Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

عدالت صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کتاب و سنت کی روشنی میں

  ابو نعمان محمد ارسلان الزبیری​

عدالت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کتاب وسنت کی روشنی میں

عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اہلِ سنت کے نزدیک اعتقادی مسئلہ ہے یا یوں کہیے کہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔ وہ اپنے اس عقیدہ پر کتاب و سنت سے کئی دلائل رکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
قرآنی دلائل:
1: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لَـقَدۡ رَضِىَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ اِذۡ يُبَايِعُوۡنَكَ تَحۡتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّكِيۡنَةَ عَلَيۡهِمۡ وَاَثَابَهُمۡ فَتۡحًا قَرِيۡبًا۞
(سورۃ الفتح: آیت، 18)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کرنے والے مؤمنوں سے راضی ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے باطن کی عدالت و طہارت سے بخوبی واقف ہے، اس نے انہیں اطمینان و سکون نصیب کیا اور عنقریب فتح سے ہمکنار بھی کرے گا۔
سیدنا جابر بن عبد اللہؓ بیان فرماتے ہیں:
وکنا ألفا واربع مائۃ۔
ترجمہ: اس وقت ہم چودہ سو افراد تھے۔
(صحیح البخاری: 1453)
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی عدالت بیان کی۔ دل کی خبر صرف اللہ ہی دے سکتا اور یہ باطن کی تعدیل ہے۔ تب ہی اللہ تعالیٰ نے ان سے راضی ہونے کا اعلان فرمایا ہے۔
علامہ ابنِ حجر ہیثمیؒ کہتے ہیں:
وَمن رَضِی اللہ عَنہُ تَعَالیٰ لَا یُمکن مَوتہ علی الْکفْر لِأَن الْعبْرَۃ بالوفاۃ علی الْإِسْلَام فَلَا یَقع الرِّضَا مِنْہُ تَعَالٰی إِلَّا علی من علم مَوتہ علی الْإِسْلَام۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ جس سے اپنی رضا کا اعلان کر دے، وہ کفر پر فوت نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا اللہ کی رضا اسی کے لیے ہوگی، جو اللہ کے علم میں اسلام پر فوت ہوگا، کیوں کہ اعتبار خاتمے کا ہوتا ہے۔
(الصواعق المحرقۃ علی اہلِ الرفض والضلال والزندقۃ: جلد، 2 صفحہ، 605)
اس کی تائید اس نبویﷺ فرمان سے ہوتی ہے:
لَا یَدْخُلُ النَّارَ، إِنْ شَاء اللہُ، مِنْ أَصْحَابِ الشَّجَرَۃِ أَحَدٌ، الَّذِینَ بَایَعُوا تَحْتَہَا۔
ترجمہ: اللہ نے چاہا تو درخت کے نیچے بیعت کرنے والوں میں سے کوئی بھی جہنم میں نہیں جائے گا۔
(صحیح مسلم: 2496)
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں:
والرضی من اللہ صفۃ قدیمۃ فلا یرضی إلا عن عبد علم أنہ یوافقہ علی موجبات الرضی ومن رضی اللہ عنہ لم یسخط علیہ أبدا فکل من أخبر اللہ أنہ رضی عنہ فإنہ من أہل الجنۃ وإن کان رضاہ عنہ بعد إیمانہ وعملہ الصالح فإنہ یذکر ذلک فی معرض الثناء علیہ والمدح لہ فلو علم أنہ یتعقب ذلک ما یسخط الرب لم یکن من أہل ذلک۔ رضا
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کی صفتِ قدیمہ ہے۔ وہ اسی سے راضی ہوتا ہے، جو اس کے علم میں رضا کے تقاضوں کو پورا کرے گا۔ راضی ہونے کے بعد کبھی اس سے ناراض نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ نے جس کے متعلق اپنی رضا کی خبر دے دی، وہ پکا جنتی ہے۔ قبولِ ایمان اور عملِ صالح کے بعد اللہ کی رضا ہو تو یہ مدح و ثنا ہے۔ نیز معلوم ہوجائے کہ اس نے رضا کے بعد ایسی معصیت کا ارتکاب کیا، جو اللہ کی ناراضی کا موجب ہو ،تو وہ اس مدح کا اہل نہیں ہو گا۔
(الصارم المسلول علی شاتم الرسول: صفحہ، 572، 573)
علامہ ابنِ حزم فرماتے ہیں:
فَمن أخبرنَا اللہ عزوَجل أَنہ علم مَا فِی قُلُوبہم رَضِی اللہ عَنْہُم وَأنزل السکینَۃ عَلَیْہِم فَلَا یحل لأحد التَّوَقُّف فِی أَمرہم وَلَا الشَّک فیہم الْبَتَّۃَ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ایمان کی خبر دی، وہ ان سے راضی ہوا اور ان پر تسکین نازل کی، ان کے ایمان میں ذرا برابر شک یا توقف کی گنجائش نہیں۔
(الفصل فی الملل والاہواء والنحل: جلد، 4 صفحہ، 148)
2: فرمانِ الہٰی ہے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ ‌تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ذٰلِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنۡهُمۡ مَّغۡفِرَةً وَّاَجۡرًا عَظِيۡمًا۞
(سورۃ الفتح: آیت، 29)
ترجمہ: محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں آپ کے ساتھی (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) کفار پر انتہائی سخت اور آپس میں بے حد مہربان ہیں۔ آپ انہیں رکوع و سجدہ کی حالت میں اپنے مالک و مختار کے فضل اور رضا کے متلاشی پائیں گے۔ ان کی پیشانیوں پر سجدہ کے نشان ہیں۔ ان کی مثال تورات و انجیل میں اس کھیتی کی مانند ہے، جو انگوریاں نکال کر انہیں مضبوط و گنی کرتی ہے اور تناور ہو جاتی ہے۔ کسان کو بھلی لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے کافروں کو غیظ و غضب دلایا ہے۔ نیز اس نے مومنوں اور نیکو کاروں سے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ کر رکھا ہے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دیگر انبیاء و رسل علیہم السلام کے اصحاب سے افضل ہیں۔ امتِ محمدیہ کی آسمانی کتابوں میں عظمت بیان ہوئی ہے اور اس امت میں سب سے افضل اور اشرف رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے کتب سماوی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذکرِ خیر فرمایا ہے۔
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ذَلِکَ مَثَلُہُمْ فِي التَّوْرَاۃِ الخ۔
علامہ ابنِ الجوزیؒ فرماتے ہیں:
وہذا الوصف لجمیع الصحابۃ عند الجُمہور
ترجمہ: جمہور مفسرین کے ہاں یہ اوصاف جلیلہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں تھے۔
(زاد المسیر: جلد، 4 صفحہ 138)
3: اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
لِلۡفُقَرَآءِ الۡمُهٰجِرِيۡنَ الَّذِيۡنَ اُخۡرِجُوۡا مِنۡ دِيَارِهِمۡ وَاَمۡوَالِهِمۡ يَبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا وَّيَنۡصُرُوۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ‌ اُولٰٓئِكَ هُمُ الصّٰدِقُوۡنَ‌۞ وَالَّذِيۡنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَالۡاِيۡمَانَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ يُحِبُّوۡنَ مَنۡ هَاجَرَ اِلَيۡهِمۡ وَلَا يَجِدُوۡنَ فِىۡ صُدُوۡرِهِمۡ حَاجَةً مِّمَّاۤ اُوۡتُوۡا وَيُـؤۡثِرُوۡنَ عَلٰٓى اَنۡفُسِهِمۡ وَلَوۡ كَانَ بِهِمۡ خَصَاصَةٌ وَمَنۡ يُّوۡقَ شُحَّ نَـفۡسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ‌۞وَالَّذِيۡنَ جَآءُوۡ مِنۡ بَعۡدِهِمۡ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَـنَا وَلِاِخۡوَانِنَا الَّذِيۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِيۡمَانِ وَلَا تَجۡعَلۡ فِىۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ۞
(سورۃ الحشر: آیت 8، 9، 10)
ترجمہ:(مال فے) فقرا مہاجرین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا حق ہے، جنہیں بے گھر اور بے زر کر دیا گیا۔ وہ (صحابہ) فضل ورضائے الہیٰ کے طلبگار اور اللہ اور اس کے رسولﷺ (کے دین) کے مددگار ہیں، یہی سچے لوگ ہیں۔ (اور مال ِ فے) ان کے لئے بھی ہے، جنہوں نے ان سے قبل (مدینہ) کو مسکن بنایا اور ایمان کو دل میں راسخ کر لیا تھا۔ وہ مہاجرین سے محبت کرتے ہیں۔ ان کے شرف و فضل پر دل میں حسد نہیں رکھتے، اپنی ضرورت پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو بخل سے بچ گی، فوز و فلاح اسی کا مقدر ہے۔ ان (صحابہ) کے بعد مشرف بہ اسلام ہونے والے دعا گو رہتے ہیں، ہمارے رب! ہمیں اور ایمان میں سبقت لے جانے والے ہمارے بھائیوں کو بخش دے اور مؤمنوں کے بارے میں ہمارے دلوں میں بغض و کینہ پیدا نہ کیجئے، بلاشک تو مشفق و مہربان ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں مالِ فے کے مستحقین کی صفات و احوال بیان کیے ہیں۔ یہ تین طرح کے لوگ ہیں:
1: لِلْفُقَرَاءِ الْمُہَاجِرِین الخ۔
2: وَالَّذِینَ تَبَوَّء ُوا الدَّارَ وَالْإِیمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ الخ۔
3: وَالَّذِینَ جَاء ُوا مِنْ بَعْدِہِم الخ۔
مذکورہ بالا آیات سے عیاں ہے کہ جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سبِ و شتم کا نشانہ بنائیں، ان کا مالِ فے میں کوئی حصہ نہیں، کیونکہ ان میں وَالَّذِيۡنَ جَآءُوۡ مِنۡ بَعۡدِهِمۡ الخ
والا وصف مفقود ہے۔
سیدہ عائشہ فرماتی ہیں:
أُمِرُوا أَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِأَصْحَابِ النَّبِیﷺ فَسَبُّوہُمْ الخ۔
ترجمہ: انہیں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے استغفار کا کہا گیا تھا، لیکن وہ انہیں برا بھلا کہنے لگے۔
(صحیح مسلم: 3022)
امام ابو نعیم اصبہانیؒ فرماتے ہیں:
فَمن أَسْوَأ حَالا مِمَّن خَالف اللہ وَرَسُولہ وآب بالعصیان لَہما والمخالفۃ عَلَیْہِمَا أَلا تری أَن اللہ تَعَالَی أَمر نبیہﷺ بِأَن یعْفُو عَن أَصْحَابہ ویستغفر لَہُم ویخفض لَہُم الْجنَاح قَالَ تَعَالَی: وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ‌ فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِى الۡاَمۡرِ‌وَقَالَ: وَاخۡفِضۡ جَنَاحَكَ لِمَن اتبعک من لِلۡمُؤۡمِنِيۡنَ فَمن سبہم وأبغضہم وَحمل مَا کَانَ من تأویلہم وحروبہم علی غیر الْجَمِیل الْحسن، فَہُوَ الْعَادِل عَن أَمر اللہ تَعَالَی وتأدیبہ ووصیتہ فیہم، لَا یبسط لِسَانہ فیہم إِلَّا من سوء طویتہ فِي النَّبِیﷺ وصحابتہ وَالْإِسْلَام وَالْمُسْلِمین۔
ترجمہ: اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اس مخالف اور نافرمان سے بڑھ کر کون برا ہو سکتا ہے؟ ذرا ملاحظہ فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے در گزر، ان کے لئے استغفار اور نرم گوشہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔
فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَلَوۡ كُنۡتَ فَظًّا غَلِيۡظَ الۡقَلۡبِ لَانْفَضُّوۡا مِنۡ حَوۡلِكَ‌ فَاعۡفُ عَنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمۡ وَشَاوِرۡهُمۡ فِى الۡاَمۡرِ‌ فَاِذَا عَزَمۡتَ فَتَوَكَّلۡ عَلَى اللّٰهِ‌ اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الۡمُتَوَكِّلِيۡنَ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت 159)
ترجمہ: آپ ترش رو اور سخت دل ہوتے، تو لوگ آپ کے حلقہ بگوش نہ رہتے۔ اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے درگزر کریں، ان کے لیے مغفرت و معافی مانگیں، اہم معاملات میں ان سے مشورہ کریں۔ عزمِ مصصم کے بعد اللہ پر توکل کریں، کیونکہ اسے توکل کرنے والے بہت بھاتے ہیں۔
مزید فرمایا: وَاخۡفِضۡ جَنَاحَكَ لِمَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌۞
(سورۃ الشعراء: آیت، 215)
ترجمہ: آپ اپنے مومن متبعین کے لیے نرم گوشہ اختیار کریں۔
جس نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہا، ان سے بغض رکھا اور ان کی تاویلات اور جنگوں کو بطورِ مذمت پیش کیا، تو وہ ان کے بارہ میں اللہ کے حکم اور اس کے بیان کردہ ادب و وصیت سے عدول کر رہا ہے۔ نبی کریمﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اسلام اور اہلِ اسلام کے بارے میں زبان درازی کرتا ہے۔
(الامامۃ والرد علی الرافضۃ: صفحہ، 375، 376)
4: فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَالسّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ وَالَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِىَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَرَضُوۡا عَنۡهُ وَاَعَدَّ لَهُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ تَحۡتَهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَاۤ اَبَدًا‌ ؕ ذٰ لِكَ الۡـفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ۞
(سورۃ التوبۃ: آیت، 100)
ترجمہ: ایمان میں سبقت و اولیت حاصل کرنے والے مہاجرین و انصار اور احسان کے ساتھ ان کی پیرو ی کرنے والوں سے اللہ راضی ہے اور وہ اللہ سے راضی ہیں۔ ابد الاباد تک ان کے لیے ایسے باغات کا انتظام کیا ہے جن کے نیچے دریا جاری ہیں۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔''
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں:
فرضی عن السابقین من غیر اشتراط إحسان ولم یرض عن التابعین إلا أن یتبعوہم بإحسان۔ 
ترجمہ: سابقین کے ساتھ رضا کیلئے احسان کی کوئی شرط نہیں، جبکہ بعد والوں کیلئے رضا اتباع باحسان کے ساتھ مشروط ہے۔
(الصارم المسلول علی شاتم الرسول: صفحہ، 572)
احسان کے ساتھ اتباع و پیروی کرنے سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے راضی ہونا اور ان کیلئے استغفار کرنا بھی شامل ہے۔
5: فرمان خداوندی ہے:
لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ۞
(سورۃ الحدید: آیت، 10)
ترجمہ: فتح مکہ سے قبل خرچ اور قتال کرنے والے کے برابرکوئی نہیں ہو سکتا۔ وہ تو فتح مکہ کے بعد خرچ اور قتال کرنے والوں سے کہیں افضل ہیں۔ ہاں جنت کا وعدہ دونوں کیلئے ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے بخوبی واقف ہے۔
ثابت ہوا کہ تمام اصحاب رسولﷺ قطعی جنتی ہیں۔
6: اللہ کریم فرماتے ہیں:
لَـقَدْ تَّابَ اللّٰهُ عَلَى النَّبِىِّ وَالۡمُهٰجِرِيۡنَ وَالۡاَنۡصَارِ الَّذِيۡنَ اتَّبَعُوۡهُ فِىۡ سَاعَةِ الۡعُسۡرَةِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا كَادَ يَزِيۡغُ قُلُوۡبُ فَرِيۡقٍ مِّنۡهُمۡ ثُمَّ تَابَ عَلَيۡهِمۡ اِنَّهٗ بِهِمۡ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ۞
(سورۃ التوبۃ: آیت، 117)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے محمد کریمﷺ اور وہ مہاجرین و انصار، جو مشکل گھڑی میں آپﷺ کے وفادار ساتھی بنے، سے درگزر فرمایا۔ قریب تھا کہ بعض دل کبیدہ خاطر ہو جاتے، مگر اللہ تعالیٰ نے انتہائی شفقت و مہربانی سے انہیں بھی معاف فرما دیا۔''
غزوہِ تبوک میں خواتین اور معذوروں کے سوا تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شریک ہوئے۔ تین صحابی جو بغیر کسی شرعی عذر کے پیچھے رہ گئے، اللہ نے انہیں معاف فرما دیا۔
حدیثی دلائل:
1: سیدنا ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں:
کَانَ بَیْنَ خَالِدِ بْنِ الْوَلِیدِ، وَبَیْنَ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ عَوْفٍ شَيْء، فَسَبَّہُ خَالِدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللہِﷺ لَا تَسُبُّوا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِی، فَإِنَّ أَحَدَکُمْ لَوْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَہَبًا، مَا أَدْرَکَ مُدَّ أَحَدِہِمْ، وَلَا نَصِیفَہُ۔
ترجمہ: سیدنا خالد بن ولیدؓ اور سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے مابین تنازع ہوا، سیدنا خالد بن ولیدؓ نے سیدنا عبد الرحمٰنؓ کو نامناسب جملہ کہہ دیا۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا میرے کسی بھی صحابی پر طعن و تشنیع مت کریں، آپ کا احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرنا ان کے مٹھی بھر جو خرچ کرنے کے اجر کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
(صحیح البخاری: 3673 و صحیح مسلم: 2541 واللفظ لہ)
شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ فرماتے ہیں:
وکذلک قال الإمام أحمد وغیرہ: کل من صحب النَّبِیﷺ سنۃ أو شہرا أو یوما أو رآہ مؤمنا بہ فہو من أصحابہ لہ من الصحبۃ بقدر ذلک فإن قیل: فلم نہی خالد عن أن یسب أصحابہ إذا کان من أصحابہ أیضا؟ وقال: لو أن أحدکم أنفق مثل أحد ما بلغ مد أحدہم ولا نصیفہ قلنا لأن عبد الرحمٰن بن عوف ونظراء ہ ہم من السابقین الأولین الذین صحبوہ فی وقت کان خالد وأمثالہ یعادونہ فیہ وأنفقوا أموالہم قبل الفتح وقاتلوا وہو أعظم درجۃ من الذین أنفقوا من بعد الفتح وقاتلوا وکلا وعد اللہ الحسنی فقد انفردوا من الصحبۃ بما لم یشرکہم فیہ خالد ونظراؤہ ممن أسلم بعد الفتح الذی ہو صلح الحدیبیۃ وقاتل أن یسب أولئک الذین صحبوہ قبلہ ومن لم یصحبہ قط نسبتہ إلی من صحبہ کنسیۃ خالد إلی السابقین وأبعد۔
امام احمد بن حنبلؒ اور دیگر ائمہ محدثین رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں کہ جس نے بھی رسول اللہﷺ کی ایک سال، ایک ماہ یا ایک دن صحبت کا شرف حاصل کیا یا صرف ایمان کی حالت میں دیدار نصیب ہوا، وہ صحابی شمار ہوگا، لیکن مقدار صحبت میں فرق ہوگا۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ سیدنا خالد بن ولیدؓ کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں طعن سے منع کیا، جب کہ وہ خود بھی صحابی ہیں؟ ہمارا جواب یہ ہو گا کہ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ اور دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سابقین اولین میں سے ہیں۔ یہ تو اس وقت آپ ﷺ کے ساتھی تھے، جب سیدنا خالد بن ولیدؓ وغیرہ آپ ﷺ کے معاندین میں سے تھے۔ ان سابقین اولین نے فتح مکہ سے قبل خرچ اور قتال کیا ہے، مگر ہر ایک سے جنت کا وعدہ ہے۔ چونکہ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ وغیرہ کو شرفِ صحابیت کے ساتھ ساتھ ایک منفرد خوبی بھی حاصل ہے، جس میں سیدنا خالد بن ولیدؓ اور فتح مکہ یعنی صلح حدیبیہ کے بعد قبولِ اسلام اور قتال کرنے والے شریک نہیں ہیں، لہٰذا ان سے قبل شرفِ صحبت حاصل کرنے والوں پر طعن سے منع فرما دیا گیا۔ آپﷺ کی صحبت نہ پانے والوں کی نسبت صحبت پانے والوں کے ساتھ ویسے ہی ہے، جیسے سیدنا خالد بن ولیدؓ کی سابقین واولین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کہ ساتھ ہے۔ اسی طرح بعد والوں کی پہلوں کے ساتھ۔''
(الصارم المسلول علی شاتم الرسول: صفحہ، 576)
2: سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا عمرؓ سے فرمایا:
وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللہَ اطَّلَعَ عَلَی أَہْلِ بَدْرٍ فَقَالَ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ، فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ۔
ترجمہ: کیا آپ جانتے نہیں! اللہ تعالیٰ نے بدریوں پر جھانک کر فرمایا: جو چاہو کرو، میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔
(صحیح البخاری: 3983 و صحیح مسلم: 2494)
حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں:
قیل: الامر فی قولہ إعملوا للتکریم، وأن المراد أن کل عمل عملہ البدری لا یؤخذ بہ لھذا الوعد الصادق وقیل: المعنیٰ إن أعمالھم السیئۃ تقع مغفورۃ، فکانما لم تقع۔
ترجمہ: ایک قول کے مطابق مذکورہ حدیث میں امر (إعملوا) تکریم کے لیے ہے۔ مراد یہ ہے کہ اہلِ بدر کی ہر خطا معاف ہے۔ ایک قول میں بدریوں کی خطائیں واقع ہوتے ہی معاف کر دی گئیں، گویا کہ ان سے صادر ہی نہیں ہوئیں۔
(معرفۃ الخصال المکفرۃ: صفحہ، 31 و فتح الباری: جلد 4 صفحہ، 252)
حافظ نوویؒ فرماتے ہیں:
قَالَ الْعُلَمَاء: مَعْنَاہُ الْغُفْرَانُ لَہُمْ فِی الْآخِرَۃِ وَإِلَّا فَإِنْ تَوَجَّہَ عَلَی أَحَدٍ مِنْہُمْ حَدٌّ أَوْ غَیْرُہُ أُقِیمَ عَلَیْہِ فِی الدُّنْیَا وَنَقَلَ الْقَاضِی عِیَاضٌ الْإِجْمَاعَ عَلَی إِقَامَۃِ الْحَدِّ وَأَقَامَہُ عُمَرُ عَلَی بَعْضِہِمْ قَالَ : وَضَرَبَ النَّبِیﷺ مِسْطَحًا الْحَدَّ وَکَانَ بَدْرِیًّا۔
ترجمہ:  اہل علم کہتے ہیں کہ اس سے آخرت میں معافی مراد ہے، ورنہ بدری پر حد واجب ہو جاتی، تو دنیا میں حد قائم ہو جاتی۔ قاضی عیاض نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ سیدنا عمرؓ نے (سیدنا قدامہ بن مظعونؓ) پر حد قائم کر کے فرمایا تھا کہ رسول اللہﷺ نے بھی سیدنا مسطح بن اثاثہؓ پر باوجود بدری ہونے کے حد قائم کی تھی۔
(شرح صحیح مسلم: 56، 57، 16)
شیخ الاسلام ثانی، عالم ربانی، ابن قیم جوزیہؒ فرماتے ہیں:
وَاللہ أعلم أَن ہَذَا خطاب لقوم قد علم اللہ سُبْحَانَہُ أنّہم لَا یفارقون دینہم بل یموتون علی الْإِسْلَام وَأَنَّہُمْ قد یقارفون بعض مَا یقارفہ غَیرہم من الذُّنُوب وَلَکِن لَا یترکہم سُبْحَانَہُ مصرِّین عَلَیْہَا بل یوفّقہم لتوبۃ نصوح واستغفار وحسنات تمحو أثر ذَلِک وَیکون تخصیصہم بِہَذَا دون غَیرہم لِأَنَّہُ قد تحقق ذَلِک فیہم وَأَنَّہُمْ مغْفُور لَہُم وَلَا یمْنَع ذَلِک کَون الْمَغْفِرَۃ حصلت بِأَسْبَاب تقوم بہم کَمَا لَا یَقْتَضِي ذَلِک أَن یعطّلوا الْفَرَائِض وثوقا بالمغفرۃ فَلَو کَانَت قد حصلت بِدُونِ الِاسْتِمْرَار علی الْقیام بالأوامر لما احتاجوا بعد ذَلِک إِلَی صَلَاۃ وَلَا صِیَام وَلَا حج وَلَا زَکَاۃ وَلَا جِہَاد وَہَذَا محَال۔
ترجمہ: اللہ اعلم! یہ خطاب ان سے ہے، جو اللہ کے علم میں مرتد ہو کر فوت نہیں ہوں گے، دوسروں کی طرح ان سے بھی گناہوں کا سرزد ہونا ممکن ہے، لیکن اللہ تعالیٰ انہیں گناہ پر مصر نہیں رہنے دیتا، بلکہ سچی توبہ و استغفار یا گناہوں کو مٹا دینے والی نیکیوں کی توفیق خاص سے نوازتا ہے۔ اس طرح اہلِ بدر دوسروں سے ممتاز ہیں، کیوں کہ ان خصائل جمیلہ کی بنا پر وہ مغفور ہیں۔ یقیناً ان کی مغفرت کا موجب ان میں موجود چند اوصاف ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ فرائض کے تارک بن جائیں۔ یہ مغفرت اوامر و نواہی کے قیام کے بغیر ہی حاصل ہو جانی ہوتی، تو انہیں اس کے بعد کسی نماز، روزہ، حج، زکوۃ اور جہاد وغیرہ کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ 
(الفوائد: صفحہ، 16)
3: سیدنا عمران بن حصینؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
خیر أمتی قرنی، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، قال عمران: فلا أدريأ ذکر بعد قرنہ قرنین أو ثلاثا؟
ترجمہ: میرے امت کے بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں، پھر بعد والے، پھر ان کے بعد والے۔ سیدنا عمران بن حصینؓ فرماتے ہیں مجھے یہ ازبر نہیں کہ آپﷺ نے اپنے زمانے کے دو زمانوں کا ذکر فرمایا یا تین کا۔''
(صحیح البخاری: 3650 صحیح مسلم: 5253)
4: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
النُّجُومُ أَمَنَۃٌ لِلسَّمَاء فَإِذَا ذَہَبَتِ النُّجُومُ أَتَی السَّمَاء مَا تُوعَدُ، وَأَنَا أَمَنَۃٌ لِأَصْحَابِی، فَإِذَا ذَہَبْتُ أَتَی أَصْحَابِی مَا یُوعَدُونَ، وَأَصْحَابِی أَمَنَۃٌ لِأُمَّتِی، فَإِذَا ذَہَبَ أَصْحَابِی أَتَی أُمَّتِی مَا یُوعَدُونَ۔
ترجمہ: ستارے آسمان کی امان ہیں، جب یہ جھڑ جائیں گے، تو آسمان تباہ ہو جائے گا۔ میں آپ کی امان ہوں، میرے جانے کے بعد آپ فتنوں سے دو چار ہو جائیں گے اور میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میری امت کے لیے امان ہیں، یہ فوت ہو گئے، تو میری امت کو فتنے آن لیں گے۔
(صحیح مسلم: 2531)
5: سیدنا واثلہ بن اسقعؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
لَا تَزَالُونَ بِخَیْرٍ مَا دَامَ فِیکُمْ مَنْ رَآنِی وَصَاحَبَنِی، وَاللَّہِ لَا تَزَالُونَ بِخَیْرٍ مَا دَامَ فِیکُمْ مَنْ رَأَی مَنْ رَآنِی وَصَاحَبَ مَنْ صَاحَبَنِی۔
ترجمہ: آپ خیر پر رہیں گے، جب تک میرا کوئی صحابی حیات رہے گا۔ اللہ کی قسم! جب تک آپ میں تابعی زندہ رہے گا، خیر پر ہی رہیں گے۔
(مصنف ابنِ أبی شیبۃ: ح، 32417، السنۃ لابنِ ابی وعاصم: جلد، 2 صفحہ، 630، وسندہ، حسنٌ)
6: سیدنا انس بن مالکؓ کہتے ہیں کہ رسولِ اکرمﷺ نے فرمایا:
آیۃ الایمان حب الانصار، وآیۃ النفاق بغض الانصار۔
ترجمہ: ایمان کی علامت انصار سے محبت ہے نفاق کی علامت انصار سے بغض ہے۔
(صحیح البخاری: 17 صحیح مسلم: 74)
مزید ارشاد فرمایا: 
لَا یُحِبُّہُمْ إِلَّا مُؤْمِنٌ، وَلَا یُبْغِضُہُمْ إِلَّا مُنَافِقٌ۔
ترجمہ: ان سے مؤمن ہی محبت کرتے ہیں اور منافق ہی بغض رکھتے ہیں۔ 
(صحیح البخاری: 3783، صحیح مسلم: 75)
7: سیدنا جابر بن عبداللہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: لا تمس النار مسلما رآنی او رای من رآنی۔ 
ترجمہ: اس مسلمان کو آگ نہیں چھو سکتی، جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے (صحابی) کو دیکھا۔
(سنن الترمذی: 3858، وسندہ حسن)
مذکورہ دلائل کا خلاصہ
ذکر کردہ قرآنی و حدیثی دلائل سے مندرجہ ذیل فوائد اخذ ہو تے ہیں:
1: اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ظاہری و باطنی تزکیہ فرمایا ہے۔ مثلاً ظاہری عدالت میں اعلیٰ اخلاق حمیدہ سے متصف کرنا۔ جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
أَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَھُمْ الخ۔
(سورۃ الفتح: آیت، 29)
اور فرمایا:
وَیَنْصُرُونَ اللَّہَ وَرَسُولَہُ أُولَئِکَ ہُمُ الصَّادِقُونَ
(سورۃ الحشر: آیت، 8)
نیز اللہ کا فرمان ہے :
وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِمَّا أُوتُوا وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ
(سورۃ الحشر: آیت، 9)
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی باطنی عدالت کا معاملہ صرف اللہ علیم بذات الصدور ہی جانتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کے کھرے پن اور نیک نیتی سے ہمیں باخبر کیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے فرامین عالی شان ہیں:
1: فَعَلِمَ مَا فِی قُلُوبِہِمْ فَأَنْزَلَ السَّکِینَۃَ عَلَیْہِمْ الخ۔
(سورۃ الفتح: آیت، 18)
2: یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ الخ۔
(سورۃ الحشر: آیت 9)
3: یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّہِ وَرِضْوَانًا۔
(سورۃ الفتح: آیت، 29)
4: لَقَدْ تَابَ اللَّہُ عَلَی النَّبِی وَالْمُہَاجِرِینَ وَالْأَنْصَارِ الَّذِینَ اتَّبَعُوہُ فِی سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ۔
(سورۃ التوبۃ: آیت 117)
آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نیک نیتی اور سچی توبہ کی بنا پر گناہ بخشی فرما دی، کیونکہ توبہ دلی معاملہ ہے۔
2: اللہ تعالیٰ نے انہیں ظاہری و باطنی خوبیوں کی توفیق خاص سے نوازا ہے، اس لیے تو ان پر اپنی رضا، ان کی توبہ قبول کرنے اور ان کو جنت کی ضمانت دینے سے آگاہ کیا ہے۔
3: مذکورہ دلائل میں اللہ تعالیٰ کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے استغفار کا حکم، نبی ﷺ کا ان کی تکریم، حقوق کی حفاظت اور ان سے محبت کا حکم دینا اور ان سے بغض و عناد سے منع کرنا، بلکہ ان سے محبت کو علامت ایمان اور بغض کو علامت نفاق قرار دینا، عدالتِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا پتہ دیتا ہے۔
4: ان فضائل کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا خیرُ القرون ہونا اور اس امت کے لیے امن و امان ہونا، ایک طبعی حقیقت ہے۔ یوں امت کے لیے ان کی اقتدا واجب ہے، بل کہ جنت کا یہی واحد راستہ ہے۔ جیسا کہ سیدنا عرباض بن ساریہؓ کہتے ہیں کہ
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء المہدیین الراشدین۔
ترجمہ: میرے اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ کے طریقے کو اختیار کریں۔
(مسند احمد: 17142 سنن الترمذی: 2676، سنن ابنِ ماجۃ: 43، وسندہ، صحیحٌ)