Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا معاویہؓ کے فضائل پر مشتمل 40 احادیث کا مجموعہ

  مفتی مجاہد احمد

سیدنا معاویہؓ کے فضائل پر مشتمل 40 احادیث کا مجموعہ

 سیدنا معاویہؓ کے عمومی و خصوصی فضائل مختصر حاشیہ آرائی کے ساتھ بیان کیے جائیں گے تاکہ ناظرین کو مدعا سمجھنے میں آسانی ہو 

¹- سیدنا معاویہؓ جنتی لشکر کے سربراہ

(صحيح البخاری جلد 4صفحہ18)

2799 - 2800 - حَدَّثَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ يُوسُفَ قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ: حَدَّثَنَا يَحْيَى عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ خَالَتِهِ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ قَالَتْ: «نَامَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَوْمًا قَرِيبًا مِنِّي ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَتَبَسَّمُ فَقُلْتُ: مَا أَضْحَكَكَ قَالَ: أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ يَرْكَبُونَ هَذَا الْبَحْرَ الْأَخْضَرَ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ. قَالَتْ: فَادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَدَعَا لَهَا ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ فَفَعَلَ مِثْلَهَا فَقَالَتْ مِثْلَ قَوْلِهَا فَأَجَابَهَا مِثْلَهَا فَقَالَتِ: ادْعُ اللهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ فَقَالَ: أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ. فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِيًا أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ ‌مَعَ ‌مُعَاوِيَةَ فَلَمَّا انْصَرَفُوا مِنْ غَزْوِهِمْ قَافِلِينَ فَنَزَلُوا الشَّأْمَ فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْكَبَهَا فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ.

حدیث نمبر: 2799

ترجمہ:ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے لیث نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید انصاری نے بیان کیا، ان سے محمد بن یحییٰ بن حبان نے اور ان سے انس بن مالکؓ نے اور ان سے ان کی خالہ اُم حرام بنت ملحان نے بیان کیا کہ ایک دن نبی کریم ﷺ میرے قریب ہی سو گئے۔ پھر جب آپ ﷺ بیدار ہوئے تو مسکرا رہے تھے، میں نے عرض کیا کہ آپ کس بات پر ہنس رہے ہیں؟ فرمایا میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے پیش کئے گئے جو غزوہ کرنے کے لیے اس بہتے دریا پر سوار ہو کر جا رہے تھے جیسے بادشاہ تخت پر چڑھتے ہیں۔ میں نے عرض کیا پھر آپ میرے لیے بھی دعا کر دیجئیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے۔ آپﷺ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ پھر دوبارہ آپﷺ سو گئے اور پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی کہا(بیدار ہوتے ہوئے مسکرائے) ام حرامؓ نے پہلے ہی کی طرح اس مرتبہ بھی عرض کی اور آپﷺ نے وہی جواب دیا۔ اُم حرامؓ نے عرض کیا آپ دعا کردیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی انہیں میں سے بنا دے تو آپﷺ نے فرمایا تم سب سے پہلے لشکر کے ساتھ ہوگی چناچہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامتؓ کے ساتھ مسلمانوں کے سب سے پہلے بحری بیڑے میں شریک ہوئیں جس کی سربراہی سیدنا معاویہؓ کر رہے تھے غزوہ سے لوٹتے وقت جب شام کے ساحل پر لشکر اترا تو اُم حرامؓ کے قریب ایک سواری لائی گئی تاکہ اس پر سوار ہو جائیں لیکن جانور نے انہیں گرا دیا اور اسی میں ان کا انتقال ہوگیا۔ 

²-سیدنامعاویہؓ کا گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا

(صحيح البخاري جلد 4صفحہ207)

3641-حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ قَالَ حَدَّثَنِي ابْنُ جَابِرٍ قَالَ حَدَّثَنِي عُمَيْرُ بْنُ هَانِئٍ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاوِيَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ «لَا يَزَالُ مِنْ أُمَّتِي أُمَّةٌ قَائِمَةٌ بِأَمْرِ اللهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَذَلَهُمْ وَلَا مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللهِ وَهُمْ عَلَى ذَلِكَ قَالَ عُمَيْرٌ فَقَالَ مَالِكُ بْنُ ‌يُخَامِرَ قَالَ مُعَاذٌ وَهُمْ ‌بِالشَّأْمِ» فَقَالَ مُعَاوِيَةُ هَذَا مَالِكٌ يَزْعُمُ أَنَّهُ سَمِعَ مُعَاذًا يَقُولُ وَهُمْ ‌بِالشَّأْمِ.

حدیث نمبر:3641

ترجمہ:ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے ولید نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے یزید بن جابر نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمیر بن ہانی نے بیان کیا اور انہوں نے معاویہ بن ابی سفیانؓ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسولﷺ سے سنا تھا۔ آپﷺ فرما رہے تھے کہ میری امت میں ہمیشہ ایک گروہ ایسا موجود رہے گا جو اللہ تعالیٰ کی شریعت پر قائم رہے گا، انہیں ذلیل کرنے کی کوشش کرنے والے اور اسی طرح ان کی مخالفت کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے، یہاں تک کہ قیامت آ جائے گی اور وہ اسی حالت پر رہیں گے۔ عمیر نے بیان کیا کہ اس پر مالک بن یخامر نے کہا کہ معاذ بن جبلؓ نے کہا تھا کہ ہمارے زمانے میں یہ لوگ شام میں ہیں۔ سیدنا امیرِ معاویہؓ نے کہا کہ دیکھو یہ مالک بن یخامر یہاں موجود ہیں، جو کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے معاذ بن جبلؓ سے سنا کہ یہ لوگ شام کے ملک میں ہیں۔ 

(اس حدیث سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے گروپ کا حق پر ہونا ثابت ہوا) 

³-سیدنا معاویہؓ کے حق پر ہونے کی حضورﷺ کی گواہی

(صحيح مسلم جلد3صفحہ 113)

152-(1065) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: « تَمْرُقُ مَارِقَةٌ فِي فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ فَيَلِي قَتْلَهُمْ أَوْلَى الطَّائِفَتَيْنِ بِالْحَقِّ.

حدیث نمبر: 2459

ترجمہ:ابوربیع زہرانی، قتیبہ بن سعید، ابوعوانہ، قتادہ، ابونضرہ، حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا میری امت میں دو گروہ ہوجائیں گے تو ان میں سے تیسرا مارقہ (یعنی خوارج کا گروہ ) نکلے گا ان خوارج سے وہ گروہ جہاد کرے گا جو حق کے زیادہ قریب ہو گا 

(یعنی سیدنا علیؓ حق کے زیادہ قریب تھے اور سیدنا معاویہؓ کا گروہ بھی حق پر تھا) 

ایک ضروری وضاحت

چودہ سو سال کے تمام اہلسنّت محدثین، مؤرخین، فقہاء محققین اور اصولیین کا اس بات پر اجماع ہے کہ سیدنا معاویہؓ نے حضورﷺ کی موجودگی میں ایمان قبول کیا اور تا دمِ حیات ایمان پر ثابت قدم رہے 

 صحابہؓ کے لیے قرآن و سنت میں جتنے فضائل و مناقب وارد ہوئے میں دیگر صحابہؓ کی طرح سیدنا معاویہؓ بھی بالاجماع ان تمام مناقب و فضائل کے کامل طور پر حقدار ہیں ۔ 

- فضیلت سیدنا معاویہؓ بحیثیت قریشی

سیدنا معاویہؓ قبیلہ قریش کی مشہور شاخ بنوامیہ کے چشم و چراغ ہیں، 

آپ کا سلسلہ نسب یہ ہے :

 معاویہ بن ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی 

پانچویں پشت میں جا کر سیدنا معاویہؓ کا شجرہ نسب حضورﷺکے ساتھ مل جاتا ہے

 ایک اصولی ضابطہ ہے کہ قبیلہ قریش کے جو مناقب بیان کیے گئے ہیں اس میں وہ صحابہؓ بھی داخل ہیں جو خاندانِ قریش کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور سیدنا معاویہؓ کا تعلق بھی خاندانِ قریش کے ساتھ تھا۔ 

صحيح مسلم جلد 7صفحہ58)

1- (2276) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الرَّازِيُّ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَهْمٍ ، جَمِيعًا عَنِ الْوَلِيدِ ، قَالَ ابْنُ مِهْرَانَ: حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ شَدَّادٍ أَنَّهُ سَمِعَ وَاثِلَةَ بْنَ الْأَسْقَعِ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: « إِنَّ اللهَ ‌اصْطَفَى كِنَانَةَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ، وَاصْطَفَى قُرَيْشًا مِنْ كِنَانَةَ، وَاصْطَفَى مِنْ قُرَيْشٍ بَنِي هَاشِمٍ، وَاصْطَفَانِي مِنْ بَنِي هَاشِمٍ .

حدیث نمبر: 5938

ترجمہ:محمد بن مہران رازی محمد بن عبدالرحمن بن سہم ولید ابن مہران ولید بن مسلم، اوزاعی ابی عمار شداد، حضرت واثلہ بن اسقعؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولﷺ سے سنا آپﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیلؑ کی اولاد میں سے کنانہ کو چنا اور قریش کو کنانہ میں سے چنا اور قریش میں سے بنی ہاشم کو چنا اور پھر بنی ہاشم میں سے مجھے چنا۔

-فضیلت سیدنا معاویہؓ بحیثیت صحابی رسولﷺ

(صحيح البخاري جلد 5صفحہ 28)

3764 -حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ بِشْرٍ: حَدَّثَنَا الْمُعَافَى، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ الْأَسْوَدِ، عَنِ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ قَالَ:أَوْتَرَ مُعَاوِيَةُ بَعْدَ الْعِشَاءِ بِرَكْعَةٍ، وَعِنْدَهُ مَوْلًى لِابْنِ عَبَّاسٍ، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ، فَقَالَ: دَعْهُ فَإِنَّهُ ‌صَحِبَ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم.

حدیث نمبر: 3764

ترجمہ:کہا ہم سے حسن بن بشیر نے بیان کیا،ان سے عثمان بن اسود نے اور ان سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ معاویہؓ نے عشاء کے بعد وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی وہیں ابنِ عباسؓ کے مولیٰ (کریب) بھی موجود تھے، جب وہ ابنِ عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو (سیدنا امیرِ معاویہؓ کی ایک رکعت وتر کا ذکر کیا)اس پر انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ سیدنا معاویہؓ رسولﷺ کے صحابی ہیں۔

-سیدنا معاویہؓ اُم المومنین سیدہ اُم حبیبہؓ کے بھائی اورمومنوں کے ماموں ہیں

سیّدنا معاویہؓ کی حضورﷺ سے سب سے مشہور اور قریبی رشتہ داری یہ ہے کہ آپ اُم المؤمنین سیدہ اُم حبیبہؓ کے حقیقی بھائی ہیں، اور خبر قرآنی کے مطابق سیدہ اُم حبیبہؓ تمام مسلمانوں کی ماں ہیں،اسی وجہ سے محدث اور فقیہ حضرت امام احمد بن حنبلؒ نے سیدنا معاویہؓ کو خال المؤمنین ( تمام مسلمانوں کے ماموں ) کا لقب عنایت فرمایا ہے

(السنة لأبي بكر بن الخلال جلد2صفحہ433)

657 -أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مَطَرٍ، وَزَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى، أَنَّ أَبَا طَالِبٍ حَدَّثَهُمْ أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ: أَقُولُ: ‌مُعَاوِيَةُ ‌خَالُ ‌الْمُؤْمِنِينَ؟ وَابْنُ عُمَرَ خَالُ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ، مُعَاوِيَةُ أَخُو أُمِّ حَبِيبَةَ بِنْتِ أَبِي سُفْيَانَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَرَحِمَهُمَا، وَابْنُ عُمَرَ أَخُو حَفْصَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَرَحِمَهُمَا، قُلْتُ: أَقُولُ: ‌مُعَاوِيَةُ ‌خَالُ ‌الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: نَعَمْ " 

اسنادہ صحیح 

ابو طالب نے امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا 

میں یہ کہتا ہوں کہ سیدنا معاویہؓ اور سیدنا عبداللہ بن عمرؓ مؤمنین کے ماموں ہیں کیا یہ بات درست ہے ؟ 

توامام احمد ابن حنبلؒ نے ارشاد فرمایا جی ہاں سیدنا معاویہؓ سیدہ ام حبیبہؓ جو حضورﷺ کی زوجہ ہیں کے حقیقی بھائی ہیں اور سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سیدہ حفصہؓ کے حقیقی بھائی ہیں پھر اس شخص نے کہا کہ کیا میں سیدنا معاویہؓ کو مؤمنین کا ماموں کہہ سکتا ہوں تو امام احمد بن حنبلؒ نے جواب دیا بالکل کہہ سکتے ہیں۔

⁷-سیدنا معاویہؓ کو جنت میں حضورﷺ کی رفاقت نصیب ہوگی

(المستدرك على الصحيحين جلد3صفحہ127)

أخبرني أحمد بن جعفر القطيعي، ثنا عبد الله بن أحمد بن حنبل، حدثني أبي، ثنا أبو سعيد، مولى بني هاشم، ثنا عبد الله بن جعفر، حدثتنا أم بكر بنت المسور بن مخرمة، عن عبيد الله بن أبي رافع، عن المسور، أنه بعث إليه حسن بن حسن يخطب ابنته، فقال له: قل له فليقاني في العتمة، قال: فلقيه فحمد الله المسور وأثنى عليه ثم قال: أما بعد، وايم الله ما من نسب ولا سبب ولا صهر أحب إلي من نسبكم وسببكم وصهركم، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «فاطمة بضعة مني يقبضني ما يقبضها ويبسطني ما يبسطها، وإن الأنساب يوم القيامة تنقطع غير نسبي وسببي ‌وصهري» وعندك ابنتها ولو زوجتك لقبضها ذلك فانطلق عاذرا له هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه 

[التعليق - من تلخيص الذهبي]4747 - صحيح

" حضرت مسور بیان کرتے ہیں کہ حسن بن حسن رضی اللہ عنہ نے ان سے ان کی بیٹی کا رشتہ کے لئے پیغام بھیجا،انہوں نے جواباً کہا:ان سے کہئے گا کہ وہ مجھے عشاء کے وقت مل لیں ، چنانچہ حضرت حسن بن حسنؓ عشاء کے وقت ان سے ملاقات کے لئے گئے حضرت مسور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کرنے کے بعد بولے : خدا کی قسم ! تمہارے نسب تمہارے سبب اور تمہارے ساتھ رشتہ داری سے بڑھ کر میری نظر میں کسی چیز کی اہمیت نہیں ہے ، لیکن رسولﷺ نے فرمایا ہے"فاطمہ میرے جسم کا حصہ ہے اس کی تکلیف سے مجھے تکلیف ہوتی ہے اور اس کی خوشی سے مجھے خوشی ہوتی ہے ۔ اور قیامت کے دن تمام نسب ختم ہو جائیں گے سوائے میری نسبی رشتہ داری ، میری سببی رشتہ داری اور میری سسرالی رشتہ داری کے ۔جبکہ تمہارے ہاں پہلے سے ان کی صاحبزادی موجود ہے اگر میں اپنی بیٹی کا نکاح تم سے کر دیتا ہوں تو یہ چیز اس سید زادی کو تکلیف دے گی ۔ یہ کہہ کر انہوں نے معذرت کر لی ۔

 یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اس کو نقل نہیں کیا ۔"

سیدنا معاویہؓ بھی اس فضیلت میں یقینی طور پر داخل ہیں ان کو بھی جنت میں رسولﷺ کی رفاقت نصیب ہوگی کیونکہ سیدنا معاویہؓ بھی حضورﷺ کے سسرال والوں میں سے ہیں 

⁸-سیدنا معاویہؓ عنہ کو برا بھلا کہنے کی ممانعت

ا(لمستدرك على الصحيحين جلد3صفحہ 732)

حدثنا علي بن حمشاذ العدل، ثنا بشر بن موسى، ثنا الحميدي، ثنا محمد بن طلحة التيمي، حدثني عبد الرحمن بن سالم بن عتبة بن عويم بن ساعدة، عن أبيه، عن جده، عن عويم بن ساعدة، رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «إن الله تبارك وتعالى ‌اختارني واختار بي أصحابا فجعل لي منهم وزراء وأنصارا وأصهارا، فمن سبهم فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل منه يوم القيامة صرف ولا عدل» هذا حديث صحيح الإسناد، ولم يخرجاه 

[التعليق - من تلخيص الذهبي]6656 - صحيح

حضرت عویم بن ساعدہؓ فرماتے ہیں کہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک اللہ تعالیٰ نے میرا انتخاب فرمایا اور میرے لئے صحابہ کرامؓ کو چنا اور ان میں سے میرے وزیر بنائے ، میرے مددگار بنائے ، میرے سسرالی رشتہ دار بنائے ، جس نے میرے ان تعلق داروں کو گالی دی ، اس پر اللہ تعالیٰ کی،فرشتوں کی اور تمام انسانوں کی لعنت ہے ۔ قیامت کے دن اس کا نہ کوئی عمل قبول ہوگا نہ اس کے حق میں سفارش قبول کی جائے گی ۔

 یہ حدیث صحیح الاسناد ہے لیکن امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اس کو نقل نہیں کیا ۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضورﷺ کے سسرالی خاندان والوں کو برا بھلا کہنے والا پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے اور سیدنا معاویہؓ بھی اسی خاندان کے فرد ہیں۔ 

⁹-سیدنا معاویہؓ سے بغض کفر کی علامت ہے 

(الاعتقاد للبيهقي صفحہ317):

«‌‌بَابُ الْقُولِ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَعَلَى آلِهِ وَرَضِيَ عَنْهُمْ قَالَ اللَّهُ تبارك وتعالى {مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءٌ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءٌ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ} [الفتح: 29]

ترجمہ:محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں، وہ کافروں کے مقابلے میں سخت ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحم دل ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ کبھی رکوع میں ہیں، کبھی سجدے میں، (غرض) اللہ کے فضل اور خوشنودی کی تلاش میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کی علامتیں سجدے کے اثر سے ان کے چہروں پر نمایاں ہیں۔ یہ ہیں ان کے وہ اوصاف جو تورات میں مذکور ہیں۔ اور انجیل میں ان کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی، پھر اس کو مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوگئی، پھر اپنے تنے پر اس طرح سیدھی کھڑی ہوگئی کہ کاشتکار اس سے خوش ہوتے ہیں۔ تاکہ اللہ ان (کی اس ترقی) سے کافروں کا دل جلائے۔

قران مقدس کی اس آیت کے بالکل اخری حصہ کو غور سے پڑھیں تو یہ بات سمجھ اتی ہے کہ صحابہؓ سے جلنا اور بغض رکھنا یہ کافروں کے نشانی ہے 

یہ حکم جملہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں ہے اور سیدنا معاویہؓ بھی اس میں داخل ہیں۔

 ¹⁰-سیدنا معاویہؓ سے محبت رسولﷺ کے ساتھ محبت کے مترادف ہے

(سنن الترمذي جلد 5 صفحہ 696)

3862 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ قال: حَدَّثَنَا عَبِيدَةُ بْنُ أَبِي رَائِطَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم «اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا ‌تَتَّخِذُوهُمْ ‌غَرَضًا ‌بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ» هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ

حدیث نمبر: 3862

ترجمہ:عبداللہ بن مغفلؓ کہتے ہیں کہ رسولﷺ نے فرمایا:اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، میرے صحابہؓ کے معاملہ میں، اور میرے بعد انہیں ہدف ملامت نہ بنانا، جو ان سے محبت کرے گا وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے ان سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا وہ مجھ سے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھے گا، جس نے انہیں ایذاء پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا پہنچائی اس نے اللہ کو ایذا دی، اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ وہ اسے اپنی گرفت میں لے لے ۔

یہ حدیث بھی جملہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں ہے سیدنا معاویہؓ بھی اس کے عموم میں داخل ہیں 

:نوٹ اگرچہ بعض محدثین نے اس حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم لگایا ہے مگر دیگر محدثین نے اس کو صحیح بھی قرار دیا ہے۔اس کے متن پر منکر ہونے کا حکم کسی نے بھی نہیں لگایا اس کے متن کی تائید قرآن و سنت سے ہوتی ہے۔

¹¹-- سیدنا معاویہؓ بحیثیت فقیہ اور مجتہد

(صحيح البخاري جلد5 صفحہ28)

حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ : حَدَّثَنَا نَافِعُ بْنُ عُمَرَ: حَدَّثَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: «قِيلَ لِابْنِ عَبَّاسٍ: هَلْ لَكَ فِي أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ مُعَاوِيَةَ، فَإِنَّهُ

 مَا أَوْتَرَ إِلَّا بِوَاحِدَةٍ؟ قَالَ: إِنَّهُ فَقِيهٌ».

حدیث نمبر: 3765

ترجمہ:ہم سے ابن ابی مریم نے بیان کیا، کہا ہم سے نافع بن عمر نے بیان کیا، کہا مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے بیان کیا کہ عبداللہ بن عباسؓ سے کہا گیا کہ امیرالمؤمنین سیدنا معاویہؓ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں، انہوں نے وتر کی نماز صرف ایک رکعت پڑھی ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ خود فقیہ ہیں۔ 

 ¹²-سیدنا عباسؓ کاتبِ وحی 

صحيح مسلم جلد4 صفحہ 1945 عبد الباقي):

حدثني عباس بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ وَأَحْمَدُ بْنُ جَعْفَرٍ المعقري. قالا: حدثنا النضر (وهو ابن محمد اليمامي). حدثنا عكرمة. حدثنا أبو زميل. حدثني ابن عباس قال:

كان المسلمون لا ينظرون إلى أبي سفيان ولا يقاعدونه. فقال للنبي صلى الله عليه وسلم: يا نبي الله! ثلاث أعطنيهن. قال "نعم" قال: عندي أحسن العرب وأجمله، أم حبيبة بنت أبي سفيان، أزوجكها. قال "نعم" قال: ومعاوية، تجعله ‌كاتبا بين يديك. قال "نعم". قال: وتؤمرني حتى أقاتل الكفار، كما كنت أقاتل المسلمين. قال"نعم

حدیث نمبر: 6409

ترجمہ:عباس بن عبدالعظیم عنبر احمد بن جعفر معقری نضر ابن محمد یمامی عکرمہ ابوزمیل حضرت ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ مسلمان نہ تو ابوسفیانؓ کی طرف دیکھتے تھے اور نہ ہی ان کے پاس بیٹھتے تھے۔ تو ابوسفیانؓ نے نبیﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے نبی تین باتیں مجھے عطا فرمائیں آپ نے فرمایا: جی ہاں! بتاؤ۔ عرض کیا: میری بیٹی ام حبیبہ بنتِ ابوسفیانؓ اہلِ عرب سے حسین و جمیل ہیں میں اس کا نکاح آپﷺ سے کرتا ہوں آپﷺ نے فرمایا: بہتر عرض کیا اور معاویہؓ کو اپنے لیے کاتب وحی مقرر کرلیں آپﷺ نے فرمایا: بہتر آپﷺ مجھے حکم دیں کہ میں کفار سے لڑتا رہوں جیسا کہ میں مسلمانوں سے لڑتا تھا آپﷺ نے فرمایا بہتر ابوزمیل نے کہا اگر یہ خود نبیﷺسے ان باتوں کا مطالبہ نہ کرتے تو آپﷺ یہ کام نہ فرماتے کیونکہ آپ ﷺ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ آپﷺ سے جس بھی چیز کا مطالبہ کیا جاتا تو آپﷺ اس کے جواب میں ہاں ہی فرماتے تھے۔ 

سیدنا معاویہؓ کے کاتب وحی ہونے پر دیگر روایات بھی موجود ہیں اختصار کے پیش نظر صرف ایک بیان کی گئی ہے۔

¹³- سیدہ ام حبیبہؓ کا سیدنا معاویہؓ سے محبت کا اظہار

صحيح مسلم (جلد4 صفحہ 2051 ت عبد الباقي):

«(2663) حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي وحجاج بن الشاعر - واللفظ لحجاج - (قال إسحاق: أخبرنا. وقال حجاج: حَدَّثَنَا) عَبْدُ الرَّزَّاقِ. أَخْبَرَنَا الثَّوْرِيُّ عَنْ عَلْقَمَةَ بن مرثد، عن المغيرة بن عبد الله اليشكري، عن معرور بن سويد، عن عبد الله بن مسعود. قال: قالت أم حبيبة: اللهم! ‌متعني ‌بزوجي، ‌رسول ‌الله صلى الله عليه وسلم. وبأبي، أبي سفيان. وبأخي، معاوية. فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "إنك سألت الله لآجال مضروبة، وآثار موطوءة، وأرزاق مقسومة. لا يعجل شيئا منها قبل حله. ولا يؤخر منها شيئا بعد حله. ولو سألت الله أن يعافيك من عذاب في النار، وعذاب في القبر، لكان خيرا لك".

حدیث نمبر: 6770

ترجمہ:ابوبکر بن ابی شیبہ، ابوکریب ابی بکر وکیع، مسعر علقمہ بن مرثد مغیرہ بن عبداللہ یشکری معرور بن سوید حضرت عبداللہ سے روایت ہے کہ زوجہ نبی ﷺ ام حبیبہؓ نے کہا اے اللہ مجھے اپنے خاوند رسول اللہﷺاور والد ابوسفیان اور بھائی معاویہ سے متمتمع کرنا نبیﷺ نے فرمایا تو نے اللہ سے مقرر شدہ اوقات و ایام اور تقسیم شدہ رزق کا سوال کیا ان میں سے کسی چیز کو وقت مقرر سے مقدم اور مؤخر نہیں کیا جاتا اور اگر تو اللہ سے سوال کرتی کہ وہ تجھے جہنم کے عذاب یا قبر کے عذاب سے پناہ دے تو وہ بہتر اور افضل ہوتا 

¹⁴-سیدنا معاویہؓ اللہ کی رحمت کے حقدار ہیں

«صحيح مسلم جلد 8 صفحہ 27

96 - (2604) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ . (ح) وَحَدَّثَنَا ابْنُ بَشَّارٍ وَاللَّفْظُ لِابْنِ الْمُثَنَّى قَالَا: حَدَّثَنَا أُمَيَّةُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ الْقَصَّابِ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: « كُنْتُ أَلْعَبُ مَعَ الصِّبْيَانِ، فَجَاءَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَتَوَارَيْتُ خَلْفَ بَابٍ قَالَ: فَجَاءَ فَحَطَأَنِي حَطْأَةً وَقَالَ: اذْهَبْ وَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ: فَجِئْتُ فَقُلْتُ: هُوَ يَأْكُلُ قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِيَ: اذْهَبْ فَادْعُ لِي مُعَاوِيَةَ قَالَ: فَجِئْتُ فَقُلْتُ: هُوَ يَأْكُلُ فَقَالَ: لَا ‌أَشْبَعَ اللهُ بَطْنَهُ» قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: قُلْتُ لِأُمَيَّةَ: مَا حَطَأَنِي؟ قَالَ: قَفَدَنِي قَفْدَةً .

صحیح مسلم

کتاب: صلہ رحمی کا بیان

باب: نبیﷺ کا ایسے آدمی پر لعنت کرنا یا اسکے خلاف دعا فرمانا حالانکہ وہ اس کا مستحق نہ ہو تو وہ ایسے آدمی کے لئے اجر اور رحمت ہے۔

حدیث نمبر: 6628

ترجمہ:محمد بن مثنی، عنبری ابن بشار ابن مثنی امیہ بن خالد شعبہ، ابی حمزہ قصاب حضرت ابن سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا کہ اچانک رسول اللہﷺ تشریف لے آئے تو میں دروازے کے پیچھے چھپ گیا حضرت ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ آپﷺ نے مجھے میرے دونوں کندھوں کے درمیان تھپکی دی اور فرمایا جاؤ معاویہ کو بلا کر لاؤ سیّدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ میں آیا اور پھر میں نے عرض کیا وہ (کھانا) کھا رہے ہیں ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ پھر آپﷺ نے مجھے فرمایا جاؤ معاویہ کو بلا کر لاؤ سیّدنا ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ میں نے پھر آ کر عرض کیا وہ کھانا کھا رہے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا اللہ اس کا پیٹ نہ بھرے ابن المثنی نے کہا میں نے امیہ سے کہا حطانی کیا ہے انہوں نے کہا تھپکی دینا۔

سیّدنا معاویہؓ چونکہ اس بددعا کے مستحق نہیں تھے جیسے کہ شراح حدیث نے لکھا ہے اس لیے ان کا آخرت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہونا ثابت ہوا

 ¹⁵-سیدنا معاویہؓ کا حضور ﷺ کے بال مبارک کاٹنا 

(صحيح مسلم جلد4 صفحہ 58)

(1246) وَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ مُعَاوِيَةَ بْنَ أَبِي سُفْيَانَ أَخْبَرَهُ قَالَ: « قَصَّرْتُ عَنْ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم ‌بِمِشْقَصٍ وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ،أَوْ رَأَيْتُهُ يُقَصَّرُ عَنْهُ ‌بِمِشْقَصٍ، وَهُوَ عَلَى الْمَرْوَةِ ».

حدیث نمبر: 3022

محمد بن حاتم، یحییٰ بن سعید، ابن جریج، حسن بن مسلم، طاؤس، سیدنا ابنِ عباسؓ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ نے انہیں خبر دی فرمایا کہ میں نے رسولﷺ کے بال مروہ پر تیر کے پیکان سے کاٹے یا کہا کہ میں نے آپﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ مروہ پر تیر کے پیکان سے بال کٹوا رہے ہیں۔

¹⁶- حضورﷺ کا سیدنا معاویہؓ کے لیے ہادی ہونے کی دعا کرنا

(«سنن الترمذي» جلد5صفحہ 687)

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا أَبُو مُسْهِرٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ العَزِيزِ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي عُمَيْرَةَ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم أَنَّهُ قَالَ لِمُعَاوِيَةَ: «اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ ‌هَادِيًا مَهْدِيًّا وَاهْدِ بِهِ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ»

 [حكم الألباني] : صحيح

کتاب: مناقب کا بیان

باب:سیدنا معاویہ بن ابی سفیانؓ کے مناقب

حدیث نمبر: 3842

ترجمہ:صحابی رسول عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے سیدنا معاویہؓ کے بارے میں فرمایا:اے اللہ! تو معاویہ کو ہدایت دے اور ہدایت یافتہ بنا دے، اور ان کے ذریعہ لوگوں کو ہدایت دے 

 امام ترمذیؒ کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے۔   

 تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ المؤلف ( تحفة الأشراف: 9708) (صحیح) 

¹⁷-سیدنامعاویہؓ کا ذکر خیر کے ساتھ ہی کرنا چاہیئے 

«سنن الترمذي» جلد5 صفحہ 687

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ قال: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ وَاقِدٍ، عَنْ يُونُسَ بْنِ حَلْبَسٍ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الخَوْلَانِيِّ، قَالَ: لَمَّا عَزَلَ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ عُمَيْرَ بْنَ سَعْدٍ عَنْ حِمْصَ وَلَّى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ النَّاسُ: عَزَلَ عُمَيْرًا وَوَلَّى مُعَاوِيَةَ، فَقَالَ عُمَيْرٌ: لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ» هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ.

[حكم الألباني] : صحيح لغيره 

جامع ترمذی

کتاب: مناقب کا بیان

باب: حضرت معاویہ بن ابی سفیانؓ کے مناقب

حدیث نمبر: 3843

ترجمہ: ابو ادریس خولانی کہتے ہیں کہ جب عمر بن خطابؓ نے عمیر بن سعد کو حمص سے معزول کیا اور ان کی جگہ معاویہؓ کو والی بنایا تو لوگوں نے کہا: انہوں نے عمیر کو معزول کردیا اور معاویہؓ کو والی بنایا، تو عمیر نے کہا: تم لوگ معاویہؓ کا ذکر بھلے طریقہ سے کرو کیونکہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: اللهم اهدبه اے اللہ! ان کے ذریعہ ہدایت دے ۔

 ¹⁸-سیدنا معاویہؓ کی حکومت رحمت الٰہی تھی

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد جلد 5 صفحہ 189)

«وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ» قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم: " «أَوَّلُ هَذَا الْأَمْرِ نُبُوَّةٌ وَرَحْمَةٌ، ثُمَّ يَكُونُ خِلَافَةً وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ مُلْكًا وَرَحْمَةً، ثُمَّ يَكُونُ إِمَارَةً وَرَحْمَةً، ۔

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ. 

رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ معاملہ (یعنی خلافت کا) پہلے نبوت اور رحمت کے ساتھ شروع ہوگا پھر خلافت اور رحمت ہوگی پھر ملوکیت اور رحمت ہوگی پھر امارت اور رحمت ہوگی۔  

اس حدیث سے سیدنا معاویہؓ کی حکومت رحمت والی ثابت ہوتی ہے 

¹⁹- سیدنا معاویہؓ پر سیدنا صدیق اکبرؓ کا اعتماد

«السنن الكبير» للبيهقي (12/ 211 ت التركي):

«11919 - أخبرَنا أبو الحُسَينِ ابنُ الفَضلِ القَطّانُ، أخبرَنا عبدُ اللَّهِ بنُ جَعفَرٍ، حدثنا يَعقوبُ بنُ سُفيانَ، حدثنا سُلَيمانُ، حدثنا عُمَرُ بنُ علىِّ بنِ مُقَدَّمٍ، عن هِشامِ بنِ عُروةَ، عن أبيه قال: دَخَلتُ على مُعاويَةَ فقالَ لِى: ما فعَلَ المَسلولُ؟ قال: قُلتُ: هو عِندِى. فقالَ: أنا واللَّهِ خَطَطتُه بيَدِى: أقطَعَ أبو بكرٍ الزُّبَيرَ أرضًا. فكُنتُ أكتُبُها. قال: فجاءَ عُمَرُ، فأخَذَ أبو بكرٍ يَعنِى الكِتابَ فأدخَلَه في ثِني الفِراشِ، فدَخَلَ عُمَرُ فقالَ: كأنَّكُم على حاجَةٍ. فقالَ أبو بكرٍ: نَعَم. فخَرَجَ، فأخرَجَ أبو بكرٍ الكِتابَ ‌فأتمَمتُه.» 

ترجمہ : عروہ کہتے ہیں : میں سیدنا معاویہؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، انہوں نے مجھ سے پوچھا خفیہ طور پر الاٹ کی ہوئی جائیداد کا کیا ہوا؟ میں نے کہا: وہ میرے پاس موجود ہے۔ یہ سن کر سیدنا معاویہؓ نے کہا: بخدا میں نے ہی اس زمین کو ایکوائر کیا تھا۔ سیّدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا زبیرؓ کو بطور جاگیر عطا کی تھی اور میں اس کی کاغذی کارروائی مکمل کر رہا تھا کہ اس دوران سیدنا عمر فاروقؓ تشریف لائے، انھیں دیکھ کر سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اس زمینی دستاویز کو اپنے بستر کے نیچے دبا دیا۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے اندر آتے ہی پوچھا:تم لوگ کسی ضروری کام میں مشغول تھے؟ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے کہا:جی ہاں یہ سن کر سیدنا عمر فاروقؓ چلے گئے ان کے چلے جانے کے بعد سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے تحریری دستاویز دوبارہ نکالی۔ پھر میں نے اسے مکمل کیا۔ 

²⁰- سیدنا عمر فاروقؓ کا سیدنا معاویہؓ کو مصلح امت قرار دینا 

«الطبقات الكبرى - متمم الصحابة - الطبقة الرابعة» (1/ 113):

37 - قَالَ: أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْوَلِيدِ الْأَزْرَقِيُّ، وَالْوَلِيدُ بْنُ عَطَاءِ بْنِ الْأَغَرِّ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ، عَنْ جَدِّهِ: أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ، دَخَلَ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَعَزَّاهُ عُمَرُ بِابْنِهِ يَزِيدَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ. قَالَ: " آجَرَكَ اللَّهُ فِي ابْنِكَ يَا أَبَا سُفْيَانَ، فَقَالَ: أَيُّ بَنِيِّ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ؟ قَالَ: «يَزِيدُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ» . قَالَ: فَمَنْ بَعَثْتَ عَلَى عَمَلِهِ؟ قَالَ: مُعَاوِيَةَ أَخَاهُ. وَقَالَ عُمَرُ: «إِنَّهُ لَا يَحِلُّ لَنَا أَنْ ‌نَنْزِعَ ‌مُصْلِحًا» 

رواتہ ثقات الا انہ منقطع 

ترجمہ:ابوسفیان سیدنا عمر فاروقؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے عمر فاروقؓ نے یزید بن ابی سفیان کے بارے میں ابوسفیان سے تعزیت کی اور فرمایا : اے ابوسفیان، اللہ تیرے بیٹے کے صدمہ پر تجھے اجر عطا فرمائے، ابوسفیان نے کہا: امیر المؤمنین کس بیٹے کی بات کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: یزید کی، ابوسفیان نے کہا: پھر یزید کی جگہ نے پھر آپ نے کسے والی بنا کر بھیجا ہے؟ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: اس کے بھائی معاویہ کو ، اور فرمایا: ہم کسی مصلح سے منازعت کو حلال نہیں سمجھتے۔ یعنی کسی مصلح اور قابل کو ہم آگے ہی بڑھاتے ہیں پیچھے نہیں کھینچتے ہیں 

فائدہ سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا معاویہؓ کو مصلح امت قرار دیا ہے۔ 

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا ابوبکرصدیقؓ سیدنا معاویہؓ پر کتنا اعتماد کرتے تھے 

²¹- سیدنا علیؓ کی زبانی سیدنا معاویہؓ کا ذکرِ خیر ہے  

«مصنف ابن أبي شيبة» (جلد7،صفحہ 548 ت الحوت):

«37854 - أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْحَارِثِ، قَالَ: لَمَّا رَجَعَ عَلِيٌّ مِنْ صِفِّينَ عَلِمَ أَنَّهُ لَا يَمْلِكُ أَبَدًا ، فَتَكَلَّمَ بِأَشْيَاءَ كَانَ لَا يَتَكَلَّمُ بِهَا ، وَحَدَّثَ بِأَحَادِيثَ كَانَ لَا يَتَحَدَّثُ بِهَا ، فَقَالَ فِيمَا يَقُولُ: أَيُّهَا النَّاسُ ، لَا ‌تَكْرَهُوا ‌إِمَارَةَ ‌مُعَاوِيَةَ ، وَاللَّهِ لَوْ قَدْ فَقَدْتُمُوهُ لَقَدْ رَأَيْتُمُ الرُّءُوسَ تَنْدُرُ مِنْ كَوَاهِلِهَا كَالْحَنْظَلِ» 

سند حسن 

ترجمہ: سیّدنا علیؓ نے فرمایا: اے لوگو! سیدنا معاویہؓ کی حکومت کو برا نہ سمجھو، بخدا جب وہ تم میں نہیں ہوں گے تو تم سروں کو گردنوں سے اس طرح الگ ہوتے دیکھو گے جیسے حنظل ( اندرائن ) کو اس کی بیل سے توڑ کر الگ کر دیا جاتا ہے۔

²²-سیدناحسنؓ کا سیدنا معاویہؓ کے ساتھ صلح کرنا 

(صحيح البخاري جلد 4 صفحہ 204 ):

حَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ عَنْ أَبِي مُوسَى عَنِ الْحَسَنِ عَنْ أَبِي بَكْرَةَ رضي الله عنه «أَخْرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ الْحَسَنَ فَصَعِدَ بِهِ عَلَى الْمِنْبَرِ فَقَالَ ‌ابْنِي هَذَا سَيِّدٌ وَلَعَلَّ اللهَ أَنْ ‌يُصْلِحَ بِهِ بَيْنَ فِئَتَيْنِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ.»

صحیح بخاری

کتاب: انبیاء علیہم السلام کا بیان

باب: نبی کریم ﷺ کے معجزوں یعنی نبوت کی نشانیوں کا بیان۔

حدیث نمبر: 3629

ترجمہ:مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے حسین جعفی نے بیان کیا، ان سے ابو موسیٰ نے، ان سے امام حسن بصری نے اور ان سے ابوبکرؓ نے کہ نبی کریمﷺ حسنؓ کو ایک دن ساتھ لے کر باہر تشریف لائے اور منبر پر ان کو لے کر چڑھ گئے پھر فرمایا میرا یہ بیٹا سید ہے اور امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو جماعتوں میں صلح کرا دے گا۔ 

یہ بات سب کو معلوم ہے کہ سیدنا حسنؓ نے امر خلافت سیّدنا معاویہؓ کو سپرد کر دیا تھا اور فریقین کی صلح ہو گئی تھی۔

 ²³-سیدہ عائشہ صدیقہؓ کا اپنی عمر سیدنا معاویہؓ کو دینے کی دعا

المنتقى من كتاب الطبقات لأبي عروبة الحراني(ص41):

حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى، وَهِلَالُ بْنُ بِشْرٍ، قَالَا: ثنا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَثْمَةَ، أَخْبَرَنِي سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، أَخْبَرَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ أَبِي عَلْقَمَةَ، عَنْ أُمِّهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: «مَا زَالَ بِي مَا رَأَيْتُ مِنْ أَمْرِ النَّاسِ فِي الْفِتْنَةِ، حَتَّى إِنِّي لَأَتَمَنَّى أَنْ يَزِيدَ اللَّهُ عز وجل ‌مُعَاوِيَةَ مِنْ ‌عُمْرِي ‌فِي ‌عُمْرِهِ

سیدہ عائشہ صدیقہؓ یہ ارشاد فرماتی تھی کہ میری یہ تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری عمر بھی سیدنا معاویہؓ کے ساتھ لگا کر ان کی عمر کو زیادہ کر دے 

اُم المومنینؓ کے یہ الفاظ سیدنا معاویہؓ کی منقبت کو ظاہر کرتے ہیں

²⁴-سیدنامعاویہؓ کی نماز رسول ﷺ کی نماز کے بہت زیادہ مشابہ تھی 

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائدجلد 9 صفحہ 357):

15920-وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم ‌أَشْبَهَ صَلَاةً بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم مِنْ أَمِيرِكُمْ هَذَا - يَعْنِي مُعَاوِيَةَ -.

رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ، وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيحِ غَيْرَ قَيْسِ بْنِ الْحَارِثِ الْمَذْحِجِيِّ، وَهُوَ ثِقَةٌ.

حضرت ابو الدرداءؓ ارشاد فرماتے ہیں میں نے سیدنا معاویہؓ کی نماز کو رسولﷺ کی نماز کے بہت زیادہ مشابہ دیکھا 

یعنی سیدنا معاویہؓ کی نماز حضورﷺ کی نماز کے بہت زیادہ مشابہ تھی 

²⁵-سیدنا معاویہؓ کا 12 خلفاء والی حدیث کی فضیلت کا مصداق ہونا

«سنن أبي داؤد (جلد6 صفحہ 335 ت الأرنؤوط):

«4279 - حدَّثنا عمرو بن عثمان، حدَّثنا مروان بن معاوية، عن إسماعيل -يعني ابن أبي خالدٍ- عن أبيه

عن جابر بن سمرة، قال: سمعتُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم يقول: لا يزال هذا الذين قائماً حتى يكون عليكم اثنا عشر ‌خليفةً، ‌كلهم ‌تجتمِع ‌عليه ‌الأمَّة" فسمعت كلاماً من النبي صلى الله عليه وسلم لم أفهمه، قلت لأبي: ما يقول؟ قال: كلُّهم من قُريش» 

حدیث نمبر: 4279

ترجمہ:جابر بن سمرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:یہ دین برابر قائم رہے گا یہاں تک کہ تم پر بارہ خلیفہ ہوں گے، ان میں سے ہر ایک پر امت اتفاق کرے گی پھر میں نے نبی اکرمﷺ سے ایک ایسی بات سنی جسے میں سمجھ نہیں سکا میں نے اپنے والد سے پوچھا: آپ نے کیا فرمایا؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپﷺ نے فرمایا ہے: یہ سارے خلفاء قریش میں سے ہوں گے ۔ 

«فتح الباري» لابن حجر (13/ 214 ط السلفية):

«وإيضاح ذلك أن المراد بالاجتماع انقيادهم لبيعته.

والذي وقع أن الناس اجتمعوا على أبي بكر ثم عمر ثم عثمان ثم علي إلى أن وقع أمر الحكمين في صفين، فسمي معاوية يومئذ بالخلافة، ثم اجتمع الناس على معاوية عند ‌صلح ‌الحسن،» 

حافظ ابن حجرؒ نے اس کی صراحت فرمائی ہے کہ سیدنا حسنؓ کی صلح کے بعد سیدنا معاویہؓ حسنین کریمینؓ سمیت سب حضرات نے بیعت کر لی تھی۔

²⁶- سیدنا معاویہؓ کا اسلام قبول کرنا اور حضورﷺ کا ان کو مرحبا کہنا

«سير أعلام النبلاء - ط الحديث» جلد 4 صفحہ 258):

«ابن سعد: حدثنا محمد بن عمر حدثني أبو بكر بن أبي سبرة عن عمر بن عبد الله العنسي قال معاوية: لما كان عام الحديبية وصدوا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن البيت وكتبوا بينهم القضية وقع الإسلام في قلبي فذكرت لأمي فقالت إياك أن تخالف أباك فأخفيت إسلامي فوالله لقد رحل رسول الله من الحديبية وإني مصدق به ودخل مكة عام عمرة القضية وأنا مسلم وعلم أبو سفيان بإسلامي فقال لي يوماً: لكن أخوك خير منك وهو على ديني فقلت لم آل نفسي خيراً وأظهرت ‌إسلامي ‌يوم ‌الفتح فرحب بي النبي صلى الله عليه وسلم وكتبت له. 

سندہ صحیح 

 سیدنا معاویہؓ فرماتے ہیں:

 میں فتح مکہ سے قبل اسلام قبول کر چکا تھا اور فتح مکہ والے دن اپنے اسلام کو ظاہر کیا حضورﷺ نے مجھے مرحبا کہا اور میں آپﷺ کے لیے وحی لکھا کرتا تھا 

²⁷- قرآنِ مقدس کی آیت سے سیدنا معاویہؓ کا جنتی ثابت ہونا

وَ مَا لَـكُمۡ اَلَّا تُنۡفِقُوۡا فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ وَلِلّٰهِ مِيۡـرَاثُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ‌ؕ لَا يَسۡتَوِىۡ مِنۡكُمۡ مَّنۡ اَنۡفَقَ مِنۡ قَبۡلِ الۡفَتۡحِ وَقَاتَلَ‌ ؕ اُولٰٓئِكَ اَعۡظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّذِيۡنَ اَنۡفَقُوۡا مِنۡۢ بَعۡدُ وَقَاتَلُوۡا‌ ؕ وَكُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الۡحُسۡنٰى‌ؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ۔(سورۃ الحديد10)

ترجمہ:اور تمہارے لیے کونسی وجہ ہے کہ تم اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرو، حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری میراث اللہ ہی کے لیے ہے۔ تم میں سے جنہوں نے (مکہ کی) فتح سے پہلے خرچ کیا، اور لڑائی لڑی، وہ (بعد والوں کے) برابر نہیں ہیں۔ وہ درجے میں ان لوگوں سے بڑھے ہوئے ہیں جنہوں نے (فتح مکہ کے) بعد خرچ کیا، اور لڑائی لڑی۔ یوں اللہ نے بھلائی (یعنی جنت ) کا وعدہ ان سب سے کر رکھا ہے، اور تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ 

اگرچہ سیدنا معاویہؓ فتح مکہ سے قبل اسلام لا چکے تھے جیسا کہ ایک روایت میں گزر چکا ہے 

سیّدنا معاویہؓ کو اگر فتح مکہ سے قبل نازل ہونے والی ایات کا مصداق نہ بھی مانا جائے تو لامحالہ اس آیت کا مصداق بن کر جنتی ثابت ہوتے ہیں 

اور یہاں سے حسنی سے مراد جنت ہے بہت سے محدثین اور مفسرین نے اس کی وضاحت فرمائی ہے سر دست صرف ایک حوالہ ناظرین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔

«تفسير الطبري» (جلد 9 صفحہ 96 ط التربية والتراث):

«10253- حدثنا بشر بن معاذ قال، حدثنا يزيد قال، حدثنا سعيد، عن قتادة:"وكلاًّ وعد الله ‌الحسنى"، ‌وهي ‌الجنة، والله يؤتي كل ذي فضل فضلَه.» 

²⁸- قرآن مقدس سے سیدنا معاویہؓ کا مؤمن ثابت ہونا اور پھر ان پر سکینہ نازل ہونا۔

ثُمَّ اَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلٰى رَسُوۡلِهٖ وَعَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَاَنۡزَلَ جُنُوۡدًا لَّمۡ تَرَوۡهَا‌ ۚ وَعَذَّبَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا‌ ؕ وَذٰ لِكَ جَزَآءُ الۡـكٰفِرِيۡنَ۔(سورۃ التوبة 26)

ترجمہ:پھر اللہ نے اپنے رسولﷺ پر اور مومنوں پر اپنی طرف سے تسکین نازل کی اور ایسے لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہیں آئے، اور جن لوگوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اللہ نے ان کو سزا دی، اور ایسے کافروں کا یہی بدلہ ہے۔

یہ آیت ان صحابہؓ کے بارے میں نازل ہوئی جو غزوہ حنین میں شریک تھے سیدنا معاویہؓ بھی اس غزوہ میں شریک تھے وہ بھی اس آیت کے مصداق ہیں 

جس کی صراحت ذیل میں نقل کی جاتی ہے۔ 

(فتح المنان بسيرة أمير المؤمنين معاوية بن أبي سفيان صفثہ240 ) 

«فهذه الآية نزلت في شأن المؤمنين الذين حاربوا مع النبي صلى الله عليه وسلم يوم حنين، وكان منهم طائفة كثيرة من مسلمة الفتح، ومنهم معاوية رضي الله عنه.» 

مذکورہ بالا عبارت سے واضح ہوا کہ  سیدنا معاویہؓ رضی اللہ عنہ بھی اس فضیلت کے مصداق ہیں۔

²⁹-حضورﷺ کی زبان اقدس سے سیدنا معاویہؓ کے مؤمن ہونے کی گواہی۔

«صحيح مسلم» (جلد4،صفحہ 2214 ت عبد الباقي):

«17 - (157) وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ. حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ. حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ عَنْ هَمَّامِ بْنِ مُنَبِّهٍ. قَالَ: هذا ما حدثنا أبو هريرة عن رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم. فَذَكَرَ أَحَادِيثَ مِنْهَا:

وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم "لا تقوم الساعة حتى تقتتل ‌فئتان ‌عظيمتان. وتكون بينهما مقتلة عظيمة. ودعواهما واحدة".»

حدیث نمبر: 7256

ترجمہ محمد بن رافع عبدالرزاق، معمر، ہمام بن منبہ، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ دو عظیم جماعتوں کے مابین جنگ وجدل نہ ہو جائے اور ان کے درمیان ایک بہت بڑی لڑائی ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا (کہ ہم رضائے الٰہی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے جہاد کر رہے ہیں)۔ 

³⁰- سیدنا معاویہؓ کو برا بھلا کہنے سے حضورﷺ نے منع فرمایا

(صحيح البخاري5/ 8)

3673 - حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ قَالَ: سَمِعْتُ ذَكْوَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم: «‌لَا ‌تَسُبُّوا أَصْحَابِي، فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَهُ». 

حدیث نمبر: 3673

ترجمہ:ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، کہا میں نے ذکوان سے سنا اور ان سے ابو سعید خدریؓ نے بیان کیا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا میرے اصحابؓ کو برا بھلا مت کہو۔ اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا(اللہ کی راہ میں) خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ شعبہ کے ساتھ اس حدیث کو جریر، عبداللہ بن داؤد، ابو معاویہ اور محاضر نے بھی اعمش سے روایت کیا ہے۔ 

یہ حدیث بھی اگرچہ تمام صحابہ کرامؓ کے بارے میں ہے سیدنا معاویہؓ بھی اس میں شامل ہیں۔

³¹-حسنین کریمینؓ کا سیدنا معاویہؓ سے ہدایہ وصول کرنا

«مصنف ابن أبي شيبة» (جلد11صفحہ 336 ت الشثري):

«21543 - حدثنا حاتم بن إسماعيل عن جعفر بن (محمد) عن أبيه أن الحسن (والحسين) (كانا) ‌يقبلان ‌جوائز ‌معاوية.» 

سندہ صحیح 

«الشريعة للآجري» (5/ 2470):

«1963 - وَأَنْبَأَنَا ابْنُ نَاجِيَةَ قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مِسْكِينٍ قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ الْحَسَنَ ، وَالْحُسَيْنَ ، رضي الله عنهما ، كَانَا ‌يَقْبَلَانِ ‌جَوَائِزَ ‌مُعَاوِيَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ» 

سندہ حسن 

ان دونوں صحیح حدیثوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سیدنا معاویہؓ  سے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما ہدایا وصول کرتے تھے۔

³²-سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کی سیدنا معاویہؓ کے حق میں گواہی

«التاريخ الكبير» للبخاري (جلد7،صفحہ 732 ت المعلمي اليماني):

«قَالَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى فِيمَا حَدَّثُونِي عنه عَنْ هِشَامِ (بْن يُوسُفَ -1) عَنْ معمَر قَالَ سَمِعْتُ (هَمَّامَ - 1) بْنَ مُنَبِّهٍ عَنِ ابْنِ عباس قال ما رأيت احدا اخلق للملك مِنْ مُعَاوِيَةَ.» 

سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:

میں نے سیدنا معاویہؓ سے زیادہ حکومت کا اہل کوئی شخص نہ دیکھا۔

³⁴-سیدنا معاویہؓ اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم تھے

(سير أعلام النبلاء جلد 3 صفحہ 151)

الشافعي: أنبأنا عبد المجيد، عن ابن جريج، أخبرني عتبة بن محمد، أخبرني كريب مولى ابن عباس:

أنه رأى معاوية صلى العشاء، ثم أوتر بركعة واحدة لم يزد، فأخبر ابن عباس، فقال: أصاب، أي بني! ليس أحد منا أعلم من معاوية، هي واحدة أو خمس أو سبع، أو أكثر

ایک دن سیدنا معاویہؓ نے وتر کی ایک رکعت پڑھی سیدنا ابنِ عباسؓ کے غلام نے اس کا ذکر ان کے پاس کیا سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے ارشاد فرمایا:

اس روئے زمین پر (یعنی اپنے زمانے میں) سیدنا معاویہؓ سے بڑا عالم کوئی بھی نہیں ہے۔

³⁴-سیدنا معاویہؓ سیّدنا کعب بن مالکؓ کی نظر میں  

«الطبقات الكبير» (6/ 20 ط الخانجي):

«قال: أخبرنا سليمان بن حرب قال: حدّثنا حماد بن زيد عن أيوب عن أبي قِلَابَة قال: قال كَعْب: لن يملك أحد مِن هذه ‌الأمة ‌ما ‌مَلَك ‌معاوية»

 سندہ صحیح

سیدنا کعب بن مالکؓ فرماتے ہیں 

سیدنا معاویہؓ کے بعد اس امت میں کوئی بھی سیدنا معاویہؓ جیسی(عمدہ و بہترین)حکومت نہیں کر سکتا۔

³⁵- سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ کی نظر میں سیدنا معاویہؓ کا رتبہ 

(سير أعلام النبلاءجلد3صفحہ150):

«الليث: عن بكير، عن بسر بن سعيد، أن سعد بن أبي وقاص، قال:ما رأيت أحدا بعد ‌عثمان ‌أقضى ‌بحق من صاحب هذا الباب -يعني: معاوية

سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں:

میں نے سیدنا عثمانؓ کے بعد کسی کو بھی معاویہؓ سے زیادہ حق و انصاف کے مطابق فیصلہ کرنے والا نہیں دیکھا-  

³⁶- غزوہ تبوک کے دن سیدنا معاویہؓ حضورﷺ کے پہلو میں

«مسند أبي يعلى» (جلد3 صفحہ 170 ت حسين أسد):

«حَدَّثَنَا حَوْثَرَةُ بْنُ أَشْرَسَ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي رَاشِدٍ

أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مَعَ أَصْحَابِهِ، وَهُمْ مُحْتَبُونَ بِحَمَائِلِ سُيُوفِهِمْ حَوْلَ بِئْرِ تَبُوكَ، فَقُلْتُ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟ فَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى نَفْسِهِ، فَدَفَعْتُ إِلَيْهِ الْكِتَابَ، فَدَفَعَهُ إِلَى رَجُلٍ إِلَى جَنْبِهِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ فَقَالُوا: ‌مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ، فَقَرَأَهُ فَإِذَا فِيهِ: رواتہ ثقات 

راوی کہتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا حضورﷺ اپنے صحابہؓ کے ساتھ تشریف فرما تھے اور صحابہ کرامؓ اپنی تلواروں کے ساتھ حضور ﷺ کو سایہ کیے ہوئے تھے میں نے کہا کہ تم میں محمد کون ہے ؟ 

حضورﷺ نے اپنی ذات کی طرف اشارہ کیا

 میں نے خط حضورﷺ کے حوالے کر دیا حضورﷺ نے یہ خط اپنے پہلو میں بیٹھے ہوئے ایک شخص کو دے دیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے پوچھا کہ یہ کون ہے صحابہؓ نے کہا کہ یہ معاویہ بن ابی سفیانؓ ہیں پھر سیدنا معاویہؓ نے وہ خط حضورﷺ کو پڑھ کر سنایا۔

³⁷-سیدنا معاویہؓ کی سخاوت 

«السنة لأبي بكر بن الخلال» (جلد2صفحہ 141):

حَدَّثَنَاهُ الدُّورِيُّ قَالَ: ثَنَا نُوحُ بْنُ يَزِيدَ الْمُؤَدِّبُ قَالَ: ثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: «مَا رَأَيْتُ أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ» . قَالَ: قُلْتُ: هُوَ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ؟ قَالَ: هُوَ وَاللَّهِ أَخْيَرُ مِنْهُ، وَهُوَ وَاللَّهِ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ أَبِي بَكْرٍ ". قَالَ: قُلْتُ: فَهُوَ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ عُمَرَ؟ قَالَ: عُمَرُ وَاللَّهِ كَانَ أَخْيَرَ مِنْهُ، وَهُوَ وَاللَّهِ ‌أَسْوَدُ مِنْ عُمَرَ ". قَالَ: قُلْتُ: هُوَ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْ عُثْمَانَ؟ قَالَ: وَاللَّهِ إِنْ كَانَ عُثْمَانُ لَسَيِّدًا، وَهُوَ كَانَ ‌أَسْوَدَ مِنْهُ ". قَالَ الدُّورِيُّ: قَالَ بَعْضُ أَصْحَابِنَا: قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: مَعْنَى أَسْوَدًا أَيْ أَسْخَى 

سندہ صحیح 

حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے ارشاد فرمایا :

میں نے رسول اللہﷺ  کے بعد سیدنا معاویہؓ سے زیادہ سخی کوئی نہیں دیکھا۔ 

حضرت نافع نے ان سے پوچھا کیا سیدنا معاویہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے بھی زیادہ سخی تھے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا اگرچہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا معاویہؓ سے بہت زیادہ بہتر تھے لیکن سیدنا معاویہؓ ان سے زیادہ سخی تھے۔ 

پھر راوی نے پوچھا کہ کیا سیدنا عمرؓ سے زیادہ سخی تھے۔سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا اگرچہ سیدنا عمرؓ کا مقام سیدنا معاویہؓ سے بہت زیادہ بلند تھا 

لیکن سخاوت میں سیدنا معاویہؓ سیدنا عمرؓ سے بھی بڑھے ہوئے تھے۔

پھر راوی نے پوچھا کہ کیا سیدنا عثمانؓ سے بھی زیادہ سخی تھے۔تو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے جواب دیا 

بے شک سیدنا عثمانؓ سردار تھے لیکن سیدنا معاویہؓ سیدنا عثمانؓ سے بھی زیادہ سخی تھے۔ 

³⁸- سیدنا ابوالدرداءؓ کے نزدیک سیدنا معاویہؓ کا مقام 

(الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم جلد1،صفحہ382):

526 -حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْفُرَاتِ، نا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، نا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ حُدَيْرِ بْنِ كُرَيْبٍ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضي الله عنه، قَالَ: «لَا مَدِينَةَ بَعْدَ عُثْمَانَ، وَلَا ‌رَخَاءَ بَعْدَ مُعَاوِيَةَ رضي الله عنهما۔

سیدنا عثمانؓ کے بعد مدینہ نہ رہا اور سیدنا معاویہؓ کے بعد کشادگی نہ رہی۔

³⁹-سیدنا معاویہؓ کے تمام ساتھی جنتی ہیں سیدنا علیؓ کی شہادت

(مصنف ابن أبي شيبةجلد7,صفحہ552 ت الحوت):

«37880 - عُمَرُ بْنُ أَيُّوبَ الْمَوْصِلِيُّ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: سَأَلَ عَلِيٌّ عَنْ قَتْلَى، يَوْمِ صِفِّينَ ، فَقَالَ: ‌قَتْلَانَا وَقَتْلَاهُمْ فِي الْجَنَّةِ ، وَيَصِيرُ الْأَمْرُ إِلَيَّ وَإِلَى مُعَاوِيَةَ

سیدنا علیؓ ارشاد فرماتے ہیں ہمارے اور سیدنا معاویہؓ کے شہداء جنت میں ہیں باقی میرا اور معاویہؓ کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالے ہے۔

⁴⁰-سیدنا معاویہؓ کے جسم کو لگنے والی مٹی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ سے ہزار درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

(الشريعة للآجري جلد5،صفحہ 2466):

«1955 - حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ شَهْرَيَارَ الْبَلْخِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْوَهَّابِ الْوَرَّاقُ قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا ، بِمَرْوَ قَالَ لِابْنِ الْمُبَارَكِ: مُعَاوِيَةُ خَيْرٌ أَوْ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ؟ . قَالَ: فَقَالَ ابْنُ الْمُبَارَكِ: ‌تُرَابٌ ‌دَخَلَ فِي أَنْفِ مُعَاوِيَةَ رحمه الله مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم خَيْرٌ أَوْ أَفْضَلُ مِنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ

سیدنا عبداللہ بن مبارکؒ سے پوچھا گیا 

سیدنا معاویہؓ کا مقام زیادہ ہے یا سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ کا؟ 

سیّدنا عبداللہ بن مبارکؒ نے جواب دیا:

سیدنا معاویہؓ کے ناک میں مٹی جو حضورﷺ کی معیت میں پڑی وہ۔سیدنا عمر بن عبدالعزیزؒ سے کئی درجہ افضل ہے۔

 فللہ الحمد