Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل پر مشتمل 40 احادیث کا مجموعہ

  مفتی مجاہد احمد

سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل پر مشتمل 40 احادیث کا مجموعہ

 سیدنا امیرِ معاویہؓ کے عمومی و خصوصی فضائل مختصر حاشیہ آرائی کے ساتھ بیان کیے جائیں گے تاکہ ناظرین کو مدعا سمجھنے میں آسانی ہو 
1: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ جنتی لشکر کے سربراہ
 حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ: حَدَّثَنِی اللَّيْثُ: حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ خَالَتِهِ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ قَالَتْ: نَامَ النَّبِیُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا قَرِيبًا مِنِّی ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَتَبَسَّمُ فَقُلْتُ: مَا أَضْحَكَكَ قَالَ: أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِی عُرِضُوا عَلَیَّ يَرْكَبُونَ هَذَا الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ قَالَتْ: فَادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِی مِنْهُمْ فَدَعَا لَهَا ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ فَفَعَلَ مِثْلَهَا فَقَالَتْ مِثْلَ قَوْلِهَا فَأَجَابَهَا مِثْلَهَا فَقَالَتِ: ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِی مِنْهُمْ فَقَالَ: أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ. فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِيًا أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ ‌مَعَ ‌مُعَاوِيَةَ فَلَمَّا انْصَرَفُوا مِنْ غَزْوِهِمْ قَافِلِينَ فَنَزَلُوا الشَّأْمَ فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْكَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ۔
(صحيح البخاری: جلد، 4 صفحہ، 18 حدیث نمبر: 2799)
ترجمہ: ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، ان سے محمد بن یحییٰ بن حبان نے اور ان سے سیدنا انس بن مالکؓ نے اور ان سے ان کی خالہ سیدہ اُم حرام بنتِ ملحان نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریمﷺ میرے قریب ہی سو گئے۔ پھر جب آپﷺ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے، میں نے عرض کیا کہ آپﷺ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کیے گئے جو غزوہ کرنے کے لیے اس بہتے دریا پر سوار ہو کر جا رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر چڑھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آپﷺ میرے لیے بھی دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے۔ آپﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ پھر دوبارہ آپﷺ سو گئے اور پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی کہا (بیدار ہوتے ہوئے مسکرائے) اُم حرامؓ نے پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی عرض کی اور آپﷺ نے وہی جواب دیا۔ اُم حرامؓ نے عرض کیا آپﷺ دعا کر دیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے تو آپﷺ نے فرمایا تم سب سے پہلے لشکر کے ساتھ ہو گی چناچہ وہ اپنے شوہر سیدنا عبادہ بن صامتؓ کے ساتھ مسلمانوں کے سب سے پہلے بحری بیڑے میں شریک ہوئیں جس کی سربراہی سیدنا امیرِ معاویہؓ کر رہے تھے غزوہ سے لوٹتے وقت جب شام کے ساحل پر لشکر اترا تو سیدہ اُم حرامؓ کے قریب ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہو جائیں لیکن جانور نے انہیں گرا دیا اور اسی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ 
2: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا
حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِیُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ قَالَ حَدَّثَنِی ابْنُ جَابِرٍ قَالَ حَدَّثَنِی عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِی أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ قَالَ عُمَيْرٌ فَقَالَ مَالِكُ بْنُ ‌يُخَامِرَ قَالَ مُعَاذٌ وَهُمْ ‌بِالشَّأْمِ فَقَالَ مُعَاوِيَةُ هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا يَقُولُ وَهُمْ ‌بِالشَّأْمِ۔
(صحيح البخاری: جلد، 4 صفحہ، 207 حدیث نمبر:3641)
ترجمہ: ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن جابر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا اور انہوں نے سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسولﷺ سے سنا تھا۔ آپﷺ فرما رہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت پر رہیں گے۔ عمیر نے بیان کیا کہ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ سیدنا معاذ بن جبلؓ نے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں یہ لوگ شام میں ہیں۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کہا کہ دیکھو یہ مالک بن یخامر یہاں موجود ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے سیدنا معاذ بن جبلؓ سے سنا کہ یہ لوگ شام کے ملک میں ہیں۔ 
(اس حدیث سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے گروپ کا حق پر ہونا ثابت ہوا) 
3: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے حق پر ہونے کی حضور اکرمﷺ کی گواہی
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا دَاوُدُ، عَنْ أَبِی نَضْرَةَ، عَنْ أَبِی سَعِيدٍ الْخُدْرِیِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: تَمْرُقُ مَارِقَةٌ فِی فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ فَيَلِی قَتْلَهُمْ أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقّ
(صحيح مسلم: جلد، 3 صفحہ، 113 حدیث نمبر: 2459)
ترجمہ: ابوربیع زہرانی، قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، قتادہ، ابو نضرہ، حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت میں دو گروہ ہو جائیں گے تو ان میں سے تیسرا مارقہ (یعنی خوارج کا گروہ) نکلے گا ان خوارج سے وہ گروہ جہاد کرے گا جو حق کے زیادہ قریب ہو گا۔ 
(یعنی سیدنا علیؓ حق کے زیادہ قریب تھے اور سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا گروہ بھی حق پر تھا) 
ایک ضروری وضاحت
چودہ سو سال کے تمام اہلِ سنت محدثین، مؤرخین، فقہاء محققین اور اصولیین کا اس بات پر اجماع ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضورﷺ کی موجودگی میں ایمان قبول کیا اور تا دمِ حیات ایمان پر ثابت قدم رہے۔ 
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے قرآن و سنت میں جتنے فضائل و مناقب وارد ہوئے ہیں دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرح سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی بالاجماع ان تمام مناقب و فضائل کے کامل طور پر حقدار ہیں ۔ 
4: فضیلت حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بحیثیتِ قریشی
سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ قبیلہ قریش کی مشہور شاخ بنو اُمیہ کے چشم و چراغ ہیں، 
آپؓ کا سلسلہ نسب یہ ہے:
 معاویہ بن ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبدِ شمس بن عبدِ مناف بن قصی 
پانچویں پشت میں جا کر سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا شجرہ نسب حضورﷺ کے ساتھ مل جاتا ہے۔
 ایک اصولی ضابطہ ہے کہ قبیلہ قریش کے جو مناقب بیان کیے گئے ہیں اس میں وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی داخل ہیں جو خاندانِ قریش کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کا تعلق بھی خاندانِ قریش کے ساتھ تھا۔ 
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِی وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْمٍ ، جَمِيعًا عَنِ الْوَلِيدِ، قَالَ ابْنُ مِهْرَانَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِی، عَنْ أَبِی عَمَّارٍ شَدَّادٍ أَنَّهُ سَمِعَ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: إِنَّ اللّٰهَ ‌اصْطَفٰى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِی هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِی مِنْ بَنِی هَاشِم۔
(صحيح مسلم: جلد، 7 صفحہ، 58 حدیث نمبر: 5938)
ترجمہ: محمد بن مہران رازی محمد بن عبدالرحمٰن بن سہم ولید ابنِ مہران ولید بن مسلم، اوزاعی ابی عمار شداد، حضرت واثلہ بن اسقعؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا اور قریش کو کنانہ میں سے چنا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو چنا اور پھر بنی ہاشم میں سے مجھے چنا۔
5: فضیلت سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بحیثیتِ صحابی رسولﷺ
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ: حَدَّثَنَا الْمُعَافَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِی مُلَيْكَةَ قَالَ:أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ الْعِشَاءِ بِرَكْعَةٍ، وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: دَعْهُ فَإِنَّهُ ‌صَحِبَ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم.
(صحيح البخاری: جلد، 5 صفحہ، 28 حدیث نمبر: 3764)
ترجمہ: کہا ہم سے حسن بن بشیر نے بیان کیا، ان سے عثمان بن اسود نے اور ان سے ابنِ ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے عشاء کے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی وہیں سیدنا ابنِ عباسؓ کے مولیٰ (کریب) بھی موجود تھے، جب وہ ابنِ عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (سیدنا امیرِ معاویہؓ کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا) اس پر انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ رسولﷺ کے صحابی ہیں۔
6: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ اُم المومنین سیدہ اُم حبیبہؓ کے بھائی اور مومنوں کے ماموں ہیں
سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی حضورﷺ سے سب سے مشہور اور قریبی رشتہ داری یہ ہے کہ آپؓ اُم المؤمنین سیدہ اُم حبیبہؓ کے حقیقی بھائی ہیں، اور خبر قرآنی کے مطابق سیدہ اُم حبیبہؓ تمام مسلمانوں کی ماں ہیں، اسی وجہ سے محدث اور فقیہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو خال المؤمنین (تمام مسلمانوں کے ماموں) کا لقب عنایت فرمایا ہے
أَخْبَرَنِی أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَطَرٍ، وَزَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، أَنَّ أَبَا طَالِبٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِاللّٰهِ: أَقُولُ: ‌مُعَاوِيَةُ ‌خَالُ ‌الْمُؤْمِنِينَ؟ وَابْنُ عُمَرَ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ، مُعَاوِيَةُ أَخُو أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِی سُفْيَانَ، زَوْجِ النَّبِی صلى الله عليه وسلم وَرَحِمَهُمَا، وَابْنُ عُمَرَ أَخُو حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِی صلى الله عليه وسلم وَرَحِمَهُمَا، قُلْتُ: أَقُولُ: ‌مُعَاوِيَةُ ‌خَالُ ‌الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ" 
(السنة لأبی بكر بن الخلال: جلد، 2 صفحہ، 433 اسنادہ صحیح)
 ترجمہ: ابو طالب نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا میں یہ کہتا ہوں کہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا عبداللہ بن عمرؓ مؤمنین کے ماموں ہیں کیا یہ بات درست ہے؟ تو امام احمد بن حنبلؒ نے ارشاد فرمایا جی ہاں سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سیدہ اُم حبیبہؓ جو حضورﷺ کی زوجہ ہیں کے حقیقی بھائی ہیں اور سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سیدہ حفصہؓ کے حقیقی بھائی ہیں پھر اس شخص نے کہا کہ کیا میں سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو مؤمنین کا ماموں کہہ سکتا ہوں تو امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا بالکل کہہ سکتے ہیں۔
7: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو جنت میں حضورﷺ کی رفاقت نصیب ہو گی۔
أخبرنی أحمد بن جعفر القطيعی، ثنا عبدالله بن أحمد بن حنبل، حدثنی أبی، ثنا أبو سعيد، مولى بنی هاشم، ثنا عبدالله بن جعفر، حدثتنا أم بكر بنت المسور بن مخرمة، عن عبيدالله بن أبی رافع، عن المسور، أنه بعث إليه حسن بن حسن يخطب ابنته، فقال له: قل له فليقانی فی العتمة، قال: فلقيه فحمد الله المسور وأثنى عليه ثم قال: أما بعد، وايم الله ما من نسب ولا سبب ولا صهر أحب إلی من نسبكم و سببكم و صهركم، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاطمة بضعة منی يقبضنی ما يقبضها ويبسطنی ما يبسطها، وإن الأنساب يوم القيامة تنقطع غير نسبی وسببی ‌وصهری وعندك ابنتها ولو زوجتك لقبضها ذلك فانطلق عاذرا له هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه 
(المستدرك على الصحيحين: جلد، 3 صفحہ، 127 التعليق من تلخيص الذهبی: حدیث، 4747 - صحيح)
ترجمہ: "حضرت مسورؓ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا حسن بن حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے ان کی بیٹی کا رشتہ کے لیے پیغام بھیجا، انہوں نے جواباً کہا: ان سے کہئے گا کہ وہ مجھے عشاء کے وقت مل لیں، چنانچہ حضرت حسن بن حسنؓ عشاء کے وقت ان سے ملاقات کے لیے گئے حضرت مسورؓ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد بولے: خدا کی قسم! تمہارے نسب تمہارے سبب اور تمہارے ساتھ رشتہ داری سے بڑھ کر میری نظر میں کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے، لیکن رسولﷺ نے فرمایا ہے"فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے اس کی تکلیف سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور اس کی خوشی سے مجھے خوشی ہوتی ہے۔ اور قیامت کے دن تمام نسب ختم ہو جائیں گے سوائے میری نسبی رشتہ داری، میری سببی رشتہ داری اور میری سسرالی رشتہ داری کے۔ جبکہ تمہارے ہاں پہلے سے ان کی صاحبزادی موجود ہے اگر میں اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کر دیتا ہوں تو یہ چیز اس سید زادی کو تکلیف دے گی۔ یہ کہہ کر انہوں نے معذرت کر لی ۔
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اس کو نقل نہیں کیا۔"
سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس فضیلت میں یقینی طور پر داخل ہیں ان کو بھی جنت میں رسولﷺ کی رفاقت نصیب ہو گی کیونکہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی حضورﷺ کے سسرال والوں میں سے ہیں 
8: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہنے کی ممانعت
حدثنا علی بن حمشاذ العدل، ثنا بشر بن موسىٰ، ثنا الحميدی، ثنا محمد بن طلحة التيمی، حدثنی عبد الرحمٰن بن سالم بن عتبة بن عويم بن ساعدة، عن أبيه، عن جده، عن عويم بن ساعدة، رضی الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن الله تبارك و تعالىٰ ‌اختارنی واختار بی أصحابا فجعل لی منهم وزراء وأنصارا وأصهارا، فمن سبهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه 
(المستدرك على الصحيحين: جلد، 3 صفحہ، 732 التعليق من تلخيص الذهبی: حدیث: 6656 صحيح)
ترجمہ: حضرت عویم بن ساعدہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے میرا انتخاب فرمایا اور میرے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو چنا اور ان میں سے میرے وزیر بنائے، میرے مددگار بنائے، میرے سسرالی رشتہ دار بنائے، جس نے میرے ان تعلق داروں کو گالی دی، اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی عمل قبول ہو گا نہ اس کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی۔
 یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اس کو نقل نہیں کیا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کے سسرالی خاندان والوں کو برا بھلا کہنے والے پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور سیدنا امیرِ معاویہؓ بھی اسی خاندان کے فرد ہیں۔ 
9: سیدنا امیرِ معاویہؓ سے بغض کفر کی علامت ہے 
بَابُ الْقُولِ فِی أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم وَعَلَى آلِهِ وَرَضِی عَنْهُمْ قَالَ اللّٰهُ تبارك وتعالىٰ مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰهِ‌ وَالَّذِيۡنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الۡكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيۡنَهُمۡ تَرٰٮهُمۡ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضۡوَانًا‌ سِيۡمَاهُمۡ فِىۡ وُجُوۡهِهِمۡ مِّنۡ اَثَرِ السُّجُوۡدِ‌ ذٰ لِكَ مَثَلُهُمۡ فِى التَّوۡرٰٮةِ وَمَثَلُهُمۡ فِى الۡاِنۡجِيۡلِ كَزَرۡعٍ اَخۡرَجَ شَطْئَـهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسۡتَغۡلَظَ فَاسۡتَوٰى عَلٰى سُوۡقِهٖ يُعۡجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَـغِيۡظَ بِهِمُ الۡكُفَّارَ‌
 (سورۃ الفتح: آیت، 29)
ترجمہ: محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں (اور) آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہو گئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔ 
قرآن مقدس کی اس آیت کے بالکل آخری حصہ کو غور سے پڑھیں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جلنا اور بغض رکھنا یہ کافروں کے نشانی ہے۔ 
یہ حکم جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے اور سیدنا امیرِ معاویہؓ بھی اس میں داخل ہیں۔
10: سیدنا امیرِ معاویہؓ سے محبت رسولﷺ کے ساتھ محبت کے مترادف ہے۔
 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِی رَائِطَةَ، عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِاللّٰهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم اللّٰهَ اللّٰهَ فِی أَصْحَابِی، لَا ‌تَتَّخِذُوهُمْ ‌غَرَضًا ‌بَعْدِی، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّی أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِی أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِی، وَمَنْ آذَانِی فَقَدْ آذَى اللّٰهَ، وَمَنْ آذَى اللّٰهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ
(سنن الترمذی: جلد، 5 صفحہ، 696 حدیث نمبر: 3862)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذاء پہنچائی اور جس نے مجھے ایذاء پہنچائی اس نے اللہ کو ایذاء دی، اور جس نے اللہ کو ایذاء دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے ۔
یہ حدیث بھی جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے سیدنا امیرِ معاویہؓ بھی اس کے عموم میں داخل ہیں۔ 
نوٹ: اگرچہ بعض محدثین نے اس حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے مگر دیگر محدثین نے اس کو صحیح بھی قرار دیا ہے۔ اس کے متن پر منکر ہونے کا حکم کسی نے بھی نہیں لگایا اس کے متن کی تائید قرآن و سنت سے ہوتی ہے۔
11: سیدنا امیرِ معاویہؓ بحیثیتِ فقیہ اور مجتہد
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِی مَرْيَمَ: حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ: حَدَّثَنِی ابْنُ أَبِی مُلَيْكَةَ: قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: هَلْ لَكَ فِی أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ، فَإِنَّهُ مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ؟ قَالَ: إِنَّهُ فَقِيهٌ
(صحيح البخاری: جلد، 5 صفحہ، 28 حدیث نمبر: 3765)
ترجمہ: ہم سے ابنِ ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابنِ ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ سیدنا عبداللہ بن عباسؓ سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین سیدنا امیرِ معاویہؓ کے متعلق آپؓ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں۔ 
12: سیدنا عباسؓ کاتبِ وحی 
حدثنی عباس بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِیُّ وَ أَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ المعقری. قالا: حدثنا النضر (وهو ابن محمد اليمامی) حدثنا عكرمة حدثنا أبو زميل حدثنيی ابنِ عباس قال:كان المسلمون لا ينظرون إلى أبی سفيان ولا يقاعدونه فقال للنبی صلى الله عليه وسلم: يا نبی الله! ثلاث أعطنيهن. قال "نعم" قال: عندی أحسن العرب و أجمله، أم حبيبة بنت أبی سفيان، أزوجكها قال "نعم" قال: و معاوية، تجعله ‌كاتبا بين يديك قال "نعم" قال: وتؤمرنی حتى أقاتل الكفار، كما كنت أقاتل المسلمين. قال"نعم
(صحيح مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1945 عبد الباقی حدیث نمبر: 6409)
ترجمہ: عباس بن عبدالعظیم عنبر احمد بن جعفر معقری نضر ابنِ محمد یمامی عکرمہ ابو زمیل حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ مسلمان نہ تو سیدنا ابوسفیانؓ کی طرف دیکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس بیٹھتے تھے۔ تو حضرت ابوسفیانؓ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے نبیﷺ تین باتیں مجھے عطا فرمائیں آپﷺ نے فرمایا: جی ہاں! بتاؤ۔ عرض کیا: میری بیٹی سیدہ اُم حبیبہ بنتِ ابوسفیانؓ اہلِ عرب سے حسین و جمیل ہیں میں اس کا نکاح آپﷺ سے کرتا ہوں آپﷺ نے فرمایا: بہتر عرض کیا اور معاویہؓ کو اپنے لیے کاتبِ وحی مقرر کر لیں آپﷺ نے فرمایا: بہتر آپﷺ مجھے حکم دیں کہ میں کفار سے لڑتا رہوں جیسا کہ میں مسلمانوں سے لڑتا تھا آپﷺ نے فرمایا بہتر ابوزمیل نے کہا اگر یہ خود نبی کریمﷺ سے ان باتوں کا مطالبہ نہ کرتے تو آپﷺ یہ کام نہ فرماتے کیونکہ آپﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپﷺ سے جس بھی چیز کا مطالبہ کیا جاتا تو آپﷺ اس کے جواب میں ہاں ہی فرماتے تھے۔ 
سیدنا امیرِ معاویہؓ کے کاتبِ وحی ہونے پر دیگر روایات بھی موجود ہیں اختصار کے پیشِ نظر صرف ایک بیان کی گئی ہے۔
13: سیدہ ام حبیبہؓ کا سیدنا امیرِ معاویہؓ سے محبت کا اظہار
 حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلی وحجاج بن الشاعر واللفظ لحجاج- (قال إسحاق: أخبرنا وقال حجاج: حَدَّثَنَا) عَبْدُ الرَّزَّاقِ أَخْبَرَنَا الثَّوْرِی عَنْ عَلْقَمَةَ بن مرثد، عن المغيرة بن عبد الله اليشكری، عن معرور بن سويد، عن عبد الله بن مسعود قال: قالت أم حبيبة: اللهم! ‌متعنی ‌بزوجی، ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم وبأبی، أبی سفيان وبأخی معاوية فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم "إنك سألت الله لآجال مضروبة، وآثار موطوءة، وأرزاق مقسومة لا يعجل شيئا منها قبل حله ولا يؤخر منها شيئا بعد حله ولو سألت الله أن يعافيك من عذاب فی النار، وعذاب فی القبر، لكان خيرا لك".
(صحيح مسلم: جلد، 4 صفحہ، 2051 عبد الباقی، حدیث نمبر: 6770)
ترجمہ: سیدنا ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابی بکر وکیع، مسعر علقمہ بن مرثد مغیرہ بن عبداللہ یشکری معرور بن سوید حضرت عبداللہؓ سے روایت ہے کہ زوجہ نبی اکرمﷺ سیدہ اُم حبیبہؓ نے کہا اے اللہ مجھے اپنے خاوند رسول اللہﷺ اور والد سیدنا ابوسفیانؓ اور بھائی سیدنا امیرِ معاویہؓ سے متمتمع کرنا نبی کریمﷺ نے فرمایا تو نے اللہ سے مقرر شدہ اوقات و ایام اور تقسیم شدہ رزق کا سوال کیا ان میں سے کسی چیز کو وقت مقرر سے مقدم اور مؤخر نہیں کیا جاتا اور اگر تو اللہ سے سوال کرتی کہ وہ تجھے جہنم کے عذاب یا قبر کے عذاب سے پناہ دے تو وہ بہتر اور افضل ہوتا۔ 
14: سیدنا امیرِ معاویہؓ اللہ کی رحمت کے حقدار ہیں۔
 حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِی (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى قَالَا: حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِی حَمْزَةَ الْقَصَّابِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ: فَجَاءَ فَحَطَأَنِی حَطْأَةً وَقَالَ: اذْهَبْ وَادْعُ لِی مُعَاوِيَةَ قَالَ: فَجِئْتُ فَقُلْتُ: هُوَ يَأْكُلُ قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِیَ: اذْهَبْ فَادْعُ لِی مُعَاوِيَةَ قَالَ: فَجِئْتُ فَقُلْتُ: هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ: لَا ‌أَشْبَعَ اللهُ بَطْنَهُ قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: قُلْتُ لِأُمَيَّةَ: مَا حَطَأَنِی؟ قَالَ: قَفَدَنِی قَفْدَةً 
(صحيح مسلم: جلد، 8 صفحہ، 27 حدیث نمبر، 2628)
کتاب: صلہ رحمی کا بیان
باب: نبیﷺ کا ایسے آدمی پر لعنت کرنا یا اس کے خلاف دعا فرمانا حالانکہ وہ اس کا مستحق نہ ہو تو وہ ایسے آدمی کے لیے اجر اور رحمت ہے
ترجمہ: محمد بن مثنی، عنبری ابنِ بشار ابنِ مثنی امیہ بن خالد شعبہ، ابی حمزہ قصاب حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہﷺ تشریف لے آئے تو میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھے میرے دونوں کندھوں کے درمیان تھپکی دی اور فرمایا جاؤ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو بلا کر لاؤ سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ میں آیا اور پھر میں نے عرض کیا وہ (کھانا) کھا رہے ہیں حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ پھر آپﷺ نے مجھے فرمایا جاؤ حضرت امیرِ معاویہؓ کو بلا کر لاؤ سیدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پھر آ کر عرض کیا وہ کھانا کھا رہے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ابن المثنی نے کہا میں نے امیہ سے کہا حطانی کیا ہے انہوں نے کہا تھپکی دینا۔
سیّدنا امیرِ معاویہؓ چونکہ اس بددعا کے مستحق نہیں تھے جیسے کہ شارحِ حدیث نے لکھا ہے اس لیے ان کا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہونا ثابت ہوا۔
15: سیدنا امیرِ معاویہؓ کا حضور اکرمﷺ کے بال مبارک کاٹنا 
وَحَدَّثَنِی مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، حَدَّثَنِی الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِی سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ قَالَ: قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم ‌بِمِشْقَصٍ وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ، أَوْ رَأَيْتُهُ يُقَصَّرُ عَنْهُ ‌بِمِشْقَصٍ، وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ 
(صحيح مسلم: جلد، 4 صفحہ، 58 حدیث نمبر: 3022)
ترجمہ: محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابنِ جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، سیدنا ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہ بن ابی سفیانؓ نے انہیں خبر دی فرمایا کہ میں نے رسولﷺ کے بال مروہ پر تیر کے پیکان سے کاٹے یا کہا کہ میں نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ مروہ پر تیر کے پیکان سے بال کٹوا رہے ہیں۔
16: حضورﷺ کا سیدنا امیرِ معاویہؓ کے لیے ہادی ہونے کی دعا کرنا
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ العَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِی عُمَيْرَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ النَّبِیِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: اللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ ‌هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ
(سنن الترمذی: جلد، 5 صفحہ، 687 حكم الألبانی: حدیث نمبر: 3842، تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف تحفة الأشراف: صفحہ، 9708 صحیح) 
کتاب: مناقب کا بیان
باب: سیدنا امیرِ معاویہ بن ابی سفیانؓ کے مناقب
ترجمہ: صحابی رسول سیدنا عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بارے میں فرمایا: اے اللہ! تو معاویہؓ کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے 
امام ترمذیؒ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔   
17: سیدنا امیرِ معاویہؓ کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کرنا چاہیئے 
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِی قال: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِی إِدْرِيسَ الخَوْلَانِی، قَالَ: لَمَّا عَزَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ حِمْصَ وَلَّى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ النَّاسُ: عَزَلَ عُمَيْرًا وَوَلَّى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ عُمَيْرٌ: لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: اللّٰهُمَّ اهْدِ بِهِ هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ
(سنن الترمذی: جلد، 5 صفحہ، 687 حكم الألبانی: صحيح لغيره حدیث نمبر: 3843)
کتاب: مناقب کا بیان
باب: حضرت امیرِ معاویہ بن ابی سفیانؓ کے مناقب
ترجمہ: ابو ادریس خولانی کہتے ہیں کہ جب سیدنا عمر بن خطابؓ نے سیدنا عمیر بن سعدؓ کو حمص سے معزول کیا اور ان کی جگہ سیدنا امیرِ معاویہؓ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا: انہوں نے سیدنا عمیرؓ کو معزول کر دیا اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کو والی بنایا، تو سیدنا عمیرؓ نے کہا: تم لوگ سیدنا امیرِ معاویہؓ کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللهم اهد به اے اللہ! ان کے ذریعہ ہدایت دے۔
18: سیدنا امیرِ معاویہؓ کی حکومت رحمتِ الہٰی تھی
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم: أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَ رَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَ رَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَ رَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَ رَحْمَةً، رَوَاهُ الطَّبَرَانِی وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ
(مجمع الزوائد و منبع الفوائد: جلد، 5 صفحہ، 189)
ترجمہ: رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا یہ معاملہ (یعنی خلافت کا) پہلے نبوت اور رحمت کے ساتھ شروع ہو گا پھر خلافت اور رحمت ہو گی پھر ملوکیت اور رحمت ہو گی پھر امارت اور رحمت ہو گی۔  
اس حدیث سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی حکومت رحمت والی ثابت ہوتی ہے۔ 
19: سیدنا امیرِ معاویہؓ پر سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا اعتماد
 أخبرَنا أبو الحُسَينِ ابنُ الفَضلِ القَطّانُ، أخبرَنا عبدُاللّٰهِ بنُ جَعفَرٍ، حدثنا يَعقوبُ بنُ سُفيانَ، حدثنا سُلَيمانُ، حدثنا عُمَرُ بنُ علىِّ بنِ مُقَدَّمٍ، عن هِشامِ بنِ عُروةَ، عن أبيه قال: دَخَلتُ على مُعاويَةَ فقالَ لِى: ما فعَلَ المَسلولُ؟ قال: قُلتُ: هو عِندِى. فقالَ: أنا واللّٰهِ خَطَطتُه بيَدِى: أقطَعَ أبو بكرٍ الزُّبَيرَ أرضًا. فكُنتُ أكتُبُها. قال: فجاءَ عُمَرُ، فأخَذَ أبو بكرٍ يَعنِى الكِتابَ فأدخَلَه فی ثِنی الفِراشِ، فدَخَلَ عُمَرُ فقالَ: كأنَّكُم على حاجَة فقالَ أبو بكرٍ: نَعَم. فخَرَجَ، فأخرَجَ أبو بكرٍ الكِتابَ ‌فأتمَمتُه 
(السنن الكبير للبيہقی: جلد، 12 صفحہ، 211 ت التركی)
ترجمہ: عروہ کہتے ہیں: میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے مجھ سے پوچھا خفیہ طور پر الاٹ کی ہوئی جائیداد کا کیا ہوا؟ میں نے کہا: وہ میرے پاس موجود ہے۔ یہ سن کر سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کہا: بخدا میں نے ہی اس زمین کو ایکوائر کیا تھا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا زبیرؓ کو بطور جاگیر عطا کی تھی اور میں اس کی کاغذی کارروائی مکمل کر رہا تھا کہ اس دوران سیدنا عمر فاروقؓ تشریف لائے، انہیں دیکھ کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس زمینی دستاویز کو اپنے بستر کے نیچے دبا دیا۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے اندر آتے ہی پوچھا: تم لوگ کسی ضروری کام میں مشغول تھے؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا:جی ہاں یہ سن کر سیدنا عمر فاروقؓ چلے گئے ان کے چلے جانے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے تحریری دستاویز دوبارہ نکالی۔ پھر میں نے اسے مکمل کیا۔ 
 سیدنا عمر فاروقؓ کا سیدنا امیرِ معاویہؓ کو مصلح امت قرار دینا 
 قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ الْأَزْرَقِی، وَالْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ الْأَغَرِّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِی، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، دَخَلَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَعَزَّاهُ عُمَرُ بِابْنِهِ يَزِيدَ بْنِ أَبِی سُفْيَانَ. قَالَ: آجَرَكَ اللّٰهُ فِی ابْنِكَ يَا أَبَا سُفْيَانَ، فَقَالَ: أَیُّ بَنِیِّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: يَزِيدُ بْنُ أَبِی سُفْيَانَ قَالَ: فَمَنْ بَعَثْتَ عَلَى عَمَلِهِ؟ قَالَ: مُعَاوِيَةَ أَخَاهُ وَقَالَ عُمَرُ: إِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَنَا أَنْ ‌نَنْزِعَ ‌مُصْلِحًا رواتہ ثقات الا انہ منقطع 
(الطبقات الكبرىٰ، متمم الصحابة، الطبقة الرابعة: جلد، 1 صفحہ، 113)
ترجمہ: سیدنا ابوسفیانؓ سیدنا عمر فاروقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے سیدنا عمر فاروقؓ نے یزید بن ابی سفیان کے بارے میں سیدنا ابوسفیانؓ سے تعزیت کی اور فرمایا: اے سیدنا ابوسفیانؓ، اللہ تیرے بیٹے کے صدمہ پر تجھے اجر عطا فرمائے، سیدنا ابوسفیانؓ نے کہا: امیر المؤمنین کس بیٹے کی بات کر رہے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: یزید کی، سیدنا ابوسفیانؓ نے کہا: پھر یزید کی جگہ نے پھر آپؓ نے کسے والی بنا کر بھیجا ہے؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اس کے بھائی سیدنا امیرِ معاویہؓ کو، اور فرمایا: ہم کسی مصلح سے منازعت کو حلال نہیں سمجھتے۔ یعنی کسی مصلح اور قابل کو ہم آگے ہی بڑھاتے ہیں پیچھے نہیں کھینچتے ہیں 
فائدہ: سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کو مصلح امت قرار دیا ہے۔ 
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ پر کتنا اعتماد کرتے تھے۔ 
21: سیدنا علیؓ کی زبانی سیدنا امیرِ معاویہؓ کا ذکرِ خیر ہے  
 أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِی، عَنِ الْحَارِثِ، قَالَ: لَمَّا رَجَعَ عَلِی مِنْ صِفِّينَ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ أَبَدًا، فَتَكَلَّمَ بِأَشْيَاءَ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَا، وَحَدَّثَ بِأَحَادِيثَ كَانَ لَا يَتَحَدَّثُ بِهَا، فَقَالَ فِيمَا يَقُولُ: أَيُّهَا النَّاسُ، لَا ‌تَكْرَهُوا ‌إِمَارَةَ ‌مُعَاوِيَةَ، وَاللّٰهِ لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُوهُ لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْدُرُ مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ سند حسن
(مصنف ابنِ أبی شيبة: جلد، 7 صفحہ، 548 ت الحوت)
 ترجمہ: سیدنا علیؓ نے فرمایا: اے لوگو! سیدنا امیرِ معاویہؓ کی حکومت کو برا نہ سمجھو، بخدا جب وہ تم میں نہیں ہوں گے تو تم سروں کو گردنوں سے اس طرح الگ ہوتے دیکھو گے جیسے حنظل (اندرائن) کو اس کی بیل سے توڑ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔
22: سیدنا حسنؓ کا سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ساتھ صلح کرنا 
حَدَّثَنِی عَبْدُاللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِی عَنْ أَبِی مُوسَى عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِی بَكْرَةَ رضی الله عنه أَخْرَجَ النَّبِیُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الْحَسَنَ فَصَعِدَ بِهِ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ ‌ابْنِی هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ أَنْ ‌يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ
(صحيح البخاری: جلد، 4 صفحہ، 204 حدیث نمبر: 3629)
کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان
باب: نبی کریمﷺ کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان
ترجمہ: مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسین جعفی نے بیان کیا، ان سے ابو موسیٰ نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے سیدنا ابوبکرؓ نے کہ نبی کریمﷺ سیدنا حسنؓ کو ایک دن ساتھ لے کر باہر تشریف لائے اور منبر پر ان کو لے کر چڑھ گئے پھر فرمایا میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔ 
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سیدنا حسنؓ نے امرِ خلافت سیدنا امیرِ معاویہؓ کو سپرد کر دیا تھا اور فریقین کی صلح ہو گئی تھی۔
23: سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا اپنی عمر سیدنا امیرِ معاویہؓ کو دینے کی دعا
حَدَّثَنَا أَبُو مُوسىٰ، وَهِلَالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَثْمَةَ، أَخْبَرَنِی سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، أَخْبَرَنِی عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِی عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: مَا زَالَ بِی مَا رَأَيْتُ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ فِی الْفِتْنَةِ، حَتَّى إِنِّی لَأَتَمَنَّى أَنْ يَزِيدَ اللّٰهُ عزوجل ‌مُعَاوِيَةَ مِنْ ‌عُمْرِی ‌فِی ‌عُمْرِهِ
(المنتقى من كتاب الطبقات لأبی عروبة الحرانی: صفحہ، 41)
ترجمہ: سیدہ عائشہ صدیقہؓ یہ ارشاد فرماتی تھی کہ میری یہ تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری عمر بھی سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ساتھ لگا کر ان کی عمر کو زیادہ کر دے۔ 
اُم المومنینؓ کے یہ الفاظ سیدنا امیرِ معاویہؓ کی منقبت کو ظاہر کرتے ہیں
24: سیدنا امیرِ معاویہؓ کی نماز رسول اللہﷺ کی نماز کے بہت زیادہ مشابہ تھی 
وَعَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم ‌أَشْبَهَ صَلَاةً بِرَسُولِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَمِيرِكُمْ هَذَا- يَعْنِی مُعَاوِيَةَ رَوَاهُ الطَّبَرَانِی، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ قَيْسِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَذْحِجِی، وَهُوَ ثِقَةٌ
(مجمع الزوائد و منبع الفوائد: جلد، 9 صفحہ، 357)
ترجمہ: حضرت ابو الدرداءؓ ارشاد فرماتے ہیں میں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کی نماز کو رسولﷺ کی نماز کے بہت زیادہ مشابہ دیکھا یعنی سیدنا امیرِ معاویہؓ کی نماز حضورﷺ کی نماز کے بہت زیادہ مشابہ تھی 
25: سیدنا امیرِ معاویہؓ کا 12 خلفاء والی حدیث کی فضیلت کا مصداق ہونا
 حدَّثنا عمرو بن عثمان، حدَّثنا مروان بن معاوية، عن إسماعيل يعنی ابن أبی خالدٍ عن أبيه عن جابر بن سمرة، قال: سمعتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يزال هذا الذين قائماً حتى يكون عليكم اثناء عشر ‌خليفةً، ‌كلهم ‌تجتمِع ‌عليه ‌الأمَّة فسمعت كلاماً من النبی صلى الله عليه وسلم لم أفهمه، قلت لأبی: ما يقول؟ قال: كلُّهم من قُريش
(سنن أبی داؤد: جلد، 6 صفحہ، 335 ت الأرنؤوط حدیث نمبر: 4279)
ترجمہ: سیدنا جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: یہ دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ تم پر بارہ خلیفہ ہوں گے، ان میں سے ہر ایک پر امت اتفاق کرے گی پھر میں نے نبی اکرمﷺ سے ایک ایسی بات سنی جسے میں سمجھ نہیں سکا میں نے اپنے والد سے پوچھا: آپﷺ نے کیا فرمایا؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپﷺ نے فرمایا ہے: یہ سارے خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔ 
وإيضاً ح ذلك أن المراد بالاجتماع انقيادهم لبيعته.والذی وقع أن الناس اجتمعوا على أبی بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علی إلى أن وقع أمر الحكمين فی صفين، فسمی معاوية يومئذ بالخلافة، ثم اجتمع الناس على معاوية عند ‌صلح ‌الحسن، 
(فتح الباری لابنِ حجر: جلد، 13 صفحہ، 214، ط السلفية)
ترجمہ: حافظ ابنِ حجرؒ نے اس کی صراحت فرمائی ہے کہ سیدنا حسنؓ کی صلح کے بعد سیدنا امیرِ معاویہؓ حسنین کریمینؓ سمیت سب حضرات نے بیعت کر لی تھی۔
26: سیدنا امیرِ معاویہؓ کا اسلام قبول کرنا اور حضورﷺ کا ان کو مرحبا کہنا
ابنِ سعد: حدثنا محمد بن عمر حدثنی أبو بكر بن أبی سبرة عن عمر بن عبد الله العنسی قال معاوية: لما كان عام الحديبية وصدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البيت وكتبوا بينهم القضية وقع الإسلام فی قلبی فذكرت لأمی فقالت إياك أن تخالف أباك فأخفيت إسلامی فوالله لقد رحل رسول الله من الحديبية وإنی مصدق به ودخل مكة عام عمرة القضية وأنا مسلم وعلم أبو سفيان بإسلامی فقال لی يوماً: لكن أخوك خير منك وهو على دينی فقلت لم آل نفسی خيراً وأظهرت ‌إسلامی ‌يوم ‌الفتح فرحب بی النبی صلى الله عليه وسلم وكتبت له سندہ صحیح 
سير أعلام النبلاء ط الحديث: جلد، 4 صفحہ، 258)
ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ فرماتے ہیں: میں فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کر چکا تھا اور فتح مکہ والے دن اپنے اسلام کو ظاہر کیا حضورﷺ نے مجھے مرحبا کہا اور میں آپﷺ کے لیے وحی لکھا کرتا تھا۔ 
27: قرآنِ مقدس کی آیت سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کا جنتی ثابت ہونا
وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‌ؕ لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ 
 (سورة الحديد: آیت، 10)
ترجمہ: اور تمہارے لیے کونسی وجہ ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو، حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جنہوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیا، اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں۔ وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے (فتح مکہ کے) بعد خرچ کیا، اور لڑائی لڑی۔ یوں اللہ نے بھلائی کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔  
اگرچہ سیدنا امیرِ معاویہؓ فتح مکہ سے قبل اسلام لا چکے تھے جیسا کہ ایک روایت میں گزر چکا ہے 
سیدنا امیرِ معاویہؓ کو اگر فتح مکہ سے قبل نازل ہونے والی آیات کا مصداق نہ بھی مانا جائے تو لامحالہ اس آیت کا مصداق بن کر جنتی ثابت ہوتے ہیں 
اور یہاں سے حسنی سے مراد جنت ہے بہت سے محدثین اور مفسرین نے اس کی وضاحت فرمائی ہے سر دست صرف ایک حوالہ ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
حدثنا بشر بن معاذ قال، حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد، عن قتادة: وكلاًّ وعد الله ‌الحسنى، ‌وهی ‌الجنة، والله يؤتی كل ذی فضل فضلَه 
(تفسير الطبری: جلد، 9 صفحہ، 96 ط التربية والتراث)
28: قرآن مقدس سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کا مؤمن ثابت ہونا اور پھر ان پر سکینہ نازل ہونا۔
ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡهَا‌ وَعَذَّبَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌ وَذٰلِكَ جَزَآءُ الۡـكٰفِرِيۡنَ
(سورۃ التوبة: آیت، 26)
ترجمہ: پھر اللہ نے اپنے رسول پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل کی اور ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آئے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اللہ نے ان کو سزا دی، اور ایسے کافروں کا یہی بدلہ ہے۔
یہ آیت ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوۀ حنین میں شریک تھے سیدنا امیرِ معاویہؓ بھی اس غزوہ میں شریک تھے وہ بھی اس آیت کے مصداق ہیں جس کی صراحت ذیل میں نقل کی جاتی ہے۔ 
فهذه الآية نزلت فی شأن المؤمنين الذين حاربوا مع النبی صلى الله عليه وسلم يوم حنين، وكان منهم طائفة كثيرة من مسلمة الفتح، ومنهم معاوية رضی الله عنه 
(فتح المنان بسيرة أمير المؤمنين معاوية بن أبی سفيان: صفحہ، 240) 
مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوا کہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس فضیلت کے مصداق ہیں۔
29: حضورﷺ کی زبان اقدس سے سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے مؤمن ہونے کی گواہی۔
 وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ. حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ قَالَ: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا: وَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم لا تقوم الساعة حتى تقتتل ‌فئتان ‌عظيمتان وتكون بينهما مقتلة عظيمة ودعواهما واحدة"
(صحيح مسلم: جلد، 4 صفحہ، 2214 ت عبد الباقی: حدیث نمبر: 7256)
ترجمہ: محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہو گی یہاں تک کہ دو عظیم جماعتوں کے مابین جنگ و جدل نہ ہو جائے اور ان کے درمیان ایک بہت بڑی لڑائی ہو گی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہو گا (کہ ہم رضائے الہٰی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد کر رہے ہیں۔ 
30: سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو بُرا بھلا کہنے سے حضورﷺ نے منع فرمایا
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِی إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِی سَعِيدٍ الْخُدْرِی رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِی صلى الله عليه وسلم: لَا ‌تَسُبُّوا أَصْحَابِی، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ
(صحيح البخاری: جلد، 5 صفحہ، 8 حدیث نمبر: 3673)
ترجمہ: ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا میں نے ذکوان سے سنا اور ان سے سیدنا ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میرے اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا (اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو جریر، عبداللہ بن داؤد، ابو معاویہ اور محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔ 
یہ حدیث بھی اگرچہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہے سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی اس میں شامل ہیں۔
31: حسنین کریمینؓ کا سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے ہدایہ وصول کرنا
 حدثنا حاتم بن إسماعيل عن جعفر بن (محمد) عن أبيه أن الحسن (والحسين) (كانا) ‌يقبلان ‌جوائز ‌معاوية سندہ صحیح 
(مصنف ابنِ أبی شيبة: جلد، 11 صفحہ، 336 ت الشثری)
وَأَنْبَأَنَا ابْنُ نَاجِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنی مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ الْحَسَنَ ، وَالْحُسَيْنَ ، رضی الله عنهما، كَانَا ‌يَقْبَلَانِ ‌جَوَائِزَ ‌مُعَاوِيَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ سندہ حسن 
(الشريعة للآجری: جلد، 5 صفحہ، 2470)
ان دونوں صحیح حدیثوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ہدایا وصول کرتے تھے۔
32: سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی سیدنا امیرِ معاویہؓ کے حق میں گواہی
قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسیٰ فِيمَا حَدَّثُونِی عنه عَنْ هِشَامِ (بْن يُوسُفَ -1) عَنْ معمَر قَالَ سَمِعْتُ (هَمَّامَ - 1) بْنَ مُنَبِّهٍ عَنِ ابْنِ عباس قال ما رأيت احدا اخلق للملك مِنْ مُعَاوِيَةَ
(التاريخ الكبير للبخاری: جلد، 7 صفحہ، 732 ت المعلمی اليمانی)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: میں نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے زیادہ حکومت کا اہل کوئی شخص نہ دیکھا۔
33: سیدنا امیرِ معاویہؓ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے
الشافعی: أنبأنا عبد المجيد، عن ابنِ جريج، أخبرنی عتبة بن محمد، أخبرنی كريب مولى ابنِ عباس: أنه رأى معاوية صلى العشاء، ثم أوتر بركعة واحدة لم يزد، فأخبر ابن عباس، فقال: أصاب، أی بنی! ليس أحد منا أعلم من معاوية، هی واحدة أو خمس أو سبع، أو أكثر
(سير أعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ، 151)
ترجمہ: ایک دن سیدنا معاویہؓ نے وتر کی ایک رکعت پڑھی سیدنا ابنِ عباسؓ کے غلام نے اس کا ذکر ان کے پاس کیا سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے ارشاد فرمایا: اس روئے زمین پر (یعنی اپنے زمانے میں) سیدنا امیرِ معاویہؓ سے بڑا عالم کوئی بھی نہیں ہے وہ ایک ہے یا پانچ یا سات یا اس سے زیادہ۔
34: سیدنا امیرِ معاویہؓ سیدنا کعب بن مالکؓ کی نظر میں  
قال: أخبرنا سليمان بن حرب قال: حدّثنا حماد بن زيد عن أيوب عن أبی قِلَابَة قال: قال كَعْب: لن يملك أحد مِن هذه ‌الأمة ‌ما ‌مَلَك ‌معاوية سندہ صحیح
(الطبقات الكبير: جلد، 6 صفحہ، 20 ط الخانجی)
ترجمہ: سیدنا کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بعد اس امت میں کوئی بھی سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ جیسی (عمدہ و بہترین) حکومت نہیں کر سکتا۔
35 سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی نظر میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کا رتبہ 
الليث: عن بكير، عن بسر بن سعيد، أن سعد بن أبی وقاص، قال:ما رأيت أحدا بعد ‌عثمان ‌أقضى ‌بحق من صاحب هذا الباب يعنی: معاوية
(سير أعلام النبلاء: جلد، 3 صفحہ، 150)
ترجمہ: سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں: میں نے سیدنا عثمانؓ کے بعد کسی کو بھی سیدنا امیرِ معاویہؓ سے زیادہ حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کرنے والا نہیں دیکھا-  
36: غزوۀ تبوک کے دن سیدنا امیرِ معاویہؓ حضورﷺ کے پہلو میں
حَدَّثَنَا حَوْثَرَةُ بْنُ أَشْرَسَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِی رَاشِدٍ أَتَيْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مَعَ أَصْحَابِهِ، وَهُمْ مُحْتَبُونَ بِحَمَائِلِ سُيُوفِهِمْ حَوْلَ بِئْرِ تَبُوكَ، فَقُلْتُ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى نَفْسِهِ، فَدَفَعْتُ إِلَيْهِ الْكِتَابَ، فَدَفَعَهُ إِلَى رَجُلٍ إِلَى جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: ‌مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِی سُفْيَانَ، فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ: رواتہ ثقات 
(مسند أبی يعلىٰ: جلد، 3 صفحہ، 170 ت حسين أسد)
ترجمہ: راوی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا حضورﷺ اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اپنی تلواروں کے ساتھ حضور اکرمﷺ کو سایہ کیے ہوئے تھے میں نے کہا کہ تم میں محمد کون ہے؟ حضورﷺ نے اپنی ذات کی طرف اشارہ کیا میں نے خط حضورﷺ کے حوالے کر دیا حضور اکرمﷺ نے یہ خط اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو دے دیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا کہ یہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ ہیں پھر سیدنا امیرِ معاویہؓ نے وہ خط حضور اکرمﷺ کو پڑھ کر سنایا۔
37: سیدنا امیرِ معاویہؓ کی سخاوت 
حَدَّثَنَاهُ الدُّورِی قَالَ: ثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ الْمُؤَدِّبُ قَالَ: ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَة قَالَ: قُلْتُ: هُوَ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ أَبِی بَكْرٍ؟ قَالَ: هُوَ وَاللهِ أَخْيَرُ مِنْهُ، وَهُوَ وَاللهِ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ أَبِی بَكْرٍ "قَالَ: قُلْتُ: فَهُوَ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ عُمَرَ؟ قَالَ: عُمَرُ وَاللهِ كَانَ أَخْيَرَ مِنْهُ، وَهُوَ وَاللهِ ‌أَسْوَدُ مِنْ عُمَرَ" قَالَ: قُلْتُ: هُوَ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ عُثْمَانَ؟ قَالَ: وَاللهِ إِنْ كَانَ عُثْمَانُ لَسَيِّدًا، وَهُوَ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْهُ" قَالَ الدُّورِی: قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: مَعْنَى أَسْوَدًا أَی أَسْخَى سندہ صحیح 
(السنة لأبی بكر بن الخلال: جلد، 2 صفحہ، 141)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ارشاد فرمایا: میں نے رسول اللہﷺ کے بعد سیدنا امیرِ معاویہؓ سے زیادہ سخی کوئی نہیں دیکھا۔ حضرت نافعؓ نے ان سے پوچھا کیا سیدنا امیرِ معاویہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے بھی زیادہ سخی تھے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا اگرچہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا امیرِ معاویہؓ سے بہت زیادہ بہتر تھے لیکن سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ ان سے زیادہ سخی تھے۔ پھر راوی نے پوچھا کہ کیا سیدنا عمرؓ سے زیادہ سخی تھے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا اگرچہ سیدنا عمرؓ کا مقام سیدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ سے بہت زیادہ بلند تھا لیکن سخاوت میں سیدنا امیرِ معاویہؓ سیدنا عمرؓ سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔ پھر راوی نے پوچھا کہ کیا سیدنا عثمانؓ سے بھی زیادہ سخی تھے۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا بے شک سیدنا عثمانؓ سردار تھے لیکن سیدنا امیرِ معاویہؓ سیدنا عثمانؓ سے بھی زیادہ سخی تھے۔ 
38: سیدنا ابوالدرداءؓ کے نزدیک سیدنا امیرِ معاویہؓ کا مقام 
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ، نا عَبْدُاللهِ بْنُ صَالِحٍ، نا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِی الزَّاهِرِيَّةِ حُدَيْرِ بْنِ كُرَيْبٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِی الدَّرْدَاءِ رضی الله عنه، قَالَ: لَا مَدِينَةَ بَعْدَ عُثْمَانَ، وَلَا ‌رَخَاءَ بَعْدَ مُعَاوِيَةَ رضی الله عنهما۔
(الآحاد والمثانی لابن أبی عاصم: جلد، 1 صفحہ، 382)
ترجمہ: سیدنا عثمانؓ کے بعد مدینہ نہ رہا اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے بعد کشادگی نہ رہی۔
39: سیدنا امیرِ معاویہؓ کے تمام ساتھی جنتی ہیں سیدنا علیؓ کی شہادت
 عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ الْمَوْصِلِی، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَأَلَ عَلِی عَنْ قَتْلَى، يَوْمِ صِفِّينَ ، فَقَالَ: ‌قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِی الْجَنَّةِ، وَيَصِيرُ الْأَمْرُ إِلَی وَإِلَى مُعَاوِيَةَ
(مصنف ابن أبی شيبة: جلد، 7 صفحہ، 552 ت الحوت)
ترجمہ: سیدنا علیؓ ارشاد فرماتے ہیں ہمارے اور سیدنا معاویہؓ کے شہداء جنت میں ہیں باقی میرا اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔
40: سیدنا امیرِ معاویہؓ کے جسم کو لگنے والی مٹی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے ہزار درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔
 حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ شَهْرَيَارَ الْبَلْخِی قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِی بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُ الْوَهَّابِ الْوَرَّاقُ قَالَ: حَدَّثَنِی عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا، بِمَرْوَ قَالَ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: مُعَاوِيَةُ خَيْرٌ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ قَالَ: فَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: ‌تُرَابٌ ‌دَخَلَ فِی أَنْفِ مُعَاوِيَةَ رحمه الله مَعَ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم خَيْرٌ أَوْ أَفْضَلُ مِنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ
(الشريعة للآجری: جلد، 5 صفحہ، 2466)
ترجمہ: سیدنا عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا گیا سیدنا امیرِ معاویہؓ کا مقام زیادہ ہے یا سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کا؟ سیدنا عبداللہ بن مبارکؒ نے جواب دیا: سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ناک میں مٹی جو حضورﷺ کی معیت میں پڑی وہ سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ سے کئی درجہ افضل ہے۔
 فللہ الحمد