Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خلیفہ سوم، داماد نبی، ناشر القرآن، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ

  جعفر صادق

خلیفہ سوم، داماد نبی، ناشر القرآن، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ:

 نام مبارک: عثمان
 کنیت: ابو عبداللہ، ابو عمرو۔
 لقب: ذوالنورین، غنی۔
 والد کا نام: عفان۔
 والدہ کا نام: ارویٰ بنتِ کریز بن ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی۔
 سلسلہ نسب: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی قرشی اموی۔
 تاریخ پیدائش: آپ کی ولادت باسعادت واقعہ فیل کے چھٹے سال (ہجرت سے 47 سے پہلے) قریش کے ایک ممتاز گھرانے میں ہوئی۔
(استیعاب: جلد، 3 صفحہ،1038)
 قبل از اسلام: سیدنا عثمانؓ نے عرب کے شریف زادوں کی طرح بڑے ناز و نعم میں پرورش پائی اور مروجہ علوم و فنون کی تحصیل کے بعد اپنے آبائی پیشہ تجارت سے وابستہ ہوگئے اور اپنی دیانت و راست بازی کی وجہ سے بہت جلد ترقی کر کے قریش کے دولت مند لوگوں کی صف میں شامل ہو گئے اور غنی کے لقب سے یاد کئے جانے لگے۔
قبولِ اسلام: سیدنا عثمانؓ فطرتاً سلیم الطبع، حلیم و بردباد واقع ہوئے تھے عہدِ جاہلی کے پُر آشوب معصیت شعار ماحول میں بھی آپؓ کا دامن بت پرستی، شراب نوشی، جوابازی، بدکاری جیسے مذموم کاموں کے داغ سے پاک رہا۔ آپؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پاس اٹھتے بیٹھتے تھے۔ ظہورِ اسلام کے بعد آپؓ نے سیدنا عثمانؓ کو اسلام لانے کی ترغیب دی اور ان کو رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لے کر گئے۔اور آپؓ نے اسلام قبول کر لیا۔
 شرفِ دامادی: دولتِ دنیا کے ساتھ دولتِ ایمان سے بہرہ مند ہونے کے بعد سرکار دوعالم ﷺ نے آپؓ کو شرفِ دامادی بخشا اور اپنی منجھلی صاحبزادی سیدہ رقیہؓ کو آپؓ کے عقد میں دیا۔جنگِ بدر کے موقع پر جب ان کا انتقال ہوگیا تو حضور اکرمﷺ نے اپنی دوسری صاحبزادی سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح آپؓ سے کر دیا پھر جب ان کا بھی انتقال ہوگیا تو حضور اکرمﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: اگر میرے پاس تیسری بیٹی بھی ہوتی تو میں اس کا بھی نکاح سیدنا عثمانؓ سے کر دیتا۔
(اسد الغابہ: جلد، 2 صفحہ، 249) 
 ہجرت: قبولِ اسلام کی وجہ سے آپؓ کو سخت مصائب وآلام کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ وہ لوگ جو اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے پر تلے ہوئے تھے ان میں آپؓ کے خاندان کے لوگ قائد کا رول نبھا رہے تھے اس لئے یہ بات ان کے لئے ناقابلِ برداشت تھی کہ ان ہی کے خاندان کا کوئی فرد اسلام قبول کر لے۔ چنانچہ آپؓ کے خاندان کے لوگوں نے آپؓ کو برا بھلا کہا اور آپؓ کے حقیقی چچا حکم بن ابی العاص نے آپؓ کو باندھ کر مارا، لیکن ان آزمائش کی سخت گھڑیوں میں بھی آپؓ مکمل طور سے ثابت قدم رہے۔
ایک زمانے تک آپؓ پر اور دوسرے مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے رہے پھر جب حق کے علمبرداروں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ بغیر وطن اور عزیز و اقارب کو چھوڑے دین حق کی نشر و اشاعت نہیں ہو سکتی ہے تو آقائے کریمﷺ نے ملک حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت عطا فر مائی۔ چنانچہ نبوت کے پانچویں سال سب سے پہلی مرتبہ دینِ حق کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر ایک قافلہ ہجرت کرنے کے لئے تیار ہوا جس میں 11 مرد اور 4 عورتیں تھیں اور یہ قافلہ سیدنا عثمانؓ کی قیادت میں حبشہ کی طرف روانہ ہوا، اس سفر میں سیدنا عثمانؓ کے ساتھ ان کی اہلیہ محترمہ سیدہ رقیہؓ بنتِ رسولﷺ بھی تھیں۔
یہ سارے لوگ حبشہ ہی میں اقامت گزیں ہو گئے پھر ایک خبر پا کر مسلمان وہاں سے مکہ آنے لگے تو آپؓ بھی مکہ واپس آگئے، لیکن خبر جھوٹی ثابت ہوئی تو پھر کچھ لوگ دوبارہ حبشہ چلے گئے مگر آپؓ مکہ ہی میں رہے مکہ کی فضا اہلِ اسلام کے لئے پہلے سے کہیں زیادہ تاریک ہو چکی تھیں اور مسلمان ناقابلِ برداشت ظلم و ستم سے دو چار تھے۔ آخر کار ہجرت کی عام اجازت ہوئی تو دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی طرح آپ بھی ہجرت کر کے مدینہ شریف چلے آئے۔
فضائل و مناقب:
خاص آپ کے فضائل و مناقب سے متعلق کثیر روایتیں کتبِ احادیث میں وارد ہیں ،ان میں سے چند حاضر ہیں۔
1: رسول اکرمﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: جنت میں ہر نبی کا ایک ساتھی ہوگا اور جنت میں میرے ساتھی سیدنا عثمانؓ ہوں گے۔
(ترمذی: حدیث، 3697)
2: سیدنا سہل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور اکرمﷺ سے پوچھا کہ:کیا جنت میں برق یعنی جگمگاہٹ ہوگی؟ تو حضورﷺ نے ارشاد فر مایا کہ: قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ و قدرت میں میری جان ہے! بے شک سیدنا عثمانؓ جب ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف منتقل ہوگا تو جنت ان کے لئے جگمگائے گی۔
(المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابہ: حدیث، 4540)
3: سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ: ہم لوگ نبی کریمﷺ کے زمانے میں سیدنا ابوبکرؓ کے برابر کسی کو نہیں سمجھتے تھے پھر سیدنا عمرؓ کو اور ان کے بعد سیدنا عثمانؓ کو سمجھتے تھے اور ان کے بعد ہم لوگ حضور ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں کسی کو کسی پر فضیلت کی بات نہیں کرتے تھے۔
(صحیح بخاری،حدیث: 3698 ترمذی، حدیث: 3706)
4: سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ: بیعتِ رضوان کے موقع پر حضورﷺ نے سیدنا عثمانؓ کو مکہ بھیجا تھا پھر جب ان کے جانے کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضورﷺ ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بیعت کیا تو حضورﷺ نے اپنے داہنے ہاتھ کے بارے میں فرمایا کہ یہ عثمانؓ کا ہاتھ ہے اور آپﷺ نے اسے اپنے بائیں ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ: یہ بیعت عثمانؓ کی طرف سے ہے۔
(صحیح بخاری: حدیث: 3698 ترمذی: حدیث: 3706)
اعزازات: سیدنا عثمانؓ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یکے بعد دیگر حضورﷺ کی دو بیٹیاں آپؓ کے نکاح میں آئیں۔ جب آپؓ کی بیوی سیدہ امِ کلثومؓ کا انتقال ہوا تو رسولِ خداﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر میری سو بیٹیاں ہوتیں تو میں ایک ایک کر کے سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دے دیتا۔
(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ: جلد، 11 صفحہ، 231 باب مناقب عثمان بن عفانؓ، الفصل الثالث)
حضرت نبی کریمﷺ نے فرمایا: لکل نبی رفیق ورفیقی فی الجنۃ عثمانؓ۔
(جامع الترمذی: جلد، 2 صفحہ، 689 مناقب عثمان بن عفان:)
ترجمہ: ہر نبی کا جنت میں ایک رفیق ہوگا اور میرا رفیق عثمانؓ ہو گا۔
صلح حدیبیہ کے موقع پر حضورﷺ نے آپؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا۔ 
(جامع ترمذی: جلد، 2 صفحہ، 689 مناقب عثمان بن عفانؓ)
قوت اجتہاد و استنباط:
اپنے دورِ خلافت میں بہت سے اجتہاد فرمائے جن سے آپؓ کی شانِ فقاہت معلوم ہوتی ہے۔ چند ایک کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
جمع قرآن: 
جب آپؓ خلیفہ بنے تو اسلام عرب سے نکل کر روم و ایران کے دور دراز علاقوں میں پھیل چکا تھا۔ قرآنِ مجید سات لغتوں پر نازل ہوا تھا اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سات لغات پر تلاوت فرماتے تھے۔ قراءتوں کا یہ اختلاف دور دراز کے علاقوں میں بھی پھیل گیا جب تک لوگ اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کا نزول سات لغات پر ہوا ہے اس وقت تک اختلاف سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوئی تھی لیکن جب یہ اختلاف ان دور دراز کے مملک میں پہنچا جن میں یہ بات پوری طرح سے مشہور نہیں ہوئی تھی کہ قرآن سات لغات پر نازل ہوا ہے تو اس وقت جھگڑے پیدا ہونے لگے۔ بعض لوگ اپنی قراءت کو صحیح اور دوسری کو غلط کہنے لگے تو اس وقت سیدنا عثمانؓ نے امت کو لغتِ قریش پر جمع فرمایا۔ یہ آپؓ کی اجتہادی شان کا عظیم کارنامہ ہے۔
 ترکِ قراءت خلف الامام:
مشہور مسئلہ ہے کہ امام کے پیچھے قراءت کی جائے یا نہ؟ اس بارے میں احادیث و آثار کا ایک ذخیرہ موجود ہے۔ ترک قراءات کے متعلق آیت قرآنی وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا الایۃ اور احادیث مبارکہ کے پیش نظر سیدنا عثمانؓ نے ترکِ قراءت کو ہی راجح قرار دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ میں سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمرؓ کے اقوال کے ساتھ آپؓ کے قول کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ مثلاً
عن موسی بن عقبۃ ان رسول اللہﷺ وابابکرؓ و عمرؓ وعثمانؓ کانوا ینہون عن القراءۃ خلف الامام
(مصنف عبد الرزاق: جلد، 2 صفحہ، 90، 91 حدیث: 754)
عن زید بن اسلم قال کان عشرۃ من اصحاب رسول اللہﷺ ینہون عن القراءۃ خلف الامام اشد النہی ابوبکر الصدیقؓ وعمر الفاروقؓ وعثمان بن عفانؓ
(عمدۃ القاری: جلد، 4 صفحہ، 449 باب وجوب القراءۃ للامام والماموم)
ترجمہ: یعنی حضورﷺ کے دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے تھے جو سختی سے امام کے پیچھے قراءت کرنے سے منع فرماتے تھے۔ان میں سے سیدنا ابوبکرؓ ،سیدنا عمرؓ، اور سیدنا عثمانؓ بھی تھے۔
جمعہ کی اذانِ ثانی
آنحضرتﷺ، سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے دور میں جمعہ کے لیے ایک اذان دی جاتی تھی۔ جب سیدنا عثمانؓ کا دورِ خلافت آیا اور مسلمانوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا تو آپؓ کے حکم سے اذانِ ثانی شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔ سیدنا سائب بن یزیدؓ اس اذان کے متعلق فرماتے ہیں: فثبت الامر علی ذالک۔
(صحیح بخاری: جلد، 1 صفحہ، 125 کتاب الجمعۃ باب التأذین عند الخطبۃ)
ترجمہ: یعنی اذان کا یہ طریقہ مستقل طور پر رائج ہوگیا۔
دیت کی ادائیگی میں مال دینا:
آنحضرتﷺ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے عہد سے دیت میں اونٹ لینے کا طریقہ چلا آ رہا تھا۔ آپؓ نے دیت میں ان کی قیمت دینی بھی جائز قرار دی کیونکہ یہاں اونٹوں میں سوائے مال کے اور کوئی جہت نہیں پائی جاتی۔ قاضی القضاۃ امام ابو یوسفؒ نے بھی اپنے دور میں یہی فتویٰ دیا۔
 امت کے متعلق آپؓ کا نقطہ نظر:
آپؓ کا نظریہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو قرآن و سنت کے نام پر آزاد نہیں رہنا چاہیئے بلکہ اپنے اسلاف کی پیروی کرنی چاہیئے۔ اسی وجہ سے جب آپ خلیفہ مقرر ہوئے تو سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ نے آپؓ سے عہد لیا کہ آپؓ شیخین کریمینؓ کی سیرت پر چلیں گے۔ آپؓ نے اس کو قبول کر لیا۔ آپؓ مجتہد ہونے کے باوجود سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی پیروی کرتے تھے مثلاً سیدنا عمرؓ کے دور مبارک میں پورا مہینہ بیس رکعت تراویح پڑھی جاتی تھی، آپؓ نے انہی کی اتباع میں اسی پر دوام فرمایا۔
عن السائب بن یزید قال کانوا یقومون علی عہد عمر بن الخطابؓ فی شہر رمضان بعشرین رکعۃ قال و کانوا یقرءون بالمئین وکانوا یتوکئون علی عصیھم فی عہد عثمان بن عفانؓ من شدۃ القیام۔
(سنن الکبری للبیہقی: جلد، 2 صفحہ، 496 باب ماروی فی عدد رکعات القیام فی شہر رمضان)
ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سیدنا عمرؓ کے زمانہ میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے اور سیدنا عثمانؓ کے زمانہ میں لمبے قیام کی وجہ سے سہارا لے کر کھڑے ہوتے تھے۔
آپؓ کا فرمان یہ تھا کہ مسلمانوں کو جب بھی عروج ملا ہے وہ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے سے ملا ہے آپؓ کا فرمان ہے:
إنما بلغتم ما بلغتم بالاقتداء والاتباع فلا تلفتنكم الدنيا عن أمركم
(تاریخ طبری: جلد، 5 صفحہ، 45)
ترجمہ: تم جس مقام پر پہنچے ہو وہ پہلوں کی تقلید سے پہنچے ہو خیال کرنا دنیا کہیں تمہیں حکم الہٰی سے دوسری طرف نہ پھیر دے۔
خلافت:
سیدنا عمرؓ نے اپنے آخری وقت میں ایک کمیٹی بنائی جس میں سیدنا عثمانؓ، سیدنا علیؓ، سیدنا سعد بن ابی وقاصؓ، سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ، سیدنا طلحہ بن عبداللہؓ اور سیدنا زبیر بن عوامؓ کو شامل کیا اور ارشاد فرمایا کہ یہ وہ لوگ ہیں کہ جب حضورﷺ دنیا سے تشریف لے گئے تو ان سے راضی اور خوش تھے اس لئے یہ لوگ جن کو خلیفہ بنا دے وہی مسلمانوں کا خلیفہ ہوگا۔ چنانچہ سیدنا عمرؓ کے بعد اس کمیٹی کے اتفاق سے سیدنا عثمانِ غنیؓ 1 محرم الحرام ، سن 24 ہجری میں حضورﷺ کے تیسرے خلیفہ کے طور پر نامزد کئے گئے اور لوگوں نے آپؓ کے ہاتھ پر بیعت کیا۔
(اسد الغابہ: جلد، 2 صفحہ، 253)
آپؓ نے کل بارہ سال تک خلافت کی ذمہ داری نبھائی جس میں چھ سال تو نہایت اطمینان و سکون کے ساتھ گزرا اور مسلمانوں کی بڑی ترقی ہوئی مگر آخر کا چھ سال حضورﷺ کی خبر کے مطابق کہ اے عثمانؓ اللہ تعالیٰ تمہیں خلافت کی قمیص پہنائے گا جسے منافقین اتارنا چاہیں گے مگر تم نہ اتارنا۔
(ترمذی: حدیث، 3705 ابنِ ماجہ: حدیث، 112)
عبداللہ ابنِ سباء یہودی جو شیعہ مذہب کا بانی تھا اس نے آپؓ کو خلافت سے ہٹانے کا منصوبہ بنایا اور پھر آپؓ کے خلاف فتنہ وفساد کی آگ بھڑکانا شروع کیا مگر آخر وقت تک آپؓ حضورﷺ کی نصیحت پر جمے رہے اور صبر کرتے رہے یہاں تک ظالموں نے آپ کو شہید کردیا۔
شہادت:
حضور اکرمﷺ نے آپؓ کی شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی تھی۔ چنانچہ سیدنا انسؓ بیان کرتے ہیں کہ: نبی کریمﷺ اُحد پہاڑ پر چڑھے اس وقت آپؓ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانِ غنیؓ تھے اُحد پہاڑ کانپنے لگا تو حضورﷺ نے فرمایا: اے اُحد! ٹھہر جا، تجھ پر ایک نبی ہے ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں۔
(صحیح بخاری: کتاب فضائل الصحابہ، حدیث:3697) 
اور آپﷺ نے اپنے آخری وقت میں سیدنا عثمانِ غنیؓ کو آنے والی مصیبت پر صبر کرنے کی وصیت بھی فرمائی تھی۔ چنانچہ سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ: حضور اکرمﷺ نے اپنے مرضِ وصال میں فر مایا کہ: میری خواہش ہے کہ میرے پاس میرا کوئی صحابی ہو۔تو ہم نے عر ض کیا کہ: یارسول اللہﷺ کیا سیدنا ابوبکرؓ کو بلائیں؟ تو حضورﷺ خاموش رہے پھر ہم نے عرض کیا کہ: کیا سیدنا عمرؓ کو بلائیں؟ پھر بھی حضورﷺ خاموش رہے۔ پھر میں نے عرض کیا: سیدنا عثمانؓ کو بلائیں؟ تو حضورﷺ نے کہا کہ: ہاں پھر سیدنا عثمانؓ آئے تو نبی کریمﷺ نے ان سے گفتگو فرمائی تو سیدنا عثمانؓ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔سیدنا ابوسہلہؓ کہتے ہیں کہ: فتنہ کے دنوں میں سیدنا عثمانِ غنیؓ نے ارشاد فرمایا کہ: حضورﷺ نے مجھ سے ایک عہد لیا تھا تو میں اس عہد پر صابر ہوں۔
(ابن ماجہ: حدیث، 113)
نیز حضورﷺ نے خود فتنہ کے دنوں میں آپؓ کے حق اور ہدایت پر ہونے کی خبر پہلے ہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دے دی تھی سیدنا مرہ بن کعبؓ کا بیان ہے کہ: نبی کریمﷺ نے فتنے کا ذکر کیا اور بتایا کہ وہ قریب ہی ہے اتنے میں ایک شخص کپڑا اوڑھے ہوئے گزرا تو حضورﷺ نے اس کی طرف اشارہ کر کے فر مایا کہ: یہ شخص اُس دِن حق پر ہوگا۔ راوی کہتے ہیں کہ میں اس شخص کی طرف گیا تو وہ سیدنا عثمانؓ تھے۔ میں نے حضورﷺ سے عر ض کیا کہ: یارسول اللہﷺ یہ حق پر ہوں گے؟ تو حضورﷺ نے فرمایا کہ: ہاں، یہ۔
(تر مذی: حدیث، 3704)
ذی الحجہ، سن 35 ہجری کو جمعہ کا دن تھا سیدنا عثمانِ غنیؓ نے رات کو خواب میں رسول اکرمﷺ کو دیکھا کہ آپﷺ فرما رہے ہیں کہ: اےعثمانؓ! ہمارے پاس آ کر افطار کرو۔ صبح کو سیدنا عثمانؓ نے روزہ رکھا اور اُسی دن عصر کے بعد جب آپؓ قرآنِ شریف کی تلاوت میں مصروف تھے ظالموں نے آپؓ کو شہید کر دیا اور آپ کے خون کا پہلا قطرہ سورة بقرہ کی اس آیت پر گرا فَسَيَكۡفِيڪَهُمُ ٱللَّهُ‌ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلۡعَلِيمُ۞
(سورة البقرہ: آیت، 137)
ترجمہ: تو عنقریب اللہ ان کی طرف سے تمہیں کفایت کرے گا اور وہی ہے سنتا جانتا۔
(المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابہ: حدیث، 4554، 4555)