیعہ مذہب کا بنیادی اصول ہے مزید برآں ابن سبا ہی نے یہ بات کہی تھی کہ علی اور اہل بیت کے پاس چند مخصوص مخفی علوم ہے جیسا کہ حسن بن محمد بن حنفیہ نے رسالہ الارجاء میں کہاں ہے اب یہ مسئلہ شیعہ کے بنیادی عقیدے کی حیثیت اختیار کر چکا ہے 

 مقالات والفرق صفحہ 21 

 فرق الشیعۃ  صفحہ 23 

 مسائل إمامة صفحہ 22 23 

 مقالہ الاسلامیین جلد 1 صفحہ 86 

 التمبیہ والرد صفحہ 18 

 الفرق بین الفرق صفحہ 234 

 التبصیر فی الدین  صفحه 76 

 محصل افکار المتقدمین و المتاخرین صفحه 242 

 المواقف صفحہ 419 

 تہذیب التہذیب جلد 2 صفحہ 32 

 رسالة الإرجاء ص 249۔250

 صحیح بخاری میں بھی ایک اثر مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نظریہ بہت پہلے ظاہر ہوگیا تھا اور علی رضی اللہ عنہ سے بھی اس کے متعلق سوال کیا گیا تھا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو قرآن میں یا لوگوں کے پاس نہیں ہے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے مکمل طور پر اس کی حتمی تردید کی تھی 

  بخاری کتاب العلم جلد 1 صفحہ 204 

 باب۔حرم۔المدينة۔

 باب۔فکاک۔الاسیر

 باب ذمة المسلمین و جوار ہم  ۔

 باب اثم من عاھد ثم عذر ۔

 باب اثم من تبرأ من موالیہ ۔

 باب العاقلہ۔ 

 باب لا یقتل مسلم بکافر ۔

 باب من یکرہ من التعمق والتنازع والغلو

 مسلم۔مع۔النووي 9/143/144/13/141

 نسائی المجتبی ،8/19

 ترمذی 4/668

 امام احمد 1/100

 یہی شیعہ مذہب کا اہم دینی اصول ہیں جو یقینا شہادت عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں معرض وجود میں آئے تھے لیکن لوگوں میں ایک مخصوص فرقے کی صورت میں متعارف نہیں ہوئے تھے بلکہ فرقہ سبائیہ نے جیسے ہی اپنا سر نکالا سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اسےنابود کردیالیکن اس کے متصل بعد رونما ہونے والے واقعات معرکہ صفین واقعہ تحکیم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت وغیرہ نے ان عقائد کے ظہور اور انہیں جماعتی قالب میں ڈھالنے کے لئے مناسب فضا مہیا کر دیں  

 مجموع الفتاوی ابن تیمیہ جلد 20 صفحه 466 

 منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 219 

 فتح الباری جلد 2 صفحہ 270 

 التنبیہ والرد صفحہ 18 

 التبصیر فی الدین صفحہ 70 

 منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 219 220 

 تبصرہ۔۔۔۔۔۔۔۔

١۔۔۔۔۔بعض محققین کی رائے ہے شیعہ مذہب کی بنیاد یہودیت پر قائم ہے  القمی مقالات والفرق صفحہ-20  نوبختی فرق الشیعہ الصفحہ22   رجال الکشی صفحہ 108 ان متقدمین شیعہ علماء نے ابن سبا کے نظریات (وصیت امامت رجعت)  کا تذکرہ کیا جو کہ بعد میں شیعہ کے عقائد بن گئے۔

پہلا اور جامع ترین بیان امام شعبی سے مروی ہے  تہذیب التہذیب جلد 5 صفحہ 5  السنہ میں روایت موجودہے۔کہ شیعہ  اور یہود کے فکری و نظریاتی اصولوں میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ابن حزم  الفصل جلد 5 صفحہ 37 شیعہ بھی یہود کے نقش قدم پر گامزن ہے جو کہتے ہیں کہ یقینا الیاس علیہ السلام اور فنحاس علیہ السلام بن العازار بن ہارون علیہ السلام آج تک زندہ ہیں امام ابن تیمیہ منہاج السنۃ جلد 1 صفحہ 6  فرماتے ہیں شیعہ میں جہالت غلو اور خواہش کی پیروی جیسی خصلتیں موجود ہیں جن کے سبب ایک اعتبار سے وہ نصاری سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ایک مستشرق عالم گولڈ زہیر العقیدۃ والشریعۃ صفحہ 215  کہتا ہے کہ شیعہ میں رجعت کا عقیدہ یہودیت اور نصرانیت کے زیر اثر پیدا ہوا ہے  ایک مشتشر ق فریڈلینڈر  عالم العقیدۃ والشریعۃ صفحہ 100 کہتا ہے شیعوں نے اپنے بنیادی عقائد یہودیت سے اخذ کیے ہیں مستشرق فلہوزن احذابالمعارض صفحہ 170  بھی شیعیت کو یہودیت سے ماخوذ بتاتا اور ان دونوں کے درمیان فکری مشابہت کا تذکرہ کرتا ہے   

 پروفیسر احمد امین کہتے ہیں  فجر الاسلام صفحہ 276 شیعہ کا رجعت کا عقیدہ یہودیت کے زیر اثر ہےشیعہ کہتے ہیں کہ شیعہ شخص پر تھوڑی مدت کے سوا آگ حرام  کی گئی ہے یہی بات بعینی ہیں یہود کہتے ہیں تھے اسی طرح امام کی نسبت اللہ تعالی کی طرف مسیح کی نسبت کے مانند ہے یہ عیسائی اثرات کا نتیجہ ہے  

٢۔۔۔۔۔بعض محققین شیعہ مذہب کو فارسی اثرات کی پیداوار قرار دیتے ہیں ابن حزم اور مقریزی الفصل جلد 2 صفحہ 273  المقریزی الخطط جلد 2 صفحہ 262  کہتے ہیں اہل فارس وسعت سلطنت دوسری اقوام پر غلبے اور ان کے دلوں میں رعب و دبدبہ کے سبب اپنے آپ کو احرار اور اسیاد کہا کرتے تھےاور دوسرے تمام لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے تھےلیکن جب عرب کے ہاتھوں زوال حکومت کی آزمائش سے دوچار ہوئے جبکہ عرب اہل فارس کی نظر میں سب سے کم وقعت کے حامل تھےانہوں نے مختلف اوقات میں جنگ و جدال کے ذریعے اسلام کو مٹانا چاہا لیکن ہر بار اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا تو ان لوگوں نے سوچا کے سازشی طریقہ کار سے کامیابی کی امید زیادہ ہے اس بنا پر ان میں سے ایک گروہ نے بظاہر اسلام قبول کرلیا اور اہل بیت کی محبت اور علی رضی اللہ عنہ پر ظلم کا پروپیگنڈاکیا اس طرح شیعہ نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی طرف مائل کیا اور ان کو مختلف راستوں پر چلاتےرہے حتی کہ انہیں راہ ہدایت سے برگشتہ کر دیا۔بعض محققین  تاریخ المذاہب الاسلامیہ جلد 1 صفحہ 37  فجر الاسلام صفحہ 277  دراسات فی الفرق صفحہ 23  احزاب المعارضات وسیاست صفحہ 168  السیاسۃ العربیہ صفحہ 72 کہتے ہیں کہ اہل عرب کا شیوہ زندگی آزادی اور حریت تھاجبکہ اہل فارس کا نظام زندگی بادشاہت وملوکیت پر قائم تھا بادشاہ بادشاہی کے خاندان سے بنتا تھا اور وہ لوگ خلیفہ کے لیے انتخاب کے معنی سے بھی ناآشنا تھے چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور اپنے پیچھے جانشینی کے لیے کوئی اولاد نہ چھوڑی تو اب لوگوں میں آپ صلی اللہ وسلم کے سب سے قریبی رشتہ دار آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہی تھے لہذا اگر خلافت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم جیسے کسی شخص نے حاصل کی ہے تو اس نے اصل حقدار سے یہ منصب کیا ہے۔جبکہ اہل فارس بادشاہت اور شاہی خاندان میں اس کی مورثیت کو دین کی حد تک مقدس سمجھا کرتے تھے لہذا انہوں نے علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو بھی اسی نظریے سے دیکھا اور کہا کہ امام کی فرمابرداری ضروری ہے اور اس کی اطاعت گزاری درحقیقت اللہ کی اطاعت گزاری  ہےفارس کے لوگ بہت بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوئے لیکن اپنے قدیم عقائد سے کلیتاً چھٹکارانا پا سکے اور گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ آپنے انہیں قدیم نظریات کو اسلامی رنگ میں بنا سنوار کر پیش کرتے رہےاسی بنا پر شیعہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کی طرف  انہیں نظروں سے دیکھتے ہیں جن نظروں سے وہ فارسی اپنے اولین آباواجداد ساسانی حکمرانوں کو دیکھا کرتے تھے شیخ ابوزہرہ  تاریخ المذاہب الاسلامیہ جلد 1 صفحہ 38 فرماتے ہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیعہ بادشاہ اور اس کی موروثیت سے متعلق فارسی افکار سے متاثر ہیں اسی لئے شیعہ مذہب اور اہل فارس کے بادشاہی نظام کے درمیان بڑی واضح مشابہت پائی جاتی ہے جس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اہل فارس شیعہ ہیں اور اولین شیعہ فارسی النسل تھے     

جب مسلمانوں کے ہاتھوں ملک ایران فتح ھوا تو قیدیوں میں ایک ایرانی بادشاہ یزدگرد کی بیٹی بھی تھی جس سے حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے شادی کی ۔اور ان سے اس کا بیٹا علی بن حسین تولد ہوا فارسیوں نے اپنے بادشاہ کی بیٹی سے پیدا ہونے والی اولاد کو اپنے قدیم بادشاہوں کا وارث خیال کیا اور سمجھا کہ علی بن حسین اور ان کی اولاد کی رگوں میں فارسی حکمران یزدگرد کی بیٹی سے تولد پذیر ہونے کے ناطے ایرانی اور ان کے مقدس ساسانی بادشاہوں کا خون دوڑتا ہے

 تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 248 

 الکافی جلد 1 صفحہ 53 

 سمیر اللیثی الزندقہ والثعوبیة صفحہ 52    

 عبداللہ الغریب وجاءدورالمجوس صفحہ 77 

 النشار نشاۃ  الفکر الفلسفی جلد 2 صفحہ 111 

 عبدالرزاق الحصان المھدی المہدویہ صفحہ 82 

 فاطمہ نام فارسیوں کے نزدیک بڑا مقدس نام ہے کیونکہ ان کی قدیم تاریخ میں فاطمہ کا مقام ومرتبہ نہایت قابل تعریف ہےفارسیوں کے خیال کےمطابق فاطمہ ہی کی بدولت سمردیس مجوسی کہ جو کیسا نیوں کے پایہ تخت پر قابض ہوگیا تھا متعلق حقیقت حال کا انکشاف ہوا تھا چنانچہ فاطمہ بڑی بہادر اور مقدس خاتون تھیں اگر وہ نہ ہوتے تو سمر دیس مجوسی کے متعلق کچھ پتہ نہیں چلتا اور اگر وہ نہ ہوتے تو اس کا باپ اوتاس اور اس کے ساتھی سمردیس کے مقابلے میں مناسب تدبیر اختیار نہیں کر سکتے تھے 

 المہدی والمہدویہ صفحہ 84 

 عنھیرودوتس۔صفحہ 462 

 المقدس بداء التاریخ جلد 4 صفحہ 133 جلد 6 صفحہ 95 

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کو ایسی خصوصیات اور صفات سے متصف کرتے ہیں جو بشری طاقت سے ماوراء ہیں یہاں تک کہ ان کو الہ قرار دیتے ہیں 

 رجال کشی صفحہ 15 صفحہ 16 صفحہ 19 صفحہ 6 صفحہ 7 

 مقالات الجسلامین جلد 1 صفحہ 80 

ابولولو فیروز مجوسی جس نے خلیفہ راشد عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اسے یہ لوگ بابا شجاع الدین کہا کرتے تھے اور جس دن عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ والمجوسی کے ہاتھوں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے تھے اس دن کو شیعہ لوگ عید مناتے ہیں الجزائری نے کئی روایات نقل کی ہیں

 الکنی والالقاب جلد 2 صفحہ 55 

 انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 108 

کی طرح یہ لوگ مجوسیت حواریوں مینی روز کی بھی مجوسیوں کی طرح تعظیم کرتے ہیں روایات میں یہ اعتراف و اقرار موجود ہے کہ یوم نیروز مجوسیوں کا تہوار اور ان کی عید ہے 

 معتبس الاثر جلد 29 صفحہ 202 203  

 المجلسی بحار الانوار باب عمل یوم النیروز جلد 98 صفحہ419 

 وسائل الشیعۃ باب استحباب صوم یوم نیروز والغسل فیہ لبس انظف الثیاب والطیب جلد 7 صفحہ 346 

 بحارالانوار جلد 39 صفحہ 108 

٣۔۔۔۔بعض محققین نے شیعہ مذہب کوقدیم ایشیائی مذاہب بدھ مت وغیرہ کے عقائد پر مبنی ہےقراردیاہے

شیعیت ہی کےزیرسایہ تناسخ ارواح تجسیم الہی اور حلول جیسے دیگر عقائد جو زمانہ قبل از اسلام میں براہمہ فلاسفہ اور مجوس کے ہی معروف تھے مسلمانوں میں پھیل گئے بعض مستشرقین بھی شیعہ میں بہت سی غیر اسلامی عقائد کے سرایت کرنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں شیعہ میں یہ عقائد مجوسیت مانویت اور بدھ مت وغیرہ مذاہب سے منتقل ہوئے ہیں جو ظہور اسلام سے قبل ایشیا میں رائج تھے

 تاریخ المذاہب الاسلامیہ لابی زہرہ جلد 1 صفحہ 37    

 المعجم الفلسفی صفحہ 55 

 التعریفات للجرجانی صفحہ93 

 التدمیر یہ صفحہ 32 ضمن مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ جلد 3 

 منہاج السنہ جلد 2 صفحہ 97 تا145 

 درءتعارض العقل والنقل جلد 1 صفحہ 118 119 

 التعریفات للجرجانی صفحہ 103 

 الملل والنحل جلد 1 صفحہ 232 

 الرازی اعتقادات فرق المسلمین والمشرکین ۔صفحہ 137 

 فجر الاسلام صفحہ 277 

 المنیة والعمل صفحہ 60 

 شرح الطحاویہ صفحہ 18 

مختصر تحفہ اثنا عشریہ مولف فرماتے ہیں کہ شیعہ مذہب کی یہودونصاری اور مجوس و مشرکین کے فرقوں کے ساتھ مکلمل مشابہت پائی جاتی ہےپھر انہوں نے ان مذاہب کے تمام فرقوں کے ساتھ شیعہ مذہب کی مشابہت کی وجوہات ذکر کی ہیں 

اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ جب ہم نے شیعہ فرقوں پر تحقیق اور ان کا مطالعہ کیا تو ان میں تمام مذاہب و ادیان کے عقائد موجود تھے جن کو مٹانے کے لئے اسلام دنیا میں آیا تھا 

  برکات عبدالفتاح الوحدانیہ صفحہ 125 

 نتیجہ ۔۔۔

 امامت منصوص من اللہ عصمت آئمہ مفترضة الطاعة رجعت کا نظریہ پیش کرنے والا سب سے پہلا شخص عبداللہ بن سباء یہودی تھا جس کو شیعت نے اپنا بنیادی عقیدہ بنایا 

 نظریہ امامت ایک راز تھا 

امامت کے مسئلہ میں شیعہ روایات اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہیں کہ اسلامی خلافت کے ارکان کو زمین بوس کرنے کے لیے ایک خفیہ نیٹ ورک قائم کیا گیا جس نے اس مقصد کے لیے اپنے کارکنان کے لیے یہ عقیدہ اور نظریہ وضع کیا اس لیے جوں ہی خلافت راشدہ کے عہد سعید میں اس کے چہرے سے نقاب اترا تو امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے اس کے خلاف بڑا سخت گیر مگر محکمانہ موقف اپنایا چنانچہ انہوں نے ابن سبا کا تعاقب کیا اس کو مدائن کی طرف جلاوطن کیا اور اسلامی معاشرے میں اس نے جو افکار پھیلانے کی کوشش کی انہوں نے ان کی تردید کی خود شیعہ کی کتابوں کو بھی اس کا اعتراف ہے لیکن بعد میں یہ جماعت( ابن سبا کے پیروکار) لوٹ آئے اور انہوں نے انتہائی رازدارانہ انداز میں اس نظریے کا پرچار شروع کر دیا 

 القالات والفرق صفحہ 20 

 فرق الشیعۃ و صفحہ 22 23 

 رجال کشی صفحہ 107 میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے ابن سبا کو قتل کردیا تھا 

 روایت۔یہ گروہ علی رضا کے زمانے میں کہا کرتا تھا جس طرح ان کی طرف یہ روایت منسوب کرنے سے ظاہر ہوتا ہے 

۔اللہ تعالی نے اپنی ولایت کو رازدارانہ طریقے سے جبرائیل کے سپرد کیا جبرائیل نے اس کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں ڈال دیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ خفیہ خفیہ علی کو دے دیا اور علی اس کو جس کو اللہ نے چاہا دے دیا پھر تم اس کو پھیلاتے ہو ؟؟کون ہے وہ جس نے کسی حرف کو سنا تو اس کو روک لیا ؟؟

 المازندرانی۔ شرح جامع جلد 9 صفحہ 123 

 روایت۔ ابو جعفر نے کہا الداؤد کی حکمت و دانائی کی باتوں میں سے ایک یہ حکمت ہے مسلمان کو اپنے نفس کا مالک ہونا چاہیے ذات کی اصلاح پر توجہ رکھنی چاہیے اپنے اہل زمانہ کی معرفت ہونی چاہیے لہٰذا اللہ سے ڈرو اور ہماری بات نہ پھیلاؤ 

 الکافی جلد 2 صفحہ 234 

 نوٹ۔ یہ روایات اشارہ دیتی ہیں کہ ولایت اصلا تنزیل الہی میں اسرار اورخفیہ امور میں داخل ہے اور اس کے بارے میں اظہار خیال سے خبردار کیا گیا یعنی اسلام کے ترقی یافتہ عہد زریں میں ولایت اور اس کے معاملے کے متعلق کسی آواز کی شنوائی نہیں ہوئی 

 شارح الکافی اس کی علت بیان کرتا ہے ۔

جب ان کے زمانے میں تقیہ شدت اختیار کرگیا تو انہوں نے اپنے شیعہ کو اپنے اسرار امامت احادیث اور ان کے مذہب کے خصوصی احکام سب کچھ چھپانے کا حکم دے دیا 

 المازندرانی۔ شرح جامع۔ جلد 9 صفحه 118  

 روایت۔ ہمارا راز افشا نہ کرو نہ ہمارا معاملہ نشر کرو 

 الکافی جلد 2 صفحہ 222 

اس روایت کی شرح میں شارح الکافی کہتا ہے یہ امامت اور خلافت کا معاملہ ہے 

 شرح جامع جلد 9 صفحہ 119 

 روایت ہماری بات نشر کرنے والا اس کے انکار کرنے والے کی طرح ہے 

 الکافی جلد 2 صفحہ 234 

یہ روایت جعفر کی طرف منسوب ہے اس کے متعلق شارح الکافی کہتا ہے

جان لو ان کو دشمنان دین سے اپنی اور شیعہ کی جان کا خوف تھا وہ ان کی وجہ سے شدید تقیہ کی کیفیت میں تھے اس لیے انہوں نے اپنی امامت کیا اپنے آباءکی امامت پر دلالت کرنے والی خبر کو پھیلانے سے منع کردیا  

 شرح جامع جلد 10 صفحہ 26

 ان کے درمیان راز داری قائم رکھنے کے لیے انہوں نے کہا ہے ہمارا معاملہ مقفی اور میثاق نقاب میں محفوظ ہے جس نے ہمارا پردہ چاک کیا اللہ اس کو ذلیل کرے گا 

 الکافی کے محقق نے یہاں حاشیہ میں کہا ہے کہ میثاق سے مراد وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول نے آئمہ علیہ الصلاۃ والسلام سے لیا تھا کہ اس معاملے کو دوسروں سے چھپا کر رکھیں 

 الکافی جلد 2 صفحہ 228۔27 حاشیہ 

 نوٹ ۔۔۔شیعہ کے بعض روایات ولایت کے راز کے افشاء کے آغاز کے تعین میں ذکر کرتے ہیں کہ یہ کام کسانیہ فرقہ کے ہاتھوں ہوا ایک روایت میں ہے ۔

 روایت۔ ہمارا راز چھپا ہوا تھا کہ یہ کیسان کی اولاد کے ہاتھ لگا تو انہوں نے اس کو گلی بازار اور مضافات کوفہ و بصرہ کی بستیوں میں موضوعِ سخن بنا دیا 

 الکافی جلد 2 صفحہ 223 

 روایت۔ ۔اپنی زبان روکے رکھو اور اپنے گھروں میں دبکے رہو تمہیں مخالفین سے کوئی ضررنہیں پنہچے گا اور تمہارا معاملہ تمہیں تک مخصوص رہے گا اور زیدیہ تمہارے لئے ہمیشہ ڈھال رہیں گے 

 الکافی جلد 2 صفحہ 225 

 خلاصہ روایات۔ 

 ان روایت میں اس بات کا احتمال ہے کہ زیدیہ کوطلبی ولایت کے اظہار کی پاداش میں مورد الزام ٹھہرایا جائے گا اور ان کی پکڑ دھکڑ ہوگی اور تم تقیہ کو اپنائے رکھنے کی بنا پر بچ جاؤ گے جس طرح شارح الکافی نے شرح جامع صفحہ 9/126پر بھی اس کا ذکر کیا ہے 

اگر ولایت نبوت کی ہمجولیاں اس سے بھی بڑھ کر اہمیت رکھتی ہے تو پھر یہ خفیہ اور رازداری میں کیوں لپٹی ہوئی ہے ؟؟؟حتی کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی جن کو اللہ نے یہ حکم دیا کہ ان پر جو نازل ہوا ہے اس کی تبلیغ کریں اس کو چھپا رہے ہیں اور بڑے رازدارانہ انداز میں اسے علی ؓ کے سپرد کر رہے ہیں پھر علیؓ جس کو چاہیں اس کے سپرد کر دیں یہ روایت ان اشخاص کی تعیین بھی نہیں کرتی جن کو حضرت علیؓ نے راز امامت سپرد کیا اور معاملہ ان کی مرضی پر چھوڑ رہی ہے کہ وہ جس کو چاہیں منتخب کر لیں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس اختیار نہیں اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ ولایت جو شیعہ کے نزدیک نجات کا قانون قبولیت اعمال کی بنیاد اور کفر و ایمان کے درمیان فیصل قاطع ہے اتنی دیر خفیہ کیوں رہی کہ اس کوکیسا ن کی اولاد نے پھیلانے کی ذمہ داری سنبھالی پھر وہ اس کام کو اس اصل حکم سے خروج قرار دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا یہ تمام عبارت اور روایات اس حقیقت پر دلالت کرتے ہیں کہ اس نظریے کے خالق امت کے دشمن ہیں انہوں نے اپنے مقاصد کے حصول کے لیے اس مسئلہ کو استعمال کیا پھر بڑی مشاقی سے اس کو رازداری اور پوشیدگی کی فضا میں گھڑ کر اہل بیت کی طرف منسوب کر دیا تاکہ وہ ان لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا سکیں جن کو بعض علماء آل بیت کے ساتھ پیش آنے والے المناک حادثات نے دکھی کردیا  حادثات و واقعات کا سبب یہ تقیہ کے لبادے میں چھپے ہوئے کینہ پرور اسلام دشمن غداران اسلام اہل تشیع ہی تھے    

یہ چند روایات ہم نے نقل کی ہیں بسبب طوالت۔ورنہ شیعہ محدثین اور مفسرین اور محققین نے باقاعدہ باب باندھ کر تقیہ اور کتمان حق کو بیان کیا ہے ۔

  آئمہ کو ایک متعین تعداد میں محصور کر دینا 

جیسا کہ ہم ماقبل ذکر کر چکے ہیں کہ نظریہ وصیت امامت کا موجد اعلی عبداللہ ابن سبا تھااسی طرح نظریہ رجعت کا بانی بھی عبداللہ ابن سبا تھا لیکن وہ ان نظریات کو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ تک محدود رکھتا تھا لیکن اس کے بعد ایسے لوگ آئے جنہوں نے اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد کے کئی افرادتک وسعت دے دی شیعہ جماعتیں اور نیٹ ورک بڑی رازداری اور مکمل خاموشی کے ساتھ اپنے کام میں لگے ہوئے تھے لیکن جب ان کے کچھ دعوی اہل البیت کےافراد تک پہنچ جاتے تو وہ اپنے جد امجد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے بڑی شدت کے ساتھ ان کی تردید کرتے چنانچہ ان کذابوں نے اہل بیت کی نسبت عقیدہ تقیہ اخترع کرلیا تھا کہ وہ بڑی آسانی کے ساتھ اپنے افکار پھیلا سکیں اور ان کو پیروان اہل بیت مزہب کے سچے اور سرعام پیش کرنے میں کوئی دقت نا ہو 

یہ گمان بھی کیا جا سکتا ہے کہ آئمہ کو بارہ کی تعداد میں تعین بھی ابن سباء نے کیا ہو کیوں کہ بارہ آئمہ کا تذکرہ 

شیعہ بارہ آئمہ کی امامت کے دعویدار ہیں حقیقت میں اس قدیم یہودی خیال کی طرف لوٹتی ہے جس کا دانیال کی کتاب میں ذکر ہوا ہے 

 کتاب دانیال میں یہ لکھا ہوا ہیں جب مہدی وفات پا جائے گا تو اس کے بعد سبط اکبر کی اولاد سے پانچ لوگ بادشاہ بنیں گے پھر پانچ سبط اصغر کی اولاد سے ہوں گے پھر ان میں سے آخری خلیفہ سبط اکبر کی اولاد میں سے کسی کے نام خلافت کی وصیت کرے گا اس کے بعد اس کا لڑکا بادشاہ بن جائے گا اس طرح 12 بادشاہ ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک امام مہدی ہوگا۔

 فتح الباری جلد 13 صفحه 213  

 نتیجہ ۔۔۔۔

 شیعہ کا بارہ آئمہ کو محصور کرنے کا نظریہ بھی یہود سے لیا گیا ہے

 متعین تعداد آئمہ کے نظریے  کا بانی

شیعہ کی اہم ترین کتاب رجال الکشی میں یہ روایت ذکر ہوئی ہے جو یہ انکشاف کرتی ہے کہ شیطان الطاق وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ قول مشہور کرنا شروع کر دیا کہ امامت اہل بیت کےمخصوص افراد میں محصور ہے 

 تعارف شیطان الطاق

شیطان الطاق کا نام محمد ابن علی ابن نعمان ابوجعفر احول ہے جو 160ہجری کے قریب فوت ہوا اسی کی طرف یہ قول منسوب ہے کہ اللہ تعالی اس وقت تک کسی چیز کے متعلق کچھ نہیں جانتے جب تک وہ رونما نہیں ہو جاتی اور ایسی ہی دیگر گمراہی والی باتیں اس کی طرف منسوب ہیں اس کی طرف شیعوں کا ایک فرقہ  شیطانی یا نعمانیہ منسوب کیا جاتا ہےمعروف ہے کہ شیطان الطاق ہشام بن حکم  کا معاصر تھا (جس کا ذکر ہم شیعہ کے اصل اول توحید میں نظریہ تجسیم کے تحت کر آئے ہیں )حافظ ابن حجر نے کہا ہے کہ جب شیخ الرافضہ ہشام بن حکم کو معلوم ہوا کہ لوگوں نے اس کو شیطان الطاق کے القاب سے ملقب کیا ہےتو اس نے اسے مومن الطاق کے نام سے موسوم کیا ممکن ہے کہ وہ اس جرم میں ہشام بن حکم کے شریک ساتھیوں میں سے ایک ہو کیونکہ وہ مسئلہ امامت کے متعلق کتاب کی تالیف میں شریک تھا  جو اس جھوٹ کی بنیاد اور اس کا سبب ہے جیسا کہ اس جھوٹ اور بہتان سے متعلق روایات اس امر پر دلالت کرتی ہیں 

 الفصل جلد 5 صفحہ 39 

 رجال کشی صفحه 185 

 رجال النجاشی صفحہ 249 

 لسان المیزان جلد 5 صفحه 300 

 فرق الشیعۃ للنوبختی صفحہ 78 

 سفینہ البحار جلد 1 صفحہ 333 

 مقالات الاسلامیین جلد 1 صفحه 111 

 الملل والنحل جلد 1 صفحہ 186 

 الانتصار لابن خیاط صفحہ 14 ۔،38

 متعلقہ نظریےکی روایات 

 روایت شیطان الطاق امامت اہل بیت کے مخصوص افراد میں منحصر ہے جب زید ابن علی کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس افواہ کی حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے اس کے پاس پیغام بھیجا انہوں نے اس سے کہا مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ تم یہ خیال کرتے ہوآل محمد میں ایک امام ہے جس کی اطاعت فرض کی گئی ہے ؟؟؟شیطان الطاق نے جواب دیا ہاں اور تمہارا باپ علی بن حسین ان میں ایک تھا تو انہوں نے کہا یہ کس طرح ہوسکتا ہے ؟؟؟اس کے پاس روٹی کا ایک لقمہ گرم وہ اس کو اپنے ہاتھ سے ٹھنڈا کرتا اور میرے منہ میں ڈالتا تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ جو میرے لیے روٹی کا گرم ٹکڑا برداشت نہیں کرتا تھا میرے لئے جہنم کی گرمی برداشت کرتا ؟؟؟؟؟

شیطان الطاق نے کہا میں نے ان سے کہا اس نے یہ بات اسی خوف کے پیش نظر تجھ کو بتانے سے گریز کیا کہ کہیں تم انکار کرکے کفر کا ارتکاب نہ کر لو اور اس کے پاس تمہاری شفاعت کا اختیار بھی نہ رہے اور تجھے جنت میں داخل کرنے کی اللہ کی بھی مشیت نہ رہے 

 رجال الکشی صفحہ 188 

 الکافی جلد 1 صفحه 174

 تنقیح المقال جلد 1 صفحه 470 

  تبصرہ۔ محب الدین خطیب نے مختصر تحفہ اثنا عشریہ پر اپنی تعلیق میں اسی روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا 

اس طرح شیطان الطاق نے امامت کا یہ جھوٹ اختراع کیا جو شیعہ کے ہاں دین کے اصول میں داخل ہوچکا ہے اس نے امام زین العابدین علی بن حسین کو یہ الزام دیا کہ انہوں نے دین کی اساس کو چھپا دیا حتی کہ اپنے بیٹے سے بھی جو آل محمدصلی اللہ علیہ وسلم  کے چنیدہ افراد میں تھےاسی طرح اس نے امام زید پر تہمت لگائی کہ وہ اپنے باپ کی امامت پر ایمان لانے کی قابلیت میں خصیص ترین شیعت کے درجے پر بھی نہیں شیعہ خود اس روایت کو اپنے معتبرترین مصادر میں روایت کرتے ہیں اور اس میں یہ اعلان واظہار کرتے ہیں کہ شیطان الطاق بڑی ڈھٹائی سے یہ خیال پیش کرتا ہے کہ وہ امام زید کے والد کے بارے میں ان کے دین کی اصل کے متعلق وہ کچھ جانتا ہے جو امام زید بھی اپنے والد کے متعلق نہیں جانتے شیطان الطاق کے بارے میں یہ سب بہت زیادہ نہیں اس سے نقل کیاگیا ہے کہ اس نے امامت کے بارے میں اپنی کتاب میں یہ کہا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن میں یہ نہیں کہا 

 ثَانِیَ اثۡنَیۡنِ اِذۡ ہُمَا فِی الۡغَارِ التوبہ40

 ترجمہ۔ جبکہ وہ دو میں دوسرا تھا جب وہ دونوں غار میں تھے 

 شیطان الطاق اس آیت کا منکر تھا 

 مختصر التحفہ اثناعشریہ صفحہ ۔۔195 96 حاشیہ 

 روایت۔ شیطان الطاق جو امامت کے متعلق باتیں اور بحث مباحثہ کرتا تھا اس کی خبر جعفر کو پہنچی تو انہوں نے کہا اگر اس کے مخالفین میں سے کوئی حریف شخص اس کے ساتھ بحث کرنا چاہے تو وہ کر سکتا ہے راوی کہتا ہے میں نے پوچھا وہ کس طرح تو انہوں نے کہا کہ وہ اس سے کہے تم یہ جو بات کر رہے ہو اس کے بارے میں اپنے امام کا کلام پیش کروں اگر اس نے کہا کہ ٹھیک ہے میں پیش کرتا ہوں تو وہ جھوٹ بولے گا اور اگر وہ کہے نہیں تو پھر حریف اس سے کہے گا تم وہ بات کس طرح کہہ رہے ہو جو تمہارے امام نے کہی ہی نہیں ؟؟پھر جعفر صادق نے کہا یہ ایسی باتیں کرتے ہیں اگر میں ان کا اقرار کرلو اور ان کو پسند کرو تو میں گمراہی پر قائم ہو جاؤں گا اور اگر ان سے برات کا اظہار کرو تو یہ مجھ پر گراں گزرے گا ہم تھوڑے ہیں اور ہمارے دشمن زیادہ راوی کہتا ہے میں آپ پر قربان ہو جاؤں کیا میں آپ کی بات اس تک پہنچا دوں ؟؟؟انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ وہ ایسے معاملے میں داخل ہوچکے ہیں کہ ان کو اس سے رجوع کرنے میں حمیت اور تعصب مانع ہے۔راوی کہتا ہے میں نے یہ بات ابوجعفر احول تک پہنچائی تو اس نے جواب دیا خدا کی قسم مجھے اس سے رجوع کرنے میں حمیت کے علاوہ اور کوئی چیز مانے نہیں  

 رجال کشی صفحه  190 ۔ 91 

 خلاصہ۔ 

قاضی عبدالجبار ہمدانی کی رائے یہ ہے کہ یہ دونوں اشخاص شیطان الطاق اور ہشام بن حکم (المتوفی۔ 179)نے ہی حضرت ابوبکر و عمر عثمان اور مہاجرین و انصار رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین پر سب و شتم کرنے کی لوگوں کی  ہمت بڑھائی 

 تثبیت دلائل النبوۃ جلد 1 صفحہ 225 

 روایت۔رجال کشی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ہشام بن حکم کی مسئلہ امامت کے لیے سازش کی خبر ہارون رشید تک پہنچی تھی کیونکہ ان سے یحیی برمکی نے کہا تھا 

امیرالمومنین میں نے ہشام کے معاملے کی چھان پھٹک کی ہے اس کا یہ دعویٰ ہے کہ اللہ تعالی کا اس کی زمین میں آپ کے علاوہ بھی کوئی امام ہے۔ جس کی اطاعت فرض ہے انہوں نے کہا سبحان اللہ اس نے کہا ہاں بلکہ اس کا یہ نظام ہے کہ اگر وہ اس کو خروج کا حکم دے گا تووہ خروج کرے گا 

 رجال الکشی صفحہ 258   

 خلاصہ۔ اس روایت سے ظاہر ہوتا کہ ہارون رشید یہ بات سن کر چونک گیا جو اس کے نئی شے ہونے پر دلالت کرتی ہے 

ہشام بن حکم نے یہ بات بھی پھیلا دی کہ یہ بات وہ امامت کے بارے میں موسی کاظم کے حکم سے کہتا ہے اس نے ان کو یہ الزام دے کر ان کے ساتھ بہت زیادہ برا کیا اور اس پاداش میں خلیفہ مہدی نے ان کو قید میں ڈال دیا اور ان سے یہ وعدہ لیا کہ وہ اس پر خروج کریں گے نہ اس کی اولاد  میں سے کسی کے خلاف بغاوت کریں گے تو انہوں نے جواب دیا 

 خدا کی قسم یہ میری شان ہے نہ میرے دل میں اس کا کوئی خیال ہی پیدا ہوا ہے 

 ابن کثیر البدایہ والنہایہ جلد 10 صفحہ 183 

شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے بھی اس امر کی طرف اشارہ کیا ہے کہ موسی کاظم پر بادشاہت پر نظر لگائے بیٹھنے کا الزام تھا اس لئے ان کو پہلے مہدی پھر ہارون رشید نے قید میں ڈال دیا تھا 

 منہاج السنہ جلد 2 صفحہ 155 

اس سے ظاہر یہی لگتا ہے کہ اس خبر کو پھیلانے والا ان کے خلاف ہشام بن حکم تھا جو امامت اور اس کے استحقاق کے متعلق ان کے طرف سے باتیں بنا کر پیش کرتا اس لئے جب ہارون کوہشام کے بارے میں ایسی باتوں کا علم ہوا تو اس نے اپنے عامل سے کہا اس کو اور اس کے ساتھیوں پر اپنی گرفت مضبوط رکھناپھر اس نے ابوالحسن موسی کی طرف کسی کو بھیج کر گرفتار کیا اور قید میں ڈال دیا  چنانچہ ان کے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانے کے اسباب میں سے ایک یہ سب بھی تھا  

 رجال الکشی صفحہ 262 

بلکہ شیعہ روایات وعبارات نے ہی ہشام کو موسی کاظم کے قتل میں شراکت کا مورد الزام ٹھہرایا ہے کیونکہ شیعہ کا دعوی ہے کہ انہیں ہارون کی جیل میں زہرخورانی کے ذریعے قتل کیا گیا تھا چنانچہ روایت کہتی ہیں ہشام بن حکم گمراہ اور گمراہ کن ہے یہ ابو الحسن کو قتل کرنے میں شریک تھا 

 رجال الکشی صفحہ268

ابوالحسن نے اس سے التماس کی جس طرح ان کی روایات کہتی ہیں کہ وہ ایسے کلام سے رک جائے وہ ایک مہینہ خاموش رہا پھر اپنی پرانی روش پر چل نکلا تو اس سے ابوالحسن نے کہا کیا تم کسی مسلمان آدمی کے خون بہانے میں شریک ہونے سے خوش ہوگے ؟؟؟

اس نے کہا نہیں تو انہوں نے کہا پھر تم میرے خون میں کس طرح شریک بننا پسند کرو گے ؟؟؟اگر تم خاموش رہے تو سہی ورنہ میرا زبحہ ہونا مقدر ہوگا  لیکن وہ خاموش نہ ہوا حتیٰ کہ وہ اپنے انجام تک پہنچ گئے 

 رجال الکشی۔صفحه 270 271 279  

اس لئے ابوالحسن رضا نے کہا جس طرح شیعہ کتب روایات کرتی ہیں ہشام بن حکم ہی وہ شخص ہے جس نے ابوالحسن کے ساتھ وہ کیا جو کیا اس نے ان کو بتایا اور انکے خبردی کیا تم سمجھتے ہو کہ اللہ اس کو معاف کر دے گا جو اس نے ہمارے ساتھ بدسلوکی کی ہے 

 رجال کشی صفحه 278 

شیعہ کتب یہ انکشاف بھی کرتی ہیں کہ ہشام زنادقہ میں سے ہے اور اس نےبعض زنادقہ کی گود میں تربیت پائی رجال کشی میں ہے ہشام ابو شاکر کے لونڈوں میں سے ہیں 

 رجال الکشی صفحہ 278 

ابوشاکر دیصانی فرقہ دیصانیہ کا سربراہ تھااس نےہشام بن حکم کو گمراہ کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا 

 الرافعي تحت رایۃ القران صفحة 213 

ان ساری باتوں کے باوجود شیعہ کا عصر حاضر کا ایک آیت اللہ ان تمام مصائب کے ذمہ دار جن کو شیعہ کی ثقہ ترین کتب رجال میں نقل کیا ہے اس ہشام کے بارے میں کہتا ہے ۔ہمارے اسلاف میں سے کسی کو کوئی ایسی چیزغلط نہیں ملی جو اس کی طرف منسوب کی ہو 

 عبدالحسین الموسوی المراجعات صفحه  313 

خدا معلوم حقیقت میں یہ بات اس سے مخفی رہی ہے یا وہ تقیے کی ڈھال میں اس کا انکار کر رہا ہے ؟؟؟

کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کو شاید اس کا علم نہیں جو ان کی کتابوں میں موجود ہے چنانچہ ہشام بن حکم شیطان الطاق اور ان دونوں کے پیروکار ہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ  کے متعلق عبداللہ ابن سبا کے نظریہ کو زندہ کیا پھر اس کو اہل بیت کی نسل سے دوسروں تک پھیلا دیا اور اہل بیت کو جن باز حادثات کا سامنا کرنا پڑا جیسے علی و حسین رضی اللہ عنہما کی شہادت ان کو انہوں نے لوگوں کے جذبات و احساسات کو آنگیخت کرنے اور ان کے ساتھ کھیلنے کے لیے استعمال کیا اور سلطنت اسلامی کے خلاف اپنے اغراض و مقاصد کے حصول کے لیے اس پردے کے سائے میں لوگوں کے دلوں میں جگہ بنائی 

 بحارالانوار جلد سوم صفحه 259 

چنانچہ معلوم ہوا کہ یہ ہشام اور شیطان کے پیروکاروں کے ہاتھوں  ہی امامت کو مخصوص افراد میں محصور کرنے کا عقیدہ کوفہ میں سرایت کر گیا  

 روایت بطور دلیل 

اسلامی معاشرے میں جن لوگوں کے سامنے یہ عقیدہ پیش کیا گیا ان میں سے چند افراد جعفر کے پاس اس کی حقیقت دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے الکشی اپنی سند کے ساتھ سعیداعرج سے روایت کرتا ہے

 ہم عبداللہ کے پاس بیٹھے تھے کہ دو آدمی اجازت لے کر حاضر ہوئے ایک نے کہا کہ تم میں وہ امام ہے جس کی اطاعت فرض کی گئی ہے ؟؟؟

انہوں نے کہا میں اپنے خاندان میں کسی ایسے کو نہیں جانتا اس نے کہا کوفہ میں کچھ لوگ ہیں جن کا یہ دعویٰ ہے کہ تم میں ایک امام ہے اس کی اطاعت فرض کی گئی ہے وہ جھوٹ نہیں بولتے وہ متقی ہیں عبادت گزار ہیں ان میں ایک عبداللہ بن یعفور اور فلاں فلاں ہے ابو عبداللہ نے کہا میں نے ان کو اس کا حکم دیا ہے نہ یہ کہا ہے کہ وہ یہ بات کہیں (سے عبارت میں بین سطور باور کرایا جارہا ہے کہ جعفر کا انکار تقیہ کی بنا پر تھا) اس نے کہا میرا کیا گناہ ہے پھر ان کا غصہ چہرہ غصے سے لال ہوگیا راوی کہتاہے جب انھوں نے ان کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے تو چلتے بنے انہوں نے کہا کہ تم ان دونوں آدمیوں کو جانتے ہو ہم نے کہا ہاں یہ دونوں زیدیہ ہیں 

 رجال الکشی صفحہ 428 

 نتیجہ۔ 

معلوم ہوا کہ اہل بیت کے ساتھ تعلقات رکھنے کا دعوی کرنے والے شیطان الطاق اور ہشام بن حکم جیسے افراد کے ہاتھوں دوسری صدی میں ائمہ کو مخصوص تعداد میں محصور کرنے کے نظریے کے بیج بوئے گئے ائمہ کی تعداد کے بارے میں بھی شیعہ کے مذاہب اور رجحانات میں اختلافات اور تضاد پایا جاتا ہے جیسا کے تحفہ اثنا عشریہ میں جان لو کہ امامیہ ائمہ کو مخصوص افراد میں منحصر کرنے کے قائل ہیں لیکن ان کا ان کی تعداد میں اختلاف ہے بعض پانچ کہتے ہیں بعض 7بعض 8-بعض12 اور کچھ 13کہتے ہیں 

شیعہ کے اسباب میں لاتعداد القول ہے شیعہ فرقوں کی تعداد بھی اسی بنیاد پر منحصر ہے اگر کتب فرق کا مطالعہ کیا جائے تو یہ بات آپ کے سامنے آئے گی ہم چند کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں طوالت سے بچتے ہوئے کہ یہ ایک الگ موضوع ہے  

   الخطط المقریزی نے شیعہ فرقوں کی تعداد 300 سے زائد بتائی ہے 

 الخطط جلد 2 صفحہ 351     

 مسائل الامامه ناشی اکبر کی 

 الزینة ابوحاتم رازی کی 

 المقالات و الفرق اشعری قمی کی 

 الفرق الشیعۃ و نوبختی کی 

 المنیۃ والامل مرتضی کی 

 اماموں کی تعداد میں اختلاف کی مختلف روایات مختلف کتابوں میں موجود ہیں 

 الکافی شرح جامع جلد 9 صفحه 123 

 رجال الکشی صفحہ373 

 رجال الکشی صفحہ373 374 

 الغیبة صفحہ 92 

 الکافی جلد 1 صفحه 532 

 اکمال الدین صفا 264 

 المفید الارشاد صفحہ 393 

 الخصال ص 477 478 

 عیون اخبار الرضا جلد 2 صفحہ 52 

 نوٹ۔ ۔ان تمام کتابوں میں اور جو حوالے پیش کیے گئے ہیں ان روایات میں اماموں کی تعداد مختلف بتائی گئی ہے یہاں سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ اگر نظریہ امامت منصوص من اللہ معصوم مفترضة الطاعت ہے تو اماموں کے تعیین میں اتنا اختلاف کیوں ہے اب ظاہر بات ہے جب شیعہ مزہب ماقبل الاسلام فلسفوں کی آماجگاہ ہے اور ماقبل ہم بیان کرچکےہیں کہ بارہ آئمہ کی روایات دانیال کی کتاب میں موجود ہیں   

 ائمہ کو متعین تعداد میں محصور کرنے پر نقد وتبصرہ

۔Surat No 4 : Ayat No 59 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ  وَّ  اَحۡسَنُ  تَاۡوِیۡلًا ﴿٪۵۹﴾

 اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول  ( صلی اللہ علیہ و سلم )  کی اور تم میں سے اختیار والوں کی ۔   پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے  ۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے ۔  

١۔۔۔اولي الامر۔۔۔۔۔۔۔

لفظ عام ہے۔

٢۔۔۔اولی الامر۔۔۔۔۔

۔آئمہ کی تعداد کازکر نہیں ہے 

٣۔۔۔۔اولی الامر۔۔۔۔

۔نص قطعی نہیں اتنے اہم مسلے کے لیے کوئی نص قطعی ہونی چاہیے تھی

۴۔۔۔اولي الامر۔۔۔

إشارة النص تک نہیں بن سکتا آئمہ کی تعداد کے لیے چہجائےکہ دلالت النص ہو  

۵۔۔۔اولی الامر ۔۔

۔میں آئمہ کی تعدادکو محصور کرنے کے لیے کوئی قرینہ نہیں ہے 

 نتیجہ۔۔ہم ذکرکرآئے ہیں کہ امام وامامت عام ہے اور اس آیت سے بھی یہی ثابت ہے   

 حدیث نمبر: 696

حدثنا محمد بن أبان، حدثنا غندر، عن شعبة عن أبي التياح، أنه سمع أنس بن مالك، قال النبي صلى الله عليه وسلم لأبي ذر:"اسمع وأطع ولو لحبشي كأن راسه زبيبة".

ہم سے محمد بن ابان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا شعبہ سے، انہوں نے ابوالتیاح سے، انہوں نے انس بن مالک سے سنا کہ نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذر سے فرمایا (حاکم کی) سن اور  اطاعت کر۔ خواہ وہ ایک ایسا حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو جس کا سر منقے کے برابر ہو۔

 البخاری حدیث نمبر 696 

 المسلم حدیث نمبر 1837

 منہاج السنۃ جلد 2 صفحہ 105 اور 6 پر اور کی روایات موجود ہیں 

١۔۔۔اس حدیث کا مفہوم بھی امامت کو عام ہونے پر دال ہے 

٢۔۔۔اور کوئی تعداد اماموں کی مقرر نہیں ہے 

 روایت۔لوگوں کا امیر ہونا ضروری ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد جس کی معیت میں دشمن کے ساتھ لڑائی کی جائے راستے پر امن ہو جائے اور اس کے ذریعہ طاقتور سے کمزور کا حق لیا جائے تاکہ نیک راحت  پائے اور فاجر سےسکون ہو جائے

 نہج البلاغہ صفحہ 72

1۔۔۔کوئی امامت کی تخصیص  نہیں ہے 

٢۔ ۔۔اماموں کی کوئی تحدید نہیں ہے

  نتیجہ۔ جہاں تک شیعہ کی کتابیں ہیں تو وہ ایسی روایت سے لبالب بھری ہوئی ہیں جو اماموں کو بارہ میں تحدید کرتی ہیں لیکن یہ بات یاد رہے کہ ان روایات کا خفیہ اور رازدارانہ تبادلہ ہوتا تھا جیسا کہ ہم نے ماقبل ذکر کیا ہے اور آئمہ انراویوں کی تکذیب کرتے تھے جو ان کی صداقت پر شکوک کو جنم دیتی ہیں بالخصوص کتاب اللہ میں بھی جس کی طرف ان کے آئمہ کی طرف منسوب اقوال میں بھی فیصلے کے  وقت رجوع کا حکم دیا گیا ہے ان روایات کا سوائے اس کے کوئی شواہد نہیں کہ اس کی باطنی تاویلات اور موضوع روایات کے ذریعہ اس کی مفہوم سازی کی جائے اور یہ موضوع روایات ہیں آخر میں شیعہ کا سہارا رہ جاتی ہیں جن کے جھوٹ ہونے پر تمام شواہد تاکیدی دلالت کرتے ہیں ایسے ہی ان روایات کو جمع کرنے والے ابراہیم قمی الکلینی جیسے الشیعہ وہ غالی لوگ تھے جن کو اسلامی صفوف سے خارج سمجھنا ضروری ہے کیونکہ انہوں نے ہی قرآن کے ناقص اور تحریف کی خیالی کہانیاں اور تصوراتی افسانے نقل کیے ہیں اس طرح یہ لوگ غیر دیانتدار اور ان کی کتابیں غیر معتبر ہیں 

ایسے ہی اس مسئلہ میں شیعہ فرقوں کے اقوال میں اختلاف اور ائمہ کی تعداد اور ان کے اعیان وذوات میں ان کے مذاہب میں تباین وتضاد جیسا کہ ہر امام کی وفات کے بعد شیعہ می کئی فرقہ معرض وجود میں آجاتے اور ہر گروہ امام کے تعین میں ایک نیانظریے ایجاد کر لیتا ہےپھر دیگر جماعتوں سے ہٹ کر بعض نئے عقائد و افکار اپنا لیتا اور اپنے متعلق دعویٰ کرتا ہے کہ صرف وہی حق پر ہے حتی کے خودشیعہ بھی اس کی بنا پر شکایت اور خود ملامتی کا شکار نظر آتے ہیں

 شیعہ مورخ مسعودی  (حجر فرماتے ہیں کہ اس کی کتابیں بانگ دہل اعلان کرتی ہیں کہ یہ شیعہ تھا فرقہ اثنا عشریہ اپنے علماء کے تراجم میں اسے اپنا عالم تسلیم کرتا ہے   

 لسان المیزان جلد 4 صفحه 224 

  وفاۃ الوفیات جلد 3 صفحہ 12 

 الکنی و الالقاب جلد 3 صفحه 160 

 جامعہ الرواة جلد 1 ص 573 

میں ذکر کیا ہے کہ شیعہ فرقوں کی تعداد73 تک پہنچتی ہے 

 مروج الذھب جلد 3 صفحہ 221 

ہرفرقہ دوسرے کی تکفیر کرتا ہے جیسا کہ ایک رافضی میر باقر الداماد(دولت صفویہ میں شیعہ کے کبار علماء میں سے تھا  

 الکنی والالقاب جلد 2 صفحہ 206 

 خلاصۃالاثر صفحہ 301 

 تاریخ العلماء صفحه 83 )

دعوی کرتا ہے کہ افتراق امت والی حدیث(اس حدیث کے متعلق امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے اور کتب سنن و مسانید میں مشہور ہے  

 مجمع الفتاوی جلد 3 صفحہ 345 

علامہ مقبلی کہتے ہیں کہ افتراق امت والی حدیث متعددطرق اور اسانید سے مروی ہےجو ایک دوسرے کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ اس کے بعد حدیث کے مفہوم میں کسی قسم کا شک اور تردد باقی نہیں رہتا 

 العلم الشامخ صفحہ 414  

اسی روایت کو اکثر محدثین اور سنن اربعہ کے مولفین نے نسائی کے سوا روایت کیا ہے اور بعض روایات میں یہ صراحت موجود ہے کہ ایک فرقہ ناجیہ ہے اور دیگر تمام فرقےہلاک ہونے والے ہیں اس روایت کو اصحاب سنن میں سے صرف  امام ابو داود(4573)اور دیگر ائمہ حدیث  دارمی جلد 2 صفحہ 241  احمد جلد 4 صفحہ 106  حاکم جلد 1 صفحہ 128  الشریعہ صفحہ-18 بعض طرق میں زنادقہ کے سوا تمام فرقوں کے نجات پانے کے صراحت بھی موجود ہے لیکن یہ روایت اور علماء حدیث کے نزدیک موضوع ہے  کشف الخلفاء جلد1 صفحہ 359  اسرار المرفوعہ صفحہ 161 اہل سنت کی طرح شیعہ کتب میں بھی یہ روایت موجود ہے جس کے الفاظ ہیں کہ میری امت بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ایک کے سوا تمام فرقہ ہلاک ہوجائیں گے انہوں نے کہا وہ ایک فرقہ کونسا ہے فرمایا وہ جماعت ہے جماعت ہے جماعت ہے ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ میرے بعد میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہو جائے گی جن میں صرف ایک فرقہ نجات پانے والا ہے اور بہتر فرقے جہنم میں جائیں گے 

 الخصال جلد 2صفحہ 584 ۔585

ان شیعہ روایات میں کسی میں یہ صراحت نہیں کہ وہ تمام فرقہ شیعہ کے ہیں البتہ ان میں یہ وضاحت موجود ہے کہ وہ نجات یافتہ فرقہ شیعہ نہیں بلکہ جماعت ہے )میں تہتر فرقوں سے مذکور شیعہ فرقے ہیں اور ان میں سے نجات پانے والا گروہ صرف امامیہ ہے 

 جمال الدین افغانی التعلیقات علی شرح الدوانی العضدیة ضمن كتاب الأعمال الکاملة للافغانی دراسة وتحقيق 

محمد عمارہ۔ جلد 1 صفحہ 215 رشید رضا نے اس کتاب کو محمد عبدہ کی طرف منسوب کیا ہے تفسیر المنار جلد 8 صفحہ 221 لیکن محمد عمارہ نے ثابت کیا ہے کہ یہ کتاب جمال الدین افغانی ہی کی تالیف کردہ ہے دیکھیں محمد عمارہ الاعمال الکاملہ للافغانی جلد 1 صفحہ 155 صفحہ 156 

 الاعمال الکاملہ لمحمد عبدہ۔ جلد 1 صفحہ 209 

اہلسنت اور معتزلہ وغیرہ کے نزدیک شیعہ صرف امت دعوت میں شامل ہیں یعنی وہ اس امت محمدیہ کا حصہ نہیں ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت و رسالت کو قبول کیا ہے کیونکہ یہ اپنے عقیدے کے لحاظ سے اسلام میں داخل نہیں ہیں شیعہ نے یہی بات کہ وہ تہتر فرقوں میں منقسم ہے قبل ازیں خود ہی کہیں ہے جس کی طرف شہرستانی اور رازی نے بھی اشارہ کیا ہے 

 الملل والنحل جلد 1 صفحہ 165 

 اعتقادات فرق المسلمین صفحہ 85 

دائرۃ المعارف میں مذکور ہے شیعہ فرقوں کی فروع اتنی بڑی تعداد میں ظاہر ہوئی ہیں جو تہتر فرقوں سے کہیں زیادہ ہیں جبکہ مقریزی نے ذکر کیا ہے کہ شیعہ فرقوں کی تعداد 300 تک پہنچتی ہے 

 دائرۃ المعارف جلد 14 صفحہ67

 الخطط جلد 2 صفہ 351  

اس اختلاف کا غالب سبب شیعہ کا ائمہ اہل بیت سے متعلق اختلاف کا شکار ہونا ہے یہ لوگ ائمہ کی ذوات اور ان کی تعداد کے بارے میں مختلف نظریات کے حامل ہیں اس طرح کسی امام پر توقع اور اس کے انتظار میں یا مزید کسی امام کو امام بنانے جیسے مسائل کی بدولت مختلف عقائد کے حامل ہیں پھر اس پر مستزادکہ یہ لوگ مسائل کی تفریح اور تاویل میں تباین اور تنازعات کا شکار ہیں۔اسی لئے علامہ ابن خلدون نے تعین ائمہ میں شیعہ اختلافات کا ذکر کرنے کے بعد کہا ہے کہ یہ اتنا بڑا اختلاف بتاتا ہے کہ صراحت خلافت کی کوئی حقیقت نہیں ہے یعنی یہ اختلاف اس بات کی دلیل ہے کہ شیعہ کے اس دعویٰ کی کہ سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی اور دیگر ائمہ کی خلافت کی صراحت کی تھی کوئی حقیقت نہیں ہے  کیونکہ اگر یہ امر اللہ تعالی کی طرف سے منصوص ہوتا تو اس میں اتنا زیادہ اختلاف و تباین رونما نہ ہوتالیکن اس میں بہت زیادہ اختلافات موجود ہیں اور یہ کثرت اختلاف ہی نص کے نہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے  اور نہ ہی محققین کو یہ کہنا پڑتا کہ شیعہ فرقوں کی تعداد 300 تک پہنچتی ہے 

بہرحال ہم اس موضوع یعنی شیعہ کے فرقے کتنے ہیں اور کس امام کے وفات کے بعد کس کس بیٹے کی امامت کا دعوی لوگوں نے کیا اور کیا کیا عقائد ان کے لیے گھڑے گئے اس پر انشاء اللہ تعالی شیعہ فرقوں کی تعداد کے حوالے سے لکھیں گے 

  نیابت مجتہد کی ضرورت آئمہ کو ایک محدود تعداد میں منحصر کر دینا ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو عقل اور زمینی حقائق کی منطق بھی قبول نہیں کرتی کیونکہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ متعین تعداد ختم ہو جانے کے بعد کیا امامت امام کے بغیر ہی رہے گی ؟؟؟کیونکہ آپ دیکھتے ہیں کہ اثناعشریہ کے ظاہر ہونے والے اماموں کا زمانہ اڑھائی صدیوں سے تھوڑا ہی زیادہ بنتا ہے یہی وجہ ہے کہ شیعہ آئمہ کو محدود تعداد میں متعین کرنے سے نکلنے کے لیے نیابت مجتہد کے مسئلہ کے لئے مجبور ہوئے ہیں اور نیابت امام کی حدود میں بھی ان کا اختلاف ہے 

 الخمینی الحکومت الاسلامیہ صفحہ68 

لہذا عصرحاضر میں یہ لوگ اپنی اساس سے جو ان کے دین کا قاعدہ ہے مکمل طور پر فرار ہونے کے لئے لاچار ہوچکے ہیں اور انہوں نے سربراہ مملکت کے چناؤ کےلئے انتخابی طریقہ کار کو مقرر کیا ہے لیکن انہوں نے حصرِ تعداد کو چھوڑ کر حصرِ نوع کی راہ اختیار کرلی اور ملک کے سربراہ شیعہ فقیہ تک محدود کر دی ہے جسے ولایت فقیہ کا نام دیا جاتا ہے  الخمینی الحکومت الاسلامیہ صفحہ 48 

 اھلسنت کی روایت سے استدلال 

حدیث نمبر: 4706

Tashkeel Show/Hide

حدثنا ابن أبي عمر ، حدثنا سفيان ، عن عبد الملك بن عمير ، عن جابر بن سمرة ، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يزال أمر الناس ماضيا ما وليهم اثنا عشر رجلا، ثم تكلم النبي صلى الله عليه وسلم، بكلمة خفيت علي، فسألت أبي ماذا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فقال: كلهم من قريش "،

‏‏‏‏ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”ہمیشہ لوگوں کا کام چلتا رہے گا یہاں تک کہ ان کی حکومت کریں گے بارہ آدمی۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ایک بات  کہی چپکے سے جو میں نے نہیں سنی۔ میں نے اپنے باپ سے پوچھا: کیا کہا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے۔ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: ”یہ سب آدمی قریش سے ہوں گے۔“

13677 - 4706

 المسلم کتاب الامارۃ باب الناس تبع لقریش و خلافت فی قریش 

حدیث نمبر: 7222

حدثني محمد بن المثنى، حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن عبد الملك، سمعت جابر بن سمرة، قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" يكون اثنا عشر اميرا، فقال كلمة لم اسمعها، فقال ابي، إنه قال: كلهم من قريش".

ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر محمد بن جعفر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے بیان کیا، ان سے عبدالملک بن عمیر نے، انہوں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ میں نے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ (میری امت میں) بارہ امیر ہوں گے، پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے کوئی ایسی بات فرمائی جو میں نے نہیں سنی، بعد میں میرے والد نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  یہ فرمایا کہ وہ سب کے سب قریش خاندان سے ہوں گے۔
 

 البخاري كتاب الاحکام باب الاستخلاف جلد 8 صفحہ 128 

 حدیث نمبر: 4279

حدثنا عمرو بن عثمان، حدثنا مروان بن معاوية، عن إسماعيل يعني ابن ابي خالد، عن ابيه، عن جابر بن سمرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يزال هذا الدين قائما حتى يكون عليكم اثنا عشر خليفة كلهم تجتمع عليه الامة، فسمعت كلاما من النبي صلى الله عليه وسلم لم افهمه، قلت لابي ما يقول؟ قال: كلهم من قريش".

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”یہ دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ تم پر بارہ خلیفہ ہوں گے، ان میں سے ہر ایک پر امت اتفاق کرے گی“ پھر میں نے نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک ایسی بات سنی جسے میں سمجھ نہیں  سکا میں نے اپنے والد سے پوچھا: آپ نے کیا فرمایا؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”یہ سارے خلفاء قریش میں سے ہوں گے“۔

20818 - 4279

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو دا فة الأشراف: 2134)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الأحکام 51 (7222)، صحیح مسلم/الإمارة 1 (1821)، سنن الترمذی/الفتن 46 (2224)، مسند احمد (5/86، 88، 96، 105) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس میں:  «تجتمع علیہ الأمة»  کا ٹکڑا منکر ہے،  صحیح نہیں ہے)، (ابو خالد الاحمسی لین الحدیث ہیں، اور اس کی روایت میں متفرد ہیں، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 376، وتراجع الألباني: 208)
 

حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا وهيب، حدثنا داود، عن عامر، عن جابر بن سمرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" لا يزال هذا الدين عزيزا إلى اثني عشر خليفة، قال: فكبر الناس وضجوا، ثم قال: كلمة خفية، قلت لأبي: يا أبت ما قال: قال: كلهم من قريش".

جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”یہ دین بارہ خلفاء تک برابر غالب رہے گا“ لوگوں نے یہ سن کر اللہ اکبر کہا، اور  ہنگامہ کرنے لگے پھر آپ نے ایک بات آہستہ سے فرمائی، میں نے اپنے والد سے پوچھا: ابا جان! نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فرمایا؟ کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا ہے: ”یہ سب قریش میں سے ہوں گے“۔

20819 - 4280

تخريج الحديث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/ الإمارة 1 (1821)، (تحفة الأشراف: 2203)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/87، 88، 90، 93، 96، 101، 106) (صحیح)» ‏‏‏‏
 

  حدیث نمبر: 4281

حدثنا ابن نفيل، حدثنا زهير، حدثنا زياد بن خيثمة، حدثنا الاسود بن سعيد الهمداني، عن جابر بن سمرة بهذا الحديث زاد فلما رجع إلى منزله اتته قريش فقالوا: ثم يكون ماذا؟ قال: ثم يكون الهرج.

اس سند سے بھی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں اتنا اضافہ ہے: پھر آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  اپنے گھر واپس گئے تو قریش کے لوگ آپ کے  پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: پھر کیا ہو گا؟ آپ نے فرمایا: ”پھر قتل ہو گا“۔

20820 - 4281

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 2126)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/92) (صحیح) (اس میں: «فلما جمع»  کا ٹکڑا صحیح نہیں ہے)» ‏‏‏‏

 سنن ابی داود کتاب المہدی جلد 4 صفحہ 471 

شیعہ حضرات ان احادیث سے اپنے بارہ اماموں کو استدلال کرتے ہیں  چہ جائے کہ وہ اہلسنت کی کتابوں کو حجت نہیں مانتے لیکن الزامی جواب کے طور پر ان احادیث کو پیش کرتے ہیں 

 خلاصہ احادیث

١۔۔۔یہ 12خلفاء قریش سے ہوں گے 

٢۔ ۔۔یہ منصب خلافت پر متمکن ہوں گے 

٣۔۔۔ان کے دور میں اسلام عزیز اور قوی ہوگا یعنی اس کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکے گا کوئی 

۴۔ ۔۔لوگوں کا ان پر اتفاق واجماع ہوگا 

۵۔ ۔۔ان کے عہد میں لوگوں کے معاملات سکون اور درست سمت میں چلتے رہیں گے 

 نوٹ

  شیعہ حضرات امامت کا دعوی کرتے ہیں جبکہ ان احادیث میں خلافت کا ذکر ہے ۔

 ان حضرات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے وہ بھی بہت تھوڑی مدت کے لیے 

 دونوں کے ادوار میں امت اکٹھی نہیں ہوئی تھی 

 خود شیعہ کی نظر میں کسی ایک کی مدت میں بھی امامت کا معاملہ درست نہیں ہوسکا بلکہ ابھی تک امت اسی خراب اور فساد سے دوچار ہے اب ان پر ظالم بلکہ کافر حکمران مسلط ہوتے رہے ہیں 

 منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 210 

 منہاج سنہ المنتقی مختصر صفحہ 533 

 خود ائمہ بھی اپنے دینی امور میں تقیہ کی آڑ میں پناہ لیتے رہے ہیں 

 مختصر الصواقع صفحہ 231 مخطوط 

 امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ  جب خلافت پر براجمان تھے تب بھی ان کا دوردورتقیہ تھا جس طرح شیعہ کے عالم مفید کا یہ صاف صاف کہنا ہے 

 الارشاد صفحہ 7

 وہ قرآن کو ظاہر کر سکے نہ جملہ احکام اسلام کے مطابق فیصلے کر سکے جس طرح نعمت اللہ جزائری نے اس بات کی وضاحت کی ہے 

 انوار نعمانیہ جلد 2 صفحہ 362 

 دین کے معاملے میں وہ صحابہ کرام کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر ان کی معاونت و خاطرداری کرتے رہے جس طرح شیعہ کے المرتضی یہ اقرار کرتا ہے 

 تنزیہ الشرعیہ صفحہ 132 

 ائمہ کی تعداد اس میں حصر کے ساتھ ذکر نہیں ہے بلکہ یہ بتایا جا رہا ہے کہ ان بارہ خلفاء کے دور میں اسلام کی کیا حالت ہوگی 

شیخ الاسلام فرماتے ہیں 

 اسلام اور اسلامی قانون بنی امیہ کے زمانے میں بعد والے زمانوں کی نسبت زیادہ وسیع اور غالب تھا پھر انہوں نے اس حدیث سے اجتہاد کیا ہے کہ یہ امر یعنی اسلام بارہ خلفاء تک عزیزوغالب رہے گا تمام قریش سے ہوں گے پھر کہا اور ایسا ہی ہوا ۔۔۔۔

 منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 206 

 ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ ولایت منتظر کے دوام کے قائل ہیں ان کے نزدیک کوئی زمانہ بھی بارہ اماموں میں سے کسی امام سے خالی نہیں ہوتا 

جبکہ ان احادیث میں بارہ خلفاء کے بعد امر اسلام میں بگاڑ کی طرف اشارہ ہے 

 شیعہ کے اس نظریے سے زمانے میں دو انواع باقی نہیں رہی  ایک وہ جس میں امت کا معاملہ قائم اور درست ہوگا  دوسری وہ زمانہ جس میں وہ قائم نہیں ہو سکا اور یہ بات حدیث کے خلاف ہے 

 شیعہ اعتقاد کے  منتظر کے خروج تک 

تقیہ کا زمانہ ہے شیعہ کے نزدیک جس نے تقیہ کو ترک کر دیا وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ اس نے نماز ترک کر دیں 

 ایسے ہی امت کا ان پر اجماع نہیں ہوا صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی بھی زمام اقتدار تک نہیں پہنچا 

جبکہ ان کی تعداد اور اعیان کے متعلق شیعہ شدید ترین اختلافات کا شکار ہیں 

جس کی وجہ سے بے شمار فرقہ شیعہ کے وجود میں آئے جن کو الخطط نے 300 تک ذکر کیا ہے اور خود شیعہ فرق کی کتابیں ان سے لبالب بھری ہوئی ہیں 

 وہ سارے کے سارے قریش سے ہوں گے اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  اور ان کی اولاد کے ساتھ مخصوص نہیں کیونکہ ان کی کوئی امتیازی حیثیت بیان نہیں کی گئی اب جب مطلق القریش کا ذکر کردیا قریش کے کسی ایک قبیلے کے ساتھ مخصوص نہیں کیا تو خلفائے راشدین بنو تمیم بنو عدی بنو عبد شمس بنو ہاشم ان تمام قبائل سے تھے 

 منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 211 

 مکمل احادیث میں صرف لفظ 12 رہ گیا ہے صحیح مسلم میں ذکر ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت میں بارہ منافق ہے 

 المسلم صفات المنافقین حدیث نمبر 2779

 ظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ تعداد جس کے شیعہ دعویدار ہیں حقیقت میں اس قدیم یہودی خیال کی طرف لوٹتی ہے جس کا دانیال کی کتاب میں ذکر ہوا ہے 

کتاب دانیال میں یہ لکھا ہوا ہیں جب مہدی وفات پا جائے گا تو اس کے بعد سبط اکبر کی اولاد سے پانچ لوگ بادشاہ بنیں گے پھر پانچ سبط اصغر کی اولاد سے ہوں گے پھر ان میں سے آخری خلیفہ سبط اکبر کی اولاد میں سے کسی کے نام خلافت کی وصیت کرے گا اس کے بعد اس کا لڑکا بادشاہ بن جائے گا اس طرح 12 بادشاہ ہوں گے اور ان میں سے ہر ایک امام مہدی ہوگا۔

 فتح الباری جلد 13 صفحه 213  

 نتیجہ۔۔۔۔اہلسنت کی ان احادیث سے شیعہ کا نظریہ امامت بطور محصور بارہ آئمہ کسی طور بھی ثابت نہیں ہوتا 

 استدلالات شیعہ 

شیعہ روافض کا ایک قاعدہ اور اصول ہے 

 عام لوگوں کے لیے امام کا اختیار کا انتخاب جائز نہیں بلکہ اس میں نص اور وصیت کا ہونا ضروری ہے 

 الفصول المہمۃ فی اصول الائمۃ صفحہ 142 

 نهج المسترشدین صفحه 63 

 شیعہ کے نزدیک امامت صاحب امامت کے لئے عصمت وصیت اور معجزے کو لازمی قرار دیتی ہے

 العیون جلد 2 صفحہ 127  

ہم ماقبل ذکر کر چکے ہیں کہ اس عقیدے کی شروعات سبائی ہشامی اورشیطانی ہاتھوں سے ہوئی جس کو ہم تفصیل سے ذکر کرچکے ہیں لیکن اس کے باوجود شیعہ کا دعوی ہے کہ یہ معاملہ اللہ اس کے رسول اور اقوال ائمہ اہل بیت کی طرف سے مقرر کردہ اور شریعت کا جزء ہے انہوں نے اس کے لئے ایسی نصوص اور روایات سے استدلال اورنقل کرنا شروع کر دیا جن کی وہ اپنے مذہب کے تقاضوں کے مطابق تاویل کرتے ہیں اور ان کو ماہرین سنت اور شریعت نقل کرنے والے اہل علم وفن بھی نہیں جانتے ان میں سے اکثر روایات موضوع یا سند کی حیثیت سے مطعون ہیں یا وہ ان کے فاسد تاویلات کے ساتھ کچھ لگاؤ نہیں کھاتی

 ابن خلدون المقدمہ جلد 2 صفحہ 527 

شیعہ نے اپنی عادت کے مطابق جس مسئلہ میں روایات اور نصوص کو جمع کرکے ان کا ڈھیر لگا دیا ہے جیساکہ شیعہ عالم ابن مطہر نے کتاب تالیف کی اور اس کا یہ نام رکھا  الالفیئن فی امامة امیرالمومنین  لیکن وہ اس کی تعداد کو پورا نہیں کر سکا اور صرف 1048 ایسی روایتیں نقل کی  جن کو اپنے مقصد کے دلائل خیال کرتا ہے 

جب آپ کو یہ معلوم ہو گیا کہ ان تمام روایات کوشیعہ کے منطق کے مطابق صرف اکادکالوگوں نے نقل کیا ہے 

بلکہ بطور راز یہ ایک ہی سے نقل ہوں گی اور وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ ہیں کیونکہ امامت ایک راز تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کوہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ راز بتایا کیونکہ وہی دروازہ ہیں تو جس نے ان کے علاوہ کسی دوسرے سے سماع کا دعوی کیا تو اس نے شرک کیا 

  الکافی جلد 1 صفحه 377 378 

 نتیجہ۔۔۔ہمارے سامنے یہ آیا کہ شیعہ امامت اور اماموں کے لیے عصمت کے قائل ہیں اور اماموں کی افضلیت کے  قائل ہیں ۔ 

 

 آئمہ کے اسماء گرامی 

 حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ 

 حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ 

 حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ 

 حضرت امام زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ 

 حضرت محمد باقر رحمۃ اللہ علیہ 

 حضرت جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ 

 حضرت موسی کاظم رحمتہ اللہ علیہ 

 حضرت علی رضا رحمتہ اللہ علیہ 

 حضرت محمد تقی رحمۃ اللہ علیہ 

 حضرت علی نقی رحمتہ اللہ علیہ 

 حضرت حسن عسکری رحمتہ اللہ علیہ 

 امام عجل کی نسبت ان کی طرف کرتے ہیں حضرت امام محمد بن عبداللہ المہدی رحمتہ اللہ علیہ 

 تاریخ الائمه ص 6 

 شیعہ کے نزدیک معیار امامت 

۔نص یعنی الله و رسول اللہؐ سے حکم

 ۔عصمت ۔با وجود قدرت المعصیت رغبت نا ہو 

 ۔افضلیت ۔کل امت میں صفات حمیده و اخلاق رشیدہ افضلمیں ہو گی کہ شیعہ قرآن اور احادیث سے کیسے اپنے اس عقیدے کو استدلال کرتے ہیں 

١۔۔۔۔پہلی آیت سے استدلال

 وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ (124)}.

 ترکیب الإعراب:

الواو استئنافيّة (إذ) اسم ظرفي للزمن الماضي مبنيّ في محلّ نصب مفعول به لفعل محذوف تقديره اذكر (ابتلى) فعل ماض مبنيّ على الفتح المقدّر (إبراهيم) مفعول به مقدّم منصوب (ربّ) فاعل مرفوع والهاء مضاف إليه (بكلمات) جارّ ومجرور متعلّق ب (ابتلى)، الفاء عاطفة (أتم) فعل ماض و(هنّ) ضمير متّصل مبنيّ في محلّ نصب مفعول به والفاعل ضمير مستتر تقديره هو (قال) فعل ماض والفاعل هو (إن) حرف مشبّه بالفعل للتوكيد والياء اسم إنّ (جاعل) خبر إنّ مرفوع والكاف ضمير مضاف إليه (للناس) جارّ ومجرور متعلّق بمحذوف حال من (إماما)- نعت تقدّم على المنعوت- (إماما) مفعول به لاسم الفاعل جاعل (قال) مثل الأول الواو عاطفة (من ذرّيّة) جارّ ومجرور متعلّق بفعل محذوف تقديره اجعل، والمفعول به محذوف تقديره إماما أي اجعل من ذرّيتي إماما (قال) مثل الأول (لا) نافية (ينال) مضارع مرفوع (عهد) فاعل مرفوع والياء مضاف إليه (الظالمين) مفعول به منصوب وعلامة النصب الياء.

جملة: (ابتلى إبراهيم ربّه) في محلّ جرّ مضاف إليه.

وجملة: (أتمّهنّ) في محلّ جرّ معطوفة على جملة ابتلى.

وجملة: (قال..) لا محلّ لها استئناف بياني أو تفسير للابتلاء.

وجملة: (إنّي جاعلك) في محلّ نصب مقول القول.

وجملة: (قال الثانية) لا محلّ لها استئنافيّة.

وجملة: (اجعل) من ذرّيّتي..) في محلّ نصب مقول القول وهو معطوف بالنسق على مقول اللّه تعالى: (إنّي جاعلك).

وجملة: (قال الثالثة) لا محلّ لها استئناف بياني.

وجملة: (لا ينال عهدي الظالمين) في محلّ نصب مقول القول. الصرف:(ابتلى)، فيه إعلال بالقلب، أصله ابتلي، جاءت الياء متحرّكة بعد فتح قلبت ألفا.(جاعل)، اسم فاعل من جعل الثلاثي، وزنه فاعل (انظر الآية 30 من هذه السورة).(إماما)، اسم لما يؤتمّ به يستوي فيه التذكير والتأنيث، جمعه أيمّه وأئمة، ووزن إمام فعال بكسر الفاء.(ذرّية)، اسم للولد والنسل، وهو في الأصل مثلّث الذال، وهنا بضمّ الذال، جمعه الذراري والذرّيات، ووزن ذرّية فعليّة بضمّ الفاء وتسكين العين وكسر اللام وتشديد الياء المفتوحة.(ينال)، فيه إعلال بالقلب بدءا من الماضي، أصله ينيل قلبت الياء ألفا بعد نقل حركتها إلى النون..البلاغة:في هذه الآية فن طريف من فنون البيان يقال له: فنّ المراجعة وهو أن يحكي المتكلم مراجعة في القول جرت بينه وبين محاور في الحديث أو بين اثنين بأوجز عبارة، وأبلغ اشارة، وأرشق محاورة مع عذوبة اللفظ وجزالته، وسهولة السبك. وقد جمعت هذه الآية معاني الكلام من الخبر والاستخبار والأمر والنهي والوعد والوعيد.

الفوائد:

1- لا يجوز تقدم الفاعل على فعله فإذا تقدم يعرب مبتدءا ويقدر الفاعل ضميرا. بخلاف المفعول به فإنه يجوز تقديمه على الفعل في حالات خاصة مذكورة في المطولات من كتب النحو. كقوله تعالى: (وَإِذِ ابْتَلى إِبْراهِيمَ رَبُّهُ).

2- إبراهيم معناه في السريانية الأب الرحيم، ولفظها في العبرية (ابراهام).

3- جاعل اسم فاعل عمل عمل فعله فأخذ مفعولين الأول الكاف من (جاعلك) فهو من اضافة اسم الفاعل إلى مفعوله والثاني (إماما).

4- قيل الكلمات التي ابتلى اللّه بها إبراهيم هي المناسك وقد قام بها إبراهيم ولذلك قال تعالى بحقه (وَإِبْراهِيمَ الَّذِي وَفَّى) وقيل الكلمات هي: (الشرائع والأوامر والنواهي).

5- في هذه الآية يتجلّى بلاغة القرآن في هذا الفن من الحوار والذي يسمونه (المراجعة). وتستطيع أن تتملّى هذا الأسلوب لما فيه من الحوار اللطيف. والإيجاز البليغ، وفي الآداب العربية أمثلة من هذا القبيل لا يتسع لها صدد هذا الكتاب.فليراجعها من شاء لدى البحتري وعمر بن أبي ربيعة وأضرابهما من الشعراء.

 اعتراضات استدلال 

١۔۔۔شیعہ سے سوال جملہ یعنی متن آیت 

خبریہ ہے یا انشائیہ ہے ؟؟؟؟

٢۔۔۔کیا متن آیت دلالت نص و قطعی دلاله ہے امامت پر ؟؟؟؟

٣۔۔۔نبوت و امامت میں تناسب کون سا ہے۔تناسبِ تباین ۔تناسبِ تساوی ۔تناسبِ عینیت ؟؟؟؟؟

۴۔۔۔جب یہ آیت امامت کے لیے ہے تو اس میں حصر کیوں نہیں ہے کیوں کہ آئمہ تو بارہ میں محصور ہیں ؟؟؟؟؟

۵۔۔۔آیت سےنبوت امامت مراد ہے یا غیر نبوت امامت مراد ہے 

♦️صرفی نحوی اور بلاغی ترکیب جملہ خبریہ کا پتہ دے رہی ہے جب کہ ہمیں حکم کی فرضیت کے لیے انشائیہ چاہیے ناکہ خبریہ تو آیت کے الفاظ ہی اس بات 

پر دلالت کرتے ہیں کہ امامت فینفسہ کا  استدلال باطل ہے 

♦️دلالة النص وقطعى الدلالہ تو دور اشارةالنص بھی نہیں ہے کیوں کہ ماقبل ومابعد کو ئی قرینہ تک موجود نہیں ہے

تو استدلال باطل ہے  

♦️اس آیت سے عام امامت کوبھی قیاس نہیں کیا جا سکتا ہےتو تناسب عینیت بلکل نہیں کیوں کہ اس کے لیے دلالةالنص چاہیے جو کہ پورے قرآن میں کہیں نہیں ہے جیسا کہ محمد الحسین کاشف آلغطاء اور خمینی نے اقرار کیا ہے کہ قرآن میں امامت کے بارے کچھ نازل نہیں ہوا

تو استدلال باطل ہے 

♦️حصر تو آئمہ بارہ میں محصور ہیں یہاں کوئی  حصر نہیں ہے جب کسی بھی جہت امامت کی طرف اشارہ ہی نہیں تو استدلال باطل ہے    

♦️مطلقا آیت سےامامت نبوت مراد ہے اور کوئی قرینہ غیر نبوت امامت کے لیے  موجود نہیں تو استدلال باطل ہے 

♦️خلاصه استدلال ۔۔۔۔جس امامت کو شیعہ حضرات اس آیت سے استدلال کرنا چاہتے ہیں وہ تو اس آیت کے الفاظ ومعنی کو چھو کر بھی نہیں گزرتی کیونکہ آیت ناتو ودلالۃ النص ہے ناقطعی الدلالہ ہے نہ ہی جملہ انشائیہ ہےجیساکہ عقائد اور فرائض کے لیے چاہیےپھر شیعہ امامت اور قرآنی امامت نسبت تساوی نہیں ہےاگر نسبت تساوی کی ہو تو قیاس کیا جاسکتا ہے دلالۃالنص وقطعی الدلالہ  پھر بھی نہیں بن سکتی اہلتشیع حضرات یہاں بھی لفظ امامت سے لوگوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اہل تشیع  کا استدلال باطلہ اور تاویل باطلہ ہے۔۔۔۔

 دوسری آیت سے استدلال    

 وَإِذْ قالَ رَبُّكَ لِلْمَلائِكَةِ إِنِّي جاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً

ترکیب الإعراب:

الواو استئنافية (إذ) ظرف للزمن الماضي مبنيّ في محلّ نصب متعلّق بفعل قالوا الآتي، (قال) فعل ماض (ربّ) فاعل مرفوع والكاف في محلّ جرّ مضاف إليه (للملائكة) جارّ ومجرور متعلّق ب (قال). (إنّ) حرف مشبّه بالفعل للتوكيد والياء ضمير متّصل في محلّ نصب اسم، (جاعل) خبر مرفوع (في الأرض) جارّ ومجرور متعلّق ب (جاعل). (خليفة) مفعول به لاسم الفاعل جاعل، منصوب.

١۔۔۔۔۔امامت شیعہ اور خلافت آدم علیہ السلام میں تناسب کون سا ہے ؟؟؟؟؟

٢۔۔۔۔۔آیت میں خلافت الی اللہ کا ذکر ہے 

تو امامت نیابت نبوت کیسے ثابت ہوگی ؟؟؟؟

٣۔۔۔۔ آیت میں حصر کا ذکر کہاں ہے؟؟؟

۴۔۔۔۔نیابت رسول کی طرف کوئی قرینہ ہی واضح کر دیں آیت میں ؟؟؟؟ 

♦️شیعہ کہتے ہیں امامت نیابت رسول ہے جبکہ یہاں اس آیت میں خلیفةاللہ آدم علیہ السلام کی نیابت خدا کا ذکر ہے تو تناسب تساوی نا ہونے سے استدلال باطل ہے  

 ♦️آیت قبل از تخلیق آدم کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ زمین میں اپنا خلیفہ بنابے والے ہیں جاعل بمعنی خالق ہے 

 تو مفہوم آیت واضح ہے ہاں اگر شیعہ کہتا ہے کہ تخلیق آدم کے بعد کا فرمان ہے تو دلیل تو بنتی ہے کہ دلیل لائیں 

تو استدلال باطل ہے 

♦️دلالة النص وقطعى الدلالہ نہیں اور حصر کا بھی ذکر نہیں تو استدلال باطل ہے 

♦️اس آیت میں شیعہ کی مذکورہ امامت کی طرف کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے تو استدلال باطل ہے 

 خلاصہ۔شیعہ نے خلیفۃاللہ سے نیابت رسول اللہ کو استدلال کرنے کی کوشش کی ہے آیت نا تو دلالۃالنص ہی ہےاور نہ ہی شیعہ امامت اور خلیفۃاللہ میں تساوی کا تناسب ہے  آیت میں کوئی قرینہ بھی موجود نہیں ہے کہ جس سے نیابت رسول اللہ کو قیاس کیا جا سکے توشیعہ کے استدلال پر یہ آیت بھی مستدل  نہیں بن سکتی تو اس آیت سے شیعہ کا تاویل کرنا اور استدلال باطل ہے۔۔

 تیسری آیت سے استدلال 

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ (55)

 تمہارے دوست صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے وہ جو نماز قائم کرتے اور زکوۃ دیتے ہیں اور وہ جھکنے والے ہیں 

 ترجمہ۔ تلخیص الشافی جلد 2 صفحہ 10 الإعراب:

(إنّما) كافّة ومكفوفة (وليّ) مبتدأ مرفوع و(كم) ضمير مضاف إليه (اللّه) لفظ الجلالة خبر مرفوع الواو عاطفة (رسول) معطوف على لفظ الجلالة مرفوع والهاء ضمير مضاف إليه الواو عاطفة (الذين) اسم موصول مبني في محلّ رفع معطوف على لفظ الجلالة (آمنوا) فعل ماض مبني على الضمّ.. والواو فاعل (الذين) مثل الأول بدل منه- أو نعت له- (يقيمون) مضارع مرفوع.. والواو فاعل (الصلاة) مفعول به منصوب الواو عاطفة (يؤتون الزكاة) مثل يقيمون الصلاة الواو حاليّة (هم) ضمير منفصل مبني في محلّ رفع مبتدأ (راكعون) خبر مرفوع وعلامة الرفع الواو.جملة (إنما وليّكم اللّه): لا محلّ لها استئنافيّة.وجملة (آمنوا): لا محلّ لها صلة الموصول (الذين) الأول.وجملة (يقيمون...): لا محلّ لها صلة الموصول (الذين) الثاني.وجملة (يؤتون...): لا محلّ لها معطوفة على جملة الصلة الثانية.وجملة (هم راكعون): في محلّ نصب حال.

الفوائد:

الإيمان ما وقر في القلب وصدقه العمل..دلت هذه الآية على أن الإيمان ليس دعوى يتغنى بها اللسان بل لابد لها من رصيد في السلوك والعمل حتى تكون دعوى صادقة ودل على ذلك قوله تعالى: (وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكاةَ وَهُمْ راكِعُونَ)... فلابد للإيمان من سلوك عملي يترجمه ويكون دليلا عليه، وفيه تمييز للمؤمنين عن المنافقين الذين يدّعون الإيمان ولا يحافظون على الصلاة ولا يؤتون الزكاة.

١۔۔۔۔کیاآیت دلالة النص وقطعى الدلالہ ہے امامت کے لیے؟؟؟؟؟؟

٢۔۔۔۔ کیاجملہ میں حصر موجود نہیں ہے؟؟؟

٣۔۔۔۔لفظ وٙلایِة کا معنی لفظ وِلایت میں کیسے ہوسکتا ہے ؟؟؟؟؟

♦️آیت امامت پر قطعی الدلالہ اور دلالۃالنص نہیں ہے تو استدلال تو یہیں سے باطل ہوگیا ہے 

♦️جملے کے شروع میں انما حصر کے لئے ہے تو جب شان نزول کے روایت کے حساب سے ہم اس کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت میں لیتے ہیں تو دوسرے ائمہ کی امامت کا دعوی ختم ہو جاتا ہے تو بھی  استدلال باطل ہے 

♦️لغت میں ولایت زیر کے ساتھ اور  ولایت زبر کے ساتھ میں جو فرق ہے وہ بالکل واضح ہے ولایت زبر کے ساتھ عداوت کا متضاد ہے اور ان آیات میں یہی مذکور ہے ولایت زیر کے ساتھ نہیں ہے جس کا معنی امارت ہوتا ہے یہ جاھل لوگ ولی کو امیر خیال کرتے ہیں اور دونوں لفظوں میں کوئی فرق نہیں کرتے حالانکہ یہ بالکل واضح بات ہے کہ والا زبر کے ساتھ عداوت کے متضاد ہے اور اس سے لفظ مولا اور ولی بنتا ہے جبکہ ولایت زیر کے ساتھ امارت کے معنی میں ہوتا ہے اور اسے والی اور متولی اسم بنتے ہیں 

 الکشاف للزمخشری جلد 1 صفحہ 624 

 تفسیر الرازی جلد 12 صفحه 25

جیسا کے جنازے میں جب والی اور ولی اکھٹے ہوجائیں تو کہا گیا ہے کہ والی کو آگے کیا جائے گا اور یہ اکثریت کا قول ہے کے ولی کو آگے کیا جائے گا چنانچہ لفظ ولی اور ولایت لفظ والی کے علاوہ دوسرے لفظ ہیں 

 منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 8 

اب اگر اللہ رب العزت ولایت جو امارت کے معنی میں ہے مراد لینا چاہتے تو اس طرح فرماتے  انما یتولی علیکم آناچاہیے مذکورہ آیت اور وہ دیگر آیات جن سے یہ استدلال کرتے ہیں ان میں سے کوئی بھی ایسے الفاظ پر مشتمل نہیں جو عربی زبان میں استخلاف خلیفہ یا افسر بنانے کے معنی میں ہو تو اس طرح یہ استدلال باطل ہے 

 آیات کا سیاق کلام  بھی شیعہ استدلال کے مخالف ہیں

Surat No 5 : Ayat No 51 

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡیَہُوۡدَ وَ النَّصٰرٰۤی اَوۡلِیَآءَ   ۘ ؔ بَعۡضُہُمۡ اَوۡلِیَآءُ بَعۡضٍ ؕ وَ مَنۡ  یَّتَوَلَّہُمۡ  مِّنۡکُمۡ فَاِنَّہٗ  مِنۡہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ  لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ  الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۵۱﴾

 اے ایمان والو! تم یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ  یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔   تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ  بے شک انہی میں سے ہے ،  ظالموں کو اللہ تعالٰی ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا ۔  

یہ آیت   یہود و نصاریٰ کے ساتھ موالات مودۃ محبت اور نصرت کی پینگیں بڑھانے کی ممانعت پر مشتمل ہےاس کے متصل بعد ان کے ساتھ موالات قائم کرنے کا ذکر ہے جن کے ساتھ محبت و موالات رکھنا واجب ہے اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مومن ہیں اس سے واضح ہوا کہ پہلی آیت میں جس موالات محبت اور نصرت سے منع کیا گیا ہے یہ بعینہ وہی ہے جس کا اس آیت میں اسلوب مخالف مقابلہ میں مومنوں کو حکم دیا گیا ہے اور یہ بات عربی ادبیات میں بڑی واضح ہے 

امام رازی فرماتے ہیں جب پہلی آیت میں موالات کفار سے منع کیا گیا تو اس آیت میں جس کے ساتھ موالات قائم کرنا واجب ہے اس کے ساتھ موالات و محبت رکھنے کا حکم دیا 

 تفسیر الفخر الرازی جلد 12 صفحه 25 

 شان نزول کی روایت سے استدلال کارد

١۔ ۔۔۔شیعہ کا یہ کہنا کہ اہلسنت کا اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے متعلق نازل ہوئی بڑا جھوٹ ہے بلکہ اہل علم نے اجماع یہ بات نقل کی ہے کہ یہ آیت خصوصی طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل نہیں ہوئی اور انہوں نے نماز میں اپنے انگوٹھی کا صدقہ نہیں کیا تھا محدثین کا اتفاق ہے اس سلسلے میں بیان کیا جانے والا یہ قصہ جھوٹا اور موضوع ہے 

 منہاج السنۃ جلد 4 صفحہ 4 شیعہ کا یہ کہنا کہ یہ صحاح ستہ میں مذکور ہے دروغ محض ہے کیوں کہ کتبِ صحاح میں اس کا کہیں وجود نہیں یہ ایسا جھوٹ ہے جس کو ثابت کرنے میں شیعہ کو کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی عجیب بات تو یہ ہے کہ یہ دعوی شیعہ کے عصرحاضرکے شبر اور زنجانی جیسے لوگوں کی زبان پر بھی ہے کیا ان کو خبر نہیں ہے کہ کتب ستہ میں اس کا کوئی وجود نہیں آج معاجم اور فہارس حدیث کی کتابوں کی کثرت ہے جو اس حقیقت کو کھول دیتی ہے  المعجم الفہرس لالفاظ الحدیث اور  مفتاح کنوز السنہ

میں لفظ  علی بن ابی طالب نکالیے تفسیر اور اسباب نزول کے متعلق روایات جمع کرنے والے کتب جیسے  لدرالمنثور جلد 3 صفحہ 104 تا 6 

یا کتب ستہ کی روایات جمع کرنے والی کتب جیسے جامع الاصول وغیرہ کا مطالعہ کریں تو آپ کو ان کے دعوے کی کوئی بنیاد نظر نہیں آئے گی اس لئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں جمہور اُمت نے یہ خبر نہیں سنی نا یہ مسلمانوں کی معتبر اور بنیادی کتابوں اور صحاح سنن جوامع معجماعت وغیرہ میں کہیں موجود ہے  

 منہاج السنن جلد 4 صفحہ 5 

امام ابن کثیر رحمتہ اللہ علیہ نے وہ تمام آثار نقل کئے ہیں جو یہ ذکر کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی انگوٹھی صدقہ دیں تو ان کے بارے میں نازل ہوئی اس پر نقد و تبصرہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ان میں سے کوئی روایت بھی بالکل صحیح نہیں کیونکہ اس کی آسانید ضعیف اور اس کے رجال مجہول ہیں

 تفسیر ابن کثیر جلد 2 صفحہ 76 77 

٢۔۔۔اگر یہ عمل مستحب وپسندیدہ ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو خود بھی کرتے اس کی ترغیب بھی دلاتے اور اس کا اعادہ و تکرار بھی کرتے  

 یہ تو نماز مشکل ہے اور سائل کو دینا ایسا کام نہیں جو ہاتھ سے چھوٹ جائے تو دوبارہ نہ ہوسکے کیوں کا کرنے والا نماز کے بعد بھی دے سکتا ہے بلکہ سائلین کو دینے میں مشغول ہو جانا نماز باطل کرنے والا عمل ہے اور یہ جملہ اہل علم کی رائے ہے 

 منہاج السنہ جلد 1 صفحہ 208  منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 5 

 ٣۔۔۔۔اگر کوئی کہتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی پہچان کروانا مقصود تھا سوال پیدا یہ ہوتا ہے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی معروف صفات سے پہچان کیوں نہ کروائی اور اس بات کو جمہور امت نے نئی سنا اور نہ ہی مسلمانوں کے قابل اعتماد کتابوں میں ہی کہیں اس کا ذکر ہے 

 منہاج السنہ جلد 405 

 نتیجہ۔ ۔تو نتیجہ یہ نکلا کہ اس آیت سے استدلال شیعہ باطل ہے 

 شیعہ کا سنت سے استدلال کرنا۔

 حدیث غدیر الخم 

خلاصہ استدلال ۔شیعہ روافض نے اس کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ شیعہ کے ایک معاصر عالم نے اس حدیث کی شہرت اور صحت ثابت کرنے کے لئے 16 جلدوں میں ایک کتاب تالیف کی ہے جس کا نام الغدیر فی الکتاب و السنۃ و الادب۔رکھا ہے ان کا خیال ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع سے واپس لوٹے اور غدیر خم نامی جگہ (مکہ اور مدینہ کے درمیان جو ہوا کے پاس ایک وادی ہے جہاں ایک تالاب بھی ہے یہ وادی بہت زیادہ تعفن اور خرابی آب و ہوا میں مشہور ہے مجمع البلدان جلد 2 صفحہ 379 )

پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے بیان کیا کہ علی بن ابیطالب میرے بعد خلیفہ اور وصی ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نے اس آیت یا ایہا الرسول بلغ ما ۔۔۔۔۔المائدہ آیت نمبر 67 میں آپ کو اس کا حکم دیا ہے شیعہ کے عالم مجلسی نے اس مفہوم کی اپنی 105 روایت ذکر کی ہیں 

 بحارالانوار جلد 37 صفحه 108۔ 253۔وہ کہتا ہے کہ ہم نے اور ہمارے مخالفین نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے کہ غدیر خم کے دن تمام مسلمان اکھٹے ہوئے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور کہا لوگوں کیامیں مومنوں پر ان کی جانوں سے زیادہ حق رکھنے والا نہیں؟؟؟ انہوں نے کہا کیوں نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا میں مولا اس کا علی مولا اللہ جو اس کے ساتھ محبت رکھے تو بھی اس کے ساتھ محبت رکھ جو اس کے ساتھ عداوت رکھے تو بھی اس کے ساتھ عداوت رکھ اس کی مدد کر جو اس کی مدد کرے اور اس کو رسوا کر جو اس کی مدد چھوڑ کر اس کو رسوا کریں 

 بحارالانوار جلد 37 صفحہ 108۔253

 اسی طرح شیعہ کی دوسری کتب بھی مسئلہ امامت کے موضوع پر ہیں وہ بھی اس آیت کو ذکر کرتی ہیں  

 کشف المراد صفحه 395 

 الشیعۃ فی عقائدهم صفحه 71

 علی والحاکمون صفحہ 55 صفحہ 76 

 امام علی صفحه 292 

 عقائد الامامیہ الاثنی عشریہ جلد 1 صفحہ 90 

 عقیدہ شیعہ فی الامامت صفحہ 55 

 حق الیقین جلد 1 صفحه 153 

 حضرت شیخ الاسلام اور دوسرے علماء نے ان کا تسلی بخش جواب دیا ہے 

 منہاج السنہ جلد 4 صفحہ 9 صفحہ 6 صفحہ 83صفحہ 87

 المنتقی صفحہ 422 صفحہ 425 صفحہ 466 صفحہ 408 

 الرسالۃ فی الرد علی الرافضة صفحہ 6۔7

 ابونعیم الامامۃ و الرد علی الرافضہ صفحہ 13

 المقدسی ۔روح المعانی جلد 6 صفحہ 192 199

 محمد بن عبدالوہاب رسالۃ فی الرد علی الرافضہ۔ صفحة 13

 الطفيلي۔ المناظرة بین اہل السنة والرافضہ صفحہ 15۔16

 من کنت مولاہ کی مکمل تصریح اور شان ورود

  جِس کا میں مَولا اُس کا علی مَولا

  شیعہ حضرات اس حدیث سے اپنا مخصوص نظریۂ امامت ثابت کرتے ہیں کیا ان کا نظریہ اِمامَت اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے ؟

حیثیت حدیث۔۔۔ 

اہل سنت کے نزدیک 

کم من حدیث کثرت روات تعددت طرقہ وھو حدیث ضعیف کحدیث الطیر حدیث الحاجم والمحجوم و حدیث من کنت مولاه۔فعلی مولاه بل قد لا یزیده کثرة الطرق الا ضعفا وإنما يرجح بکثرة الرواة اذاکانت الرواة محتجا بھم من الطرفین

تہذیب

ترجمہ ۔۔٣ کتنی ہیں حدیثیں ہیں جن کے راوی بہت ہیں اور اس کے کئی کئی طریق ہے اور پھر بھی ضعیف ہیں درجہ صحت کو نہیں پہنچتی ہیں جیسے حدیث طیر حدیث الحاجم والمحجوم اور حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ بلکہ ان کے جس قدر طرق بڑھیں گے اتنا ہی ضعف بڑھے گا

کثرت رواة سے وہاں ترجیح ہوتی ہے جہاں راوی دونوں طرف سے قابل الاحتجاج ہوں حافظ ابن تیمیہ بھی اسی صدی کے ہیں وہ بھی اس روایت پر مطمئن نہیں ہیں آپ لکھتے ہیں

فلا يصح من طرق الثقات أصلا

منہاج السنہ جلد ۴/ ٨٢

یہ روایت ثقہ روایوں کی روایت سے کہیں درجہ صحت کو نہیں پنہچتی یہ حدیث اس قدر درجہ ضعف میں ہے کہ اس سے کسی عقیدے کے اثبات میں حجت نہیں پکڑی جا سکتی چہ جائیکہ اس سے خلافت جیسے اہم مسلے میں نص قرار دیا جائے

عقیدہ قائم کرنے کے لیے دلیل قطعی کی ضرورت ہوتی ہے ظنی دلیل سے اعمال تو ترتیب پا سکتے ہیں عقائد نہیں بنتے خبر واحد صحیح بھی عقیدہ ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں اور یہاں یہ روایت ایک صحیح سند متصل سے بھی ثابت نہیں ہے

 ’’مَن کُنتُ مَولاہ فَھذا علی مَولاہ‘‘ (الحدیث)

  یہ مُکمل حَدیث نہیں بلکہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے، اس کی تفصیل بتانے سے قبل چند باتیں تمہیداً عرض کی جاتی ہیں۔ نبی کریم (ﷺ) ایک موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمانے لگے:

علی !! تیرے اَندر عیسیٰ علیہ السلام کی مثال ہے، یہُود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے اس قَدر دْشمنی کا اظہار کیا کہ اُن کی والدہ (حضرت مریم علیہا السلام) پر تُہمت لگا دی، اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی محبت میں اِس قدر غُلو کیا کہ اُن کو اُن کے مَقام سے بہت اُونچا لے گئے، اس کے بعد حضرت علیؓ فرمانے لگے کہ میرے بارے میں بھی دو قسم کے لوگ تباہ ہوں گے، ایک وہ لوگ جو میری محبت میں غُلو کریں گے اور مُجھے میرے مقام سے بہت اُونچا لے جائیں گے، اور دوسرے وُہ لوگ جن کو میری دُشمنی مُجھ پر بُہتان طرازی پر آمادہ کرے گی۔ (مشکوٰۃ ص ۵۸۷ باب مناقب علیؓ)

  آپ(ﷺ) کے اس ارشادِ گرامی میں مَوجود پیشن گوئی کے مطابق کچھ حضرات نے حضرت علیؓ کی شان میں اس قدر غُلو کیا کہ اُن کو خدا کے ساتھ ملا دیا اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی توہین اور تنقیص کی طرف چلے گئے، جبکہ کچھ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مُخالفت میں اس قدر آگے نکل گئے کہ اُنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امامِ بَرحَق تسلیم کرنے سے بھی اِنکار کر دیا، یہ دونوں طبقات افراط و تَفریط میں پَڑ کر عقیدہ اعتدال سے ہٹ گئے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مُحبت یا عَداوَت میں غُلو کر کے طریق مُستقیم پر قائم نہ رہے۔ ان دونوں ہی طبقات کی جانب سے اپنے مَزعومہ خیالات کو ثابت کرنے کے لیے دلائل کا جوڑ توڑ، کلمات کا ہَیر پَھیر اور خلافِ مُدعا دلائل سے اغماض یا انکار پیش آتا رہا مَشقِ سَتم بننے والی احادیث میں ایک حدیث یہ بھی ہے: 

  ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ الخ‘‘ 

(جس کا میں مولیٰ، اسکا علی مولیٰ)۔

⬅ کچھ حضرات نے تو اس حدیث کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا، حالانکہ یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں صحیح طور پر منقول ہے اور 30 صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے، اس کے برعکس کچھ لوگوں نے اس حدیث سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کے خُود ساختہ نظریہ کو ثابت کرنے کی کوشش کی، اور حدیث کے سیاق و سباق اور پس منظر کو ایک طرف ڈال کر مُفید مقصد الفاظ سے دل پَسند معانی اَخذ کرکے اِس حدیث کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلافَصل پر اپنی بہت بڑی دلیل قرار دیا۔ علماء کرام نے مسلک اعتدال کو واضح کرنے کے لیے اپنے اپنے انداز سے حدیث اور اس کے پَس مَنظر کو واضح کر کے اس کے مَفہوم کی ایسی تشریح کی جو نہ رَفض کے لیے مؤید ہے اور نہ خَروج کی جانب مائل ہے، مندرجہ ذیل سطروں میں بھی آپ اس حدیث کی تشریح بالاختصار لیکن مُدلَل طور پر پڑھیں گے، جس سے اس کے صحیح معنی سمجھنے میں آسانی پیدا ہوگی۔

  اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ رسُول اللہ (ﷺ) نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رمضان (10ھ) میں خُمس (مالِ غنیمت کا پانچواں حصہ) وصُول کرنے کے لیے یَمن بھیجا، اور جب نَبی کریم (ﷺ) حجۃ الوداع کے موقع پر ۴ ذی الحجہ کو مکّہ مُکرمہ پہنچے تو آپ(ﷺ) نے حرمِ مکّہ پہنچ کر پہلے عُمرہ ادا کیا، اور پھر چار یَوم تک مکّہ مُکرمہ میں قیام فرمایا، ان چار دنوں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ یمن سے واپس مَکہ مُکرمہ پُہنچے اور #خُمس آپ(ﷺ) کی خدمت میں پیش کیا، اس سفر کے دوران بعض رفقائے سفر کے دِل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے کچھ بَدگمانی اور کدُورت پیدا ہو گئی، حضور (ﷺ) جو حجۃ الوداع کے اس عظیم اور اہم ترین سفر میں قدم بہ قدم اُمت کو گمراہی اور افتراق سے بچانے کے لیے نَصائح اور خُطبات ارشاد فَرما رہے تھے، یہ کیسے گوارا کر سکتے تھے کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اجتماعی طور پر لوگوں کے دِلوں میں بدگمانی پیدا ہو جائے، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا شمار کبار صحابہ اور ’’السابقون الاولون‘‘ میں ہے، اور جبکہ اُنہوں نے آگے چل کر اپنے وقت میں اُمت کی قیادت و سیادت کے فرائض بھی انجام دینے ہیں، اس لیے حضور (ﷺ) نے ’’غدیر خم‘‘ کے مقام پر خطبہ ارشاد فرمایا، جس میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مُحبت و عَقیدت کا معاملہ رکھنے کی ترغیب دی اور بدگمانی سے بچنے کی تلقین کی۔ (دیکھئے البدایۃ والنھایۃ ج : 5،/106)

.چنانچہ حضرت براء بن عازب اور حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ: 

  آپ (ﷺ) جب ’’غدیر خم‘‘ (کے مقام) پر تشریف لائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمانے لگے، کیا تُم نہیں جانتے کہ میں مؤمنین کی جانوں سے زیادہ اُنکا مَحبوب (اولیٰ) ہوں ؟ حاضرین نے عرض کیا، کیوں نہیں؟ آپ (ﷺ) نے فرمایا کیا تم نہیں جانتے کہ میں ہر مَومن کی جان سے زیادہ اس کو محبُوب (اُولیٰ ) ہوں؟ حاضرین نے عرض کیا کیوں نہیں ؟

آپ (ﷺ) نے فرمایا اے اللہ! جس کا میں محبُوب (مولیٰ) ہوں تو علی بھی اس کے محبوب (مولیٰ) ہیں، اے اللہ جو (علی رضی اللہ عنہ) سے مُحبت (موالات) کرے تو اس سے محبت (موالات) کر، اور جو (علی رضی اللہ عنہ) سے نفرت (معادات) کرے تو اس سے نَفرت (معادات) کر۔ (مشکوٰۃ مع المرقاۃ10۔476)

⬅1= مذکورہ حدیث اور اسکے پس منظر کی تفصیل سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت و خلافت کو بیان کرنا نہیں بلکہ ان شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا مقصود ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے بعض معاملات میں بعض رفقائے سفر کے ذہنوں میں پیدا ہوئے تھے، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی برأت کے اظہار کے بعد ان سے محبت کا حکم ہے، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت اور خلافت کو بیان کرنا ہوتا تو صاف طور پر واضح الفاظ میں اس بات کا اظہار فرما دیتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے بعد خلیفہ ہوں گے، ایسے الفاظ اختیار کرنے کی کیا ضرورت تھی جن سے معاملہ مبہم اور مخفی رہے۔

⬅2= لُغت کے مشہور امام ابن اثیر رحمہ اللہ لفظ ’’مولی‘‘ کے تحت لکھتے ہیں اور یہ لفظ ’’مولی‘‘ ایک ایسا لفظ ہے جو متعدد معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے پس مولیٰ کے معنی پروردگار، مالک، سردار، محسن، آزاد کرنے والا، مددگار، محبت کرنے والا، فرمانبردار، پڑوسی، چچا زاد بھائی، عہد و پیماں کرنے والا، عقد کرنے والا، داماد، غلام، آزاد کردہ غلام اور احسان مند کے آتے ہیں اور ہر حدیث کے مقتضیٰ کے مطابق معنی مراد لیا جاتا ہے۔ (النھایۃ5۔228)

.⬅3= مذکورہ بالا حدیث کے آخر میں ’’ولایت‘‘ کے ساتھ ’’عداوت‘‘ کے تقابل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’مولیٰ‘‘ اور ’’اولیٰ‘‘ وغیرہ الفاظ سے محبت کا معنی ہی مراد ہے جو عداوت کی ضد ہے، اگر محبت کا معنی مراد نہ ہوتا تو ولایت کے تقابل میں عداوت کا لفظ ذکر نہ کیا جاتا۔ 

⬅4= نیز ’’مولیٰ‘‘ سے امامت و خلافت کا معنی مُراد لینے کی صورت میں لازم آئے گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی امام اور خلیفہ ہوں، کیونکہ حدیث میں اس بات کا کوئی تذکرہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مولیٰ ہوں گے، بلکہ حدیث میں صرف اس قدر ہے کہ جس کا میں مولیٰ اس کا علی (رضی اللہ عنہ) مولیٰ، اگر یہاں محبت والا معنی مراد نہیں لیا جاتا تو یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ بلا فصل ہونے پر نہیں، بلکہ امامت و خلافت کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مساوات اور اشتراک پر دال ہوگی جو کسی کو بھی تسلیم نہیں، لہٰذا اس حدیث سے وہی معنی متعین ہیں جو اوپر مذکور ہوئے۔ 

⬅ 5= ایک دوسری حدیث میں یہی لفظ ’’مولیٰ‘‘ 

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ابو حزیفہؓ کیلئے بھی استعمال ہوا ہے،

قال رسول الله صلى الله عليه وسلم :  يا زيد ! أنت مولاي ومني وإلي ، وأحب القوم إلي  ، وقال لزيد :  أنت أخونا ومولانا  ، وقال:  أنت مولاي ، ومني ، وأحب القوم إلي 

( الجزء رقم : 15، الصفحة رقم: 226)

سیرالاعلام 1/223/262

یاابا ارفع ان المولی قوم من انفسھم 

سیرالاعلام2/18

چنانچہ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:’’ انت مولای ومنی‘‘ (آپ میرے مولا ہیں اور مجھ سے ہیں) (طبقات ابن سعد ۳/۴۴) اور دوسری روایت میں ہے: ’’انت مولای واحب القوم الی‘‘ (آپ میرے مولا ہیں او رمجھے لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب ہیں (مصنف عبدالرزاق ۱۱/228) ایک اور روایت میں ہے : ’’انت اخونا و مولانا‘‘ (آپ ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہیں) (طبقات ابن سعد 3/33)

اگر مولیٰ سے امام اور خلیفہ کے معنی ہی متعین ہوں تو پھر چاہیے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امام اور خلیفہ بلا فصل ہوں لیکن جب یہاں پر یہ معنی مراد نہیں تو حدیث من کنت مولاہ الخ میں بھی اس معنی کی تخصیص کی کوئی وجہ نہیں۔

.⬅ 6= مذکورہ حدیث کے نظریہ امامت و خلافت سے غیر متعلق ہونے کی ایک بہت بڑی شہادت یہ بھی ہے کہ سیدنا حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے حضرت حسن مثنیٰ رحمہ اللہ سے کہا گیا کہ کیا ’’من کنت مولاہ‘‘ کی حدیث میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی امامت (خلافت) کی صراحت نہیں؟ تو انہوں نے جواب میں فرمایا: 

  خبردار! اللہ کی قسم، اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس سے امارت یا حکومت کا ارادہ فرماتے تو یہ بات صاف صاف بیان فرما دیتے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر مسلمانوں کا خیر خواہ کوئی نہیں ہو سکتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرما دیتے کہ اے لوگو! میرے بعد تمہارے حاکم اور تمہارے نگران علی رضی اللہ عنہ ہوں گے، ان کی بات سنو، اور اطاعت کرو، مگر ایسی کوئی بات نہیں، اللہ کی قسم اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ترک فرما دیتے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ سب لوگوں سے بڑھ کر خطا کار ہوتے۔ (دیکھئے الصواعق المحرقۃ ص : ۴۸، تحفۃ اثنا عشریۃ ص : 209روح المعانی4/96 التاریخ الکبیر لابن عساکر4/166)

  ملاحظہ فرمائیں کہ خانوادہ نبوت نے کس وضاحت کے ساتھ ہر قسم کے شبہ کا جواب دے دیا ہے، اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادِ مبارک کی تشریح کرتے ہوئے ہر طرح کے باطل احتمالات کی بیخ کنی کر کے مرادِ رسول(ﷺ) کو متعین فرما دیا ہے، اس کے بعد کسی کو بھی مذکورہ بالا حدیث سے غلط مطلب اخذ کرنے کی لاحاصل سعی نہیں کرنی چاہیے۔تو جناب کا استدلال باطل ہے 

 نتیجہ۔ ۔ہم ماقبل ذکر کر چکے ہیں کہ اس نظریہ امامت کا بانی عبداللہ بن سبا تھا نظریہ امامت تشہیرکرنےوالےاور محصور کرنے والے  ہشام بن حکم اور شیطان الطاق تھے جن کا ذکر ماقبل ہو چکا ہے

 اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح فہم نصیب فرمائے 

 عصمت آئمہ 

مسئلہ عصمت امامیہ شیعہ کے ہاں بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے یہ ان کے اتحادی ڈھانچے کی اساسیت میں شامل ہے 

 تاریخ الامامیۃ الصفحة 157 

 حیاۃ الامام موسی بن جعفر جلد 1 صفحه 111 

 عصمت کا لغوی معنی

عصمت عربی زبان میں منع کے معنی میں ہے کہتے ہیں  عصمت اللہ عبدہ 

اللہ تعالی کا اپنے بندے کو اس سے بچانا جو اس کو ہلاک کر سکتا ہے 

 اعتصم فلان باللہ

اللہ کی پناہ میں آنا 

لغوی اعتبار سے عصمت "ع ص م" کے مادے سے اسم مصدر ہے جس کے معنی معصومیت اور محفوظ رہنا فیومی، ص414 پاکدامنی اور نفس کو گناہ سے بچانا، "روکنے کا وسیلہ" اور "مصونیت کا ابزار" کے ہیں ۔ ابن منظور، جلد12صفحہ 412

 عصمت کی اصطلاحی تعریف

‏مسلمان مفکرین نے عصمت کی مختلف تعریفیں کی ہیں جن میں سے سب سے معروف تعریف قاعدہ لطف کے ذریعے اس کی تفسیر ہے۔ جرجانی، شرح المواقف، ص280  اس قاعدے کی بنا پر خداوندعالم بعض انسانوں کو عصمت عطا کرتا ہے جس کے سائے میں صاحب عصمت گناہ اور ترک اطاعت پر قدرت رکھنے کے باوجود ان کے مرتکب نہیں ہوتے ہیں۔ ذیل میں مختلف مذاہب کے نظریات بیان کئے جاتے ہیں:

 اشاعرہ کا نظریہ: اشعری مذہب کے متکلمین چونکہ  انسان کو اس کے اعمال اور رفتار میں مجبور سمجھتے ہیں اس لئے عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ خدا معصوم کے اندر گناہ ایجاد نہیں کرتا ہے۔

امامیہ اور معتزلہ کا نظریہ: امامیہ اور معتزلہ حسن و قبح عقلی اور قاعدہ لطف کے معتقد ہونے کی وجہ سے  عصمت کی تعریف میں کہتے ہیں کہ: انسان اپنے ارادے اور اختیار سے خدا کے لطف و کرم کی وجہ سے گناہوں سے پرہیز کرتا ہے۔ شریف مرتضی، رسائل الشریف المرتضی، ص326علامہ حلّی عصمت کو خدا کی جانب سے  بندے کے حق میں لطف خفی سمجھتے ہیں اس طرح کہ اس کے ہوتے ہوئے پھر انسان میں گناہ کے انجام دہی یا اطاعت کے ترک کرنے کا رجحان ہی پیدا نہیں ہوتا ہے اگر چہ اس پر قدرت اور توانائی رکھتا ہے حلی، الباب الحادی عشر‏، ص9 عصمت کا ملکہ اگرچہ تقوا اور پرہیزگاری کی صنف سے ہے لیکن درجے میں  ان دونوں سے بلند و بالا ہے اس طرح کہ معصوم شخص گناہ کے بارے میں سوچنے اور فکر کرنے سے بھی پرہیز کرتا ہے۔  ربانی گلپائگانی، محاضرات فی الالہیات، ص276جس کی وجہ سے لوگ ان حضرات پر ہر لحاظ سے مکمل اعتماد کرتے ہیں۔مطہری، وحی و نبوت، ص159

 ملا باقر مجلسی کی اصطلاحی تعریف ۔جان لو امامیہ کا اتفاق ہے کہ ائمہ صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے معصوم ہیں ان سے اصلا گناہ کا صدور ممکن ہی نہیں عمدا۔  نسیا ۔یا تاویل تفسیر میں غلطی یا ان کو اللہ تعالی کا بھلا دینا تو ایک طرف رہا 

 بحار الانوار جلد 25 صفحہ 211 

 مرآۃ العقول جلد 4 صفحہ 352 

 خلاصہ۔ مجلسی اپنے ائمہ پر عصمت کی عصمت میں تصور کیے جانے والے تمام وجوہ کے اعتبار سے چادر پوشی کر رہا ہے چھوٹے بڑے تمام گناہوں سے معصوم ہونا خطا سے معصوم ہونا اور سہو ونسیان سے معصوم ہونا یہ تمام معنی عصمت ائمہ کے مفہوم میں شامل ہیں۔عصمت کی یہ صورت گری جو مجلسی نے کی ہے اور اس پر شیعہ کا اتفاق کا اعلان کیا ہے یہ تو اللہ تعالی کے انبیاء اور رسولوں کو بھی حاصل نہیں ہوئی جس طرح اس پر قرآن کے صریح الفاظ سنت رسول اور اجماع امت دلالت کرتے ہیں 

 فکرة التقریب صفحہ 299 حاشیہ   

 نوٹ۔ یہ قول حقیقت میں اسلامی اصول کے سامنے نہ مانوس ہے بلکہ ائمہ سے متعلق حساس ہوناان کی نفی کرنا ان کو اس ذات عالی مرتبت کے ساتھ تشبیہ دینے کے مترادف ہے جس کو نیند آتی ہے نہ اونگھ اسی لیے شیعہ کے آٹھویں امام رضا سے جس کی عصمت کے وہ دعویدار ہیں کہا گیا 

 کوفہ میں ایک قوم کا یہ دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں سہو واقعہ نہیں ہوا تو انہوں نے کہا اللہ ان پر لعنت کرے انہوں نے جھوٹ بولا ہے جو بھولتا نہیں وہ صرف وہ ذات ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں 

 بحار الانوار جلد 25 صفحہ 350 

 عیون اخبار الرضا صفحه 326 

یہ عبارت اگر صحیح ہے تو ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ سہو کی نفی جو متاخر شیعہ اثنا عشریہ کے نزدیک عصمت کے مفہوم کی اساسیت میں داخل ہوچکی ہےرضا کے زمانے میں شیعہ کی طرف منسوب ایک جماعت کا عقیدہ تھا جن کا نام قلت کی وجہ سے یا ان کو حقیر جانتے ہوئے اور ان کے قول کی شناخت اور نامعقولیت کی بنا پر ذکر نہیں ہوا وہ اس عقیدے کے لئے افضل الخلق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخصوص کرتے تھے اور اس غلوآمیز رجحان کا خود شیعہ کے امام کی طرف سے لعن تعن تکذیب اور تقصیر کی صورت میں جواب دیا گیاکیونکہ اس سوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ذات کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے جس کو نیند آتی ہے نہ اونگھ اب رضا ان کے بارے میں کیا کہیں گے جو اس وصف کا ان پر اور ان کے ساتھ دیگر ان کے اجداد اور ان کی اولاد پر اطلاق کرتے ہیں؟؟؟رضا انکا زیادہ شدت کے ساتھ اور سخت الفاظ میں انکاراورمذمت کرتے ہیں

اس اقتباس سے یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ رجحان اور نقطہ نظر رضا کے زمانے کے بعد عام ہوا یہ امر ہمارے لئے اس عقیدے کے آغاز و ارتقاء کے ابتدائی عناصر کی تحقیق کرنے کی راہ ہموار کرتا ہے

 عقیدہ عصمت کا آغاز 

١۔۔۔عصمت کا لفظ ابن سبا سے منقول نہیں بلاشبہ ابن سبا سے ایسی آراء منقول ہیں جو عصمت یا اس سے بھی کسی خطرناک قول کا موجب ہو سکتی ہیں بلکہ اس سے امیرالمؤمنین کی الوہیت کا قول بھی منقول ہے

لیکن ابن سبا سے امامی نظریہ کے مطابق عصمت کا موقف پیش نہیں کیا  

اس کی رائے اکثریت کے ساتھ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہیں بلکہ وہ شیعہ میں سے پہلا شخص ہے جس نے توقف کیا امام علی رضی اللہ کے ظہور اور واپس آنے کے انتظار کا نظریہ پیش کیا

 مقالات اسلامیین جلد 1 صفحه 86 

 التنبیہ والرد صفحہ 18  

 الفرق بین الفرق صفحہ-21 

 الملل والنحل جلد 1 صفحہ 173 

 رجال کشی صفحه 106 107 

 الزینۃ صفحہ 305 

 تنقیح المقال جلد 2 صفحہ 183 

 المقالات والفرق صفحہ-20 

  ٢۔۔۔قاضی عبدالجبار ومحب الدین خطیب  کی رائے 

امام کا عصمت کا اس حیثیت سےعقیدہ کہ کسی بھی حالت میں اس کے لئے غلطی کرنا یا ٹھوکر کھانا جائز نہیں اور نہ وہ سہو اور غفلت کا شکار ہوسکتا ہے یہ صحابہ و تابعین کے زمانے میں ہشام بن حکم کے عصر تک غیرمعروف تھا 

ہشام بن حکم نے یہ قول ایجاد کیا تھا 

 تثبیت دلائل النبوۃ جلد 2 صفحہ 528

محبت الدین خطیب اس نظریہ میں عبدالجبار کی رائے کے ساتھ متفق ہیں اور وہ اس کے ساتھ شیطان الطاق کا نام بھی ذکر کرتے ہیں 

 مجلۃ الفتح جلد 18 صفحہ 277 

٣۔۔۔ڈونلڈ سن کی رائے 

نظریہ عصمت شیعہ کے ہاں جعفرصادق کے زمانے سے شروع ہوچکا تھا یہ بات بھی قابل ملاحظہ ہے کہ ہشام بن حکم اور شیطان الطاق جعفر صادق کےمعاصر تھے 

 ڈونلڈ سن عقیدہ شیعہ صفحہ 329 

 نظریہ الامامت صفحہ 134 

 عقیدہ عصمت کے تدریجی مراحل 

 شیعہ عقیدہ عصمت کے تدریجی مراحل کے بارے میں مختلف روایات 

١۔۔۔۔امام زین العابدین علی بن حسین رحمہ اللہ فرماتے ہیں 

 معصوم وہ ہے جو اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے اور اللہ کی رسی قرآن ہے 

 معانی الاخبار صفحہ 132 

 بحار الانوار جلد 25 صفحہ 194 

 خلاصہ۔ اس سوال کی نسبت علی بن حسین رضی اللہ عنہ کی طرف صحیح ہو یا نہ ہو لیکن یہ شیعہ کی تاریخ کے ابتدائی دور میں عصمت کے متعلق درست نقطہ نظر پیش کرتا ہے نیز اس کو اسلام کے اس خوبصورت مفہوم کے ساتھ مربوط کرتا ہے کہ قرآن کے ساتھ تمسک اور اعتصام ہی عصمت اور نجات ہے یہ مفہوم مخصوص افراد تک ہی محدود نہیں اللہ تعالی فرماتا ہے 

 واعتصمو بحبل اللہ جمیعا 

  اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو 

 ومن یعتصم باللہ فقدھدی۔ ۔۔۔۔۔۔

 اور جو شخص اللہ کو مضبوطی سے پکڑ لے تو یقینا سے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی گئی 

٢۔۔۔۔قاضی عبدالجبار اور محب الدین خطیب عصمت کی نسبت ہشام بن حکم کی طرف کرتے ہیں جس نے یہ عقیدہ اختراع کیا

 روایت۔۔۔ہشام بن حکم سے حسین اشقر نامی ایک شیعہ شخص دریافت کرتا ہےکہ تمہارے اس قول کا کیا معنیٰ ہے   

 ان الامام لایکون الامعصوما۔

 صرف معصوم ہی امام ہوتا ہے 

اس نے کہا میں نے ابو عبداللہ یعنی جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا معصوم وہ ہوتا ہے جو اللہ تعالی کی تمام حدود و محرمات کے ارتکاب سے اللہ تعالی کی پناہ میں ہوتا ہے اللہ تعالی فرماتا ہے 

 ومن یعتصم باللہ فقدھدی۔

 معانی الاخبار صفحہ 132 

 بحار الانوار جلد 25 صفحہ 194 195 

 روایت۔ ۔۔۔ابن ابھی عمیر نامی ایک دوسرا شیعہ کہتا ہے 

 میں نے ہشام بن حکم کے ساتھ اپنی طویل ترین صحبت میں عصمت امام کے بارے میں اس بات سے زیادہ کسی اچھی بات کا استفادہ نہیں کیا جو اس نے کہی امام گناہ نہیں کرتا کیونکہ گناہ کے دروازے سے حرص حسد بغض اور شہوت ہیں اور یہ تمام وجوہ امام میں ناپید ہیں  

 بحار الانوار جلد 25 صفحہ 192 93 

 الخصال جلد 1 صفحہ 215 

 معانی الاخبار صفحہ 133 

 الأمالي الصدوق صفحہ 375 376 

 خلاصہ۔ ۔لیکن یہ مفہوم بھی ہر حال میں عصمت کے بارے میں مجلسی کے غلو پر مشتمل نہیں نہ اس پر وہ نتائج مرتب ہوتے ہیں جو شیعہ کے عصمت کے اس آخری مفہوم پر مرتب ہوتے ہیں وہ امام کے کلام کو وحی قرار دیتا ہے جس میں کسی  طرف سے باطل کی آمیزش نہیں اور اس سے سہو غفلت اور نسیان جیسے انسانی عوارض کی نفی کرتا ہے تاکہ وہ مخلوق کے طبقے سے نکل کر خالق بشریت کی صفات کی چادراوڑھ لے 

٣۔۔۔۔مسئلہ عصمت معصیت کی نفی کی حد تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ اس سے تجاوز کر گیا ہے چوتھی صدی میں ابن بابو یہ المتوفی 381ھ نے اپنے کتاب الاعتقادت میں جس کو وہ امامیہ شیعہ دین کا نام دیتا ہے اور عقیدہ عصمت کے متعلق لکھتا ہے 

 ائمہ کے بارے میں ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ وہ معصوم اور ہر پلیدی سے پاک ہیں نہ چھوٹا گناہ کرتے ہیں نہ بڑا جو اللہ نے ان کو حکم دیا ہے وہ اس کی نافرمانی نہیں کرتے جو ان کو حکم دیا جاتا ہے اس کو وہ بجا لاتے ہیں جس نے ان کے احوال میں سے کسی چیز میں بھی عصمت کی نفی وہ ان سے ناواقف اور جاھل ہے اور جو ان سے ناواقف ہے وہ کافر ہے ان کے بارے میں ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ وہ معصوم اور اوائل عمر سے لے کر آخر تک علم و کمال کے ساتھ موصوف ہیں ان کے احوال میں کوئی چیز بھی نقص نافرمانی یا جہالت سے متفق نہیں 

 الاعتقادات صفحہ 108 109 

 خلاصہ۔۔۔وہ یہاں ان سے معصیت جہالت اور نقص کی نفی کر رہا ہے اور اس کا مالک اثبات کر رہا ہے جو ان کی زندگی کے آغاز سے لے کر اختتام تک ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے اور جو اس کی مخالفت کرتا ہے اس کو کافر قرار دیتا ہے یہ ایک دوسرا مرحلہ ہے جس میں مسئلہ عصمت داخل ہوجاتا ہے لیکن اس نے ائمہ سے سہو کی نفی کی وضاحت نہیں کی جس طرح مجلسی اور دیگر متاخر علماء نے کیا ہے 

۴۔۔۔۔مجلسی لکھتا ہے ہمارے امام اصحاب نے آئمہ کی ولادت سے لے کر موت تک ان کے چھوٹے بڑے گناہوں سے عمدا۔ خطائا۔ نسیانا۔ اجماع کیا ہے 

 بحارالانوار جلد 25 صفحه 350 351 

۵۔۔۔غیر معروف لوگوں کی رائے ہے 

 یہ بھی احتمال ہے کہ امام غائب اپنی کمین گاہ سے نکل کر ان کی آواز میں شامل ہوگیا ہو اور اپنا ووٹ ان کے حق میں استعمال کر دیا ہو اس کا یہ کہنا اجماع میں ہی قابل اعتماد ہے 

 فصل الإجماع 

 تبصرہ و نقد

امام پر گناہوں سے معصوم رہنے کا حکم اور اس کا لازمی طور پر نیکی کرنا یعنی وہ اللہ کی طرف سے اس کے لئے مجبور ہے یہ تقدیر میں اثناعشریہ کے مذہب حریت و اختیار اور بندے کا اپنے فعل کا خالق ہونا اس کے بھی منافی ہے 

اور اس بات پر بھی دلیل ہے کہ ان کا عصمت کے متعلق یہ مفہوم تقدیر کے متعلق ان کے مذہب سے پہلے کا ہے جس کو انہوں نے تیسری صدی میں معتزلہ سے اخذ کیا تھا لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ شیعہ کا اعتزالی فکرونظر سے متاثر ہونے کے بعد ان کے نزدیک عصمت کا مفہوم بھی بعض اعتزالی افکار کے رنگ میں رنگا جا چکا جیسے نظریہ لطف الہی ۔نظریہ انسانی اختیار جیسا کہ مفید کی تعریف میں قسمت کے بارے میں موجود ہے وہ کہتا ہے کہ یہ لطف و کرم ہے جو اللہ تعالی مکلف پر کرتے ہیں اور اس سے معصیت کے وقوع اور قدرت کے باوجود ترک اطاعت کو روک دیتے ہیں لہذا عصمت کا یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی امام کو ترک معصیت پر مجبور کرتے ہیں بلکہ اس پر مہربانیاں کرتے ہیں جن کے ہوتے ہوئے وہ اپنے اختیار کے ساتھ معصیت ترک کردیتا ہے یہی معتزلی کی اصطلاحات سے استمداد ہے 

ابن بابویہ اپنی کتاب من لا یحضرہ الفقیہ میں صراحت کے ساتھ ذکر کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو کی نفی غالی اور مفوضہ لوگوں کا مذہب ہے

 غلاۃ اور مفوضہ اللہ ان پر لعنت کرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو کے وقوع کا انکار کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز میں بھول جانا تسلیم کرلیا جائے تو تبلیغ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاسہوتسلیم کرناپڑے گا کیونکہ جس طرح نماز فریضہ ہے اسی طرح تبلیغ بھی فریضہ ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سہو ہمارے سہوکی طرح نہیں 

کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سہو اللہ کی طرف سے ہے اللہ نے اس لیے آپ کو بھلایا تا کہ وہ باور کروایا جائے کہ آپ بھی بشر اور مخلوق ہیں جن کو اللہ کے علاوہ رب اور معبود نہ بنایا جائے نیز لوگ آپ کے سہو سے سہو کا حکم معلوم کرلیں ہمارے شیخ استاد محمد بن حسن بن احمد بن ولید کہا کرتے تھے غلو کاپہلا درجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سہو کی نفی کرنا ہے اور میں نبی کے سہو کے اثبات اور اس کے منکرین کا رد ایک الگ کتاب کی شکل میں لکھنے میں ثواب کی امید رکھتا ہوں 

 من لا یحضر الفقیہ جلد 1 صفحہ 234 

 اسی قسم کی ایک روایت ابو عبداللہ کے بارے میں ہے 

بحارالانوار جلد 25 صفا 351 

ایک اور روایت 

 من لا یحضر الفقیہ جلد 1 صفحہ 233 

شیعہ کی کتابوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز میں بھولنے کے متعلق روایات نقل کی ہیں 

۔مجلسی کا عصمت ائمہ کے نظریے کا انہدام ان کی اپنی ہی روایات و اقوال سے ہو جاتا ہے جب اس سے سوال کیا جائے اجماع کب ہوا جب کہ تمہارا شیخ صدوق اور اس کا استاد ابن ولید دونوں ہی اس مذہب کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں 

 ان دونوں کی مخالفت اجماع کے لیے غیر مضر ہے کیونکہ دونوں کا نسب معروف ہے

 بحارالانوار جلد 25 صفحات 350 351 

حیرت کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی کتابوں میں اثبات سہو کے متعلق اپنے ائمہ کی منقول صریح روایات کو رد کرتے ہیں اور ایسے اجماع کو لیے پھرتے ہیں جو محض احتمال اور گمان کے ذریعے غائب معصوم کے قول کا انکشاف کرتا ہے

 تبصرہ۔۔۔

اب ہم ابن سباء کےبارے متفرق مورخین اور مستشرقین کے اقوال پیش کرتے ہیں 

١۔۔۔۔۔بعض محققین کی رائے ہے شیعہ مذہب کی بنیاد یہودیت پر قائم ہے  القمی مقالات والفرق صفحہ-20  نوبختی فرق الشیعہ الصفحہ22   رجال الکشی صفحہ 108 ان متقدمین شیعہ علماء نے ابن سبا کے نظریات (وصیت امامت رجعت)  کا تذکرہ کیا جو کہ بعد میں شیعہ کے عقائد بن گئے۔

پہلا اور جامع ترین بیان امام شعبی سے مروی ہے  تہذیب التہذیب جلد 5 صفحہ 5  السنہ میں روایت موجودہے۔کہ شیعہ  اور یہود کے فکری و نظریاتی اصولوں میں بڑی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ابن حزم  الفصل جلد 5 صفحہ 37 شیعہ بھی یہود کے نقش قدم پر گامزن ہے جو کہتے ہیں کہ یقینا الیاس علیہ السلام اور فنحاس علیہ السلام بن العازار بن ہارون علیہ السلام آج تک زندہ ہیں امام ابن تیمیہ منہاج السنۃ جلد 1 صفحہ 6  فرماتے ہیں شیعہ میں جہالت غلو اور خواہش کی پیروی جیسی خصلتیں موجود ہیں جن کے سبب ایک اعتبار سے وہ نصاری سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ایک مستشرق عالم گولڈ زہیر العقیدۃ والشریعۃ صفحہ 215  کہتا ہے کہ شیعہ میں رجعت کا عقیدہ یہودیت اور نصرانیت کے زیر اثر پیدا ہوا ہے  ایک مشتشر ق فریڈلینڈر  عالم العقیدۃ والشریعۃ صفحہ 100 کہتا ہے شیعوں نے اپنے بنیادی عقائد یہودیت سے اخذ کیے ہیں مستشرق فلہوزن احذابالمعارض صفحہ 170  بھی شیعیت کو یہودیت سے ماخوذ بتاتا اور ان دونوں کے درمیان فکری مشابہت کا تذکرہ کرتا ہے   

 پروفیسر احمد امین کہتے ہیں  فجر الاسلام صفحہ 276 شیعہ کا رجعت کا عقیدہ یہودیت کے زیر اثر ہےشیعہ کہتے ہیں کہ شیعہ شخص پر تھوڑی مدت کے سوا آگ حرام  کی گئی ہے یہی بات بعینی ہیں یہود کہتے ہیں تھے اسی طرح امام کی نسبت اللہ تعالی کی طرف مسیح کی نسبت کے مانند ہے یہ عیسائی اثرات کا نتیجہ ہے  

٢۔۔۔۔۔بعض محققین شیعہ مذہب کو فارسی اثرات کی پیداوار قرار دیتے ہیں ابن حزم اور مقریزی الفصل جلد 2 صفحہ 273  المقریزی الخطط جلد 2 صفحہ 262  کہتے ہیں اہل فارس وسعت سلطنت دوسری اقوام پر غلبے اور ان کے دلوں میں رعب و دبدبہ کے سبب اپنے آپ کو احرار اور اسیاد کہا کرتے تھےاور دوسرے تمام لوگوں کو اپنا غلام سمجھتے تھےلیکن جب عرب کے ہاتھوں زوال حکومت کی آزمائش سے دوچار ہوئے جبکہ عرب اہل فارس کی نظر میں سب سے کم وقعت کے حامل تھےانہوں نے مختلف اوقات میں جنگ و جدال کے ذریعے اسلام کو مٹانا چاہا لیکن ہر بار اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا تو ان لوگوں نے سوچا کے سازشی طریقہ کار سے کامیابی کی امید زیادہ ہے اس بنا پر ان میں سے ایک گروہ نے بظاہر اسلام قبول کرلیا اور اہل بیت کی محبت اور علی رضی اللہ عنہ پر ظلم کا پروپیگنڈاکیا اس طرح شیعہ نے علی رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنی طرف مائل کیا اور ان کو مختلف راستوں پر چلاتےرہے حتی کہ انہیں راہ ہدایت سے برگشتہ کر دیا۔بعض محققین  تاریخ المذاہب الاسلامیہ جلد 1 صفحہ 37  فجر الاسلام صفحہ 277  دراسات فی الفرق صفحہ 23  احزاب المعارضات وسیاست صفحہ 168  السیاسۃ العربیہ صفحہ 72 کہتے ہیں کہ اہل عرب کا شیوہ زندگی آزادی اور حریت تھاجبکہ اہل فارس کا نظام زندگی بادشاہت وملوکیت پر قائم تھا بادشاہ بادشاہی کے خاندان سے بنتا تھا اور وہ لوگ خلیفہ کے لیے انتخاب کے معنی سے بھی ناآشنا تھے چنانچہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے اور اپنے پیچھے جانشینی کے لیے کوئی اولاد نہ چھوڑی تو اب لوگوں میں آپ صلی اللہ وسلم کے سب سے قریبی رشتہ دار آپ کے چچا زاد بھائی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہی تھے لہذا اگر خلافت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم جیسے کسی شخص نے حاصل کی ہے تو اس نے اصل حقدار سے یہ منصب کیا ہے۔جبکہ اہل فارس بادشاہت اور شاہی خاندان میں اس کی مورثیت کو دین کی حد تک مقدس سمجھا کرتے تھے لہذا انہوں نے علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کو بھی اسی نظریے سے دیکھا اور کہا کہ امام کی فرمابرداری ضروری ہے اور اس کی اطاعت گزاری درحقیقت اللہ کی اطاعت گزاری  ہےفارس کے لوگ بہت بڑی تعداد میں اسلام میں داخل ہوئے لیکن اپنے قدیم عقائد سے کلیتاً چھٹکارانا پا سکے اور گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ آپنے انہیں قدیم نظریات کو اسلامی رنگ میں بنا سنوار کر پیش کرتے رہےاسی بنا پر شیعہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد کی طرف  انہیں نظروں سے دیکھتے ہیں جن نظروں سے وہ فارسی اپنے اولین آباواجداد ساسانی حکمرانوں کو دیکھا کرتے تھے شیخ ابوزہرہ  تاریخ المذاہب الاسلامیہ جلد 1 صفحہ 38 فرماتے ہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شیعہ بادشاہ اور اس کی موروثیت سے متعلق فارسی افکار سے متاثر ہیں اسی لئے شیعہ مذہب اور اہل فارس کے بادشاہی نظام کے درمیان بڑی واضح مشابہت پائی جاتی ہے جس کی مزید تائید اس امر سے بھی ہوتی ہے کہ اہل فارس شیعہ ہیں اور اولین شیعہ فارسی النسل تھے     

جب مسلمانوں کے ہاتھوں ملک ایران فتح ھوا تو قیدیوں میں ایک ایرانی بادشاہ یزدگرد کی بیٹی بھی تھی جس سے حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے شادی کی ۔اور ان سے اس کا بیٹا علی بن حسین تولد ہوا فارسیوں نے اپنے بادشاہ کی بیٹی سے پیدا ہونے والی اولاد کو اپنے قدیم بادشاہوں کا وارث خیال کیا اور سمجھا کہ علی بن حسین اور ان کی اولاد کی رگوں میں فارسی حکمران یزدگرد کی بیٹی سے تولد پذیر ہونے کے ناطے ایرانی اور ان کے مقدس ساسانی بادشاہوں کا خون دوڑتا ہے

 تاریخ یعقوبی جلد 2 صفحہ 248 

 الکافی جلد 1 صفحہ 53 

 سمیر اللیثی الزندقہ والثعوبیة صفحہ 52    

 عبداللہ الغریب وجاءدورالمجوس صفحہ 77 

 النشار نشاۃ  الفکر الفلسفی جلد 2 صفحہ 111 

 عبدالرزاق الحصان المھدی المہدویہ صفحہ 82 

 فاطمہ نام فارسیوں کے نزدیک بڑا مقدس نام ہے کیونکہ ان کی قدیم تاریخ میں فاطمہ کا مقام ومرتبہ نہایت قابل تعریف ہےفارسیوں کے خیال کےمطابق فاطمہ ہی کی بدولت سمردیس مجوسی کہ جو کیسا نیوں کے پایہ تخت پر قابض ہوگیا تھا متعلق حقیقت حال کا انکشاف ہوا تھا چنانچہ فاطمہ بڑی بہادر اور مقدس خاتون تھیں اگر وہ نہ ہوتے تو سمر دیس مجوسی کے متعلق کچھ پتہ نہیں چلتا اور اگر وہ نہ ہوتے تو اس کا باپ اوتاس اور اس کے ساتھی سمردیس کے مقابلے میں مناسب تدبیر اختیار نہیں کر سکتے تھے 

 المہدی والمہدویہ صفحہ 84 

 عنھیرودوتس۔صفحہ 462 

 المقدس بداء التاریخ جلد 4 صفحہ 133 جلد 6 صفحہ 95 

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ کو ایسی خصوصیات اور صفات سے متصف کرتے ہیں جو بشری طاقت سے ماوراء ہیں یہاں تک کہ ان کو الہ قرار دیتے ہیں 

 رجال کشی صفحہ 15 صفحہ 16 صفحہ 19 صفحہ 6 صفحہ 7 

 مقالات الجسلامین جلد 1 صفحہ 80 

ابولولو فیروز مجوسی جس نے خلیفہ راشد عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا اسے یہ لوگ بابا شجاع الدین کہا کرتے تھے اور جس دن عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ والمجوسی کے ہاتھوں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے تھے اس دن کو شیعہ لوگ عید مناتے ہیں الجزائری نے کئی روایات نقل کی ہیں

 الکنی والالقاب جلد 2 صفحہ 55 

 انوار النعمانیہ جلد 1 صفحہ 108 

کی طرح یہ لوگ مجوسیت حواریوں مینی روز کی بھی مجوسیوں کی طرح تعظیم کرتے ہیں روایات میں یہ اعتراف و اقرار موجود ہے کہ یوم نیروز مجوسیوں کا تہوار اور ان کی عید ہے 

 معتبس الاثر جلد 29 صفحہ 202 203  

 المجلسی بحار الانوار باب عمل یوم النیروز جلد 98 صفحہ419 

 وسائل الشیعۃ باب استحباب صوم یوم نیروز والغسل فیہ لبس انظف الثیاب والطیب جلد 7 صفحہ 346 

 بحارالانوار جلد 39 صفحہ 108 

٣۔۔۔۔بعض محققین نے شیعہ مذہب کوقدیم ایشیائی مذاہب بدھ مت وغیرہ کے عقائد پر مبنی ہےقراردیاہے

شیعیت ہی کےزیرسایہ تناسخ ارواح تجسیم الہی اور حلول جیسے دیگر عقائد جو زمانہ قبل از اسلام میں براہمہ فلاسفہ اور مجوس کے ہی معروف تھے مسلمانوں میں پھیل گئے بعض مستشرقین بھی شیعہ میں بہت سی غیر اسلامی عقائد کے سرایت کرنے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں شیعہ میں یہ عقائد مجوسیت مانویت اور بدھ مت وغیرہ مذاہب سے منتقل ہوئے ہیں جو ظہور اسلام سے قبل ایشیا میں رائج تھے

 تاریخ المذاہب الاسلامیہ لابی زہرہ جلد 1 صفحہ 37    

 المعجم الفلسفی صفحہ 55 

 التعریفات للجرجانی صفحہ93 

 التدمیر یہ صفحہ 32 ضمن مجموع فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ جلد 3 

 منہاج السنہ جلد 2 صفحہ 97 تا145 

 درءتعارض العقل والنقل جلد 1 صفحہ 118 119 

 التعریفات للجرجانی صفحہ 103 

 الملل والنحل جلد 1 صفحہ 232 

 الرازی اعتقادات فرق المسلمین والمشرکین ۔صفحہ 137 

 فجر الاسلام صفحہ 277 

 المنیة والعمل صفحہ 60 

 شرح الطحاویہ صفحہ 18 

مختصر تحفہ اثنا عشریہ مولف فرماتے ہیں کہ شیعہ مذہب کی یہودونصاری اور مجوس و مشرکین کے فرقوں کے ساتھ مکلمل مشابہت پائی جاتی ہےپھر انہوں نے ان مذاہب کے تمام فرقوں کے ساتھ شیعہ مذہب کی مشابہت کی وجوہات ذکر کی ہیں 

اسی طرح بعض محققین کا کہنا ہے کہ جب ہم نے شیعہ فرقوں پر تحقیق اور ان کا مطالعہ کیا تو ان میں تمام مذاہب و ادیان کے عقائد موجود تھے جن کو مٹانے کے لئے اسلام دنیا میں آیا تھا 

برکات عبدالفتاح الوحدانیہ صفحہ 125 

 ۔۔۔نتیجہ

مسئلہ یہ ہے کہ شیعہ مذہب ان کے آئمہ کا مذہب نہیں رہا علماء و شیوخ کا مذہب بن کر رہ گیا مجلسی ان نصوص اور روایات کو دیکھ کر جو اس کے ہم مذہب افراد کے اجماع کی مخالفت کرتی ہیں آنگشت بدندان ہے اور کہتا ہے 

 یہ مسئلہ بہت زیادہ اشکال کا شکار ہے کیونکہ بہت ساری اخبار اور نشانیاں ان سے سہو کے صدور پر دلالت کرتی ہیں نیز اصحاب کا اجماع بھی اس پر دلالت کرتا ہے سوائے ان افراد کے جنہوں نے ان کی مخالفت کرتے ہوئے عدم جواز کا مذہب اپنایا ہے 

 بحارالانوار جلد 25 صفحه 351 

مجلسی کا کھلے الفاظ میں اعتراف ہے کہ ائمہ کی مطلقا عصمت پر متاخرین شیعہ کا اجماع ان کی روایات کی مخالفت ہےیہ ایک حقیقی دلیل اور صریح اعتراف ہے کہ وہ گمراہی اور عدم دلیل پر حتی کہ اپنی کتابوں کے بھی خلاف  اجماع کیے بیٹھے ہیں 

  عصمت ائمہ پر استدلات اہل تشیع  

  Surat No 33 : Ayat No 33 

وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ  الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ  وَ  اَطِعۡنَ اللّٰہَ  وَ  رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ  لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ  تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾

 اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو  اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو  اللہ تعالٰی یہی چاہتا ہے کہ اے  نبی کی گھر والیو!  تم سے وہ  ( ہر قسم کی )  گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے ۔ 

 اہل تشیع کا استدلال 

اہل تشیع حضرات آیت کے اس ٹکڑے سے استدلال کرتے ہیں تو ہم سب سے پہلے اس ٹکڑے کی ترکیب پیش کرتے ہیں تاکہ ہمیں پتہ چلے کہ یہ آیت کے اس ٹکڑے کا ماقبل ومابعد سے کیا تعلق ہے 

 ترکیب و اعراب 

   اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ  لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ  تَطۡہِیۡرًا

اللہ تعالٰی یہی چاہتا ہے کہ اے  نبی کی گھر والیو!  تم سے وہ  ( ہر قسم کی )  گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے

وجملة: (إنّما يريد اللّه...) لا محلّ لها استئناف بيانيّ.

وجملة: (يذهب...) لا محلّ لها صلة الموصول الحرفيّ (أن) المضمر.

وجملة: (يطهّركم...) لا محلّ لها معطوفة على جملة يذهب.

1...ترکیب آیت یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ آیت کاحصہ ماقبل کے لیے بیانیہ ہے کوئی الگ حکم نہیں ہے اور یہ سب جانتے ہیں کہ ماقبل میں تمام تر ذکر امہات المومنین کا ہے تو آیت کا یہ حصہ بھی امہات المومنین کے لیے ہی ہے 

  اعتراض شیعہ کی طرف سے کہ امہات المومنین مونث ہیں یہ ضمیر جمع مزکر حاضر کی لائی گئی ہے تو یہ تو تضاد بیانی ہے اور اس سے مراد حضرت علی حسن حسین رضی اللہ عنھم ہیں 

 جناب لفظ اہل بیت استعمال کیا گیا ہے جو کہ واحدمزکر ہےاور معناجمع مزکر ہے  تو یہ اعتراض ہی باطل ہے

ان آیات میں بائیس ضمیریں جمع مونث حاضر کی ہیں اور تین حروف نداء جن میں سے دو ازواج مطہرات سے متعلق ہیں تو جناب جو قیاس آپ کر رہیے ہیں اور جو آیت سے چاہتے ہیں وہ باطل ہے  

اورقرآن حدیث اور کلام عرب میں کئی مثالیں موجود ہیں 

 قَالُوٓاْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ ٱللَّهِ ۖ رَحْمَتُ ٱللَّهِ وَبَرَكَٰتُهُۥ عَلَيْكُمْ أَهْلَ ٱلْبَيْتِ ۚ إِنَّهُۥ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ

 حدیث کساء میں ۔

وَأَذْھِبْ عَنْھُمُ  الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْھِیراً

٢۔۔۔آیت استدلال اہل تشیع پر دلالۃالنص وقطعی الدلاله نہیں ہے 

کیونکہ ماقبل اور مابعد کا سیاق جو ہے وہ اہل بیت کو شامل ہے فارسی اور دوسری لغات میں یہ مشہور ہے کہ اہل بیت گھروالیاں ہوتی ہیں 

توسیاق وسباق کو سامنے رکھتے ہوئے یہ آیت ازواج مطہرات کوہی خطاب ہے اگر تاویلا اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کو شامل کرلیا جائے تو تب بھی مسلک اہل سنت کے خلاف نہیں ہے 

 سیاق وسباق

  Surat No 33 : Ayat No 28 

یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ  قُلۡ  لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ  کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ  الۡحَیٰوۃَ  الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَ اُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۲۸﴾

 اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم زندگانی دنیا اور زینت دنیا چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا دوں اور تمہیں اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں 

   Surat No 33 : Ayat No 29 

وَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ  فَاِنَّ اللّٰہَ  اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ  اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۲۹﴾

 اور اگر تمہاری مراد اللہ اور اس کا رسول اور آخرت کا گھر ہے تو  ( یقین مانو کہ )  تم میں سے نیک کام کرنے والیوں کے لئے اللہ تعالٰی نے بہت زبردست اجر رکھ چھوڑے ہیں 

 Surat No 33 : Ayat No 30 

یٰنِسَآءَ  النَّبِیِّ مَنۡ یَّاۡتِ مِنۡکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ  مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفۡ لَہَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَیۡنِ ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ  یَسِیۡرًا ﴿۳۰﴾

 اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو بھی کھلی بے حیائی  ( کا ارتکاب )  کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا  اور اللہ تعالٰی کے نزدیک یہ بہت ہی سہل  ( سی بات )  ہے 

 Surat No 33 : Ayat No 31 

وَ مَنۡ یَّقۡنُتۡ مِنۡکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ تَعۡمَلۡ صَالِحًا نُّؤۡتِہَاۤ  اَجۡرَہَا مَرَّتَیۡنِ ۙ وَ  اَعۡتَدۡنَا  لَہَا  رِزۡقًا کَرِیۡمًا ﴿۳۱﴾

 اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر  ( بھی )  دوہرا دیں گے  اور اس کے لئے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے ۔  

 Surat No 33 : Ayat No 32 

یٰنِسَآءَ  النَّبِیِّ لَسۡتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ  اِنِ اتَّقَیۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَیَطۡمَعَ  الَّذِیۡ  فِیۡ قَلۡبِہٖ مَرَضٌ وَّ  قُلۡنَ  قَوۡلًا  مَّعۡرُوۡفًا ﴿ۚ۳۲﴾

اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو  اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے  اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو ۔  

 Surat No 33 : Ayat No 33 

وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ  الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ  وَ  اَطِعۡنَ اللّٰہَ  وَ  رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ  لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ  تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾

 اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو  اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو  اللہ تعالٰی یہی چاہتا ہے کہ اے  نبی کی گھر والیو!  تم سے وہ  ( ہر قسم کی )  گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے ۔  

 Surat No 33 : Ayat No 34 

وَ اذۡکُرۡنَ مَا یُتۡلٰی فِیۡ  بُیُوۡتِکُنَّ  مِنۡ اٰیٰتِ اللّٰہِ  وَ الۡحِکۡمَۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ  کَانَ لَطِیۡفًا خَبِیۡرًا ﴿۳۴﴾

 اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو  یقیناً اللہ تعالٰی لطف کرنے والا خبردار ہے ۔

 نوٹ آیت نمبر 34 بغیر کسی خطاب کےازواج مطہرات سے مخاطب ہے     

٣۔۔۔۔أقوال المفسرين

وقوله : ( إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ) :  وهذا نص في دخول أزواج النبي صلى الله عليه وسلم في أهل البيت هاهنا; لأنهن سبب نزول هذه الآية ، وسبب النزول داخل فيه قولا واحدا ، إما وحده على قول أو مع غيره على الصحيح

 ترجمہ۔ ابن کثیر نے بیان کیا ہے کہ یہ آیت نص ہے ازواج النبی ﷺ کواہل بیت ہونے میں اور ازواج النبی ﷺ ہی اس آیت کاسبب نزول ہیں  

 تفسیر ابن کثیر متعلقه آیت 

 وروى ابن جرير : عن عكرمة أنه كان ينادي في السوق : ( إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ويطهركم تطهيرا ) ،  نزلت في نساء النبي صلى الله عليه وسلم خاصة 

 ترجمہ ابن جریر نے کہا بے شک عکرمہ بازاروں میں نداء کرتا تھا کہ یہ آیت حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ازواج کے حق میں نازل ہوئی ہے 

 تفسیر ابن کثیر 

 تفسیر ابن مسعود 

 تفسیر روح المعانی 

، وهكذا روى ابن أبي حاتم قال :حدثنا علي بن حرب الموصلي ، حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا حسين بن واقد ، عن يزيد النحوي ، عن عكرمة عن ابن عباس في قوله : ( إنما يريد الله ليذهب عنكم الرجس أهل البيت ) قال : نزلت في  نساء النبي صلى الله عليه وسلم خاصة

وقال عكرمة : من شاء باهلته أنها نزلت في أزواج النبي صلى الله عليه وسلم فإن كان المراد أنهن كن سبب النزول دون غيرهن فصحيح ، وإن أريد أنهن المراد فقط دون غيرهن ، ففي هذا نظر; فإنه قد وردت أحاديث تدل على أن المراد أعم من ذلك :

 ترجمہ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے متعلق نازل ہوئی ہے حضرت عکرمہ بھی یہی کہتے ہیں بلکہ تفسیرروح المعانی میں ہے کہ جو چاہے میں اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کو تیار ہو بات تو یہی سچی ہے کہ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عورتوں کے متعلق نازل ہوئی ہے 

 اور عکرمہ نے یہ بھی کہا ہےلوگ وہ بات جس کی طرف تم جا رہے ہو بلکہ اس سے مراد تو رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی عورتیں ہیں 

 تفسیر ابن کثیر  

 روح المعانی 

 تفسیر خازن

 4۔۔۔۔ اس آیت میں بھی یہی سیاق اور سباق اور افعال استعمال ہوے ہیں تو یہ آیت جس کو مخاطب ہے وہ بھی اہل تشیع اصول سے معصوم ہونے چاہیں 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ فاغْسِلُواْ وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُواْ بِرُؤُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَينِ وَإِن كُنتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُواْ وَإِن كُنتُم مَّرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاء أَحَدٌ مَّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاء فَلَمْ تَجِدُواْ مَاء فَتَيَمَّمُواْ صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُواْ بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُم مِّنْهُ مَا يُرِيدُ اللّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُم مِّنْ حَرَجٍ وَلَـكِن يُرِيدُ لِيُطَهَّرَكُمْ وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ (5:6)

 اِذۡ یُغَشِّیۡکُمُ النُّعَاسَ اَمَنَۃً مِّنۡہُ وَ یُنَزِّلُ عَلَیۡکُمۡ مِّنَ السَّمَآءِ مَآءً  لِّیُطَہِّرَکُمۡ بِہٖ وَ یُذۡہِبَ عَنۡکُمۡ رِجۡزَ الشَّیۡطٰنِ وَ لِیَرۡبِطَ عَلٰی قُلُوۡبِکُمۡ وَ یُثَبِّتَ بِہِ  الۡاَقۡدَامَ ﴿ؕ۱۱﴾

۵۔۔۔پھر انما حصر کے لیے ہے بالفرض اگر مان لیا جائے حضرت علی حسن حسین رضی اللہ عنھم معصوم ہیں لیکن دوسرے آئمہ عصمت میں کس دلیل سے شامل ہیں اور بارہ آئمہ کے علاوہ اہل بیت میں سے  جن تین سو آئمہ کی عصمت کا دعوی دوسرے شیعہ فرقوں نے کیا ہے وہ عصمت میں شامل کیوں نہیں ہیں جیسا کہ الخطط مقریزی جلد ٢صفحہ ٣۵١پر مذکور ہے ان کو امامیہ کافر کہتے ہیں کیا وہ اہل بیت کی اولادیں نہیں ہیں ؟؟؟؟؟؟

 نتیجہ۔۔۔اس آیت سے استدلالِ اہل تشیع کسی بھی صورت ثابت نہیں ہوتا    

ناتو یہ آیت دلالت النص و قطعی الدلاله ہے ناہی سیاق سباق کے اعتبار سے کوئی مناسب تاویل ہوسکتی ہے اور ناہی کوئی قرینہ ِ تخصیص موجود ہے تو اہل تشیع کا استدلال شانزول کی روایات سے ہے ناکہ قرآن سے تو قران نے استدلال کہنا ہی باطل ہے 

 روایت سے استدلال  

اہل بیت کے لغوی معنی

لغت میں اہل بیت سے مراد 

امام اللغۃ حسین بن محمد راغب اصفهانی اور محمد مرتضیٰ الزبیدی فرماتے ہیں:

اهل الرجل من يجمعه و اياهم نسب او دين او مايجري مجراهما من صناعة وبيت وبلد فأهل الرجل في الأصل من يجمعه وإياهم مسکن واحد ثم تجوز به فقيل أهل بيت الرجل لمن يجمعه اياهم نسب و تعورف في أسرة النبي صلیٰ الله عليه وآله وسلم مطلقا إذا قيل أهل البيت لقوله عزوجل {إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ} 

(احزاب، 33: 33) وغير بأهل الرجل عن امرأته وأهل الإسلام الذين يجمعهم ولما کانت الشريعة حکمت برفع حکم النسب في كثير من الاحکام بين المسلم و الکافر قال تعالیٰ {إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ} 

(هود، 11: 46)

ترجمہ

کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو اس کے نسب یا دین یا پیشہ یا گھر یا شہر میں شریک اور شامل ہوں۔ لغت میں کسی شخص کے اہل وہ لوگ ہیں جو کسی کے گھر میں رہتے ہوں پھر مجازاً جو لوگ اس کے نسب میں شریک ہوں ان کو بھی اس کے اہل کہا جاتا ہے اور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خاندان کے لوگوں کو بھی مطلق اہل بیت کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآنِ مجید کی اس آیت میں ہے {بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے} کسی شخص کی بیوی کو اس کے اہل سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اہل اسلام ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو سب انسانوں کے ماننے والے ہوں۔ چونکہ اسلام نے مسلم اور کافر کے درمیان نسب کا رشتہ منقطع کر دیا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام سے فرمایا {بیشک وہ تیرے گھر والوں میں شامل نہیں کیونکہ اس کے عمل اچھے نہ تھے}

(اصفهانی، المفردات في غريب القرآن، 1: 29، بيروت، لبنان: دار المعرفة)

(الزبيدي، تاج العروس، 28: 41، دار الهداية)

روایت۔

حضرت ام سلمیٰ والی حدیث

نزلَت هذِهِ الآيةُ على النَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا في بيتِ أمِّ سلَمةَ، فدعا النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ فاطمَةَ وحَسنًا وحُسَيْنًا فجلَّلَهُم بِكِساءٍ وعليٌّ خَلفَ ظَهْرِهِ فجلَّلَهُ بِكِساءٍ ثمَّ قالَ: اللَّهمَّ هؤلاءِ أَهْلُ بيتي فأذهِب عنهمُ الرِّجسَ وطَهِّرهم تطهيرًا قالَت أمُّ سلمةَ: وأَنا معَهُم يا رسولَ اللَّهِ؟ قالَ: أنتِ على مَكانِكِ وأنتِ إلي خَيرٍ

الراوي: عمر بن أبي سلمة (صحيح الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3787)

ترجمہ۔

رسول ﷺ  کے پرورده حضرت عمربن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب اُم المؤمنین اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے گھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت ''اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا مَیل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔'' نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سلام اﷲ علیہم کو بلایا اور انہیں ایک کملی میں ڈھانپ لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بھی کملی میں ڈھانپ لیا، پھر فرمایا : اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت ہیں، پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و صاف کر دے۔ سیدہ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا نے عرض کیا : اے اللہ کے نبی! میں (بھی) ان کے ساتھ ہوں، فرمایا : تم اپنی جگہ رہو اور تم تو بہتر مقام پر فائز ہو۔''

اعتراضات۔

١۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہو کہ یہ ہی میرے اہل بیت ہیں۔

٢۔۔۔ یا آپ نے فرمایا ہو کہ اس کے علاوہ اور کوئی میرے اہل بیت میں سے نہیں ہے ۔

٣۔۔۔اب اگر ان روایات کی روشنی میں صرف اہل بیت وہی ہیں جو چادر کے نیچے تھے۔ 

تو کیاحکم ہے ان عورتوں کا جن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وفات فاطمہ رضی اللہ عنہا کے بعد نکاح کیا؟؟؟

۴۔۔۔کیا حکم ہے ان اہل بیت اطہار کاجو بعد میں پیدا ہوے؟؟؟

۵۔۔۔کیاحکم ہےان اہل بیت کا جن کی عصمت کا دعوی بعد کاہے؟؟؟

تبصرہ۔

١۔۔۔قرآنِ مجید میں اہلِ بیت سے مراد ازواج اور اولاد ہے:

قَالُواْ أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللّهِ رَحْمَتُ اللّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ.

فرشتوں نے کہا: کیا تم اﷲ کے حکم پر تعجب کر رہی ہو؟ اے گھر والو! تم پر اﷲ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہیں۔

(هُوْد، 11: 73)

٢۔۔۔سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی زوجہ محترمہ کے لیے قرآن مجید میں اہل بیت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي آنَسْتُ نَارًا.

جب موسٰی (علیہ السلام) نے (مدین سے واپس مصر آتے ہوئے) ایک آگ دیکھی تو انہوں نے اپنے گھر والوں سے کہا: تم یہاں ٹھہرے رہو میں نے ایک آگ دیکھی ہے (یا میں نے ایک آگ میں انس و محبت کا شعلہ پایا ہے)۔

(طهٰ، 20: 10)

٣۔۔۔عزیز مصر کی بیوی کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے:

قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ أَرَادَ بِأَهْلِكَ سُوءًا إِلاَّ أَن يُسْجَنَ أَوْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.

وہ (فورًا) بول اٹھی کہ اس شخص کی سزا جو تمہاری بیوی کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے اور کیا ہو سکتی ہے سوائے اس کے کہ وہ قید کر دیا جائے یا (اسے) دردناک عذاب دیا جائے۔

(يُوْسُف، 12: 25)

۴۔۔۔حضرت ایوب علیہ السلام کے زوجہ اور بچوں کے لیے بھی اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے:

فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِن ضُرٍّ وَآتَيْنَاهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُمْ.

تو ہم نے ان کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف (پہنچ رہی) تھی سو ہم نے اسے دور کر دیا اور ہم نے انہیں ان کے اہل و عیال (بھی) عطا فرمائے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور (عطا فرما دیئے)۔

(الْأَنْبِيَآء، 21: 84)

نتیجہ

تویہ سب آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ زوجہ اہل بیت اورآل دونوں اہلبیت میں داخل ہیں۔

 آل عبدالمطلب کے بارے میں

١۔۔۔امام احمد سے روایت ہے کہ وہ اہل بیت میں سےہیں  ۔

٢۔۔۔امام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی کہا ہے ۔

٣۔۔امام ابوحنیفہ اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ آل عبدالمطلب آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل نہيں اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی سے یہ قول بھی مروی ہے۔

اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ بنو عبدالمطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں شامل ہیں اس کی دلیل مندرجہ ذیل حدیث ہے :

روایت 

جبیربن مطعم رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں اورعثمان بن عفان رضي اللہ تعالی عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گۓ اورہم نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے بنومطلب کودیا اورہمیں محروم رکھا ہے حالانکہ ہمارا اوران کا مرتبہ آپ کے ہاں ایک ہی ہے ۔

تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : بلاشبہ بنومطلب اوربنوھاشم ایک ہی چیز ہیں 

(صحیح بخاری حدیث 2908 ) 

(سنن نسائی حدیث (4067 ) وغیرہ نے بھی روایت کی ہے۔

اہل بیت میں بنوھاشم بن عبدمناف جو کہ آل علی ، آل عباس ، آل جعفر ، آل عقیل ، اورآل حارث بن عبدالمطلب شامل ہیں اس کا ذکر اس حدیث میں موجود ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے زيد بن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے ۔

روایت

زیدبن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کےدرمیان ماءخما کے مقام پر ہمیں خطبہ ارشادفرمایا اللہ تعالی کی حمدوثنا بیان کی اور وعظ و نصیحت فرمائی پھر فرمانے لگے :

اما بعد۔ اے لوگو بلاشبہ میں ایک بشر اورانسان ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا بھیجا ہوا آجاۓ تومیں اس کی دعوت پرلبیک کہوں ( موت کی طرف اشارہ ہے ) اور یقینا میں تم میں دواشیاء چھوڑ کر جارہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ عزوجل کی کتاب جس میں نورو هدایت ہے ، اللہ تعالی کی کتاب کوتھام لو اوراس پرمضبوطی اختیار کرو ، توانہوں نے کتاب اللہ پرعمل کرنے کےلیے ابھارا اوراس میں رغبت دلائی۔

اورفرمایا : میرے اہل بیت ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، حصین نے کہا کہ اے زيد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں ؟ کیا ان ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ، توانہوں نے کہا ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں ، لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے ، انہوں نے کہا وہ کون ہیں ؟ وہ کہنے لگے :

وہ آل علی اورآل عقیل ، اورآل جعفر ، اورآل عباس رضي اللہ تعالی عنہم ہیں ، انہوں نے پوچھا کیاان سب پر صدقہ حرام ہے ؟ زید نے جواب دیا جی ہاں ۔ 

(مسند احمد حدیث نمبر ( 18464 ) ۔

روایت

اورموالی کے متعلق حدیث میں کچھ اس طرح ذکر ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ( غلام ) مھران بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

بلاشبہ ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرصدقہ حلال نہیں اورقوم کے مولی انہیں میں سے ہوتے ہیں 

(مسند أحمد حديث 15152 ) 

روایت

تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ کی آل اوراہل بیت میں ان کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد ، اوربنو ھاشم ، اور بنو عبدالمطلب ، اوران کے موالی شامل ہوۓ

نتیجہ۔

اہل تشیع کا استدلال اس حدیث سے بھی باطل ہے اور دعوی اہل سنت کا ہی درست ہے ورنہ قرآن مجید کی بہت ساری آیات اور احادیث مبارکہ سے تعارض تضاد و تصادم  لازم آتا ہے کہ رسول ﷺ  کی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن اورآل رسول ﷺ   دونوں قیامت تک کے لیے اہل بیت میں شامل ہیں۔

 شیعہ کا دوسری آیت سے استدلال

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ (61)

ترجمہ۔

جب تمہارے پاس علم یعنی قرآن آچکا تو اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی نصرانی عیسیؑ کے بارے میں حجت کرے تو کہو کہ اچھا میدان میں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں کو ہم اپنی عورتوں کو بلائیں تم اپنی عورتوں کوہم اپنی جانوں کو بلائیں تم اپنی جانوں کو اس کے بعد ہم سب مل کر خدا کی بارگاہ میں گڑگڑائیں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت کریں 

ترجمہ فرمان علی شیعہ 

استدلال اہل تشیع 

۔۔۔نصاری نجران نے کہا کہ عیسی علیه الصلاۃ السلام ابن اللہ تھےسرور کائنات رسول ﷺ  نے فرمایا وہ تو آدم علیہ السلاۃ السلام کی طرح مخلوق تھےتو وہ ابن اللہ کیسے ہو سکتا ہے جب معاملہ ذرا حد سے زیادہ ہوا تو بالاتفاق فریقین فیصلہ یہ ہوا کہ دونوں فریق اپنے اہل و عیال اور جماعت کے آدمیوں کو لے آئیں اور میدان میں آکر مباہلہ کریں چنانچہ رسول ﷺ  حضرت علی رضی اللہ عنہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما اور سیدۃ النساء حضرت فاطمہ الزھرا رضی اللہ تعالی عنہاکو لے کر میدان میں آگئے جب نصاریٰ نے دیکھا تو گھبرا گئے اور مباہلے سے کترا گئےاس سے حسب ذیل امور معلوم ہوئے 

١۔۔۔۔یہ تمام لوگ معصوم تھے اور اہل بیت سے تھے ورنہ ساتھ لانے کا کیا فائدہ تھا 

٢۔۔۔رسول ﷺ  حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس لیے ساتھ لائے کہ وہ انفسنا میں داخل تھے اور حسنین رضی اللہ عنہما ابناءنا میں اور حضرت سیدۃ النساءنا فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا میں شامل ہیں 

٣۔۔۔۔جب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفس ہوئے تو یقینا آپ کے بعد درجہ خلافت بھی ان کو ملنا چاہیے 

جوابات۔

١۔۔۔الإعراب:

الفاء عاطفة (من) اسم شرط جازم مبنيّ في محلّ رفع مبتدأ (حاجّ) فعل ماض مبنيّ على الفتح في محلّ جزم فعل الشرط والكاف ضمير مفعول به، والفاعل ضمير مستتر تقديره هو (في) حرف جرّ الهاء ضمير في محلّ جرّ متعلّق ب (حاجّ) على حذف مضاف أي في أمره (من بعد) جارّ ومجرور متعلّق ب (حاجّ)، (ما) اسم موصول مبنيّ في محلّ جرّ مضاف إليه، (جاء) فعل ماض والكاف ضمير مفعول به، والفاعل ضمير مستتر تقديره هو (من العلم) جارّ ومجرور متعلّق بمحذوف حال من الضمير المستتر في جاء الفاء رابطة لجواب الشرط (قل) فعل أمر والفاعل أنت (تعالوا) فعل أمر مبنيّ على حذف النون..

والواو فاعل (ندع) مضارع مجزوم فهو جواب الطلب والفاعل ضمير مستتر تقديره نحن (أبناء) مفعول به منصوب و(نا) ضمير في محلّ جرّ مضاف إليه الواو عاطفة في المواضع الخمسة (وأبناءكم، ونساءنا، ونساءكم وأنفسنا، وأنفسكم) ألفاظ مركّبة من مضاف ومضاف إليه معطوفة بحروف العطف على (أبناء) منصوبة مثله (ثم) حرف عطف (نبتهل) مضارع مجزوم معطوف على ندع، والفاعل نحن الفاء عاطفة (نجعل) مضارع مجزوم معطوف على (نبتهل)، والفاعل نحن (لعنة) مفعول به منصوب (اللّه) لفظ الجلالة مضاف إليه مجرور (على الكاذبين) جارّ ومجرور متعلّق بمحذوف مفعول به ثان ل (نجعل).. أي نجعل لعنة اللّه واقعة على الكاذبين...

جملة: (من حاجّك) لا محلّ لها معطوفة على جملة إنّ مثل... في الآية السابقة.

وجملة: (حاجّك) في محلّ رفع خبر المبتدأ (من).

وجملة: (جاءك) لا محلّ لها صلة الموصول (ما).

وجملة: (قل...) في محلّ جزم جواب شرط جازم مقترنة بالفاء.

وجملة: (تعالوا) في محلّ نصب مقول القول.

وجملة: (ندع) لا محلّ لها جواب شرط مقدّر غير مقترنة بالفاء.

وجملة: (نبتهل) معطوفة على جملة ندع.

وجملة: (نجعل) لا محلّ لها معطوفة على جملة نبتهل.

الصرف:

(تعالوا)، فيه إعلال بالحذف، حذفت الألف الساكنة قبل واو الجماعة الساكنة تخلّصا من التقاء الساكنين، وفتح ما قبل الواو دلالة عليها، أو هو فعل جامد يأتي في الأمر بإسناد الضمائر اليه، أو من غير إسناد الضمائر (تعال)، وعلى ذلك فليس فيه حذف ولا إعلال.

(ندع)، فيه إعلال بالحذف لمناسبة الجزم، وزنه نفع.

(الكاذبين)، جمع الكاذب، اسم فاعل من كذب الثلاثيّ وزنه فاعل.

ترکیب کے لحاظ سے کوئی قرینہ کوئی اشارہ نہیں ہے کہ یہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت حسنین رضی اللہ عنہما اور حضرت فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کو شامل ہیں صرف راوی کے وہم و گمان پر عقائد قائم نہیں کئے جاسکتے اس میں کون کون شامل تھے وہ ہم روایت کے ضمن میں زکر کریں گے ان شاء اللہ  

٢۔۔۔ آیت قطعی الدلاله و الدلالت النص نہیں ہے بلکہ استدلال کا دارومدار روایت پر ہے تو رویت کے بارے میں بحث روایت پیش کرکے کریں گے۔ان شاءاللہ  

٣۔۔۔ رسول ﷺ  اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے درمیان میں تناسب کونسا ہے 

اگر انفسانا سے ہم تناسب تساوی کالیں تو نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ جس طرح رسول ﷺ  آخری نبی ہیں اسی طرح حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ آخری نبی ہیں نعوذبالله

اور اگر ہم کوئی اور تناسب لیتے ہیں تو معامله وجھگڑا ختم اور استدلال باطل ہے 

۴۔۔۔اگر انفسنا سے حقیقی نفس مراد لیا جائے گا تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے نکاح کا کیا حکم ہے اگر مجازا ہے تو استدلال باطل ہے 

۵۔۔۔اگر معیت اور رفاقت مراد ہے اور اسی سے آپ استدلال کرتے ہیں تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ ہجرت سمیت اور بہت سارے مواقع پر اکیلے رسول ﷺ  کے ساتھ تھے تو اس صورت میں بھی استدلال باطل ہے۔ 

شان نزول کی روایت سے استدلال۔

اکثر شیعہ حضرات الزامی طور پر اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں اور حوالے کئی کتابوں اور تفاسیر کے دیتے ہیں 

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب یہ (مباہلے والی) آیت:

آیة

﴿نَدْعُ اَبْنَآءَ نَا وَاَبْنَآءَ کُمْ﴾

اور (مباہلے کے لیے) ہم اپنے بیٹے بلائیں تم اپنے بیٹے بلاؤ۔ 

نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین (رضی اللہ عنہم اجمعین) کو بلایا اور فرمایا:

(اَللّٰھُمَّ ھٰؤ لا أھلي)

اے اللہ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔

(صحیح مسلم: 32/2404 و ترقیم دارالسلام: 6220)

(زمخشری، نے اپنی تفسیر

الزمخشری، تفسیر الکشاف، ذیل آیه 61 آل عمران)

(فخر رازی نے اپنی تفسیر

الرازی، التفسیر الکبیر، ذیل آیه 61 آل عمران)

(بیضاوی نے اپنی تفسیر البیضاوی، تفسیر انوار التنزیل واسرار التاویل، ذیل آیه 61 آل عمران)

میں اور دیگر مفسیرین نے کہا ہے کہ:

ابناءنا (ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن (ع) اور حسین (ع) ہیں اور " نسا‏‏ءنا " سے مراد فاطمہ زہراء علیہا السلام اور " انفسنا " ہمارے نفس اور ہماری جانوں ] سے مراد حضرت علی (ع) ہیں۔ یعنی وہ چار افراد جو آنحضرت (ص) کے ساتھ مل کر پنجتن آل عبا یا اصحاب کساء کو تشکیل دیتے ہیں۔ اور اس آیت کے علاوہ بھی زمخشری اور فخر رازی، کے مطابق آیت تطہیر اس آیت کے بعد ان کی تعظیم اور ان کی طہارت پر تصریح و تاکید کے لیے نازل ہوئی ہے،

روایت سے استدلال کے جوابات

١۔۔۔صحيح البخاري - حدیث 4380

كِتَابُ المَغَازِي

بَابُ قِصَّةِ أَهْلِ نَجْرَانَ

حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ الْحُسَيْنِ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ عَنْ صِلَةَ بْنِ زُفَرَ عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ جَاءَ الْعَاقِبُ وَالسَّيِّدُ صَاحِبَا نَجْرَانَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدَانِ أَنْ يُلَاعِنَاهُ قَالَ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهِ لَا تَفْعَلْ فَوَاللَّهِ لَئِنْ كَانَ نَبِيًّا فَلَاعَنَّا لَا نُفْلِحُ نَحْنُ وَلَا عَقِبُنَا مِنْ بَعْدِنَا قَالَا إِنَّا نُعْطِيكَ مَا سَأَلْتَنَا وَابْعَثْ مَعَنَا رَجُلًا أَمِينًا وَلَا تَبْعَثْ مَعَنَا إِلَّا أَمِينًا فَقَالَ لَأَبْعَثَنَّ مَعَكُمْ رَجُلًا أَمِينًا حَقَّ أَمِينٍ فَاسْتَشْرَفَ لَهُ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ قُمْ يَا أَبَا عُبَيْدَةَ بْنَ الْجَرَّاحِ فَلَمَّا قَامَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا أَمِينُ هَذِهِ الْأُمَّةِ

ترجمہ۔ 

صحیح بخاری - حدیث 4380

کتاب: غزوات کے بیان میں

باب: نجران کے نصاریٰ کا قصہ۔۔مجھ سے عباس بن حسین نے بیان کیا ، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا ، ان سے اسرائیل نے ، ان سے ابو اسحاق نے ، ان سے صلہ بن زفر نے اور ان سے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نجران کے دو سردار عاقب اور سید ، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مباہلہ کرنے کے لیے آئے تھے لیکن ایک نے اپنے دوسرے ساتھی سے کہا کہ ایسا نہ کروکیونکہ خدا کی قسم ! اگر یہ نبی ہوئے اور پھر بھی ہم نے ان سے مباہلہ کیا توہم پنپ نہیں سکتے اور نہ ہمارے بعد ہماری نسلیں رہ سکیں گی ، پھر ان دونوں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ جو کچھ آپ مانگیں ہم جزیہ دینے کے لیے تیا ر ہیں ۔ آپ ہمارے ساتھ کوئی امین بھیج دیجئے ، جو بھی آدمی ہمارے ساتھ بھیجیں وہ امین ہو نا ضروری ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ ایک ایسا آدمی بھیجوں گا جو امانت دار ہوگا بلکہ پورا پورا امانت دار ہوگا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے ، آپ نے فرمایا ابو عبیدہ بن الجراح ! اٹھو ، جب وہ کھڑے ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس امت کے امین ہیں ۔

٢۔۔۔اگر مباہلے کے لیے حضرت علی حضرت حسنین حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین کو ساتھ لے جانا معصومیت کی علامت ہے تو پھر حضرات ابوبکر اور ان کے بیٹے عمر اور ان کے بیٹے عثمان اور ان کےبیٹے یہ تمام مباہلے میں موجود تھے جیسا کہ روایات میں موجود ہیں  

روایت۔

عن جعفر بن محمد عن ابیہ فی ھذہ الایت تعالوا ندع أبناءنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الایة

قال فجاءبابی بکروولدہ وبعمروولدہ وبعثمان وولدہ وبعلی وولدہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے باپ سے روایت کی ہے فرمایا آپ مباہلہ کے روز صدیق اکبر اور ان کے فرزند حضرت عمر اور ان کے فرزند حضرت عثمان اور ان کے فرزند حضرت علی اور ان کے فرزند کو ساتھ لائے 

(تفسیر در منثور آیه 61 سوره آل عمران جلد 2 صفحہ 40)

(روح المعانی آیه 61 سوره آل عمران 

جلد 1 صفحہ 406)  

نتیجہ۔۔

 تو جناب کا استدلال ہی باطل ہے کیونکہ اس طرح ان تمام لوگوں کا معصوم ہونا ثابت آتا ہے 

جب کہ روایات میں آپ دیکھ سکتے ہیں 

مباہلے میں دوسرے حضرات کے ناجانے کا ذکر نہیں ہے بلکہ تفسیر طبرسی جلد 3 صفحه 192 

روایت

حدثنا ابن حمران قال حدثنا جرير قال فقلت المغیرة ان الناس یروون  فی حدیث النجران ان علیا معھم فقال ام الشعبی لم یذکره۔ ۔۔۔

ترجمہ۔

جریرہ نے مغیرہ سے روایت کی ہے کہ لوگ حدیث نجران میں علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی رفاقت اور معیت کا ذکر کرتے ہیں لیکن شعبی نے ان کا ذکر نہیں کیا خداجانے باہمی مناقشات کی وجہ سے یا ویسے حدیث میں ان کا ذکر نہیں تھا 

اب جب ان احادیث میں اتفاق نہیں ہے اور روایات مختلف فیہ ہیں تو استدلال باطل ہو جاتا ہے 

 خلاصہ۔۔۔۔۔۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وفی قصۃ اہل نجران من الفوائد ان اقرار الکافر با لنبوۃ فلا یدخل فی الاسلام حتی یلتزم احکا م الاسلام وفیہا جواز مجادلۃ اھل الکتاب وقد تجب اذا تعینت مصلحۃ وفیھا مشروعیۃ مباھلۃ المخالف اذا اصر بعد ظھور الحجۃ وقد دعا ابن عباس الی ذلک ثم الاوزاعی ووقع ذلک لجماعۃ من العلماءاومما عرف بالتجربۃ ان من باھل وکان مبطلارد تمضی علیہ سنۃ من یوم المباھلۃ ووقع لی ذلک مع شخص لبعض الملاحدۃ فلم یقم بعد ھا غیر شھرین وفیھا مصالحۃ اھل الذمۃ علی مایراہ الامام من اصناف المال وفیھا بعث الامام الرجل العالم الامین الی اھل الذمۃ فی مصلحۃ الاسلام وفیھا منقبۃ ظاہر ۃ لابی عبیدۃ بن الجراح رضی اللہ عنہ وقد ذکر ابن اسحاق ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعث علیا الی اھل نجران لیاتیہ بصدقاتہم وجزیتھم وھذہ القصۃ غیر قصۃ ابی عبیدۃ لان ابا عبیدۃ توجہ معھم فقبض مال الصلح ورجع وعلی ارسلہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بعد ذلک یقبض منھم مااستحق علیہم من الجزیۃ ویاخذ ممن اسلم منھم ماوجب علیہ من الصدقۃ واللہ اعلم ( فتح الباری )

ترجمہ۔

حافط ابن حجر فرماتے ہیں کہ اہل نجران کے قصے میں بہت سے فوائد ہیں جن میں یہ کہ کافر اگر نبوت کا اقرار کرے تویہ اس کو اسلام میں داخل نہیں کرے گا جب تک جملہ احکام اسلام کا التزام نہ کرے اور یہ کہ اہل کتاب سے مذہبی امور میں مناظرہ کرنا جائز ہے بلکہ بعض دفعہ واجب ، جب اس میں کوئی مصلحت مد نظر ہو اور یہ کہ مخالف سے مباہلہ کرنا بھی مشروع ہے جب وہ دلائل کے ظہور کے بعد بھی مباہلہ کا قصد کرے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے ایک حریف کو مباہلہ کی دعوت دی تھی اور امام اوزاعی کو بھی ایک جماعت علماءکے ساتھ مباہلہ کا موقع پیش آیا تھا اور یہ تجربہ کیا گیا ہے کہ مباہلہ کرنے والاباطل فریق ایک سال کے اندر اندر عذاب الہی میں گرفتار ہوجاتا ہے اور میرے ( علامہ ابن حجر کے ) ساتھ بھی ایک ملحد نے مباہلہ کیا وہ دو ماہ کے اندر ہی ہلاک ہوگیااور یہ کہ اس سے امام کے لیے مصلحتا اختیار ثابت ہوا ، وہ ذمی لوگوں کے اوپر مال کی قسموں میں سے حسب مصلحت جزیہ لگائے اور یہ کہ امام ذمیوں کے پاس جس آدمی کو بطور تحصیلدار مقرر کرے وہ عالم امانت دارہواور اس میں حضرت ابو عبیدہ ابن جراح رضی اللہ عنہ کی منقبت بھی ہے اور ابن اسحاق نے ذکر کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران والوں کے ہاں تحصیل زکوۃ اور اموال جزیه کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا یہ موقع دوسراہے حضرت ابوعبیده رضی اللہ عنہ کو ان کے ساتھ صرف صلح نامہ کے وقت طے شدہ رقم کی وصولی کے لیے بھیجا تھا، بعد میں علی رضی اللہ عنہ کو ان سے مقررہ جزیہ سالانہ وصول کرنے اور جومسلمان ہوگئے تھے ان سے اموال زکوۃ حاصل کرنے کے لیے بھیجاتھا۔

نتیجہ۔

ماقبل ذکر کی گئی آیت اور اس کے شانزول سے متعلق روایت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ  حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما حضرت فاطمة الزہراء رضی اللہ عنہا کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور ان حضرات کی فضیلت مسلم ہے اس کا کوئی منکر نہیں بلکہ کوئی کافر ہی منکر ہو گا ناکہ خلافت وامامت وعصمت اسی طرح وہ روایات جن میں صدیق اکبر اور ان کے فرزند رضی اللہ عنہم حضرت عمر اور ان کے فرزند رضی اللہ عنہم حضرت عثمان اور ان کے فرزند رضی اللہ عنھم اجمعین کی مباہلہ میں شرکت کا ذکر ہے وہ بھی بطور فضیلت ہے ناکہ بطور امامت وخلافت وعصمت تو اس آیت اور ان روایات سے شیعہ کا نظریہ عصمت آئمہ ثابت نہیں ہوتا 

شیعہ کا تیسری آیت سے استدلال 

آیة۔ 

وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی  اِبۡرٰہٖمَ  رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ ؕ قَالَ اِنِّیۡ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ  اِمَامًا  ؕ قَالَ وَ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ  ؕ قَالَ لَا یَنَالُ عَہۡدِی الظّٰلِمِیۡنَ ﴿۱۲۴﴾

ترجمہ۔ 

جب ابراہیم  ( علیہ السلام )  کو ان کے رب نے کئی کئی باتوں سے آزمایا  اور انہوں نے سب کو پورا کر دیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں تمہیں لوگوں کا امام بنا دوں گا عرض کرنے لگے میری اولاد کو  فرمایا میرا وعدہ ظالموں سے نہیں ۔  

طرزاستدلال۔

ہمارے اصحاب کا اس آیت سے استدلال کے امام و ہی ہوسکتا ہے جو معایب اور قباحتوں سے معصوم ہو اس بنیاد پر ہے کہ اللہ تعالی نے یہ نفی کی ہے کہ اس کا عہدہ جو امامت ہے کسی ظالم کو پہنچے وہ یا تو اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے یا دوسرے پر اگر یہ کہا جائےکہ ظالم ظلم کی حالت میں اس عہدہ کو نہیں پا سکتا

سوال۔

 اگر توبہ کر لے تو اس کو ظالم نہیں کہا جائے گا چنانچہ اس کا اس عہدہ کو پانا درست ہوگا؟

جواب۔

 اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ظالم اگر توبہ بھی کر لیں تب بھی وہ اس حالت سے خارج نہیں کہ آیت اس وقت اس کو شامل تھی جب وہ ظالم تھا جب یہ نفی کی کہ وہ اس کو پائے گا تو اس پر یہ حکم لگا دیا کہ وہ اس کو نہیں پا سکے گا آیت مطلق ہے ایک وقت کو چھوڑ کر کسی دوسرے وقت کے ساتھ مقید نہیں لہذا اس کو تمام اوقات پر محمول کرنا واجب ہے اور ظالم چاہے بعد میں توبہ بھی کر لے تب بھی اس کو نہیں پا سکے گا 

(مجمع البیان جلد 1 صفحه 201) 

(التبیان جلد 1 صفحه 419 )

(بحار الانوار جلد 25 صفحہ 191 )

(اصل الشیعۃ صفحه 59) 

(اعیان الشیعة جلد 1 صفحه 458)   

خلاصه استدلال۔

اہل تشیع نے دوٹوک موقف اختیارکیاہے کہ توبہ تائب کام آنےوالی نہیں ہےبلکہ جو اس حالت پر تھا اسی پر رہیے گا تو چند سوالات پیداہوتے ہیں۔

کوئی شخص پہلے شیعہ نہیں تھا پھر شیعت اختیار کی تووہ شیعہ شمار ہوگایانہیں ہوگا؟؟؟

کیا یہی نظریہ یہود کا نہیں ہے کہ جس شخص نے یہودیت اختیارکی پھر بھی اصلا یہودی نہیں ہوسکتا؟؟؟ 

ردونقد۔

١۔۔۔آیة

وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ  سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا ﴿۱۱۵﴾٪              

 جو شخص باوجود راہ ہدایت کے واضح ہو جانے کے بھی رسول   ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کے خلاف کرے اور تمام مومنوں کی راہ چھوڑ کر چلے  ہم اسے ادھر ہی متوجہ کردیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو اور دوزخ میں ڈال دیں گے   ،  وہ پہنچنے کی بہت ہی بری جگہ ہے۔

امت اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کے ساتھ غلطی سے معصوم و محفوظ ہے اور گمراہی پر اتفاق نہیں کر سکتی امت کی یہ عصمت  امام کی عصمت سے بے نیاز کر دیتی ہے لہذا اس کی عصمت نبوت کے قائم مقام ہے اب کسی کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ اس میں کچھ تبدیلی کرے اس لئے ماقبل ذکر کی جانے والی آیت میں اللہ تعالی نے مومنوں کی راہ کو رسول کی اطاعت کے ساتھ مربوط و مقرون کر دیا ہےلہذا امت کی عصمت اور گمراہی سے محفوظ رہنا جس طرح اس کا شرعی دلائل میں ذکر ہوا ہے اس شخص کی مکمل مخالفت کرتا ہے جومسلمانوں میں سے کسی ایک کی عصمت کو لازمی قرار دیتا ہے اور مجموعی طور پر مسلمانوں کے لئے اگر ان میں کوئی معصوم نہ ہو تو خطا اور غلطی کے رواں ہونے کا عقیدہ رکھتا ہے

(المنتقی مختصر صفحه 401)

٢۔۔۔آیة 

اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ عِیۡسٰی وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡنُسَ وَ ہٰرُوۡنَ وَ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ  زَبُوۡرًا ﴿۱۶۳﴾ۚ

یقیناً ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی کی ہے جیسے کہ نوح  ( علیہ السلام )  اور ان کے بعد والے نبیوں کی طرف کی اورہم نےوحی کی ابراهیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اُن کی اولاد پر اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف اور   ہم نےداؤد (  علیہ السلام )  کو زبور عطا فرمائی۔  

بلاشبہ اللہ تعالی نے ائمہ کا ذکر نہیں کیا یہ آیت شخصی امامت کے قول کو باطل کر دیتی ہے جو مخلوق کے لئے رسول کے علاوہ کسی دوسرے یعنی ائمہ کی ضرورت کو لازمی قرار دیتا ہے 

(مجموع الفتاوی جلد 19 صفحہ 66)

٣۔۔۔آیة 

قُوۡلُوۡۤا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡنَا وَ مَاۤ اُنۡزِلَ  اِلٰۤی  اِبۡرٰہٖمَ  وَ  اِسۡمٰعِیۡلَ وَ  اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ مَاۤ اُوۡتِیَ مُوۡسٰی وَ عِیۡسٰی وَ مَاۤ اُوۡتِیَ النَّبِیُّوۡنَ مِنۡ  رَّبِّہِمۡ ۚ  لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ   ۫ ۖ وَ نَحۡنُ لَہٗ مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۱۳۶﴾

 اے مسلمانوں! تم سب کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس چیز پر بھی جو ہماری طرف اتاری گئی اور جو چیز  ابراہیم ،  اسماعیل اسحاق اور یعقوب علیہم السلام اور ان کی اولاد پر اتاری گئی اور جو کچھ اللہ کی جانب سے موسیٰ اورعیسیٰ(علیہ السلام) اور دوسرے انبیاء  ( علیہ السلام  ) دیئے گئے ۔  ہم اُن میں سے کسی کے درمیان فرق نہیں کرتے ،  ہم اللہ کے فرمانبردار ہیں ۔  

عصمت آئمہ کا دعوی نبوت میں مشارکت کے ساتھ مماثلت رکھتا ہے اور معصوم کے ہر قول کی اتباع واجب ہے اس کی کسی بھی بات میں مخالفت کرنا جائز نہیں یہ انبیاء کی خصوصیت ہے ماقبل آیت میں حکم دیا گیا ہے کہ ہم کہیں جو نبیوں کو دیا گیا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں جو انبیاء لے کر آئے ہیں اس پر ایمان لانے کا حکم دیا گیا ہے اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے پس جس نے رسول کے اثبات کسی کو معصوم قرار دیا جس کے ہر قول پر ایمان لانا واجب ہو اس نے اس کو ضرور نبوت کا معنی دے دیا ہے اگرچہ لفظ نبوت نہیں بولا

(منہاج السنہ جلد 3 صفحہ 173)

۴۔۔۔آیة

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ تَنَازَعۡتُمۡ فِیۡ شَیۡءٍ فَرُدُّوۡہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوۡلِ  اِنۡ کُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ ذٰلِکَ خَیۡرٌ  وَّ  اَحۡسَنُ  تَاۡوِیۡلًا ﴿٪۵۹﴾                   

 اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالٰی کی اور فرمانبرداری کرو رسول  ( صلی اللہ علیہ و سلم )  کی اور تم میں سے اختیار والوں کی پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ اللہ تعالٰی کی طرف اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اگر تمہیں اللہ تعالٰی پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے یہ بہت بہتر ہے اور باعتبارِ انجام کے بہت اچھا ہے۔  

اللہ تعالی نے ہمیں اختلاف اور تنازعہ کے وقت کتاب و سنت کے علاوہ کسی کی طرف رجوع کرنے کا حکم نہیں دیا اگر لوگوں کے لئے رسول کے علاوہ بھی کوئی معصوم ہوتا تو ان کو اس کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا جاتا چنانچہ قرآن کریم اس حقیقت پر دلالت کرتا ہے کہ رسول کے سوا کوئی معصوم نہیں 

(منہاج السنہ جلد 2 صفحہ 105) 

۵۔۔۔آیة 

وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیۡقًا ﴿ؕ۶۹﴾

 اور جو بھی اللہ تعالٰی کی اور رسول  ( صلی اللہ علیہ وسلم  ) کی فرمانبرداری کرے وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیاہے جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ یه بهترین رفیق ہیں ۔  

٦آیة۔

اِلَّا  بَلٰغًا مِّنَ اللّٰہِ وَ رِسٰلٰتِہٖ ؕ وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ  رَسُوۡلَہٗ  فَاِنَّ  لَہٗ  نَارَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ  فِیۡہَاۤ   اَبَدًا ﴿ؕ۲۳﴾

 البتہ ( میرا کام  ) اللہ کی بات اور اس کے پیغامات  ( لوگوں کو )  پہنچا دینا ہے  ( اب )  جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نہ مانے گا اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں ایسے لوگ ہمیشہ رہیں گے ۔  

قرآن کریم نے بہت سارے مواقع پر اس بات پر دلالت کی ہے کہ جس نے رسول کی اطاعت کی وہ خوش بخت ہے اور اس میں کسی دوسرے معصوم کے اتباع کی شرط نہیں لگائی نیز یہ بھی کئی جگہ فرمایا ہے کہ جس نے رسول کی نافرمانی کی اس کے لئے دوزخ کی وعید اور دھمکی ہے چاہے وہ یہ خیال کرتا رہا ہوکہ اس نے اپنے گمان کے مطابق جس کو معصوم سمجھا اس کی اتباع  کی ہے 

نتیجہ۔

اہل علم اہلسنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ رسول کے سوا ہر شخص کا قول اپنایا بھی جاسکتا ہے اور چھوڑا بھی جا سکتا ہے مگر رسول کا نہیں اس کی  ہرخبر کی جو اس نے دی تصدیق کرنا جو حکم دیا اس کو بجا لانا جس سے منع کیا اسے رک جانا واجب اور لازم ہے نیز جو شریعت اور طریقہ آپ نے بتایا ہے اس کے مطابق ہی اللہ کی عبادت کی جاسکتی ہے کیونکہ وہی ایسا معصوم ہے جو اپنی خواہش سے نہیں بولتا بلکہ اس وحی کی پیروی کرتا ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے 

(منہاج السنہ جلد 3 صفحہ 175) 

بہت زیادہ تعداد میں سنت مطہرہ بھی اس پر دلالت کرتی ہیں ہم نے یہ چند آیات پیش کی ہیں جوکہ شیعہ کا نظریہ امامت وعصمت ائمه سے متصادم ہیں اسلام 

الاسلام بین الافراط و التفریط والا راستہ ہے نہ کہ شیعہ نظریات کی طرح تناقض تصادم تفریط افراط اور تضادات والا راستہ جو باطل تأویلات باطل استدلال اور باطل قیاس آرائیوں کی بنیاد پر گھڑا جانے والا مزہب اللہ ہم سب کو اپنے حفظ وامان میں رکھے اور ہم سب کو سمجھ عطاء کرے ۔۔۔

 واللہ اعلم ۔۔۔۔۔تمت