خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کی حضورﷺ اور آپ کے اہل بیت سے رشتہ داری کے تعلقات
علامہ مولانا عبد الرحیم بھٹوخلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروقؓ کی حضورﷺ اور آپ کے اہلِ بیت سے رشتہ داری کے تعلقات
پہلا رشتہ
سیّدنا عمر فاروقؓ نبی اکرم ﷺ کے سسر ہیں
سیّدنا عمر فاروقؓ کی دختر سیدہ حفصهؓ سنہ3ھ میں حضوراکرمﷺ کے نکاح میں آئیں۔ شیعہ خاص طور پر حضور اکرمﷺ کی دو بیویوں ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور ام المؤمنین سیدہ حفصهؓ کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ منافقہ تھیں(نعوذ باللہ)ان کی یہ بات بےبنیاد ہے۔ کیونکہ ان بیویوں کا نکاح حضورﷺ سے نبوت کے زمانہ میں ہوا۔ اگر ان میں ذرہ برابر بھی نفاق ہوتا، تو وحی کے ذریعہ آپ ﷺ کو ان کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کردیا جاتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ حضورﷺ کی بیویاں نفاق سے پاک و صاف تھیں اور نور ایمان سے ان کا باطن منور تھا۔
ازواج النبیﷺ کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ(سورۃ احزاب) یعنی نبیﷺ کی بیویاں مؤمنوں کی مائیں ہیں۔
ہمیں چاہیئے کہ ان کا ادب و احترام کریں اور ان پر طعن و تشنیع نہ کریں۔
دوسرا رشتہ
سیدنا عمر فاروقؓ سیدنا علیؓ کے داماد ہیں
قارئین کرام! رحمۃ اللعالمین نبی اکرم ﷺ کی پیاری لختِ جگر سیّدہ فاطمۃؓ کا نکاح سیدنا علی المرتضیٰؓ کے ساتھ ہوا،جن سے سیدنا حسنؓ،سیدنا حسینؓ،سیدنا محسنؓ، سیدہ زینبؓ اور سیدہ ام کلثومؓ پیدا ہوئے۔ سیدہ ام کلثومؓ جو کہ سیدنا حسینؓ کی بہن تھیں، ان کا نکاح سیدنا عمر فاروقؓ سے ان ہی کے دورِ خلافت میں ہوا۔ اس نکاح کا بیان کتب فریقین (شیعہ، سنی) میں اظہر من الشمس ہے۔ سیدنا عمرؓ کی شہادت کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ اپنی پیاری لختِ جگر ام کلثومؓ کو عدت گذارنے کے لئے اپنے گھر لے آئے اور پھر بعد میں ان کا نکاح سیدنا محمد بن جعفر بن ابی طالب کے ساتھ کردیا۔ ہم یہاں سب کتابوں کی عبارتیں طوالت کے خوف سے پیش نہیں کرتے، صرف ان کی کتب کی فہرست پیش کرتے ہیں، جن میں اس نکاح کا بیان موجود ہے۔ اہلِ سنّت کی بے شمار معتبر کتابیں اس نکاح کی صراحت کرتے ہیں۔ مثلاً بخاری کتاب الجہاد اور کتاب المغازی، نسائی شریف کتاب الجنائز، دارقطنی کتاب الجنائز، بیہقی کتاب النکاح وغیرہ۔ یہاں صرف نسائی شریف کی عبارت پیش کی جاتی ہے، ملاحظہ فرمائیں:
• حضرت نافعؓ سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے ایک مرتبہ نو (9) جنازے ایک ساتھ پڑھائے، ان میں ایک ام کلثوم بنتِ علیؓ کا جنازہ بھی تھا۔
وَوُضِعَتْ جَنَازَةُ أُمِّ كُلْثُومِ بِنْتِ عَلِيٍّ امْرَأَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، وَابْنٍ لَهَا يُقَالُ لَهُ زَيْدٌ وُضِعَا جَمِيعًا ام کلثوم بنتِ علیؓ جو کہ سیدنا عمر بن خطابؓ کی زوجہ تھیں، ان کا اور ان کے بیٹے زید، دونوں کے جنازے ایک ساتھ رکھے گئے۔
دیکھیں نسائی شریف کتاب الجنآئز، باب اجتماع جنائز الرجال ولنساء عکس صفحہ484
کتب شیعہ سے حوالہ جات
¹- شیعہ کی معتبر کتاب، فروع کافی جلد6 صفحہ115 کتاب الطلاق مطبوعہ ایران، دیکھیں عکس صفحہ170
²-شیعہ کی معتبر کتاب، بحارالانوار جلد42، صفحہ93۔ مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ218
³-شیعہ کی معتبر کتاب، الاستبصار جلد 3 صفحہ 382، باب المتوفی عنہا زوجہا، مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ 186
⁴- شیعہ کی معتبر کتاب، تہذیب الاحکام جلد8صفحہ161 فی عدد النسآء مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ 1919
⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، زینب الکبریٰ صفحہ 33 طبع ایران عکس صفحہ400
⁶-شیعہ کی معتبر کتاب، الجعفریات مع قرب الاسناد صفحہ 109باب النفقہ علی الحامل المتوفی عنہا زوجہا طبع ایران عکس صفحہ 203
⁷-شیعہ کی معتبر کتاب، وسائل الشیعہ جلد صفحہ 811 ابواب صلوٰۃ الجنائز مطبوعہ بیروت عکس صفحہ232
⁸- شیعہ کی معتبر کتاب، اعلام الوریٰ صفحہ 204 اولاد امیر المؤمنین وعدھم و اسماء طبع ایران عکس صفحہ 230
⁹- شیعہ کی معتبر کتاب ، ناسخ التورایخ جلد4صفحہ118 اسامی اصحاب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ قم ایران عکس صفحہ 261
¹⁰-شیعہ کی معتبر کتاب، منتخب التواریخ صفحہ113 درحالات اولاد محذورہ مطبوعہ ایران عکس صفحہ303
¹¹-شیعہ کی معتبر کتاب، لباب الانساب صفحہ336، اولاد الامام امیر المؤمنین علیہ السلام طبع ایران عکس 313
¹²-شیعہ کی معتبر کتاب، مراۃ العقول جلد20 صفحہ 45 باب تزویج ام کلثوم مطبوعہ ایران عکس صفحہ 318
¹³- شیعہ کی معتبر کتاب، عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب صفحہ63 عقب امیر المؤمنین عکس صفحہ 331
¹⁴- شیعہ کی معتبر کتاب، مناقب آل ابی طالب جلد3 صفحہ304 فی ازواجہ واولادہ مطبوعہ قم ایران عکس 323
¹⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، منتہی الآمال جلد1صفحہ 186، فصل ششم در ذکر اولاد امیر المؤمنین عکس صفحہ356
¹⁶-شیعہ کی معتبر کتاب، مجالس المؤمنین جلد1 صفحہ195، محمد بن جعفر طیارؓ۔ مطبوعہ ایران عکس صفحہ351
¹⁷- شیعہ کی معتبر کتاب، رسائل الشریف المرتضیٰ جلد3 صفحہ 149۔ مسالۃ ”النکاح امیر المؤمنین“ ابنتہ عکس صفحہ425
¹⁸- شیعہ کی معتبر کتاب، الانوار النعمانیہ جلد1 صفحہ371۔ نور فی احوال الائمۃ۔ مطبوعہ تبریز ایران عکس صفحہ242
¹⁹- شیعہ کی معتبر کتاب، طراز المذھب مظفری52،53 مطبوعہ عکس صفحہ285
²⁰شیعہ کی معتبر کتاب، نزل الابرار فی مناقب اہل البیت الاطہار صفحہ 78طبع ایران عکس صفحہ394
²¹-شیعہ کی معتبر کتاب، مسالک الافہام فی شرح شرائِع الاسلام جلد1 صفحہ 398 فی الواعق العقد عکس صفحہ 340
²²-شیعہ کی معتبر کتاب، مسالک الافہام الیٰ آیات الاحکام جلد3 صفحہ 244فی لوازم النکاح عکس صفحہ338
²³-شیعہ کی معتبر کتاب، اعیان الشیعہ جلد3 صفحہ495 بیروت عکس صفحہ458
²⁴-شیعہ کی معتبر کتاب، شیعہ کی معتبر کتاب، تلخیص الشافی صفحہ160۔ مطبوعہ قم ایران۔ عکس صفحہ342
²⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، خزینۃ الانبیاء تالیف شریف مرتضیٰ بحوالہ طراز المذھب صفحہ 59دیکھیں عکس صفحہ289
²⁶- شیعہ کی معتبر کتاب، تاریخ یعقوبی جلد2 صفحہ149 مطبوعہ بیروت لبنان
²⁷- شیعہ کی معتبر کتاب، تذکرۃ الائمہ صہ 65 تالیف باقرمجلسی (المتوفی111ھ)
²⁸- شیعہ کی معتبر کتاب، تنقیح المقال فی علم الرجال جلد3 صفحہ73 من فصل النساء مطبوعہ نجف
²⁹شیعہ کی معتبر کتاب، حدیقہ الشیعہ صفحہ 277مطاعن خلفآی عمرؓ مطبوعہ ایران
³⁰- شیعہ کی معتبر کتاب، امام حسین ویوم عاشورا صفحہ49مطبوعہ دارالتوحید ایران
³¹ شیعہ کی معتبر کتاب، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدی جلد3 صفحہ124 تزویج عمر بام کلثوم بیروت
³²- شیعہ کی معتبر کتاب، فصل الخطاب کرمانی صفحہ 797 کتاب النکاح و ماتیعلق بہ طبع بیروت
³³- شیعہ کی معتبر کتاب، کتاب الاشافی صفحہ 114مع تحلیص الشافی مطبوعہ ایران
³⁴-شیعہ کی معتبر کتاب، صافی شرح اصول کافی جلد3 صفحہ 282باب شصت و یکم مطبوعہ ایران
³⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، تہذیب المتین فی تاریخ امیر المؤمنین صفحہ287
محترم قارئین!
شیعوں کی پینتیس (35) معتبر کتب سے ہم مختصراً چند کتابوں کی عبارتیں بھی پیش کرتے ہیں تاکہ ناظرین کو اطمینانِ قلبی میسّر ہو جائے ملاحظہ فرمائیں:
عن سليمان بن خالد قال: سألت أباعبدالله عليه السلام عن امرأة توفى زوجها أين تعتد، في بيت زوجها تعتد أو حيث شاءت؟ قال: بلى حيث شاءت، ثم قال: إن عليا عليه السلام لما مات عمر أتى ام كلثوم فأخذ بيدها فانطلق بها إلى بيته.
سلیمان بن خالد روایت کرتا ہے کہ میں نے جعفر صادق علیہ السلام سے ایک عورت کے بارے میں مسئلہ دریافت کیا، جس کا شوہر فوت ہوگیا ہو کہ وہ عورت عدت کہاں گذارے؟ اپنے شوہر کے گھر میں یا جہاں چاہے؟ تو امامؒ نے فرمایا کہ جہاں چاہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ جب حضرت عمرؓ شہید ہوئے تو حضرت علیؓ ام کلثومؓ کے پاس آئے اور ان کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے ساتھ (عدت گذارنے کیلئے) اپنے گھر لے آئے۔
¹-فروع کافی جلد6 صفحہ 115 کتاب الطلاق مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ170
²-الاستبصار جلد3 صفحہ 352 باب المتوفی عنہا زوجہا عکس صفحہ186
³- تہذیب الاحکام جلد8 صفحہ 161فی عدد النساء عکس صفحہ191
أخبرنا عبد الله أخبرنا محمد حدثني موسى قال حدثنا أبي عن أبيه عن جده جعفر بن محمد عن أبيه عن جده أن عليا ع نقل ابنته أم كلثوم في عدتها حيث مات زوجها عمر بن الخطاب لأنها كانت في دار الإمارة (بحذف اسناد)
حضرت جعفر صادقؒ روایت کرتے ہیں کہ حضرت علیؓ اپنی دختر حضرت ام کلثومؓ کو عدت گذارنے کے لئے اپنے گھر لے آئے، جبکہ ان کے شوہر حضرت عمر بن خطابؓ فوت ہوئے۔ کیونکہ اس وقت وہ دارالخلافہ میں تھیں۔
(الجعفریات مع قرب الاسنادصفحہ109 باب النفقہ علی الحامل المتوفی عنہا زوجہا۔ عکس صفحہ203)
(مکتبہ شیعہ شاملہ۔ الجعفريات (الأشعثيات)صفحہ 113)
عن جعفر ، عن أبيه ( عليهما السلام )،قال:ماتت ام كلثوم بنت علي (عليه السلام) وابنها زيد بن عمر بن الخطاب في ساعة واحدة
حضرت جعفر صادقؒ اپنے والد محمد باقرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ ام کلثوم ؒ حضرت علیؓ کی دختر اور ان کا بیٹا زید بن عمر بن خطاب ایک ہی وقت فوت ہوئے۔
(ملاحظہ فرمائیں تہذیب الاحکام جلد9صفحہ 362، باب میراث الغرقی عکس صفحہ194)
(مکتبہ شیعہ شاملہ۔ وسائل الشيعة 11)
عن عمار بن ياسر قال:أخرجت جنازة أم كلثوم بنت علي وابنها زيد بن عمر ، وفي الجنازة الحسن والحسين وعبدالله بن عمر وعبدالله بن عباس وأبو هريرة ، فوضعوا جنازة الغلام مما يلي الإمام والمرأة ورائه ، وقالوا :هذا هو السنة۔
(شیخ حُر) حضرت عمار بن یاسرؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ام کلثوم بن علیؓ اور ان کے لڑکے زید بن عمرؓ کا جنازہ اٹھا گیا اور نماز جنازہ میں حسن، حسین، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابوہریرہ (رضی اللہ عنہم) شریک تھے انہوں نے لڑکے (زید بن عمرؒ) کا جنازہ امام کے قریب اور عورت(ام کلثوم)کا جنازہ اس کے بعد رکھا۔ اور فرمایا کہ یہی طریقہ سنت ہے۔
(دیکھیں وسائل الشیعہ جلد1 صفحہ 811 ابواب صلوٰۃ الجنائز، مطبوعہ بیروت عکس صفحہ232)
(مکتبہ شیعہ شاملہ۔ وسائل الشيعة (69/ 7)
ام کلثوم دختر علی علیہ السلام بعد از قتل عمر بن الخطاب بحبالہ نکاح محمد بن جعفر در آمد۔
ام کلثوم بنت علیؓ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد حضرت محمد بن جعفرؓ کے نکاح میں آئیں۔
(ملاحظہ فرمائیں ناسخ التواریخ جلد4 صفحہ118، اسامی اصحاب رسول ﷺ عکس صفحہ262)
وأما ام كلثوم فهي التي تزوجها عمر بن الخطاب، وقال أصحابنا: أنه عليه السلام إنما زوجها منه بعد مدافعة كثيرة وامتناع شديد واعتلال عليه بشئ بعد شئ، حتى ألجأته الضرورة إلى أن رد أمرها إلى العباس بن عبد المطلب، فزوجها إياه۔
اور ام کلثوم وہ ہیں جن سے حضرت عمر بن خطابؓ نے شادی کی۔ ہمارے شیعہ علماء کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ نے ان کا نکاح بہت ٹال مٹول اور سخت انکار اور کافی لیت ولعل کے بعد کیا، حتٰی کہ حضرت علیؓ بہت مجبور ہوئے تو انہوں نے یہ معاملہ حضرت عباسؓ کے سپرد کردیا تو حضرت عباسؓ نے ام کلثوم کا نکاح حضرت عمرؓ سے کردیا۔
- ( اعلام الوریٰ باعلام الھدیٰ صفحہ 204۔ اولاد امیر المؤمنین طبع ایران عکس صفحہ230)
- (مکتبہ شیعہ شاملہ: بحار الأنوار - العلامة المجلسي (42/ 93، بترقيم الشاملة آليا)
واما جناب اُمّ کلثوم بنت فاطمہ این محذرہ اسم شریفش رقیّۃ الکبریٰ بود۔ چنانچہ در عمدۃ الطالب است داو نیز خیلی جَلالت قدر داشت و زوجۂ عمر بن خطاب بود۔
جناب اُمّ کلثوم بنت فاطمہؓ ان پردہ نشین کا اصل نام رقیۃ الکبریٰ تھا، جیسا کہ کتاب عمدۃ الطالب میں مذکور ہے۔ یہ بڑی شان والی اور بزرگ خاتون تھیں اور عمر بن خطابؓ کی زوجہ تھیں۔
(منتخب التواریخ صفحہ 113در حالات اولاد مخدرہ۔ طبع ایران عکس صفحہ303)
ام کلثوم من فاطمۃ واسمھا رقیۃ خرجت الیٰ عمر بن الخطاب فاولدھا زیدا ۔
حضرت امّ کلثوم جو حضرت فاطمہؓ کے بطن مبارک سے تھیں، یہ حضرت عمر بن خطابؓ کے نکاح میں آئیں، جن سے زید پیدا ہوئے۔
(عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب صفحہ63 عقب امیر المؤمنین عکس صفحہ331)
- •ابن شہر آشوب (المتوفی 588ھ) اور شیخ عباس قمی (المتوفی 1359ھ) لکھتے ہیں:
فولد من فاطمة عليها السلام الحسن و الحسين والمحسن سقط وزينب الكبرى وام كلثوم الكبرى تزوجها عمر
حضرت فاطمہ علیہا السلام سے حسنؓ، حسینؓ، محسنؓ، زینب کبریٰ اور ام کلثوم کبریٰ پیدا ہوئے۔ اس (ام کلثوم) سے حضرت عمرؓ نے شادی کی۔
¹-مناقب آل ابی طالب جلد 3صفحہ 304 فصل ازواجہ و الادہ، دیکھیں عکس صفحہ323
²-منتہی الآمال جلد1 صفحہ 186 فصل ششم در ذکر اولاد امیر المؤمنین عکس 356
(مکتبہ شیعہ شاملہ: بحار الأنوار - العلامة المجلسي (42/ 91، بترقيم الشاملة آليا)
بعض گمراہ کن شبہات کا ازالہ
اعتراض اوّل
دشمنانِ صحابہؓ ضد اور عناد میں آکر یہ بھی کہتے ہیں کہ جس اُمِ کُلثومؓ کا نکاح سیدنا عمر بن خطابؓ سے ہوا ہے، وہ سیدنا ابوبکرؓ کی دختر ہیں جو کہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کے بطن مبارک سے تھیں۔ چنانچہ عبدالکریم مشتاق شیعہ لکھتا ہے:
حضرت ابوبکرؓ کی وفات کے بعد ان کی زوجہ اسماء بنت عمیسؓ کی ایک لڑکی سنہ 13ھ میں پیدا ہوئی۔ چونکہ اسماءؓ نے ابوبکرؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ سے شادی کرلی تھی لہٰذا اس بچی کو جس کا نام اُمِ کُلثوم تھا، لے کر وہ حضرت علیؓ کے گھر آگئیں۔ اسی لڑکی سے حضرت عمرؓ کا نکاح ہوا پس چونکہ یہ اُمِ کلثوم ربیبہ حضرت علیؓ تھیں، لہٰذا رواج عرب کے مطابق ان کو بنت علیؓ کہا گیا“ (افسانہ عقد ام کلثومؓ صفحہ 81،82 عبدالکریم مشتاق شیعہ)
جواب اوّل
عبدالکریم مشتاق کو جھوٹ بولنے اور غلط بات کرنے کی اتنی مہارت ہے جس سے شیطان بھی شرما جائے۔ بات کا اندازہ مذکورہ کتاب کے مطالعہ سے ہی ہو جاتا ہے۔ ایک حقیقت واقعہ کا اس طرح انکار کرنا، کسی شریف النفس انسان کا کام نہیں۔ کوئی بھی انصاف پسند اس نکاح کی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا، جبکہ ہم نے پینتیس (35)عدد کتابوں کے حوالہ جات پیش کئے ہیں جو مذہب شیعہ کی معتبر کتابیں ہیں، جن میں صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ یہ اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ ہیں۔ سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے ہیں۔ اب یہ کہنا کہ یہ اُمِ کُلثومؓ بنتِ ابی بکرؓ ہیں جو کہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کے بطن سے تھیں، سفید جھوٹ اور بے بنیاد بات ہے۔ لَعْنَتُ اللہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔
یہ اُمِ کُلثومؓ سیدنا علیؓ کی دُختر ہیں
¹-شیعہ کی معتبر کتاب، الجعفریات مع قرب الاسناد صفحہ 109 باب النفقہ، مطبوعہ ایران
²- شیعہ کی معتبر کتاب، تہذیب الاحکام جلد9 صفحہ 362، باب میراث الغرقی مطبوعہ ایران
³- شیعہ کی معتبر کتاب، وسائل شیعہ جلد8 صفحہ 811، ابواب صلاۃ الجنائز، مطبوعہ بیروت
⁴-شیعہ کی معتبر کتاب، ناسِخ التواریخ جلد4صفحہ 118، اسامی اصحاب رسولِ خداﷺ طبع ایران
⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، عمدۃ الطالب صفحہ63، عقب امیر المؤمنین مطبوعہ نجف عراق
⁶- شیعہ کی معتبر کتاب، منتخب التواریخ صفحہ 113، در حالاتِ اولاد مخدرہ۔ مطبوعہ ایران
⁷-شیعہ کی معتبر کتاب، اعلام الوریٰ صفحہ 204، ذکر اولاد امیر المؤمنین مطبوعہ ایران
⁸- شیعہ کی معتبر کتاب، طراز المذھب مظفری جلد1 صفحہ53، مطبوعہ بمبئی انڈیا
⁹-شیعہ کی معتبر کتاب، نزالابرار فی مناقب اہل البیت الاطہار صفحہ 78، مطبوعہ ایران
¹⁰- شیعہ کی معتبر کتاب، امام حسینؓ و یوم عاشورہ صفحہ49، مطبوعہ ایران
اس نام کی تصریح مع ولدیت شیعوں کے نہ صرف علماء و مجتہدین نے کی ہے، بلکہ سیدنا باقرؒ اور سیدنا جعفر صادقؒ نے بھی کی ہے جو شیعوں کے عقیدہ میں معصوم اور خطا سے پاک ہیں اور جمیع الانبیاء علیہم السلام سے بھی افضل بتاتے ہیں۔
عن جعفر ، عن أبيه قال : ماتت ام كلثوم بنت علي وابنها زيد بن عمر بن الخطاب في ساعة واحدة
سیدنا جعفر صادقؒ اپنےوالد سیدنا محمد باقرؒ سے روایت کرتے ہیں کہ اُمِ کلثوم بنتِ علیؓ اور اُمِ کُلثوم کے فرزند زید بن عمر بن خطابؓ ایک ہی وقت میں فوت ہوئے۔
قارئین کرام! اب بھی اگر کوئی شیعہ ضد و عناد کی وجہ سے کہے کہ میں نہ مانوں تو ہم اس کا کیا علاج کرسکتے ہیں، بجز اس کے کہ اس کو گدو بندر پاگلوں کے ہسپتال میں داخل کیا جائے۔
آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ روایت میں اُمِ کُلثومؓ کے ساتھ بنتِ علیؓ کی صراحت دو امام کر رہے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ اُمِ کُلثومؓ بنتِ سیدنا علیؓ ہی سیدنا عمرؓ کی زوجہ تھیں نہ کہ اُمِ کُلثوم بنت ابی بکرؓ
یہ اُمِ کُلثومؓ سیدہ فاطمہؓ کے بطن مبارک سے ہیں
¹-شیعہ کی معتبر کتاب، منتخب التوریخ صفحہ113، درحالات و اولاد مخدرہ طبع ایران
²-شیعہ کی معتبر کتاب، عمدۃ الطالب صفحہ63، عقب امیر المؤمنین طبع نجف عراق
³-شیعہ کی معتبر کتاب، مناقب آل ابی طالب جلد3 صفحہ 304، فصل فی ازواجہ و اولادہ ایران
⁴- شیعہ کی معتبر کتاب، منتہی الآمال جلد1 صفحہ 186، فصل ششم در ذکر اولاد امیر المؤمنین ایران
⁵-شیعہ کی معتبر کتاب، اعلام الوریٰ صفحہ 204 اولاد امیر المؤمنین مطبوعہ ایران
⁶- شیعہ کی معتبر کتاب، لباب الانساب صفحہ373، اولاد امام امیر المؤمنین طبع ایران
⁷- شیعہ کی معتبر کتاب، نزل الابرار فی مناقب اہل البیت الاطہار صفحہ 78 ایران
⁸-شیعہ کی معتبر کتاب، طراز المذہب مظفری صفحہ57، مطبوعہ بمبئی انڈیا
چیلنج
شیعہ کی معتبر کتابوں سے، اماموں کے اقوال سے ہم نے ثابت کردیا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ کی یہ بیوی سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی بیٹی ہیں۔ شیعوں کو تاقیامت میرا یہ چیلنج ہے کہ وہ کسی بھی معتبر و مستند کتاب سے، امام کے قول سے یہ ثابت کرکے دکھائیں کہ جس اُمِ کُلثوم سے سیدنا عمرؓ نے نکاح کیا تھا، وہ بنتِ ابی بکرو سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ تھیں؟ مگرنہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
جوابِ دوم
اب دیکھنا یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی سیدہ اسماءؓ سے کتنی اولاد پیدا ہوئی۔ کیا ان سے کوئی لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی؟سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کے نکاح کا مفصل بیان باب اول میں تیسرے رشتہ کے تحت گذر چکا کہ سیدہ اسماءؓ کا نکاح سیدنا جعفر بن ابی طالب سے ہوا جن سے عبداللہ، محمد اور عون فرزند پیدا ہوئے۔ سیدنا جعفر طیارؓ کی شہادت کے بعد سیدہ اسماءؓ کا نکاح سیدنا ابوبکر صدیقؓ سے ہوا۔ جن سے محمد بن ابی بکرؓ فرزند پیدا ہوئے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد، سیدہ اسماءؓ کا نکاح سیدنا علیؓ سے ہوا۔ جن سے یحییٰ اور عون پیدا ہوئے۔
قارئینِ کرام! آپ غور فرمائیے کہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ سے تینوں شوہروں سے اُم کُلثوم نام کی کوئی لڑکی تو کیا، بلکہ کوئی لڑکی پیدا ہی نہیں ہوئی۔ تو پھر اُمِ کُلثومؓ کا اسماء بنتِ عمیسؓ سے سیدنا ابوبکرؓ کی دختر ہونا، کیسے صحیح ہوسکتا ہے؟ اس لئے عبدالکریم مشتاق شیعہ کو ایسی بے بنیاد اور جھوٹی بات کہنے سے کچھ تو شرم آنی چاہیئے۔ لیکن وہ بھی مجبور ہے کیونکہ شیعوں کو خوش رکھنے کی خاطر اُسے ایسے جھوٹ لکھنے پڑتے ہیں۔ شاید اس نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اہلِ علم سے میدان خالی ہے، اس لئے میرا جھوٹ بھی چل جائے گا۔ اور کوئی جواب نہیں دے گا یہ اُس کا خام خیالی ہے۔ ہاں البتّہ یہ الگ بات ہے کہ جب سیدنا علیؓ نے سیدہ اسماءؓ سے نکاح کیا تو اس وقت محمد بن ابی بکر صغیر تھے۔ سیدنا علیؓ ان کو ساتھ گھر لے آئے اور ان کی تربیت کی ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت کتب شیعہ میں واضح طور پر موجود ہے۔
(ناسخ التواریخ جلد4 صفحہ 118، عکس صفحہ 261)
جواب سوم
یہ الگ بات ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی اُمِ کُلثومؓ نام کی ایک بیٹی بھی تھیں، جن کی والدہ حبیبہ بنتِ خارجہ تھیں۔ یہ بات شیعوں کی معتبر کتاب ناسخ التواریخ میں ہے، جن کا خلاصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔ حبیبہ بنت خارجہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی زوجہ تھیں، ان سے ایک لڑکی پیدا ہوئی، جس کا نام اُمِ کُلثوم رکھا گیا۔سیدنا عمرؓ کی خواہش تھی کہ یہ اُمِ کُلثوم میرے نکاح میں آئے لیکن اُمِ کُلثوم کو جب معلوم ہوا تو انکار کر دیا کہ میں عمرؓ سے نکاح نہیں کروں گی۔ کیونکہ وہ طبعاً سخت ہیں۔ تو اس کے بعد سیدنا عمرو بن العاصؓ کے مشورہ سے سیدنا عمرؓ نے اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ سے نکاح کیا۔ باقی اُمِ کُلثوم بنت ابی بکرؓ سے طلحہ بن عبداللہ نے نکاح کیا۔ جس سے دو بچے پیدا ہوئے، دیکھئے:
¹-۔ ناسخ التواریخ جلد4 صفحہ221، اسامی صاحبات رسولﷺعکس صفحہ262-
ناسخ التواریخ جلد3 صفحہ 54،55،56ذکر شمائل عمر بن الخطابؓ عکس صفحہ255
²- عمدۃ الطالب صفحہ113، عب موسی الجون بن عبداللہ المحض طبع نجف
³-طراز المذہب مظفری صفحہ 58، مطبوعہ بمبئی انڈیا
ان حوالہ جات سے بالکل واضح ہوگیا کہ جس
اُمِ کُلثومؓ سے سیدنا فاروقؓ نے نکاح کیا تھا وہ بنت ابی بکرؓ اور بنت حبیبہ بنت خارجہ نہ تھیں بلکہ بنتِ سیدنا علیؓ بن ابی طالب اور بنتِ سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ تھیں۔
اعتراض دوم
دورِ حاضرہ میں افسانوی نکاح کے باراتی عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لئے اس خیال خام کا پرچار کر رہے ہیں کہ جو اُمِ کُلثوم امام حسین علیہ السلام کے ساتھ معرکہ کربلا میں موجود تھیں، وہ ام کلثوم صغریٰ تھیں، یہ علی المرتضیٰ کی کسی اور بیوی کے بطن سے تھیں۔ یہ بات قطعاً غیرمستند ہے اور کسی صحیح تاریخی حوالہ سے ثابت نہیں کی جاسکتی۔
(افسانہ اُمِ کُلثوم صفحہ76، عبدالکریم مشتاق)
جواب: عوام الناس کو دھوکہ و فریب دے کر گمراہ کرنا شیعوں کا شیوہ ہے، جسے عبدالکریم شیعہ بخوبی ادا کر رہا ہے۔ کوئی بھی شیعہ یہ بات ہرگز ثابت نہیں کرسکتا کہ جو اُمِ کُلثوم کربلا میں،سیدناحسینؓ کے ساتھ موجود تھیں، وہ سیدنا علیؓ کی دختر، سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے بطن اطہر سے تھیں۔
دراصل بات یہ ہے (جس کو عبدالکریم شیعہ چھپانا چاہتا ہے) سیدنا علیؓ کی ام کلثوم نام سے دو بیٹیاں تھیں۔ جو اُمِ کُلثوم سیدہ فاطمہؓ کے بطن سے تھیں، ان کا اصل نام زینب صغریٰ تھا۔ ان کو اُمِ کُلثوم کبریٰ کہتے ہیں۔ ان کا نکاح سیدنا عمر فاروقؓ سے ہوا یہ اُمِ کُلثوم کبریٰ واقعہ کربلا میں موجود نہیں تھیں۔ ان کا ذکر تاریخ کی ہر مستند کتاب میں مرقوم ہے، جس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری اُمِ کُلثوم صغریٰ ہیں، ان کا اصل نام نفیسہ تھا دیکھیں:
(عمدۃ الطالب صفحہ 64)
(منتہی الآمال جلد 1صفحہ 187)
(مناقب اٰل ابی طالب جلد3صفحہ 305)
(انوار نعمانیہ جلد1 صفحہ 372)
ان کی والدہ اُمِ سعید بنت مسعود ثقفی ہیں جو کہ سیدنا علیؓ کی زوجہ تھیں۔ دیکھیں:
(مناقب اٰل ابی طالب جلد3، صفحہ 305)
(طراز المذہب مظفری جلد1 صفحہ 53)
اس اُم کُلثوم کا نکاح کثیر بن عباس بن عبدالمطلب سے ہوا۔ دیکھیں:
(منتہی الآمال، مناقب اٰل ابی طالب۔)
یہی وہ اُمِ کُلثوم صغریٰ ہیں جو کربلا میں شریک تھیں۔ دیکھیں:
(منتخب التواریخ صفحہ 114)
(طراز المذہب مظفری صفحہ 53)
حاصل مطلب یہ ہوا کہ سیدنا علیؓ کی دو بیٹیوں کے نام اُمِ کُلثوم تھے۔ ایک اُمِ کُلثوم کبریٰ جو کہ سیدہ فاطمہؓ کے بطن مبارک سے تھیں۔ جن کا نکاح سیدنا عمرفاروقؓ سے ہوا۔ ان کی وفات سیدنا حسنؓ کے زمانہ میں ہوئی اور واقعہ کربلا بعد میں رونما ہوا۔
دوسری اُمِ کُلثوم صغریٰ ہیں جو کہ اُمِ سعید بنت مسعود الثقفی کے بطن سے تھیں۔ یہ واقعۂِ کربلا تک زندہ رہیں اور اس میں شریک بھی تھیں۔ ان کا نکاح کثیر بن عباس بن عبدالمطلب سے ہوا اور اس اُمِ کُلثوم کے خطبات کتب شیعہ میں مشہور ہیں۔ لیکن آفریں ہے مشتاق شیعہ پر کہ اس نے کس طرح عوام الناس کو فریب دیکر کود اپنے ہی مؤرخین اور مذہبی کتب کی تکذیب کردی۔ اب ہم اسی کے ہم مذہب شیعہ مؤرخ رکن الاسلام محمد ہاشم خراسانی مشہدی (المتوفی 1352ھ) کے حوالہ سے اپنی اس بات کی تحقیق پیش کرتے ہیں:
و ایں مخدرہ در وقعہ طف حاضر بنود چنانچہ در ہمیں کتاب حجۃ السعادۃ می فرما ید نقلہ حدیث از طرق معتبرہ نقل نمودہ اند کہ جناب ام کلثوم دختر امیر المؤمنین و فاطمۃ الزہریٰ علیہم السلام والدۂ زید بن عمر و رقیہ بنت عمر در حیوٰۃ مجتبیٰؑ در مدینہ از دنیا رحلت فرمود۔ ورحلت او و فرزندش زید دریک روز اتفاق افتاد۔ و تقدم و تأخر موت احد ہما معلوم نہ شد، الیٰ ان قال و ام کلثوم بنت علی کہ نام شریفش در وقعۂ طف درھمہ جا مذکور می شود و خطب و اشعار باو منسوب می گردو۔
ام کلثوم دیگر است از سایر زوجات امیر المؤمنینؑ چوں علی القول الصحیح امیر المؤمنین را از بنات دو زینب بود و دو ام کلثوم۔ زینب کبریٰ زوجۂ عبداللہ بن جعفر بود و ام کلثوم کبریٰ زوجہ عمر بن الخطاب بود، و ہر دو از صدیقہ طاہرہ بودند۔ و زینب الصغریٰ و ام کلثوم الصغریٰ از سایر امہات بوجود آمدند و شیخ حُر در وسائل الشیعہ از عمار بن یاسر روایت کردہ۔
اُخرجت جنازۃ ام کلثوم بنت علی وابنہا زید بن عمر و فی الجنازۃ الحسن و الحسین و عبداللہ بن عمرو عبداللہ بن عباس و ابو ہریرہ
فوضعوا جنازۃ الغلام ممایلی الامام والمرأۃ ورائہ و قالوا ھٰذا ھو السنۃ۔
پس معلوم شد کہ جناب ام کلثوم کبریٰ بنت فاطمہ در وقعۂ طف اصلاً در دنیا بنود و مستفاد از روایت مذکورہ آنکہ جناب ام کلثوم کبریٰ در مدینہ طیبہ از دنیا مفارقت و ظاہراً قبر شریفشان ھم در مدینہ طیبہ باشد۔
اور یہ پردہ نشین (اُمِ کُلثوم بنتِ فاطمہؓ) واقعہ کربلا میں موجود نہیں تھیں۔ کتاب حجۃ السعادۃ میں معتبر سندوں سے حدیث منقول ہے کہ جناب اُمِ کُلثوم دختر امیر المؤمنین و فاطمۃ الزہراء علیہم السلام سے زید بن عمر اور رقیہ بنت عمرؓ پیدا ہوئے۔ اور اُمِ کُلثوم نے حضرت حسنؓ کی زندگی میں، ہی مدینہ طیبہ میں رحلت فرمائی اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ اسی دن ان کے بیٹے زید بن عمر بھی فوت ہوئے اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ پہلے یا بعد میں کون فوت ہوا؟ کتاب حجۃ السعادۃ کے مصنف نے یہاں تک کہا ہے کہ اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ کا نام گرامی واقعہ کربلا میں ہر جگہ مذکور ہے اور خطبات و اشعار ان کی طرف منسوب ہیں۔ یہ اُمِ کُلثوم حضرت علیؓ کی کسی دوسری زوجہ مطہرہ سے تھیں۔ کیونکہ صحیح بات یہ ہے کہ امیرالمؤمنین کی زینب نام کی دو صاحبزادیاں تھیں اور اُمِ کُلثوم نام کی بھی دو صاحبزادیاں تھیں۔
زینب کبریٰ یہ عبداللہ بن جعفر کی زوجہ تھیں اور اُمِ کُلثوم کبریٰ یہ حضرت عمر بن خطابؓ کی زوجہ تھیں۔ یہ دونوں حضرت فاطمہؓ کے بطن اطہر سے تھیں۔ زینب صغریٰ اور اُمِ کُلثوم صغریٰ، حضرت علیؓ کی دوسری ازواج سے تھیں شیخ حر وسائلِ الشیعہ میں حضرت عمار بن یاسرؓ سے روایت کرتا ہے کہ جب اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ اور ان کے فرزند زید بن عمرؓ کا جنازہ نکالا گیا، تو جنازہ میں حضرت حسن، حسین، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عبداللہ بن عباس اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہم شریک تھے۔
ان بزرگوں نے زید بن عمر کا جنازہ امام کے قریب رکھا اور اس کے بعد عورت (اُمِ کُلثوم) کا جنازہ رکھا گیا اور کہا کہ یہی طریقہ سنت ہے۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ اُمِ کُلثوم کبریٰ بنت فاطمہ واقعۂ کربلا کے وقت اس دنیا میں زندہ ہی نہیں تھیں۔ مذکورہ روایت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ اُم کلثوم کا وصال مدینہ طیبہ میں ہا ہے اور یہ بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ ان کی قبر مبارک بھی مدینہ میں ہے۔
منتخب التورایخ صفحہ 114 باب دوم مطبوعہ ایران دیکھیں عکس صفحہ304
منتخب التواریخ کے سر ورق پر مصنف محمد ہاشم خراسانی شیعی (المتوفی 1352ھ) کا تعارف ان الفاظ سے کرایا گیا ہے: من تالیفات العالم العامل والثقۃ الجلیل الکامل رکن الاسلام والمسلمین۔
نیز اس کتاب کے سر ورق پر یہ بھی مرقوم ہے کہ اس میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ شیعہ کے معتمد اصول اور معتبر تاریخ سے اخذ کیا گیا ہے اور خود مصنف کتاب محمد ہاشم خراسانی صاحب مذکورہ واقعہ نقل کرنے سے پہلے، ابتدا روایت میں واضح کرتے ہیں کہ یہ حدیث معتبر سند سے منقول ہے۔
صاحب ناسخ التواریخ کا بیٹا شیعہ مؤرخ میرزاعباس قلی خان سپہر لکھتا ہے:
واز ایں اخبار معلوم می شود کہ اُمّ کلثوم بنت علی علیہ السلام در یوم الطف و سفر شام باھل بیت خیر الانام ہمراہ بود ہ از بطن صدیقہ طاہرہ نیست، بلکہ ہماں ام کلثوم صغریٰ است کہ مادرش اُمّ سعید بنت عروہ بن مسعود الثقفی است وہم آن روایت آوردہ اندکہ بعد از ہلاکت عمر ام کلثوم را امیر المؤمنین علیہ السلام بسرائے خود آورد و دیگر اشارت نکردہ اند، مؤید ہمین است کہ در زمان امام حسن علیہ السلام وفات نمودہ۔
ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ جو ام کلثوم بنت علی علیہ السلام کربلا اور شام کے سفر میں شریک تھیں وہ حضرت فاطمۃؓ کے بطن اطہر سے نہ تھیں۔ بلکہ یہ وہ اُمِ کُلثوم صغریٰ ہیں، جن کی والدہ اُمِ سعید بنت عروہ ہے اور ا س کے علاوہ روایات میں یہ بھی وارد ہے کہ حضرت عمرؓ کی شہادت کے بعد، حضرت علیؓ اُمِ کُلثوم کو اپنے گھر لے آئے تھے۔ اس کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت اُمِ کُلثوم کی وفات حضرت حسنؓ کے دور میں ہوچکی تھی۔
(طراز المذہب مظفری صفحہ 52،58 دیکھیں عکس صفحہ277،278)
لہٰذا عبدالکریم مشتاق شیعہ کا یہ کہنا کہ یہ بات کسی بھی صحیح تاریخی کتاب سے ثابت نہیں ہے۔ بلکل غلط ہے۔ کیونکہ ہم نے ثابت کردیا کہ یہ بات نہ صرف تاریخی کتابوں میں ہے بلکہ شیعہ کی مذہبی کتابوں میں بھی معتبر اسناد سے مروی ہے۔
اعتراض سوم
بعد از وفات عمرؓ حضرت عون سے بی بی اُمِ کُلثوم کا نکاح اس لئے ناقابل تسلیم ہے کہ جناب عون بن جعفر حضرت عمرؓ کی زندگی میں انتقال کرگئے۔ پس بعد از موت عمرؓ ، کیا عون کی روح سے شادی ہوئی؟
(افسانہ عقد اُمِ کُلثوم صفحہ 71 از مشتاق شیعہ)
جواب
یہ اعتراض بھی بلا دلیل و عبث ہے۔کیونکہ علماء شیعہ جب ان کے نکاح کا تذکرہ کرتے ہیں تو ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کرتے ہیں کہ اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ کا پہلا نکاح حضرت عمرؓ سے ہوا۔ ان کی شہادت کے بعد عون بن جعفرؓ سے ہوا۔
(دیکھیں مناقب آل ابی طالب جلد3 صفحہ 304، منتہی الآمال جلد1 صفحہ186)
بعض لکھتے ہیں کہ عون سے پہلے ان کے بھائی محمد بن جعفرؓ سے ان کا نکاح ہوا تھا۔ اور اس کے بعد حضرت عون بن جعفرؓ سے ہوا (دیکھیں نزل الابرار فی مناقب اہل بیت الاطہار صفحہ79 ، طراز المذہب مظفری جلد1 صفحہ 57 مطبوعہ بمبئی)
البتہ جمہور علماء شیعہ اس بات پر متفق ہیں کہ اُمِ کُلثوم کا پہلا نکاح حضرت عمرؓ کے ساتھ ہوا تھا۔ اس میں کسی کو بھی اختلاف نہیں ہے۔ عون یا محمد کی ترتیب نکاح میں تقدیم و تاخیر کی وجہ سے حضرت عمرؓ کے نکاح میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ اس نکاح کو سب علماء شیعہ تسلیم کر چکے ہیں۔ حاصل مطلب یہ ہوا کہ شیعوں کی معتبر و مستند کتب میں سیدنا عمر فاروقِ اعظمؓ کی شہادت کے بعد، سیدہ اُمِ کُلثوم کلثوم سے عون بن جعفر کے نکاح کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔ اگر عون بن جعفر، سیدنا عمر فاروقؓ کی زندگی میں ہی انتقال کر چکے ہوتے، تو ان کے نکاح کا تذکرہ کیوں کیا جاتا؟ معلوم ہوا کہ حضرت عون، فاروقِ اعظمؓ کی شہادت کے بعد بھی زندہ تھے۔ نہ صرف یہی بلکہ مشتاق شیعہ کے اپنے گھر کی کتابوں میں بھی مرقوم ہے کہ عون بن جعفر، حضرت حسینؓ کے ساتھ واقعۂ کربلا میں بھی شریک تھے اور اسی میں شہید ہوئے۔ ملاحظہ فرمائیں:
¹۔ شیعہ کی معتبر کتاب، تنقیح المقال فی علم الرجال ما مقانی جلد2 صفحہ 355
²۔ شیعہ کی معتبر کتاب، عمدۃ الطالب صفحہ 36 مطبوعہ نجف عراق
³-شیعہ کی معتبر کتاب، مجالس المؤمنین جلد1 صفحہ 195مطبوعہ ایران
اس تحقیق سے ثابت ہوگیا کہ مشتاق شیعہ کے اس اعتراض میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ عون بن جعفر حضرت عمرؓ کی زندگی ہی میں انتقال کرگئے تھے۔ ویسے بھی مشتاق کے یہ اعتراضات اُس کے اپنے من گھڑت ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں۔ اس نے صرف عوام الناس کو گمراہ کرنے کے لئے اس طرح کے بے سروپا اعتراضات کئے ہیں۔ یا یہ کہ وہ اپنے مذہبی و تاریخی کتب کے ہی ناواقف ہے۔ کیونکہ اس کے ان اعتراضات کی زد میں اس کے اپنے ہی مذہبی پیشواء آتے ہیں گویا کہ مشتاق نے اس نکاح کا انکار کرکے اپنے ہی علماء کو جھٹلایا ہے اور اس کہاوت کا مصداق ہوا ہے ۔
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔
مقام غور
اس باب سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوئی ہیں:
¹- سیدنا عمر فاروقؓ، رسول ﷺ کے سسر ہیں۔
²- رسولﷺ نے سیدہ حفصہؓ کے ساتھ شادی کرکے ان کے کامل الایمان ہونے اور نفاق وغیرہ سے پاک ہونے کی تصدیق فرمادی۔ اِس وجہ سے ان کو اُمّ المؤمنین ہونے کا شرف حاصل ہوا۔
³-سیدنا علیؓ نے اپنی لختِ جگر، سیدنا عمر فاروقؓ کے نکاح میں دے کر ان کے سچے مؤمن اور کامِل الایمان ہونے اور نفاق سے پاک ہونے کے تصدیق کی ہے۔ اگر ان کو فاروقِ اعظمؓ کے ایمان میں ذرہ برابر بھی شک ہوتا تو اپنی لختِ جگر اُمِ کُلثوم بنتِ سیدہ فاطمہؓ کو آپؓ کے نکاح میں کبھی بھی نہ دیتے۔ کیونکہ اسلام میں کسی مؤمنہ عورت کا نکاح کسی کافر و مشرک یا منافق کے ساتھ کرنا جائز نہیں۔ قرآن پاک میں ہے:
وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِيْنَ حَتّٰى يُؤْمِنُوْا١ؕ (البقرۃ آیۃ 221) اور نکاح نہ کرو مشرکین سے جب تک وہ ایمان نہ لے آویں۔
( اور سیدنا علیؓ قرآنی حکم کے خلاف کوئی کام نہیں کرتے تھے)
⁴-مذکورہ روایات، سیّدنا محمد باقرؒ اور سیدنا جعفر صادقؒ سے مروی ہیں۔ جو کہ صحیح و معتبر اور بے غبار ہیں۔ اس لئے ان میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔
⁵-سیدنا عمرؓ کا نکاح، سیدہ اُمِ کُلثومؓ کے ساتھ ہوا جو کہ سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ کے بطن مبارک سے تھیں۔
⁶- سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کے بطن مبارک سے سیدنا ابوبکرؓ کی اُمِ کُلثوم نام کی کوئی بیٹی پیدا نہیں ہوئی، تو پھر یہ کہنا غلط ہوگا کہ اُمِ کُلثوم زوجہ عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کی بیٹی تھیں جو کہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں حالانکہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ سے کوئی لڑکی پیدا ہی نہیں ہوئی۔
7-اُمِ کُلثوم بنت ابی بکرؓ جو کہ حبیبہ بنت خارجہ سے تھیں، سیدنا عمرؓ نے ان کے ساتھ نکاح کی خواہش کی تھی، لیکن یہ نکاح نہیں ہوا۔ اُمِ کُلثوم بنت ابی بکرؓ کا نکاح طلحہ بن عبداللہ کے ساتھ ہوا، جن سے دو بچے پیدا ہوئے۔
⁸-اُمِ کُلثوم بنتِ علی المرتضیٰؓ دو ہیں:
ایک اُمِ کُلثوم کبریٰ اور دوسری اُمِ کُلثوم صغریٰ۔ اُمِ کُلثوم کبریٰ سیدہ فاطمہؓ کے بطن مبارک سے ہیں۔ ان کا نکاح سیدنا عمر فاروقؓ کے ساتھ ہوا۔ یہ سیدنا حسنؓ کے دور میں ہی وفات پاچکی تھیں اور ان کی نمازِ جنازہ میں سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ اور دیگر صحابہ کرامؓ شریک تھے۔
⁹-اُمِ کُلثوم صغریٰ کی والدہ اُمِ سعید بنت مسعود ثقفی ہیں۔ ان کا نکاح کثیر بن عباس بن عبدالمطلب کے ساتھ ہوا۔ یہی وہ اُمِ کُلثوم صغریٰ ہیں، جن کا ذکر واقعۂ کربلا میں آتا ہے۔اور ان کے اشعار اور خطبے مشہور ہیں۔ بعض ضدی شیعوں کا کہنا ہے کہ سیدنا عمر فاروقؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اُمِ کُلثوم بنتِ علیؓ کو زبردستی نکاح میں لے لیا تھا۔ یہ ایک ایسی بیہودہ بات ہے، جس کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ایسی بات کوئی بےعلم ہی کرسکتا ہے۔ کوئی صاحبِ علم انسان ایسی بات ہرگز نہیں کہہ سکتا۔ سیدنا علیؓ کے متعلق ایسے نازیبا الفاظ استعمال کرنا، آپ کی شجاعت اور غیرت کے منافی ہے۔ کسی بھی کمزور و ضعیف انسان کے ساتھ اگر ایسا واقعہ پیش آئے تو وہ کسی بھی قیمت پر خاموشی اختیار نہیں کرسکتا۔ بلکہ سَر دَھڑ کی بازی لگا کر بھی اپنی بیٹی کی عزت و عصمت پر جان قربان کر دیتا ہے۔ افسوس تو شیعوں کے رہنماؤں پر ہے جنہوں نے ایسی بیہودہ بات لکھ دی ہے۔انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ہماری اس بات کی وجہ سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کی دختر اور پیغمبر ﷺ کی نواسی کی عزت پر کتنا بڑا داغ لگتا ہے۔کیا سیدنا علیؓ شیرِ خدا ہوتے ہوئے اپنی بیٹی اور پیغمبرﷺ کی نواسی کی عزت و ناموس کی حفاظت بھی نہ کرسکے؟ اور یہ سارا منظر خاموشی سے دیکھتے رہے؟ افسوس اور صد افسوس!
دراصل بات یہ ہے کہ اس رشتہ کو تسلیم کرنے سے شیعوں پر پہاڑ گرتا ہے اور ان کا مذہب بالکل ہی ختم ہو جاتا ہے۔ کیونکہ شیعہ اگر یہ رشتہ مان لیں تو یہ ماننے پر بھی مجبور ہونگے کہ سیدنا علیؓ اور سیدنا فاروقِ اعظمؓ دونوں کی آپس میں محبت اور قرابت تھی۔ اس لئے وہ اِس حقیقت کا انکار کرتے ہیں۔
شیعوں کو چاہیئے کہ سیدنا عمر فاروقؓ کو سچا مؤمن اور خلیفہ برحق تسلیم کریں، ورنہ انکار کی صورت میں سیدنا علیؓ کی غیرت، شجاعت،خلافت اور ایمان پر بھی حرف آتا ہے۔