سیّدنا ابوبکر صدیقؓ اور ان کی اہلیہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ اورسیّدنا عمر فاروقؓ اورسیدنا عثمانؓ کا اہلِ بیت کے ساتھ اچھا سُلوک
علامہ مولانا عبد الرحیم بھٹوسیّدنا ابوبکر صدیقؓ اور ان کی اہلیہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ اورسیّدنا عمر فاروقؓ اورسیدنا عثمانؓ کا اہلِ بیت کے ساتھ اچھا سُلوک
نبی اکرم ﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کے نکاح میں خلفائے ثلاثہؓ (یعنی سیدناابوبکرؓ، سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ) کو گواہ بنایا
سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھے ارشاد فرمایا:۔
اے انس! کیا تو جانتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے کیا حکم لائے ہیں؟ تو میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺبہتر جانتے ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أمرني أن أزوج فاطمة من علي فانطلق فادع لي أبا بكر و عمر و عثمان و عليا و طلحة و الزبير و بعددهم من الأنصار ۔
اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ کا نکاح علی کے ساتھ کردوں۔ پس تو جاکر ابوبکر، عمر، عثمان، علی، طلحہٰ، زبیر اور اتنے ہی انصار کو بلا کر لے آ۔
¹-کشف الغمہ جلد1 صفحہ348، ذکر تزویج فاطمہؓ دیکھیں عکس صفحہ 294
²-بحارالانوار جلد43صفحہ 119، تاریخ سیدۃ النسآء فاطمۃالزہرآء
³- الصدیقہ فاطمۃ الزہری صفحہ 38 موسسۃ البلاغ ایران
⁴- (شیعہ مکتبہ شاملہ) كشف الغمة (1/ 354)
سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ نے اس نکاح پر خوشی کا اظہار کیا
جب سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ اور سیدنا سعد بن معاذؓ نے مسجد نبویﷺمیں اس نکاح کی بات سنی تو یہ تینوں حضرات سیدنا علیؓ کو خوشخبری اور مبارکباد دینے کی غرض سے مسجد سے نکلے اور سیدنا علیؓ کو تلاش کرنے لگے۔ سیدنا سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ جب ان کو سیدنا علیؓ گھر پر نہ ملے تو یہ حضرات ان کی تلاش کرتے ہوئے ایک باغ میں پہنچے، جہاں سیدنا علیؓ موجود تھے۔ سیدنا علیؓ نے ان سے آنے کا سبب دریافت کیا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ رسول اللہﷺ آپ سے اپنی بیٹی فاطمہ کا نکاح کرنا چاہتے ہیں اور ان کو یہ حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوا ہے۔ جب سیدنا علیؓ نے یہ بات سنی تو بے حد خوش ہوئے۔ اور سیدنا علیؓ خود سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی حالت خوشی کا بیان ان الفاظ میں فرماتے ہیں:
فَفَرِحَا بِذَالِکَ فَرْحًا شَدِیْدًا وَّ رَجَعَا مَعِیَ اِلَی الْمَسْجِدِ پس (ابوبکرؓو عمرؓ) دونوں اس بات پر بے حد خوش ہوئے اور میرے ساتھ مسجد میں واپس آئے۔
¹-جلاء العیون جلد1 صفحہ 169، زندگانی فاطمۃ الزہرآءؓ مطبوعہ ایران
²-کشف الغمہ جلد1 صفحہ 358 فی تزویج فاطمہؓ
³-بحار الانوار جلد43 صفحہ 129، باب تزویجہا علیہا السلام
⁴-دلائل الامامۃ طبری صفحہ 16، خبر خطبتہا علیہا السلام
سیدنا علیؓ اور سیّدہ فاطمہؓ کی شادی مُبارک میں سیدنا عثمانؓ نے بھرپُور مالی تعاون فرمایا تو رسول اللہﷺ نے ان کے لئے دعا ئے خیر کی اور سیدہ کا جہیز خریدنے کے لئے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو منتخب کیا گیا۔
قارئین کرام! دشمنانِ صحابہؓ کے دلوں میں ضد، عناد، حسد اور بغض کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس لئے ان کو یہ حق اور واضح بات بھی سمجھ میں نہیں آتی اور نہ ہی ان کے دلوں میں حق بات داخل ہوتی ہے اور نہ ہی یہ حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ اس لئے یہ ہر صحیح بات
ٹھکراتے رہتے ہیں۔
حالانکہ شیعہ مؤرخ علی بن عیسیٰ اربیل(المتوفی693ھ) باقر مجلسی (المتوفی1111ھ)صراحتًہ اور صاف الفاظ میں حضرت علیؓ کا یہ قول بیان کرتے ہیں:
قال علي فأقبل رسول الله ص فقال يا أبا الحسن انطلق الآن فبع درعك و ائتني بثمنه حتى أهيئ لك و لابنتي فاطمة ما يصلحكما قال علي فانطلقت و بعته بأربعمائة درهم سود هجرية من عثمان بن عفان رضي الله عنه فلما قبضت الدراهم منه و قبض الدرع مني قال يا أبا الحسن أ لست أولى بالدرع منك و أنت أولى بالدراهم مني فقلت بلى قال فإن الدرع هدية مني إليك فأخذت الدرع و الدراهم و أقبلت إلى رسول الله ص فطرحت الدرع و الدراهم بين يديه و أخبرته بما كان من أمر عثمان فدعا له بخير و قبض رسول الله ص قبضة من الدراهم و دعا بأبي بكر فدفعها إليه و قال يا أبا بكر اشتر بهذه الدراهم لابنتي ما يصلح لها في بيتها و بعث معه سلمان الفارسي و بلالا ليعيناه على حمل ما يشتريه
حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺنے مجھے مخاطب ہوکر فرمایا: اے ابوالحسن! (علی بن ابی طالب) ابھی ابھی جا اپنی زرہ فروخت کرکے اس کی رقم میرے پاس لے آ، تاکہ میں تیرے لئے اور اپنی لختِ جگر فاطمہؓ کے لئے ایسی چیز تیار کروں جو تم دونوں کو مناسب ہوں، حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں نے جاکر زرہ چار سؤ کالے ہجری درہموں میں حضرت عثمانؓ کے ہاتھوں فروخت کی (یہ درہم بہترین قسم کے تھے جو قبیلہ ہجر کی طرف منسوب ہیں) جب میں ان سے درہم لئے اور حضرت عثمانؓ نے مجھ سے زرہ لی تو حضرت عثمانؓ نے فرمایا: (اے ابوالحسن!) کیا میں اس زرہ کا تجھ سے زیادہ حقدار نہیں ہوں اور کیا تو ان درہموں کا مجھ سے زیادہ حقدار نہیں ہے؟ تو میں نے کہا ہاں!تو عثمانؓ نے کہا کہ یہ زرہ میری طرف سے آپ کو ہدیہ ہے۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ میں زرہ اور دراہم لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دونوں چیزیں خدمت اقدس میں پیش کیں اور حضرت عثمانؓ کی بات بھی عرض کی تو رسول اللہ ﷺ نے حضرت عثمانؓ کے لئے دعائے خیر کی۔ رسول اللہﷺ نے ان درہموں سے ایک مُٹھی بھر کر حضرت ابوبکرؓ کو بلاکر دی اور فرمایا کہ (اے ابوبکر!) ان سے میری بیٹی کے لئے ایسا سامان (جہیز) خرید لا جو ا س کے لئے گھر میں مناسب ہو اس کے ساتھ نبی اکرمﷺ نے حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت بلالؓ کو بھیجا تاکہ سامان اٹھانے میں ابوبکرؓ کی مدد کرسکیں۔
¹-کشف الغمّہ جلد1صفحہ 359، فی تزویج فاطمہ علیہا السلام ملاحظہ فرمائیں عکس 295
²-بحار الانوار جلد43 صفحہ 130 تاریخ سیدۃ النسآء فاطمۃ الزہرآء عکس صفحہ220
(شیعہ مکتبہ شاملہ) كشف الغمة (1/ 364)
باقر مجلسی جلاء العیون میں لکھتا ہے، جس کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے:
رسول اللّٰہﷺنے دو مٹھیاں درہموں کی بھر کر ابو بکرؓ کے حوالے کیں اور اس کو بازار جانے کا حکم دیا کہ فاطمۃ الزہریٰ کی شادی کے لئے کپڑے اور دوسرا سامان خرید کر لے آئے۔ حضرت عمار بن یاسرؓ اور صحابہ کی ایک جماعت بھی ابوبکرؓ کے ساتھ روانہ ہوئی۔ جب بازار میں گئے تو ہر ایک جس چیز کو پسند کرتا، وہ چیز ابوبکرؓ کو دکھاتا۔ پھر انہی کے مشورہ سے ہر چیز خرید کی گئی۔
¹-جلاء العیون جلد1 صفحہ 176، زندگانی فاطمۃ الزہریٰ۔ ایران۔
²-امالی شیخ طوسی جلد1 صفحہ 42، مطبوعہ قم ایران۔
سیدہ فاطمہؓ کے لئے ان حضرات نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی مرضی سے مندرجہ ذیل اشیاءخریدیں:
ایک قمیص، ایک اوڑھنی، ایک خیبری سیاہ چادری، ایک بنی ہوئی چارپائی، بستر کے دو گدّے (ایک گدّا کھجور کی چھال سے بھرا ہوا اور دوسرا بھیڑ کی اُون سے) اور اذخر (گھاس) سے بھرا ہوا، ایک اونی کپڑا، ایک چمڑے کا مشکیزہ، دودھ کے لئے ایک لکڑی کا پیالہ، ایک گھڑا اور ایک مٹی کا کوزہ۔ بازار سے جب یہ سامان خریدا گیا تو سیدہ فاطمہؓ کے اس جہیز کے سامان کی کچھ اشیاء سیدنا صدیق اکبرؓ نے اٹھائیں اور باقی اشیاء دوسرے صحابہ کرامؓ نے اٹھائیں، جو سیدنا ابوبکرؓ کے ساتھ تھے۔ جب یہ سامان حضورﷺ کے سامنے رکھا گیا تو آپﷺ نے ایک چیز کو اٹھا کر ملاحظہ فرمایا اور ساتھ یہ دعا فرمائی۔
خدا وندا! مبارک گردان این رابر اہل بیت من
اے اللہ! میرے اہلِ بیت پر ان چیزوں میں برکت عطا فرما۔
¹-جلاء العیون جلد1 صفحہ 176، زندگانی فاطمۃ مطبوعہ ایران۔
زوجہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ نے سیدہ فاطمہؓ کے ایامِ مرض میں خدمت کی اور پھر سیدہ فاطمہؓ کی رحلت کے بعد ان کو غسل بھی دیا
• شیعوں کے بزرگ محدث باقر مجلسی (المتوفی1111ھ) نے لکھا ہے:
در کشف الغمہ وغیرآن روایت کردہ اند کہ چوں وفات فاطمہ نزدیک شدٗ اسمآءبنت عمیس راگفت کہ آبی بیار کہ من وضو بازم، پس وضو ساخت۔
کشف الغمہ اور دیگر کتب میں روایت ہے کہ جب سیدہ فاطمہؓ کی وفات کا وقت قریب ہوا تو سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کو کہا کہ پانی لے آؤ تاکہ میں وضو کروں۔ پھر وضو کیا۔
¹-جلاء العیون جلد1 صفحہ 235، زندگانی فاطمۃ مطبوعہ ایران
²-کشف الغمہ جلد1 صفحہ 500 فی وفاتہا علیہا السلام
³-منتہی الآمال جلد صفحہ 137، دربیان وفات فاطمہ علیہاالسلام
پس حضرت امیر المؤمنین و اسمآء اورا غسل دادند پس حضرت فاطمہؓ کو حضرت علی اور اسماء بنت عمیسؓ (زوجہ ابوبکرؓ) نے غسل دیا۔
¹-جلاء العیون جلد1 صفحہ 235، زندگانی فاطمۃ مطبوعہ ایران عکس 375
²-احتجاج طبرسی حاشیہ جلد1 صفحہ 126، احتجاج امیر المؤمنین دیکھیں عکس صفحہ 126
³-نزل الابرار فی مناقب اہل بیت الاطہار صفحہ 77 مطبوعہ ایران
⁴-بحارالانوار جلد43 صفحہ 190، تاریخ سیدۃ النسآء مطبوعہ بیروت
⁵-کشف الغمہ جلد1صفحہ 500، فی وفاتہا علیہا السلام ایران
سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا علیؓ سے سیدہ فاطمہؓ کی صحت کا حال دریافت کیا
سلیم بن قیس ہلالی (المتوفی90ھ) لکھتا ہے:
وكان علي عليه السلام يصلي في المسجد الصلوات الخمس. فكلما صلى قال له أبو بكر وعمر: (كيف بنت رسول الله)؟
اور حضرت علیؓ پانچوں نمازیں (باجماعت) مسجد میں ادا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ نے پوچھا کہ رسول اللہﷺ کی دختر کی طبیعت کیسی ہے؟
¹-کتاب سلیم بن قیس صفحہ 253 مطبوعہ قم ایران
²- بحار الانوار جلد3 صفحہ 199، مطبوعہ بیروت لبنان۔
(شیعہ مکتبہ شاملہ: سليم بن قيس الهلالي (22/ 16)
سیدنا حسنؓ و حسینؓ بیمار ہوئے تو رسُول اللہﷺ کے ساتھ سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ نے ان کی عیادت کی
و عن ابن عباس رضي الله عنه قال مرض الحسن و الحسين فعادهما جدهما رسول الله صلی الله عليه وسلم و معه أبو بكر و عمر رضي الله عنهما۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حسنؓ اور حسینؓ دونوں بیمار ہوئے تو ان کے نانا رسول اللہﷺ کے ساتھ ابوبکر و عمرؓ نے بھی ان کی عیادت کی۔
کشف الغمہ جلد1 صفحہ 302، مانزل فیہ علیہ السلام من القرآن
(شیعہ مکتبہ شاملہ: كشف الغمة (2/ 78)
سیدنا ابوبکرؓ نے سیدنا حسنؓ کو کندھے پر اٹھایا تو سیدنا علیؓ مسکرا دیئے
صلىٰ أبو بكر رضي الله عنه صلوة العصر ثم خرج يمشي و معه علي علیه السلام ع فرأى الحسن يلعب بين الصبيان فحمله أبو بكر على عاتقه و قال بأبي شبيه بالنبي ليس شبيها بعلي و علي ع يضحك
حضرت ابوبکرؓ عصر کی نماز ادا کرکے (مسجد سے) باہر نکلے۔ ان کے ساتھ حضرت علیؓ بھی تھے۔ جب حضرت حسنؓ کو دیکھا جو بچوں میں کھیل رہے ہیں تو حضرت ابوبکرؓ نے حضرت حسنؓ کو کندھے پر اٹھاکر فرمایا کہ میرے والدین آپ پر قربان! یہ نبی اکرمﷺ کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں علیؓ سے مشابہت نہیں رکھتے۔ اس وقت حضرت علیؓ کھڑے ہنس رہے تھے۔
کشف الغمہ جلد1 صفحہ 550، فی فضائل مطبوعہ نجف عراق
(شیعہ مکتبہ شاملہ: كشف الغمة (2/ 21)
خلاصۂ کلام
اس باب سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں:
¹-رسول اللہ ﷺ نے اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کے نکاح کے موقعہ پر خلفاء ثلاثہؓ کو گواہ بناکر ان کے ایمان اور اسلام اور فضیلت کو ظاہر فرمایا کیونکہ نکاح میں گواہ صرف مسلمان ہی ہوسکتا ہے جو کہ معزز بھی ہو۔ غیر مسلم یا منافق نہیں ہوسکتا۔
²- اس نکاح سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ بشمول سیدنا علیؓ بہت خوش ہوئے۔
³-سیدنا علیؓ کے ساتھ شادی میں، سیدنا عثمانؓ نے بھرپور مالی تعاون کیا، جس سے سیدہ فاطمہؓ کے جہیز وغیرہ کا انتظام کیا گیا۔
⁴-سیدنا عثمانؓ کے اس مالی تعاون سے نبی اکرم ﷺ بہت خوش ہوئے اور سیدنا عثمانؓ کے لئے دعائے خیر فرمائی۔
⁵-سیدہ فاطمہؓ کے لئے جہیز کا سامان خریدنے کے لئے رسول اللہﷺ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب فرمایا۔ جو ان پر اعتماد کی دلیل ہے۔
⁶-سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ نے سیدنا علیؓ سے سیدہ فاطمہؓ کی صحت کا حال دریافت کیا۔
⁷-حسنین کریمینؓ کی عیادت کے لئے سیدنا ابوبکرؓ اورسیدنا عمرؓ ان کے ہاں تشریف لے گئے۔
⁸-سیدنا ابوبکرؓ نے سیدناحسنؓ کو کندھوں پر اٹھایا توسیدنا علیؓ ہنس رہے تھے۔ یہ خوشی کی علامت ہے۔
⁹-سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ زوجہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے، سیدہ فاطمہؓ کو آخری غسل دیا۔
ناظرین کرام! آپ دیکھیں کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ و سیدنا عمرؓ اورسیدنا عثمانؓ کے خاندانِ نبوّت کے ساتھ کیسے خوشگوار اور بہترین برادرانہ تعلقات تھے اور یہ حضرات کس طرح ایک دوسرے کے دکھ درد اور خوشی میں باہم شریک تھے۔ ان میں تو ایک دوسرے کے لئے نہایت ہی نیک حذبات تھے جیسا کہ مندرجہ بالا روایات سے ظاہر ہوتا ہے۔ ان روایات سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی آپس میں کسی قسم کی ناراضگی نہیں تھی۔ کیونکہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی زوجۂ محترمہ نے سیدہ فاطمہؓ کی احسن طریقے سے تیمارداری کی اور آخری غسل دینے کی سعادت بھی حاصل کی اور سیدنا ابوبکرؓ بھی سیدنا علیؓ سے سیّدہ فاطمہؓ کی صحت کا حال وقتاً فوقتاً پوچھتے رہتے تھے۔ یہ ایسی باتیں ہیں، جن سے ان حضرات کی باہمی محبت اور حسن سلوک ثابت ہوتا ہے نہ کہ عداوت و ناراضگی۔
محترم قارئین! آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ سیدہ فاطمہؓ سیدنا علیؓ کے حبالۂ نکاح میں2ھ اور نبوت کے پندھرویں برس میں آئیں۔ اس مبارک نکاح میں خلفاء ثلاثہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ،سیدنا عمر فاروقؓ اور سیدنا عثمان غنیؓ نے بہترین اور ایسا مثالی کردار ادا کیا ہے جو کہ تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف میں مرقوم ہے۔ جسے دیکھ کر دشمنانِ صحابہ کرامؓ کو ایسی تکلیف ہوتی ہے کہ وہ چیخ اٹھتے ہیں اور روتے ہیں۔ ہم دشمنانِ صحابہؓ سے پوچھتے ہیں کہ اگر خلفاء ثلاثہؓ ایماندار نہ تھے بلکہ منافق تھے (نعوذباللہ!) تو پھر رسول اللہﷺ نے خاتونِ جنت کے اس عظیم نکاح میں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق منعقد ہوا۔سیدنا ابوبکر صدیقؓ و سیدنا عمرؓ وغیرہ کو گواہ کیوں بنایا؟ اور سیدنا علیؓ نے سیدنا عثمانؓ کا مالی تعاون کیوں قبول فرمایا؟ اور پھر اس مال سے خاتونِ جنت کا جہیز کیوں خریدا؟ اور رسول اللہﷺ نے سامان خریدنے کے لئے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا انتخاب کیوں فرمایا؟ اور اس کے علاوہ سیدنا عثمانؓ کے لئے دعائے خیر کیوں فرمائی؟ دشمنانِ صحابہ کرامؓ ان سوالات کا کیا جواب دیں گے؟
محترم دوستو! ان روایات سے بلکل روزِ روشن کی طرح ظاہر ہے کہ سیدنا عثمانؓ خاندانِ نبوّت کے کس قدر ہمدرد اور خیر خواہ تھے اور سیدنا علیؓ کے ساتھ ان کو کس قدر محبت ہے کہ اپنا مال اپنے دوست کی شادی میں خرچ کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں اور پھر نبی اکرمﷺ کو یہ کام اتنا پسند آیا کہ سیدنا عثمانؓ کے لئے دعائے خیر فرمائی۔
بالفرض اگر سیدنا عثمانؓ مؤمن نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ اپنے محبوب رسول اللہﷺ کو کبھی بھی ان کے حق میں دعائے خیر کرنے نہ دیتے۔ کیونکہ منافق کے لئے دعائے خیر کرنے کی ممانعت نصِ قرآن میں موجود ہے۔ یاد رکھیں! صحابہؓ اور اہل بیتؓ کے باہمی محبت اور پیار کے رشتوں کی وجہ سے منافق قوم قیامت تک جلتی رہے گی اور روتی پیٹی رہے گی۔
؏ بغض جس سینہ میں ہو صدیقؓ و فاروقؓ کا
ہے یہی بہتر کہ وہ سینہ سدا پٹتا رہے۔