Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

شیعہ تبرائی ہو تو اس کے ساتھ مناکحت جائز نہیں ہے


شیعہ تبرائی ہو تو اس کے ساتھ مناکحت جائز نہیں ہے

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین دریں مسئلہ کہ: ایک لڑکی اہلِ سنت کی رافضی تبرائی نے اغواء کر کے نکاح کر لیا ہے۔ جب لڑکی واقف مذہب ناکح سے ہوئی، اپنے میکے میں جا کر اظہار تاسف کیا۔ اب لڑکی بمع رشتہ داران یعنی باپ وغیرہ کے خواہاں ہیں کہ اس لڑکی کا کسی دوسری جگہ نکاح کر دیں۔ آیا شرعاً پہلا نکاح نافذ ہے یا نہیں؟ اگر نافذ ہے تو ولی کو حق اعتراض ہے یا نہیں؟ اگر حق ہے تو تفریق کے بعد عدت کی ضرورت ہے یا نہیں؟

جواب: اگر شیعہ تبرائی ہو جو تبراء کو جائز کہے یا اور کسی مسئلہ ضروریہ کا انکاری ہو تو یہ کافر ہے اور اس کے ساتھ مسلمان عورت کا نکاح سرے سے ہوا ہی نہیں اور وہ دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ مسئلہ ضروریہ کا انکار، مثلاً سیدنا علیؓ کی اُلوہیت کا قائل ہو یا حضرت جبرائیلؑ کو وحی پہنچانے میں غلطی کرنے کا قائل ہو یا تحریف قرآن کا قائل ہو یا صحبتِ صدیقِ اکبرؓ کا انکاری ہو یا سیدہ عائشہ صدیقہؓ پر تہمت لگاتا ہو یا سبّ صحابہؓ کو جائز اور کارِ خیر سمجھتا ہو۔ :ھکذا فی الشاميه باب الردة: اور اگر اسلام کے کسی مسئلہ ضروریہ کا انکاری نہ ہو تو یہ مسلمان شمار ہو گا اور اس کا نکاح مسلمان عورت سے جائز شمار ہو گا۔

لیکن صورت مسئولہ میں چونکہ لڑکی نے بغیر اجازت ولی کے شیعہ شخص کے ساتھ نکاح کر لیا ہے، اور شیعہ سنی عورت کا کفو نہیں ہے۔ لہٰذا لڑکی کے والد کی عدم رضامندی کی صورت میں قولِ مفتی به کے مطابق یہ نکاح کالعدم شمار ہو گا اور لڑکی عدت شرعیہ گزار لینے کے بعد دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔ ہاں اگر والد نے صراحتاً یا دلالۃً رضامندی ظاہر کی ہو، اور شیعہ حدِ کفر تک نہ پہنچا ہوا ہو، جس کی تفصیل اوپر کر دی گئی تو اس کا نکاح جائز شمار ہو گا۔

(فتاویٰ مفتی محمودؒ:جلد:4:صفحہ:581)